تعویذ

0
215
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

امی نہ رہیں تو صرف اتنا ہی ہوانا کہ اپنے کمرے میں نہ رہیں۔ ہمارے گھر میں نہ رہیں۔ اس دم دمے میں بھی نہ رہیں۔ جس کے زنانی دروازے سے سواری گھر جانے پر وہ پردہ داری کی لاج رکھتیں۔ اور راہ گیروں کی نظروں سے خود کو چھپا کر چھپا کر سے گھر کی چاردیواری میں ہو جاتیں۔ میں نے اب بے چون و چرایہ تسلیم کر لیا تھا کہ وہ ابا کے بعد کچھ دن رینگ کر چپکے سے دنیا سے اٹھ گئیں۔ لیکن چھوٹم نہیں جانتا تھا ، وہ کہتا تھا بھیا،امی ضرور ابا کے کمرے میں بند ہو گئی ہیں۔ میں ذرا اور بڑا ہو جاؤں تو قفل توڑ کر انہیں باہر نکال لاؤں۔آج میرا پیاسا احساس مجھے سمجھاتا ہے کہ ہم لوگ شاید یہ اچھا نہیں کرتے ۔ بچوں کے معصوم ذہن کو موت کے خیال سے اس طرح بچاتے ہیں، جیسے وہ جان جائیں تو ان کے ذہن پر موت کی پر چھائیں موت بن کر پڑے گی۔ چنانچہ چھوٹم کو زمانے تک امی کی قبر سے واقف نہیں کرایا گیا تھا بلکہ اس کو قبروں کی پہچان تک نہیں تھی۔ مجھے اپنے بڑوں کی یہ حرکتیں بہت اکھر تی تھیں۔ میں صرف یہ سوچ کر رہ جاتا تھا۔ خود بھی اتنی اہلیت نہیں رکھتا تھا کہ انہیں یہ بتاؤں کہ موت کے تصور کے بغیر زندگی کا جواز ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اس کا حسن نکھرتا ہی اس تصور سے ہے۔ تتلی کے پر پردوں پر اپنا رنگ نہ چھوڑ جائیں تو وہ پلاسٹک کی ہو جائے گی۔ موت کو ہم نے خوفناک بنارکھا ہے ورنہ وہ تو زندگی پر ایسی رنگ برنگی چھینٹ اڑاتی ہے کہ کبھی کبھی اس کے آنچل کا سایہ زندگی کو سنوار دیتا ہے۔ شاید یہ بھی اپنا اپنا سوچنے کا انداز ہو۔ لیکن ایسا بھی کیا کہ جس ہونی کا نہ ہونا ممکن نہیں۔ جس کا زندگی سے چولی دامن کا ساتھ ہو اس کا ایک حصہ چھپا کر زندگی کو معصوموں کے ہاتھ میں تھما دینا کہ لو اس سے کھیلو۔ بھلا یہ کھیل کتنے دن کھیلا جا سکتا ہے۔ امی کی کھلی آنکھوں پر ابھی کسی ہاتھ نے پیوٹے نہیں ڈھانکے تھے کہ چھوٹم کو رشتے داروں میں کہیں دور بھیجوا دیا گیا۔ میرے ساتھ یہ سازش کوئی کر نہ سکا۔ امی جب گھر سے جانے لگیں تو پٹس اٹھی اور میں بین کرتی عورتوں اور انتظام میں مصروف مردوں کی دھکا پیل سے بچ نکلا۔ اپنے سانس کو قابو میں کرنے سے پہلے ہی میں نے خود کو ایک ایسی موٹر کار کی پچھلی سیٹ پر چھپا لیا جو امی کے ساتھ جانے والی موٹروں کی قطار میں شامل تھی۔ مجھے یقین ہوا کہ امی نے ہی کار کا پٹ کھول کر مجھے اندر دھکیل دیا ہو گا۔ وہ ہماری خدمت کا کچھ ایسا ہی طریقہ نکال لیتی تھیں کہ صرف ان کو معلوم ہو اور ہمیں معلوم ہی نہ ہو کہ وہ ہمیں محفوظ کر رہی ہیں۔ نیند میں بستر پر لوٹ پوٹ ہونے سے میرا بدن کھل کھل جاتا تھا۔ وہ اس طرح اڑھاتیں جیسے اپنا آپا اڑھارہی ہوں اور میری روٹھی ہوئی نیند کو منارہی ہوں۔ وہ اکثر کہتیں تو رات بھر بستر پر سوتا ہے یا نیند کو ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ ان کا یہ انداز اظہار مجھے اچھا لگتا۔ ویسے میرے تعلق سے یہ بات مشہور تھی کہ میں کلاس میں سو جاتا ہوں محفلوں میں سو جاتا ہوں، شادی کی باراتوں میں سو جاتا ہوں۔ یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان کھڑا کھڑا سو جاتا ہوں۔ اپنی مدماتی آنکھوں کی یہ باتیں سن سن کر کان پک گئے تھے لیکن بستر پر نیند کو ڈھونڈنے کی بات صرف امی ہی کرتیں اور ابا یہ سن کر مسکرانے کی کوشش کرتے ۔ چھوٹم گھر واپس آیا تو ڈھیر سارے کھلونے اس کے ساتھ تھے۔ وہ خاندان کے دوسرے بچوں میں جو امی کے گھر سے چلے جانے کے بعد دوسرے ہی دن آہستہ آہستہ اپنے اپنے بزرگوں کے پاس آگئے تھے مگن تھا۔ ایک ایک کھلونے کی چابی گھما کر اس کی نمائش کرتا۔ ان دنوں الکٹرا نک کھلونے نہیں نکلے تھے۔ چابی کو گھمانے کا کاروبار تھا۔ بڑے بزرگ اسی چابی کو کھلونوں کے لیے بھی استعمال کرتے اور شاید کھیلنے والے بچوں کے لیے بھی ، اسی لیے بچے زیادہ معصوم تھے اور بزرگ کم آشنا۔ میں کچھ زیادہ ہی سوچتا تھا۔ نہیں معلوم یہ سوچ کی مظلومیت میرے بچپن ہی میں کہاں سے دبے پاؤں مجھ میں داخل ہوگئی تھی۔ چھوٹم کی یہ حرکتیں مجھے دل ہی دل میں روہانسا کرنے لگیں اس نے میری طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔ جی چاہا اس کے سارے کھلونے لے کر امی کی قبر پر رکھ دوں۔ ان سے کہوں لواب ان کی حفاظت کرو ۔ گردنہ جمنے دوان پر اور چھوٹم سے کہو۔۔۔ہمارے کھلونے مٹی کے اس تو دے پر سے اٹھالا جس پر میں نے رکھے ہیں اور اسی میں امی دبی پڑی ہیں۔ تجھ سے بن پڑے تو انہیں بھی مٹی ہٹا کر نکال لے اور تیری اس موٹر سیکل سے جڑے کیریئر میں ٹھونس لا جو تیرے پیسے کی مدد سے اس لیے بنا ہے کہ تیری اس موٹر سیکل کا توازن کر سکے ۔ چھوٹم کی یہ موٹرسیکل بڑی شاندار تھی بڑے دالان میں جہاں امی کی میت رکھی گئی تھی دوڑتی ہوئی بڑا سا چکر مار کر بھی آہستہ آہستہ چلتی رہتی تھی ۔ چابی ختم نہ ہوتی تھی جیسے چھوٹم کے ہاتھوں کی گرفت کی منتظر ہو، اور چھوٹم لپک کر اسے اٹھا لیتا۔ سب دوسرے بچے تالیاں پیٹتے ۔ مجھے محسوس نہیں یقین ہونے لگتا کہ امی بہت بے چین ہوں گی ۔ چھوٹم کی موٹر سیکل کو وہ اس جگہ کا طواف کرتے کس طرح دیکھ سکتی ہیں جہاں ان کی آنکھ نہ کھلنے کے لیے آخری بار لگی تھی۔ وہ بھی موٹرسیکل کے پیچھے پیچھے بھاگ رہی ہوں گی کہ فٹ سے اٹھا کر چھوٹم سے کہیں ۔ یہاں نہیں ۔ کہہ رہی ہوں ۔ یہاں نہیں بھاگ یہاں سے۔ وہاں اتنا بڑا آنگن پڑا ہے، گھما اس میں اپنی موٹر سیکل ۔ امی بھی کتنی بھولی ہیں، کیا نہیں جانتیں کہ صحن کی اوبڑ کھا بڑ زمین پر چابی کی موٹر سیکل نہیں بھا گتی ۔ اور چھوٹم اگر اس جگہ کے چکر کاٹے تو کیا ان پر تصدق ہو جائے گا۔

میرا جی چاہا یہ جو امی کو میں چھوٹم کی موٹر سیکل کے ساتھ بھاگتا ہوا صاف دیکھ رہا ہوں،منٹ بھر کر پکڑ کر موٹر سیکل کی چابی انہیں تھما دوں۔ کہوں یہ چابی تم لے جاو، ورنہ یہ چابی چھوٹم کے ذہن کو سوچ سے عاری کر دے گی ۔ اور امی سنوامی دیکھو، وہ زندگی بھر کھلونوں کے پیچھے بھاگتا رہے گا۔ دیکھونا کیسا مگن ہے میں روہانسا ہوں تم نے اتنی دور جا کر ذرا کی زمین سے پیٹھ لگائی نہیں کہ پھر بھاگ آئیں۔ مجھے چھوٹم سے کوئی بیر نہیں ہے۔ تمہارے لاڈ پیار کا بھی میں نے کبھی برانہیں مانا۔ تم غلط سمجھتیں رہیں۔ اس نے پتھر بھر کا کر مجھے ماردیا تھا کیسا تڑپ کررہ گیا تھا میں۔ اس پر جھپٹا تو تم  آڑے آگئیں۔جانے بھی دے بیٹا چھوٹا بھائی ہے۔تو کیا اب بڑا ہو گا ہی نہیں۔بس برامان گئیں تم ۔ زبان سے ایسے الفاظ کیوں نکالتا ہے۔ میری چوٹ نہیں دیکھی ۔ ہو گئیں اس کی حمایتی۔ایسے دم دلاسے کسی بچپن کو مرنے سے بچالیتے ہوں گے لیکن زندگی کو مر مر کر جینے سے نہیں بچا سکتے ۔ چھوٹم میرا بھی ہے امی، اور اب تو تم سونپ گئی ہو مجھے۔ لیکن کیا کروں کہ مجھے یہ اتھلا اتھلا جینا اکھر جاتا ہے۔ اسی لیے شاید مجھے اس وقت چھوٹم کی خوشی بھی بری لگتی ہے۔ امی کیا ہم پر قیامت نہیں ٹوٹی۔ اور ہم جھولا جھول رہے ہیں۔ کیا ہم کھلونے دے کر بہلانے کے لیے رہ گئے ہیں۔ آپ بھی عجیب ہیں امی۔ مجھے آپ یاد آرہی ہیں۔ آپ کی باتیں یاد آرہی ہیں۔ آخر تو کیا بنی گارے۔ کیا بنے گا آخر ۔ ہمیشہ ہی الٹی سیدھی سوچتا ہے چونچ سے دانہ اٹھانا آئے نہیں۔ کہے چونچ ہی تو ڑپھینکوں۔ اچھا اب چھوڑ دیجیے بھی مجھے۔ کہیں جا کر رہ لوں گا، آپ پیچھا کریں گی تو چین سے رہ بھی نہ سکوں گا۔ اچھا ہے آپ اپنے چھوٹو کے ساتھ رہیں۔ کیسا مگن ہے وہ ۔ آپ سے میری نہیں نبھتی۔ ایسی باتیں امی سے زندگی بھر ہوتی رہیں۔ میں برا بھی مانتارہا۔ لیکن آج وہی باتیں اچھی محسوس ہورہی ہیں تو زبان کو لفظ نہیں ملتے۔ آنکھوں کو آنسو نہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی جینا ہوا کہ آنسو بھی اپنے نہ رہے۔لیکن یہ سب کچھ کتنے برسوں کا تھا۔ وقت زخموں کا اند مال کرتا ہے۔ اس حقیقت سے مفر نہیں لیکن اتنا ہی ہوتا ہے کہ زخم ہرے نہیں رہتے ۔دردبن کر نس نس میں سرایت کر جاتے ہیں مراہم لگانا چاہوں تو دکھائی نہیں دیتے۔ میرے کالج میں پہنچنے تک ابا اور امی کسک بن کر رہ گئے تھے۔ میں نہ چوٹ لگی تو بلبلاتا تھانہ گھائل ہوتا تو پلکیں بھیگتیں۔ یہ ٹھہراؤ کچھ عجیب ساٹھہراؤ تھا جیسے جوانی نے خود کو بڑھاپے کے حوالے کر دیا ہے اور بہت شانت ہو گئی ہے۔ قہقہے ہنسی مسکان بن کر بھی ہونٹوں سے بچ نکلی۔ اتنا ضرور ہوتا کہ کبھی کبھی ہونٹ اس بھولی بسری مسکراہٹ کو پکڑ لاتے ۔ لوگ کہتے ہیں مسکراتا ہوا اچھا دکھائی دیتا ہوں۔ مجھے امی کا وہ جملہ یاد آتا ہے۔ تو رات بستر پر سوتا ہے یا نیند کو ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ میں نہیں جانتا ان دونوں جملوں میں کہیں کوئی مماثلت ہے۔ لیکن اتنا ضرور ہوا تھا کہ میں بستر پر زیادہ ہی بے آرام رہنے لگا تھا۔ محفلوں میں، مسافروں سے بھری بس میں، یہاں تک کہ ایک اچھا طالب علم ہونے کے باوجود کلاس میں سو جانا میرے لیے کوئی بات نہیں تھی۔ سوتے جاگتے زندگی بیت جاتی ہے۔ لیکن وہ آنکھیں جانے کیوں میرے حصے میں آگئیں جو تنہائی میں جاگتی رہتی ہیں اور محفلوں میں سو جاتی ہیں۔ بالکل اس کمرے کی طرح جس کو امی نے ابا کے بعد بند کر رکھا تھا۔ اور چھوٹم کہتا تھا کہ امی اس میں بند ہیں اور ایک دن وہ اسی کمرے سے انہیں برآمد کرلے گا۔ آج ہم یہی کر رہے ہیں۔ امی کو اپنے اندر سے برآمد کرتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، پھر اپنے اندر چھپالیتے ہیں۔ اب ہم ہی وہ کمرے ہو گئے ہیں جسے پھوپی امی مقفل رکھتی ہیں۔ پھوپی امی نے امی کے چہلم کے بعد اس کمرے کو کھول کر عود اور لوبان کا دھواں دلوایا تھا۔ اور کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹائے بغیر جھاڑ جھنک کر اپنے ہاتھوں صفائی کر دی تھی ۔ اس دوران کبھی کبھی ان کا پلو ان کی پلکوں کی نمی جذب کر لیتا تھا۔

پھوپی امی نے اس کمرے میں سات دن تک تلاوت قرآن خود بھی کی اور قریبی اہالیان خاندان خواتین کو بھی اس موقع پر اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ جب قرآن کا ورد ہوتا، مجھے ایسا لگتا ہے جیسے کمرہ ویران سا ہو گیا ہے، یا بین کر رہا ہے، یا اونگھ رہا ہے۔ میں آج سوچتا ہوں، ان دنوں اس سے اس درجہ خوف دلایا کہ ہمارے سرکار پر اتارا ہوا قرآن ، طاق کی زینت تو بن کر رہ گیا، دل میں اتر کر اس کو منور نہ کر سکا۔ ہاتھوں کے رحل تو بنے ، پڑھنا بھی آگیا تو طوطے کی طرح۔ مذہب نے انسانیت کے رشتے ضرور تلاش کیے تھے لیکن غم کو نا آسودگی سے زیادہ اہمیت ہی نہیں دی اور وہ جذبہ جو خدا کی پہچان تک لے جاسکتا تھا صبر کے نام سے خوف کی نذر ہوتا رہا۔ یہ اوٹ پٹانگ باتیں میں آج سوچتا ہوں، ان دنوں میرا ذہن صرف اس بات پر کڑھتا تھا کہ پھوپی امی مجھے اور چھوٹم کو اس کمرے میں داخل ہونے سے روکتی تھیں۔ چنانچہ میں بھی چھوٹم کو روکنے لگا تھا۔ چھوٹم نے مجھے سے ایک دن کہا تھا کہ بھیا مجھے ڈر لگتا ہے، تم ساتھ رہو تو امی کو اس کمرے میں ڈھونڈیں۔ میں نے بھپر کر اسے ڈانٹ پلائی تھی اور کہا تھا۔ امی مرگئی ہیں ، اب کبھی نہیں آئیں گی ۔ اس نے روہانسا ہو کر کہا تھا۔ مرگئیں تو مرگئیں مگر اس کمرے میں تو رہ جاتیں۔میں نے اپنی بڑائی کو محسوس کرتے ہوئے کہا تھا۔ تو بدھو ہے ۔ مرگئی ہیں تو پھر ۔ یہاں کیسے رہ سکتی ہیں۔ہاں اس نے کہا تھا ۔ لوگ کہتے ہیں مر جانے کے بعد کوئی کبھی نہیں آتا۔ لیکن یہ لوگ جو زندہ ہیں مرنے والوں کو پکڑ کر کیوں نہیں روک لیتے۔مین جانتا تھا کہ خدائی میں کوئی دخل نہیں دے سکتا لیکن چھوٹم کو یہ بات کیسے سمجھا سکتا تھا میں۔ہاں خدائی سے مجھے خود خوف آنے لگا تھا۔ یہ بات کسی کو بتلا بھی نہیں سکتا تھا۔ چھوٹم نے بھی زیادہ حجت نہیں کی ۔ کہا بھیا آخرامی جی کہیں رہتی تو ہوں گی۔میں نے کہا ۔ ہاں رہتی ہیں۔تم جانتے ہو اور ملتے بھی ہو۔مجھے چھوڑ کرا کیلے ملتے ہو بھیا۔۔مجھے ملاؤنا۔۔میں نے کہا ایک دن لے چلوں گا تجھے ۔ دیکھ لینا امی ایک چھوٹے سے کمرے میں کس طرح رہتی ہیں۔چھوٹم اپنے دوست و نکٹ مرلی اور اس کی چھوٹی بہن بجی کی طرح امی کو امی جی پکارنے لگا تھا۔ ابا کے بارے میں کچھ کہتا تو ابا جی کہتا۔میں نے چھوٹم سے راز داری میں کہا کہ یہ ساری باتیں پھوپی امی کو بتانا نہیں۔ ہم کو چھپ کرامی سے ملنے جانا ہو گا ۔ چھوٹے نے خوشی خوشی مجھ سے وعدہ کر لیا۔میں ان دنوں بس ایک بات بڑی شدت سے محسوس کرتا تھا کہ کمرے کے دروازے کے دونوں پٹ پھوپی امی دن بھر کھلے رکھتیں۔ شام ہوتے ہی پیتل کا بڑا سا چراغ جلا کر کمرے میں رکھ آتیں۔ ایسے میں مجھے یہ کمرہ بڑا آباد سا لگتا۔ بجلی گھر میں تھی ضرور لیکن کٹ گئی تھی۔ میں نظریں بچا کر کبھی دن میں کبھی شام کے بعد کمرے میں گھس جاتا اور ایک ایک چیز کوغور سے دیکھتا۔ ہوا کھلانے کے لیے پھوپی امی الماری کے پٹ ادھ کھلے رکھتیں۔ایک قمیض اور پاجامہ الماری میں نفاست سے تہ کیا ہوا رکھا تھا۔ نوٹ بک کے ایک پورے صفحے پر امی نے بڑے حروف میں لکھا تھا، اور پنوں سے یہ کاغذ تہہ کیے ہوئے جوڑے پر نتھی کر دیا تھا۔ لیکن میں نے غور سے دیکھا تھا کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ لکھا تھا۔۔میرے صاحب انتقال کے وقت یہ لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔۔میرا جی چاہا یہ کپڑے چپکے سے پہن لوں اور چھوٹم سے کہوں چل بھی امی سے مل آئیں۔ تو میرے کپڑے پہن لے۔ دیکھیں۔اب وہ ہمیں پہچانتی بھی ہیں۔پھوپی امی نے کبھی امی کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا۔ بھائی صاحب کہتے تھے کہ میری بیوی میری ساری بہنوں اور خاندان کی بزرگ خواتین سے زیادہ پڑھی لکھی ہے۔ اس کا املا اور انشا ان سب سے زیادہ درست ہے اور میں نے اردو کے ماسٹر صاحب سے ۔۔زیب تن۔۔کے معنی پوچھ لیے تھے۔ آج میں امی کو زیادہ ہی سوچ رہا تھا۔ ذہن میں ہر طرف وہ تھیں اور آنکھوں میں ان کا کمرے میں سلیقے سے رکھا ہوا سامان ۔ میری امی بڑی سلیقہ مند مشہور تھیں۔ لیکن سب سجا کر ہمیں چھوڑ گئی تھیں۔ تو مجھے ان کے سلیقے سے شاید بیر سا ہو گیا تھا۔ میری نظر جو جزدان میں لیٹے ہوئے قرآن شریف پر پڑی تو میں نے بہت احتیاط سے قرآن شریف کو چھوے بغیر جزدان کھول دیا کتنے ہی سوکھے ہوئے پھول میرے قدموں میں بکھر گئے۔ میں نے جانے کیوں جھر جھری سی لی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔۔۔شاید یہ خوف ہی تھا کہ میں نے جھک کر پھول نہیں اٹھائے ۔ احتیاط سے جزو دان کو اسی طرح باندھ کر قرآن شریف کو دوسرے کمرے کے اوپری طاق میں رکھ آیا۔ بڑا سکون ہوا تھا مجھے جیسے میں نے اللہ میاں کو میرے اور امی کے درمیان سے ہٹا دیا ہے۔ گھر والوں کی آنکھ بچا کر اس کمرے میں گھس جانا میرا معمول ہو گیا تھا۔ قرآن شریف کو دوسرے کمرے میں رکھ آنے کے بعد مجھے اس کمرے میں بڑا سکون ملنے لگا تھا۔ میں ایک ایک چیز کو چھوئے بغیر او پر غور سے دیکھتا اور امی کے سلیقے کی دل ہی دل میں داد دیتا۔ بہت جی چاہتا تو کسی چیز کو احتیاط سے کھول کر دیکھ لیتا ، پھر اسی طرح جگہ سے ہٹائے بغیر رکھ چھوڑتا۔ محراب میں دھرے، لکڑی کے ایک چھوٹے سے قلم دان کو میں نے کئی بار دیکھتا تھا ۔ بہت جی چاہتا تھا کہ اسے کھول کر دیکھوں کہ آخر اس میں امی نے کیا رکھ چھوڑا ہے، لیکن میرا ہاتھ محراب تک نہیں پہنچتا تھا۔ باہر دالان سے چوپائی اٹھالانے اور اس پر چڑھ کر قلمدان کا ڈھکن کھولنے کے منصوبے میں کب سے بنارہا تھا۔ پھوپی امی، مبینہ باجی کے گھر مایوں میں دن سے ہی چلی گئی تھیں۔ میرے لیے یہ سنہرا موقع تھا، کمرے کے دونوں پٹ کھلے ہوئے تھے اور اگر بتیاں جل رہی تھیں ۔ میں نے ادھر اُدھر دیکھ کر چوپائی اٹھالی اور سیدھے محراب کے مقابل زمین پر رکھ دی ۔ جلدی میں شاید دیوار سے اس قدر گتھا رکھ دی تھی کہ میرا اس پر کھڑا ہونا محال تھا۔ ایک بار کوشش کر کے میں نے چوپائی کا دیوار سے فصل برابر کیا اور اس پر چڑھ کر اطمینان سے چوبی قلمدان کا ڈھکن کھولنا چاہا تو مکن آدھا کھل کر محراب کی چھت کو چھو لیتا۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ قلمدان کو محراب سے نکال لیا جائے۔ چنانچہ میں نے بڑی شتابی سے یہ کام انجام دیا اور چوپائی سے اتر کر قلمدان اس پر رکھ دیا کھولا تو خوشبو کے بھبکے نے مجھے مسحور کر دیا۔ یہ تو عطردان نکلا۔ کوئی بارہ عددشیشیاں ترشے ہوئے چوبی فریم کے جال میں جکڑی ہوئی عطر دان میں دھری تھیں ۔ عطر میں بھیگی ہوئی ایک پھولی پھوٹی سی پڑیا تھی۔ میں نے یہ پڑیا عطر دان سے نکالی میری ہتھیلی اور انگلیوں کی گرفت بھر گئی ۔ میں نے احتیاط سے جیب میں ٹھونس لی کہ یہاں کھڑا رہ کر اس کا جائزہ لینا خطرہ سے خالی نہ تھا۔ میری انگلیاں، خوشبودار ہوگئی تھی۔ اس پر بھی میں نے ایک ایک شیشی عطردان سے نکالی بالکل خالی تھی۔ لیکن مہک رہی تھی۔ کسی میں پاؤ شیشی عطر تھا۔ نیلا نیلا سا۔ کانچ کا ڈاٹ نکالتے ہی خس کی ہونے نتھنوں کو معطر کر دیا تھا۔ کسی میں ایک دم گہرے سرخ رنگ کا عطر تھا۔ تقریبا بھری ہوئی اس شیشی سے کوئی اچھی سی مانوس کی خوشبو آتی تھی۔ میرا اس خوشبو سے واسطہ سا لگتا تھا، جیسے یہ میرے چھٹ پن سے ساتھ ساتھ رہی ہو ۔ جی چاہتا ہے، اس کا صحصیح رنگ آپ کو سمجھا سکوں۔ یوں سمجھ لیجئے چائے کا گہرا۔ بس یہ رنگ تھا۔ اس کا زیادہ شیشیاں خالی تھیں۔ دو ایک میں پیلا پیلا اور گلابی سا عطر تھا جو آدھی آدمی شیشی سے کم ہی تھا۔ میں نے ہر وہ نکالی ہوئی شیشی اس کی جگہ رکھ دی تھی جس کو کھول کر دیکھا تھا، سونگھا تھا اور اس طرح اپنا کام پورا کر آیا تھا۔ عطر دان کو دونوں ہاتھوں میں احتیاط سے پکڑ کر میں ‘‘اسٹول’’ پر چڑھ گیا اور طاق میں رکھ چکا تب بھی اطمینان کا سانس نہ لے سکا۔ کمرے سے باہر نکل کر میں نے دیکھا۔ عباسیہ کی ماں جو ہمارے گھر،اوپر کا کام کرتی تھی اگنی پر بھیگے ہوئے کپڑے سکھانے کے لیے ڈال رہی تھی۔ اس نے مجھے مسکراتے ہوئے بغور دیکھا۔ میں ذرا سا بوکھلا گیا اور اس کی مسکراہٹ کو معنی پہنائے بغیر کمرے میں گھس گیا۔ کچھ دیر بعد جھانک کر باہر دیکھا تو وہ نہ تھی چھپا کے سے میں نے باہر لے جا کر چوپائی اس کی جگہ رکھ دی۔پیچھے سے کسی نے آہستہ سے کہا۔۔بیٹا اماں یاد آتی ہیں نا!۔۔

میں نے مہکتی ہوئی پڑیا کو جیب میں ہی دبولیا جیسے اس کی مہک کو دبورہا ہوں۔ پلٹ کر دیکھا۔ عباسیہ کی ماں تھی۔۔میں نے کہا نہیں نہیں اور چلتا بنا۔۔میں نے پڑیا اپنے لکھنے پڑھنے کی میز کی ڈرائر میں رکھ لی کہ کہیں باہر لے جا کر اور سب کی نظروں سے بچا کر اطمیان سے دیکھوں گا۔ کچھ دیر تک میں نے محسوس کیا کہ مجھ سے میر اسکون چھن گیا تھا۔ جیب میں ٹھنسی پڑیا نے جیب سے الگ ہو کر اپنی خوشبو اور ذراسی نمی جیب میں بساوی تھی اور اس کی مہک مجھے میری امی کی یاد دلا رہی تھی۔امی کے قرینے اور سلیقے کی باتیں تو کبھی خاندان بھر میں ہوا کرتی تھیں۔ ادھر بند کمرہ کھل کر جب میرا رازواں ہوا تھا تو میں نے بھی قدم قدم پر امی کا سلیقہ دیکھا تھا۔ ہر چیز کو جتن سے رکھنے والی امی مجھے محفوظ نہ کر سکیں۔ میں اسی کسک کو ان کی یادوں کا قرینہ سمجھنے لگا تھا۔ اور مجبوری سے سمجھوتہ کیے جارہا تھا لیکن چھوٹم کو دیکھ دیکھ کر امی سے کبیدگی کا احساس بڑھنے لگتا تو میں امی ہی کو بھول جانے کے جتن کرتا۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ چھوٹم کو اتنا بےکس ونامراد چھوڑ کرامی موت کے ساتھ جانے کو تیار ہو گئیں۔ ان کے سارے قرینوں سے مجھے بیر سا ہونے لگتا لیکن پھر فوری ہی ان پر ترس آنے لگتا۔کیونکہ میں جانتا تھا کہ موت ظالم ہوتی ہے۔میں نے سوچا کہ ہاتھ اچھی طرح دھولوں اور کپڑے بدل لوں کہ امی کی خوشبو سے مجھے چھٹکارا ملے لیکن یکا یک میرے ذہن نے فیصلہ کن انداز میں ایک بات سمجھا دی کہ تم جب تک بند پڑیا کھول کر نہ دیکھ لوگے بے آرام رہو گے۔۔۔دیکھ لو۔ پھر صابن سے ہاتھ دھو کر کپڑے بدل لینا۔ چلا آیا۔ گھر سے اتنے فاصلے پر کہ کسی کی نظر مجھ پر نہ پڑے۔ میں نے پشت راستے کی طرف کی اور پڑیا پھر سے ہاتھوں کی گرفت میں جکڑ کر کھول دی کہ جیسے وہ پھر سے کہیں اڑ نہ جائے۔

اس پڑیا میں چار پھولے پھولے سے تعویذ نکلے۔ میں سمجھ گیا۔ کہ قرآن پاک کی آیتیں ہوں گی۔ جو عطر میں بھیگ بھیگ کر پھول گئی ہیں۔ میں نے کھول کر دیکھا اور دنگ رہ گیا۔ اس میں ایک دانت تھا۔ اور لیٹے ہوئے کاغذ پر کچھ لکھا ہوا تھا۔ جو عطر میں بھیگ جانے کے باعث پڑھا نہیں جاتا تھا۔ میں نے دوسرا تعویذ کھولا تو اس میں بھی ایک کلساٹ مائل دانت نکلا۔ کاغذ کی تحریر بغور دیکھنے پر بھی کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا۔ آخر یہ دانت کس کے ہیں۔ اب تحریر سے میری دلچسپی صرف اس حد تک رہ گئی تھی ۔ امی کی ہنستی ہوئی بیتسی تصویر میں کھل جاتی تو مجھے کسی کمی کا احساس نہ ہوتا۔ ان کے تو سارے ہی دانت موتیوں کی طرح چمکتے تھے۔ تیرے تعویذ میں بھی یقین تھا کہ دانت ہی ہوگا۔ میں نے تعویذ کھولا تو دانت ہی نکلا۔ دونوں دانتوں سے اجلا تھا۔ تحریر صاف پڑھی جاتی تھی۔ جو پڑھانہ جاتا تھا وہ ایسا تھا کہ اس نے جیسے اپنی اہمیت کھودی ہے۔میرے صاحب کا تیسرا دانت جو عزیز از جاں چھوٹم سلمہ کی ولادت کے پورے دو ماہ دو دن بعد مسواک کرنے کے دوران نکل گیا تھا۔ سات سال پہلے کی تاریخ درج تھی اور میں چھوٹم سے پانچ سال سے کچھ اوپر ہی بڑا تھا۔ میں چاہتا تو اس تاریخ کو بہ آسانی یا درکھ سکتا تھا لیکن میری بھیگی ہوئی آنکھوں کو امی نے اپنے ہی حال میں چھوڑ دیا تو چھوٹم جیسے مجھ سے چمٹ کر رونے لگا۔ میں جان گیا تھا کہ چوتھے تعویذ میں بھی دانت ہے۔ امی نے ابا کے دانتوں تک کی حفاظت کی اور چھوٹم کو چھوڑ گئیں۔ لیکن کیا امی بے قصور نہیں ہیں؟ کہیں چھوڑ رہی تھیں تو ان کے بس میں کیا کچھ ہوگا، میں نے چمٹے ہوئے چھوٹم کو جو مجھ سے دوررہ کر بھی چمٹا ہوا رہتا تھا،الگ کرنا چاہا۔ پھر جانے کس جذبے کے تحت کچھ سوچے بغیر دانتوں کے چاروں تعویذ سامنے بہتی ہوئی گٹر میں پھینک دیے۔ دو ایک کاغذ دانتوں سے الگ ہوکر گٹر میں تیررہے تھے اور دانت ڈوب گئے تھے۔امی جھپٹ پڑیں۔ میرے دونوں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں بڑی مضبوطی سے تھام لیے۔ یہ کیا کر دیا تو نے؟ یہ کیسے کر سکا تو۔میں نے جھٹکا دے کر امی کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ جدا کیے اور وہ بھیگی آنکھوں سے مجھے تکتی ہوئی چھپاک سے غائب ہوگئیں۔ میں پھوٹ کر رونے لگا تھا۔ کچھ سنبھل کر اپنی آنکھیں ہتھیلیوں سے پونچھی تھیں تو آنکھیں معطر ہتھیلیوں سے جلنے لگی تھیں ۔ میں نے صابن سے ہاتھ دھوئے تھے۔ میں نے اپنے کمرے میں جا کر قمیض بدل لی تھی ۔ چھوٹم، عباسیہ کی ماں کی چٹائی پر پڑا پڑا مجھے مٹ مٹ دیکھ رہا تھا۔قمیض بدل لینے سے بھی امی کی خوشبو نہیں گئی تھی۔ مجھے لگا تھا جیسے امی مجھ میں بس رہی ہیں اور چھوٹم میرے سارے راستے مسدود کر رہا ہے اور شاید میں نے اب کلاس میں سونا بھی چھوڑ دیا ہے۔

- Advertisement -

مصنف:اقبال متین

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here