کرفیو سخت ہے

0
263
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

سورج کہیں لاپتہ ہو چکا تھا۔ یا کسی نے اس کے چہرے پر نقاب ڈال دی تھی۔۔۔یا پھر کوئی دبیز ساکمبل اوڑھکر اوندھے لیٹ گیا تھا سورج اب جبکہ سورج لا پتہ ہو چکا ہے۔ساری باتیں زمین کے حوالے سارے معرکے اندھیروں سے ان اندھیروں میں پیلیا روشنی لیے بیرسٹرداہر کا کمرہ!دیواروں پر کتابوں کے لیے لمبے لمبے شیلف بھلا دی جانیوالی ساری بڑی بڑی کتابوں کا مدفن ۔ کل ملا کر یہ کمرہ بوسیدگی کی طرف مائل تھا۔ دیواروں پر سفیدی برسوں سے نہیں ہوئی تھی۔ شیلف کے شیشے جابجاٹوٹے ہوئے تھے ۔ چمگاڈروں اور کبوتروں نے گھونسلے بنارکھے تھے ۔ کوئی کوئی کتاب شیلف سے باہر آتی ہوئی اٹک گئی تھی جسے مکڑیوں نے جالے بن کر انہیں نیچے گرنے سے روک دیا تھا۔ میز کرسیاں، کھڑکیوں کے پٹ، سب گرد آلود تھے ۔ پرانی وضع کا ایک بجلی پنکھا اور مخدوش لیمپ شڈ چھت سے لٹک رہے تھے۔ اس میں لگا نحیف سابلب جلنے پر بھی بجھا بجھا سا لگ رہا تھا، بجھی کیفیت میں جلتے ہوئے اس بلب کے نیچے ایک گول میز تھی جس پر تین سروں کے سائے گڈمڈ ہورہے تھے۔داہر کے سامنے قاسم اور اس کا ایک محر ر بیٹھے تھے، داہر پے ور پے کئی مقدمے ہار کر اپنی وکالت کی ساکھ بگاڑ چکے تھے۔ امام فیملی کے ایڈوکیٹ قاسم نے بھی راہر کو ایک بھاری شکست دی تھی اور اس کے بیرسٹر داہر اپنے موکلوں کے لیے گمنام ہوتے چلے گئے تھے۔ شکست و فتح اپنی جگہ، دونوں کے ذاتی تعلقات بہت گہرے تھے، کورٹ کے باہر دونوں ایک دوسرے کے زبردست حلیف تھے، مگر سورج کے اچانک غائب ہو جانے پر قاسم ہیبت ناک مقدمے میں پھنس گیا تھا۔ داہر، قاسم اور محرر تینوں کے چہروں پر تناؤ تھا۔ کمرے کی پھیکی روشنی بھی فی الوقت ان کے لیے چمکتی ہی امید تھی، کیونکہ کمرے سے باہر کی روشنی، روشنی جیسی تو تھی پر روشنی ہر گز نہ تھی۔ کمرے کی تیرہ بختی سے کہیں زیادہ بد بختیاں کمرے کے باہر کھڑی تھیں۔ خموشی، سناٹا سکڑن ہیلین ، شاید یہ کمرہ اپنی خستہ حالی کے سبب بیرونی عذابوں سے بیچ گیا تھا۔ ورنہ اس کے بغل والا مکان خشت خشت چھٹک کر ڈھیر ہو چکا تھا۔

ملبے کے اوپر پہرہ لگا دیا گیا تھا۔تم پتے پھینٹوں میں باہر جھانک کر آتا ہوں۔کھڑ کی مت کھولنا سن سے گولی اندر آجائیگی کبھی اندر جھانک کر دیکھا نہیں۔ باہر جھانکنے سے کیا فائدہ جبکہ اب باہر دیکھنے کو کچھ بھی نہیں ۔جب بغل والا مکان خشت ڈھیر ہورہا تھا تب کھولی تھی کھڑکی تب تو آنکھیں موندلی تھیں شترمرغ کی طرح ویسے میں نے دیکھا تھا کھڑکی کھول کر ۔کب؟جب سورج نقاب بند کیا جارہا تھا۔ اندھیارا دھیرے دھیرے زمین پر اتر رہا تھا۔شاید اسی وقت جب میں تمہاری طرف آرہا تھا یہ جانے بغیر کہ باہر گولیوں کا پہرہ ہے کی آواز پر نہ رکتا اور دونوں ہاتھ اوپر نہ اٹھا تا تو شاید وہیں سڑک پر ڈھیر کر دیا جاتا۔یک بیک بجلی چلی گئی،۔۔۔میز نے سایوں کو جذب کر لیا۔ باہر کی سنگینی کمرے میں در آئی۔دروازہ بولٹ ہے نا۔بولٹ ہے مگر ادھر ادھر مت پھرو ایک ذراسی آواز آفت ڈھا سکتی ہے۔اب تو تاش بھی نہیں کھیل سکتے ۔ ڈھیر سارے وقت کا ہم کیا کریں گے؟بیان جاری رکھو مگر سر گوشیوں میں۔ جب دھیرے دھیرے زمین پر اندھیرا اتر رہا تھا تو۔۔۔تو میرے کانوں کو محسوس ہوا دور کہیں دور ایک آواز گشت کر رہی ہے۔کیسی آواز تھی۔ اذ ان تھی شاید جو میلوں میل گشت کرتی میرے کانوں تک پہنچ رہی تھی ۔ پھر! پھر میں نے دیکھا بغل والے منہدم مکان کے ملبے سے لہولہان لوگ سر پرٹو پیاں رکھے باہر آرہے ہیں۔کیا اس مکان کے مکین ملبے میں دب کر مرے نہیں ؟ زندگی اور موت کا پتا نہیں۔ ان کے چہروں کی بے خوفی زندگی کی تھی یا موت کی میں طے نہیں کر پایا۔پھر کوئی شئے ادھر سے ادھر ہوئی۔ ٹھیک سے کسی چیز کے گرنے کی آواز ملی۔ تینوں سہم کر چپ ہو گئے ۔ شاید شیلف سے باہر نکلی ہوئی کسی کتاب سے چمگا ڈر ٹکرا گئی تھی۔

کچھ نہیں ، کتاب گری ہے اوپر سے۔ شیلف کے سارے شیشے چور ہورہے ہیں۔ آہستہ آہستہ کوئی دن یہ ساری کتابیں گر پڑینگی زمین پر،تب کیا ہوگا مسٹر داہر ؟ وہی ہوگا جو کتابوں کے آنے سے پہلے ہوا تھا۔تم کہہ رہے تھے کہ ملبے سے لوگ باہر آرہے تھے ۔ہاں وہ باہر آرہے تھے۔ مگر آواز کی طرف روانہ ہونے سے قبل اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھالیتے ۔ کرفیو میں ایسا نہ کرنے سے گولی مار دی جاتی ہے۔ داہر کی بیٹی درگا چائے کی تین پیالیاں اسی اندھیرے میں لے کر آگئی۔ شاید اسے احساس ہو چلا تھا کہ کمرے میں محبوس قاسم اور اس کا محررا سکے بغیر بڑی بے کلی محسوس کر رہے ہوں گے۔ در گانے اندھیرے میں بیحد احتیاط کے ساتھ تینوں چائے کی پیالیاں بڑھا ئیں مگر چائے انہیں یا دہی نہ تھی، بیان جاری تھا۔ پھر میں نے بہت غور سے آواز سنی۔ اذان تھی وہ آواز ۔ دونوں ہاتھ اٹھائے لوگ قطاروں میں آواز کی جانب بھاگے جارہے تھے۔بڑا عجیب منظر تھا۔عجیب منظر ۔ مجھے نہ جانے کتنے منظر، کتنے لوگ نظر آئے سب لہو لہان ۔ مگر رواں۔تم دیکھ کر، ہم دونوں سن کر حیران ہیں ۔ کیا اب بھی باہر یہی منظر ہو گا ۔مجھے یقین ہے کہ اب بھی باہر یہی منظر ہوگا۔ جب تک جائے نماز نہ مل جائے یہ لوگ ملبوں سے لہو میں ڈوبے نکلتے رہیں گے ۔مگر ہم نے کھڑکیاں بند کرلیں ہیں۔ ہم گوشہ عافیت میں پڑے ہیں ۔ جاؤ ذرا کھڑکی کھولو اور سنو، کیا آواز اب بھی آرہی ہے؟نہیں کھڑکی کی طرف مت جاؤ ورنہ یہ مکان بھی ملےن میں بدل جائے گا۔مگر ملبے سے ہی تو زندہ لوگ برآمد ہوتے ہیں، صالحین نے جو کچھ کہا تم نے سنا نہیں۔کیوں نہ ہم بھی۔۔۔داہر ہم بھی اس آواز کی طرف روانہ ہونا چاہیں گے ۔ شاید ہمیں بھی نمازیل جائے ۔مگر جانے سے پہلے ہمیں داہر کے کمرے سے چمگادڑ کو بھگا دینا ہوگا ورنہ یہ ساری کتابیں زمین پر گرادیں گی۔اندھیرے میں چمگادڑ کی خوب سو جھی۔اسلاف کی چھوڑی ہوئی کتابیں چمگادڑیں زمین پر گرا دیں۔ اچھا نہیں ہوگا۔سکتا بیں چمگاڈروں سے برباد نہیں ہوتیں بھائی قاسم اور اس کا محرر، صالحین دونوں داہر کے ہاتھوں کو چھو کر باہر جانے کی اجازت طلب کرنےلگے، داہر نے دونوں کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیے۔۔باہر کر فیو سخت ہے، ڈھیل ملتے ہی چلے جانا۔۔اب کبھی ڈھیل نہیں ملے گے، لوگ ملبوں سے نکل کر جارہے ہیں، ہمیں بھی نماز ادا کرنی ہے۔۔داہر نے بدقت تمام انہیں جانے کی اجازت دے دی، دروازے کا بولٹ کھول کر دونوں دھیرے دھیرے باہر آئے ۔ باہر پھیکی پھیکی روشنی تھی کرخت آواز ابھری۔ ۔۔ہاتھ اوپر۔۔دونوں نے ہاتھ اوپر اٹھائے اور اسی آواز کی طرف روانہ ہو گئے ۔ ہر دو چار مکانوں کے بعد انہیں ملبے نظر آئے اور ان ملبوں سے لہولہان لوگ نکلتے نظر آئے ، جہاں کہیں سے بھی اذان کی آواز آرہی تھی، وہاں مسجد ضرور ہوگی۔ ہزار ہاپل بیتتے چلے جارہے تھے ۔ ان لوگوں نے بھی ہاتھ اوپر اٹھائے اٹھائے کتنا لمبا سفر طے کیا۔ مگر ایک نقطہ بھی آیا جہاں انہیں آواز کا آخری سرامل گیا۔ لوگ نماز کے لیے باجماعت کھڑے تھے اور سب کے ہاتھ اوپر اٹھے تھے۔دہ دونوں بھی جماعت میں کھڑے ہو گئے مگر انہیں حیرت اس وقت ہوئی جب ان کے ہاتھ بھی اوپر سے نیچے نہ آسکے۔۔۔

مصنف:انیس رفیع

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -
- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here