چوماسہ کی اندھیاری رات تھی،بھیگی بھیگی ٹھنڈی ہوا چلتی تھی،جھینگروں نے جھنکار مچارکھی تھی۔ مینڈک بول رہے تھے ٹرٹرٹر، پیپل کے سوکھے ڈگالے پر الو کہتا تھا ہک ہو، ہک ہو۔بسنتی نے کروٹ لی، پھر منھ پر تھپڑ مارا، بولی ۔ہائے رےارے رام کیسے ڈانس لا گیں ۔پیپل پر الو بولا ۔ ہک ہو ہک ہو ۔چھ مہینے کا بچہ پاس لیٹا تھا۔ اس پر ہاتھ رکھ لیا اور بسنتی بولی ۔ مری جائے پھر آئے بیٹھا۔ بولت۔۔کیسے ناس پیٹا۔ہک ہو ہک ہو۔اجی۔۔۔اوجی۔۔۔اٹھونا گھگھو بولےموہے ڈرلا گے۔مادھو نے اس کا ہاتھ جھٹکا، بولا ۔ سون دے ری ۔ اری نہ کھائے لے تو ہے۔اٹھوجی اٹھو۔ موہے ڈرلا گے تنی اڑائے دے۔ اونھو ۔مادھو۔۔ادھ سے توراڈر۔۔کہتا ہوآنکھیں ملتا ہوا اٹھا۔ کھٹیا سے نیچے پیرلٹکایا جلدی سے پھر اوپر کھینچ لیا۔ گھبرا کر پھر نیچے دیکھا، پھر ادھر ادھر دیکھا۔ چھوٹا سا کچا گھر،پھوٹی چمنی کی دھوئیں سے کالی لالٹین تھی۔ دھیمی روشنی میں آنگن بھر جھلملا رہا تھا گھر بھر میں پانی بھرا تھا۔مادھو بولا ۔ جوکا ہوارے بسنتی گھبرا کر اٹھی۔ بولیا دیکھت کا ہو۔ ہرے رام بھی کا کو جگا لو۔ ارے رمکلیا کو جگالو۔ ارے ان ہن کی پیڑھی لو۔ پانی آئے گیارے، ارے او پھیکا ۔ رمکلیا ہو،اری اور مکلیا۔ سوئے جات دے۔ ارے اٹھ اٹھ اور بھی کا۔آٹھ برس کی دبلی پتلی رمکلیا جا گی۔ چھ برس کا بھی کا جا گا۔ دودھ پیتا پاس لیٹا بچہ جا گا۔ یہ رویاوہ چلائے اری میاری موہے لیے لے با پورے اری میاری چپ کرو چپ ۔ مادھو نے نے ڈانٹا، خاموشی میں مادھو نے کان لگائے۔ بسنتی نے دھیان دیا۔ دور کہیں سے آواز آ رہی تھی گڑپ شل شل ، گڑپ شل شل شل۔گھگو بولا ہک ہو۔ بنتی روتی ہوئی چلائی ۔ ارے پر تم بہیا آئی گئی۔ ارے مورے بچے کی جورے ۔ کھٹولے سے کود پانی میں چھپاتے بچے ماں سے چھٹے، مادھو اٹھا، دیکھنے کو دروازے کی طرف چلا۔ بسنتی روئی اجی جاوت کہاں ہو جی۔
باہر سے آواز آئی ۔ مادھو بھیا ہوا، او مادھو ۔ ارے باڑھ آئی ، اٹھور ہے اٹھ ۔شرپ، گڑپ شل شل شل ۔ پانی بہنے کی آواز تیزی سے بڑھ رہی تھی۔م۔۔م میں بکری بولی ۔ ماں ہاں آں ماں ہاں ہاں کہیں گھنیاں چلا رہی تھیں ۔ بارہ گھر کے گوجر پردے میں ہلچل مچ گئی۔ سب جاگ اٹھے۔ سب بھاگنے لگے ۔کوئی پکارتا تھا، کوئی روتا تھا۔ مادھو نے رمکلیا کو کوٹھے کی سیڑھیوں پر کھڑا کر دیا۔ بھیر کا کو گود میں لیا اور سامان رکھنے اور اٹھانے میں لگ گیا۔ بسنتی نے گود والی لڑکی کو دبائے دبائے چون کی لکی اٹھائی ، تیرتی ہنڈیا پکڑی۔ مٹکا کر ایا ہوا پرے سے نکلا جاتا تھا۔ اسے پیر سے روکا، کھٹیا نے سر ہلایا، پھر وہ بھی گھومی دری بچھورا کھتری سب کچھ اس پر تھا۔ لودہ بھی چلی۔ گھر کے باہر آدمی اور جانور چلارہے تھے ۔ گھر کے اندر مکلیا اور بھی کا رور ہے تھے ۔ پانی کا شور اندر اور باہر سب جگہ تھا۔ بسنتی اور مادھو گھر کے سامان میں لگے تھے ۔ شور ہوا۔ بھا گو بھا گو۔اور بسنتی نکل ، ارے مادھو بھاگ ۔پانی نے بچکولالیا۔ پنڈلی سے اچکا، رانوں نے آیا۔بھا گوبھا گو۔ مادھو بھیا بھا گورے، ارے کا ہوئے گیا۔ نکلت کا ہے نا نہیں۔ باہر سے آواز میں آئی۔ پانی نے پھر بچکولا لیا ، آگے بڑھا، پیچھے ہٹا اور ان سے کمر تک آیا۔ بسنتی روئی ۔ارے مورے گڑوے۔ ارے موری ہنسلی تو نکال لے رہے ۔چل چل تو چل نکل۔ میں لایا۔ ارے نون چون تو لیے لو ۔ اوڑھنا بچھوا تو دبائے لوں پانی کا شور ۔ چار آدمیوں کا چلانا تھا۔ دروازہ پر دھکے تھے۔ وہ کھل گیا۔ آدمی گھر میں آگئے۔مادھو اور بسنتی کو پکڑ کر گھسیٹا۔ چالو چالو ۔ سب چھوڑو ۔ جان ہی بچالو۔ چالو چالو اس گڑ بڑ میں جلدی میں گھبراہٹ میں، اندھیرے میں دری بچھورے کپڑوں کے لیے پکارتی تاج اور ناج کی کھیوں کے لیے پکارتی ۔ برتنوں اور زیوروں کے لیے پھڑکتی بسنتی نے یہ بھی کہا۔بھیارے رمکلیا کو لے لیے رہے۔ لالٹین ڈوب چکی تھی اندھیرے میں، کسی نے جواب دیا۔
موں اٹھائے لوں۔ تو تو چل،اری نکس با ہرے۔پانی کی شل شل ۔ رات اندھیری ، بادل کی گرج بجلی کی چمک، کم کر سینے سینے پانی میں میں ہیں آدمی پچاس ساتھ مویشی چلے، ہر آدمی بول رہا تھا۔ ہر جانور چلارہا تھا کوئی کرتا تھا، دوسرا سنبھالتا تھا، کوئی ڈوبتا تھا۔ شروع میں تو سب جتھا بنائے ، ایک دوسرے کو سنبھالتے پردے سے باہر مچلے آموں کے باغ کے اندر سے ہو کر پون میل کے فاصلے پر دور ریل کی اونچی پری کا رخ کیا تھا لیکن جوں جوں آگے بڑھتے گئے اندھیرے میں ایک دوسرے سے الگ ہوتے گئے۔ مادھو اور بسنتی ایک دوسرے کو پکڑے ہوئے تھے۔ دودھ پیتی لڑکی اور بھیکا ان کے ساتھ تھے۔ ر مکلیا کو بھی کسی نے کوٹھے کے زینے پر سے اٹھا لیا تھا۔ ان کو اس کا اطمینان تھا مگر مادھو کو اپنی گائے اور چار بیلوں کی فکر تھی جو گاؤں سے باہر کنوئیں کے پاس منگلیہ پر اس کے سالے کے ساتھ رہتے تھے۔ بسنتی کو ڈھوروں کی اتنی فکر نہ تھی۔ اب وہ اپنے بھائی کے لیے بیتاب تھی ۔ ادھر تو وہ اکل ہی رہتا تھا۔ نہ جانے جا گا کہ نہیں۔ کا جانے آیا کہ نہیں مادھو نے گرتی ہوئی جورو کو سنبھالتے ہوئے دہرایا ۔کوؤ جانے جا گا کہ نا ہیں۔ کا جانے بروئے کھولے کہ نا ہیں۔اندھیری رات تھی۔ ہاتھ کو ہاتھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ پانی کم اور کمر سے اونچا تھا۔ ساتھی سب بچھڑ بچھڑ کر الگ الگ ہو گئے تھے، ادھر ادھر دور اور نزدیک آواز میں ان کی آ رہی تھیں۔جانکی ہو جانکی۔آئی رہوں دادا۔مرلی رے مرلی ۔بھلارے بھلا۔ چالے چلو۔۔۔۔مادھو بھی بار بار سالے کو پکارتا تھا۔ نا گا اور نا گا اور جواب نہ آتا تھا۔ اب پانی میں شور کے ساتھ زور بھی بڑھا۔ کسی نے اندھیرے میں پکار کر کہا۔ لین کے لگے نر ہے تریا۔کوئی بولا ۔ سنبھلے سنبھلے نکلے چالو ۔ کسی نے کہا۔ ڈٹے رہو بھیاڈٹے رہنا بھیا آ گئی لین ۔ایک دفعہ اندھیرے میں نا گا کی آواز آئی۔ مادھو بھیا ہو۔ کوؤ مادھو بھی دیکھو؟ کسی نے جواب دیا۔ بڑا دکھوائی یا ہاتھ لو تولوکت نا ہیں۔
مادھو نے جلدی سے پکار کر جواب دیا ۔ بھلی ہے بھلی آت ہوں۔ پردے لے آیارے؟ناگا چلایا۔ بسنتی کتے بولتے نا ہیں۔۔۔ارے ہے رے مورے ساتھ بروے کتے چھوڑے؟لے آیارے؟آئے جاؤ۔ آئے جاؤ ۔ آر کے آر کی لائن پاس آگئی تھی۔ نا گا دوگز پانی کے باہر کھڑا تھا۔ کراتی بھینسیں، چلاتی گائیں، ممیاتی بکریاں، روتے بچے کبھی عورتیں پکارتے مرد سب بھیگے، سب پانی ٹپ ٹپاتے ریل کی پٹڑی پر چڑھے، اندھیری رات میں سونی پٹری آباد ہوگئی۔ لوگوں نے گلے پھاڑ پھاڑ کر پو چھنا شروع کر دیا کہ کون کون آگیا اور کون کون رہ گیا ۔ ہر کسی کو کسی نہ کسی کی فکر تھی۔ چھوٹے سے پردے کی پوری آبادی کی مردم شماری کی گئی آدمیوں اور جانوروں، دونوں کی گفتی ہوئی۔ جانور سب موجود تھے ۔ آدمیوں میں ایک چمار کا لڑکا اور دو سگے بھائی کرمی کم تھے بچوں میں ر کیا کم تھی۔ بسنتی نے رمکلیا کے واسطے اور چہارن نے لڑکے کے واسطے بلک بلک کر رونا شروع کیا۔ دونوں کرمی بھائیوں کے رشتے داروں کو اطمینان تھا کیونکہ ایک تو دونوں تیراک تھے ۔ دوسرےکافی اونچے مکا کے کھیت میں مضبوط اور اونچے مچان پر وہ سوئے ہوئے تھے۔رمکلیا کی ماں تڑپ تڑپ کر رورہی تھی ۔ سب دلاسہ دیتے تھے ہر کوئی سمجھا تا تھا۔ رودھو نہ صبر کر، شاید دونوں کرمیوں میں سے ہی کوئی آگیا ہوگا۔ درخت پر ہی لے کر بیٹھ گیا ہو۔ چمار کا لڑکا بھی تو وہیں تھا۔ اس نے ہی تو کہا تھا گودی لے لے گا۔ وہی اس کو لے کر کسی درخت پر چڑھ گیا ہوگا۔ پر ماتا کی ماری دکھیاری چپ کیسے ہوتی ، اس کا تو دل ہی ٹوٹا جاتا تھا۔ مادھو بھی چپ کا کھڑا روتا تھا نا گا ہچکیاں لیتا تھا اور وہیں پر ان کی گوری گائے کھڑی اڑاتی تھی ۔ تو کاں آں تھے۔ یہ بھی دکھ پیٹی ماں ہے۔ ارے کوئی جانے نہ جانے بچھڑا اس کا بھی نہیں ملتا ہے۔ دکھیا روتی ہے تو کاں آں:۔ روتی ہچکیاں لیتی ہوئی بسنتی کے پاس بولتی ہوئی گائے آئی۔ بسنتی نے اس کی گردن میں بانہیں۔۔۔ڈالدیں اور روئی۔
گوری رے موری رمکالیا ایھ ایکھ ایکھ ایکھے ۔گوری رے اب تو ہے کون چرائے۔۔۔ایھ ایھ ایکھ ایھ ایھ ۔ گوری رے اب تو ہے کون کھلائے ۔۔۔اوھ ادھ ادھ ادھ ادھ۔گوری رمکلیا تو گئی ہے اوھ اوھ ادھ اوھ۔گوری توری رمکایا۔۔ایکھ لیھ ایکھ لیھ ۔گائے نے وہی لمبی آواز نکالی۔ تو کاں آں ھ۔کوئی جانے نہ جانے دل کی لگی رام جانے ۔ گائے چلا چلا کر اور بسنتی نے سسکیاں لے لے کر آخر صبح ہی کر دی۔ نکلے دن کی پہلی روشنی میں سب کی آنکھیں گوجر پردے کی طرف اٹھ گئیں سامنے چھوٹا سا آموں کا باغ تھا۔ اس ہی کے برابر اور کچھ اس کی آڑ میں گوجر پر وا آباد تھا لیکن اب وہاں کچھ نہ تھا۔ آموں کے درخت تو تھے ۔ مکان بہہ چکے تھے ۔ اگر کوئی بچا کھچا مکان ہوگا بھی تو درختوں کی آڑ میں ہوگا۔ سامنے تو باغ، یہی باغ تھا جس کے درخت اپنے ہرے ہرے ہاتھ پانی پر پھیلائے مل رہے تھے اور پھر ان کے پار میلوں میلوں جہاں جہاں تک نظر جاتی پانی ہی پانی تھا۔ ریلی کی لائن کے قریب ہی جہاں چھوٹا سا نالا تھا پانی کا دھارا تیزی سے چل رہاتھا، لیکن پھر بھی چار نو جوانوں نے ہمت کی لنگوٹی کس پانی میں کود پڑے۔ تیرتے ہوئے آموں کے بالغ تک گئے۔ وہاں چمار اور دونوں کرمی بھائی تو موجود تھے، رمکلیانہ تھی۔ چمار کو تیرنا نہ آتا تھا اور پھر ڈرتا بہت تھا۔ ان لوگوں نے ایک پیٹیلا ڈھونڈ لیا تھا جو کہ درختوں میں الجھ کر تیرتا رہ گیا تھا۔ سب نے چہار سے بہت کہا کہ اس پیلا پر دونوں ہاتھوں کا سہارا لے اور یہ لوگ کھیتے ہوئے اسے لے جائیں گے مگر اس کی عقل میں نہ آئے ۔ ڈر کے مارے مرا جائے، پانی میں اترے ہی نہیں ۔ بہت سمجھایا خوشامد کی لیکن راضی نہ ہوا اور جب یہ لوگ اسے درخت پر چھوڑ کر چلنے کو تیار ہوں تو پھر بری طرح سے دھاڑیں مار مار روئے ۔ ایک دفعہ ان میں سے ایک کی سمجھ میں آ گیا۔ چمار کے درخت پر چڑھ کر اور اس کی گردن پکڑ مارے کس کس کے جو ہاتھ تو راضی ہو گیا۔ پٹیلے کے تختے پر دونوں ہاتھ رکھ کر تیرتا ہواسب کے بیچ و بیچ ساتھ ہو لیا۔ اور سب باری باری پٹیلے کو دھکیلتے ہوئے لے چلے۔ راستہ میں کسی نے کہا۔ لے اب بہائے رے سانچی سانچی نا میں ڈبوئیں دیں تو ہے ائے گئے ۔ بیماری نے سب اگلوایا کہ ہاں وہ ڈر کے ان چاروں آدمیوں کے ساتھ ساتھ جو کہ سادھو اور اس کی بیوی بچوں کو نکالنے گئے تھے اور بسنتی کے چلانے پر اس نے کہا تھا کہ وہ رمکلیا کو گود لے لے گا لیکن سب کے سب تو جلدی سے گھر میں سے نکل گئے اور وہ اکیلا جو رہ گیا تو ڈر کے مارے سیڑھیوں کے پاس سے ہی لوٹ آیا۔ باہر آیا تو وہ لوگ نہ ملے پانی اور بڑھ گیا تھا۔ آخر جب باغ میں پہنچا تو اکیلے چلنے کی ہمت نہ پڑی۔
درخت پر چڑھ گیا۔ یہ سن کر سب نے کہا۔ ڈبوئے دو ایسے پاپی کو کیا کرنا لے جا کر دشٹ کو ۔ لیکن ڈبویا نہیں بلکہ ریل کی پٹری پرا تاری دیا۔وہاں سیوا سمیتی کے بچے خدمت گار کانگریس کے ذرا بڑے اور ذرا مغرور تھوڑا کام اور بہت باتیں کرنے والے لیڈر، لال صافے والے پولس کے اخلھتے ،اکٹر نے سپاہی موجود تھے۔ مردان کی سب ہی اپنی اپنی طرح کر رہے تھے۔ تیل گھی آٹا، لکڑی دال سیوا سمیتی والے لائے تھے۔ امن انتظامات پولس والوں کی طرف سے تھے ۔ چھوٹی چھوٹی چھولداریاں اور مرہم پٹی کا سامان کانگریس والوں کی طرف سے تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں جنسی خوشی کھانے پکنے لگے، کڑھائیاں چڑھ گئیں پوریاں تھی جانے لگیں دو چار جن کے اندھیرے میں پانی میں گرتے پڑتے چلنے سے چوٹیں آئی تھیں ان کی مرہم پٹی ہوئی لیکن بسنتی کے زخمی دل کی مرہم پٹی کون کرتا۔ مادھو اور نا گا خود ہی پریشان تھے ۔ ایک ہمدرد گوری تھی جو رات بھر ان کے ساتھ روئی تھی۔ اب وہ بھی نہ تھی ۔ کا جانے بھور بھئے کتے چال گئے۔ جب تک اندھیرا رہا ہڑپ ، گڑپ گڑ اپ کرنے پانی میں رمکلیا کو خوب ہی ڈرایا اور روتے روتے بے دم گز بھر کی لڑکی کا آنے والے دن میں اپنی بھینی بھینی روشنی پھیلا کر دل ہی دہلا دیا۔ ایک دفعہ ہی چونک کر دیکھتی ہے تو نہ مکان ہیں نہ گاؤں ہے۔ آدھے سے زیادہ کوٹھا بہہ چکا ہے۔ ایک کونے پر خود بیٹھی ہے۔ دوسرے کونے پر ایک کالا سانپ کنڈلی مارے بل کھایا بیٹھا دو ہری زبان نکال رہا ہے۔ سامنے چاروں طرف پانی ہی پانی ہے۔ جس میں سے اکا دگا پیڑ کہیں کہیں جھانک رہے ہیں۔ پیچھے آم کا باغ آدھاڈوبا، آدھا نکا اطرح طرح کی لہریں اپنے درختوں میں سے نکال رہا ہے۔ ہر اس اور خوف سے رمکلیا چلائی ڈری سہمی اور چاروں طرف اس نے گھبرا کر دیکھا۔ نہ آدم نہ آدم زاد۔ ایک وہ تھی اور دوسرا کالا ناگ تھا اور پانی تھا جس میں پھر کی ایسے گھومتے کٹورے بنتے تھے۔اور ہڑپ ہڑپ کر کے غائب ہو جاتے ۔ رکیا نے دونوں ہاتھوں سے آنکھیں موندھ لی تھیں اور اری معیاری او میری معیا کہہ کر بلک رہی تھی کہ اس کے کان میں آواز آئی ۔ تو کاں آں۔ رمکلیا چوٹی۔ ہاتھ آنکھوں پر سے ہے، آنسو بہتے مردہ چہرے پر ہلکی مسکراہٹ آئی۔ تو کاں آں ۔ آواز پھر آئی۔رمکلیا نے ہرے رام گوری بولے کہتے ہوئے چاروں طرف دیکھا۔ گائے دکھائی تو دی نہیں لیکن رمکلیا نے اپنی طاقت سے پکارا گوری ہو گوری۔ جواب آیا۔ تو کاں۔اور پھر باغ سے تیرتی ہوئی گائے نکلی ۔ رمکلیا نے پھر پکارا وہ اس کی طرف بولتی ہوئی بڑھی، لیکن دور سے ایک اور آواز آئی ۔ آؤماں آں و باغ کی آڑ سے بچھڑے کی آواز تھی۔ گائے اس کی آواز کی طرف گھوم پڑی۔ رمکلیا کا ننھا سا دل بیٹھنے لگا۔ وہ رات بھر رونے اور ہچکیاں لینے سے تھک چکی تھی۔ پھر بھی اپنی شکست بھر چلائی۔ گوری ہو گوری گوری ہوگوری۔ ارے گوری رے آئے جا۔ہائے رے مئیا نا ہیں آوت گوری ہوگوری گوری منیا آئے جاری۔لیکن گوری نے رخ نہ بدلا، البتہ دو چار دفعہ سر گھما کر رمکلیا کی طرف دیکھا۔ اڑا کر بولی اور پھر ادھر ہی تیرتی ہوئی چلی گئی جدھر سے بچھڑے کی آواز آرہی تھی۔
باغ کی آڑ سے نکلتے ہی گائے کو بچھڑا اسی جگہ تیرتا ہوا نظر آ گیا جہاں سر شام وہ، اس کا بچھڑا اور ئیل باندھے گئے تھے۔ اب وہاں نہ کھیت تھا نہ جھونپڑی ۔ جگہ وہی تھی لیکن اب سوائے پانی کے کچھ نظر نہ آتا تھا۔ ماں بچے کی آواز کا جواب دیتی تیرتی تیرتی اس کے پاس گئی۔ چاروں طرف گھومی، اسے سونگھا۔ ایک دفعہ اس کی تھوتھنی بھی چاٹ لی اور پھر ایک طرف کو تیرتی چلی ۔ مگر بچہ نہ چلا دو ہیں تیرتا رہا۔ گائے پھر لوٹ آئی۔ چاروں طرف گھومی، برابر آ کر اپنی کمر اور پیٹ سے اسے ڈھکیلا۔ ایک طرف چلی بچہ ساتھ ساتھ نہ آیا تو پھر لوٹ آئی۔ اب وہ کچھ سمجھ گئی ۔ بچہ چوفٹ نیچے زمین میں گڑھے ہوئے کھونٹے میں رسی سے بندھا ہوا تھا اور رہی بس اس قدر بھی تھی کہ اب تک تو کسی نہ کسی طرح بچھڑے کی ناک پانی سے باہر تھی لیکن اگر پانی ایک انچ بھی اور بڑھ جائے تو رسی کی وجہ سے ناک ڈوب ہی جائے ۔ گائے نے مایوس ہو کر چلاتے بچے کو وہیں چھوڑا اور پھر رمکلیا کی طرف رخ کیا۔ رمکلیا رونے چلانے کی تھکن ، ڈر خوف اور تنہائی نا امیدی کا اب تک برابر مقابلہ کرتی رہی تھی لیکن آخر آٹھ برس کی نھی جان ہی تو تھی ۔ گائے جب اس کے پاس آئی تو وہ گرتی ہوئی چھت کے کنارے بے ہوش پڑی تھی ۔ گوری نے آ کر کئی آواز میں دیں اور جب بھی رمکلیا کو ہوش نہ آیا تو پھر لیبی کھردری زبان سے اس کے منھ کو چانا۔ لڑکی کو ہوش آگیا پہلے تو ڈری، پھر گوری کو دیکھا۔ گوری مئیا، گوری مئیا کہتی ہوئی اس کے گلے میں چھٹی ۔ گوری نے دو پیر مارے آگے بڑھی۔ رمکلیا چت سے گھیٹ پانی میں آگئی۔ اس نے ڈر کے مارے پیر چلائے اور چمٹ چمٹا کر گوری کی پیٹھ پر آگئی اور وہیں چھپکلی کی طرح لیٹی لیٹی چھٹ گئی ۔ گوری پھر پچھڑے کے پاس گئی وہی حرکتیں پھر کیں ۔ کئی دفعہ اس کے گرد چکر کھائے اور چلی اور جب بچھڑا ساتھ نہ چلا تو پھر لوٹ آئی۔ اب رمکلیا کی بھی سمجھ میں آ گیا تھا کہ کیا بات ہے۔ جیسے ہی ایک دفعہ پھر سے تیرتی ہوئی بچھڑے کے پاس گئی رمکلیانے اوندھے لیٹے ہی لیٹے ایک ہاتھ بڑھا کر بچھڑے کے گلے سے رسی کی گانٹھ نکال دی۔ بچھڑا آزاد ہو گیا۔ گائے اور بچھڑا دونوں تیرتے ہوئے چلے ۔ رمکلیا گائے پر چھٹی ہوئی تھی ۔ باغ اور ریل کی پڑی کی طرف سے دھ اُچل رہی تھی اس لیے یہ دونوں بہاؤ کی ہی طرف تیرتے چل دیئے اور ڈھائی گھنٹے کے بعد بہت چکر کھا کر پھر اسی ریل کی پٹڑی پر چڑھ آئے۔ لیکن جہاں گاؤں والے تھے تین میل دور یہ نکلے تھے۔ یہ سب بہت سویرے ہی چل دیے تھے اور جب گاؤں بہادر تیراک تیرتے ہوئے باغ میں آئے تو وہاں نہ چھڑا تھا نہ رسک یا تھی بلکہ مادھو کے مکان کا بچا کھچا حصہ بھی بہہ چکا تھا۔ دن کے بارہ بجے جس وقت آگے آگے گوری پیٹھ پر مکلیا پیچھے پیچھے پچھڑا، او ماں آٹھ کے سوال جواب کرتے گاؤں ہیں دونوں میں پہنچے تو ہلچل مچ گئی۔ لوگ مارے خوشی کے کودتے تھے۔ بسنتی خوشی کے مارے دھارو دھار روتی ہوئی کبھی اسے گلے لگاتی کبھی بچھڑے کو اور کبھی گوری کے اور گائے کہتی تھی۔ تم ساں آں ہ۔آواز آئی ۔ بول گوری مئیا کی جے۔پچاس آواز نے جے بولی پھر آواز آئی ۔ بول گٹو ماتا کی جے۔
مصنف:سید رفیق حسین