پوسٹل کالونی میں کر یم کا ڈھابہ لٹ خانہ کہلاتا تھا۔ دنیا جہاں کے بے کار، ملازمت کے متلاشی درختوں کی چھاؤں میں پاؤں پسارے اونگھنے والے غرضیکہ سب ہی چلے آتے۔ لاٹھی ٹیکتے پینشنر بھی جوانی کی یادیں تازہ کرنے مہینے میں ایک بار ضرور زیارت کے لیے آتے۔ یہاں کڑک چائے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہنستے کھیلتے اور چند گھنٹوں کے لیے دوبارہ جوان ہو جایا کرتے۔ پینشن کی رقم لے کر بےرنگ کانپتی ٹانگوں والی میز کرسیاں اور کھری چارپائیوں پہ چائے پینے کا عجب سرور تھا۔ کچھ لوگ لڈڈو سے جی بہلاتے تو بعض ایک تاش پھینٹنے لگتے۔ کریم کا لٹ خانہ افواہوں کا مرکز اور جاسوسی کا اڈا بھی تھا۔ ڈاک خانے کی ساری خبریں یہیں سے مل جایا کرتیں۔ محکمہ ڈاک کی عظمت گذشتہ کے قصے بھی دہرائے جاتے جب موسمیات کے علاوہ کونین کی فروخت اور محکمہ تارو ٹیلی فون بھی انہیں کے پاس ہوا کرتا تھا۔ کیا بھلا دور تھا کہ ہر ایک تارپہ جو دفتری اوقات کے بعد آیا کرتی ایک روپیہ لیٹ فیس ملا کرتی۔ تنخواہ سے کہیں زیادہ تو لیٹ فیس ہوا کرتی جس کے باعث پوسٹ ماسٹر دو تین شادیاں رچا لیا کرتے۔ پوسٹ ماسٹر Morse پہ گٹ گٹ تاریں بھجوایا کرتے۔ موسم کا حال بھجوانے کا الگ سے معاوضہ ملا کرتا۔ بڑی ہی خوش حالی کا دور تھا۔ محکمہ ڈاک کی اہمیت کا یہ عالم تھا کہ ایک بار مہاراجہ برودا کی بگھی ریلوے اسٹیشن پہ ذرا تاخیر سے پہنچی۔ اس کے افسروں نے لپک کر گارڈ کو ٹرین روانہ کرنے سے منع کیا تا کہ مہاراجہ سوار ہو سکے۔
یہ ایک میل ٹرین تھی۔ سرکار کو علم ہوا چند منٹ تاخیر کی تو مہاراجہ سے جواب طلبی ہوئی کہ اس نے سرکار انگلشیہ کی ڈاک کیوں روکی مہاراجہ نے لاکھ جواز پیش کیے مگر سرکار نہ مانی اور اسے تخت سے معذول کر کے اس کے بیٹے کو تخت نشین کر دیا کہ جو شخص ڈاک کی ترسیل میں مزاحم ہو وہ ریاست چلانے کے قابل نہیں۔ ایسی کہانیاں سن کر سامعین کو اپنی عظمت گذشتہ کا اندازہ تو ہوتا مگر وہ ماضی کو یوں دیکھتے جیسے افیون چاٹنے والے بیاسی (۸۲) سالہ بہادر شاہ کو سترہ سالہ جواں بخت کا کٹا ہوا سر دکھایا گیا تھا۔ ایک ناقابل برداشت تکلیف اور اذیت ہوتی۔ ڈاک خانے والوں کے پیش نظر ماضی ہی تھا۔حال نہ تھا نہ مستقبل ۔ ایک گھمبیر سی فضا میں وہ جی رہے تھے۔ وہیں پہ ایک روز خبر ملی کہ عنقریب ایک نئی مشین بڑے ڈاک خانوں میں لگ جائےگی۔ جو ڈاک کی تقسیم کا تمام کام خود ہی کرےگی۔ پوسٹ مینوں میں کھلبلی سی مچ گئی۔ وہ تو اپنے بیٹوں کی پیکر، کینڈی ڈیٹ پورٹر اور پوسٹ مین لگوانے کے چکر میں تھے۔ یوں تو ان کی اپنی ہی نوکری خطرے میں پڑجاتی۔ مشینوں کی چونکہ زبان نہیں ہوتی وہ کسی بھی لسانی گروہ کا حصہ نہیں بن پاتیں۔ لہذا وہ ڈومی سائیل سرٹیفکیٹ کے چکر سے بھی آزادہی رہتی ہیں۔ لٹ خانے میں کھلبلی مچی تو پوسٹ مین یونین کے صدر علم دین کو سب نے آڑے ہاتھوں لیا جو نہایت انہماک سے رفیقوں کے ہمراہ چائے کی شرط کے بدلے لڈڈو کھیل رہا تھا۔ اس ڈا ک بانٹنے والی مشین کے بارے میں جان کر تو اسے بھی کوفت ہوئی۔ یوں تو چھانٹی بھی ہو سکتی ہے تاہم اس کی تسلی سے پوسٹ مینوں کا حوصلہ بظاہر تو بڑھا ہی مگر دل کو ایک دھڑکا سا لگا تھا۔ اگلے ہی روز انہوں نے چیف پوسٹ ماسٹر سے میٹنگ مانگی جو فوراً ہی مل گئی۔
کیونکہ شورش کا اندیشہ تھا انتظامیہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے کرنے کے حق میں تھی۔ یوں بھی انتظامیہ یونین کی یورش میں پسپائی اختیار کرتی، کہنے کو تو محکمہ فوج اور پولیس کی طرح Essential Services Department کے زمرے میں آتا۔ مگر حکومت نے ووٹ بینک بڑھانے کے لیے انہیں مزدور یونین بنانے کی اجازت دے رکھی تھی۔ اسٹاف کسی کارخانے کا مزدور نہ تھا سرکاری ملازم تھا اور نہ ہی چیف پوسٹ ماسٹر Collective Bargfaining Agent سے اوقات کار اور مشاہرہ میں کمی بیشی کی اجازت دے سکتا تھا۔ عجب سا تماشا تھا۔ سبھی اس مزاحیہ ڈرامے میں برابر کے کردار تھے۔ یونین کی رسائی اوپر تک تھی۔ سیاست دان بھی ڈاک خانے والوں کو ووٹ بینک کے طور پہ استعمال کیا کرتے۔ حاضر سروس، ریٹائرڈ، ماں باپ، جوان اولاد غرضیکہ سبھی کے ووٹ تھے۔ ڈاک خانے تو ووٹوں کی دکان ہوا کرتے ہیں۔ جلسوں کی رونق بڑھانے کے لیے بینرز کے علاوہ ان کی بھی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ چیف پوسٹ ماسٹر یوسف نے یونین کو خوش آمدید کہا۔ ان کے تیور قابو میں بھی رکھنے کے پیش نظر سب ہی کے لیے سبز چائے بھی منگوا ڈالی تاکہ فضا دوستانہ ہی رہے۔ علی دین کا لہجہ میٹھی چائے پیتے ہوئے بھی درشت رہا۔
’’چیف صاحب! آپ ایسی مشین لگا رہے ہیں جو پوسٹ مینوں کا کام کرےگی۔ ہمارا کیا بنےگا؟ ہم ہڑتال کر دیں گے‘‘۔ یوسف جانتا تھا کہ ’’ہم ہڑتال کر دیں گے‘‘۔ بطور ردیف استعمال ہوتا ہے ایسی گفتگو میں۔ اس نے تسلی دی۔
’’یہ مشین صرف ڈاک وصول کرے گی اور ٹرانسمیشن کرےگی۔ باقی کام تو پوسٹ مین ہی کریں گے۔ آپ صاحبان دیکھ ہی لیں کہ مشین کی ٹانگیں ہی نہیں ہیں‘‘۔ انہیں مشین دکھلائی گئی وہ ایک ڈبہ نما مشین تھی۔
’’کہتے ہیں کہ ائیر کنڈیشن میں بھی کام کرےگی‘‘۔
یوسف نے اقرار کیا ’’ہاں بھئی فرسٹ جنریشن ہے گرمی میں یہ کام نہیں کر سکتی‘‘۔
یونین ایک بار پھر مضطرب ہو گئی ’’اور ہم جو ڈاک تقسیم کرتے ہیں۔ تربت میں اور سیوی میں باون ڈگری میں جبکہ لو چلنے کے باعث جہاز بھی نہیں اتر پاتے۔ زمین انگارہ بھی ہوتی ہے گرمیوں میں۔ سردیوں میں زیارت اور کان مہتر زئی میں جبکہ درجہ حرارت منفی پندرہ ڈگری سے نیچے گر جاتا ہے، ہم تب بھی ڈاک تقسیم کرتے ہیں۔ یہ کون سا انصاف ہے بھلا؟‘‘
یوسف بدستور معنی خیز انداز میں مسکراتا رہا ’’اے بھئی آپ تو اشرف المخلوقات ہیں۔ آپ کی کیا بات ہے‘‘۔
علم دین نے اپنے خستہ حال ساتھیوں پہ نگاہ دوڑائی محنت مشقت اور غربت نے انہیں وقت سے پہلے ہی بوڑھا بنا دیا تھا، زندگی نچوڑ لی تھی ان کے جسموں سے ان کی آنکھوں سے۔ مگر وہ بھنا گئے ’’اشرف المخلوقی اپنے پاس ہی رکھیں۔ ہمیں اور ہمارے بچوں کو پیٹ بھر کھانا تو دیں‘‘۔
پوسٹ ماسٹر سے صبر نہ ہو سکا ’’آپ صاحبان کفر نہ بکیں۔ انسان اشرف المخلوقات ہی ہے۔ یہی ہمارا عقیدہ ہے اور نہ لگیں پوسٹ مین۔ جائیں فیکٹری لگالیں‘‘۔
اسٹاف کی مخالفت کے باوجود دیکھتے ہی دیکھتے چند ہی دنوں میں بکنگ ہال کے اندر شیشے کا ایک ائیر کنڈیشن کیبن بن گیا یوں اس فیکس مشین نے کام شروع کر دیا۔ شہر کے چار نئی ڈلیوی زونز بنے ۔ چار پوسٹ مینوں کو نئے موٹر سائیکل دے کر فیکس مشین کی ڈیوٹی پر لگا دیا۔ جبکہ دیگر پوسٹ مین اپنی Beats پر عمر رسیدہ کھڑکھڑاتی سائیکلوں پہ ہی نکلا کرتے۔ ایک ناقابل برداشت تضاد تھا۔ فیکس مشین نے ایک نئی کلاس ایک وی آئی پی کلچر متعارف کرا دیا تھا۔ جس کے باعث سبھی کا دل جلتا رہتا۔ بخشو ماما کی سانولی سی لونڈیا بانو کو اس ٹھنڈے کیبن میں فیکس مشین کے ساتھ بٹھا دیا گیا تھا۔ دن بھر وہ اس شاہانہ اور بہت ہی آرام دہ کیبن میں ٹھاٹھ سے کام کرتی عشوہ طرازیاں کرتی جبکہ پوسٹ پونین لو میں جھلسی ہوئی آگ اگلتی سڑکوں پہ مرزا کی بائیسکل پہ ڈاک تقسیم کرتے پھرتے۔ سرد کمرے میں سجی دودھیا مشین اور سانولی بانو کو طنزیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوسٹ مین گزرا کرتے تو ان کے دل پہ گھونسا پڑتا۔ ان کا بس چلتا تو فیکس باہر پھینک آتے اور شیشہ توڑ کے پورے کاونٹر ہال کے لیے آسودگی کے مواقع پیدا کرتے۔ بانو کے بارے میں نازیبا باتیں بھی کرتے۔
ایک رات لڈڈو کی گیم پہ رقم ہار کے علم دین بھاری قدموں سے گھر آیا اور بستر پہ ڈھیر ہوا تو بیوی نے توجہ دلائی کہ پنکھا خراب ہو گیا ہے۔ پنکھا دم سادھے پر پھیلائے خاندان سے لاتعلق رہا۔ نہ تو اسے بچوں پہ ترس آیا نہ ہی میاں بیوی پہ جو من کی آگ میں بھی جھلسے ہی جا رہے تھے۔ گزر بسر بمشکل ہو رہی تھی، بازار میں قیمتیں بھی بڑھی جا رہی تھیں۔ علم دین پہ انکشاف ہوا کہ مشینوں کا دل نہیں ہوا کرتا۔ ورنہ اتنے برس ساتھ رہنے پہ کچھ تو اس کمبخت میں مروت ہوتی۔جب نئی نئی شادی ہوئی تھی تو یہی پنکھا سائیکلوپس والی آنکھ سے انہیں تاڑتا رہتا۔ اس چمکتی ہوئی آنکھ میں اپنی شبیہہ دیکھ کر دلہن شرما جایا کرتی۔ مگر پنکھا افسروں کی مانند کٹھور اور بے مروت تھا۔ اگر یہ محکمہ ڈاک کا افسر ہوتا اگلے ہی روز اس کے خلاف اخباری بیان جاری کر دیتا۔ جس سے اس کی سٹی گم ہو جاتی اور وہ سہم کر خود ہی گھومنے لگتا۔ مگر مشینوں کو بلیک میل نہیں کیا جا سکتا اور پھر علم دین جلا بھنا گھر آیا تو اس نے صحن سے ڈنڈا اٹھایا اور پنکھے کو غصے میں پیٹ ہی ڈالا وہ اس قدر گرجا کہ پڑوسی دوڑ پڑے انہوں نے بمشکل پنکھے کو علم دین سے چھڑایا جو فوجیوں کی دیکھا دیکھی پنکھے کو کوڑے ہی مارے جا رہا تھا۔ پڑوسیوں کو علم دین کی ذہنی حالت پہ شبہ ہونے لگا وہ اسے لٹ خانہ لے گئے۔ کڑک چائے پی کر علم دین کے حواس درست ہوئے وہ پشیمان بھی ہوا کہ اسٹاف میں بات پھیلی کہ وہ پاگل اور جنونی ہے تو ہاتھ سے صدارت بھی جائےگی۔ اگلے روز ڈاک بانٹتے وہ پروفیسر جلیل کے ہاں پہنچا۔ اگرچہ پروفیسر جلیل یونیورسٹی کے ڈین تھے۔ اکیس (۲۱) گریڈ میں تھے پھر بھی ایک درویشی ان کی طبیعت کا خاصہ تھی۔
علم دین نے خط او ر بجلی کا بل ان کے حوالے کیا او رموقع غنیمت جانتے ہوئے دل میں ابلتے سوال اگل دئیے۔
’’ساب لوگ کہتے ہیں انسان اشرف المخلوقات ہے۔ مشینیں ان کی غلام ہیں۔ جبکہ مجھے یوں لگتا ہے کہ ہم مشینوں کے غلام ہیں۔ فیکس مشین ائیر کنڈیشن میں کام کرتی ہے۔ جبکہ میں ان توے جیسی گرم سڑکوں پہ ڈاک بانٹتا ہوں۔ ہم میں سے کون افضل ہے؟ میں یا مشین؟‘‘
پروفیسر نے علم دین کے لیے شربت منگوایا ’’اتنا نہ سوچا کرو خالق مخلوق سے بڑا ہوتا ہے۔ انسان نے مشین تخلیق کی ہے وہ ان سے یقیناً برتر ہے‘‘۔
علم دین کراہا ’’ میں کا م سے انکار نہیں کر سکتا جبکہ فیکس کر سکتی ہے۔ اس کے بیوی بچے بھی نہیں۔ افسوس کہ اس کا پیٹ بھی نہیں جیسے دن میں تین بار بھرنا پڑتا ہو‘‘۔
پروفیسر نے پیار بھرے انداز میں ڈانٹا ’’ہوش کے ناخن لو علم دین! اور اصل صنعتی انقلاب میں زیادہ مشینیں ایجاد ہوئی مقصد تھا بہتر سہولتیں مہیا کرنا۔ نوع انسانی کی خدمت کرنا رات دن مگر رفتہ رفتہ سرمایہ دارانہ نظام میں انسان خود ایک پروڈکٹ بن گیا انسان بھی قابل فروخت ہو گیا۔ وہ خود بھی مشینوں کا غلام بنتا چلا گیا۔ مشینیں مہنگی ہو گئیں او انسان سستے‘‘۔
علم دین مایوس ہو گیا ’’ہم مشینوں کے خلاف بغاوت بھی تو کر سکتے ہیں۔ ہم آزاد بھی تو ہو سکتے ہیں‘‘۔
پروفیسر کو محسوس ہوا کہ علم دین میں بغاوت جنم لے رہی ہے۔ مفت میں چٹان پہ ماتھا مار رہا ہے۔ کیا عجب کہ مارا ہی جائے۔
’’دیکھو علم دین مشینوں کے ساتھ رہ کے ہم بھی مشینیں بن چکے ہیں۔ ہمارے انسانی جذبات کب کے ختم ہو چکے ہیں۔ مشین انرجی پر چلتی ہے۔ قدرت اور عقیدے سے بھی اس کا تعلق نہیں۔ ہم بھی لالچ اور خوف کے فیول سے چلتے ہیں‘‘۔
علم دین تھکا ماندہ گھر آیا تو دیکھا کہ بیوی نے پنکھا ٹھیک کروا لیا تھا۔ جو اب گھوں گھوں کر کے چل رہا تھا۔ اس کی گردش سے راحت سی محسوس ہو رہی تھی۔ منہ ہاتھ دھو کر وہ لٹ خانہ میں چلا آیا۔ جہاں حسب معمول رونق تھی۔ غربت و افلاس کے مارے ہوئے انسان تاش اور لڈڈو میں پانچ دس روپے جیت کر یوں چہکنے لگتے جیسے گول کنڈہ کا خزانہ ہاتھ لگا ہو۔ دور لیاقت ڈرائیور، صاحب کی گاڑی دھونے کے بعد پالش لگا رہا تھا۔ علم دین کو خیال آیا کہ وہ خود بھی تو ہر ہفتے اپنی سائیکل کی صفائی کرتا ہے۔ تیل دیتا ہے۔ ساری دنیا مشینوں کی غلام ہو کر رہ گئی ہے۔ لٹ خانے کی چارپائی پہ لیٹ کر وہ آنکھیں موندے سوچتا چلا گیا کہ اسی کمینہ صفت فیکس مشین کو جیب نالے میں کیوں نہ پھینک آئے۔ جہاں ہیرونچیوں کا بسیرا ہے۔ وہ خود ہی مشین کو ٹھکانے لگا دیں گے۔ اس احساس طمانیت اور فتح مندی سے وہ سرشار ہو گیا۔ اس کو لگا وہ واقعی اشرف المخلوقات ہے۔
او ر پھر رات گئے ڈاک کا تھیلا بغل میں دابے وہ چپکے سے کاونٹر میں داخل ہوا۔ دیوار پھاندنے اور لات مار کے بوسیدہ کھڑکی کا پٹ کھولنے میں اسے کوئی دشواری پیش نہ آئی تھی۔ ائیرکنڈیشن بند تھا۔ مشین بھی سوئی یا مری پڑی تھی۔ اس نے ایک جھٹکے سے دونوں تاریں کھینچ نکالیں اور مشین کو ڈاک کے تھیلے میں ڈال لیا۔ جی تو چاہتا تھا کہ پیروں میں فٹ بال بنالے۔ ٹھوکروں پر رکھ لے۔ مگر لوڈ شیڈنگ کا فائدہ اٹھاتے گھر آکے ہی دم لیا۔ ڈاک کا تھیلا اس نے چارپائی کے نیچے چھپا دیا۔ خود بھی اپنی اسی چارپائی پہ جا لیٹا۔ وہ دل ہی دل میں کھلا جا رہا تھا۔ موقع پاتے ہی فیکس مشین کو حبیب نالے میں پھینک آئےگا۔ بیوی سے نہ رہا گیا۔
’’بہت دنوں بعد تم خوش دکھائی دے رہے ہو کوئی اوور ٹائم ملا ہے‘‘۔
علم دین ہنس دیا ’’نہیں میں نے اپنے دشمن کا سرا تار دیا ہے‘‘۔
اس فتح مندی سے وہ مغلوب ہو رہا تھا۔ ٹھا ٹھ سے فیکس کی لاش کے اوپر سویا رہا۔ مگر منہ اندھیرے پہلو میں کچوکے دے کے بیوی نے زبردستی جگایا۔
’’دیکھو باہر کوئی مسلسل دروازہ پیٹے ہی چلا جا رہا ہے‘‘۔ علم دین کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ ’’چھاپہ پڑ گیا‘‘۔ذہن میں ایک گونج ہوئی۔ مگر چارو ناچار باہر تو نکلنا ہی تھا۔ رمضان اور جمعہ چوکیدار کو دیکھ کر اس کے حواس بجا ہوئے۔
’’کسی نے فیکس مشین چوری کر لی ہے، اب ہمارا کیا بنےگا‘‘۔ دونوں روہانسے ہو رہے تھے۔ فرط خوف سے لرزاں تھے۔
’’تو میں کیا کروں‘‘ خوف دور ہوتے ہی وہ اکھڑ ہو گیا۔ ’’میرا کیا تعلق ہے چوکیدار تو تم ہو‘‘۔
’’تمہار ا تعلق تو ہے‘‘۔ جمعہ نے فریاد کی تو علم دین کے ہاتھ پاؤں بے جان سے ہونے لگے۔ چہرے کا رنگ فق ہو گیا جو اندھیرے کے باعث دونوں چوکیداروں کو دکھائی نہ دیا۔ ’’تم ہمارے صدر ہو۔ یونین ساتھ نہ دے تو ہم کہاں جائیں گے‘‘۔
’’وہ بڑی ہی نخرے باز مشین تھی، ایئرکنڈیشن کے بغیر کام ہی نہیں کرتی تھی۔ چلو جان چھوٹی‘‘۔
رمضان مشین کی وکالت کرنے لگا ’’ہمارے سارے حاکم بھی تو ائیر کنڈیشن گھروں میں رہتے ہیں۔ ان کے دفتر بھی ائیر کنڈیشن ہیں اور پھر یہ مشین جھوٹ بھی نہیں بولتی رشوت بھی نہیں لیتی انسانوں کو غائب بھی نہیں کرتی بھتہ بھی نہیں لیتی‘‘۔
علم دین پہ ایک نیا سورج طلوع ہوا۔ اس نے تو کبھی بھی اس پہلو پہ غور نہیں کیا تھا۔ وہ ہانپ سا گیا۔ انہیں لیے لٹ خانہ پہ چلا آیا کیونکہ دو کمرے کے کوارٹر میں جگہ کہاں تھی بٹھانے کی۔ بیوی کی متوحش آنکھوں نے مجبور کر دیا تھا کہ جاتے جاتے تسلی دیتا جائے۔ ’’کچھ نہیں بس ان دونوں کا ذاتی مسئلہ ہے یونین کا صدر جو ہوں۔ مدد مانگنے آئے ہیں‘‘ علم دین نے سینہ پھلا لیا۔ پوسٹل کالونی کے گیٹ پہ بھی ایک چوکیدار کہنے کو تو موجود ہی رہتا۔ حالانکہ وہ اخبار کے دفتر میں بطور چپراسی کام کرتا تھا۔ لیکن چوری کبھی نہیں ہوئی۔ لہذا لٹ خانہ کا سالخوردہ فرنیچر بھی کوئی ظریف یا چور یا اٹھائی گیرہ غائب نہ کرتا۔ وہ تینوں بھی مدقوق کرسیوں پہ آ بیٹھے۔
’’کچھ کرو علم دین بھائی، دفتر کھلنے سے پہلے‘‘۔
علم دین ٹھسک دکھانے لگا ’’کیا کروں، میرے پاس الہٰ دین کا چراغ تو نہیں۔ سوچتا ہوں کچھ‘‘۔
جمعہ نے بھی فریاد کی ’’علم دین اب تو قمردین کاریز اور آواران سے خط فوراً پہنچ جاتا ہے۔ تفتان سے پانچ دنوں میں ڈاک آتی تھی۔ اب یوں چٹکی بجاتے آ جاتی ہے۔ کوئی کمبخت بیچ کھانا چاہتا ہے، ہماری روزی رسان کو‘‘۔
علم دین نے آنکھیں دکھائیں ’’ابے عقل کے اندھے مالک روزی رسان ہے‘‘۔
رمضان نے گھبرا کے مداخلت کی مبادا علم دین بدک کر ساتھ دینے سے انکارہی نہ کر دے ’’بھیا! دیکھنے میں تو مشین ہی ملازمت کرتی ہے ، کار پہ ڈرائیور فیکس پر بانو، ہر مشین ایک آدمی کو نوکری دیتی ہے‘‘۔
صورت حال خاصی گھمبیر تھی۔ نائب صدر اور جنرل سیکرٹری کالونی سے باہر رہتے تھے۔ ورنہ دونوں ان کے دروازے پہ ہوتے کالونی میں رہنے کے اپنے فوائد ہیں۔ چوری کی بجلی مفت کا پانی، مگر ایسے مسائل بھی تو ہیں۔
علم دین نے سگریٹ سلگائی تو رمضان پھٹ پڑا ’’ہماری نوکری چلی جائےگی۔ کوارٹر بھی ہم سے خالی کر والیں گے۔ ہماری جوان بیٹیاں ہیں۔ کہاں جائیں گے۔ سرچھپانے کا ٹھکانہ بھی تو نہیں‘‘۔
علم دین کا دل پسیجا ’’ارے چپ رہ سوچنے تو دے‘‘۔ ایک فیکس کی موت سے دو گھر اجڑ جائیں گے۔ یہ تو بڑا ظلم ہوگا۔ مگر فیکس کا ظلم بھی تو ناقابل برداشت ہی ہے۔ علم دین کو سوچتے دیکھ کر دونوں پریشان حال قدرے مطمئن ہوئے۔ پرامید نظریں اس کے چہرے پر جمائے رہے جو اندھیرے کے باعث غیر واضح تھا۔ ہیولی ساہی دکھائی دے رہا تھا۔
’’تم دونوں یہیں بیٹھو اور دعا کرو۔ میں اپنے مرشد کا وظیفہ جا کے پڑھتا ہوں۔ آدھ گھنٹے بعد لوٹوں گا۔ پھر چلیں گے۔ دیکھنا کہ جنات مشین وہیں رکھ جائیں گے‘‘۔
ان پہ ایک ایک لمحہ بھاری تھا۔ آدھ گھنٹہ سے قبل ہی علم دین لوٹ آیا سانس چڑھا ہوا تھا۔ دائیں ہاتھ میں تسبیح تھی جس کے دانے گردش کر رہے تھے، بائیں ہاتھ کی انگشت ہونٹوں پر رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا، ساتھ ہی ہاتھ سے ڈاک خانے کی راہ دکھائی۔
چوکیداروں نے یکے بعد دیگرے دروازے کھولے اور کاؤنٹر ہال میں داخل ہوئے باہر گھپ اندھیرا تھا۔ اندر لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ تھا۔ رمضان نے دیا سلائی جلائی اور اس کے ساتھ ہی وہ تینوں فرط مسرت سے سجدہ ریز ہو گئے۔ فیکس مشین حسب سابق بکنگ کاؤنٹر کی رونق بڑھا رہی تھی۔
مصنف:آغا گل