جو کچھ ہوا، وہ آخر ہوا کیسے؟ میں اپنے باہری کمرے کے دروازے پر کرسی ڈالے بیٹھا تھا۔ سامنے کھلا میدان تھا۔ وہ مشرق کی طرف سے آئی تھی۔ بس ایک پر چھائیں سی۔ کوئی چیز کب کیسی نظر آتی ہے یہ بات کیا دیکھنے والے کی خود اپنی حالت پر منحصر نہیں؟ یہ سب تو میں اب بتا سکتا ہوں کہ وہ کوئی تیس برس کے آس پاس کی رہی ہو گی۔ میلے بال، گھیر دار گھا گھر ا اس میں کچھ پیوند، کچھ نازک ساناک نقشہ، رنگ سانولا جس کا نمک غالباً سخت کوش زندگی نے اڑا دیا تھا۔ میں اس وقت اپنی زندگی کے ایسے مرحلے میں تھا جب سچ پو چھا جائے تو مجھے کچھ دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا کیونکہ وہی تو وہ منحوس لمحہ تھا جب میں نے اپنی جان دے دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ میں اپنی تسلیم شدہ سچائیوں اور اپنے اصولوں کے ساتھ اس دیو قامت ڈیم کی تعمیر میں مصروف سیکڑوں عملے کے درمیان اپنی ملازمت کو نہیں نبھا سکوں گا۔
میں ایک انجینئر تھا اور ایک سسٹم کے تحت مجھے دوسروں کے ساتھ جن میں میرے افسران بھی تھے اور معاونین بھی، اپنی ذمے داریاں پوری کرنی تھیں۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ میرے سارے ساتھی یہ جانتے تھے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ کسی اعتبار سے بھی جائز نہیں مگر وہ اس کام کو اس طرح کرتے تھے جیسے وہ ان کی پیشہ ورانہ ضرورت کا ایک جائز حصہ ہو ۔ اب یہ مجھے نہیں معلوم کہ اس معاملے میں قصور میرا تھا یا دوسروں کا بہر حال اتنا تو طے ہے کہ اچھے اور برے کی تفریق کرنے کے لیے میرے اپنے کچھ معیار تھے اور میں ایسی ایمانداری کو ایمانداری اور بے ایمانی کو بے ایمانی جانتا تھا جو مجھے سکھائی گئی تھی ۔ چھوٹے قد کا ایک سینیر انجینیر جو پہاڑی تھا اور میری دلیلوں پر ترس کھا کر مجھ پر مہربان رہا کرتا تھا، کئی بار مجھے سمجھا چکا تھا کہ ایماندار رہنا اور اصل ایک مجبوری ہے اور لوگ عام طور پر ایماندار اس لیے رہا کرتے ہیں کہ انہیں بے ایمانی کا موقع میسر نہیں ہوتا۔ بہر حال بات بہت بڑھ چکی تھی، برے دن قریب آتے ہیں تو بچ نکلنے کے سارے راستے پہلے ہی بند ہو جایا کرتے ہیں۔
یہ بات خاصی قوت حاصل کر گئی کہ میں راستے کا روڑا بنتا جارہا ہوں ۔ پھر اس روڑے کے ہٹائے جانے کی سازشوں کے جال کچھ اس قدرتنگ ہوتے گئے کہ مجھے لگا کہ یا تو مجھے خود ہی مر جانا چاہیے یا پھر یہ انتظار کرنا چاہیے کہ کسی دن میرے دروازے کی کال بیل بجے، میں دستر خوان پر سے نوالہ چھوڑ کر دروازے پر آؤں جہاں دو چار اجنبی لوگ میرے منتظر ہوں، وہ مجھے کسی انتہائی معقول بہانے سے کسی ویرانے میں لے جائیں اور وہاں مجھے ذبح کر کے اس طرح ڈال دیں کہ میری شناخت میں ہی خاصہ وقت لگ جائے۔ کیونکہ اب معاملات کی رفتار خاصی تیز بھی ہو چکی تھی، ہر روز کوئی نئی ذلت کوئی نیا بکھیڑا اور کوئی نئی وارنگ سے سامنا ہورہا تھا میرا۔
یہ درست ہے کہ میرا باپ ہر بار مجھے خط میں کسی نہ کسی بہانے اس کثیر رقم کی مجھے یاد دلاتا رہا تھا جو اس نے قرض کے طور پر میری تعلیم کے لیے دفتا دفتا بڑی جوڑ توڑ کے ساتھ حاصل کی تھی۔ اسے یقین تھا کہ سارے مالی معاملات اب چٹکی بجانے میں حل ہو جائیں گے، لیکن ایسا تھا بالکل نہیں ۔ دراصل میرے ساتھی بڑے چالاک تھے، پیسہ تو سب کو ہی اچھا لگتا تھا لیکن اس کو وصولنے والا وہ خود نہ بن کر مجھے آگے کر دینا چاہتے تھے، میں اتنا منجھا ہوا تو تھانہیں، پھر گو پال انجینیر کا حشر اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا۔ اس کو اینٹی کرپشن والے عملے نے کیسا رنگے ہاتھوں پکڑا تھا، تھانے میں داروغہ نے آبخور ے میں اپنا پیشاب گو پال کو پینے کے لیے دیا تھا۔ وہ آب خورہ گوپال کے منہ میں لگا بھی دیتا جب دس ہزار نقد گنوا لیے تب آب خورہ پھینکا۔ حرام کا پیسہ کس طرح لیا جائے اور اس لین دین میں خود کو محفوظ رکھ کر دوسرے کو کس طرح سے اور کن ترکیبوں سے ذریعہ بنایا جائے در اصل اسی عیاری پر وہاں کے سارے کھیل کا دارو مدار تھا۔ اور میں وہاں اپنے ہم پیشہ لوگوں کے در میان نرم چارہ سمجھ کر تاک لیا گیا تھا۔ مجھے تو وہاں زمین پر چلتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا۔ میری پہلی اولاد لڑکی تھی،مشکل سے پانچ برس کی ہوگی ، انہیں دنوں تار آیا کہ ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ وللور میں دکھایا جائے کیونکہ رپورٹ بڑی تشویش ناک تھی میں تو خوابوں میں دیکھنے بھی لگا تھا کہ وہ اندھی ہو چکی ہے، اس کے بعد بھی میں نے طے کر لیا تھا میں سب چھوڑ چھاڑ کر بھاگ جاؤں گا۔
لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ میری یہ بات میرے ساتھیوں نے شاید پہلے ہی تاڑ لی تھی، کیونکہ مجھے تھوڑا بعد میں پتہ چلا کہ وہاں کے بڑے سے بڑے انجیز،بانو،ٹھیکیدار اور ان ٹھیکیداروں کے زور پشت آدمی سب ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں، کیونکہ کھیل کروڑوں کا تھا دس بیس جانوں کی وقعت ہی کیا تھی اور وہ سب مجھے اچھی طرح تاکے ہوئے تھے۔ مجھ تک بڑی ہوشیاری سے یہ خبر کئی بار پہنچائی بھی جا چکی تھی کہ اگر خیر چاہتا ہوں تو کبھی بھاگنے کے لیے خواب میں بھی نہ سوچوں۔ مجھے لگتا تھا کہ اگر پولیس نے زبردستی مجھے اپنے بیت الخلا کی غلیظ ہانڈی کھلانے کی دھمکی دے کر دس ہزار بھی مانگ لیے تو میں کیا کروں گا۔ میں تو خوف کے مارے اپنی تنخواہ کا لفافہ بھی کیشیر سے لیتے ہوا ایک بار کانپ جایا کرتا تھا کہ خدا جانے اس میں کیا ہو اور باہر نکلتے ہی مجھ پر کیا گزرے۔ باہری کمرے کے دروازے پر تن تنہا کرسی ڈالے بیٹھا میں انہیں خیالوں میں غرق تھا کہ وہ سامنے آکر کھڑی ہوگئی اور پھر جو کچھ گزرا اسے یاد کرتے ہوئے تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور حیرت ہوتی ہے کہ میں کھلی فضا میں سانس کیسے لے رہا ہوں مجھے تو جیل میں ہونا چاہیے تھا۔ کیسی شرمناک صورت حال تھی۔ ایسے پر آشوب دنوں میں جب کہ میں اپنے ہی ہاتھوں اپنی مرضی سے اپنی جان دے دینے کے لیے ور پے تھا انہیں دنوں مجھے خود کی جان بچانے کے لیے کیسی کیسی جانفشانی کرنا پڑ رہی تھی۔بظاہر ایک معمولی سا کاغذ جو اس کی گندی سی اوڑھنی کے ایک پلو میں بندھا ہوا تھا اس کے مدد سے یہ تصدیق تو ہوئی کہ وہ کس علاقے کی ہے اور پہلے کس زمین پر آباد تھی جب ہلچل بڑھی تو ظاہر ہے کہ میڈیا والوں کو سن گن لگ ہی گئی، بس انہوں نے دھیرے دھیرے بال کی کھال تک ادھیڑ کر پھینک دی۔ نام رام دیئی تھی اور شوہر کا نام منسارام تھا، یہ تو اس کاغذ سے ہی پتہ لگ چکا تھا، کا غذ نے یہ بھی افشا کر دیا تھا کہ زیر تعمیر ڈیم کے سلسلے میں سرکار کی جانب سے خالی کرائے جانے والے علاقے میں سے ایک چھوٹی آبادی والے گاؤں میں اس کی بھی جھونپڑی تھی۔ میڈیا والوں نے سراغ پا کر دیکھتے ہی دیکھتے اس مختصر سے گاؤں کے مکھیا تک کو ڈھونڈھ نکالا۔ اخباروں میں سرخیاں چل پڑیں۔ ظاہر ہے کہ مکھیا نے سچ بولنے میں کوئی دریغ نہیں کیا۔ صاف صاف بیان دیا کہ رام دیئی کا شوہر جنگل سے لکڑیاں بٹورتا تھا کہ ایک دن کسی آدم خور شیر کا لقمہ بن گیا۔ صرف ایک طرف کا آدھا ہاتھ جس میں چھ انگلیاں تھیں، ملا تھا جس سے گاؤں والوں نے مسارام کی شناعت کر لی تھی ۔ تب ہی زور زبردستی گاؤں والوں کی اس علاقے سے بے دخلی کا پُر شور کام بھی عمل میں آنا شروع ہو گیا تھا۔
جب اخباروں نے یہ کڑیاں ملائیں تو دوسرے ہی روز بڑے بڑے انگریزی اخباروں میں وہ جماعتیں سرگرم ہو گئیں جن کا خیال تھا کہ اربوں کی لاگت سے بنائے جانے والے ڈیم دراصل غریب دشمن تعمیریں ہیں اور اس طرح کے ترقیاتی اقدام سے بڑے اور دولت مند کسانوں اور موٹے صنعت کاروں کی بھری ہوئی تھیلیوں کو اور زیادہ بھرنے کے علاوہ سرکار کی دوسری کوئی منشا نہیں ہے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ کام غریبوں اور ناداروں کو بے گھر اور بے سہارا کر کے کیا جارہا ہے۔ خواتین کے تحفظ اور ان کی فلاح سے متعلق تنظیموں نے تو میرا جینا ہی حرام کر رکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہر بات کی وضاحت خود پولیس کو بھی مجھ سے ہی درکار تھی، اس لیے میرا ان کی حراست میں پہنچ جانا درست ہی تھا۔ ایسی ہی کسی فعال تنظیم کی دو خواتین دور دراز سے تکلیف دہ سفر کر کے اس علاقے میں جب مجھ تک ایک روز پہنچ گئیں اور انہوں نے مجھے اس طرح دیکھا جیسے کہ میں کٹہرے میں بند کوئی بھیڑیا ہوں تو اس وقت کی بے بسی یاد آ جانے پر آج بھی میں تلملا کر رہ جاتا ہوں۔ مجھے اب یہ تو یاد نہیں کہ ان خواتین نے مجھ سے کتنی بار ملاقات کی لیکن ان کے سوالات مجھے غصے اور شرم سے پیسنے پیسنے کر دیتے۔ دیکھا جائے تو ان کا یہ عمل زیادہ بے جا بھی نہ تھا۔ لیکن مجھے حیرت یہ تھی کہ آخر وہ میرے کسی بھی جواب پر اعتبار کیوں نہیں کر رہی تھیں۔ ان میں سے ایک عورت جس کے بال کٹے ہوئے تھے اور جو نیلی جینٹس پہنے تھی اور غالباً خاصا قیمتی گوگل آنکھوں پر لگائے تھی کچھ زیادہ ہی بے باک تھی۔ پولگا کہ وہ خواتین کی کسی انگریزی میگزین سے تعلق رکھتی تھی۔ اس نے تو کچھ چھوڑا ہی نہیں،میرا نام، میری ذات ، میرے باپ کا پیشہ ، مکان، جائداد سب پوچھ ڈالا ۔ پھر اس طرح کے سوالات بھی کہ میری شادی ہو گئی ہے یا میں کنوارا ہوں، بچے کتنے ہیں اور وہاں میں اکیلا کیوں رہتا ہوں،میری بیوی بچے ساتھ کیوں نہیں رہ رہے ہیں اور مجھے اپنی ذمے داریوں کے سبب بیوی سے کتنے عرصے تک دور رہنا پڑتا ہے۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ اس نے دوسروں سے یہ بھی معلوم کیا تھا کہ میں شراب پیتا ہوں یا نہیں اور کیا میں عورتوں کا پرانا شکاری ہوں۔
عجیب وقت تھا۔ اخباروں میں رام دیئی کی پوری تصویر جس میں پوری صورت حال کی وضاحت شامل تھی، چھپی تو اس کے برابر میری تصویر بھی موجود تھی۔ یہ خبر سن کر میری سیدھی سادی بیوی کی نڈھال کیفیت اور اسی حالت میں میرے ڈیڑھ برس کے بچے کو بھوک پیاس کی نقاہت میں سنبھالنے کا احوال جن لوگوں نے بعد میں مجھے بتایا تھا اس سے میں اندازہ کر سکتا ہوں کہ اس پر کیا گزری ہوگی۔ ایک بڑی الجھن یہ بھی تھی کہ پولیس کو پورا یقین تھا کہ میرے بیانات مہمل ہیں۔ ان لوگوں نے مجھے ایذا پہنچانے کے لیے اپنا ذہن تیار بھی کر لیا تھا کیونکہ ایک بڑے کڑوے اور تیکھے تیوروں کے ساتھ مجھ سے یہ کہا گیا تھا کہ بچ قبول کر لینے کا مجھے ایک آخری موقع اور دیا جارہا ہے مگر میری بے بسی بھی عجیب تھی کہ میرے پاس انہیں کچھ نیا بتانے کے لیے تھا ہی نہیں۔ ظاہر ہے کہ میں نے پھر وہی کہا جو کہتا چلا آرہا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ پولیس بھی باہری دباؤ اور خاص طور پر سیاسی دباؤ کے سبب الجھن میں تھی کیونکہ سرکا روہاں کے علاقے کے ووٹروں کا شمار کر کے معاملے میں ایک خاص رخ کے ساتھ دلچسپی لے رہی تھی ، پھر ایک پریشانی یہ بھی پیدا ہو گئی تھی کہ وہ سماجی تنظیمیں جو عام خوشحال اور ترقی کے نام پر مجبوروں اور ناداروں کے گھر بار اجاڑنے کے سخت خلاف تھیں ان کے دلائل کی مدد لے کر سر کار مخالف سیاسی جماعتیں بھی طوفان اٹھانے میں لگ گئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک علاقے سے غریبوں کو اٹھا کر دوسرے انجان اور اجنبی علاقے میں بے سروسامانی کی حالت میں پھینک دیے جانے سے ان غریبوں کے گھر بار ہی نہیں چھنتے بلکہ ایک مخصوص علاقے سے منسوب ان کا مشینی پیشہ بھی چھین لیا جاتا ہے۔ مخالف جماعتوں کے لیڈر بھلاوہ موقع کیوں گنواتے، حرکت میں آتے ہی انہوں نے پتہ لگالیا کہ رام دیئی کے ساتھ کیا ظلم ہوا تھا۔ بے دخل لوگوں کو معاوضہ دیے جانے یا نئے علاقے میں بسائے جانے کے معاملے میں دلالوں کی کھلی لوٹ کی انہوں نے قلعی کھول کر رکھ دی۔ رام دیئی کے مفلوک الحال ، نابینا اور ضعیف چچا کو انہوں نے ٹی وی پر پیش کر دیا جس نے لوگوں کو بتایا کہ وہی بے دخل کیے گئے لوگ سرکار سے معاوضہ یازمین کا پٹہ حاصل کر پارہے ہیں جو دلالوں کی کمیشن کی پیشگی رقم ادا کرنے کی حالت میں ہیں۔
رام دیئی جس دلدل کے کنارے لا کر ڈالی گئی تھی۔ وہاں کی جھاڑیاں صاف کرنے میں اس کے آٹھ برس کے بچے کو کوڑیالے سانپ نے ایسا ڈسا کہ بغیر ڈاکٹر والے اسپتال سے مر کر ہی نکلا لیکن وہ تب بھی ہمت نہ ہاری مگر جب دفتروں کے چکر لگاتی تو دلال اسے گھیر لیتے اور افسران کو کھلانے پلانے کے لیے کم سے کم دو ہزار وپے کا مطالبہ کرتے ۔ اسی نابینا کا یہ کہنا تھا کہ رام دیئی کو یہ امید تھی کہ وہ اپنے ہاتھوں بٹی ہوئی مونج کی رسی بیچ کر شاید کچھ مہینوں میں مطلوبہ رقم جمع بھی کرلے گی۔ میری بدقسمتی یہ تھی کہ باز پرس کی ابتدائی منزل میں ہی بات اس قدر گنجلک بن گئی کہ پولیس کا مجھ پر سے شک بنارہی نہیں۔ اب میں بھی پولیس کو کیسے سمجھا تا کہ رام دیئی میرے پاس اس وقت رسی بیچنے آئی تھی جب مجھے اپنی دنیا میں ہر طرف اندھیرا ہی نظر آرہا تھا۔ میرے لیے انہیں یہ سمجھانا مشکل تھا کہ جو پیشہ اختیار کرنے کے لیے میں نے کیسی کیسی پریشانیوں کے بعد ڈگری حاصل کی تھی اور جس کے علاوہ میں کوئی دوسرا کام یا پیشہ اختیار کرنے کے لائق ہی نہ رہ گیا تھا ہی پیشہ میری جان کا دشمن بن گیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ قول کہاں تک صحیح ہے کہ آدمی بس کسی خاص لمحے اور کسی مخصوص ذہنی دباؤ کی حالت میں ہی خود کشی کر سکتا ہے، ہمیشہ نہیں۔ بہر حال اس وقت مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا، ہاں اتنا ضرور تھا کہ رام دیئی کے ہاتھ میں رہی دیکھ کر ایک بار مجھے یہ ضرور لگا تھا کہ قدرت بھی شاید خود میری مددکر رہی ہے۔ لیکن میں نے اس کے ہاتھ میں جوری دیکھی تھی وہ زیادہ موٹی نہ تھی تو میں نے اس سے کہا کہ مجھے ذرا مضبوط رسی درکار ہے۔ یہ سن کر اس نے تیزی سے رسی کو ایک اسٹول کے سہارے کمرے کی چھت کے کنڈے میں بھی ڈال دیا اور نیچے سے اس کے دونوں سروں کو باندھ کر ہاتھوں سے جھٹکا دے کر مجھے رسی کی مضبوطی کا بھروسہ بھی دلانا چاہا۔ مگر میں نے رام دیئی سے صاف کہہ دیا کہ رسی اتنی مضبوط نہیں جیسی مجھے ضرورت ہے۔
لیکن رام دیئی کچھ مایوسی کے ساتھ مجھے ہر طرح سے رسی کی مضبوطی کا یقین بھرے ہوئے گلے اور رندھی ہوئی آواز میں دلاتی رہی مگر آخری بار اسے خریدنے سے منع کر کے اور اس سے پیچھا چھڑانے کی خاطر میں باہری کمرے سے اٹھ کر اندر ہاتھ روم میں چلا گیا، تھوڑی دیر بعد یہ سوچ کر کہ وہ چلی گئی ہوگی واپس آیا تو غصہ بھی آیا کہ وہ گئی نہیں تھی۔ میں یہ سوچ کر بددل بھی ہوا کہ وہ اپنے افلاس اور بے سروسامانی کا واسطہ دے کر اور بچوں وغیرہ کے فاقوں کی داستان سنا کر مجھے دیر تک پریشان کرتی رہے گی۔ کیسی بے بسی ہے۔ پتہ نہیں کہ رام دیئی کے پاس کونسی ایسی طاقت تھی ، اب سوچتا ہوں تو شرم آتی ہے کہ غالبا میں کھیل کے میدان کا زیادہ شاطر کھلاڑی تھا کیونکہ رام دیئی تو مجھے بس اتنا بتانے کے لیے اس کمرے میں میرا انتظار کر رہی تھی کہ جس رسی کو میں اپنے لیے کمزور سمجھ رہا تھا وہ اس کے لیے کتنی مضبوط تھی کہ اس کے پورے بدن کو ہوا میں سنبھالے تھی۔
مصنف:اقبال مجید