انیسویں صدی کی آٹھویں د ہائی تک لوگوں کے ذہن میں ایک خیال گونجا کرتا تھا کہ ہمالیہ کے غاروں میں انسانی شکل سے ملتی جلتی،لحمن شحیم، قدآور، خوفناک اور خطرناک قسم ایک عجیب و غریب مخلوق کا وجود ہے مگر انسان کا یہ تصور وہم و گمان کی حد سے باہر نہ آسکا۔لیکن ۱۸۸۷ء میں پہلی بار دنیا اس خبر سے چونک پڑی جب ایک برطانوی کوہ پیما ٹیم کے سربراہ کرنل بولڈ نے۱۶۰۰۰ فٹ کی بلندی پرہکم میں برف پربڑے بڑےپنووں کے نشان دیکھئے وہ نشان ایسا لگتا تھا کہ کسی غیر معمولی قدوقامت والے آدمی کے پیروں کے ہیں۔ ان نشانات کاسلسلہ ایسی خطرناک، وحشت انگیز اور دشوار گزار برفیلی گھاٹیوں تک گیا تھا جہاں ایک اکیلاآدمی کسی طرح ننگے پاوں نہیں چل سکتاتھا۔اس سلسلے میں اگرہم ہندوستان کی قدیم کتابوں کی طرف نظر ڈالیں تواکثر مقامات پر ہم کو اس طرح کی شکل و صورت اور جسم رکھنے والی مخلوق کا ذکر ملے گا جنہیں ان کتابوں میں راکھثش کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔الف لیلتہ کی کہانیوں میں جن دیو ں کا حلیہ بیان کیا گیا ہے ۔ ان سے ہمالیائی رینج میں دیکھی جانے والی اس عجیب و غریب انسان نما مخلوق کی نسل کے ڈانڈے کچھ حد تک ملتے ہیں۔ایورسٹ دنیا کی سب سے اونچی ہمالیہ کی چوٹی کوسر کرنے کی غرض سے پہلی بار۱۹۲۱ء میں ایک ٹیم روانہ کی گئی۔ اس ٹیم کے لیڈررلفٹیننٹ کرنل ہاورڈ بیوری تھے۔ ایک دن وہ کافی بلندی پر چڑھ گئے اور پھر جب انہوں نے نشیب کی طرف دیکھا تونیچے برفیلی ڈھلان پر چلتا ہواننگا لمبے لمبے بالوں والا بالکل آدمی کی طرح وہ ذی روح دکھائی پڑا۔ ہمراہی شیر پاؤں نے بھی اسے دیکھا اور بتایا کہ اس کوہم لوگ ۔۔پتی۔۔ یعنی۔۔ ہم مانو۔۔ یا برفانی انسان کہتے ہیں۔ یہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔ یہ شیر پاوں اور بھڑ بکریوں کو اکیلا پاکر مار ڈالتا ہے اور کھا جاتا ہے۔۱۹۲۲کی بات ہے برٹش آرمی کے کچھ آفیسر کوہستان ہمالیہ پر۱۰ہزارفٹ کی اونچائی پر جارہے تھے۔ انہوں نے بھی اسی طرح کے کئی ہم مانو ں یعنی برفانی انسانوں کو دیکھا۔ یہ برفانی انسان اپنے پچھلے دونوں پیروں کے بل تیزرفتاری سے بھاگ رہے تھے۔ دوڑتے دوڑتے وہ یکایک ڈھلان کے گھنے اور تاریک جنگلوں میں غائب ہوگئے۔
اس واقعہ کے تین برس بعد ایک ہندوستانی سائنسدان اے ۔ این۔ طوباجی نے سکم میں ایک ایسے ہی ہم مانو ، کودیکھا – وہ آدمیون کی طرح چل رہا تھا۔ اور کبھی کبھی جھاڑیوں کو توڑنے کے لئے رک جاتا تھا۔ دوسری صبح انہوں نے اس کے بڑے بڑے پنجوں کے نشان بھی برف پردیکھے۔اسی طرح۱۹۲۵ میں ہی ایک یونانی ڈاکٹر نے سکم میں یتی کو دیکھا تھا سوئزرلینڈ میں پیدا ہونے والے ایک امریکی کوہ پیمانا رمن جی۔ ڈائرن پرتھ کو بھی یقین تھا کہ اس بات کے کافی ثبوت موجودہیں۔ جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ‘‘ہم مانو’’ہمالیہ کے غاروں میں رہتے ہیں۔دوسری جنگ عظیم کے سبب ہمالیہ پرچڑھنے والی ٹیموں کی تعدادمیں کافی کمی ہوگئی۔ اس لیے۔۔ہم مانو۔۔کے بارےمیں خبریں کم ملنے لگیں۔ لیکن۱۹۴۸ میں ناروے کے دوربا ہمت اور بہادر سائسے دان تھورورگ اور فارسٹ پور نییم کی کھوج میں سکم گئے۔پہاڑوں پرانہوں نے۔۔ ہم مانو۔۔ کے نشانات دیکھے ان نشانات کے سہارے وہ آگے بڑھ رہے تھے کہ یکایک انہوں نے دوبہت ہی بھیانک اور ڈراونی شکلیں اپنے قریب کھڑی ہوئی دیکھیں۔ وہ دونوں خوفناک صورتیں۔۔ہم مانو۔۔ تھیں۔ ان بہادر سائنسدانوں نے ایک کوپکڑنا چاہا۔ مگر اچانک اس نے فارسٹ پر حملہ کر دیا اور اس کے شانوں کو نوچ کھسوٹ کر لہولہان کر دیا۔ یہ دیکھ کرتھوروگ نے ان پر گولی چلادی پستول کی گولی انہیں لگ نہ سکی ۔ نشانہ چوک گیا لیکن انہوں نے دوبارہ حملہ کرنےکی جسارت نہیں کی۔ پستول کی آواز سے گھبرا کے بھاگ کھڑے ہوئے ۱۹۵۱تک ‘‘ہم مانو’’ کے وجود کے بارے میں ثبوت صرف ان بہادروں کے بیانات ہی تھے جنہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ان کو دیکھنے کی کوشش کی تھی لیکن یہ ثبوت اتنے ٹھوس اورمدلل نہیں تھے کہ انہیں انسانی عقل آسانی سے قبول کر لیتی۔ مگر اسی سال ایک برطانوی بہادر نے جس کا نام پارک شٹن ہے‘‘ ہم مانو’’کی کچھ تصویریں بھی فراہم کیں۔پاک شپٹن ایک دن پہاڑوں پر گھوم رہے تھے کہ انہیں بڑے بڑے پنجوں کے نشان دکھائے پڑے۔ ہرپنجے کانشان الگ الگ اور صاف صاف نظر آرہا تھا۔ یہ پنجے دوپیروں سےچلنے والی کسی مخلوق کے معلوم ہورہے تھے۔برف کی نرم سطح کے اوپربنے ہوئے ان نشانوں کی تصویر انہوں نے کھینچ لی۔ ان تصویروں سے یہ بات قریب قریب بالکل طے ہوگئی کہ یہ۔۔ ہم مانو۔۔، چوپایہ جانور نہیں ہے لیکن وہ ایک عام آدمی کی طرح بھی نہیں ہے۔ وہ آدمی سے کہیں زیادہ طاقتور دوپیروں والا جانور ہے۔ مہاتما گاندھی کی عقید تمند ایک انگریز خاتون میری نے بھی۔۔ہم مانو۔۔ کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کی تھی ۵۲۔۱۹۵۱میں جب ۔۔ہم مانو۔۔ کے بارے میں مباحثہ زور شور سے چل رہا تھا اس وقت لوگوں نے میری کے خیالات جاننا چا ہے کیونکہ وہ بھی گڑھوال میں عرصہ تک مقیم رہ چکی تھیں۔
میری نے بتایا کہ ایورسٹ کے شمال مغربی حصے ہیں..۵ میل کے علاقے میں۔۔ہم مانو۔۔دیکھےگئے ہیں۔گڑھوال کے لوگوں نے بھی ۴۰۰۰ سے۷۰۰۰ فٹ کی بلندی پر ۔۔ہم مانو۔۔کو دیکھا تھا۔ساتھ ہی انہوں نے یہ اپیل بھی کی تھی کہ پہاڑوں پر رہنے والے ان اجنبی ذی روحوں کو مارانہ جائے۔ہم مانوکی تلاش جاری رہی۔ فاتح ایورسٹ۔ سرایڈ منڈ ہیلیری اور تان سنگھ نور کے نےبھی۔۔ ہم مانو۔۔ کے پنجوں کے نشانات دیکھے مگر ان کا سامناکسی سے نہیں ہوا۔حقیقت کچھ بھی ہو مگر۔۔ہم مانو۔۔کے بارے میں ابھی تک کسی بھی طرح کے ایسے ٹھوس اور قابل یقین ثبوت فراہم نہیں ہو سکے ہیں جن کی بناپر پورے وثوق کے ساتھ یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ہمالیہ پر۔۔ہم مانو۔۔کا وجود ہے۔لوگوں کا کہنا ہے کہ پہاڑوں کی بلندی پراڑتے ہوئے بادلوں کے سائے کوبھی غلط فہی کی بناپر اکثر۔۔ہم مانو۔۔ تصور کرلیا جاتاہے ۔بہرحال یہ گتھی اسی وقت سلجھ سکتی ہے۔جب یاتو کسی ۔۔ہم مانو۔۔کو زندہ پکڑ لیا جائے یاسائنسداں ان کے عدم کےوجودکا متفقہ طور پر اعلان کر دیں۔