جوانی میں نظر کو تابع احکام ہونے دو
یہ اٹھ جائے جدھر اس سمت قتل عام ہونے دو
اداؤں کو شریک گردش ایام ہونے دو
جوانی میں کسی کی حشر کا ہنگام ہونے دو
نظر کے ساتھ ہو جائے گا قائم دور مے خانہ
ذرا گردش میں چشم ساقیٔ گلفام ہونے دو
نظر آ جائے گا دنیا کو برق و طور کا عالم
دم دیدار بے خود مجھ کو زیر بام ہونے دو
نہ ہم دل کو چھپائیں اور نہ تم پھیرو نگاہوں کو
ہم اپنا کام ہونے دیں تم اپنا کام ہونے دو
خدا معلوم لے جائے کہاں ذوق طلب مجھ کو
ابھی تو بے خودیٔ شوق کا انجام ہونے دو
کمی ہے مرنے والوں کی نہ قاتل کی زمانہ میں
کسی کی ہر ادا کہتی ہے قتل عام ہونے دو
خدا والو نہ روکو مجھ کو میرے ذوق عصیاں سے
مجھے روز قیامت مورد الزام ہونے دو
ابھی کچھ گردشیں باقی ہیں جام زیست کی افقرؔ
ابھی کچھ دیر شغل بادۂ گلفام ہونے دو
مأخذ : نظرگاہ
شاعر:افقر موہانی