کاٹھ کے گھوڑے

0
158
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

سیلانی نے روزنامچے میں درج کیا۔۔۔

اس بستی میں پہلے سے ایک پرانا قبیلہ آباد تھا۔ لمبا عرصہ گذرا تو گھوڑوں پر سوار ایک نئے قبیلے کے جاں باز گھڑ سوار آئے اور اس پرانی بستی میں آباد ہو گئے۔ بستی کی صورت حال یہ تھی کہ اس میں نئے قبیلے کے لیے رہائش کی کوئی ایک جگہ دستیاب ہونی ممکن نہیں رہی تھی اس لیے وہ پوری بستی میں اِدھراُ دھر بکھر گیا۔ دونوں قبیلوں کے بیچ آبادی کے لحاظ سے خطِ تقسیم کھینچنا ممکن نہ رہا۔ دونوں قبیلوں کی اس مشترک آبادی میں جہاں چاروں طرف گھنے جنگل تھے اور شمال کی طرف آسمان سے باتیں کرتا ہوا سفیدجٹاؤں والا پہاڑ کھڑا تھا مدت تک شانتی بنی رہی۔

نیا قبیلہ جو مشکی رنگ کے تھرکتے ہوئے گھوڑوں پر سوار ہو کر آیا تھا اس نے اپنے گھوڑے اس تھان سے باندھ دیے جو ان کے لیے نئی نئی بنائی گئی تھی۔ لگا میں گھوڑوں کے منھ سے نکال دی گئیں اور انہیں مضبوط زنجیروں سے باندھ دیا گیا۔ قبیلے کے لوگ نہایت توجّہ اور ذمّہ داری سے اپنے مشکی گھوڑوں کی دیکھ بھال کرتے۔ ان کی نسل نہ بگڑنے دینے کے لئے خاص اہتمام کیا جاتا اور انہیں گھوڑوں کی ماداؤں سے نئی نسلیں لیکر ان گھوڑوں کی روایت کو زندہ رکھا جاتا جن پر نئے قبیلے کے گھڑ سوار چڑھ کر اس پرانی بستی میں آئے تھے۔

سیلانی نے اپنے روزنامچے میں درج کیا۔۔۔

بستی میں گھومتے گھومتے میں اس کھلے آنگن والے مکان کے پاس پہنچا جہاں ’الحمراء‘ نام کی وہ نوجوان دوشیزہ اپنے کنبے کے ساتھ رہ رہی تھی جس کا گھر پرانے قبیلے کے ’ویناکرن‘ نامی ایک شخص کے برابر ایستادہ تھا۔ وینا کرن کا گھر مضبوط پائےدار اور زیادہ خوبصورت تھا لیکن آنگن کی کشادگی سے محروم تھا جبکہ ’ابن ابدال‘ کا مکان جس کی بیٹی کا نام ’الحمراء‘ تھا سادہ ہونے کے باوجود کشادہ اور کھلا کھلا تھا۔

- Advertisement -

سیلانی نے اپنے روزنامچے میں درج کیا۔۔۔

وینا کرن کا بیٹا چندر کرن جب بھی اپنے گھر سے باہر آتا تو اس کی نظر اپنے دروازے پر کھڑی الحمر اء پر جا پڑتی۔ الحمرا اور چندر کرن کی نظریں ملتیں اور جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے کہ بلوغت کی عمرکو پہنچ رہی دو شیزائیں اس پہلے مرد کو پسند کر لیتی ہیں جو ان کی طرف سب سے پہلے اپنا ہاتھ بڑھاکر محبت کا پیغام دینے لگتا ہے۔ خاص کر ایسے معاشرے میں جو ابھی آدھے کھلے ڈبے کی طرح ہو۔ آدھے کھلے ڈبے کی طرح کا معاشرہ متخالف جنسوں کے بیچ ایک ایسی پیاس بنائے رکھتاہے جو پوری طرح کھلے ہوئے معاشروں میں شاید نہ ہوتی ہو۔

سیلانی نے اپنے روزنامچے میں درج کیا۔۔۔

میں نے دیکھا کہ چندر کرن اورالحمراء بستی کے دونوں قبیلوں کے لوگوں کی آنکھوں سے بچتے ہوئے ہر شام اس جنگل کی طرف نکل جاتے جہاں انہیں کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا۔ میں نے اس دن دیکھا کہ جب سورج کی لال لال ٹکیا مغربی آسمان کے گوشے میں کافی نیچے اتر آئی تھی اور وہ دونوں جب ایک گھنے پیڑکے نیچے بیٹھے ہوئے تھے، چندر کرن نے الحمرا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامتے ہوئے کہا کہ وہ اس سے سچا پریم کرتا ہے۔ اس نے یہ وچن بھی دیاکہ وہ جیون بھر اس کا ہوکر رہیگا۔ اسی بیچ جب چند ر کرن الحمرا کو زندگی بھر ساتھ دینے کا وچن دے رہا تھا۔ تھان پر بندھے گھوڑوں کی تیز ہنہناہٹ دور سے آتی سنائی دی۔ الحمرا ء نے وحشت ناک انداز میں گھوڑوں کی اس ہنہناہٹ کو سنا اور چندر کرن کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے بولی۔۔۔

’’چندر کرن مجھے ڈر لگتا ہے‘‘

’’پگلی کیا ان گھوڑوں سے؟‘‘

’’ہاں شاید ‘‘

ا لحمراء نے دھیمے لہجے میں جواب دیا

چند رکرن نے الحمراء کو سمجھایا کہ یہ گھوڑے تھان پر باندھے جا چکے ہیں۔ دھیرے دھیرے یہ اس آب و ہوا کو بھول جائیں گے جس کو چھوڑ کر وہ یہاں آئے تھے۔ تب وہ اتنی آواز میں ہنہنانا چھوڑ دینگے۔ چندر کرن نے الحمر ا کو اپنے اور قریب کرکے اس کا سر اپنے زانو پر رکھ لیا اور اس کے چہرے کو محبت سے نہارتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔

’’جب تک میں ہوں تمہیں کسی سے ڈر نے کی ضرورت نہیں ہے، میں تم سے پریم کرتا ہوں ،تم میری ہو اور تمہاری رکشا کرنا میرا دھرم ہے۔۔۔! ‘‘

سیلانی نے اپنے روزنامچے میں آگے لکھا۔۔۔

الحمراء پہلے مرد کا لمس پاکر اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھی۔ جیسے جیسے چندر کرن کے ہاتھ الحمراء کے جسم کا طواف کرتے گئے ویسے ویسے الحمراء کی آنکھیں بند ہوتی گئیں۔ اس نے اپنے آپ کو ایک ایسی دنیا میں پایا جس سے وہ اب تک آشنا نہیں تھی۔ چندر کرن خود بھی جذبات کے طوفان میں ٹوٹے ہوئے پتے کی طرح بہہ رہا تھا۔ شام کا سورج کچھ اور نیچے اتر آیا تھا۔ دن بھر ادھر ادھر بھٹکتے رہے پرندے واپس بسیرے کے لیے درختوں پر آ بیٹھے تھے اور شام کو وداعی دینے کے لیے زور زور سے چہچہا ر ہے تھے۔ ایک تیز سنگیت سا ماحول میں بھر گیا تھا۔

چندر کرن اور الحمرا دونوں جب ایک دوسرے میں ڈوبے ہوئے تھے تبھی ایک بار پھر تھان سے بندھے گھوڑوں کے ہنہنانے کی تیز آواز آئی۔ الحمراء گھبرا کر اٹھی اور چندر کرن کی گرفت سے آزاد ہوتے ہوئے بولی۔۔۔

’’اب ہمیں واپس چلنا چاہئے کیونکہ شام اب رات کی طرف بڑھ رہی ہے اور قبیلے کے لوگ اپنے اپنے لوگوں کی نگرانی کے لیے اور زیادہ چوکس ہو گئے ہونگے۔‘‘

سیلانی نے ڈائری میں آگے لکھا۔۔۔

پھر چند ر کرن اور الحمراء روز روز اسی جگہ پر جاکر ملنے لگے جہاں وہ پہلے دن ملے تھے۔ دونوں کے بیچ لگاؤ کا جذبہ شدید سے شدید تر ہوتا گیا۔ جب بھی الحمراء چندر کرن کے زانو پر ہوتی تبھی اس کے کانوں میں انہیں گھوڑوں کی تیز ہنہنا ہٹ ہتھوڑے کی طرح بجنے لگتی جنہیں قبیلے کے گھڑ سواروں نے تھان پر باندھ دیا تھا۔ دھیرے دھیرے وہ دن بھی آیا جب الحمرا ء نے گھوڑوں کی ہنہناہٹ پر توجہ دینی چھوڑ دی۔ اب وہ آواز اس کے لیے بےمعنی ہوگئی تھی۔

سیلانی نے اور آگے لکھا۔۔۔

کئی ماہ اسی طرح بیتے تو چندر کرن نے اسی گھنے پیڑکے نیچے الحمراء کا ہا تھ تھا ما اور کہا۔۔۔

’’تم ہی ایک ایسی لڑکی ہو جو میری جیون ساتھی بن سکتی ہے۔ تمہارے بنا میرا جیون ادھورا ہے، چلو ہم وواہ کیے لیتے ہیں۔‘‘

بہت مشکل مر حلہ سامنے آ گیا تھا۔ دونوں جانتے تھے کہ اس کے لیے نہ تو ان کے قبیلے کے لوگ ہی تیار ہونگے اور نہ کنبے والے ہی۔ چندر کرن نے الحمراء سے کہا کہ تم ہمارے قبیلے کے اس دھرم کو مان لو جس پر ہم وشواس کرتے آئے ہیں۔ الحمراء نے یہ بات نہیں مانی بلکہ اس نے چندر کرن سے اصرار کیا کہ چندر کرن اس عقیدے کو قبول کرلے جو اس کے آسمانی صحیفے میں لکھا ہوا ہے۔ چندر کرن اس کے لیے تیار نہیں ہوا۔

دونوں محبت کے گہرے رشتے میں بندھ کر بھی اپنے اپنے قبیلوں کے سرداروں سے ڈر رہے تھے کہ اس نا فرمانی کرنے کی سزا انہیں دی جا سکتی تھی۔ کئی دن دونوں اسی کشمکش میں رہے کہ وہ ساتھ ساتھ رہنے کے لیے کیا فیصلہ کریں۔۔۔؟

سیلانی نے اپنے روزنامچے میں آگے لکھا۔۔۔

کئی مہینے تک پتا نہیں چلا کہ الحمراء اور چندر کرن نے اپنی محبت کو پروان چڑھانے کے لیے کیا فیصلہ کیا۔۔۔؟ پر اس دن جب آسمان صاف تھا اور ہوا پورب سے پچھّم کی طرف بہہ رہی تھیں دھوپ کھلی ہوئی تھی اور بستی اپنے معمول کے مطابق تھی تب میں نے دیکھا کہ چندر کرن اور الحمراء اس عدالت گاہ میں منصف کے رو برو حاضر ہیں جہاں ’انصاف‘ کے نام پر ایسا بہت کچھ کیا جاتا ہے جو ’انصاف کے دائرے‘ میں نہیں ہوتا۔ دونوں نے منصف کے سامنے حلفیہ بیان دیے اور ایک دوسرے کو شوہر بیوی کی حیثیت سے قبول کیا۔ رجسٹر پر دستخط کیے اور واپس مڑنے کے لیے جیسے ہی عدالت کے کمرے سے باہر نکلے تھان پر بندھے ہوئے گھوڑوں کی تیز ہنہناہٹ پھر الحمراء کے کانوں میں پڑی لیکن اب وہ اس آواز کی عادی ہو گئی تھی اور اسے لگتا تھا کہ اب اس آواز پر بہت زیادہ دھیان دینا ضروری نہیں ہے۔

دونوں عدالت گاہ سے لوٹے تو وہ اپنے اپنے قبیلوں میں نہیں گئے اور ایک ایسی محفوظ جگہ پر رہائش پذیر ہوئے جہاں وہ سمجھتے تھے کہ یہاں دونوں قبیلوں میں سے کسی کا گذر نہیں ہونے والا ہے۔ ایک ہی رات گذری تھی کہ اس قدیم بستی میں الحمراء کے معاملے کو لیکر زبردست کہرام برپا ہو گیا۔ گھڑ سواروں کے قبیلے نے محسو س کیا کہ اس کے قبیلے سے اکیلی الحمراء ہی نہیں نکلی ہے بلکہ پورے قبیلے کی عورت ذات کو دوسرے قبیلے نے بے عزت کر دیاہے۔ ادھر قدیم قبیلے کے لوگوں نے محسوس کیا کہ ان کے نوجوان نے الحمراء کو اپنا کر نئے قبیلے کی پوری عورت ذات کو فتح کر لینے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔

رات بھر قدیم اور نئے قبیلے کے لوگوں کی مجلسیں جمتی رہیں۔ صبح ہوتے ہی دونوں قبیلوں کے مشتعل افراد لاٹھیاں، ڈنڈے اور بھالے لے کر ایک دوسرے کے سامنے آ گئے۔ نیا قبیلہ الحمراء کو واپس لینے کے لیے نعرے لگاتا ہوا آگے بڑھا تو پرانے قبیلے نے الحمراء کو کسی بھی قیمت پر واپس نہ دینے کی ٹھان لی۔ دن بھر تنا تنی کا ماحول چلتا رہا۔ ایک قبیلے کے لوگوں نے دوسرے قبیلے کے لوگوں پر اور اسی طرح پہلے قبیلے نے دوسرے قبیلے پر لاٹھیاں برسائیں، پتھراؤ کیا۔ کئی لوگ زخمی ہوئے، کئی مارے گئے۔ تشدد پر اترے لوگوں نے ایک دوسرے کے گھروں کو جلایا، پھونکا تبھی گھرگھراتی ہوئی جیپوں پر سوار محافظوں کا وردی پوش جتھا آیا اور الحمراء کے قبیلے والوں کو آگے بڑھنے سے روکا۔ کئی مشتعل نوجوان جو بس میں نہیں آ رہے تھے انہیں محافظوں کے جتھے نے مارا پیٹا بعد میں دونوں فریقوں کے لوگوں کو پکڑ کر حوالات میں بند کر دیا گیا۔ کئی دن بستی میں کرفیو کا سناٹا چھایا رہا۔ امن بحال ہونے کے بعد گھوڑوں پر سوار ہو کر آئے قبیلے کے لوگوں میں الحمرا ء کے چھن جانے کا صدمہ متواتر بنا رہا۔ وہ اسے اپنی عزت اور قبیلائی وقار پر دوسرے قبیلے کا حملہ مانتے رہے۔

سیلانی نے اپنے روزنامچے میں آگے لکھا ۔۔۔

بستی میں کافی دن تک ایک ایسا ماحول بنا رہا جس پہ کشیدگی حاوی تھی۔ دونوں قبیلوں کے لوگ بھولنے لگے کہ کس طرح چندر کرن اور الحمراء کے قبیلے آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرائے تھے۔ ہر حادثے کی طرح یہ حادثہ بھی قریب قریب بھلا دیا گیا۔ لیکن دونوں قبیلوں کی اس ملی جلی بستی میں یگا نگت کی وہ فضا پھر نہیں لوٹ سکی جو ایک بار بگڑ گئی تھی۔ تبھی یوں ہوا کہ قدیم قبیلے کی ’لاونیہ وتی‘ نام کی ایک خوبصورت دو شیزہ کو گھڑسوار قبیلے کا ایک نوجوان ’ابو النصر‘ اٹھا کر لے گیا۔

سیلانی نے اپنی ڈائری میں آگے لکھا۔۔۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ ’لاوینہ وتی‘ نوجوان ’ابو النصر‘ کے تعلق میں کیسے آئی۔۔۔ لیکن جیسا کہ بتایا جاتا ہے کہ لاونیہ وتی ابو النصر کے قد و قامت پر ریجھ گئی تھی۔ دونوں اسی بستی کے اس محلے میں آمنے سامنے رہ رہے تھے جہاں دونوں قبیلوں کے لوگوں کی مخلوط گھنی آبادی تھی۔ گھنی آبادی کے علاقوں میں مردوں عورتوں کا ایک دوسرے سے ربط ضبط ہو جانا کافی آسان ہوتا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ لاونیہ وتی ایک شام ابو النصر کی سائیکل سے اچانک ٹکرا گئی تھی اور ابوانصر نے اسے زمین سے اوپر اٹھاتے ہوئے کچھ اس پیار سے دیکھا تھا کہ الفاظ کو درمیان میں لائے بنا ہی وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے تھے۔

مجھے بتایا گیا کہ لاونیہ وتی شام کو جب سورج مغرب میں غروب ہو رہا ہوتا مندر جانے کے لیے جلتے ہوئے دیوں کی تھال لیے جب راستے سے گذررہی ہوتی تو ابو النصر پابندی سے برگد کے گھنے درخت کے نیچے اسے انتظار کرتا ہوا ملتا۔ برگد کا یہ درخت بڑے قبیلے کی آستھاؤں کا مرکز تھا اور منت ماننے والی کتنی عورتوں نے اس پر لال دھاگے باندھ رکھے تھے۔ جیسے ہی لاونیہ وتی ابو النصر کے سامنے سے گذرتی ابو النصر تیز قدم اٹھاتا ہو اس کے پاس پہونچ جاتا۔ دونوں نظروں ہی نظروں میں ایک دوسرے کی محبّت کا اعتراف کرتے۔ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ سلسلہ جو ابو انصر اور لاونیہ وتی میں شروع ہوا تھا کب تک جاری رہا۔ لیکن ایک دن جب میں نے دیکھا کہ ابوالنصر لاونیہ وتی کو اپنا قبیلہ چھوڑ کر اس جگہ لے چلنے کی بات کہہ رہا ہے جہاں دونوں قبیلوں کے لوگوں میں کسی کا کوئی حکم نہیں چلتا تبھی تھان پر باندھے گئے گھوڑوں کی تیز ہنہناہٹ فضا میں گونجی لیکن ابوالنصر نے اس کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔

شام بجھنے کے قریب تھی، مندر کی گھنٹیاں بج اٹھیں اور ’شنکھ ناد‘ نے ایک عجیب سی گونج سے فضا کو بھر دیا۔ ابوالنصر نے گھوڑوں کی ہنہناہٹ نہیں سنی اور لاونیہ وتی نے ’شنکھ ناد‘ کو نظر انداز کر دیا۔ دونوں اپنے اپنے قبیلوں کی آستھاؤں سے باہر نکل آئے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ ہم نے ان آواز وں کو شکست دے دی ہے جن سے قبیلے کے لوگ بندھے تو نہیں ہیں لیکن جن کا اپنے اپنے مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

سیلانی نے اپنی ڈائری میں آگے لکھا۔۔۔

ایک صبح جب ابھی سورج کی کرنیں زمین پر دھوپ کی چادر پھیلا بھی نہیں پائی تھیں اور سویرے کا ہلکا سا ملگجا اجالا چاروں طرف پھیلا ہوا تھا، مجھے بتایا گیا کہ ابوالنصر لاونیہ وتی کو لیکر کہیں فرار ہو گیا ہے۔ دونوں قبیلوں کے لوگ جانتے تھے کہ ابوالنصر لاونیہ وتی کو جبراً اٹھاکر نہیں لے گیا ہے، وہ خود اس کے عشق میں مبتلا ہو کر اپنی مرضی سے اس کے ساتھ گئی ہے۔ لیکن اس موڑ پر آتے آتے عشق کے انفرادی معاملوں میں نفرت کی سود مند سیاست داخل ہو چکی تھی۔ لاوینہ وتی کے اٹھا لیے جانے کی افواہ جنگل میں آگ کی لپٹوں کی طرح پھیل گئی۔ دونوں قبیلے ضد پر آ گئے قدیم قبیلے والے لوگ دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ لاونیہ وتی کو واپس ان کے حوالے کریں۔

چھوٹے قبیلے کے لوگ نہیں جانتے تھے کہ ابو النصر اور لاونیہ وتی کہاں ہیں۔۔۔ اور انہیں کہاں سے بر آمد کر واپس لایا جا سکتا ہے؟ تبھی نئے قبیلے کے کچھ خود سر نوجوانوں نے اعلان کیا کہ وہ لاونیہ وتی کو نہیں دینگے۔ وہ خود گئی ہے ابوالنصر اسے لے کر نہیں گیا ہے کئی دن دونوں قبیلوں کے بیچ شدت کی کشیدگی چلتی رہی۔ دونوں طرف باری باری پنچایتیں بیٹھیں۔ معاملے کے ہر پہلو پر غور کیا گیا۔ آخر میں ایک پنچایت دونوں قبیلوں کے ملے جلے لوگوں کی ہوئی جس میں قدیم قبیلے کے لوگوں نے الزام لگایا کہ نئے قبیلے والے جبراً ہمارے لڑکے لڑکیوں کو دھرم پر یورتن کرنے پر اکسا رہے ہیں۔ جواب میں نئے قبیلے کے لوگوں نے یاد دلایا کہ اس سے پہلے چندر کرن بھی ایسا ہی کر چکا ہے۔

تنازعہ بڑھتا گیا تبھی ایک صبح دونوں قبیلوں کے لوگ اپنے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے اور اپنی اپنی عبادت گاہوں کی طرف جانے لگے تھے کہ افواہ پھیلی کہ لاونیہ وتی کی عصمت دری کرکے اس کی لاش جنگل میں سر پنچ کے تالاب کے کنارے پھینک دی گئی ہے۔ افواہ کا طیارہ جس تیزی سے اڑتا ہے اس تیزی سے دنیا کی کوئی اور چیز نہیں اڑتی۔ پوری بستی غصے اور اشتعال سے بھر گئی۔

سیلانی نے اپنی ڈائری میں آگے لکھا۔۔۔

قبیلائی نفسیات دعوے یا افواہ کو تصدیق کرنے کی نہیں ہوتی۔ لوگ افواہوں پر آنکھوں دیکھے واقعات کی طرح یقین کر لیتے ہیں۔ لاونیہ وتی کی عصمت دری کی افواہ نے قدیم قبیلے کے لوگوں کو اشتعال سے بھر دیا۔ شک کی فضا پہلے سے بن ہی چکی تھی اس افواہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ قبیلے کے لوگ اپنی ایک لڑکی کی دوسرے قبیلے کے مرد کے ہاتھوں آبروریزی اور قتل کے صدمے کو سہہ نہیں پائے۔ وہ نہیں جان سکے کہ اس افواہ کے پیچھے جو عناصر کام کر رہے ہیں ان کا منصوبہ کیا ہے؟

سیلانی نے اپنی ڈائری میں لکھا۔۔۔

سورج کئی بانس اوپر چڑھ آیا تھا کہ لوگ اپنے اپنے ہاتھوں میں تلواریں، بر چھیِ، بھالے پتھر اور پیٹرول لیکر ایک دوسرے کے سامنے آ ڈٹے۔ دونوں ہی طرف سے ہیبت ناک نعرے بازی ہوئی۔ قدیم قبیلے کے لوگوں نے ایک کے بدلے سو کا نعرہ لگایا۔ نئے قبیلے کے لوگ خوفزدہ تھے اور اپنے تحفظ کاراستہ ڈھونڈ رہے تھے۔۔۔!!!

سیلانی نے اپنی ڈائری میں آگے لکھا۔۔۔

عذاب کا یہ وہ وقت تھا جب خیر سگالی چاہنے والی دونوں طرف کی قوتیں پوری طرح معطل اور بے اثر ہو گئی تھیں۔ فیصلہ مشتعل بھیڑ کے ہاتھ میں آ گیا تھا اور امن واتحاد چاہنے والے حاشیے سے باہر کر دیے گئے تھے۔ تبھی میں نے دیکھا کہ بستی میں چاروں طرف آگ کے شعلے لپک رہے ہیں۔ اونچی اونچی لپٹوں سے سارا آکاش سرخ ہو گیا ہے، ماحول میں چیخیں ہیں،سسکیاں ہیں، سڑکوں پر بہتا ہوا خون اور لاشیں ہیں۔ میں اپنی جان کی خیر مناتے ہوئے بستی کی گشت پرگلیوں نکلا تو میں نے دیکھا کہ خونریزی کر رہے لوگوں کے چہرے ویسے نہیں ہیں جیسے آدمی کی نسل والے جانداروں کے ہوتے ہیں۔ نفرت سے ان کے چہرے کھنچ کر تیندوؤں کی طرح چوڑے ہو گئے تھے۔ جبڑے پھیل کر کانوں سے آلگے تھے، ان کی آنکھیں انگاروں کی طرح باہر نکل آئی تھیں اور جبڑوں کے جانبی دانت کتوں کے کیلوں کی طرح لمبے ہو گئے تھے۔

سیلانی نے اپنی ڈائری میں آگے لکھا۔۔۔

میں نے محسوس کیا کہ یہ وہ آدم زاد نہیں ہیں جنہیں میں نے کبھی پہلے اس بستی میں دیکھا تھا۔ یہ وہ درندے بھی نہیں ہیں جنہیں میں خوفناک جنگلوں میں دیکھتا آیا تھا۔ یہ مخلوق ایسی تھی جسے میں کسی دوسری مخلوق سے مماثل کرنے سے قاصر رہا۔۔۔ !

سیلانی نے اپنی ڈائری میں آگے لکھا۔۔۔

تبھی میں نے دیکھا کہ خوفناک مخلوق کی یہ بھیڑ نئے قبیلے کے کچھ جل رہے گھروں سے کئی نوجوان دو شیزاؤں کو پکڑ لائی ہے، سبھی خوف سے تھر تھر کانپ رہی تھیں۔ انہیں احساس ہو گیا تھا کہ اگلے ہی پل ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔۔۔ ان کے چہرے ہیبت کی شدت سے پیلے پڑ گئے تھے اور وہ اپنی جانیں بخش دینے کی فریاد کرتے ہوئے ہاتھ جوڑے کھڑی تھیں۔۔۔!!!

سیلانی نے اپنی ڈائری میں آگے لکھا۔۔۔

میں نے دیکھا کہ تلواریں لیے بھیڑ کے لوگوں نے ان سبھی دوشیزائیوں کو سڑک کے کنارے ایک صف میں کھڑا کیا اور پھر ان کے لباس اس طرح نوچ پھینکے جس طرح کیلے سے چھلکے اتار دیے جاتے ہیں۔ وہ برہنہ ہوگئی تھیں اور بدحواسی کے عالم میں ہتھیلیوں سے اپنی شرم گاہوں کو ڈھانپنے کی کوشش کر رہی تھیں۔

سیلانی نے اپنی ڈائری میں آگے لکھا۔۔۔

میں نے دیکھا کہ بھیڑ کے لوگوں نے ان سبھی کے ہاتھ کمر کے پیچھے انہیں کے ازار بندوں سے باندھ دیے تھے۔ ماحول ایک بار پھر شور سے گونج اٹھا۔۔۔سڑک پر بھیڑ تھی۔۔۔ چھوٹے قبیلے کے مرد اور عورتیں پھانسی کی سزا پائے مجرموں کی طرح سہمے ہوئے کھڑے تھے۔ تبھی وہ لوگ جن کے جبڑے کھلے ہوئے تھے اور دانت درندوں کی طرح لمبے ہو چکے تھے آگے بڑھے اور ان برہنہ لڑکیوں کو کھینچ کھینچ کر سڑک پر ڈھکیلنے لگے جن سے انہیں لاونیہ وتی کی عصمت دری کا بدلہ لینا تھا۔

سیلانی نے اپنی ڈائری میں آگے لکھا۔۔۔

ہیبت زدہ لڑکیوں کے ساتھ وحشیانہ دست درازی کی ہی جا رہی تھی، تبھی جیپوں کی گھر گھراہٹ سنائی دی اور کئی گاڑیوں میں سواروردی پوش محافظ دندناتے ہوئے اترے۔ سنگین لگی لمبی لمبی رائفلیں ان کے کندھوں سے لٹکی ہوئی تھیں۔ پاگل بھیڑ ٹائروں میں آگ لگاکر محافظوں کو آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ایسا لگتا تھا کہ محافظوں کا دستہ بھی آگے بڑھنے پر آمادہ نہیں تھا۔۔۔!!!

انہیں اس طرح خاموش تماشائی بنا دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے وہ سوچ رہے ہوں کہ جو ہو رہا ہے اسے ہونے دو۔ محافظ دستے نے اپنی رائفلیں کاندھوں سے نہیں اتاریں، برہنہ لڑکیوں کو سڑک پر چت ڈالتے ہوئے پاگل وحشی لوگوں کو نہیں روکا۔ اپنے بچاؤ کے لیے ہاتھ پاؤں مارتی لڑکیوں کو ان درندوں سے نہیں بچایا، بلکہ میں نے تو یہ بھی دیکھا کہ ایسا ہوتے دیکھ محافظوں کے دستے میں شامل وردی پوش شیطانی ہنسی ہنس رہے تھے۔ وہ بھول گئے تھے کہ انہیں قانون نے جو ذمّہ داری دی ہے وہ اسے نبھانہ پانے کے مجرم ہیں۔

پھر میں نے دیکھا کہ اس شیطانی کھیل کے بعد ان لڑکیوں کو ایک ایک کرکے جلتے ہوئے الاؤ میں ڈالا جاتا رہا۔ ماؤں نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں، باپ زمین پر سر جھکائے کھڑے تھے۔ سب کے سر پر موت ناچ رہی تھی، محافظ خوش تھے اور سمجھ رہے تھے کہ لاونیہ وتی کی موت کا بدلہ لیا جا رہا ہے۔

سیلانی نے اپنی ڈائری میں آگے لکھا۔۔۔

آگ اور خون کا یہ شیطانی کھیل دیر تک چلتا رہا لیکن سامنے کی صورت حال اور معتبر وسائل سے جو کچھ میرے علم میں آیا وہ یہ ہے کہ تشددپر آمادہ خونخوار بھیڑ کو لاونیہ وتی کا بدلہ لینے کے لیے اکسا نے والے عنا صر کا مقصد صرف بدلہ لینا نہیں تھا بلکہ وہ چھوٹے قبیلے کو اس کے پہلے کے مبینہ رویہ کی سزادینا اور مستقبل میں بےدست و پا ہوکر رہنے پر مجبور کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے پورے قبیلے کو ہیبت زدہ کرنا ضروری سمجھا گیا تھا۔ مجھے یہ بھی علم ہوا کہ لاونیہ وتی کی عصمت دری کا بدلہ لینے کی آڑ میں قدیم قبیلے کو نئے قبیلے کے مقابل متحد رکھنے اور اس طرح اپنے پوشیدہ اغراض پورا کرنے کا جذبہ بھی شامل تھا۔

سیلانی نے اپنے روزنامچے میں آگے لکھا ۔۔۔

یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ چھوٹے قبیلے کو شدید طور پر خوفزدہ کرنے اور لاونیہ وتی کی عصمت دری کا بدلہ لینے کی آڑ میں قدیم قبیلے کو لام بند کرنے کے پیچھے جو سازش تھی اس میں کون کون شامل تھا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ قدیم قبیلے کی کثیر آبادی اس طرز عمل کے حق میں نہیں تھی۔ بھیڑ کو مشتعل کرنے والے عناصر اپنا کام کر رہے تھے۔ بھیڑ کی گرفت قدیم قبیلے پر اتنی مضبوط ہوگئی تھی کہ وہ اس ابلیسی رقص کو روکنے کی ہمت نہیں کر سکے۔

سیلانی نے آگے لکھا۔۔۔

لاونیہ وتی کی عصمت دری کے بدلے نے واقعتاََ چھوٹے قبیلے کے لوگوں میں زبردست خوف اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کر دیا تھا۔ وہ ایک ایسی پسپائی کے احساس سے دو چار تھے جو بچاؤ کا کوئی راستہ نہ مل پانے کے باعث پیدا ہوتی ہے۔

تبھی نئے قبیلے کے کچھ ہمت ور نوجوانوں نے کمر کسی اور بستی میں اسی وقار اور برابر کی اہمیت کے ساتھ دوبارہ بسنے کا تہیہ کیا جہاں سے انہیں نکال دیا گیا تھا۔ انہوں نے دوبارہ ان مشکی رنگ کے گھوڑوں کو یاد کیا جن پر سوار ہو کر ان کے قبیلے کے لوگ اس بستی میں آئے تھے۔ تبھی مذکورہ نوجوانوں کے کان میں تھان پر بندھے ہوئے گھوڑوں کی تیز ہنہناہٹ کی آواز آئی۔ میں نے دیکھاکہ یہ نوجوان گھوڑوں کی طرف لپک رہے ہیں۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ ان مشکی گھوڑوں کو جنکی بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی ان نوجوانوں نے تھان سے کھول لیا ہے لیکن جیسے ہی وہ ان کی پیٹھ پر سوار ہوئے میں نے دیکھا کہ مشکی گھوڑے کاٹھ کے گھوڑوں میں بدل گئے ہیں۔

سیلانی نے اپنی ڈائری میں آگے لکھا۔۔۔

میں جب کاٹھ کے گھوڑوں کو ان نو جوانوں سمیت وہیں چھوڑ کر واپس آ رہا تھا میں نے یہ بھی دیکھاکہ دور بہہ رہی وہ گنگا ندی دھو دھو کر کے جل رہی ہے جسے کبھی شنکر نے اپنی جٹاؤں پر روکا تھا۔

مصنف:افشاں ملک

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here