پرایا گھر

0
232
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

تمام گھر ایک جیسے ہیں کہیں میں کسی اور گھر میں نہ پہنچ جاؤں۔جب وہ مجھے ہاسپٹل سے گھر لے جارہے تھے تو میں بار بار یہی سوچ رہا تھا۔ ہسپتال کے ڈاکٹر کہہ رہے تھے کہ کار کے حادثے میں مجھے شدید چوٹ آئی تھی، مگر وہ سب جھوٹے ہیں، اگر مجھے چوٹ لگی تھی تو اس کا احساس کیوں نہ ہوا۔وہ سب مجھے بڑی معنی خیز نظروں سے دیکھتے تھے اور ہر وقت میرے بستر کے پاس پہرہ دیتے رہتے تھے جیسے میں اٹھ کر کہیں بھاگنے والا ہوں۔آخر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔وہ لوگ مجھے جانے کس پرائے گھر میں چھوڑ گئے، جیسے ہی مجھے سب نے پکڑ کر بستر پر لٹایا کوئی عورت زور زور سے چلانے لگی۔ہائے یہ کیا ہوگیا۔ نہیں نہیں، یہ میرا حامد نہیں ہو سکتا۔ اسے کچھ نہیں ہوا۔اور پھر کسی بچے نے پوچھا۔امی یہ چادر اوڑھے کون لیٹا ہے ابا کے پلنگ پر؟اب تو اس بات میں کوئی شک نہ رہا کہ میں غلطی سے کسی اور کے گھر میں آ گیا ہوں۔ مجھے ہمیشہ سے اس بات کا ڈر لگا رہتا تھا کہ اگر میں دوسروں کے گھر میں گھس جاؤں تو کیا ہوگا؟ کہیں گھر کے مرد نہ آجائیں، چلو بھاگو بھاگومگر لوگ مجھے چاروں طرف سے پکڑے بیٹھے ہیں۔ چپ رہو۔ چپ رہو بھائی۔ دوسرے کمرے میں کوئی سب کو چپ کراتا پھر رہا ہے۔ تم لوگ اتنا شور مچاؤ گے تو وہ اور بھی پاگل ہو جائے گا۔ اب کسی طرح اسے بہلاؤ تاکہ اس کا جی گھر میں لگے۔بہلاؤ۔۔۔۔ پہلاؤ کیا معنی یعنی اپنا گھر چھوڑ کے اس گھر میں رہ پڑوں ۔ آخر یہ ہے کون بزدل جو اپنے بیوی کو خود نہیں پال سکتا۔ اور مجھے زبردستی اپنے پلنگ پر سلا رہا ہے۔ ہو نہ ہو یہ سب لٹیرے ہیں، مجھے لوٹنا چاہتے ہیں۔ میری کنجیاں کہاں گئیں! میری کنجیاں دے دو۔ افوہ۔۔۔جانے کس احمق کا گھر ہے کہ روشنی کا کمرہ میں نام بھی نہیں ہے۔

آج ابھی تک سورج کیوں نہیں نکلا۔ کہیں اُسے بھی کسی اور گھر میں قید نہ کر دیا ہو۔ یا شاید اب رات ہو۔ مگر رات آئی کدھر سے؟ رات ہوتی تو چاند تارے چھت پر نکلتے چندا ماموں دور کے۔۔۔چندا ماموں تا آؤ آؤ۔۔۔کون آیا ہے؟ کیا سورج صاحب آگئے۔ہاں سورج کو اب آجانا چاہیے۔ اگر کسی دن صبح ہو جائے اور سورج نہ نکلے تو کیا غضب ہو۔پھر میں نہ تو شیو کر سکوں گا نہ چائے پی سکوں گا۔ بھلا اس اندھیرے میں کوئی شیو کر سکتا ہے۔ کہیں اپنی گردن ہی نہ کاٹ لوں ، ہسپتال کا ڈاکٹر کہتا تھا کہ اب اپنے ہاتھ بھی کٹ گئے ہیں۔اب شیو کا سامان بھی کیسے ملے گا۔میری تو کنجیاں ہی کھو گئی ہیں۔ میری ہر چیز غائب ہے۔ ڈاکو میری ساری دولت لے بھاگے ہیں۔ اس گھر میں تو چوروں کی بستی آباد ہے۔ وہ سب مجھے کیسے تعجب سے دیکھتے ہیں۔ آپس میں کانا پھوسی کرتے ہیں۔ اور وہ کھانا لے کر آنے والا فضلو تو مجھے دیکھ کر زورزور سے ہنستا ہے۔ بدتمیز جاہل گنوار۔ شاید وہ سب بے چارے کسی حادثے میں پاگل ہو گئے ہیں۔ مثلا کہیں کار میں جارہے ہوں گے کہ اچانک افوہ میرے سر میں کیسا شدید درد ہو رہا ہے۔ یقیناً کسی نے میرے سر پر پتھر مارا ہے۔ جی چاہتا ہے میں بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دوں ۔سب کو مار مار کے بھرکس نکال دوں۔ مگر اس وقت تو اتنے نرم بستر سے اٹھنے کو دل نہیں چاہ رہا ہے، اور پھر اس آدمی سے بھی ڈرلگ رہا ہے جو دروازے کے اوپر ایک چھوٹی سی کھڑکی میں بیٹھا ہر وقت جھانکتا رہتا ہے۔ میری طرف بڑی طنز بھری نظروں سے دیکھتا ہے۔ جیسے کہ رہا ہو۔ کیوں کیسے پکڑے گئے۔ جاؤ یہاں سے چلے جاؤ۔۔۔یہاں سے چلے جاؤ۔۔۔مجھے چھوڑ دو۔میرے چیخنے کی آواز سن کر ایک موٹی سی تھل تھل عورت اندر آتی ہے۔ اس عورت کا نام نمو ہے۔مجھے جانے کیسے یہ بات معلوم ہوگئی ہے۔وہ یہ ڈھونگ رچائے ہوئے ہے کہ میں اس کا شوہر ہوں۔۔۔ یہ بھی خوب رہی۔۔۔اتنی قابل نفرت، بد شکل اور بھدی عورت میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ میں اس سے صاف صاف بات کر چکا ہوں کہ فی الحال تو میں تمھیں جوتے سے بھی چھونے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اس کے باوجود کئی کئی بار کمرے میں آکر مجھے ڈانٹتی ہے۔ چپ چاپ لیٹے رہنے کا حکم دیتی ہے۔ اس بات سے مجھے کچھ شبہ ہوتا ہے کہ وہ یقینا اگلے جنم میں کسی نہ کسی مجھ جیسے مظلوم انسان کی بیوی ضرور رہی ہوگی۔ اس وقت بھی وہ اندر آ کر پوچھتی ہے۔

کون آیا ہے،آپ کسے ڈانٹ رہے ہیں؟یہ آدمی! آخر یہ چوبیس گھنٹے مجھے کیوں گھورے جاتا ہے۔میں ہاتھ اٹھا کر کھڑکی میں بیٹھے اس آدمی کو ٹھینگا دکھاتا ہوں۔یا اللہ میرے اوپر رحم کرے نمو اپنے ماتھے پر مار کے کہتی ہے۔ وہ بھی کوئی آدمی ہے جس سے آپ ڈر رہے ہیں۔ وہ تو آپ کا فوٹو ہے۔ کیا آپ اپنے آپ کو بھی بھول گئے ۔؟نہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ آدمی میں ہوں ۔ اگر وہ آدمی میں ہوں تو پھر میں کون ہوں؟ہم دونوں میں سے اصل کون ہے ! یہ تو بڑی گڑبڑ ہو گئی۔ اگر کسی کو معلوم ہو گیا کہ اصل میں، کوئی اور ہے تو کیا ہوگا؟ اب مجھے جلدی سے کہیں چھپ جانا چاہیے۔ میری رضائی کہاں گئی۔ اب چاہےمجھے کوئی کتنا ہی پکار لے میں ہرگز جواب نہیں دوں گا۔دوسرے کمرے میں کوئی بار بار میرا نام لے کر کچھ کہ رہا ہے۔وہ پاگل نہیں ہوا ہے۔ تم لوگ اس کا علاج نہیں کرواتے، کیونکہ تم میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ وہ پھر صحت مند ہو کر تمھاری گردن پر سوار ہو جائے۔اتنی جائیداد بینک بیلنس سات سوروپے پنشن یہ آدمی یقیناً نمو کا شوہر ہے ممکن ہے اب پاگل ہوگیا ہو،یا پھر وہ سب مل کر مجھے پاگل بنانے کی سازش کر رہے ہیں۔ مجھے دوٹکڑوں میں بانٹ کر اوپر لٹکا دیا گیا ہے۔ یہ لوگ مجھے ہسپتال سے اغوا کر کے لائے ہیں۔کون ہے۔ کون میری رضائی کھینچ رہا ہے۔ میں یہاں نہیں ہوں۔ میں تو اوپر کھڑکی سے جھانک رہا ہوں۔نمو پھر میرے پاس آئی ہے۔ اس کے ہاتھ میں انگوروں سے بھری ایک پلیٹ ہے اور ساتھ میں چند تماشائی بھی ہیں جنھیں وہ میرا تماشہ دکھانے لائی ہے۔وہ بڑی محبت سے انگور میرے منھ میں رکھ کر کہتی ہے۔ حامد ذرا ہوش میں آئیے۔ دیکھئے آپ کی چچی اماں آئی ہیں۔ نشاط اور اختر آئے ہیں۔ کیا آپ انھیں بھی بھول گئے۔کیسے۔۔۔کیسے مزاج ہیں۔ایک صاحب میرے قریب بیٹھ کر پوچھتے ہیں۔اچھا اچھا، سمجھ گیا ۔ میں اس آدمی کو پہچان کر کہتا ہوں تم ہسپتال والے ہو، مجھے انجکشن دینے آئے ہو۔ میں جلدی سے اٹھ کر اپنے بچاؤ کے لیے گلدان ہاتھ میں اٹھالیتا ہوں۔چلے جاؤ یہاں سے چلے جاؤ، ورنہ سب کے مزاج بحال کر دوں گا۔ پھر میں روتی ہوئی نمو کو بھی ایک لات جھاڑ کر کہتا ہوں۔بس کرو ایکٹنگ میں مداری کا بندر نہیں ہوں تم جس کا تماشہ سب کو دکھاتی ہو۔ کہو تو ابھی سب کے سامنے تمھارا بھی تماشہ شروع کر دوں۔اب تو اس گھر سے بھا گنا ہی پڑے گا۔ واہ کیسا مزہ آئے گا جب کسی دن یہ لوگ مجھے اس بستر پر نہ پائیں گے اور چلا چلا کے میری جائیداد اور پنشن کے لیے روئیں گے۔مگر اس دوسرے میں نے تو سارا معاملہ ہی چوپٹ کر دیا ہے۔ وہ کم بخت ہر وقت میر نگرانی کرتا ہے۔ میں آخر کیوں دو حصوں میں ٹوٹ گیا۔ایساٹوٹا پھوٹا انسان کرے تو کیا کرے؟ اس دن میرے کمرے میں دو بچے بھیجے گئے۔ دس گیارہ برس کا ایک بے حد شکی اور محتاط قسم کالڑکا وہ بار بار دیکھ رہا تھا کہ میرے ہاتھ میں پتھر تو نہیں ہے، اور ایک بے خد خوبصورت سی بچی، چھوٹی سی گڑیا، جو چابی دینے سے چوں چوں بولتی ہے۔چوں۔۔۔چوں آؤ آؤ۔لیکن میرے بلانے سے پہلے ہی وہ مجھ سے آکر لپٹ گئی اور پپو کے منع کرنے کے باوجود اپنے سنہرے بال میرے سینے پر پھیلا کے کہنے لگی۔ ابا ابا آپ کو سر میں چوٹ کیسے لگی۔ ابا ابا پپو آپ سے ڈرتا ہے۔ ابا ابا آپ ہمیں تو نہیں ماریں گے نا۔ پھر میرے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر آہستہ سے بولی، ہمیں ایک چھوٹا سا پلین لادیجئے۔ اس میں بیٹھ کر اپن دور چلے جائیں گے ۔خوب دور۔۔۔اوں۔۔۔زوں زوں اچانک ہم دونوں واقعی چھوٹے سے پلین میں بیٹھ کر اڑنے لگے۔۔ٹاٹا۔۔۔ٹاٹا۔۔۔چوں۔۔۔چوں۔۔۔ہاتھ ہلا کے نیچے رہ جانے والی ذلیل مخلوق سے کہتی ہے۔۔ ٹاٹا۔۔۔ٹاٹا۔۔۔میں بھی ہاتھ ہلا کے اس اجنبی گھر کے لوگوں سے کہتا ہوں ۔ٹھہرئیے۔ آپ کہاں جارہے ہیں؟آخر ان کم بختوں نے مجھے پکڑ ہی لیا۔اتنی تیزی سے مت بھا گیے ۔ آپ کی طبیعت اچھی نہیں ہے۔ نمو پیچھے سے مجھے پکڑ لیتی ہے۔منی اتر نیچے ۔ اب ان کے کاندھے پر سوار ہونے کی عادت چھوڑ دے۔ تیرے ابا کی طبیعت اچھی نہیں ہے۔چھوڑ دو ہمیں چھوڑ دو۔ ہم پلین میں دلی جا رہے ہیں ۔ بہت دور جارہے ہیں ٹاٹا۔۔۔ ٹاٹا۔۔۔لیکن منی کو زبردستی اترنا پڑا۔ مجھے بھی مجبورا اپنے کمرے میں آکر لیٹنا پڑا۔ اب نمومیرے پاس بیٹھ کر بڑے ناز سے کہتی ہے۔خدا کا شکر ہے آپ اپنے بچوں کو نہیں بھولے۔پھر وہ چوں چوں کی طرح میرے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر میرے اور قریب آجاتی ہے۔ سچی۔۔۔ میں تو ڈرہی گئی تھی کہ اگر آپ اپنے بچوں کو بھول گئے تو ہمارا کیا ہوگا؟کیوں تمھارا کیا بگڑگیا۔ میں اس سے دور ہٹ کر بیٹھ جاتا ہوں۔ اے واہ میں کیا اب کمانے نکلتی ۔ آپ کی پنشن آرہی ہے تو گھر چل رہا ہے۔ اب اس تھوڑی سی جائیداد کا سہارا ہی تو رہ گیا ہے۔ امتیاز کی ماں تو خوب عیش کر کے مرگئی۔ اب آپ نے مجھے سے بیاہ کیوں کیا تھا۔ میں ان چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر کہاں جاؤں؟یہ عورت یقینا پاگل ہے ۔ ابھی رونا شروع کیا تھا کہ ابھی جھٹ سے ہنسنے لگی اور ایک کاغذ میرے سامنے رکھ دیا۔

لو اس پر دستخط کر دو۔یہ کیا ہے۔! میں غور سے دیکھتا ہوں کہ کہیں میری غلامی کی دستاویز تو نہیں ہے۔ شاید اس بات کا اقرار ہو کہ میں دو حصوں میں بٹ گیا ہوں۔ ایک تو اوپر کھڑکی میں سے   جھانک رہا ہوں اور ایک یہاں ان ظالموں کے چنگل میں پھنسا بیٹھا ہوں۔کیا دیکھ رہے ہیں، دستخط کر دیجیے نا! ایک ہزار کے ہندسے ابھر ابھر کرمٹ رہے ہیں۔ اچھاتو یہ صرف پیسوں کی بات ہے! میں جلدی سے دستخط کر دیتا ہوں۔امی اگر ابا دستخط کرنا بھی بھول جاتے تو کیا ہوتا ! ہمارے قریب کھڑا ہوا پپو کہہ رہا ہے۔ پپو کے قریب فضلو ہے۔ فضلو کے قریب شمی ۔ اور جانے کون امی ممی ہمیں گھیرے کھڑے ہیں۔ صاحب کلم پکڑنا بھول جاتے تو ساری دولت ہاتھ سے گئی تھی ۔یہ بات سڑے سیتا پھل کے بیجوں جیسے دانتوں والے فضلو صاحب فرما رہے تھے۔ تو چپ چوپ میں اچانک اسے ڈانٹنا شروع کر دیتا ہوں۔بڑا آیا دولت کا تماشہ دیکھنے والا۔ اور تو مجھے دیکھ دیکھ کر کیوں ہنستا ہے۔۔۔ہے! یہاں کوئی مداری کا تماشہ ہورہا ہے یا میرے سرپرسینگ اگ آئے ہیں۔میری بات سن کر سب ہنس پڑتے ہیں، اور مجھے شک ہوتا ہے کہ واقعی میری صورت میں کوئی گڑ بڑ ہوگئی ہے یا پھر یہ بات ہر شخص کو معلوم ہو چکی ہے کہ میں آدھا وہاں کھڑ کی میں ہوں۔ جبھی تو سب مجھے اتنے غور سے دیکھتے ہیں۔ حدیہ ہے کہ کھڑکی میں بیٹھا ہوا میں بھی اپنے آپ کو بڑی حیران نظروں سے دیکھ رہا ہوں نہیں۔ اب یہ اول جلول حرکتیں چھوڑ دینا چاہیے۔ کل جب میں ایک مکھی کو مار نے سارے گھر میں لکڑی لیے پھر رہا تھا تو بہت سے بلب ٹوٹ گئے ۔ شیشے کی الماری اوندھی ہوگئی اور نمو کہنے لگی ۔ سب لوگ میرا تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارے شہر کے سنیما ہال بند ہو چکے ہیں جبھی تو لوگ تماشہ دیکھنے اس گھر میں آجاتے ہیں۔ بلکہ تماشہ کرنے بھی۔ کل دوپہر یہاں ڈائننگ ہال میں میٹنی شو چل رہا تھا۔ وہی خوبصورت سی لڑکی شمی ہیروئن تھی اور ایک لمباسا کالا نوجوان ہیرو تھا۔ وہ لوگ بڑے رومانی موڈ میں تھے۔ یہ چوری ہے۔ صریحاً چوری۔ میں نے سوچا کہ یہ منظر تو ہر ہندوستانی پکچر میں دیکھ چکا ہوں۔ بس اب گانا شروع ہوگا۔ تو میرا چاند۔ میں تیری چاندنی اگر واقعی گانا شروع ہو گیا تو میں پاگل ہو جاؤں گا۔ بند کر دو خدا کے لیے بند کرو یہ سین ۔میں چلا یا تو انھوں نے ڈر کے مارے بیچ بیچ اس سین کو ادھورا چھوڑ دیا۔ ہیرو تو قلانچیں بھرتا ہوا باہر بھاگا اور ہیروئن آکر میرے قدموں سے لپٹ گئی۔ ابا۔۔ابا مجھے معاف کردیجیے ۔ وہ رورہی تھی، جھوٹ موٹ کے آنسو۔ اور مجھے بھی معاف کیجیے۔میں نے اس کا ہاتھ جھٹک کر بالکل کسی ہیروئن کے باپ کے انداز میں جواب دیا۔میں آپ کے ایسے فضول ڈرامے میں کوئی پارٹ نہیں کر سکتا ۔ اتنے میں کہیں سے چوں چوں آگئی۔آج اس کی گود میں کاغذ کی بہت سی کترنیں تھیں۔جلدی لیجیے ابا۔ اتنے بہت سے روپے لائی ہوں۔اس نے میری گود میں کا غذ ڈالے تو وہ سچ سچ کے نوٹ بن گئے ۔اب اس نوٹ کا کیک لائیں گے۔ اور اس نوٹ کا پلین اور اس نوٹ کا ابا کے لیے سگریٹ اور اس نوٹ کا وہ ایک ایک نوٹ اٹھا کر بڑے گرہستوں کے انداز میں گود میں رکھتی جاتی ہے۔ اور اس نوٹ کے ابا۔ہٹ پاگل۔۔۔پپو کہتا ہے۔ کہیں نوٹ سے ابا خریدے جاتے ہیں؟ آہاں خریدے جاسکتے ہیں ۔ چوں چوں بڑے وثوق کے ساتھ کہتی ہے۔کیوں ابا آپ نے ہم سب کو ایک نوٹ سے خریدا ہے نا۔؟ہاں اور کیا۔ تم سب کو میں نے خریدا ہے۔ تم سب میرے غلام ہو۔ سب میرے حکم پر یہاں کھڑے ہو جاؤ۔میں حکم دیتا ہوں ۔ مگر کوئی نہیں سنتا۔پپو تو الو کا پٹھا ہے۔ منی کہتی ہے۔منی کہتی ہیں روپے ہوں تو ہر چیز خرید سکتے ہیں۔تو پھر میں کیوں نہ اس دوسرے۔۔میں۔۔کو خرید لوں ۔ میں سوچتا ہوں اور منی سے سب روپے چھین کر اپنی گود میں چھپالیتا ہوں۔جاؤ بھاگ جاؤ یہ سب رو پے میرے ہیں ۔نہیں میرے ہیں۔ منی رونے لگتی ہے۔ میرے روپے ابانے کے لیے۔ دے دیجیے۔ان کاغذوں کا آپ کیا کریں گے منی کو دے دیجیے نا اس کی آوازسن کر نمو انداز آگئی۔ میں ان روپوں سے ایک۔۔میں۔۔خریدوں گا۔ تم چاہتی ہو میں ہمیشہ ادھورارہوں۔ دوٹکڑوں میں بٹا ہوارہوں۔۔اللہ خیر۔۔نمومیری ڈانٹ سن کر سہم جاتی ہے۔جاؤ بچو تم باہر کھلو تمہارے ابا کو پھر دورہ پڑنے والا ہے۔وہ مجھے کمرے میں بند کر کے چلی جاتی ہے۔آج اخبار میں خبر آئی ہے کہ رابرٹ کینیڈی کو کسی نے گولی مار کے ہلاک کر دیا۔ میں بھی اپنے سب دشمنوں کو فائر کر دینا چاہتا ہوں لیکن میرا پستول تو کینیڈی کا قاتل ادھار لے گیا ہے ورنہ میں اس دنیا میں اتنے وحشی اور نکھے لوگوں کو رہنے دیتا۔۔؟ خصوصاً نمو فضلو اور امتیاز ان تینوں کو تو ضرور شوٹ کر دینا چاہیے۔ پھر دیکھنا اس دن سورج کیسا چمکیلا نکلے گا۔ لوگ کتنا ہنسیں گے۔ ٹھائیں۔۔۔ٹھا ئیں۔۔۔ٹھا ئیں۔۔۔میں اپنے ہاتھوں کی بندوق بنا کر نشانہ بازی کی مشق شروع کر دیتا ہوں۔ لوگ میرے نشانے کی زد میں آکر دھڑا دھڑ گر رہے ہیں۔ نمو، فضلو اور ہاسپٹل کا وہ سور کی صورت ڈاکٹر جس نے مجھے زبردستی اس پرائے گھر میں بھجوایا، اور پیشن آفس کا وہ کلرک جو مجھے ہر مہینے دیکھ کر مسکراتا ہے۔ سب مر گئے۔ چلواب خوب موج اڑاؤ کباب کھاؤ۔ آج مجھے کتنی بھوک لگ رہی ہے۔ گذشتہ ایک برس سے میں نے کھانا نہیں کھایا ہے۔ آج میں کباب کھاؤں گا۔ خوب مرچ، مسالے دار چٹ پٹے اور اگر کباب نہ ملے تو امتیاز کو بھون کر کھا جاؤں گا۔کباب لاؤ جلدی کباب وانٹیڈ ۔مگر کہابوں کے بجائے پھر امتیاز آ گیا۔یہ لڑکا بھی اسی گھر کا ایک فرد ہے اور ان کی والدہ محترمہ بار بار یہ جتاتی رہتی ہیں کہ یہ نا خلف صاحبزادے بھی میری ہی اولاد ہیں۔ لاحول ولا مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ اگلے جنم میں بھی ہم ایک دوسرے کے دشمن ہی تھے ۔ کیونکہ اب بھی امتیاز کی نظروں میں میرے لیے بڑی حقارت اور حقارت بھری رہتی ہے اور جب بھی میں اس کی طرف دیکھتا ہوں تو بے اختیار منھ سے نکل پڑتا ہے۔ اچھا تمھیں سمجھوں گا بیٹا۔پتہ نہیں یہ لڑکا کس کی دولت پر اکڑتا پھرتا ہے۔ سگریٹ کا دھواں میرے منھ پر چھوڑتا ہوا گزر جاتا ہے۔ اور ہر وقت ماں بیٹے میں روپے پیسے کے لیے لڑائیاں ہوتی ہیں۔ رات کو ایک دو بجے وہ نشے میں چور گھر لوتا ہے تو شاید مجھتا ہوگا کہ میں الکحل کی بد بو نہیں پہچان سکتا۔ مجھے تو اس کی ماں کی دیدہ دلیری پر حیرت ہوتی ہے کہ اتنے آوارہ نکے لڑکے کو میرا بیٹا بنانے کی جرات اس نے کیسے کی۔ میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں، میں نے بھی دنیا دیکھی ہے، میرا جی چاہتا ہے امتیاز کے منھ پر اتنے طمانچے ماروں کہ اسے اپنا سچ مچ کا باپ یاد آ جائے، مگر اس کے ہٹے کٹے بدن سے ڈر لگتا ہے، جانے کون بد نصیب ہوگا جس کی قسمت میں ایسی اولاد لکھی تھی۔ آج بھی اس نے آتے ہی مجھے حکم دیا۔جلدی تیار ہو جائیے۔ آج سے تاریخ ہے۔ پنشن لانے میرے ساتھ چلنا ہے۔مجھے باہر جانے اور پنشن لانے سے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ اس دن ہم خوب بازاروں کی سیر کرتے ہیں۔ جب میں اپنی پنشن کے اتنے بہت سے روپے اپنی جیب میں رکھنا چاہتا ہوں تو امتیاز مجھے ان پیسوں کی قلفی ملائی دیتا ہے، اس کے بعد وہ مجھے گھر چھوڑ کے کہیں چلا جاتا ہے تو اس کی ماں خوب چیخ و پکار کرتی ہے، اس لیے اکثرے تاریخ کو مجھے لوگ ادھر سے ادھر گھسیٹتے پھرتے ہیں۔ نموکہتی ہے میں اس کا ہوں اس لیے وہ مجھے پینشن لانے اپنے ساتھ لے جائے گی۔ امتیاز کہتا ہے مجھ پر صرف اس کا حق ہے اس لیے اپنے ساتھ مجھے وہ لے کر جائے گا ،مگر آج میں امتیاز کو جلانے کے لیے اس کی بات ان سنی کر دیتا ہوں۔

میرے کباب کہاں ہیں۔ جلدی لاؤ مجھے بھوک لگی ہے۔آپ کپڑے تو بدل لیجے ۔ وہ بڑی محبت سے کہتا ہے ۔ آج آپ کی ساری پینشن کے آپ کو کباب کھلا دوں گا۔آج امتیاز مجھ پر کتنا مہربان ہے۔ آج مجھے نہ تو وہ بار بار ڈانٹتا ہے نہ دھکے دے دے کے کپڑے پہنے پر مجبور کرتا ہے۔ یا اللہ کباب کتنے مہنگے ہو گئے ہیں۔ سات سو روپے میں ایک پلیٹ کہاب ! ہٹاؤ آج میں کباب بھی نہیں کھاتا۔ امتیاز کے ساتھ بازار کی سیر بھی نہیں کروں گا۔ آخر میں کیوں جاؤں پنشن لانے۔ ابھی اگر رضائی تان کر سو جاؤں تو کبھی آنکھ نہ کھلے۔ بس آج یہی فیصلہ کیا ہے مابدولت نے کپڑے بدل کر کہیں جانا تو ایک آفت ہے۔ سارا گھر اکٹھا ہو جاتا ہے۔ کوئی شیو کروارہا ہے، کوئی منھ دھلا رہا ہے۔ اس دن امتیاز خود استری کر کے مجھے کپڑے پہناتا ہے کہ لوگ مجھے ایسی حالت میں دیکھ کر کیا کہیں گے؟لوگ لوگ جانے وہ کون لوگ ہیں جن سے اس گھر کے رہنے والے اتنا ڈرتے ہیں۔ کہیں مجھے وہ لوگ مل جائیں تو اس گھر کا سارا کچا چٹھا سناڈالوں، یہ تک بتادوں کہ پرسوں نمو کی غیر موجودگی میں دوسری چابی لگا کر امتیاز نے الماری سے کئی زیور نکال لیے ہیں اور شمی عنقریب اس کالے بھجنگ نوجوان کے ساتھ گھر کی دولت سمیت فرار ہونے والی ہے۔ میں دن بھر پر دے کے پیچھے سے جھانک جھانک کر سب دیکھتا رہتا ہوں۔ ایک دن پود کیچی میں سے بوٹیاں چن چن کر کھا رہا تھا۔ میں نے اچانک اسے ڈرایا تو سب کو سخت حیرانی ہوئی کہ آخر میں ڈائٹنگ ہال میں کیسے پہنچا اور کب سے وہاں چھپا کھڑا تھا۔اور یہ فضلو تو اتنا چالاک ہے کہ کیا کہوں ۔ میرے لیے کھانا لا کر تپائی پر رکھتا ہے اور خود ہی کھانے بیٹھ جاتا ہے۔ اس کے جانے کے بعد ایک دن میں نے دروازے سے کان لگا کر سنا، وہ نمو سے کہہ رہا تھا کہ صاحب کو کھانا کھلا دیا ہے۔ نہیں نہیں، میں نے کھانا نہیں کھایا ہے۔ مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ جلدی سے کھانا دو ۔میں نے کھانے کے کمرے میں جا کر کہا۔یہ ایک اور مصیبت ہے۔ نموشمی سے کہنے لگی ۔ا بھی فضلو نے کھانا کھلایا ہے اور پھر بھوک لگی ہے۔زیادہ کھانے سے آپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی نا۔ جائیے آرام کیجیے۔ شمی مجھے کمرے کی طرف دھکیلنے لگی۔ نہیں مجھے بڑے زور کی بھوک لگی ہے۔ فضلو سے پوچھو میں نے کھانا نہیں کھایا ہے ۔ مگر فضلو جواب دینے کے بجائے نمو کی طرف دیکھ کر ہنس رہا ہے۔ مگر آپ یہاں کیوں آگئے۔ میز گندی کر دیں گے۔ جائے میں آپ کے کمرے میں کھانا ابھی بھجواتی ہوں ۔ نمونے مجھے کمرے میں دھکیل کر باہر سے کنڈی لگا دی ہے۔میرے ابا کو مت مارو مت مارو۔ چوں چوں باہر چلا رہی ہے۔ رورہی ہے۔ چپ چپ بڑی آئی ابا کی بیٹی نمو چوں چوں کو بھی ماررہی ہے۔ دروازہ کھولو دروازہ کھولو۔ میں نے زور زور سے کواڑوں پر اپنا سر مارنا شروع کر دیا تو دروازہ کھل گیا۔کیا چوں چوں کو مار ڈالا۔ میں نے اپنے ماتھے پر سے بہتا ہوا خون پو نچھ کر دیکھا تو وہ ایک کونے میں سہمی ہوئی کھڑی تھی۔ پھر ہم دونوں ایک دوسرے کی طرف بانہیں پھیلا کے دوڑتے ہیں۔نمونے مجھے کمرے میں بٹھانے کی ایک اور ترکیب نکالی۔وہ طرح طرح کے لوگوں کو میرے پاس لاتی ہے کہ میں ان سے باتیں کر کے اپنا جی بہلاؤں۔ پرسوں ایک پاگل صاحب تشریف لائے نقلی داڑھی لگا کے آئے تھے۔ وہ بار بار ہوا میں اڑتی تو گھیرا کے یوں پکڑتے جیسے بھید کھلنے کا ڈر ہو۔ مجھے دیکھتے ہی یوں گلے لپٹ گئے جیسے برسوں پرانی دوستی ہو۔ ” کہو یار کیسے ہو۔ طبیعت اب ٹھیک رہتی ہے۔ انھوں نے پوچھا۔ہاں تم اپنی سناؤ۔ یعقلی داڑھی بیچتے ہو؟ وہ میری بات سن کر پیچھے کو ہے لیکن میں انھیں پکڑ کے بٹھالیتا ہوں۔ کیا ہرج ہے اگر کچھ وقت کسی پاگل کے ساتھ ضائع ہو جائے ۔اب وہ مجھ سے دور ہٹ کر ایک اسٹول پر بیٹھ گئے۔ کئی بار ارادہ کیا کہ تمھیں دیکھ آؤں ، مگر ڈر بھی لگتا تھا کہ جانے تم مجھے پہچانو گے یا نہیں۔وہ اپنی داڑھی سہلا کر بولے۔ ہاں اب تم بے چارے اپنی دماغی بیماری سے بدل جو گئے ہو۔ میں نے جواب دیا۔ ہیں ہیں ہیں۔ وہ جانے کیوں میری طرف دیکھ کر بننے لگتے ہیں۔ پاگل ہمیشہ دوسروں کو پاگل سمجھتے ہیں۔ ممکن ہے یہ بڑھو بھی مجھ ہی کو پاگل سمجھ رہے ہیں۔یار مجھے تمھاری بیماری کا بہت دکھ ہے، کیا کریں اللہ کی مرضی۔ وہ کہتے ہیں۔ اور مجھے تمھاری اس نقلی داڑھی پر بے حد پیار آ رہا ہے۔ ایک دن کے لیے ہمیں ادھار نہیں دو گے! ہم چوں چوں کے ساتھ ڈا کو والا کھیل کھیلیں گے۔ لیکن وہ میری بات سن کر دروازے کی طرف جانے لگتے ہیں اور رک کر فرماتے ہیں۔ یار کچھ سمجھ داری کی باتیں بھی کرو۔ سنا ہے بھابی نے تمہارا علاج معالجہ کچھ نہیں کروایا۔ کیا تم اپنی ساری پنشن بھی ان ہی لوگوں کے حوالے کر دیتے ہو یا کچھ اپنے لیے بھی رکھتے ہو ۔ ؟پھر وہی پینشن کی بات ! ایسا لگتا ہے جیسے میرا دوسرا میں بھی کہیں غائب ہو گیا ہے۔ اور یہ میں جو ہوں، یہ ایک پنشن کا نام ہے۔ ہر شخص مجھے یوں دیکھتا ہے جیسے میں آدمی نہیں رہا پنشن بن گیا ہوں۔ جسے دیکھو اس کا ذکر اس کی بات جی چاہتا ہے اس پنشن کو کسی طرح اپنے منھ سے نوچ پھینکوں پریہ نہیں پھر میں اس گھر میں کسی کو نظر بھی آؤں گا یا نہیں مجھے کچھ یاد نہیں رہا کہ اس پاگل سے مجھے کب چھٹکارا ملا۔ فضلو کہہ رہا تھا کہ جب میں نے زبردستی داڑھی چھینے کی کوشش کی تو وہ ڈر کے مارے بھاگ گیا۔ بھلا ایسے سر پھرے پاگلوں کے ساتھ اور کیا سلوک کیا جا سکتا ہے۔ایسا ہی ایک اور ہونق میرے کمرے میں آیا تھا، حسب توقع وہی میری اور اپنی پرانی دوستی کا ڈھونگ رچایا اور پرانے قصے سنانے لگا جو بالکل جھوٹے تھے۔ پھر میری آنکھ بچا کر میرا پار کر پین اپنی حبیب میں ڈال لیا اور میرے سب سگریٹ پھونک ڈالے۔ پھر جاتے وقت میرے سر پر احسان کا ایک چھپر رکھ گئے کہ آج کل نمو کا دل بہلانے میں وقت صرف کرتے ہیں تا کہ میری بیماری سے اس کا دل بالکل ہی نہ ٹوٹ جائے پھر یہ بھی انکشاف فرمایا کہ ہسپتال سے اس اجنبی گھر میں لانے کے ذمہ دار بھی یہی حضرت تھے۔ اتنا سنتے ہی میں بے قابو ہو گیا۔ اچھا تو تم ہی ہو جس نے مجھے اس پرائے گھر کی دوزخ میں ڈال دیا ہے۔ آخر مجھے ستانے میں تمھیں کیا مل گیا ہے؟بھی نہیں ملا مگر کل مل جائے گا۔ وہ مکاری سے مسکرایا۔یہ بات ہے تو میں ابھی پولس کو بلاتا ہوں۔ ابھی تمھارے کچے چٹھے کھولتا ہوں۔

- Advertisement -

میں فورافون کا ڈائل گھماتا ہوں۔ ہیلو۔ہیلو میرا چھوٹا فون دے دیجئے۔ چوں چوں جلدی سے آکر اپنا چھوٹا سا سرخ ٹیلی فون مجھے سے چھین لیتی ہے۔ لائیے میں کردوں ۔ آپ کس کو فون کریں گے؟پولس اسٹیشن پولس کو جلدی بلاؤ چوں چوں، ورنہ مجرم فرار ہو جائیں گے۔ میں سختپریشانی میں کہتا ہوں۔ہیلو چوں چوں بڑی سنجیدگی سے فون کان سے لگا کر زمین پر بیٹھ جاتی ہے۔ جلدی آئیے۔ ابا کوسب ستار ہے ہیں۔ کھانا نہیں دیتے۔تھوڑی دیر بعد ہم دونوں اس کھیل سے اکتا جاتے ہیں۔اب فون کا کھیل ختم۔ چلیے چلیے اب چوری پکڑیں گے۔ اور پھر ہم دونوں بی بیچ چور کو تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ہشت، آہستہ چلیے ۔ چوں چوں منھ پر انگلی رکھ کر کہتی ۔اب ہم دونوں گھٹنوں کے بل رینگتے ہوئے پلنگوں کے نیچے گھسٹ رہے ہیں۔ اچانک میرا سر مسہری کے پائے سے ٹکراتا ہے اور آہٹ سن کر کوئی نیچے کود جاتا ہے۔چور چوڑا میں چور کی ٹانگ پکڑ کر چلانے لگتا ہوں۔ جلدی میرا پستول لاؤ چور پکڑ لیا ہے۔چور پکڑ لیا چور پکڑ لیا۔ چوں چوں بھی زور زور سے تالیاں بجانے لگی۔انھیں چھوڑ دیجیے، چھوڑ دیجیے، بچے آجائیں گے ،شورمت مچائیے۔ نمومسہری پر سے اٹھ کر کہہ رہی ہے۔ تب میں نے غور کیا کہ جس چور کو ہم نے پکڑا ہے یہ وہی آدمی ہے جو ابھی مجھ سے باتیں کر رہا تھا۔ ہماری آواز سن کر سارا گھر کمرے میں اکٹھا ہو گیا شیمی فضلو، پور، امتیاز ۔ وہ سب بڑے حیرانی کے ساتھ کبھی مجھے دیکھتے ہیں کبھی اس آدمی کو پھر سر جھکا کے کمرے سے باہر چلے جاتے ہیں۔عجیب بزدل لوگ ہیں یہ میں دل میں سوچتا ہوں چور کو سزا دینے کی بھی ہمت نہیں کر سکتے۔؟ نمو ساری رات اپنے کمرے میں بڑ بڑاتی رہی۔نہیں، وہ پاگل نہیں ہے۔ سب ڈھونگ رچا رکھا ہے۔ اپنے آپ کو بھول گیا ، مگر میری نگرانی کرنا نھیں بھولتاک ایک دن عجیب حادثہ ہوا۔کیا دیکھتا ہوں کہ رات ختم ہوگئی ہے۔ سب لوگ جاگ اٹھے۔

میرے کمرے میں بھی اجالا تو ہے مگر دھوپ کا کہیں پتہ نہیں ہے۔ کہیں رات وہ چور سورج کو تو چرا کے نہیں لے گیا۔ مجھے بڑی تشویش ہونے لگی۔ پھر جب چوں چوں اپنا ٹیلی فون لے کر آئی تو میں نے اسے فورا یہ وحشت ناک خبر سنائی۔ رات چور سورج کو چرا کے لے گیا۔کہاں لے گیا۔؟چوں چوں بھی سخت فکر مند ہوگئی۔ اس گھر میں اس بچی سے زیادہ سمجھدار اور کوئی نہ تھا۔کیا پتہ دیکھونا رات سے کیسا اندھیرا اندھیرا سا ہے۔ اب میری تو سمجھو کل دولت ہی لٹ گئی۔ سورج نہ رہا تو دن کیسے نکلے گا؟ میں بستر سے کیسے اٹھوں گا؟ میں غم کے مارے رونے لگا۔ چوں چوں نے مجھے روتے دیکھ کر اپنے کھلونے پھینک دیے اور حسب عادت اپنے سنہرے بال میرے سینے پر پھیلا کے بولی۔میں ایک بڑا سا سورج آپ کو خرید کر لا دوں گی۔ میرے پاس دو پیسے ہیں ؟بے وقوف سورج کہیں بکتا ہے۔میں اس کی نادانی پر ہنے لگا۔پھر آپ کے پاس کیسے آیا تھا۔؟اس نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں پھیلا کے پوچھا۔ لو۔ اب ایک نیا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا۔ آخر سورج میرے پاس کیسے آیا تھا۔ کیوں آیا تھا۔ کیا اسے بھی میری پنشن کی لگ گئی تھی یا پھر اس دوسرے ‘‘میں’’ کی اسے بھی خبر ہوگئی تھی۔وہ کون ہے؟ میں نے چوں چوں کو انگلی سے اوپر دکھایا۔وہ۔۔۔وہ؟ بڑی دیر تک وہ گردن او پر اٹھائے غور سے دوسرے ‘‘میں’’ کو دیکھتی رہی۔ وہ ابا ہیں۔کس کے ابا ؟ میں خوش ہو گیا کہ وہ کوئی اور نکلا۔ میرے۔۔۔؟ اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر کہا۔وہ آپ ہیں ۔میں؟ میں لرز اٹھا۔ لواب اتنے اتنے سے بچوں میں بھی یہ بات پھیل چکی ہے کہ میں دو حصوں میں بٹ چکا ہوں۔تمھیں معلوم ہے چوں چوں کہ مجھے وہاں کس نے ٹانگا ہے؟ میں نے ادھر ادھر دیکھ کر بڑی راز داری میں پوچھا۔

امی نے ۔اس نے بھی اتنی ہی احتیاط کے ساتھ کان میں کہا۔ ایک دن امی نے آپ کو شیشے میں بند کر کے رسی لگا کے وہاں ٹانگ دیا تھا۔شیشے میں بند کر کے؟ ری لگا کے؟ یعنی مجھے مار ڈالا گیا ہے۔ گویا مجھے پھانسی دی گئی ہے۔پھر میں کیوں اس پلنگ پر لیٹوں میں تو مر چکا ہوں۔ میرا اب اس دنیا سے کیا واسطہ رہا۔ میں دیوار سے لگ کر چپ چاپ کھڑا ہو گیا کہ پھر نمو کمرے میں نازل ہوئی۔ جب سے میں نے چور پکڑا تھا وہ مجھ سے سخت ناراض تھی مگر اس وقت تو وہ اپنی آواز میں شکر گھول کر آئی تھی۔ پہلے تو اس نے مجھے زبر دستی دیوار سے ہٹانے کی کوشش کی ۔ پھر ہارمان کے خود بھی میرے قریب آبیٹھی ۔ آج وہ مجھ سے بے حد اہم مشورے کر رہی تھی اور بڑی بے تکلفی سے میری پنشن کو اپنی پیشن اور اپنے بچوں کو میرے بچے کہے جارہی تھی ۔ اسے تمیں ہزار روپے کی ضرورت تھی اس لیے وہ مکان بیچنا چاہتی ہے اور میرے پاس جتنا روپیہ ہے اسے اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے تاکہ شمی کا بیاہ ہو سکے اور امتیاز کا حصہ اسے دے کر گھر رخصت کر دیں۔ میں سب سنتا ہو۔ سچ مچ کے مظلوم شوہروں کی طرح حالانکہ پنشن اور بینک کی باتیں مجھے سخت بور کرتی ہیں، لیکن پھر بھی میں بڑی دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے خوب ڈانٹتا ہوں۔ چپ رہو۔ اب میں تمھاری کوئی بات نہیں سنوں گا۔ تم نے مجھے مارڈالا ہے۔ میرے گلے میں رسی ڈال کر مجھے پھانسی دی گئی ہے؟یہ سن کر وہ میرے قدموں سے لپٹ جاتی ہے۔ اس رات والی بات بھول جاؤ حامد مجھے معاف کر دو۔ اب کبھی تمھیں دھوکا نہیں دوں گی۔واہ کیوں معاف کر دوں؟ میں نے اب اسے پیٹنا شروع کر دیا۔تم نے میرا سورج چمالیا ہے۔ بھلا اتنا اندھیرا کبھی دنیا میں ہوا تھا! اور میرا پستول چھپالیا ہے کہ میں کسی چور کو نہ مار سکوں۔ تمھیں کچھ خبر ہے کہ اس گھر کے کونے میں کتنے چور چھپے بیٹھے ہیں۔ میں کس کس کو دیکھوں؟ یہ گھر ہے یا فلم اسٹوڈیو جہاں ہر وقت رومانی شانس فلمائے جاتے ہیں۔ نہیں میں ایسے فضول ڈراموں میں کوئی پارٹ ادا نہیں کر سکتا۔اچانک میری نگاہ او پرگئی جہاں شیشے کے کیس میں بند کر کے مجھے رسی سے لٹکا دیا گیا ہے۔ مجھے پھانسی کس نے دی ! میرے ٹکڑے تم نے کیسے ہیں۔ میں تو اب کسی کو منھ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہا۔ نموزور زور سے چلانے لگی کیونکہ میرے ہاتھ میں جو جو چیزیں آئیں میں نے اٹھا کر اسے مارنا شروع کر دیا تھا۔ پھر جو بھی مجھے پکڑنے آیا وہ خود زخمی ہو کر بھا گا۔ آج میں سب کو مار ڈالوں گا ،سب کو شوٹ کر دوں گا۔ ایک بڑا سا پتھر اٹھائے میں سارے گھر میں چینا پھر رہا تھا۔رہا تھا۔ لوگو ذرا اس آدمی کی حالت دیکھو نمو چلا چلا کر محلے والوں سے کہہ رہی تھی۔ میں آج ہی ساری جائیداد اپنے نام کرلوں گی۔ٹھیک ہے ابا کو میں، اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ امتیاز بھی کمرے سے نکل کر لڑائی میں حصہ لے اچھا  خبردار جو انھیں چھو نمو ہاتھ نچار ہی تھی۔ بڑے آئے ابا کی محبت کرنے والے  اپنے ساتھ انھیں لے جا کر سات سو کی پنشن پر قبضہ کرنا چاہتے ہو۔ انھیں کوئی اس گھر سے نہیں لے کر جا سکتا۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچوں کا یہی تو ایک سہارا ہے۔ وہ سب اتنی زور زور سے لڑ رہے ہیں کہ مجھے کچھ سنائی نہیں دیتا۔ میں پتھر پھینک کر سوچتا ہوں کہ کیا واقعی امتیاز مجھے اس پرائے گھر سے لے جائے گا۔؟اس بات کی خیر اس دوسرے میں کو نہیں ہونا چاہیے۔ میں اسے یہیں چھوڑ نا چاہتا ہوں ۔ان خونخوار لوگوں سے نبٹنے کے لیے۔ چوں چوں۔ آؤ ہم تم کہیں بھاگ چلیں۔میں نے لڑائی کے ڈر سے کہی ہوئی چوں چوں کو اٹھا کر کاندھے پر بٹھالیا۔ کہاں؟ کہاں جائیں گے! وہ اپنی گڑیا اور اسے نہلانے کی منفی سی بالٹی پھینک کر میرے کاندھے پر بیٹھ گئی۔دور خوب دور وہاں سورج کے پاس۔

میں بڑے اطمینان سے پھاٹک کھول کر باہر آ گیا کیونکہ اس وقت وہ سب آپس میں لڑ رہے ہیں۔ انھیں اپنے اپنے حصے کی دولت سمیٹنے میں اتنے حواس کہاں ہیں کہ ہمیں پکڑ سکیں۔ مگر اچانک میں بھول گیا کہ وہ لوگ آخر کیوں لڑ رہے تھے! شاید کوئی آدمی مر گیا ہے جسے وہ بہت چاہتے تھے۔ شاید سورج مر گیا ہے یا پھر میری پنشن مرگئی ہے۔ابا ابا، بھائی جان آپ کی پنشن کے لیے امی کو مار رہے ہیں ۔ چوں چوں کہتی ہے۔ پنشن کے لیے!! اب میں کیا کروں کہیں امتیاز اب مجھے بھی مارنا شروع نہ کر دے۔ ابا،ابا۔ آپ اپنی پنشن کو وہاں ندی میں پھینک دیجیے نا۔ پھر سب لڑائیاں ختم ہو جائیں گی ۔چوں چوں مجھے مشورہ دیتی ہے۔ پھر اچانک تالیاں بجانا شروع کر دیتی ہے۔ابا ابا۔ دیکھیے سورج مل گیا وہ وہاں ندی میں چھپ رہا ہے۔ جلدی چلیے۔ ارے واقعی سورج ہے۔ اسے کسی چورنے نہیں چرایا۔ ہمیں دیکھ کر وہ جلدی جلدی پانی میں چھپ رہا تھا۔ارے ابا ابا جلدی بھاگیے۔وہ دیکھیے ، امی آپ کو پکڑنے آرہی ہیں ۔چوں چوں میرے کاندھے پر بیٹھی بیٹھی چاروں طرف کی اطلاعیں دے رہی ہے۔ ارے باپ رے باپ میں اور تیز تیز بھاگنے لگتا ہوں، مگر کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ نمو سے چھپ کر کہاں جاؤں۔ سامنے تو دور دور تک پانی ہی پانی ہے۔ چوں چوں ، چلو اس پانی میں چھپ جائیں۔ پھر دیکھیں کوئی ہمیں کیسے پکڑتا ہے۔

مصنف:جیلانی بابو

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here