رکھی چند دکان سے واپس آ رہا تھا۔ صورت سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اس وقت کوئی مزیدار بات سوچ رہا ہے، ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی ۔ چلتے چلتے جب اسے سگریٹ جلانے کی خواہش محسوس ہوئی تو اسے خیال آیا کہ ماچس تو دکان ہی پر رہ گئی ہے۔ خیر کوئی مضائقہ نہیں۔ اب وہ گھر کے قریب پہنچ چکا ہے وہ اپنی دھن میں اس قدر مگن تھا کہ اسے سگریٹ منھ سے نکالنے کا خیال تک نہ آیا۔ کسی راہ گیر کی نظر اس کے ڈھیلے ڈھالے ہونٹوں میں پھنسے ہوئے سگریٹ پر جا پڑتی تو وہ بے اختیار مسکرادیا۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ خود بخود مسکرائے جارہا تھا۔ کبھی سرکو حرکت دینے لگتا کبھی زیرلب کچھ کہنے لگتا۔ وہ بالکل پاگلوں کی سی حرکت کر رہا تھا، لیکن وہ پاگل نہیں تھا، چونتیس پینتیس برس کے قریب عمر، صورت بھی بری نہیں تھی۔ صحت بھی کافی اچھی تھی، تین بچوں کا باپ تھا۔ اعلیٰ پیمانے پر ریڈیو کی دکان چلا رہا تھا۔ گیارہ بجے دکان پر جاتا۔ اس کا معاون پہلے ہی سے موجود ہوتا تھا۔ ایک سے دو بجے تک لخچ کے لیے دکان بند کر دی جاتی۔ شام کے پانچ بجے کے قریب وہ گھر چلا آتا۔ البتہ دکان سات بجے تک کھلی رہتی ۔ آج کاروبار کے سلسلے میں ایک شخص کو ملنے کے لیے اسے دہلی جانا تھا۔ اس نے اپنی بیوی شانتا کو سامان تیار کرنے کے لیے بھی کہہ دیا تھا لیکن اچانک دکان پر اسے تار ملا کہ کل وہ شخص خود لاہور پہنچ رہا ہے۔ چلو سفر کی مصیبت سے جان چھوٹی لیکن آج شام کا پروگرام کیا ہو؟ یہ سوال خوامخواہ اس کے ذہن پر ابھر آیا اور وہ چند لمحوں تک بے سبب اس فکر میں غلطاں رہا اور پھر دل کی پکار خود بخود واضح ہوگئی کہ یہ شام اپنے دوست بیج ناتھ کے ہاں گزاری جائے بلکہ رات کا کھانا بھی وہیں کھایا جائے۔ کچھ روز سے بیج ناتھ کی بیوی کا منی اس کے لیے خاص کشش کا باعث بنی ہوئی تھی۔ یہ بات اخلاق سے گری ہوئی ضرور تھی لیکن وہ دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔ جوانی کے زمانے میں وہ حد سے زیادہ شرمیلا بنارہا۔ زندگی کا سنہر زمانہ کسی سے محبت کی پینگیں بڑھائے بغیر گزر گیا۔ جب شادی ہوئی تو چند سال تک وہ بیوی کا دیوانہ سا رہا، مگر رفتہ رفتہ بیوی میں کوئی کشش باقی نہ رہی۔ جب کبھی بیوی آنکھوں کو بھلی معلوم ہوتی تو بس ہاتھ بڑھانے کی دیر تھی۔ وہاں انکار کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ اپنی بیوی بے رس معلوم ہونے لگی اور اس نے بازار کا رخ کیا۔ وہاں دلال یہی کہتا کہ بس صاحب ہفتے بھری سے بازار میں بیٹھنے لگی ہے۔ پہلے پہل تو یہ خیال ہی کچھ کم لذت انگیز نہیں تھا لیکن جب دلالوں کے ہتھکنڈوں کا علم ہوا تو طبیعت بجھ گئی۔ دنیا کا دھندا تو چلتا رہا لیکن محبت کی پیاس کے مارے دل میں ہر دم کانٹا سا کھٹکنے لگا۔ گذشتہ دنوں اتوار کے روز وہ اپنے مکان کے سامنے چبوترے پر بیٹھا اخبار دیکھ رہا تھا کہ اس نے بیج ناتھ کو کامنی کے ہمراہ اپنی طرف آتے دیکھا دونوں کی آنکھیں چار ہونے پر بیج ناتھ نے کہا۔ ہم اجنبی ہیں ، مکان کی تلاش کر رہے ہیں کیا آپ ہماری مدد کر سکیں گے۔؟
یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ اس نے بڑی دوڑ دھوپ کے بعد اسے مکان دلوادیا۔ اگر چہ ان کے مکانوں کے درمیان میں کم فاصلہ نہیں تھا اس کے باوجود دونوں گھرانوں کے تعلقات گہرے ہوتے گئے۔ ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا، تقریبات میں شرکت کرنا کبھی کبھار تفریح کی غرض سے شہر سے باہر چلے جانا ان کے معمول میں داخل ہو گیا تھا۔ ایسے موقعوں پر کامنی اس کی طرف نگاہ غلط انداز سے دیکھ لیتی ۔ پہلی مرتبہ تو اس کا کلیجہ دھک دھک کرنے لگا۔ وہ سمجھا کہ اس کی نگاہوں نے دھوکا کھایا ہے لیکن جب دبی دبی مسکراہٹوں کا تبادلہ بھی ہونے لگا تو اسے محسوس ہوا کہ شاید وہ ایک دوسرے سے محبت بھی کر سکیں گے ۔ کبھی کبھی اس کا دل لعن طعن بھی کرتا لیکن پھر وہ اپنے دل کو یہ کہہ کر ڈھارس دے لیتا کہ کامنی کی ہی طرف سے تو آغاز ہوا ہے۔ کبھی سوچتا معمولی دل لگی ہی تو ہے ذرا کی ذرا چہل ہو جاتی ہے۔ دل بہلا رہتا ہے اس میں قباحت تو کوئی بات ہی نہیں۔ لیکن یہ سب ظاہر داریاں تھیں کیونکہ دل کی گہرائیوں میں وہ اچھی طرح محسوس کرنے لگا تھا کہ اسے کامنی سے محبت ہو گئی ہے۔راستہ چلتے چلتے وہ کامنی کی بابت سوچ رہا تھا۔ ابھی تک اس نے اسے چھوا تک نہیں تھا۔ شاید آج کوئی اہم واقعہ پیش آناممکن ہے کہ وہ اس پہلی محبوبہ کے بہت قریب پہنچ جائے۔ اب وہ اپنی گلی میں پہنچ چکا تھا۔ جیا پنواڑی کی دکان اس کے مکان کے قریب ہی تھی۔ دکان کے قریب سے ہو کر گزرتے وقت سلگتی رسی دیکھ کر اسے سگریٹ سلگانے کا خیال آیا۔ اگر کوئی دوست اسے ملنے کے لیے آتا تو گھر والوں کو خبر ہو یا نہ ہولیکن جیا ضرور اس بات کا خیال رکھتا۔ چنانچہ سگریٹ سلگا کر اس نے جیا سے پوچھا کیوں بے جئے! مجھے کوئی شخص ملنے کے لیے تو نہیں آیا تھا؟اس وقت جیا نسوار سونگھ رہا تھا۔ چھینک آنے ہی کو تھی۔ اس لیے منھ سے جواب نہ دے سکا کبھی اثبات میں سر ہلاتا کبھی نفی میں ۔ آخر معلوم ہوا کہ کوئی شخص نہیں آیا تھا۔ رکھی نے سگریٹ کا کش کھینچا اور گھر کی طرف بڑھا۔ دروازے کے آگے جو تین سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں، ان کی دو اینٹیں اکھڑ گئی تھیں، ہر دم ان پر سے پھسلنے کا اندیشہ لاحق رہتا تھا۔ اسے کئی مرتبہ خیال آیا کہ ان کی مرمت کروادی جائے لیکن لا پروائی کے عالم میں یہ کام پورا نہ ہو سکا۔ گھر کے اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ شانتا بڑے آئینے کے سامنے بیٹھی بال بنارہی ہے۔ معلوم ہوتا تھا، ابھی ابھی نہا کر آئی ہے اس وقت خاصی پیاری دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے دوست کہا کرتے۔ یار تمہاری عورت تو بہت حسین ہے۔ پھر بازاروں میں ادھر ادھر دھکے کھاتے کیوں پھرتے ہو؟شانتا نے بال ایک ہاتھ سے گھما کر آگے لاتے اور ان پر کنگھی کرتے ہوئے کہا۔جی میں نے آپ کا سامان تیار کر دیا ہے۔بھئی آج تو میں نہیں جاؤں گا ۔کیوں؟شانتا نے تعجب سے آنکھیں پھیلا کر پوچھا۔
جس شخص سے ملنا تھا وہ خود کل یہاں آ رہا ہے۔ نل بند تو نہیں ہوا؟ ذرا نہالوں۔ وه نسل خانے میں چلا گیا اور وہاں کا کروں تو سے الفت ہوگئی ہوگئی ۔ گا تا رہا۔ جب کپڑے پہن چکا تو بیوی نے پوچھا۔ اب کھانا کھا کر ہی باہر جائیے گا؟ نہیں بھئی مجھے دیر ہورہی ہے۔ ایک شخص سے ملنا ہے۔ کھانا باہر ہی کھاؤں گا ، انتظار میں مت بیٹھی رہنا۔حالانکہ اس کی بیوی کو اس پر کسی قسم کا شک نہیں تھا لیکن اس نے بیج ناتھ کے گھر کا نام جان بوجھ کر نہیں کیا آخر کیا فائدہ عورتیں وہیل تو ہوتی ہی ہیں۔ آئینے کے سامنے کھڑے کھڑے اس نے اپنی صورت کا جائزہ لیا اور اس سے خود ہی فیصلہ کیا کہ اس کی صورت بیج ناتھ سے کہیں بہتر ہے اور اگر کامنی اسے اپنے شوہر پر ترجیح دیتی ہے تو اسے اس کی خوش ذوقی کا ثبوت کہنا چاہیے۔خوب بن سنور کر اس نے اپنے آپ پر آخری نگاہ ڈالی۔کوٹ کی اوپر والی جیب میں رنگین رومال ٹھکانے سے رکھا، رخساروں پر ہاتھ پھیر کر ان کی ہمواری کا جائزہ لیا۔ ٹائی کی گرہ درست کی۔ پتلون کی کریز پہلو بدل بدل کر دیکھ۔ ہیٹ پر جمی ہوئی گرد کی باریک تہ چٹکی بجا بجا کر صاف کی۔ چاندی کا سگریٹ کیس جیب میں ڈالتے ہوئے اس نے ایک نظر بیوی کی طرف دیکھا۔ آج وہ واقعی حسین دکھائی دے رہی تھی۔ دونوں لڑکے نانا کے ہاں گئے ہوئے تھے۔ ان کی غیر موجودگی میں بیوی کو پیار کرنے میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں تھی لیکن وہ جلدی میں تھا اس لیے چھڑی گھماتا ہوا گھر سے باہر نکل آیا۔ ایک لمحے کے لیے اسے خیال آیا کہ اگر وہ سگریٹ کیس میں عبد اللہ ، کے سگریٹ رکھ لیتا تو بہتر ہوتا۔ وہ عبداللہ سگریٹوں کا بڑا مداح تھا اور انھیں خصوصا اس وقت پیتا تھا جب وہ خوش ہو ۔ اب سگریٹ لینے کے لیے واپس جانے میں اس نے بدشگونی سمجھی۔ اس لیے کوئے یار ہی کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ اس کا دل مسرور تھا۔ قدم بڑے بانکنا سے اٹھ رہے تھے ، ارد گرد کی چیزیں اجلی اور نئی سی دکھائی دے رہی تھیں۔ جیسے ہر چیز نے نیا جنم لیا ہو۔ اس میں چمک تھی اور حرکات سے چلبلا پن عیاں تھا۔ اپنی بیوی اور گھر سے دور وہ اپنے آپ کو آزاد پرندے کی طرح ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ وہ کالج کے اس چھو کرے کے مانند دکھائی دے رہا تھا جو گھر سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہو اور اب والدین کے روپے سے عشق لڑا رہا ہو۔ محض عورت کی حیثیت اس کے سامنے کچھ بھی نہیں تھی۔ وہ تو محبت کا بھوکا تھا، درد عشق کا خواہاں تھا۔ اصل چیز تو وہ جذ بہ یگانگی تھا جو وہ کمو کے لیے محسوس کر رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں کا منی کو پیار سے کم کہا کرتا تھا۔ اس کی یہی ایک تمنا تھی کہ اگر ان کی محبت پروان چڑھے اور دونوں کے دھڑکتے ہوئے سینے کسی روز مل جائیں تو وہ اسے پیاری کمو کہ کر بلائے ۔ کبھی کبھی جب وہ تصورات کے طلسم سے نکلتا تو سوچتا کیا معلوم اس کے نصیب میں حسین کا منی کی محض مسکراہٹ ہی لکھی ہو؟
آخر شام کے دھندلکے میں جب بیج ناتھ کا بلا پلستر کی اینٹوں کا بنا ہوا مکان نظر آنے لگا تو اس کے قدم ڈگمگانے لگے۔ یہاں تک وہ ایک مبہم لیکن مسحور کن جذبے کے ماتحت چلا آیا تھا، لیکن اب وہ سوچنے لگا کہ اسے ان کے گھر میں کس انداز سے داخل ہونا چاہیے؟ اس مسئلے کے کئی پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد اس نے یہ فیصلہ کیا کہ ان معاملات پر زیادہ تجویز میں سوچنے کی ضرورت نہیں۔ ہر حرکت بے تکلفانہ ہونی چاہیے۔ چنانچہ وہ بڑی بے تکلفی سے ان کے گھر کے اندر داخل ہو گیا۔ بڑے کمرے سے میاں بیوی کے ہنسنے اور باتیں کرنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں ۔ رکھی دروازے میں جا کھڑا ہوا۔ بیج ناتھ پاؤں پھیلائے کرسی کے بازو پر بیٹھا تھا۔ اس نے نئے کپڑے پہن رکھے تھے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ شاید وہ باہر جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ کا منی اس کی قمیص میں بٹن ٹانک رہی تھی اور وہ گار ہا تھا، بیوی بگڑ رہی تھی ۔ اب ذرا گا نا بند کر دیجیے نا سوئی چھاتی میں اتر جائے گی تو پھر نہ کہیے گا۔شوہر مسخرے پن سے بولا ۔ تم سے نہیں کہیں گے تو اور کس سے کہیں گے مائی ڈارلنگ ! اور ہمارا کون ہے ۔ اور پھر وہ نہایت بھونڈے انداز میں نتھنے پھلا پھلا کر شکستہ بانس کی سی آواز میں ایک فرسودہ سا گانا گانے لگا۔تیرا کون ہے،کسے کرتا تو پیار پیار پیار۔تیرا کون ہے۔۔۔تیرا کون ہے۔۔۔۔ہاں تیرا کون ہے۔اُدھر میاں بیوی میں یہ چہلیں ہو رہی تھیں ادھر چھ ماہ کا بچہ پالنے میں پڑا رورہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ بیج ناتھ اس وقت بڑے خوش گوار موڈ میں تھا۔ جوں جوں بیوی اس کی حرکات سے چڑتی توں توں وہ اسے اور زیادہ پریشان کیے جاتا۔ وہ جھنجھلا کر کہتی ۔ اب مٹکنا بند کیجیے، منارورہا ہے۔رکھی رام دو قدم آگے بڑھا اور اس نے کھانس کر انھیں اپنی آمد سے مطلع کر دیا۔ بیج ناتھ نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ پہلے تو حیران رہ گیا۔ پھر چلایا۔ ہلو ہلو! یا ر! میرا خیال تھا، اب تک تم گاڑی میں بیٹھے ہو گے۔رکھی نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے جواب دیا۔ نہیں بھئی، دہلی جانے کا پروگرام منسوخ ہو گیا ہے۔ کر پارام سے ملنا تھا، اس کا تار آیا ہے کہ کل وہ خود لاہور پہنچ رہا ہے۔اتنے میں کامنی نے بھی دونوں ہاتھ جوڑ کر نمستے کر دی ۔ جی نمستے! اس نے بڑی معصومیت اور اخلاق سے جواب دیا۔ منا رورہا تھا۔ کا منی اسے پیار سے پالنے میں سے اٹھا کر چپ کرانے کی کوشش کرنے لگی ۔ منا کیوں رورہا ہے؟ ہمارا منا کیوں رو رہا ہے؟ نا نا کیوں جی آپ کی منی بھی رو رہی تھی؟جی نہیں ۔رکھی نے جواب دیا۔ہماری منی تو سوئی پڑی تھی۔ آج کل ہمارے گھر میں بچوں کا شور بہت کم ہوتا ہے۔ گوشی اور جیو دونوں نانا کے ہاں گئے ہوئے تھے ۔ بچے ہیں نا۔ نئی جگہ ان کا دل بھی بہلا ہوا ہے۔ گھر میں بچاری منی ہے، سوچپ چاپ پڑی رہتی ہے۔
ناجی نا۔ ہمارا منا بھی تو نہیں روتا کامنی نے بچے کو پچکارتے ہوئے کہا۔آج تو اس کے بابوجی نے اسے رلا رلا کر ہلکان کر دیا ہے۔ میں ان کے بٹن ٹانک رہی تھی اور یہ ہل ہل کر گائے جاتے تھے، منا جاگ اٹھا اور رونے لگا۔جب وہ باتیں کر رہی تھی تو رکھی اس کے لچکیلے جسم اور تیزی سے ہلتے ہوئے ہونٹوں کی طرف دیکھتا رہا۔ اس وقت سج دھج کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا لیکن معمولی گھر یلو لباس میں بھی وہ کس قدر حسین دکھائی دے رہی تھی اور پھر دفعتنا جو اسے کچھ خیال آیا تو بیج ناتھ سے مخاطب ہو کر بولا ۔ یار معلوم ہوتا ہے کہ تم باہر جانے کی تیار کر رہے تھے۔ میں تو یوں ہی ادھر چلا آیا۔ اگر تم کسی کام سے جارہے تھے تو چلو ۔نہیں بھئی، مجھ سے یہ نہ ہوگا۔ کامنی نے بچے کو گود میں جھلاتے ہوئے کہا۔ آج ان کی دعوت ہے کہیں ۔واقعی بھئی واہ اب تو میں تمھارا راستہ نہیں روکنا چاہتا۔ ضرور جاؤ تکلف کی ضرورت ہی کیا ہے؟نہیں، اب میں نہیں جاؤں گا۔ تم اتنی دور سے آئے ہو، اب تو مل کر باتیں کریں گے ۔ اور ہاں، جیلانی کے ہاں برج کھیلنے کیوں نہ چلیں ؟لیکن رکھی کو اپنی حرکت بہت نا مناسب معلوم ہورہی تھی ۔ بیج بھائی اپنا پروگرام خراب مت کرو۔ میں تو یونہی چلا آیا تھا بس اب سیر کرتے ہوئے گھر چلاؤں گا۔ یہ ذرا بد تمیزی کی بات ہے کہ میری وجہ سے تمھارا میزبان پریشان ہو اور پھر ہم دونوں میں تکلف بھی تو نہ ہونا چاہیے۔ بیج ناتھ چند لمحوں تک چپ رہا، پھر بولا ۔ اتنی دور سے آئے ہو، ہم دونوں کا وقت خوب کٹ سکتا ہے۔ ہاں یار، ایک اور بات سوجھی ہے مجھے،تم یہیں بیٹھو اور میں ذرا کھانا کھا کر زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے کے اندر واپس آ جاؤں گا۔ میری واپسی تک تم کھانا بھی یہیں کھا لو گے اور پھر ہم جیلانی کے ہاں چلیں گے ۔ بڑے مزے کا شخص ہے، گپ بھی اڑے گی اور برج بھی کھلے گی۔رکھی کا دل اچھل کر جیسے حلق میں آرہا۔ ایک گھنٹے کے لیے وہ اور کامنی تنہا رہ جائیں گے گودی کامنا تو سو ہی جائے گا اس سے بڑا چار سالہ لڑکا بھی سلایا جاسکے گا۔ اس نے تیزی سے اچٹتی ہوئی نگاہ کامنی پر ڈالی ۔ گونا گوں جذبات کے ہجوم میں وہ کچھ نہ بول سکا۔ بیج ناتھ کہتا چلا گیا۔ کہو یا رکیسی رہی؟ بھئی کہیں جانا نہیں ۔ تمھیں میرے سر کی قسم ! میں بہت دور نہیں جارہا ہوں ۔ یہی اپنے ڈاکٹر شرما کے ہاں تو دعوت ہے۔ تم شاید نہیں جانتے ۔ تمھارے راستے ہی میں تو مکان پڑتا ہے۔ اچھا تو وعدہ کرو، تم نہیں جاؤ گے۔ یہ نہ ہو کہ میں بھاگم بھاگ واپس پہنچوں اور تم غائب ہو جاؤ۔ بس آج شاندار پروگرام رہے گا ۔رکھی چپ کھڑا رہا، بھلا وہ کہاں جاسکتا تھا؟ اسے یقین نہیں آتا تھا کہ تقدیر بھی اس قدر اچھی ہو سکتی ہے۔ وہ ایک موہوم سی امید پر یہاں آیا تھا۔ ادھر بھگوان نے بھگت کی پرارتھنا قبول کر کے خود اپنے ہاتھ سے اس کے راستے کا کانٹا صاف کر دیا تھا۔لو یہ رہے سگریٹ اور یہ رہا ویکلی۔کمو! انھیں روٹی کھلادینا، ذرا خیال رکھنا، بھاگ نہ جائیں کہیں، میں چٹکی بجاتے میں آیا۔یہ کہہ کر وہ جلدی جلدی پتلون کے بٹن لگانے لگا ، برش سے بال ہموار کیے، ٹائی کی گرہ ڈھیلی کر کے اگلا پلو نیچے اوپر کیا۔ پھر تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا باہر والے دروازے کی طرف بڑھا۔ کامنی پکار کر بولی ۔ ہائے کیسے بھاگے جارہے ہیں۔ گھر سے باہر جانا ہوتو پاؤں زمین پر لگتے ہی نہیں ۔ اب جلدی لوٹ آئے گا۔ہاں بھئی ، لوٹ آؤں گا۔ لوگ ہمارا ایندھن اٹھا اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ اس کی فکر کیا کرو۔ ڈیوڑھی کا دروازہ بند کر لو ۔ اچھا یار میں چلا۔ڈیوڑھی کا دروازہ بند کر کے کامنی بیٹھک کی کھڑکی کے قریب آکھڑی ہوئی۔ ایک مرتبہ پھر شوہر سے آنکھیں چار ہوئیں۔ شوہر نے ہوا میں ہاتھ بلند کر کے ہلا دیا۔ وہ وہاں چپ کھڑی اسے گلی کے نکڑ سے غائب ہوتے ہوئے دیکھتی رہی ۔ اس اثنا میں رکھی بھی چپکے سے دیوار سے لگ کر اس کے قریب کھڑا ہو گیا تھا۔ کچھ دیر تک کامنی سنسان گلی کی جانب دیکھتی رہی ۔ پھر اس کا ہاتھ اوپر اٹھ کر بجلی کے بٹن کی طرف بڑھا اور دوسرے لمحے میں بجلی کا بلب بجھ گیا اور فرش پر بچھی ہوئی دری پر کھڑکی میں سے آتی ہوئی چاندنی پھیل گئی۔ رکھی نے بازو بڑھایا جو کامنی کے پیٹ سے ہوتا ہوا اس کے گوشت سے بھر پور کو لھے پر جا کر ٹک گیا کامنی کی کمر ہلکی سی لرزش کے بعد ساکن ہوگئی۔ وہ اور قریب ہو کر اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ ان دونوں کی آنکھیں چار نہیں ہوئیں لیکن کامنی کی کمرنے ہلکی سی لرزش کے بعد سکون اختیار کر کے گویا اس کے سوال کا جواب اثبات میں دے دیا تھا۔وہ خاموش کھڑی تھی۔ دو ایک مرتبہ رکھی کے لبوں سے نکلتی ہوئی دردمحبت میں ڈوبی ہوئی نہایت مدھم سی آواز سنائی دی ۔ کمو کمو۔بی بی جی ابی، بی، جی ابڑے لڑکے کی پکار سنائی دی۔وہ بلند آواز میں بولی ۔ آئی بیٹا! آئی بیٹھے رہو و ہیں ۔ رکھی کی گرفت ڈھیلی پڑگئی اور وہ ذرا پرے سرک گئی۔ سنو کموسنو ۔ اس کی آواز بری طرح لز رہی تھی۔
کامنی دو قدم پر دیوار سے پیٹھ لگائے دونوں ہتھیلیاں دیوار پر ٹکائے سر نیہوڑائے کھڑی تھی۔ کمرے کی فضا خواب ناک تھی ، ہر طرف سرمئی غبار سا چھایا ہوا تھا۔ کامنی کی مدھم شبیہ حسین مجسمے کی مانند دکھائی دے رہی تھی ۔ صرف اس کی چھاتیوں کے زیر و بم سے پتہ چلتا تھا کہ وہ بے جان مورتی نہیں ہے ۔ کمو! سنو میں تم سے محبت کرتا ہوں۔میں تم سے محبت کرتا ہوں! کیسے فرسودہ الفاظ تھے ؟ جنھیں اس نے بیسیوں مرتبہ کتابوں میں پڑھا تھا فلم کے پردے پر سات تھا لیکن آج وہ یہ فقرے اس طرح ادا کر رہا تھا کہ جیسے یہ اسی کی اختراع ہو۔ جواب میں کامنی نے پلکیں اوپر اٹھا ئیں اور ایک مرتبہ بھر پور نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور پھر سپردگی کے انداز میں پلکیں جھکا کر رہ گئی۔ وہ بجلی کے کوندے کی طرح آگے بڑھا۔اس کی کمر بازووں میں لے کر اسے اپنی طرف کھینچا تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس نے پھولوں کی نازک ڈالی پکڑ کے جھنجھنا دی ہو۔ اس کا جسم سر سے پاؤں تک کامنی کے نرم اور لچکیلے جسم کے لمس سے محظوظ ہونے لگا۔ایک اور شدید اور فوری جذبے کے تحت اس نے نہ معلوم کس کس طرح اسے بھینچا۔ چوما اور پھر لڑکے کی پکار کی آواز میں، ہتھوڑوں کے دھمکیوں کی طرح سنائی دینے لگیں اور پھر کامنی اڑتی ہوئی خوشبو کی طرح اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔وہ کمرے میں تن تنہا کھڑا رہ گیا۔ کھڑکیوں میں داخل ہونے والی چاند کی روشنی میں کرسیاں، تپائیاں، تصویریں، پردے اور کتا ہیں ، غرض ہر شے خوابناک اور ساکن دکھائی دے رہی تھی ۔ صرف اس کی ٹانگیں اور بازولرزاں تھے، سانس تیزی سے چل رہی تھی ۔ غیر ارادی طور پر اس کے لبوں سے چند غیر مبہم سی آوازیں نکلی گئیں۔ کچھ دیر تک وہ خلا میں گھور گھور کر دیکھتا رہا۔ ایک مرتبہ احساس گناہ کی شدت سے کانپ بھی اٹھا لیکن صرف ایک لمحے کے لیے ، پھر اس نے رومال سے منھ اور پیشانی صاف کی ، کپڑوں کی سلوٹیں اور کوٹ کی جھوٹی کھائی ہوئی آستینیں کھینچ کر ہموار کیں ۔ پھر دھیرے دھیرے قدم اٹھا تا ہوا صحن میں باورچی خانے کی جانب بڑھا۔ کامنی چولھے کے قریب بیٹھی دیگچی میں چمچ چلا رہی تھی ۔ اس کا بڑا لڑکا اس کے گھٹنے کے ساتھ لا ہوا اونگھ رہا تھا۔ وہ چولھے میں لپلپاتے ہوئے شعلوں کی روشنی میں کامنی کے دسکتے ہوئے چہرے کی طرف دیکھتارہا۔ باہمی کشمکش میں کامنی کے بال پریشان ہو گئے تھے۔ گال سرخ ہو گئے تھے قمیص دو تین مقامات سے مسلک گئی تھی۔ یہ سب اسی کی دست درازیوں کے نتائج تھے، اس خیال سے وہ ایک نئی لذت کے احساس میں گم ہو گیا۔ بظاہر کامنی اس کی آمد سے بے خبر دکھائی دیتی تھی۔ وہ اپنے کام میں مصروف رہی۔ بچے کو اونگھتا ہوا دیکھ کر اس نے کہا۔ چلو تمھیں سلا دوں ۔ اور اسے سلانے کے لیے اندر چلی گئی۔ رکھی چولھے کے قریب ایک اسٹول پر بیٹھ گیا۔ وہ دل ہی دل کا جائزہ لینے لگا۔ کامنی پھر چولھے کے قریب آ بیٹھی ۔ اس کی حرکات سے کسی غیر معمولی واقعے کا اظہار نہیں ہوتا تھا۔ دیچی چولھے سے اتار کر اس نے توا رکھ دیا اور آٹا توڑ کر پیڑا بنانے لگی اور اس سے آنکھیں ملائے بغیر بولی۔ آپ کو سردی لگ رہی ہوگی ۔ چولھے کے قریب آ جائیے نا ۔ واقعی سردی بہت سخت پڑ رہی ہے۔ یہ کہ کر اس نے اسٹول کھسکایا اور چولھے کے قریب آگیا رکھی کی نظریں اس کے رخساروں، آنکھوں اور تیزی سے جنبش کرتے ہوئے ہونٹوں اور ہاتھوں کی حرکات پر جمی ہوئی تھیں۔ رکھی دل میں وہ بے چین تشنگی بڑی شدت سے محسوس کر رہا تھا، جو پیا سے ہونٹوں سے شربت کا گلاس پرے ہٹ جانے سے محسوس ہونے لگتی ہے۔ کامنی نے روٹی الٹتے ہوئے کہا۔آپ کو بھوک تو لگ رہی ہوگی ۔اس نے اٹھ کر کامنی کے رخسار پر ہونٹ رکھ دیے۔ نہیں کمو! مجھے بھوک نہیں لگ رہی ۔ یہ کہہ کر وہ اسے اپنے بازوؤں میں سمیٹنے کی کوشش کرنے لگا۔ کامنی نے اپنے آپ کو اس کی مرضی پر چھوڑتے ہوئے کہا مجھے روٹی تو پکا لینے دیجئے ۔نہیں جان سے پیاری کمو ! روٹیاں پھر پکا لیتا۔ یہ کہہ کر اس نے ہاتھ مار کر توا چولھے سے گرا دیا۔ وہ خوش تھا اور سرتا پا نشے میں ڈوبا ہوا تھا۔ اب وہ بیٹھک میں دری پر لیٹا ہوا تھا، ٹانگیں اٹھا کر قریب بچھی ہوئی کرسی پر پاؤں ٹکار رکھے تھے اور بجلی کی جگمگاتی ہوئی روشنی میں ویکلی کا پرچہ پیٹ پر دھرے اس کی ورق گردانی کر رہا تھا۔ ایک مرتبہ پھر کامنی چولھے کے آگے بیٹھی اس کے لیے پراٹھے پکارہی تھی۔ اس روز سے پہلے زندگی کے جو دن گزر چکے تھے، وہ بالکل بے کیف نظر آنے لگے تھے۔ یہ مسرت ، یہ لذت اس نے پہلے کبھی محسوس نہ کی تھی۔ دل مطمئن تھا، جس ہلکا پھلکا اور چست محسوس ہورہاتھا۔ روح پر نا قابل بیان کیف طاری تھا آج کامنی اور وہ ایک ہو گئے تھے۔ کھانا تیار ہو گیا تو انھوں نے ایک ساتھ مل کر کھایا۔ ایک دوسرے کے منھ سے منھ ملا کر نوالے چھینتے رہے۔ ہنسی مذاق اور چہل میں وقت گزر گیا اور آخر دروازے پر دستک سنائی دی۔ کامنی نے دروازہ کھولا، بیج ناتھ کا معصوم چہرہ دیکھ کر رکھی کے دل میں فتور پیدا ہو گیا لیکن کامنی آڑے آئی آپ کے دوست تو اٹھ اٹھ کر بھاگ رہے تھے۔ بڑی مشکل سے بٹھائے رکھا میں نے ۔بیج ناتھ نے بے تکلفانہ اس کے کندھے پر ہاتھ مار کر کہا۔یار کمال کرتے ہو۔ آخر گھبرانے کی کیا بات تھی؟ دوست کی سادگی اور اخلاص دیکھ کر رکھی کو شرم ہی محسوس ہونے لگی۔ اور وہ کچھ بھی نہ کہ سکا۔کہو کھانا کھا لیا؟ہاں آؤ تو چلو جیلانی کے یہاں۔راستے میں بیج ناتھ دعوت کی باتیں کرتا رہا۔ کہنے لگاڈاکٹرشر ما میرے بہت گہرے دوستوں میں سے ہیں۔ بڑے پریم سے کھانا کھلایا۔ واپس نہیں آنے دیتے تھے۔ہزار حیلوں سے جان چھڑا کر آیا ہوں۔ جب وہ جیلانی کے ہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کے ہاں کوئی فوجی رشتے دار باہر سے آئے ہوئے ہیں اس لیے وہ برج نہ کھیل سکیں گے۔ ان کا پروگرام درہم برہم ہو گیا۔ خیر، وہ کچھ دیر تک ادھر ادھر ٹہلتے رہے۔ پھر بیج ناتھ نے کہا۔ آؤ گھر بیٹھیں۔ سردی بہت زیادہ ہے۔
بھئی اب اجازت دو۔ اب میں گھر واپس جاتا ہوں، پھر ملاقات ہوگی۔چنانچہ مصافحہ کر کے وہ ایک دوسرے سے رخصت ہو لیے۔ آج کے مسرت انگیز واقعے سے اس کا دل اگر چہ مسرور تھا لیکن دوست سے اس پاجی پن کے باعث ضمیر ملامت بھی کرتا تھا اور جب وہ اپنے گھر کے قریب پہنچا تو اپنی نیک اور معصوم بیوی کے تصور سے اس کا دل اور بوجھل ہو گیا۔ بے چاری سردی میں ٹھٹھری ہوئی آگ کے قریب بیٹھی اس کا انتظار کر رہی ہوگی۔جب وہ جیا کی دکان کے قریب پہنچا تو حسب معمول اس سے پوچھا۔ کیوں بے جیے! کوئی آیا تو نہیں تھا ہمیں ملنے کے لیے؟جیا نے سراو پر اٹھایا۔اجی بیج ناتھ بابو۔ آئے تھے، سیدھے بھیتر چلے گئے ، مجھ سے تو کچھ بول نہیں۔ جب آپ نہیں آئے تو بیچارے انتجار کر کے چلے گئے ۔بیج ناتھ! اس کے حلق سے ہلکی سی چیخ نکل گئی اور وہ ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا۔ہاں جی! بیج ناتھ بابو۔دکان سے مکان تک چند قدم کا فاصلہ اس نے بہت آہستہ آہستہ طے کیا۔ جب وہ سیڑھیوں پر قدم رکھنے لگا تو اس نے دیکھا کہ اکھڑی ہوئی دو اینٹیں پھر اپنی جگہ سے ہٹ گئی ہیں۔ اس نے احتیاط سے انھیں ٹاز کر رکھ دیا اور پھر ایک لمےا بھر کے سکوت کے بعد اس کے منھ سے مدھم سی ہنسی نکل گئی اور جب وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو وہاں ہر چیز جانی پہچانی تھی ۔ ماحول پر سکون اور آرام دہ محسوس ہورہا تھا۔ اس کی بیوی اندر والے دروازے میں کھڑی دکھائی دی۔ وہ اس وقت نو شگفتہ پھول کے مانند ترو تازہ اور اجلی دکھائی دے رہی تھی۔ وہ پھول جس کا منھ شبنم نے بڑی احتیاط سے دھوڈالا ہو، جس پر جمی ہوئی گرد کی نا معلوم تہہ کسی نے چوم لی ہو۔ وہ بڑے کوچ پر بیٹھ گیا۔ شانتا شاخ گل کی طرح لچکتی ہوئی نزدیک آئی اور اس کے قریب کوچ میں دھنس گئی۔ اس نے سر سے پاؤں تک بیوی کا جائزہ لیا اور مسکرا کر بولا ۔ شنو! آج تو بہت خوش دکھائی دیتی ہو۔اپنے مخصوص انداز میں بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ لجا کر مسکرا دی۔ اس کے ترو تازہ ہونٹوں سے سپید سپید دانت کسی حد تک نمایاں ہوئے اور اس نے بلا کچھ کہے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس کے کندھے پر رخسار ٹکا دیا۔ شنو کی نیند کی ماتی پلکیں بوجھل ہو کر جھکنے لگیں۔ وہ چندلمحوں تک شنو کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر اس کی پیٹھ پر ہلکی سی تھپکی دے کر بولا۔میں بھی بہت خوش ہوں شنو! ذرا ادھر لاؤ تو عبد اللہ سگریٹوں کا ڈبہ۔۔۔
مصنف:بلونت سنگھ