دخمہ

0
441
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

سامنے سہراب کی نعش تھی اور اس کے پیچھے دو دو پارسی سفید لباس پہنے ہاتھ میں پیوند کا کنارہ پکڑے خاموشی سے چل رہے تھے۔ ان کے پیچھے ہم لوگ تھے ۔ دخمہ کی گیٹ پر ہم لوگ رک گئے۔ہمیں اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ میں نے ماحول کا جائزہ لیا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا۔ کچھ بھی نہیں بدلا میری بہن کا گھر بھی !! لیکن اس گھر میں اب میرا کوئی نہیں رہتا تھا۔ میری بہن اور بہنوئی کا انتقال ہوئے ایک عرصہ ہو چکا تھا۔ میری بھانجی اسی شہر میں اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھی۔اسکول کی چھٹیاں ہوتے ہی میں اپنی بہن کے پاس دوڑا چلا آتا۔ وہ میری سب سے بڑی بہن تھیں درمیان میں چھ اور بہنیں اور ان کے بعد سب سے چھوٹا میں۔ اکلوتا بھائی۔ میری بھانجی مجھ سے صرف دو برس چھوٹی تھی ۔ ہم دونوں خوب کھیلا کرتے ۔ وہ گھر مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ چٹان پر بنا ہوا خوب صورت مکان اسٹیشن کے اس پار۔ پلاننگ کے ساتھ بنائے ہوئے بنگلے۔ درمیان میں سیدھی تارکول کی سڑکیں ۔ کافی چڑھاؤ اورا تار تھے۔ ایک زمانے میں یہاں صرف تانگے چلتے تھے۔ میری بہن کے گھر پہنچتے پہنچتے گھوڑا ہانپنے لگتا۔ چڑھائی پر گھوڑے کے پیر جمتے نہ تھے۔ مشرقی جانب واٹر ریزروائر تھا۔ مغرب میں جہاں سڑک مسطح ہو جاتی ہے سینٹ فلومینا چرچ تھا۔ چرچ میں مشنری اسکول بھی تھا۔ کھلی ٹانگوں والے یونیفارم کے اسکول کو کم ہی مسلمان لڑکیاں جاتی تھیں۔ میری بھانجی بھی اسلامیہ اسکول میں پڑھتی تھی۔ لیکن ہم لوگوں نے چرچ کا چپہ چپہ دیکھا تھا ۔ کیوں کہ بچوں کو کوئی نہیں روکتا تھا۔ اتوار کے دن اطراف کے کرسچن دعا کے لیے آجاتے فضا میں گھنٹے گونجنے لگتے تو بڑا اچھا لگتا۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ گھنٹے کون بجاتا ہے۔ مسجد کافی فاصلے پر تھی جہاں چھوٹے چھوٹے بے ترتیب مکان تھے۔ گھر کے مقابل اونچی چٹان بلکہ پہاڑ پر ایک دائرہ نما عمارت بنی ہوئی تھی۔ کئی ایکٹر پر پھیلا ہوا علاقہ تھا۔ بہت بڑی باؤنڈری تھی۔ نیچے بڑا سا گیٹ تھا۔ لوگ اس کو پاری گٹہ کہتے تھے۔ وہاں ایک چھوٹا سا مکان بنا ہوا تھا۔ جس میں چوکیدار اس کی بیوی اور ایک کتا رہتے۔ عجیب سا پراسرار کتا! محلے کے اکثر گھروں میں ایلسیشین تھے یہ کتا ان سے مختلف تھا۔

ایک دن ہم نے دیکھا پارسی گٹہ کا گیٹ کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور چوکیدار صاحب بےحد مصروف ہیں۔ 11 بجے دھوپ میں سفید کپڑوں میں ملبوس دودو پارسی ایک رومال کے دو مختلف سرے پکڑے ہوئے ایک قطار میں چلے آرہے ہیں۔ سب سے آگے دو پارسی تھے۔ درمیان میں ایک گاڑی۔۔۔پھر پارسیوں کی قطار۔۔۔۔ تقریباً ایک بجے تک وہ لوگ مصروف رہے پھر واپس ہو گئے ۔ شام ہونے سے پہلے گدھوں کے جھنڈ آنا شروع ہوئے۔ وہ سب اس دائرہ نما عمارت کے کنارے پر بیٹھ گئے ۔ شام ہوتے ہوتے سارے گدھ اڑ گئے۔ میں نے اپنی بہن سے پوچھا کہ اتنے گدھ اس عمارت پر کیوں جمع ہو گئے تھے؟ میری بہن نے بتایا پارسی گٹہ اصل میں پارسیوں کا قبرستان ہے۔ پارسی مرنے والے کی لعش کو چھت پر رکھ دیتے ہیں اور منٹوں میں سارے گدھ اس لعش کو نوچ نوچ کر کھا لیتے ہیں۔یہ کیسا طریقہ ہے آپی؟ میں نے جھر جھری سی لے کر کہا۔بیٹا اپنا اپنا عقیدہ ہے۔ کوئی دفن کرتا ہے۔ کوئی جلا دیتا ہے یہ لوگ پرندوں کو کھلا دیتے ہیں اور اسی کو ثواب سمجھتے ہیں۔اس روز میں چھت پر نہیں سویا۔ میں اور میری بھانجی دونوں نیچے کمرے میں ہی سو گئے کیا پتہ کوئی گدھ ہمیں مردہ سمجھ کر۔صبح ہم دونوں پارسی گٹہ گئے۔ کتا ہمیں دیکھ کر بھونکنے لگا۔ارے بیٹے تم لوگ؟چاچاکل کسی کا انتقال ہوا تھا؟ہاں بیٹا ۔دودو آدمی کیوں قطار بنا کر چلتے ہیں؟یہی طریقہ ہے۔ تنہا کوئی نہیں چلتا۔انہوں نے رومال کیوں پکڑ رکھا تھا؟وہ رومال نہیں اسے پیوند کہتے ہیں۔اور یہ گول عمارت؟ یہ دخمہ ہے۔ اس کی چھت درمیان سے اونچی ہوتی ہے چھت پر تین دائرے بنے ہیں۔ مرد کی لعش بیرونی دائرے میں عورت کی درمیانی دائرے میں اور بچوں کی لعش اندرونی دائرے میں رکھی جاتی ہے تا کہ ان پر تیز دھوپ پڑے اور گدھوں کو دور سے نظر آ جائے۔چاچا یہ گتا اتنا عجیب کیوں ہے؟ میری بھانجی نے پوچھا اسے سگ دید کہتے ہیں۔ چار آنکھوں والا کتا ۔ اس کی چار آنکھیں نہیں ہیں لیکن آنکھوں پر ایسے نشان ہیں جس سے اس کی چار آنکھیں نظر آتی ہیں۔ یہ سگ دید ہی آدمی کے نیک وبد ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔کیسے چاچا؟جب بڑے ہو جاؤ گے تو خود ہی پتہ چل جائے گا چاچانے اکتا کر کہا۔اور چاچا یہ گدھ کہاں سے آجاتے ہیں؟اگر فرش پر چینی گر جائے تو چیونٹیاں کہاں سے آتی ہیں؟ چاچانے سوال کیا اور اندر چلے گئے ۔ اس روز بھی ہم چھت پر نہیں سوئے۔ سہراب بھی ان تمام مراحل سے گزر رہا ہو گا ۔سہراب کا میکدہ شہر کے مصروف علاقے میں تھا۔ ممکن ہے جس وقت اس کے اجداد نے مئے خانہ کھولا ہوگا یہ مصروف ترین علاقہ نہ رہا ہو۔ کیوں کہ سامنے راجہ صاحب کی بہت بڑی دیوڑھی تھی بغل میں بھی ایک بہت بڑی دیوڑھی تھی۔ دائیں جانب ڈراما تھیٹر تھا۔ اور بائیں جانب بہت آگے انگریزوں کی ریزیڈنسی تھی ۔ مقابل میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی مسجد سے لگ کر جو گلی تھی وہ مجرد گاہ تک جاتی تھی۔ مجرد گاہ ادیبوں، شاعروں اور فن کاروں کا میٹنگ پوائنٹ تھا۔ اس میں فائن آرٹس اکیڈمی بھی تھی اور رسالے کا دفتر بھی ۔ شام ہوتے ہی اکثر ادیب و شاعرمئے کدہ کا رخ کرتے شہر کا یہ سب سے قدیم شراب خانہ تھا! ایک تو سہراب خالص شراب بیچتا تھا۔ دوسرے وہ ادیبوںو شاعروں کے مزاج سے اچھی طرح واقف بھی تھا۔ کسی اچھے شعر پر داد بھی دے دیا کرتا۔ پارسی ویسے بھی خوش اخلاق اور مہذب ہوتے ہیں۔ پھر سہراب صرف شراب اور سوڈے کی اصل قیمت لیتا تھا۔ پانی اور گلاس وہ خود فراہم کرتا۔ اندر ٹمبل اور کرسیاں بھی تھیں۔ گزگ کا کوئی انتظام نہ تھا۔ لڑکے ٹوکریوں میں گرین پیسں، بھنی ہوئی مونگ پھلی ، چڑوا لیے گھومتے ۔ لوگ حسب ضرورت ان سے چیزیں خرید لیتے ۔ دوسرے بارس کے مقابلے میں مئے کده نسبتا کم خرچ تھا۔ ہم نے جس وقت مئے کدۂ جانا شروع کیا۔ شہر کئی انقلابات سے گزر گیا تھا۔ کمیونسٹوں کی شاہی کے خلاف جدو جہد، تلنگانہ تحر یک کامیاب تو ہوئی لیکن شاہی کا خاتمہ کانگریس کی نئی حکومت نے کیا تھا۔ پولیس ایکشن نے مسلمانوں کو حواس باختہ کر دیا تھا۔ مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم سے پوری قوم منجھلی بھی نہ تھی کہ زبان کی بنیاد پر ریاستوں کی نئی حد بندیاں کی گئیں۔ مذہب کے نام پر تقسیم کو عوام نے قبول نہیں کیا تو زبان کے نام پر ریاستوں کی نئی حد بندیوں کو بھی ایک ہی زبان بولنے والوں نے قبول نہیں کیا۔ دو مختلف کلچر !! جس شہر کی تاریخ نہیں ہوتی اس کی تہذیب بھی نہیں ہوتی۔ نئے آنے والوں کی کوئی تاریخ تھی نہ تہذیب۔ ایک مستحکم حکومت کا دارالخلافہ سیاسی جبر کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں آگیا۔ وہ پاگلوں کی طرح خالی زمینوں پر آباد ہو گئے۔ ایک طرف بڑی بڑی دیوڑھیاں حصے بخرے کر کے فروخت کر دی گئیں۔ زمین بیچنا یہاں کی تہذیب کے خلاف تھا۔ شرما شرمی میں قیمتی زمینیں کوڑیوں کے مول فروخت کر دی گئیں۔ آنے والے زمینیں خرید خرید کر کروڑ پتی بن گئے۔ نئے علاقوں کو خوب ترقی دی۔ مجھے لگا جیسے شہر کی تہذیب کسی پاری کی نعش کی طرح تپتی ہوئی دھوپ میں دخمہ کی چھت پر رکھ دی گئی ہو اور نئے آنے والے گدھ اسے نوچ کر کھانے لگے ہوں ۔ کسی کوٹھی میں صدر پہ خانہ آگیا، کسی دیوڑھی میں انجینئر نگ کا آفس کسی حویلی میں اے۔ جی آفس تو کسی دیوڑھی میں بڑی ہوٹل کھل گئی۔ باغات کی جگہ بازار نے لے لی۔ لیڈی حیدری کلب پر سرکاری قبضہ ہو گیا۔ کنگ کوٹھی کے ایک حصے میں سرکاری دواخانہ آ گیا۔ جیل کی عمارت منہدم کر کے دواخانہ بنا دیا گیا۔ رومن طرز کی بنی ہوئی تھیر میں اب بہت بڑا مال کھل گیا تھا۔ دیوڑھیوں، باغات جھیلوں اور پختہ سڑکوں کے شہر کی جگہ دوسرے عام شہروں جیسا شہر ابھر رہا تھا جس کی کوئی شناخت نہ تھی۔چند برسوں میں سب کچھ بدل گیا۔ جو تہذیب کے نمائندے تھے جو تہذیب کو بچاسکتے تھے ان میں سے کچھ اپنی زمینوں کو چھوڑ کر سرحد کے اس پار جا بسے تھے اور کچھ مغربی ممالک میں آباد ہو گئے۔ ولی عہد بہادر جن کی ماں ترکی تھیں اور جن کی تعلیم و تربیت مغربی ممالک میں ہوئی تھی ان کا دل دادا حضرات سے چھینی ہوئی سلطنت میں نہ لگا۔ انہوں نے ایک مغربی ملک کو اپنا مسکن بنالیا۔ رعایا کی محبت کا یہ حال تھا کہ جب بھی وہ اس شہر کو آتے تو مسجد کے امام جمعہ کے خطبے میں ان کا نام ضرور لیتے تھے ۔ نہ شاہی خاندان کے افراد کو تہذیب کی فکر تھی۔ نہ امرا کو اور نہ عوام کو ۔ ! مئے کدہ کے اطراف کا ماحول بھی تبدیل ہو گیا۔ راجہ جی کی حویلی میں سرکاری دواخانہ آ گیا۔ سامنے کی کوٹھی میں بینک کا مین آفس، ریذیڈنسی میں ویمنس کالج، ڈراما تھیٹر فلمی تھیٹر میں تبدیل ہو گیا۔شہر کا نقشہ تیزی سے بدلتا جارہا تھا۔ تیلگو فلم انڈسٹری مدراس سے یہاں منتقل ہوگئی تھی ۔ شہر کی چمک دمک بڑھ گئی۔ فلمی اسٹیڈیوز، 70 ایم ایم تھیٹرز، بڑے بڑے مالس، کپڑوں اور زیورات کی دکانیں۔ سب ان کا تھا۔ سب پر ان کی چھاپ نمایاں ہو رہی تھی۔ مقامی لوگ لینڈ گرابرس کی فروخت کی ہوئی خشک تالابوں کی زمین پر مکانات بنانے پر مجبور تھے۔ ہر بارش قیامت بن کر آتی ۔ مسلسل فسادات نے پرانے شہر کی ساکھ کو بہت متاثر کیا تھا۔ ہفتوں کرفیو لگا رہتا۔ ہر تہوار وعید پر لوگ ہم جاتے۔ اس صورت حال سے تنگ آکر جو پرانا شہر چھوڑ سکتے تھے۔ وہ نئے علاقوں میں جابسے۔ ساری رونق، بڑی بڑی سڑکیں، فلائی اوور، ٹیک سٹی سب کچھ نئے شہر میں تھے۔ تمام دفاتر نئے شہر کو منتقل کر دیے گئے تھے۔ پرانے شہر میں کچھ تاریخی عمارتیں رہ گئی تھیں۔ جب بھی ریاست کے مقامی افراد کومحرومی کا احساس بہت ستاتا تو وہ علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے لگتے۔ الیکشن کے زمانے میں کوئی باغی لیڈر اس مسئلے کو گرما دیتا۔ کچھ مہینوں خوب ہما ہمی رہتی جذبات سرد پڑ جاتے۔مئے کدہ کا علاقہ بھی اب ڈاؤن ٹاؤن بنتا جار ہا تھا۔ پرانے شہر سے نئے علاقے کو منتقل ہونے والوں میں خود میں بھی شامل تھا۔دخمہ میں پارسی ابھی تک مصروف تھے۔ کوئی باہر نہیں آیا تھا۔

ادیبوں کا کوئی میٹنگ پوائنٹ نہیں تھا۔ سب بکھر گئے تھے۔ ہمارے دور کو انتشار کا عہد مان لیا گیا تھا۔ فرد کومشین قرار دے دیا گیا تھا اور تنہائی کو ہمارا مقدر۔!! یہ تسلیم کر لیا گیا تھا کہ تاریخی تہذیبی، قومی معاشرتی، جذباتی و دہنی ہم آہنگی کی ساری روایتیں منہدم ہو چکی ہیں ۔ پورا ادب درون ذات کے کرب میں مبتلا تھا۔ اس لیے اب ضروری نہیں تھا کہ سب کسی ایک ہی بار یا ہوٹل میں ملیں۔ شہر بہت پھیل گیا تھا۔ جگہ جگہ وائن شاپس کھل گئے تھے ۔ ہم کسی دوست کے گھر جمع ہو جاتے۔کسی قریبی دکان سے شراب منگوالی جاتی۔ فون کرنے پر ہوٹل سے گزگ بھی پہنچ جاتی۔ ہوم ڈیلیوری کا رواج ہو گیا تھا۔ اب مئے کدہ  جانا ہی نہیں ہوتا تھا۔ لیکن وہ کیوں سوچ رہا ہے شہر کی تہذیب کے بارے میں شہر کے بارے میں؟ شاید اس لیے کہ مئے کدہ کو بند دیکھ کر اسے بڑا شاک لگا تھا۔ جیسے تہذیب کا ایک حصہ مر گیا ہو۔میرا دوست مشیر بیس برس بعد امریکہ سے آیا۔ اپنا شہر چھوڑ کر باہر بس جانے والے ایک تو نا سٹالجک ہو جاتے ہیں دوسرے چیارٹی کرنے کے لیے اتاولے ہوتے ہیں۔ وہ ایسی ہر جگہ جانا چاہتا تھا جہاں بیس برس قبل ہم جایا کرتے تھے۔ ہر جگہ ساتھ چلتا بہت چیزوں کی تبدیلی پر اداس ہو جاتا۔ ظاہر ہے شہر بہت تیزی سے بدلا تھا اور اس پر گلوبلائزیشن کی پر چھائیاں صاف نظر آرہی تھیں۔ اسے اس لیے بھی مایوسی ہو رہی تھی کہ جو چیزیں وہاں ترقی یافتہ شکل میں دیکھ کر آیا ہے یہاں اس کی نقل کی جارہی ہے۔ شہروں کی شناخت تیزی سے ختم ہورہی ہے۔ سب شہر ایک جیسے ہور ہے ہیں۔میں نے اس سے کہا کہ اسے ایک ایسی جگہ لے چلوں گا جو بالکل نہیں بدلی۔ دوسرے روز میں اسے مئے کدہ لے آیا۔لیکن مئے کدہ بند تھا۔ برسوں پہلےمئے کدہ کی پیشانی پر ابھرے ہوئے لفظوں 1904 اسی طرح موجود تھا نیچے اردو میں بھی مئے کدہ لکھا تھا۔ آس پاس دریافت کیا تو پتہ چلا کافی دنوں سے بند ہے۔ ہم لوگوں نے سہراب کے گھر کا پتہ چلایا۔ اس کے گھر پہنچے ۔ قدیم پارسی طرز کا مکان تھا۔ ملازم نے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ ہم دیوار پرٹنگی تصویریں دیکھنے لگے۔سہراب نے انتظار نہیں کروایا۔آپ وہ مجھے دیکھ کر چونک پڑا۔ہاں۔ اور انہیں پہچانا۔ مشیر اوہ یاد آیا۔ آپ تو پورے انگریز ہو گئے ۔امریکہ میں جو رہتا ہے۔ میں نے ہنس کر کہا۔ آپ لوگ آئے بڑا اچھا لگا۔ کہے کیا پیش کروں؟نہیں میں دن میں نہیں لیتا میں نے کہا اور مشیر تم؟نہیں میں بھی نہیں لوں گا۔کوئی تکلف نہیں۔ اس نے ملازم کو کافی بنانے کے لیے کہا۔ آپ لوگوں کو دیکھے آنکھیں ترس گئیں۔میں شرمندہ ہوں۔ہاں شہر بھی تو بہت پھیل گیا ہے۔آپ کی صحت کیسی ہے؟اچھا ہوں۔بزنس میں نقصان ہوا؟ میں نے راست پوچھ لیا۔نہیں۔پھر مئے کدہ؟چھوڑیے کوئی کب تک بزنس کرتا ر ہے۔ آدمی کو آرام بھی کرنا چاہیے نا!! آپ بتائیے مشیر سے مخاطب ہو کر اس نے کہا، امریکہ میں کیسی گزررہی ہے؟پہلے جیسا تو نہیں ہے۔ یہاں کی گھٹن سے بھاگے کچھ دن تو اچھا لگا اب فضا پر جس چھایا ہوا ہے۔ شک کے سائے میں زندگی گزارنا کتنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کا تجربہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔

سارا منظر نامہ ہی بدل گیا۔ وطن کے لیے جد و جہد ، بین الاقوامی فیصلوں کی جارحانہ خلاف ورزیاں، دہشت گردی سب گڈمڈ ہو گئے ہیں۔ ایک پوری قوم کو دہشت گردی کے جال میں پھنسا دیا گیا۔ ایک آگ سی لگی ہوئی ہے جس میں پتہ نہیں کون کون ہاتھ سینک رہا ہے۔ لیکن ملزم تیار ہے۔ جرم کہیں بھی کسی نے کیا ہو۔ نشان زدہ ملزمین تیار ہیں۔ پولیس نے بھی ظلم کے سارے حربے آزما لیے۔ عدالتیں کبھی چھوڑتیں ہیں کبھی نہیں چھوڑتیں۔ اور بے وقوف قوم دلدل میں دھنستی ہی جاری ہے۔آپ تو جذباتی ہو گئے۔ تاریخ اپنے رنگ بدلتی رہتی ہے۔ دیکھیے نا ایران سے مسلمانوں نے ہم کو باہر کیا تھا۔ لیکن اس ریاست کو ہم آصف جاہی سلطنت کے چرچے سن کر آئے تھے۔ ہمارے اجداد کو سالار جنگ اول نے مدعو کیا تھا۔ انتظامیہ میں ہمیں شامل کیا گیا۔ میر محبوب علی خان نے ہمیں خطابات سے نوازا تھا۔ نواب سہراب نواز جنگ فرام جی جنگ، فریدون الملک وغیرہ وغیرہ فارسی یہاں کی سرکاری زبان تھی اور اردو عوامی زبان ۔ بریانی نوابوں اور موتیوں کا شہر!! گجراتی، مارواڑی، سندھی سبھی آبسے تھے۔ سب کو آزادی حاصل تھی سب نے اپنی اپنی عبادت گاہیں تعمیر کرلیں۔ شاہی خزانے سے مدد بھی ملتی تھی۔ ہمارے لیے تو بہت سازگار ماحول تھا۔ بڑا عجیب معاشرہ تھا۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ آپ کو یاد ہے؟ نہیں آپ تو بہت چھوٹے رہے ہوں گے ۔ تھیڑ میں جب ہم فلم دیکھنے جاتے تو درمیان میں ایک سلائیڈ دکھائی جاتی ۔ وقفہ برائے نماز لوگ جلدی جلدی فرض نماز پڑھ کر تھیڑ لوٹ آتے ۔ رند کے رندر ہے ہاتھ سے جنت نہ گئی والا معاملہ تھا۔آپ کو شاہی دور پسند تھا؟ نہیں رواداری پسند تھی۔ معاشرے کا کھلا پن اچھا لگتا تھا۔ اب تو کٹر پن آ گیا ہے ہر قوم میں۔! ہاں مسلمان بھی خدا حافظ کی جگہ اللہ حافظ اور نماز کے بجاے صلوٰۃ کہہ کر بہت خوش ہونےلگے ہیں میں نے کہا۔مئے کدہ آپ نے کیوں بند کر دیا ؟ مشیر نے اچانک پوچھا۔ارے ہاں میں تو اصل بات ہی بھول گیا میں نے چونک کر کہا۔چھوڑیے۔نہیں بتایے کیا ہوا تھا؟ میں نے اصرار کیا۔ کافی دیر تک وہ خاموش رہا۔ پھر دھیرے سے کہا۔مسلمانوں نے حکومت سے شکایت کی کہ مئے کدہ مسجد سے بہت قریب ہے جو خلاف قانون ہے میں سناٹے میں آگیا۔ تو یہ مسلمانوں کا کارنامہ ہے۔ میں نے سوچا۔لیکن مسجد اور مئے کدہ برسوں سے اسی جگہ ہیں پھر؟وہ شاہی دور تھا۔ اب جمہوریت ہے۔ !! مسلمان اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ اس کا خیال رکھنا حکومت کا فرض بھی تو ہے۔ مسلمان بھی بہت کڑ ہوتے جارہے ہیں مشیر نے کہا۔مسلمان ہی کیوں سہراب نے کہا خود مجھے دیکھیے۔میں نے شادی نہیں کی کیوں کہ پارسی غیر مذہب میں شادی نہیں کر سکتے ۔ اس مذہبی شرط کی وجہ سے ہماری تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ اکثر تا خیر سے شادی کرتے ہیں یا نہیں کرتے ۔ اب پورے شہر میں بارہ سو پارسی رہ گئے ہیں۔واقعی؟ہاں دوسرا مسئلہ موت کا ہے۔ وہی پرانا دخمہ۔ برہنہ نعش کو جلتی دھوپ میں چھوڑ دیتے ہیں۔ اب تقریباً ہمیں برس سے گدھوں نے شہر کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اب مختلف الخیال گروپ بن گئے ہیں کوئی کہتا ہے نعش کو دفن کر دینا چاہیے۔ کوئی جلانے کے حق میں ہے۔ الکٹرک بھٹی کے بارے میں بھی غور کیا جارہا ہے۔ کچھ لوگ گدہوں کی خطوط پر افزائش کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ میں تو پرانے طریقے کو ترجیح دوں گا۔ کہتے ہیں کوئی نیک آدمی مرتا ہے تو گدھ آتے ہیں۔ پتہ نہیں ہمارا کیا حشر ہوگا۔ !! اس نے ٹھنڈی سانس بھری۔اور آج اطلاع ملی کہ سہراب مر گیا۔ مجھے بار بار یہی خیال آتا تھا کہ مئے کدہ کے بند ہو جانے کا اس پر بہت اثر ہوا ہوگا۔ اس لیے شایدوہ زیادہ جی نہ سکا ہو۔ میں محسوس کر رہا تھا۔ پارسی باہر آرہے تھے۔ سہراب کی بر ہنہ نعش کو دخمہ کی چھت پر چھوڑ دیا گیا ہوگا۔ میں بار بار آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔ بہت سے پارسی بھی رک گئے تھے۔میں نے آسمان کی طرف دیکھا ۔ مجھے بچپن کا وہ منظر دوبارہ نظر آنے لگا۔ گدھوں کا ایک جھنڈ تیزی سے دُخمہ کی طرف آرہا تھا۔پارسیوں کے چہرے سے کھل اٹھے ۔بیس برس بعد یہ منظر لوٹا تھا۔پتہ نہیں  کہاں سے آئے ہیں ؟وہ ایک دوسرے سے سوال کر رہے تھے۔اگر فرش پر چینی گر جائے تو چیو نٹیاں کہاں سے آتی ہیں؟کوئی میرے کان میں پھسپھایا ۔میں خود کو ہلکا محسوس کرنے لگا۔

مصنف:بیگ احساس

- Advertisement -

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here