سنگھا ردان

0
218
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

فساد میں رنڈیاں بھی لوٹی گئی تھیں۔بر جموہن کو نسیم جان کا سنگھار دان ہاتھ لگا تھا۔ سنگھار دان کا فریم ہاتھی دانت کا تھا جس میں قد آدم شیشہ جڑا ہوا تھا اور بر جموہن کی لڑکیاں باری باری سے شیشے میں اپنا عکس دیکھا کرتی تھیں۔ فریم میں جگہ جگہ تیل ، ناخن پالش اور لپ اسٹک کے دھبے تھے جس سے اس کا رنگ مٹ میلا ہو گیا تھا۔اور برجموہن حیران تھا کہ ان دنوں اس کی بیٹیوں کے لچھن یہ لچھن پہلے نہیں تھے۔ پہلے بھی وہ بالکنی میں کھڑی رہتی تھیں لیکن انداز یہ نہیں ہوتا تھا۔ اب تو چھوٹی بھی چہرے پر اسی طرح پاوڈر تھو پتی تھی اور ہونٹوں پر گاڑھی لپ اسٹک جما کر بالکنی میں ٹھٹھا کرتی تھی۔ آج بھی تینوں کی تینوں بالکنی میں کھڑی آپس میں اسی طرح چہلیں کر رہی تھیں اور بر جموہن چپ چاپ سڑک پر کھڑا ان کی نقل و حرکت دیکھ رہا تھا۔ یکا یک بڑی نے ایک بھر پور انگڑائی لی۔ اس کے جو بن کا ابھار نمایاں ہو گیا۔

منجھلی نے جھانک کر نیچے دیکھا اور ہاتھ پیچھے کر کے پیٹ کھائی۔ پان کی دُکان کے قریب کھڑے ایک نوجوان نے مسکرا کر بالکنی کی طرف دیکھا تو چھوٹی نے منجھلی کو کہنی سے شہوکا دیا اور پھر مینوں کی تینوں بہنے لگیں اور برجموہن کا دل ایک انجانے خوف سے دھڑ کنے لگا۔ آخر وہی ہوا جس بات کا ڈر تھا۔ آخر وہی ہوا یہ خوف بر جموہن کے دل میں اسی دن گھر کر گیا تھا جس دن اس نے نسیم جان کا سنگھار دان لوٹا تھا۔ جب بلوائی رنڈی پاڑے میں تھے تھے تو کہرام مچ گیا تھا۔ ہر جموہن اور اس کے ساتھی دندناتے ہوئے نسیم جان کے کوٹھے پر چڑھ گئے تھے۔ نسیم جان خوب چینی چلائی تھی۔ ہر جموہن جب سنگھار دان لے کر اترنے لگا تھا تو اس کے پاؤں سے لپٹ کر گڑ گڑانے لگی تھی۔بھیا۔۔۔یہ موروثی سنگھار دان ہے۔اس کو چھوڑدو۔۔بھیا لیکن بر جموہن نے اپنے پاؤں کو زور کا جھٹکا دیا تھا۔۔۔چل ہٹ رنڈی۔۔اور وہ چاروں خانے چت گری تھی۔ اس کی ساری کمر تک اٹھ گئی تھی،لیکن پھر اس نے فوراہی خود کو سنبھالا تھا اور ایک بار پھر بر جموہن سے لپٹ گئی تھی۔

بھیا۔۔۔یہ میری نانی کی نشانی ہے۔۔۔بھیا۔۔۔! اس بار یہ جموہن نے اس کی کمر پر زور کی لات ماری۔ نسیم جان زمین پر دو ہری ہوگئی۔ اس کے بلاؤز کے بٹن کھل گئے اور چھاتیاں جھولنے لگیں۔ برجموہن نے چھرا چمکایا۔۔کاٹ لوں گا۔۔نسیم جان سہم گئی اور دونوں ہاتھوں سے چھاتیوں کو ڈھکتی ہوئی کونے میں دبک گئی۔ برجموہن سنگھار دان لیے نیچے اتر گیا۔برجموہن جب سیٹرھیاں اتر رہا تھا تو یہ سوچ کر اس کو لذت ملی کہ سنگھار دان لوٹ کر اس نے نسیم جان کو گویا اس کے خاندانی اثاثہ سے محروم کر دیا ہے۔ یقینا یہ موروثی سنگھار دان تھا جس میں اس کی پر نانی اپنا عکس دیکھتی ہوگی۔ پھر اس کی نانی اور اس کی ماں بھی اسی سنگھار دان کے سامنے بن ٹھن کر گاہکوں سے آنکھیں لڑاتی ہوگی ۔ بر جموہن یہ سوچ کر خوش ہونے لگا کہ بھلے ہی نسیم جان اس سے اچھا سنگھاردان خرید لے لیکن یہ موروثی چیز تو اب اسے ملنے سے رہی۔۔۔تب ایک پل کے لیے برجموہن کو لگا کہ آگ زنی اور لوٹ مار میں ملوث دوسرے بلوائی بھی یقیناً احساس کی اس لذت سے گزر رہے ہوں گے کہ ایک فرقہ کو اس کی وراثت سے محروم کر دینے کی سازش میں وہ پیش پیش ہے۔ پر جموہن جب گھر پہنچا تو اس کی بیوی کو سنگھارو ان بھا گیا ۔ شیشہ اس کو دھند لا معلوم ہوا تو وہ بھیگے ہوئے کپڑے سے پوچھنے لگی۔ شیشے میں جگہ جگہ تیل کے گرد آلود دھے تھے ۔ صاف ہونے پر شیشه جھل مل کر اٹھا اور بر جموہن کی بیوی خوش ہوگئی۔ اس نے گھوم گھوم کراپنے کو آئینہ میں دیکھا۔ پھر لڑکیاں بھی باری باری سے اپنا عکس دیکھنے لگیں۔

پرجموہن نے بھی سنگھار دان میں جھانکا تو قدم آدم شوشے میں اس کو اپنا عکس مکمل اور دلفریب معلوم ہوا۔ اس کو لگا سنگھار دان میں واقعی ایک خاص بات ہے۔ اس کے جی میں آیا کچھ دیر اپنے آپ کو دیکھے لیکن ریکا یک نیم جان روتی بلکتی نظر آئی۔بھیا سنگھاردان چھوڑ دو میری پر نانی کی نشانی ہے بھیا چل ہٹ رنڈی۔برموہن نے سر کو غصہ میں دو تین جھٹکے دیے اور سامنے سے ہٹ گیا۔ پر جموہن نے سنگھار دان اپنے بیڈ روم میں رکھا۔ اب کوئی پرانے سنگھاردوان کو پوچھتا نہیں تھا۔ نیا سنگھار دان جیسے سب کا محبوب بن گیا تھا۔ گھر کا ہر فرد خواہ مخواہ ہی آئینے کے سامنے کھڑا رہتا۔ پر جموہن اکثر سوچتا کہ رنڈی کے سنگھار دان میں آخر کیا اسرار چھپا ہے کہ دیکھنے والا آئینہ سے چپک سا جاتا ہے۔ لڑکیاں جلدی بہنے کا نام نہیں لیتی ہیں اور بیوی بھی رہ رہ کر خود کو مختلف زاویوں سے گھورتی رہتی ہے۔

یہاں تک کہ خود وہ بھی لیکن اس کے لیے دیر تک آئینہ کا سامنا کرنا مشکل ہوتا۔ فوراہی نسیم جان رونے لگتی تھی اور بر جموہن کے دل و دماغ پر دھواں سا چھانے لگتا تھا۔ بر جموہن نے محسوس کیا کہ آہستہ آہستہ گھر میں سب کے رنگ ڈھنگ بدلنے لگے ہیں۔ بیوی اب کو لھے۔ ملکا کر چلتی تھی اور دانتوں میں مسی بھی لگاتی تھی۔ لڑکیاں پاؤں میں پانک باندھنے لگی تھیں اور نت نئے ڈھنگ سے بناؤ سنگھار میں لگی رہتی تھیں۔ ٹیکہ لپ اسٹک اور کاجل کے ساتھ وہ گالوں پر قتل بھی بناتیں۔ گھر میں ایک پاندان بھی آگیا تھا اور ہر شام پھول اور گجرے بھی آنے لگے تھے۔ پر جموہن کی بیوی سرشام پاندان لے کر بیٹھ جاتی، چھالیاں کثرتی اور سب کے سنگ فھلا کرتی۔ ہر جموہن تماشائی بنا سب کچھ دیکھتا رہتا۔ اس کو حیرت تھی کہ اس کی زبان گنگ کیوں ہوگئی ہے. وہ کچھ بولتا کیوں نہیں ؟ انھیں تنبیہ کیوں نہیں کرتا؟ایک دن بر جموہن اپنے کمرے میں موجود تھا کہ بڑی سنگھار دان کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی۔ کچھ دیر اس نے اپنے آپ کو دائیں بائیں دیکھا اور چولی کے بند ڈھیلے کرنے لگی۔ پھر بایاں بازو او پر اٹھایا اور دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے بغل کے بالوں کو چھو کر دیکھا۔ پھر سنگھارو ان کی دراز سے لوشن نکال کر بغل میں ملنے لگی۔ بر جموہن جیسے سکتے میں تھا۔

- Advertisement -

وہ چپ چاپ بیٹی کی نقل وحرکت دیکھ رہا تھا۔اتنے میں تجھلی بھی آگئی اور اس کے پیچھے پیچھے چھوٹی بھی۔ دیدی۔۔۔لوشن مجھے دو کیا کرے گی؟بروی اترائی۔دیدی یہ باتھ روم میں لگائے گی چھوٹی بولی۔چل ہٹ جھلی نے چھوٹی کے گالوں میں چنکی لی اور مینوں کی تینوں بہنے لگیں۔ بر جموہن کا دل کسی انجانے خوف سے دھڑ کنے لگا۔ ان لڑکیوں کے تو سنگھا رہی بدلنے لگے ہیں ۔ ان کو کمرے میں اپنے باپ کی موجودگی کا بھی خیال نہیں ہے۔ تب بر جموہن اپنی جگہ سے ہٹ کر اس طرح کھڑا ہوا کہ اس کا عکس سنگھار دان میں نظر آنے لگا لیکن لڑکیوں کے رویے میں کوئی فرق نہیں آیا۔بڑی اسی طرح لوشن ملنے میں منہمک رہی اور دونوں اس کے اغل بغل کھڑی دیدے مشکاتی رہیں۔ بر جموہن کو محسوس ہوا جیسے گھر میں اب اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ تب یکا یک نیم جان شیشے میں مسکرائی۔گھر میں اب میرا وجود ہے۔۔۔اور بر جموہن حیران رہ گیا۔ اس کو لگا واقعی نسیم جان شیشے میں بند ہو کر چلی آئی ہے اور ایک دن نکلے گی اور گھر کے چپہ چپہ میں پھیل جائے گی۔

برجموہن نے کمرے سے نکلنا چاہا لیکن اس کے پاؤں جیسے زمین میں گڑ گئے تھے، وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکا۔ وہ خاموش سنگھار دان کو تکتا رہا اور لڑکیاں ہنستی رہیں۔ دفعتا بر جمومن کو محسوس ہوا کہ اس طرح ٹھٹھا کرتی لڑکیوں کے درمیان کمرے میں اس وقت اس باپ نہیں ایک بر جموہن کو اب سنگھار دان سے خوف محسوس ہونے لگا اور نسیم جان اب شیشے میں ہنے لگی ۔ بڑی چوڑیاں کھنکھناتی تو وہ ہنستی چھوٹی پائل بجاتی تو وہ ہنستی اور بر جموہن کو اب آج بھی جب وہ بالکنی میں کھڑی ہنسی رہی تھیں تو وہ تماشائی بنا سب کچھ دیکھ رہا تھا اور اس کا دل کسی انجانے خوف سے دھڑک رہا تھا۔ بر جموہن نے محسوس کیا کہ راہ گیر بھی رک رک کر بالکنی کی طرف دیکھنے لگے ہیں۔ یکا یک پان کی دُکان کے قریب کھڑے نوجوان نے کچھ اشارہ کیا۔ جواب میں لڑکیوں نے بھی اشارے کیے تو نوجوان مسکرانے لگا۔ بر جموہن کے جی میں آیا کہ وہ نوجوان کا نام پوچھے۔

وہ دُکان کی طرف بڑھا لیکن نزدیک پہنچ کر خاموش رہا۔ دفعتا اس کو محسوس ہوا کہ وہ نو جوان میں اسی طرح دلچسپی لے رہا ہے جس طرح لڑکیاں لے رہی ہیں ۔ تب یہ سوچ کر اس کی حیرت ہوئی کہ وہ اس کا نام کیوں پوچھنا چاہتا ہے۔۔۔؟ آخر اس کے ارادے کیا ہیں؟ کیا وہ اس کولڑکیوں کے درمیان لے جائے گا؟ ہر جموہن کے ہونٹوں پر چھ بھر کے لیے ایک پر اسرار مسکراہٹ ، بینگ گئی۔ اس نے پان کا بیڑہ کلے میں میں دبایا اور جیب سے لکھی نکال کر دکان کے شیشے میں بال سو نٹنے لگا۔ اس طرح بالوں میں لکھی کرتے ہوئے اس کو یک گونہ راحت کا احساس ہوا۔ اس نے ایک بار کنکھیوں سے نوجوان کی طرف دیکھا۔ وہ ایک رکشہ والے سے آہستہ آہستہ باتیں کر رہا تھا اور بیچ بیچ میں بالکنی کی طرف بھی دیکھ رہا تھا۔

جیب میں لکھی رکھتے ہوئے ہر جموہن نے محسوس کیا کہ واقعی اس کی نو جوان میں کسی حد تک دلچسپی ضرور ہے۔ گویا خود اس کے سنسکار بھی . اونہ ۔ یہ سنسکار ونسکار سے کیا ہوتا ہے؟ یہ اس کا کیسا سنس کا رتھا کہ اس نے ایک رنڈی کو لوٹا ایک رنڈی کو کس طرح روتی تھی۔۔۔بھیا۔۔۔بھیا میرے اور پھر بر جموہن کے کانوں میں نسیم جان کے رونے بلکنے کی آواز میں گونجنے لگیں بر جموہن نے غصہ میں دو تین جھٹکے سر کو دیے۔۔۔۔ایک نظر بالکنی کی طرف دیکھا، پان کے پیسے ادا کیے اور سڑک پار کر کے گھر میں داخل ہوا۔اپنے کمرے میں آکر وہ سنگھار دان کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس کو اپنا رنگ روپ بدلا ہوا نظر آیا۔ چہرے پر جگہ جگہ جھائیاں پڑ گئی تھیں اور آنکھوں میں کاسنی رنگ گھلا ہوا تھا۔ ایک بار اس نے دھوتی کی گرہ کھول کر باندھی اور چہرے کی جھائیوں پر ہاتھ پھیر نے لگا۔ اس کے جی میں آیا کہ آنکھوں میں سرمہ لگائے اور گلے میں لال رومال باندھ لے۔ کچھ دیر تک وہ اپنے آپ کو اسی طرح گھورتا رہا پھر اس کی بیوی بھی آگئی۔ اس نے انگیا پر ہی ساڑی لپیٹ رکھی تھی۔ سنگھار دان کے سامنے وہ کھڑی ہوئی تو اس کا آنچل ڈھلک گیا۔

وہ بڑی ادا سے مسکرائی اور آنکھ کے اشارے سے بر جموہن کو انگیا کے بند لگانے کے لیے کہا۔برجموہن نے ایک بار شیشے کی طرف دیکھا۔ انگیا میں پھنسی ہوئی چھاتیوں کا عکس اس کو لبھاؤنا لگا۔ بند لگاتے ہوئے نا گہاں اس کے ہاتھ چھاتیوں کی طرف رینگ گئے۔ اوئی دیا۔ برجموہن کی بیوی بل کھا گئی اور برجموہن کی عجیب کیفیت ہوگئی۔ اس نے چھاتیوں کو زور سے دبا دیا۔ ہائے راجہ اس کی بیوی کسمسائی اور برجموہن کی رگوں میں خون کی گردش یکلخت تیز ہوگئی۔ اس نے جھٹکے میں انگلیاں نوچ کر پھینک دی اور اس کو پلنگ پر کھینچ لیا۔ وہ اس سے لپٹی ہوئی پلنگ پر گری اور ہنے لگی ۔ برجموہن نے ایک نظر شیشے کی طرف دیکھا۔ بیوی کے ننگے بدن کا عکس دیکھ کر اس کی رگوں میں شعلہ سا بھڑک اٹھا۔ اس نے یکا یک خود کو کپڑوں سے ایک دم بے نیاز کر دیا۔

تب بر جموہن کی بیوی اس کے کانوں میں آہستہ سے پھسپھسائی۔۔۔ہائےراجہ۔۔۔لوٹ لوبھرپور۔۔۔برجموہن نے اپنی بیوی کے منھ سے کبھی اوئی دیا اور ہائے راجہ جیسے الفاظ نہیں سنے تھے۔ اس کو لگا یہ الفاظ نہیں سارنگی کے سر ہیں جو نیم جان کے کوٹھے سے بلند ہورہے ہیں اور تب۔۔۔اور تب فضا کا سنی ہوگئی تھی۔۔۔شیشہ دھندلا گیا تھا۔۔۔اور سارنگی کے سر گونجنے لگے تھے۔۔۔بر جموہن بستر سے اٹھا۔ سنگھار دان کی دراز سے سرمہ دانی نکالی ،آنکھوں میں سرمہ لگایا، کلائی پر گجرا لپیٹا اور گلے میں لال رومال باندھ کر نیچے اتر گیا اور سیڑھیوں کے قریب دیوار سے لگ کر بیٹری کے لمبے لمبے کش لینے لگا۔

مصنف:شموئل احمد

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here