آدمی

0
223
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کھڑکی کے نیچے انھیں گزرتا ہوا دیکھتا رہا۔ پھر یکا یک کھڑکی زور سے بند کی ۔ مڑ کے پنکھے کا بٹن آن کیا۔ پھر پنکھے کا بٹن آف کیا۔ میز کے پاس کرسی پہ ٹک کر دھیمے سے بولا۔ آج تو کل سے بھی زیادہ ہیں۔ روز بڑھتے جارہے ہیں ۔سرفراز نے ہتھیلیوں پر سے سر اٹھایا اور انوار کو دیکھا۔ تم نے تو دو ہی دن دیکھا ہے نا! میں تو بہت دن سے دیکھ رہا ہوں ۔ کھڑ کی بند رکھوں تو گھٹن ہوتی ہے، کھول دوں تو دل اور زیادہ گھبراتا ہے۔ لگتا ہے جیسے سب ادھر ہی آ رہے ہوں ۔ سرفراز چپ ہو گیا۔پھر ایک لمحے کے بعد بولا۔آج تم سے اتنے برسوں کے بعد ملاقات ہوئی تھی تو دل کتنا خوش تھا کہ پھر یہ لوگ۔۔۔میں نے تمھیں سفر کا واقعہ بھی تو بتایا تھا۔ میں بھی صرف دو ہی دن سے تھوڑے ہی دیکھ رہا ہوں، ادھر گاؤں میں بھی آج کل یہی عالم ہے، کچھ اندازہ ہی نہیں ہو پا تا کیا ہو گا۔سرفراز نے چاہت بھری نظروں سے اپنے بچپن کے ساتھی انوار کو دیکھا جس سے آج پندرہ سال بعد ملاقات ہوئی تھی۔ دونوں کی بہت ساری یاد میں ایک سی تھیں ۔جب وہ بہت چھوٹا سا تھا تبھی اپنے خالو کے گھر پڑھنے بھیج دیا گیا تھا۔ الوکا گھر ایک بڑے دیہات میں تھا جہاں سے دو میل کے فاصلے پر بسے قصبے میں انٹر کالج تھاوہیں پہلے ہی دن ایک ہم عمر لڑکے نے بہت بے تکلفی کے ساتھ اس کی ربر لے کر اپنی آرٹ کی کاپی پر غبارے نما پھول مٹا کر ایک لیمپ نما بل بنا کر اس کی ربر واپس کر دی تھی ۔ حاضری کے وقت اس کا نام ہوا تھا۔سید انوار علی۔۔حاضر جناب۔۔سرفراز دھیرے سے بولا۔سید انوار علی ۔حاضر جناب ۔ تمھیں اسکول یاد آرہا ہوگا۔ہاں۔۔تمھیں کیسے معلوم؟یار تم اب بھی پہلے کی طرح گھامڑ باتیں کرتے ہو۔ میرا پورا نام حاضری کے وقت ڈرائنگ ماساب کے علاوہ اور کون جانتا تھا؟سرفراز یہ سن کر مسکرایا حالانکہ گھامڑ والا جملہ اسے برالگا تھا لیکن وہ سوچ کر مطمئن ہو گیا کہ آج میں افسر کی اونچی کری پر بیٹھا ہوں۔ میرا بچپن کا یہ دوست پرائمری اسکول میں اردو ٹیچر ہے۔ اپنے احساس کمتری پہ قابو پانے کے لیے اسے ایسے ہی جملے بولنے چاہئیں۔ پھر اس نے سوچا۔ انوار ہی تو اسے اسکول سے واپسی پر حوصلہ دیتا تھاور نہ قصبے سے دیہات تک پھیلے جنگل،سنسان باغوں اور خاموش کھیتوں میں ہو کر گزرنے میں اس کی روح آدھی رہ جاتی تھی۔ سرفراز نے سرکرسی کی پشت سے لگایا اور آنکھیں بند کرلیں اور بچپن کی اس دہشت کو یاد کیا اور اس یاد میں مزہ محسوس کیا۔ جاڑوں کے شروع میں چار بجے اسکول کی آخری گھنٹی بجتی ۔ سب کے سب غل غپاڑہ کرتے تیزی سے نکلتے اور مست چال سے بستے کندھے پر ڈالے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے۔سرفراز کے دیہات کا کوئی بھی لڑکا کالج میں پڑھنے نہیں آتا تھا اور راستے کی دہشت کے خیال سے سہا سہا ، دھیرے دھیرے قدموں سے کالج کے گیٹ سے باہر نکلتا۔ انوار کبھی اس کے ساتھ ہوتا، کبھی نہیں ہوتا۔ جب ہوتا تھا تو تالاب تک چھوڑ نے ضرور آتا تھا۔ تالاب سے آگے وہ بھی نہیں بڑھتا تھا کیونکہ تالاب کے بعد سڑک مرگئی تھی اور موڑ کے بعد پیچھے دیکھنے پر قصبہ غائب ہو جاتا تھا۔ رخصت ہوتے وقت وہ اس کی ہمت بڑھاتا تھا۔تم ڈر نامت سرفراز ۔ نہر کی پٹری پار کرو گے تو باغ میں داخل ہونے پر کوئی نہ کوئی آدمی مل ہی جائے گا۔سرفراز اس کی طرف بے بس نظروں سے دیکھتا اور اس خیال سے کہ انوار پر اس کا ڈرظاہر نہ ہو،چہرے پہ بہادری کے تیور سجا کر جواب دیتا۔ نہیں ڈرنے کی کیا بات ہے۔ باغ میں کبھی کبھی آدمی مل جاتے ہیں تو ذرا اطمینان رہتا ہے اور نہیں ملتے ہیں تب بھی میں گھبراتا نہیں ہوں ۔ یہ کہہ کر دیہات کی طرف چل پڑتا۔ دونوں پیچھے مڑ کرا یک دوسرے کو دیکھتے رہتے۔ سرفراز انوار کے اوجھل ہوتے ہی گردن کے تعویذ کو چھو کر محسوس کرتا اور جلدی جلدی آیت الکرسی پڑھنے لگتا۔ نہر کی پٹڑی پر مڑنے سے پہلے وہ چاروں قل پڑھ کر اپنے سینے پر پھونکتا اور پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہوا باغ کی طرف بڑھنے لگتا۔ یہ غروب کا وقت ہوتا تھا۔ سردیوں میں شامیں جلدی آجاتی تھیں۔ نہر کی پٹری پر مڑنے سے پہلے کچی سڑک پرا کاد کا آدمی سائیکل پر آتے جاتے مل جاتے یا گھنٹیاں بجاتی بیل گاڑیاں گزرتیں تو اسے تقویت کا احساس رہتا لیکن پڑی پر مڑتے ہی بالکل نا نا ہو جاتا تھا۔اور پرشیشم کے درخت پہ بیٹھا کوئی گدھ شاخ بدلتا یا پرکھول کر برابر کرتا تو وہ آواز اس سناٹے کو اور ڈراؤنا بنادیتی، اور یہی وہ وقت ہوتا تھا جب وہ آیت الکرسی بھول جاتا تھا۔ وہ قتل ہو اللہ پڑھنا شروع کر دیتا۔ اسی درمیان تیزی سے اول کلمہ طیب بھی پڑھ لیتا۔ اور اب سامنے باغ آتا۔ آموں کا بوڑھا باغ ، ڈوبتے سورج کی زرد روشنی میں کہرے میں لپٹا باغ جس کے اندر دو پہر کے وقت بھی سورج ڈوبنے والے وقت جیسا اندھیرا ہوتا تھا۔ کیونکہ ایک دن اتوار کو اس نے دوپہر کے وقت بھی یہ باغ دیکھا تھا۔ شام کے وقت یہ باغ بالکل بدل جاتا۔ لگتا جیسے سارے درختوں کی چوٹیاں آپس میں گندھ گئی ہیں۔ نجری کے درخت کے نیچے سے ہو کر گزرتے ہوئے اسے اپنے دل کی تیز تیز دھڑکن سنائی دیتی۔ اسے لگتا جیسے جنات بابا درخت سے اب اترے۔ باغ سے نکل کر ایکھ کے کھیتوں کے پاس مینڈھ پر گزرتے ہوئے اسے محسوس ہوتا کہ ابھی ایکھ کے کھیت سے نکل کر بھیٹر یا اس کی ٹانگ پکڑلے گا۔ وہ پینے پینے ہو جاتا۔ پھر گیہوں کے کھیت آتے۔ پھر پلکھن کے درخت کے اوپر گاؤں کی مسجد کے منارے اور مندر کے کلس نظر آتے ۔ جب آہستہ آہستہ اس کے بدن کا کھنچاؤ دور ہوتا۔ ٹانگوں میں طاقت کا احساس پیدا ہوتا۔ پھر وہ بلند آواز میں کوئی فلمی گانا گانے لگتا۔مہینے میں دو چار بار ایسا ہوتا کہ باغ میں داخل ہوتے ہی اسے آدمی نظر آجاتا جو عموماً پھاوڑا لیے جھونپڑی کی طرف جارہا ہوتا تھا۔ اسے دیکھ کر گانا شروع کر دیتا۔ گانا بیچ میں روک کر وہ بہت اپنائیت کے ساتھ آدمی کو سلام کرتا۔

آدمی اس کا سلام سن کر پھاوڑ از مین پر رکھ کر آنکھیں مچا کر اسے دیکھتا۔ رام رام بیٹا۔ پٹواری صاحب کے بھانجے ہو۔ انھیں ہماری رام رام بولنا۔دو روزانہ اسی بھروسے پہ کالج سے گھر آنے کی ہمت کر پاتا تھا کہ شاید آج بھی آدمی مل جائے۔اگر یہ آمرانہ ہوتا تو وہ رو پیٹ کر کالج سے نام کٹا کر اپنے گاؤں واپس جاچکا ہوتا۔لیکن آدمی روزانہ نہیں ملتا تھا۔ ایک دن کالج سے نکلتے نکلتے دیر ہوگئی۔ وہ گراؤنڈ پر والی بال کا میچ دیکھنے میں ایسا محو ہوا کہ وقت کا احساس ہی نہیں ہوا۔ جب دیر کا احساس ہوا تو اس نے سورج کی طرف دیکھا جو آج قصبے ہی میں زرد ہو گیا تھا۔ وہ تیزی سے کالج کے گیٹ سے باہر نکلا اور دیہات کی طرف چل پڑا۔ نہر کی پٹڑی پر مڑتے ہی اس نے اپنے بدن میں یہ سوچ کر سنی محسوس کی کہ اب تو باغ سے آدمی بھی چلا گیا ہو گا۔ اس نے ماتھے کا پسینہ پونچھا اور شیشم کے درخت کے نیچے سے گزرا۔ درخت کے نیچے سے نکلتے ہی اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی درخت سے اتر کر اس کے پیچھے چل پڑا ہو۔ پیچھے کی آہٹ اچانک تھم گئی۔ اسے لگا جیسے جنات بابا پیچھے سے اس کی کمر کا نشانہ لے کر جادوکی گیند مارنے ہی والے ہیں۔ اس نے تیزی سے کلمہ پڑھا اور لکھیوں سے پیچھے دیکھا۔ وہ ایک بڑا بندر تھا جو چلتے چلتے اچانک رک کر زمین پر دونوں ہتھیلیاں ٹیکے اس کی طرف دیکھ کر خر خر کر رہا تھا۔ اسے بندر سے بھی ڈر لگتا تھا لیکن جنات بابا کے مقابلے میں کم ۔ اس نے اپنا بستہ کس کے پکڑا اور باغ کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ آج آگے کا راستہ بھی بند تھا اور پیچھے کا بھی ۔ آگے سنسان باغ جس میں اب آدمی ہونے کی اسے کوئی امید نہیں تھی اور پیچھے بندر۔سورج ڈوبے دیر ہو چکی تھی اور باغ کے درخت دھیمی آواز میں شام کی سرگوشیاں شروع کر چکے تھے۔ وہ باغ میں داخل ہوا اور آگے بڑھا۔ بوڑھے نجری کے پاس سے گزرتے ہوئے اس کا دل زور سے دھڑ کا۔ یہی جنات بابا کا اصلی گھر ہے۔دانی سمت سے آواز آئی۔ آج بہت دیر کی بیٹا ۔ارے۔۔۔آدمی موجود ہے۔ اسے اتنی خوشی اس دن بھی نہیں ہوئی تھی جس دن انگلش والے ماساب نے مائی کا ؤ لکھنے پر اسے ویری گڈ دیا تھا۔ اس نے آدمی کی طرف نگاہیں اٹھا ئیں ۔ وہ جھونپڑی کے قریب درختوں کے پاس کہرے میں کھڑا تھا۔ اس نے غور سے دیکھا۔ اس کا پھاوڑا اس کے ایک ہاتھ میں تھا جسے وہ زمین پہ ٹکائے ہوئے تھا۔ دوسرے ہاتھ سے وہ انگو چھے کو کانوں پہ برابر کر رہا تھا۔ کبرے میں اپنا دھوتی کرتا انگو چھاپہنے یہ آدمی اسے حضرت محضر علیہ السلام کا نوکر لگا۔آدمی سلام ۔ وہ چہک کر بولا ۔جیتے رہو بیٹا، پٹواری ساب کو ہماری رام رام کہنا۔ اندھیرا مت کیا کرو۔اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ گھر آ کر کھانا کھانے کے دالان میں بیٹھی خالہ کے کلیجے سے لگ کر اس نے انھیں پورا واقعہ سنایا۔ وہ چاہتا تھا خالو اور خالہ کو علم ہو جائے کہ اسکول کی پڑھائی کے علاوہ راستے میں واپسی کے لیے اسے کیسی جو کم اٹھانی پڑتی ہے ، مگر خالہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ والی بال کے میچ کے چکر میں اسے دیر ہوئی تو وہ ہمدردی کے بجائے الٹا اسے ڈانٹنے لگیں۔رات کو دالان میں رضائی سے بدن اچھی طرح لپیٹ کر اس نے سوچا۔ اگر وہ آدمی مرگیا تو میں اسکول سے کیسے واپس آیا کروں گا۔ پھر یہ سوچ کر مطمئن ہوا کہ وہ آدمی دیکھنے میں تو خالو سے بھی چھوٹا لگتا ہے، ابھی نہیں مرے گا۔سرفراز اجتمھاری خالہ کی بیٹی کی شادی ہے۔ خالہ نے مجھے بلا کر کہا کہ سرفراز تو ہمیں بالکل بھول گیا۔ تم اس سے جا کر کہو کہ خالہ اور خالو اسے دیکھنے کو بہت بے تاب ہیں۔ اسے شادی میں ضرور آنا ہے۔“ سرفراز کو یہ سن کر بہت ندامت ہوئی۔ وہ ندامت کے اس احساس کو چھپانا چاہتا تھا۔ اس نے سنجیدہ لیجے لیکن کھو کھلی آواز میں انوار کو بتایا کہ سرکاری ملازمت خصوصا ذمہ داری کے عہدے پر کام کرنے میں بالکل فرصت نہیں ملتی۔ پھر اسے عائشہ کی یاد آئی جسے اسے نے اپنی گود میں کھلایا تھا۔ وہ کتنی جلدی اتنی بڑی ہوگئی۔شادی کب ہے؟پرسوں بارات آئے گی ۔ارے۔ ۔ان حالات میں تاریخ کیوں رکھ دی خالہ نے تم نے دیکھا نہیں، کیسے دیوانے ہور ہے ہیں سب، لال بھبھوکا چہرے لیے ٹرکوں اور ٹریکٹروں پر جلوس نکال رہے ہیں ۔ ہاتھوں میں ہتھیار اور کیسے نفرت انگیز نعرے انوارا سے دیکھتا رہا۔ پھر بولا میں نے بھی خالہ سے کہا کہ آج کل تقریب کرنے والا وقت نہیں ہے۔ گاؤں گاؤں میں وہ بات پھیل گئی ہے۔ خود ان ہی کے گاؤں میں لوگوں کے لہجے بدل گئے ہیں، مگر خالہ کی مجبوری ہے۔ خالو کے بھائی کے بیٹے سے رشتہ طے ہوا ہے جو تین دن بعد جدہ واپس چلا جائے گا۔ خالو بھی اب بہت کمزور ہو گئے ہیں۔ اپنے سامنے عائشہ کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں۔ تمھیں آج ہی چلنا ہوگا سر فراز بھا بھی کو فون کر کے تیار ہونے کو کہہ دو۔کیا تم نے اخبار نہیں پڑھا انوار۔ پرسوں ریل گاڑی سے اتار کر وہ چپ ہو گیا۔ انوار بھی خاموش ہو گیا۔ پھر بولا۔اچھا تو بھا بھی اور بچوں کو یہیں رہنے دو۔۔ہاں۔ ان لوگوں کو نہیں لے جایا ؤں گا ۔گیارہ بجے ہیں۔ اگر بارہ بجے بھی کار سے چلیں تو شام چھ سات بجے تک خالہ کے ہاں پہنچ جائیں گے۔۔ہاں تقریباً ڈھائی تین سوکلومیٹر کا سفر ہے۔راستے میں نہر کے پل پر اچانک کچھ لوگوں نے گاڑی کے سامنے آ کر گاڑی روکنے کا اشارہ کیا۔ دونوں کے دل بیٹھ گئے کیونکہ بچاؤ کے لیے ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ سامنے پل پر ٹرک اور ٹریکٹروں کا جلوس آرہا تھا۔ لوگ دیوانہ وار نعرے لگارہے تھے اور ایک عجیب جذبے کے ساتھ آگے بڑھتے چلے آرہے تھے۔ دونوں کے ذہنوں نے کام کرنا بند کر دیا۔ دونوں گاڑی میں بیٹھے رہے، جلوس برابر سے گزرتا رہا۔ گاڑی رکوانے والے وہیں کھڑے کھڑے نعروں کا جواب دیتے رہے۔ سرفراز نے آیت الکرسی یاد کی۔

جلوس گزر گیا تو وہ لوگ بھی زور زور سے کچھ باتیں کرتے جلوس کے ساتھ بڑھ گئے۔ سرفراز سخت ذہنی دباؤ میں تھا اس لیے گاڑی فوراً اسٹارٹ نہیں کر سکا۔ دونوں بیٹھے ایک دوسرے کا ڈر محسوس کرتے رہے۔سرفراز نے گاڑی اسٹارٹ کی تو انوار بولا کھلے عام سڑک پرا کاد کا آدمیوں سے کچھ نہیں کہتے ۔ اکا دکا آدمیوں سے نمٹنے کے لیے شہر شہر گاؤں گاؤں لوگوں کو تیار کیا گیا ہے۔ پچھلے جمعہ کو جب احمد شہر کی پٹری سے باغ کی طرف مڑا تو اچانک کسی نے پیچھے سے سرفراز کے بدن میں سر سے پاؤں تک سنسنی سی دوڑ گئی۔ وہ خالی ذہن کے ساتھ گاڑی چلاتاس رہا۔ انوار بتاتا رہا۔اگر پورا جلوس اکا دکا آدمیوں پر حملہ کرے تو بد نامی بھی تو بہت ہوگی۔ ویسے اپنی طرف سے بھی تیاریاں ٹھیک ٹھاک ہیں ۔ اس نے یہ بات راز داری کے لہجے میں بتائی۔جب وہ نہر کی پٹڑی پر مڑے تو سورج ڈوب رہا تھا۔ سرفراز کو اپنا بچپن یاد آ گیا۔ تب اسے یہ خاموش نہر ، سنسان پڑی اور سائیں سائیں کرتے باغ کتنے بھیا تک لگتے تھے۔ اس نے اچانک گاڑی کے بریک لگائے۔ ہیڈ لائٹ کی روشنی میں ایک بڑا سا بندر ہتھیلیاں زمین پر ٹیکے ان کی طرف دیکھ کر خر خر کر رہا تھا۔ دونوں مسکرائے ، بندر بھاگ کر درخت پر چڑھ گیا۔ او پر کسی گدھ نے پہلو بدلا تو پھڑ پھڑاہٹ کی آواز ہوئی۔ سرفراز نے سوچا۔ پہلے اس پھڑ پھڑاہٹ سے کتنا ڈر لگتا تھا۔تو یہ احمد دکا ندار والا معاملہ کب ہوا تھا؟ آج چار دن ہو گئے ۔ارے سرفراز کی ہتھیلیاں اسٹیرنگ وہیل پرنم ہو گئیں۔ کیا ہوا؟ انوار نے پوچھا حالانکہ اسے معلوم تھا کہ کیا ہوا۔نہیں ۔ کچھ نہیں۔ یعنی ابھی بالکل تازہ واقعہ ہے۔ کچھ پتہ لگا؟۔پتہ کیا لگتا۔ الٹے تھانیدار نے دفن کے بعد ہی سب کو ڈانٹا کہ جب ایسے حالات چل رہے ہیں تو سورج مندے گھر سے باہر نکلنے ہی کیوں دیا۔ اندھیرے میں حملہ کرنے والوں کو مار کر بھاگنے میں سہولت رہتی ہے۔ پٹڑی سے اترتے ہی باغ سامنے آ گیا۔گاڑی یہیں روک کر بیک کر کے لگادو ۔ آگے راستہ نہیں ہے۔ انوار بولا۔ سرفراز نے گاڑی بیک کر کے لگا دی اور باغ کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔کہرے میں لپٹا باغ بہت دن بعد دیکھا تھا۔ آج اسے باغ سے کوئی خوف محسوس نہیں ہوا لیکن ایک عجیب سا سناٹا دونوں کے اندر خاموشی سے اتر آیا تھا جو باتیں کرنے کے باوجود ٹوٹ نہیں رہا تھا۔ دونوں جب جنات بابا والے پرانے درخت کے پاس سے گزر رہے تھے تو سرفراز نے اچانک رک کر انوار کا ہاتھ اتنے زور سے دبایا کہ دکھن ہڈیوں تک پہنچ گئی۔انوار نے سرفراز کی طرف دیکھا۔ سرفراز نے آنکھ کے اشارے سے باغ کی بڑی مینڈھ کی طرف اشارہ کیا۔ انوار کو کچھ نظر نہیں آیا۔ اندھیرے میں وہ اس جگہ کا تعین بھی نہیں کر پایا جہاں سرفراز نے اشارہ کیا تھا۔سرفراز نے اس بار اور بھی زیادہ زور سے ہاتھ دبایا اور اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے پکڑے واپس مڑا اور کھینچنے والے انداز میں دوڑتا، گرتا سنبھلتا باغ سے باہر نکلا۔ گاڑی میں انوار کو دھکیل کر گاڑی اسٹارٹ کی اور فل اسپیڈ پر نبر کی پٹڑی پر چڑھا کر پل پار کر کے کچی سڑک پر آ گیا۔ سرفراز شدید کھنچاؤ کے عالم میں گاڑی چلا رہا تھا۔ اس کا چہرہ ہولے ہولے کانپ رہا تھا اور پورا بدن پسینے سے شرابور ہو چکا تھا۔ اب دور نکل آئے ہیں۔ بتاؤ تو سہی کیا بات تھی؟ سرفراز نے گاڑی روک دی۔ باغ کی مینڈھ پر درختوں کے درمیان ایک آدمی جھکا کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار تھا جسے وہ زمین پر ٹکائے ہوئے تھا۔

مصنف:سید محمد اشرف

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -
- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here