موت کے فرشتوں کا گھر

0
366
urud-story
- Advertisement -

سرزمین عرب پر صحرائے بیجان میں الولدمی کا مقبرہ موت کے فرشتوں کا گھر کہلاتا تھا۔یہ مقبرہ ایک خوشنار نخلستان میں واقع تھا۔عربوں کا خیال تھاکہ یہاں موت کے فرشتے رہتے جو بھی اس مقبرے کے قریب جاتا موت کا شکار ہوجاتا۔لیکن دراصل اس مقبرہ کے اندر عربوں کی قدیم تاریخ سے متعلق کچھ قیمتی اور نایاب دستاویزات دفن تھیں۔ دنیاس صرف شخص اس راز سے واقف تھا۔یہ۳ مارچ کا واقعہ ہے۔میں نے اپنے ہیلی کو پڑسے نیچے اترکر جب جنوبی عرب کے اس ریگ زار پرقدم رکھا تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں ایک بھٹی میں کود پڑا ہوں ، میں جب خوشحالی کی دیوی الولدی کے مقبرہ کی صرف بڑھا تو اس ملاقات کے لیے پندرہ منٹ لیٹ ہورہا تھا۔جس کے لئے مجھے ہزاروں میل کا سفر طے کرنا پڑا تھا۔ میں نے اپنے چاروں طرف انوشکان کی جیپ کوتلاش کیا مگر جیپ کہیں موجود نہ تھی۔ مقبرہ کے علاوہ چاروں طرف ریتاے ن ہی ریتاے ن تھا۔ اگرچہ یہاں سے شہر نقوب صرف دس میل کے فاصلے پر تھا مگر مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے میں ہی واحد شخص ہوں جو اس سر زمین پر باقی رہ گیا ہوں ۔ بیارن کے سورج کی تیز گرمی اور دھوپ نے مجھے بے دم بنا دیا تھا۔ دھوپ گرمی اور ریت کی تمازت سے بچنے کے لیے میں نے مناسب خیال کیا کہ میں انورشکان کا انتظار مقبرہ کے اندر ہی کروں ۔ یہ میری پہلی عظیم غلطی تھی جو اس زمین پر قیام کے دوران واقع ہوئی۔مقبرہ میں داخل کا دروازہ کچھ شکستہ تھا۔ مجھے ہتھیلوں اور گھٹنوں کے بل گھسیٹ کر مقبرہ کے اندر جانا پڑا۔ میرے ہاتھ میں ٹارچ تھی۔ میں اپنا راستہ بناتا ہوا آگے بڑھا۔ سب سے پہلے ایک کمرہ تھا جس کی دیواروں پر قدیم مصری رسم الخط میں کچھ لکھا ہوا تھا یہاں بھی ہوا گرم تھی میں نے سوچا کچھ اندر جا کر شاید خنکی ہو ۔ میں آگے بڑھا۔ اور ایک تنگ سے برآمدہ سے گذرا جس کی چتر بھی کافی نیچی تھی اور جہاں جگہ جگہ مکڑیوں نے جالے تن رکھے تھے۔ اس گیلری یا برآمدہ سے آگے الولدی کا اصل مقررہ تھا۔ اسی مقام سے کوئی پانچ ہزار برس پہلے الولدی اچانک غائب ہوگئی تھی۔مقبرہ کا تابوت کھلا ہوا اور خالی تھا۔ قدیم لوگوں کا عقددہ تھاکہ الولدی دیوی پھر اس مقبرہ میں واپس لوٹے گی ۔ اس لئے اس کے تابوت کو کھلا ہوا چھوڑ دیا گیا تھا۔ میں اس تابوت کو قریب سے دیکھنے کے لئے آگے بڑھا۔ خوف اور حیرانی نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا جب میں نے دیکھاکہ انورشکان کا اکڑا ہوا جسم تابوت کے اندر پڑا تھا۔ اس کی گردن کٹی ہوتھی۔ یہ بڑا بھیانک منظر تھا۔ اسے مرے ہوئے ایک گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوا تھا۔ اچانک پیچھے سے کوئی چخیا۔ موت موت میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ چارسفداکفن پوش سائے چاروں کو نوں سے مجھ پر حملہ آور تھے۔ ان کے ہاتھوں میں چاقو نائ بھالے تھے جن کی لمبا دو فٹ سے زیادہ نہیں تھی۔ میں نے اپنا ریوالور نکال لیا جو میری پیٹی میں لگا ہوا تھا میرے ریوالور میں صرف چھ گولیاں تھیں۔ میرا پہلا فائرنشانہ پر بیٹھا۔ گولی عرب کے ناک سے ہوتی ہوئی سر سے نکل گئی۔ وہ یہ منظر دکھ کر کچھ خوفزدہ سے ہوگئے۔ میری دوسری گولی ایک دوسرے کے سر میں پیوست ہوگئی۔ اسی لمحہ ایک عرب نے اپنا چاقو میری طرف گھماکر پھینکا جو میرے داہنی طرف پیٹ میں پیوست ہو گیا۔ ریوالور چھٹ کر زمین پر جا پڑا۔ دونوں عرب تیزی سے میری طرت بڑھے۔ دوسرے عرب نے جس کے ہاتھ میں چاقو تھا میری گردن پر وار کیا۔میں فورا ایک طرف ہٹ گیا اور اس کا وار خالی گیا۔ میں نے اس کی کلائی موڑ کر اس کی پشت پر لگا دی۔ دوسرا شخص میرے پتوںں کی طرف بڑھا۔ میں نے دوڑ کر پتوال پر پاؤں رکھ دیا اور پہلے عرب سے نبرد آزما ہونے لگا۔ میں نے کسی طرح دونوں کو زخمی کر دیا اور وہ زمین پر گر گئے ۔ دوڑ کر میں نے پستول اٹھایا ۔مگر جوں ہی میں بھاگنے کے لیے تیار ہوا ایک عرب اٹھ کر میرے پیچھے دوڑا۔یہ عرب صرف قتل کرنے کے عادی تھے۔ مارنا یا خود مرجانا ان کی زندگی کا مشن تھا۔ وہ دونوں پھر میرے اوپر جھپٹ پڑے ۔ میں نے پھر گولی چلائی دونوں گولی کا نشانہ ہو گئے۔ مگر ان میں ایک گولی لگنے کے باوجود میری طرت بڑھنے کی کوشش کررہا تھا۔اس کے ہاتھ میں چاقو تھا اور آنکھیں شعلہ بار تھیں جیسے وہ برں صورت مجھ سے انتقام لینا چاہتا ہو۔میں اس کے حوصلہ اور جرات کی دل ہی دل میں تعریف کررہا تھا لیکن میں جانتا تھا کہ اب وہ کچھ نہیں کر سکتا، اس لیے میں بڑی دلی چسپی سے ان کو دم توڑ ہوئے دیکھ رہا تھا۔میں اس حادشہ میں صرف ایک ہوا باز ہونے کی وجہ سے طوث ہوا تھا۔ کوریا کی جنگ کے بعد میں ہوائی سروس سے سبکدوش ہوگیا اور نئی ملازمت کی تلاش میں تھا۔ مگر مجھے کوئی بھی کمپنی نوکر رکھنے کے لئے تیار نہ تھی ۔ آخر کار مجبور ہوکر میں نے ہوا بازوں کی تربیت کا اسکول کھولا۔ مگر یہ اسکول بھی چل نہیں پایا۔میں اس پیشے کو چھوڑ دینے کی تیاری کر رہا تھا کہ ایک دن مسٹر فریڈ تھورن ٹن کا ایک خط مجھے ملا۔ انہوں نے مجھے طلب کیا تھا۔مسٹر تھورن ٹن ایک سنجیدہ عالم تھے۔ ان کا خاص موضوع آثار قدیہخ اور عمرانیات کے مضامین تھے۔ وہ خاص طور پر مشرق وسطی کے علاقوں میں دلچسپی لے رہے تھے۔ انہوں نے میرے بارے میں سنا تھا کہ میں گلائیڈر چلانے میں ماہر ہوں اس لئے ایک پیش کش کے لئے بلایا تھا۔ وہ مجھے ایک مشن پر بھیجنا چاہتے تھے۔ ان کے کمرہ کی دیواروں پر چاروں طرف عرب قبائلیوں کی تصویریں اور عرب سرزمین کے نقشے ٹنگے ہوئے تھے۔ جب ہیں کمرہ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ ان کے سامنے کی میز پر بہت سی انسانی کھویڑیاں اور ہڈیاں رکھی ہوئی ہیں ۔ تھورن ٹن ایک انتہائی بھدا اور کریہہ المنظر شخص تھا اس نے بڑی گرمجوشی سے میرا خیرمقدم کیا۔ر سیی گفتگو کے بعد اس نے مجھے اپنے مشن کے بارے میں بتانا شروع کیا۔جنوبی عرب آزاد مملکتوں پرمشتمل ہے۔ یہ پوراکبھی برطانیہ کے قبضہ میں تھا۔ ان ریاستوں میں ایک چھوٹی سی ریاست بیاین ہے۔ ایک مقامی بیاھنی انور شکان نے بیاہن کے ایک مقبرہ میں کچھ تاریخی دستاویزات کا پتہ چلایا ہے۔ان دستاویزات میں جنوبی عرب کی تین ہزار سال قبل ازمسیح کی تاریخ محفوظ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تیں ہزار برس قبل ازمسیح اس علاقہ میں ایک اعلی پیمانہ کی تہذیب تھی۔ یہ دریافت اس صدی کی سب سے زیادہ حیرتناک دریافت ہوگی ۔ دشواری یہ ہے کہ بیان مین کی سرحد پر واقع ہے ۔ اور مصر کے کلام کی نہیں یہاں تعینات ہیں۔ اس کے علاوہ چونکہ یہ کاغذات ایک ہی خانقاہ میں مدفون ہیں اس لئے بیان کے امیراس مقبرہ کو کھولنے کی اجازت نہیں دیں گے میں نے انوشکان کی مدد سے ان کاغذات کو چوری سے حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور اس سلسل میں آپ کی مدد کی ضرورت ہے آپ گلائیڈر کے ذریہک بیاےن جائیں گے اور یہ کاغذات چرانے میں انورشکان کی مدد کریں گے۔ اور اس کے عویض آپ کو پچاس ہزار ڈالر ملیں گے ۔میں نے یہ پیشکش قبول کر لی ۔ اور اگلے چند ہفتے تھورن ٹن سے اس آثار قدیمہ کے بارے میں اور یہاں تک پہونچنے کے سلسہ میں گفتگو کرتا رہا ۔ اس مشن میں انوشکان میرا ساتھی بنے گا۔آخر میں اس مہم پر روانہ ہوا۔ میں پہلے لندن گیا وہاں سے جدہ پہونچا ۔ سعودی عریبہ کا ایک طیارہ مجھے غزان لے گیا جہاں سے مجھے 3 مارچ کی صبح کو بیاین جانا تھا۔ معاون ہوا باز کی حیثیت سے ایک عرب عبدالرحمن کی خدمات بھی حاصل کی گئی تھیں۔ وہ ایک خوددار اور انتہائی کامیاب ہوا باز تھا۔ اس نے پورے راستے مجھ سے ذرا بھی گفتگو نہیں کی کیونکہ وہ امریکینوں سے نفرت کرتا تھا۔ بہرحال میں نے اس پر پورا بھروسہ کیا اور اپنے کو اس کے سپرد کر دیا تھا۔عبدالرحمن کا جہاز میرے جہاز سے آگے اڑرہا تھا۔ بیاےن تک یہ ہوائی سفربھی انتہائی صبرآزما تھا۔چاروں سدیے پوش عربوں کو قتل کرنے کے بعد جب ہیں باہر آیا تو عبدالرحمن میرا انتظار کر رہا تھا۔ فوراً ہی میرے زخم پر مرہم پٹی کی گئی ۔ میں نیم بہوےشی کی حالت میں تھا۔ جب میری حالت کچھ درست ہوئی تو عبدالرحمن نے مجھے الولدی مزار کی کہانی سنائی یہ الولدی دیوی کا مقبرہ ہے جو آج کل ڈاکوؤں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے کچھ قدیم عرب یقین رکھتے ہیں کہ اس مقبرہ میں موت کے فرشتوں نے بودو باش اختیار کر لی ہے ۔ آپے جب ڈاکوؤں کوگولی کا نشانہ بنایا ہے دہی موت کے فرشتے تھے ۔ الولدی کام مطلب ہے ماں ۔ الولدی درحقیقت ایک خاتون تھی جو پانچ ہزار برس قبل بیاتن میں رہتی تھی۔ اس کا اصل نام کوئی نہیں جانتا۔ وہ اس نام سے اس لئے مشہور ہوگئی کہ اس نے بیس بیٹوں کو جنم دیا تھا۔ اس کے زمانہ میں یہ ریگستان سرسبز شاداب علاقہ تھا۔ اب جہاں ریت ہی ریت ہے وہاں بھی اناج کی فصلیں ہوتی تھیں۔ لوگ خوشحال تھے اور چاروں طرف امن و امان تھا۔ الولدی پیدوار اور خوش حالی کی علامت بن گئی تھی۔ لوگ یقین کرنے لگے کہ الولدی کوئی دیوی ہے۔ اس کی موت کے بعد لوگوں نے اس کو اس تابوت میں رکھ دیا جہاں اس کا مزار ہے۔ ایک سال کے اندر اس کی لاش کہیں غائب ہوگئی کسی نے بظاہر اس کو چرالیا۔ کچھ تو ہم پرست عرب یہ یقین رکھتے ہیں کہ الولدی ان سے ناراض ہوگئی اور چلی گئی ۔ اور جوں جوں سال گزرتے گئے ۔ یہ زمین نجبر ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ یہ ایک ریگستان بن گیا۔ عربوں میں یہ عقیدہ پلول گیا کہ الولدی پھر آئے گی اور اسی کے ساتھ اس ملک کی خوش حالی بھی لوٹ آئے گی ۔ اب اگرچہ یہ مسلم ملک ہے اور زیادہ تر لوگ اس عقیدہ کے نہیں ہیں مگر پھر بھی چند عرب پرانے عقیدہ میں یقین رکھتے ہیں۔یہ کہانی سنا کر عبدالرحمن کچھ سامان لینے آبادی کی طرف چلاگیا۔ اس کے بعد میں مقبرہ کے اندر گیا اور ان چاروں لاشوں کو باہر نکال کر لایا اور انہیں ریت میں زفنا دیا۔ اب میں ان دستا ویزات کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔ میں مقبرہ کے اندر گیا۔ ایک دستاویز انوشکان کی لاش کے قریب پڑی تھی۔ اسی کو حاصل کرنے میں اس کی جان گئی تھی ۔ ابھی تین دستاویزات اور باقی تھیں۔ اور یہ تینوں کا غذات الگ الگ کونوں میں چھےو ہوئے تھے۔مقبرہ کی گرمی ناقابل برداشت تھی ۔ میں اپنے جہاز سے کھودلنے کا سامان اٹھا لایا ۔ لاشوں کے تعنس سے میرا دماغ پھٹا جارہا تھا عجیب و غریب آوازیں آرہی تھیں۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا گویا موت کے فرشتے چیچ رہے ہیں۔ ایک بارتو اس واہمہ نے اس قدر حقیقت کا روپ اختیار کرلیا کہ میں نے اپنے ریوالور سے ایک گولی بھی چلا دی ۔ کافی کھدائی کرنے کے بعد دوسری دستاویز بھی مل گئی۔ اکھیا دو دستاویز بھی مل گئی۔ابھی دو دستاویزیں اور باقی تھیں شام ہو چکی تھی اس لئے میں نے باقی کام کل کے لئے ملتوی اگلے دن میں کھدائی میں لگ گیا ۔ ہم پورے دن کھدائی کا کام کرتے رہے ۔ ہمارے کپڑے پسینہ میں تر ہو گئے۔ تکان کی وجہ سے میرا جسم چور چور ہورہا تھا ۔ آخر مجھے تیسرا کاغذ کابھی مل گیا ۔ ابھی سورج غروب ہونے میں کچھ دیرتھی کہ چوتھے کاغذ کا بھی پتہ چل گیا۔ یہ کام ختم کرکے میں مقبرہ سے باہر نکلا۔ تاریخی دستاویزات کو جہاز کے اندر رکھا ۔ اور واپس مقبرہ میں اپنے ہتھیار لینے کے لئے گیا ۔ مگر جوں ہی میں واپس لوٹنے کے لئے تیار ہوا ، میں نے دیکھا کہ تقریبا بیس موت کے فرشتے راستہ روکے کھڑے تھے۔ میں نے اپنی بیٹی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔مگر اس مرتبہ میں اپنا ریوالور بھی جہاز میں بھول آیا تھا۔ چاروں طرف سے وہ عرب جھپٹ پڑے۔ انھوں نے میرے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے۔ اس مرتبہ میرے زندہ بچنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ وہ مجھے کھنیچتے ہوئے باہر لے آئے ۔ ایک ایک کر کے میرے کپڑے اتار دیئے گئے اور مجھے پپتی ہوئی ریت پر کچھ دور تک کھینچا گیا ۔ اس کے بعد میری ٹانگوں اور ہاتھوں کو اس طرح کھینچا گیا کہ جیسے وہ میرےجسم سے علیدئہ ہو جائیں گے ۔ میں مکمل طور پر جکڑا ہوا تھا۔ مجھے گرم ریت پر پڑا رہنے دیا گیا۔ اب موت کے فرشتے میرے چاروں طرف رقص کر رہے تھے۔ وہ کچھ گابھی رہے تھے میری سمجھ میں کچھ الفاظ آئے۔موت الولدی ۔ قربانی وہ مجھے الولدی پر قربان کرنا چاہتے تھے ۔ میں اپنی موت کا انتظارکررہا تھا۔ ہرلمحہ میں یہ سوچ رہا تھاکہ اب انھوں نے میرے سینہ میں خنجرگھوتپ کر مجھے ہلاک کیا۔ لیکن اچانک ہی میں نے دیکھا کہ وہ سب عرب الولدی کے مقبرہ میں جارہے تھے ۔ اندر جاکر انھوں نے الولدی سے دعائیں مانگنی شروع کیں۔ وہ کہہ رہے تھے۔الولدی ۔ الولدی ۔ ہانرا تحفہ قبول کرلے ۔ ہماری قربانی قبول کرلے۔ اور میں ان کی قربانی کا بکرا تھا۔ اچانک اسی لمحہ عبدالرحمن مجھے آتا ہوا دکھائی دیا۔ اسے دیکھ کر میں فورا چلایا۔ وہ میری طرف دوڑتا ہوا آیا۔ اور اس نے فورا اپنی جیب سے چاقو نکال کر میری رسیاں کاٹ دیں ۔ اس طرح مجھے دوبارہ زندگی ملی۔ عبدالرحمن اورمیں تیزی سے جہاز میں سوار ہوئے۔اور آسمان کی بلندیوں میں پرواز کرنے لگے۔موت کے فرشتے نیچے سے ہمیں اڑتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔

مصنف :سام کیسل

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here