اپنی کیچ بھری آنکھوں کو مسلتے ہوئے بادو نے دور ہی سے دیکھ لیا تھا، وہ ادھر ادھر سونگھتا ہوا چلا آ رہا تھا، صبح کی اذان ابھی ابھی ختم ہوئی تھی، گنے چنے عمر رسیدہ نمازی مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ بادو نے رات کے بجھے ہوئے چولہے کی راکھ سڑک کے کنارے الٹ دی اسی وقت ایک موٹر سائیکل سوار تیزی سے گزرا بادو کے ہاتھ سے چولہا چھوٹ کر گر گیا، اس کے منہ سے ایک بھدی سی گالی نکلی، چولہا سیدھا کرکے وہ اس میں سوکھی لکڑیاں ڈالنے لگا، پھر ان میں آگ لگا کر چولہے کو کوئلے سے بھر دیا اور ایک ٹوٹے پھوٹے پنکھے سے ہو ا دینے لگا۔ اسی وقت ایک دبلا پتلا دس گیارہ سال کا لڑکا آ گیا۔
’’کیوں بے سالا اب آیا ہے۔ یہ چولہا کون جلائےگا، تیرا باپ، چل پنکھا پکڑ اور کوئلے کو تپا۔‘‘
بادو اس بوسیدہ چائے خانے کے اندر جا کر، گندے برتنوں کو اٹھا لایا۔ ’’لے بے چولہا چھوڑ، چل برتن مانجھ، اس نے چھوکرے کو ٹہوکا دیا۔‘‘
بادو نے سڑک کی طرف دیکھا، اب کتا دم ہلاتا ہوا اس پار آ چکا تھا اور برتن مانجھتے ہو ئے لڑکے سے ذرا فاصلے پر اپنی اگلی ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گیا تھا۔ بادو اندر گیا اور ایک ہانڈی سے بغیر گوشت کی ہڈی نکال کر کتے کی طرف پھینک دیا اور بڑے اچھے لہجہ میں بولا۔’’ سالے تیرا ناستہ (ناشتہ) تو سب سے پہلے ہوتا ہے۔‘‘ پھر ہنسنے لگا جیسے کوئی پرلطف بات کہہ دی ہو۔
’’کیوں رے تیرے ہاتھ میں کوڑھ پھوٹ گیا ہے، سالا نماجی لوگ آتا ہوگا، ابھی تک کیتلی بھی صاف نہیں کیا، آتے ساتھ سب سالا لوگ چائے مانگےگا۔ ‘‘تب تک کیتلی کی صفائی ہو چکی تھی، بادو نے پانی بھر کر اسے چولہے پر رکھ دیا۔ کوئلہ سرخ ہو چکا تھا۔ نماز بھی ختم ہو گئی تھی اور لوگ مسجد سے باہر آنے لگے تھے۔
بادو کے چائے خانے میں ایک بوسیدہ ٹیپ ریکارڈ بھی تھا، جب نماز ختم ہو جاتی تو وہ اندر جاتا اور قوالی کی دو بوسیدہ ٹیپ میں سے کوئی ایک چلا دیتا۔ آج جوانی پر اترانے والے۔۔۔ یا تاجدار رسالت مدینے میں ہے اور کرن جگمگاتی ہے اجمیر میں۔ آج جو ٹیپ ریکارڈ آن کیا تو ٹیپ ہی پھنس گیا۔ دور پڑے ہوئے کتے نے بھی بےاطمینانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کروٹ بدلی اور اندر بادو کو ٹیپ ریکارڈ سے الجھتا ہوا دیکھنے لگا۔ اس وقت دو بزرگوار تشریف لے آئے۔ دونوں انناہزارے کی تحریک پر با ت کر رہے تھے، ایک بوڑھا شخص کس طرح ملک کی نوجوان نسل کو بیدار کر سکتا ہے۔ یہ سب تجربے کی بات ہے۔ کچھ دیر بعد ان کی گفتگو کا رخ حضور اکرم کی ایک حدیث کی طرف مڑ گیا جس میں مسلمانوں کی گمراہی اور ظلالت کا ذکر تھا۔ بات کرتے کرتے اچانک انہیں احساس ہوا کہ وہ تو چائے پینے کے لیے آئے تھے۔ ایک نے بادو کو پکارا۔ ’’کیا بادو ابھی تک تیری چائے ہی نہیں بنی؟‘‘ لگ بھگ اسی وقت چائے ابلی تھی۔ بادو نے کیتلی کو دو تین ہلکورے دیے کہ چائے میں کڑک رنگ آ جائے۔
’’ارے بادو ،یہ کتا ہمیشہ یہیں پڑا رہتا ہے۔ ناپاک جانور ہے۔ بھگاتے کیوں نہیں؟‘‘
’’جناور ہے حاجی جی، سٹتا وٹتا نہیں ہے کسی سے، رات کو پہرا بھی دیتا ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر بادو ایک بار پھر ٹیپ ریکارڈ سے الجھ گیا۔اچانک ٹیپ چچیایا او ر کتا ہولے سے بھونکا، تھوڑی دیر کے بعد ٹیپ کی آواز ہموار ہو گئی اور تاجدا ر رسالت مدینے میں ہے والی قوالی بجنے لگی۔
دھیرے دھیرے سامنے بچھی ٹوٹی پھوٹی لکڑی کی بینچ پر کئی اور لوگ آکر بیٹھ گئے۔ اب سورج پوری طرح نکل آیا تھا، کتا ایک انگڑائی لے کر اٹھا اور ذرا فاصلے پر نیم کے پیڑ کے نیچے بیٹھ کر سامنے سڑک پر آنے جانے والی سواریوں اور لوگوں کو دیکھنے لگا۔ اسی وقت برسراقتدار پارٹی کے جھنڈوں سے لیس کچھ گاڑیاں بڑی تیزی سے گزریں۔ کتا نہ جانے کیوں بےچین ہو گیا اور خواہ مخواہ ان گاڑیوں پر بھونکنے لگا، بلکہ بھونکتا ہوا ان کے پیچھے کچھ دور تک دوڑتا چلا گیا۔
’’ارے تو سالا کاہے کو پگلا رہا ہے۔ بادو کتے کو ڈانٹتا ہوا بولا۔ ای سب پارٹی والا تو اپنے باوا کے لیے بھاگ رہا ہے۔‘‘
’’سنا ہے اتوار کو پردھان منتری آ رہا ہے۔‘‘ کسی نے پوچھا۔
’’آنے دو۔ سالا کا ہمرا قسمت بدل دےگا۔ روجے آتا ہے پردھان منتری، وردھان منتری۔‘‘ بادو لا پرواہی سے بولا۔ اس وقت تک کتا پھر نیم کے پیڑ کے نیچے لمبی تان کر بیٹھ چکا تھا اور معصومیت کے ساتھ بادو کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’’لو سالا ارے ابھی تو ناستہ کیا ہے، اب کا دیکھ رہا ہے بے۔‘‘ بادو کتے غصہ اور پیار کے ملے جلے انداز سے دیکھتا ہوا بولا۔
’’ارے بادو ادھر سڑک کے کنارے سب دکان کو ہٹا رہا ہے، پولیس والا لوگ۔‘‘ لنگڑا اصغر چائے کا گھونٹ لیتا ہوا بولا۔
’’کاہے کو۔‘‘ بادو چونک کر بولا۔
’’ارے بولتا ہے گندگی ہے اور سب کبجہ (قبضہ) کرکے رکھا ہے۔ پردھان منتری دیکھےگا تو برا لگےگا۔
اس کے لائف کو بھی کھترا (خطرہ) ہے۔ ای سڑکوا چوڑا ہونا چاہیئے۔ پولیس، جاسوس لوگ رہیگا چاروں طرف ہپھاجت (حفاظت) کے لیے۔‘‘
اسی وقت کافی دوری پر ہائی وے کی طرف سے ہلکے ہلکے شور کی آوازیں آنے لگیں۔ سامنے سڑک سے کئی پولیس کی جیپ دندناتی ہوئی گزر گئیں۔ اونگھتا ہوا کتا چونک کر اٹھ بیٹھا۔ پہلے تو آخری گزرتی ہوئی جیپ کی طرف دیکھ کر غرایا، پھر اٹھ کر اس کے پیچھے دوڑتا ہوا بھونکنے لگا، جیپ کی تیزی کے آگے کتے کی ہمت جواب دے گئی، تھک کر وہ کھڑا ہو گیا، پھر مڑکر تھکے قدموں سے چلتا ہوا نیم کے پیڑ کے نیچے آکر بیٹھ گیا۔ اس کا پیٹ ابھی تک پھول اور پچک رہا تھا۔ بادو نے ایک نظر اسے دیکھا، پھر جیب سے کھینی کی ڈبیا نکال کر ایک چٹکی کھینی نکالی اور اسے نچلے ہونٹ کے بیچ دبا لیا۔
’’ای سالا ادھر ہو کیا رہا ہے۔‘‘ بادو بےچینی سے بولا۔
’’ارے ادھر دکان سب توڑنا شروع کر دیا ہے، آدمی لوگ اڑ گیا کہ نہیں توڑنے دیں گے، کچھ آدمی بلڈوزر کے سامنے بھی لیٹ گیا، نہیں ہٹ رہا ہے۔ اب پولیس والا سب گیا ہے سالا۔ لا یار ایک چائے تو دے۔‘‘ موٹا شمیم ٹوٹی ہوئی بینچ پر بیٹھتا ہوا بولا۔
دن کی روشنی دھیرے دھیرے مدھم ہو گئی، سورج سفر کی تھکن اتارنے کے لئے دور پہاڑی سلسلوں کے پیچھے اپنے مسکن میں داخل ہو گیا۔ مغرب کی آذان ختم ہو گئی اور اکا دکا نمازی مسجد میں داخل ہونے لگے۔ بادو شام کی چائے کی تیاری میں مشغول تھا، نیم کے پیڑ کے نیچے بیٹھا ہوا کتا غائب تھا۔ اچانک کئی پولیس جیپ علاقے میں داخل ہوئی، ذرا دوری پر ایک خوفناک، دیوپیکر بلڈوزر چلا آ رہا تھا۔ سارا علاقہ جیسے کسی خواب سے بیدا ر ہو گیا۔ چھوٹے چھوٹے دکاندار، خوانچے والے، نائی، شربت بیچنے والا، سائیکل بنانے والے، پان والے، عطرفروش اور دوسرے انگنت دوکاندار بوکھلائے ہوئے بےچین پرندوں کی طرح ادھر ادھر پھرنے لگے۔ پولیس کی گاڑی سے اعلان کیا جانے لگا، جتنے ناجائزدکان والے ہیں وہ سڑک کے کناروں سے اپنی اپنی دکانوں سے جتنے سامان ہیں نکال لیں۔
اس افراتفری میں بادو کا کتا کہیں سے بھونکتا ہوا نکل آیا۔ جھپٹ کر اس نے ایک پولیس والے کی ٹانگ پکڑ لی، پولیس والے کا ڈنڈا گھوما اور وہ قیں قیں کی کربناک آواز نکالتا ہوا ایک سمت سرپٹ دوڑتا چلا گیا۔
آدھی رات تک سڑک کے دونوں کنارے صاف ہو چکے تھے۔ زمیں ہموار کر دی گئی تھی اور ریلنگ لگانے کا کام شروع ہو گیا تھا۔ نیم کا درخت جو سڑک سے بہت نزدیک نظر آتا تھا، اب ذرا فاصلے پر نظر آ رہا تھا۔ اس کی شاخوں کے درمیان سے خزاں کا زرد چاند اداسی سے جھانک رہا تھا اور کتا اس کی طرف منہ اٹھائے کربناک آواز کے ساتھ رو رہا تھا۔
صبح دس بجے تک پورا علاقہ خوشنما اور خوبصورت ہو گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس علاقے میں گندگی اور جھگی نما بدہئیت دکانیں کبھی نہیں رہی ہوں۔ رنگ برنگی جھنڈیاں چاروں طرف لہرا رہی تھیں۔ ریلنگ کے کنارے اسکول کے بچے اسکو ل یونیفارم میں ہاتھوں میں پھول اور جھنڈیاں لیے وزیراعظم کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ پولیس کی نفری گشت کر رہی تھی۔ ایسے میں کتا پریشان پریشان سا ادھر ادھر منہ مارتا پھر رہا تھا۔ کبھی ریلنگ کے کنارے کھڑے لوگوں کے ہجوم میں گھس جاتا اور لوگ گھبرا کر ادھر ادھر ہو جاتے، کوئی لات مار دیتا اور وہ قیں قیں کرتا بھاگ کھڑا ہوتا۔ کبھی کسی پولیس والے پر بلاوجہ بھونکنے لگتا اور وہ اسے ڈنڈے سے رگیدتا چلا جاتا۔ کتا بھوکا تھا، بادو کا ہوٹل اجڑ چکا تھا اور اسے آج کا ناشتہ بھی نہیں ملا تھا۔ جب سے اس نے آنکھ کھولی تھی بادو کا ہوٹل ہی اس کی کفالت کر رہا تھا۔ وہ صحیح وقت پر نیم کے پیڑ تلے آکر براجمان ہو جاتا اور بادو یا اس کا نوکر اس کے سامنے کچھ نہ کچھ ڈال دیا کرتا لیکن آج اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کہاں جائے۔
’’آخر پردھان منتری کا قافلہ سڑک سے گزرتا ہوا گاندھی میدان میں داخل ہوا۔ میدان میں ہزاروں لوگوں کا ہجوم تھا۔ پردھان منتری کے آتے ہی اسٹیج پر زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ ان کے پاس وقت بہت محدود تھا، اس لیے آتے ہی ان کی تعریف میں ایک چھوٹی سی تقریر ہوئی اور اس کے بعد فورا‘‘ ہی ان کو تقریر کرنے کے لیے بلا لیا گیا تاکہ وہ عوام کو زیادہ دیر تک مخاطب کر سکیں۔
پردھان منتری نے اپنی تقریر شروع کی اور عوام کو بتایا کہ وہ غربت کے خاتمہ کے لیے کتنی ساری اسکیم لا چکے ہیں اور آگے کیا کیا کرنے کا ارادہ ہے۔ اسی درمیان کتا نہ جانے کہاں سے بھیڑ میں نکل آیا۔ وہ لوگوں کے درمیان پھنس کر رہ گیا تھا۔ نکلنے کے لیے کبھی بھونکتا، کبھی کاٹنے کو دوڑتا۔ لوگ بچنے کے لیے ادھر ادھر ہو جاتے یا لاتوں سے اس کی خبر لیتے۔ بیچارہ کبھی اس طرف بھاگتا، کبھی اس طرف۔ ایک ہلکی سی بھگدڑ مچ گئی۔ پردھان منتری نے اسے محسوس کیا اور لوگوں کو شانتی بنائے رکھنے کی گزارش کی، ان کا کہنا تھا کہ یہ حرکت مخالف پارٹی والوں کی ہے، وہ چاہتے ہیں کہ اس شانتی پورن (پرامن) جلسہ کو اشانت کر دیں۔ لیکن آپ لوگ اس کی پرواہ نہ کریں۔۔۔ پردھان منتری کی تقریر ختم ہوئی، وہ اور ان کے ساتھی کاروں کے قافلے کے ساتھ غائب ہو گئے۔ عوام بھی دھیرے دھیرے میدان سے باہر ہو گئی۔ خالی میدان میں ہو کا عالم تھا۔ بس جھنڈیوں کے ٹکڑے تیز ہوا میں ادھر ادھر اڑ رہے تھے اور میدان کے کونے میں پردھان منتری کی قد آدم تصویر ہاتھ جوڑ کر مسکرا رہی تھی۔
کتا اکیلا میدان میں ادھر ادھر سونگھتا پھر رہا تھا، اسے اتنی مار پڑ چکی تھی کہ وہ لنگڑا لنگڑا کر چل رہا تھا۔ سونگھتا سانگھتا وہ پردھان منتری کی قدآدم تصویر تک پہنچ گیا، کچھ دیر کھڑا آسمان کو تکتا رہا پھر ایک ٹانگ اٹھا کر پیشاب کرنے لگا۔
مصنف:ابرار مجیب