کہانی کی کہانی:’’یہ کہانی استاد شمو خاں کی ہے۔ کسی زمانے میں وہ پہلوان ہوا کرتا تھا۔ پہلوانی سے اس نے کافی شہرت پائی اور اب زندگی کے باقی دن کبوتر بازی کا شوق پورا کرکے گزار رہا ہے۔ پاس ہی رہنے والے شیخ جی بھی کبوتر بازی کا شوق رکھتے تھے۔ کبوتر بازی کے مشترکہ شوق میں دونوں کے درمیان کس کس طرح کے داوں پینچ ہوتے ہیں، جاننے کے لیے یہ کہانی پڑھیں۔‘‘
(۱)
استاد شمو خاں پہلوان کی اب تو خوب چین سے گزرتی تھی۔ کئی ایک اکھاڑے مار لینے سے مان ہوگیا تھا۔ کام بھی خوب چل رہا تھا۔ گھر میں بیوی سلمہ بتیت ہیں اور صرف دو بچے تھے۔ ورق کوٹنے سے یافت کافی ہوجاتی تھی۔ یار دوست تھے، فکر پاس نہ پھٹکتا تھا۔ اور اس کے علاوہ بدھو، درگی چماری کی لڑکی، عیش کرنےکو اللہ میاں نے پھوکٹ میں دے رکھی تھی۔ وہ کم عمر اور خوبصورت تھی۔ اس کا سڈول اور بھرا ہوا جسم، اس کاگندمی رنگ جس میں ایک ہیرے کی سی دمک تھی، اس کی بڑی بڑی مست آنکھیں، غرض کہ اس کی ہر چیز موزوں اور لاجواب تھی۔ انسان اس سے زیادہ کیا چاہ سکتا ہے؟ تمول اور اوپر سے یہ مفت کا عیش۔ شموخاں روزایک ہزار ڈنڈ بیٹھک نکالتے اور خوب گھی پی پی کر دنبے کی طرح موٹے اور چکنے ہوگیے۔
لیکن ان کو ایک فکر برابر ستایا کرتا تھا۔ ان کے گھر کے سامنے ہی شیخ نورالہی کرخندار رہتے تھے۔ ان کو استاد شموخاں کی طرح کبوتروں کی بڑے دھت تھی، اور استاد سےان کی صید بندھی ہوئی تھی۔ شیخ نورالہی شمو خاں کو بڑھتا دیکھ کر دل ہی دل میں بہت جلتے تھے۔ اور یہ جلن اس لیے اور بھی بڑھ گئی کہ استاد شمو خاں نے نہایت عمدہ اور تگڑے پٹھے تیار کرنے شروع کردیے۔ جو حالانکہ محض نفتے پلکے ہی ہوتے تھے۔ لیکن بازی میں ہمیشہ شیخ جی کی شیرازی اور چپ کبوتروں کے جھلڑ کو نیچا ہی دکھاتے۔ اور ہر لڑائی میں شیخ جی کے ایک آدھ پٹھے کوضرور کھیر چپیک لاتے۔ پہلے تو چونکہ شروع شروع کامعاملہ تھا۔ شمو خاں نے ایک آدھ بار شیخ جی کے کبوتر واپس کردیے۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو حد سے ہی گزرا جارہا ہے تو دینے سے صاف انکار کردیا اور کہا کہ وہ اب چوک پر بکیں گے۔ یہ سن کر شیخ جی اور بھی آگ بگولہ ہوئے۔ جب تک یہ معاملہ آپس ہی میں تھا تو اتنی برائی کی بات نہ تھی۔ لیکن کبوتروں کا چوک پر جانا نہ صرف شیخ جی کی شان کے خلاف تھا بلکہ اس سے ان کے نام پر بٹہ آتا۔ انہوں نے شمو خاں کو روپیہ روپیہ دو دو روپیہ اپنے کبوتروں کے دینے کو کہا۔ لیکن شمو خاں بولے،
’’میاں مجاز تو درست ہیں؟ ہوش کی آو۔ اب تو قبوتر چوک سے ورے نہیں ملتے۔ لمبے بنو۔۔۔‘‘
کبوتروں کی مار کھا کھا کے شیخ جی کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ کیا کریں، حالانکہ وہ قیمتی سے قیمتی اور اعلیٰ سے اعلیٰ پٹھے خرید کرلاتے۔ لیکن ان کو بھڑی دی نہیں کہ شموخاں نے جو اس تاک میں رہتے تھے، اپنے کبوتروں کو ششکارا۔ جو شکرے کی طرح بھاگ کر عین شیخ جی کے بیٹھتے بیٹھتے کبوتروں کے سروں پر اس زور سے جھپکی لیتے کہ ان کے ساڑھ جھلڑ کو پلٹیاں کھاتے ہوئے دور لے جاتے۔ شیخ جی بے چارے بہت باو باو کرتے لیکن شمو خاں کے کبوتر ان کو کہاں نکلنے دیتے تھے۔ جب شیخ جی کے کبوتر بالکل شل ہوجاتے تو شموخاں اپنے کبوتروں کو آواز دیتے۔ ادھر شیخ جی کا کلیجہ آؤ آؤ کر کے پھٹا جاتا، بے چارے اس قدر بد حواس ہو ہو کر چیختے کہ ہاتھ ہلا ہلا کر کر زمین سے گزوں اچھل اچھل جاتے۔ اور بجائے پانی کے مٹھیاں بھر بھر کر باجرہ ہوا میں اچھال دیتے۔ لیکن شیخ جی کے ایک آدھ شموخاں کے ہاں گرجاتا۔ شیخ جی اپنے کبوتروں کوچھوڑ کراچک اچک کر منڈیر پر سے دیکھتے کہ ان کا کیا حشر ہوا لیکن شموخاں کو چھپکا مارنے کی بھی نوبت نہ آتی اور شیخ جی کی ساری ٹکڑی پکڑی جاتی۔ اور پھر بے چارے شیخ جی اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتے۔ شموخاں نے تو ان کے کبوتروں کا چھت پر سے اٹھنا ہی دوبھر کردیا تھا۔
جب شیخ جی نے دیکھا کہ ان کی کسی طرح نہیں چلتی اور شموخاں سے اس بری طرح مار کھائی ہے تو وہ شمو خاں کو کسی نہ کسی طرح نیچا دکھانے کی فکر میں رہنےلگے۔ اکثر میر سعداللہ سے، جو پنشن لینے کے بعد دلی ہی میں واپس آکر رہنےلگے تھے اور میر محلہ کی حیثیت اختیار کرلی تھی، جاجاکر شکایتیں کیں، لیکن میر صاحب سمجھدار اور سنجیدہ آدمی تھے وہ اس معاملہ میں نہ پڑے۔
(۲)
ایک روز ایسا اتفاق ہوا کہ جھٹ پٹے کے وقت شیخ جی چاوڑی بازار میں چلے جارہے تھے کہ پیچھے سے کسی نے آواز دی، ’’اے میاں شیخ جی، اے میاں شیخ جی، اجی ذرا ٹھیرو تو ہم بھی آرہے ہیں۔‘‘ شیخ جی نے پلٹ کر دیکھا۔ ان کے دوست فاضل خاں تیز تیز قدم رکھتے ہوئے ان کی طرف آرہے تھے۔
’’واہ میں باشا تم تو اللہ یانے سر پر پیر رکھے جارہے تھے۔‘‘
’’ہاں میں تو مزےمیں ہوں۔ تم سناوَی کیسے حریان نظر آرہے ہو۔‘‘
’’میاں کیا پوچھتے ہو۔ ذری دیر ہوئی۔ ایک نیا خال پٹھا کھولا تھا کہ وس حرام زادے شموخاں نے مار لیا۔ وسکی تلاش میں جارہاہوں۔‘‘
’’لو، اس پہ یاد آیا۔ میاں کچھ اور بھی تمہارے گوش گزارش ہوا؟ شموخاں کی دس بدھو سے آشنائی ہے۔ شاید تم نے بھی وس لمڈیا کو دیکھاہوگا۔ وہ چماری والی۔ میاں باشالمڈیا تو خوب زوروں پر آئی وی ہے۔ انار نارنگیاں۔۔۔‘‘
’’کیا میاں سچ مچ کے ریے ہو؟‘‘
’’اور نہیں تو کیا۔ میں نے خودون دونوں کو مخولیت کرتے دیکھاہے۔‘‘
’’ملاویار قورمے کا ہاتھ! یہ تو اللہ نے خوب سنائی۔‘‘
فاضل خاں اس اچانک تپاک سے ذرابد کے لیکن شیخ جی کا ہاتھ بڑھا ہوا دیکھ کر اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ دے دیا۔ اور قہقہہ مارنے لگے۔
’’ارے یار باشا بات کیا ہے؟ میں تو اللہ یانے گھبراگیا۔‘‘
شیخ جی کے مرجھائے ہوئے چہرے پر رونق آگئی تھی۔ انھوں نے ادھر ادھر چاروں طرف نظر دوڑائی اور ایک کوٹھے کی طرف آنکھ مارتے ہوئے خوشی سے کچھ مسکراتے ہوئے کہا، ’’ارے یار میں نے کہا چاوڑی تو آج بڑی رونق پر ہے۔‘‘
’’لیکن یار تم نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ یہ اچانک ماجرا کیا ہوگیا۔‘‘
’’ارے یارو کچھ نہیں۔ تم نہیں جانتے ہو۔ میری وس حرام زادے شموخاں سے چلی وی ہے۔ جب قبوتر کھولے نہیں کہ وس نے۔۔۔‘‘
اتنے میں پیچھے سے ایک ٹریم آگئی اور سامنے سے کچھ تانگے اور اوپر سےایک موٹر، فاضل خاں اور شیخ جی باتوں میں اس قدر محو تھے کہ قریب تھا کہ کچل جاتے۔ جب موٹر کی آواز زور سے ان کے بالکل سامنے سےآئی تو کود کر شیخ جی ایک پڑی پر بھاگے، اور فاضل خاں دوسری پڑی پر اور ان کی بات ادھوری ہی رہ گئی۔
چوک پر پہنچ کر شیخ جی ادھر ادھر پنجروں پہ نظر ڈالتے ہوئے بھیڑ بھڑکا میں کھوگیے۔ استاد شموخاں کے پاس سے گزرتے وقت انھوں نے نگاہ ان کے پنجرے پر اپنے کبوتروں کو بھانپنے کے لیے ڈالی اور دوسری نگاہ میں غیض و غضب سے خود استاد کے چہرے کو حقارت اور غصہ سے دیکھا پھر اپنے دوست فاضل خاں کے الفاظ یاد کرکے مسکرادیے۔ اتنے میں برابر سے حکیم نظیر آنکلے۔
’’ارے میاں شیخ جی، آج تو تمہارے بہت سے کبوتر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کیا بات ہے؟ سب کے سب ہی گر گیے؟‘‘
’’حکیم صاحب کی پوچھتے ہیں آپ۔ ذری دیر ہوئی کہ نئے پٹھے کھولے تھے۔ ایک آدھ ہی بھڑی دی ہوگی کہ وس۔۔۔ شمو خاں۔۔۔‘‘
’’اوہو شیخ جی بڑا افسوس ہوا۔ آج تو استاد شموخاں نے آپ کادھڑ بٹھادیا۔ میاں ذرا ہلدی کا گھسادے کر چکنا وتو دو، پھر دیکھیں گے۔ کیسے گرتے ہیں۔‘‘
برابر سے آکر بابو اکرام الدین نے شیخ جی کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور اظہار افسوس کرنے لگے۔ شیخ جی ان باتوں سے زمین میں گڑے جاتے تھے۔ غصہ سے سرخ ہوگئے، ’’اجی حکیم صاحب میں نے کیا یہ کس طریوں کی کبوتر بازی ہے؟ کوئی وخت بھی تو ایسا نہیں ہوتا کہ نئے پٹھوں کو بھی چکر دے سکیں۔ اجی یہ بھی کوئی بات چیت ہے، وس حرام زادے۔۔۔‘‘
’’ارے میاں شیخ جی ذری اس خالی پٹھے کا ملیائزا کرنا کیا پھڑکتا ہوا جناور ہے۔‘‘
بھیڑ میں سے دھکاپیل کرتے ہوئے صدیق بہشتی نے آکر کبوتر والا ہاتھ شیخ جی کی طرف بڑھایا۔ اور ذرا گردن ٹیڑھی کرکے شیخ جی کی آنکھوں کو دیکھنے لگا، جو کبوتر میں گڑی ہوئی تھیں۔ شیخ جی نے کبوتر کی گردن مروڑی، سینہ پکڑ کے اس کو پھڑپھڑایا، پرکھولے، ٹانگیں دیکھیں، چونچ کامعائنہ کیا۔ اور حکیم صاحب کی طرف بڑھا دیا۔ انھوں نے بھی بے چارے کی اسی طرح درگت بنائی۔ پھر کبوتر بابو اکرام الدین کے ہاتھوں میں پہنچا۔ غرض کہ بڑی دیکھ بھال کے بعد کبوتر پھر شیخ جی کے پاس واپس آیا۔
’’بھئی پٹھا تو خوب ہے۔‘‘
’’ارے پارکس کا مارا؟‘‘ شیخ جی نے بڑے استعجاب سے پوچھا۔
’’اجی کیا پونچھوں ہو آپ۔‘‘ اور پھر شیخ جی کے منہ سے منہ لگاکر کہا، ’’استاد شموخاں کا۔‘‘
’’اہا۔ اجی بابو جی آج تو بڑے موذی کا پالامارلیا! اچھا یارکن داموں کا ہے؟‘‘
صدیق بہشتی بولا، ’’اجی شیخ جی کدھر ی آپ سے بھی کوئی نریالی بات ہوسکتی ہے۔ جو خوشی ہو لیکن ابھی ابھی کلن ایک دھیلی دے ریا تھا۔‘‘
’’اچھا یار اب تو ملاجی کے پنجرے میں چھوڑدے۔ دام پھر دیکھے جائیں گے۔‘‘
صدیق بہشتی بہت خوش خوش ملاجی کے پنجرے کی طرف چل دیا۔ ادھر سے اس کا دوست کلن آنکلا، اور بولا، ’’ارے یار باشا سودا تو خوب پٹایا۔‘‘ اور اس نے صدیقی کے کندھے پر ایک تھپڑ امارا۔
’’ارے یارو کیا پونچھ ریے ہو۔ شیخ جی کی آنکھوں میں دھول ڈال دی۔ پٹھاون ہی کا تھا۔ استاد شموخاں کی ٹکڑی میں سے کٹ کر بھٹک رہا تھا۔ میں نے جو اپنے قبوتروں کو پھڑکایا تو سالہ گولے کی طرح یوں گرپڑا۔ اور اللہ یانے شموخاں کا کہہ کہ ون ہی کے متھے دے پٹخا۔‘‘ یہ کہہ کر صدیق نے زور سے کلن کی پیٹھ پر ہاتھ مارا کہ وہ اچھل گیا۔ ’’واباشا خوب چونا لگایا۔‘‘ اور دونوں بڑے زور سے ہنستے ہوئے آگے بڑھ گیے۔
(۳)
محلہ میں پہنچ کر شیخ جی بجائے سیدھے گھر جانے کے شیخ محمد صادق کے ہاں پہنچے۔ اور چھوٹتے ہی ان کو اپنی وہ گفتگو سنائی جو فاضل خاں سے استاد شموخاں کے بارے میں ہوئی تھی۔ پھر کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرکے اپنے گھر واپس آگیے۔ کچھ ہی روز کے عرصہ میں استاد شموخاں اور بدھو کے بارے میں چہ می گوئیاں ہونے لگیں لیکن لوگوں نے اس بات کی کوئی خاص پروا نہیں کی۔ استاد بہت ہردلعزیز تھے، اور لوگ جو شموخاں کے سے موقعہ کی تلاش میں رہتے تھے، یہ سب باتیں سن خاموش ہو رہے۔
مگر شیخ نورالدین الہی اسی تاک میں تھے کہ موقع پاکر استاد شمو خاں کو نیچا دکھائیں، اور بھرے بازار میں ذلیل کریں۔ اس تگ و دو میں وہ اپنی صید کو بھی بھول گیے۔ اس خوشی اور امید میں کہ ایک نہ ایک روز وہ استاد شموخاں سے بدلہ لے ہی لیں گے وہ ذرا اور اکڑ کر چلنے لگے۔ وہ اس خیال کو بھی نہیں بھولے تھے کہ میرسعد اللہ سے اس بات کا تذکرہ کردینا ضروری ہے۔ ایک روز اس بات کاموقعہ بھی ہاتھ آگیا چنانچہ رات کے کوئی نو بجے شیخ جی حیران و پریشان میر صاحب کی بیٹھک میں پہنچے۔
’’السلام علیکم۔‘‘
’’وعلیکم السلام شیخ جی۔ بہت دنوں سے تشریف لائے۔ مزاج تو اچھے ہیں۔‘‘
’’آپ کی مہربانی ہے۔ ذری کاروبار سے فرصت نہیں ہوئی۔‘‘
کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنےکے بعد بولے، ’’اجی میر صاحب وس شموخاں نے تو حریان کر رکھا ہے۔ آج شام کو میں ذری یادگار توڑی چلا گیا تھا کہ میرا ایک بھٹکاوا قبوتر آن نکلا۔ گھر میں سے نیک بخت نے قبوتر کھول دیے کہ وتے میں صاحب وس شموخاں نے ایک پتھر میرے گھر میں پھینکا۔ اجی صاحب وہ تو بس بخیریت ہی ہوگئی نہیں تو وس قتل سے وس نیک بخت کا مغز ہی کھل گیا ہوتا۔ وہ بیچاری بک بول کر چپ کرگئی اور اس پر اور سنیے۔ اب تو ہماری بہو بیٹیوں کی آبرو کا بھی کچھ ٹھکانہ نہیں۔ آپ کے بھی شاید گوش گذار ہوا ہو کہ وس شموخاں کی وس بدھو درگی چماری کی لڑکی سےآشنائی ہے۔ اب کہیے؟‘‘
لیکن میر صاحب بولے، ’’شیخ صاحب اپنے فعل اپنےساتھ ہیں۔ آپ کیوں کسی کو کانٹوں میں گھسیٹتے ہیں؟ جو جیسا کرے گا ویسا بھرے گا۔ آپ شموخاں سے واسطہ ہی نہ رکھیے۔‘‘ شیخ جی بولے، ’’اجی صاحب یہ تو جو کچھ بھی آپ عرض کرتے ہیں ٹھیک عرض کرتے ہیں۔ لیکن میں تو یہ فرماتا ہوں کہ وتی دور کیوں جائیے۔ یہیں سے لے لو۔ جیسے وہ مثل مشہور ہے جو آپ نے بھی سنی ہوگی۔ کہ ایک مچھلی سارے تلاو کو گندا کردیتی ہے۔ تو بس یہ ہی بات چیت ہے۔ اور وس حرام زادی لمڈیا کے ماں باپ بھی کچھ نہیں بولتے صاحب تو وہ سارے لمڈوں کو خراب کرویگی۔ وسکی تو چٹیا پکڑکر بارہ پتھر باہر پھنکوانا چاہیے۔‘‘
اس گفتگو کے بعد شیخ جی کچھ میر صاحب سے برگشتہ خاطر ہوگیے۔ اور خود ہی استاد شموخاں کی تذلیل کے موقعہ کی تلاش میں رہے۔
(۴)
اپریل کا مہینہ تھا۔ اور گرمی روزبروز زور پکڑی جاتی تھی۔ گرمیوں کی دوپہر میں ایک عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ ایک مستی اور نفسانیت، ایک گہرا نفسانی جذبہ انسان کے سارے جسم میں سرایت کرآتا ہے۔
استاد شموخاں اپنی دوکان میں بیٹھے ہوئےجوان کے گھر ہی کا ایک کمرہ تھا، ورق کوٹ رہے تھے۔ گلی کے نکڑ سے ایک ٹین والے کےٹین پیٹنے کی آوازمتواتر اور یکساں چلی آرہی تھی۔ دور سڑک پر ٹریم کی ہموار اور کوفت دہ گھڑگھڑاہٹ بار بار ہوتی تھی۔ کچھ اور شور و شغب اور سودے والوں کی مسلسل آوازیں ایک یاس اور ناامیدی کا ساسماں پیدا کر رہی تھیں، ایک ایسی مسلسل ہمواری کا جو گرمیوں کے دنوں کی ایک خاص چیز ہوتی ہے جس کا منجمد سلسلہ صرف انسان کے نفسانی خیالات کو اور بڑھا دیتا ہے۔
ایسے حامل وقت میں جب کہ ذرا سے اشارہ سے انسان کے خیالات آگ کی طرح بھڑک اٹھتے ہیں۔ بدھو کی جھلکتی استاد شموخاں کے لیے وبا کا کام کرگئی۔ لپک کر استاد شموخاں نے آدھے بند کواڑوں کو کھولا اور گردن باہر نکال کر جھانکنے لگے۔ جب انھوں نے ادھر ادھر نگاہ دوڑاکے دیکھ لیا کہ کوئی نہیں ہے۔ تو اشارہ سے بدھو کو بلایا، چٹ بڑھ کر اپنے بیٹھنے کے گدے کے نیچے سے ایک اٹھنی نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھی۔ اور اسے سامنے والے گودام کی طرف اشارہ کیا جو خالی پڑا ہوا تھا۔ اور جس میں استاد شموخاں صبح کو کسرت کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنا گھر کا سلاہوا بنیان پہنا، اور اپنی تہبند کو سنبھالتے ہوئے دوکان میں سے نکلے اور کواڑ بند کرنے لگے۔
اتفاق کو انسان کی زندگی میں بڑا دخل ہےاور اکثر اس کی تمام کوششوں اور تدبیروں پر پانی پھیر دیتا ہے۔ اتفاق میں بڑے کمال کی بات یہ ہے کہ وہ ہر کسی شکل میں آموجود ہوتاہے، اور اس دوپہر کو جب بدھو سڑک کو پار کر رہی تھی، اور استاد شموخاں ایک ہاتھ اپنے تہبند پر رکھے ہوئے اپنی دوکان کے کواڑ بھیڑ رہے تھے تو شیخ نورالدین الٰہی اتفاق کی صورت اختیار کیے گلی کے نکڑ پر نمودار ہوئے۔ جیسے ہی انھوں نے اپنی نگاہ کے سامنے استاد شموخاں اور بدھو دونوں کو دیکھا تو وہ ٹھٹکے اور ایک مکان کی آڑ میں ہوکر یہ دیکھنے لگےکہ اب یہ دونوں کیا کرتے ہیں۔
جب انھوں نے دیکھ لیا کہ پہلے بدھو اور اس کے پیچھے پیچھے استاد شموخاں خالی گودام میں داخل ہوئے تو بغیر کچھ اور دیکھے بھالے شیخ جی پنجوں کے بل بھاگتے ہوئے ایک اور گلی میں غائب ہوگئے۔ انھوں نے اپنے دوست شیخ محمد صادق کے کارخانہ میں دم لیا۔ جہاں اتفاق سے مرغوں کا کارخانہ گرمی پہ تھا۔ شیخ نورالٰہی کی سنسنی خیز خبر سن کے سب۔۔۔ شیخ جی کی رہبری میں مقام کا رزار کی طرف بولائے ہوئے روانہ ہوگیے۔ جلدی میں ایک صاحب کی بغل میں ایک اصیل مرغا دبا چلاآیا۔ وہ تھوڑی دور چلے تھے کہ مرغے نے زور سے ایک قیں کی۔ بس بے چارے مرغ کی آواز نکلنے ہی کی دیر تھی کہ شیخ جی فوراً پلٹ پڑے اور بہت نیلے پیلے ہوکر بولے،
’’میاں تمہاری عقل بھی درست ہے۔ ابھی سارا کھیل بگڑ گیا ہوتا آیا کہیں کا مرغ باز۔‘‘
’’ابے کیا کہا؟ آتوذری میدان میں!‘‘
اور یہ کہہ کر شیخ جی نے آستینیں چڑھانی شروع کردی۔۔۔ وہ تو خیرگزری کہ شیخ محمد صادق ان کے ساتھ تھے۔ انھوں نے دونوں کو ذرا ٹھنڈا کیا اور بیچ بچاؤ کرایا، نہیں تو سرپھٹول ہی کی نوبت آتی۔ اس کے بعد ساری ٹولی پنجوں کے بل خالی گودام کی طرف اس طرح بڑھی جیسے کوئی شکاری بڑی احتیاط سے اپنے شکار کی طرف بڑھتا ہے۔ وہ اتنے چپکے چپکے چل رہے تھے کہ ان کے دلوں کے دھڑکنے کی آواز دھائیں دھائیں سنائی دیتی تھی۔
گودام کے نزدیک پہنچ کر سب نے کواڑوں پر کان لگاکے سننے کی کوشش کی۔ لیکن شیخ جی نے سب کو اپنے ہاتھوں سے پیچھے ہٹایا اور آنکھیں نکال کر انگلی کےاشارےسے سب کو چپ کرانے لگے۔ ادھر لوگ سننے کے اس قدر مشتاق تھے کہ سب کے سب کواڑوں کی طرف بڑھے آتے تھے۔ بڑی مشکل سے شیخ جی نے ان سب کو ایک کونے میں چپکاکر کے کھڑا کردیا۔ لیکن ان کی بیتاب نگاہیں کواڑوں پر گڑی ہوئی تھیں۔ اب شیخ جی کان لگاکر سننے لگے۔ گلی کے نکڑ سے ٹین پٹنے کی آواز آرہی تھی۔ دور سڑک پر ٹریم کی گھڑ گھڑ اور سودے والوں کی آوازیں چلی آرہی تھیں، اندر ایک سرسر کی سی آواز کے علاوہ کچھ نہ سنائی دیتا تھا۔
جب شیخ جی کو کوئی بات بھی صاف نہ سنائی دی تو اس قدر بیتاب ہوئے کہ انھوں نے گودام کے کواڑوں کو دھکادے دیا۔ جو اتفاق سے استاد شموخاں اندر سے بند کرنا بھول گیے تھے۔ کواڑ چوپٹ کھل گیے اور سب کے سب ایک دم سے آگے بڑھے۔۔۔ سامنے استاد شموخاں سینہ نکالے کھڑے تھے۔ شیخ نورالدین الٰہی کا مسخ چہرہ خوشی سے سخت ہوگیا۔
’’کیا سالہ ایڈی پولو بنا کھڑاوا ہے!‘‘
’’لیکن وہ کہاں ہے، ڈھنڈو؟‘‘
اور سب نے مایوسی اور غصہ سے شیخ جی کی طرف پلٹ کر دیکھا ایک آدھ نے گودام کے کونوں پر نظر ڈالی۔ لیکن بدھو کانام نشان بھی نہ تھا۔ شیخ جی شرم اور غصہ سے جل کر کباب ہوگیے۔
’’حرام زادہ کسی طریوں بچ بھاگا۔ لیکن اگر توڑ نہ کیا ہو تو شیخ فضل الٰہی کانہیں الو کا کہنا۔‘‘
استاد شمو خان کے منہ سے ایک قہقہہ کی آواز بلند ہوئی۔ شیخ نورالہٰی کے پژمردہ چہرے سے ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ لیکن زندگی اپنی پرانی رفتار سے اسی طرح بہتی رہی۔ وہی گلی کے نکڑ سے ٹین والے کے ٹین پیٹنے کی آواز آرہی تھی، وہی دور سڑک پر ٹریم کی گھڑ گھڑاور وہی سودے والوں کی آوازیں ایک یاس اور ناامیدی کا سماں پیدا کر رہی تھیں۔
مأخذ : شعلے
مصنف:احمد علی