فولادی چڑیاں

0
324
urud-story
- Advertisement -

تقریبا نصف صدی کی بات ہے امریکہ میں ایک ڈھلوان پر دو بھائی اپنے کینوس کے بنائے گلائیڈر کے ذریعے فضا کو تسخیر کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ کون جانتا تھاکہ ان کے یہ خواب بہت جلد ایک زندہ جاوید اورجیتی جاگتی حقیقت کے روپ میں ہمارے سامنے آجائیں گے ۔ یہ بھائی تھے رائٹ برادرس ہوائی جہاز کے جنم داتا ۔ مجھے اپنے اس مختصر سے مضمون میں ہوائی اڑان کی مصفل تاریخ نہیں پیش کرنی ہے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں نئے نئے تجر بے ہوئے اور ضرورتوں کے مطابق طرح طرح کے ہوائی جہاز بنائے گئے۔ لیکن پچھلے دس پندرہ برسوں میں تو انسان واقعی فضا پر پورا پورا قابو پا چکا ہے ۔ اور اب بہت جلد چاند پر اترکر اس کو آباد کرنے والا ہے۔ امریکہ اور جاپان میں تو لوگ چاند میں فلیٹ بنانے کے لئے ادھر ادھر زمنییں خرید رہے ہیں تاکہ بعد میں انہیں مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اور یہ بات کو آج دیوانے کی بڑ معلوم ہوتی ہے لیکن آنے والے دس سال یقینا انسان کوچاند پر نہ صرت اتار دیں گے بلکہ وہ وہاں رہ بھی سکے گا، خیر یہ تو تھیں راکٹوں کی باتیں لیکن ہماری عام زندگی میں دنیا کا ہوائی سفر کرنے کے لئے جو کوششیں جاری ہیں ان کے نتیجے کے طور پر طرح طرح کے تیز پرواز کرنے والے جہاز ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ دور جدید میں سائینس کی حیرت انگیز ترقی سے کل کے فسانے آج زنده جادیدحقیقتوں میں بدلتے جارہے ہیں ۔ دنیا کے وہ طویل سفر جو زمانہ قدیم میں سیاح سالہا سال میں طے کرتے تھے اب صرف چندگھنٹوں میں طے کےی جا سکےن ہیں۔ جدید ہوائی جہازوں کی رفتار آواز کی رفتار کو کہیں پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ آج چندطیارے تو دو ہزار میل فی گھنٹہ سے اڑ سکتے ہیں۔ مگر ان طیاروں کا استعمال فی الحال فوجی اورتجرباتی مقاصد کے لئے کیا جاتا ہے۔ مثلا امریکہ کا ایسن۔ بی۔ ، جہاز دو ہزار میل کی رفتار سے پرواز کرتا ہے ۔ وائی۔ ای -۱۲- اے قسم کے جہاز کی رفتار دو ہزارمیل سے بھی زیادہ ہے۔اس قسم کے طیارے دنیا کے باقی دیگر طیاروں کی رفتار کا ریکارڈ توڑ چکے ہیں۔ بہرحال یہ طیارے بھی عوام کے سامنے نہیں لائے گئے ہیں۔عوام کے سامنے سونک۔سپرسونک طیارے استعمال میں آرہے ہیں اورمستقبل قریب میں ہائپرسونک مال بردار طیاروں کا استعمال بھی ہونے لگے گا ۔ میرے سامنے اس وقت یہی تین قسم کے ٹرانسپورٹ طیارے زیر بحث ہیں جو آواز کی رفتار کے برابر ہی چلےپ ہیں۔ سپرسونک کی رفتار ایک ہزار سے دو ہزار میل فی گھہرب تک ہوتی ہے ۔ اور ہائپرسونک مستقبل قریب میں منظر عام پر آنے والے ہیں ۔ ان کی رفتار سب سے زیادہ یعنی ۴ ہزا میل سے ۹ ہزار میل فی گہنے ہوگی۔ آج سے کچھ دن پہلے تک ایک مسافر کو لندن سے نیو پارک کے ہوائی سفر میں عام طور پر ۱۲ سے ۱۵ گھنٹہ تک لگتے تھے لیکن جیٹ طیاروں کی مدد سے یہ فاصلہ چھ گھنٹوں کا رہ گیا۔ اور ایںر۔ ایسں ۔ آئی قسم کے طیارے چلنے پر یہ فاصلہ صرف ۳ گھنٹوں کا رہ جائے گا۔ اس تیز رفتاری سے گویا وقت تیر جائے گا۔ اور گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں والی مثال غلط ثابت ہو کر رہ جائے گی مثال کے طور پر صبح ۸ بجے آپ لندن سے ناشتہ کر کے روانہ ہوئے تو اسی دن صبح ۶ بجے آپ نیو پارک پہنچ گئے۔یا پھر آپ لندن میں طلوع سحر کا منظر دیکھ کر روانہ ہوں اور وہی منظر نیو یارک پہنچ کر بھی دوبارہ دیکھ لیں اس طرح آپ گئے وقت کو پکڑ سکیں گے ۔ پورے کرہ عرض کو طول البلد میں تقسیم کیا گیا ہے۔زمین مغرب سے مشرق کی طرف گھومتی ہے۔اگر آپ مشرق سےمغرب کی طرف سفر کریں تو ہر طول البلد طے کرنے میں چار منٹ کا عرصہ لگتا ہے۔اس طرح وقت پیچھے ہٹتا چلا جاتا ہے۔لندن اور نیو یارک کے بیچ لگ بھگ ستر طول البلد کا فاصلہ ہے۔یعنی۴ منٹ کے حساب سے وقت ۴ گھنٹے ۴۸ منٹ پیچھے رہتا ہے ۔ لندن سے جب آپ ۹ بجے صبح روانہ ہوئے تو ۳گھنٹہ سفر میں خرچ ہوئے۔ اور باقی ایک گھنٹہ ۴۸ منٹ اورگھٹا دیجے اس لئے وہاں صبح کے قریب سوا چھے بجے آپ پہنچے۔اورطلوع سحرکا تماشہ پھر سے دیکھا۔دنیا کی چار بڑی طاقتیں اس وقت ان طیاروں کے مختلف ماڈل ڈیزائن اور اقسام بنانے میں مصروف ہیں۔اور ایک دوسرے سے بہتر کے ماڈل پیش کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ فرانس کی مشہور جہاز راں کمپنی لسڈایویان اور برطانیہ کی ایر کرافٹ کارپوریشن ایک نئی قسم کے طیارے کن کارڈ پر کام کررہی ہیں ۔ یہ طیارہ اس سال سے اڑان کرنے لگے گا اور اس کی رفتار ۴۵۰ میل فی گھنٹہ ہوگی یعنی آواز کی رفتار سے بھی دونی۔ اور یہ ۱۳۶ مسافروں کو لے کر ۲۶۰۰۰ کی بلندی پر پرواز کر سکے گا۔ اس طیارے کی لمبانى ۱۹۱ فٹ ایک انچ۔ پروں کا پھیلا ۸۳ فٹ اور اونچائی ۳۶ فٹ ہوگی ۔ یہ طیارے چونکہ دوسرے طیاروں سے پہلے ہی تیار ہوجائیں گے اس لئے امریکہ نے ۱۴ ملین ڈالر کے ایسے ۴۴ طیاروں کا پیشگی آرڈر بک کرا دیا ہے۔ اس لئے کہ خود امریکہ میں اس قسم کے طیارے تیار ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔روس بھی ایک اسی قسم کے طیارہ ٹی۔یو ۱۴۴ بنانے میں بیدگمصروف ہے۔ تیار ہوجانے پر اس کی رفتار ۱۵۵۰ میل فی گھنٹہ ہوگی اس میں ۱۲۱ مسافر سفر کر سلیں گے اور رینج ۴ ہزار میل ہوگی۔

امریکہ اپنی جدید ترین فنی صلاحیتوں کی بناپر اسی قسم کے دو اور طیاروں پر کام کر رہا ہے مشہور امریکی فرم لاک ہیڈ ایسے ہی طیارے پر کام کررہی ہے۔ اس کی رفتار ۱۸۰۰ میل فی گھنٹہ ہوگی اور ۲۶۶ مسافر اس میں سفر کر سکیں گے ۔ رینج ۴ ہزار میل سے بھی زیادہ ہوگی ۔ لمبائی ۲۷۳ فٹ اور پروں کا پھیلاو ۱۱۶ فٹ ہوگا۔ یہ ستر ہزار فٹ کی اونچائی پر پرواز کیا کرے گا۔ دوسری مشہور فرم بوئنگ کی ہے جس کے نام سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ یہ بھی ایک اسی قسم کے طیارے پر کام کر رہی ہے جس کا نام بوانگ۔ایس۔ٹی۔۷۳۳ رکھا گیا ہے ۔ اس کی رفتار ۱۸۰۰ میل فی گھنٹہ ہو گی ۔ مسافروں کی گنجائش ۲۵۰ سے ۳۵۰ (یعنی سب سے زیادہ) اور رینج چار ہزارمیل کے لگ بھگ ہو گی ۔ اسی طرح یہ خاصہ طویل بھی ہوگا یعنی ۳۰۶ فٹ لمبا۔ ۴۸۰ فٹ اونچا ہوگا ۔ پروں کا پھیلاؤ ۱۷۴ فٹ ہوگا۔ گویا یہ فولاد سے بنی سب سے بڑی چڑیا ہوگی جو ۶۴ ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر سکے گی ۔ ان طیاروں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہو گی کہ اس کے پروں کوتہ کیا جا سکے گا۔ لیکن یہ خصوصیت صرف بوانگ ۷۳۳ میں ہی ہو گی جس کے پرد کو رفتار اور اونچائی کی مناسبت سے کھولا اور بند کیا جاسکے گا۔لمبائی گھٹائی بڑھائی جا سکے گی۔پروں کے بند کرنے اور کھولنے کے اس اصول کو امریکہ کے ایک لڑاکا طیارے ایف۔۱۱۱۔اے میں بھی استماےل کیا جاتا ہے ۔ تجربات کی بنا پر یہ طیارہ بہترین ثابت ہوا ہے ۔ موقعہ اور حالات کی مناسبت سے اس کی رفتارا در حسامت گھٹائی بڑھائی جا سکتی ہے۔یہاں ایک اور فولادی دیوکا ذکر کرنا دل چسپی سے خالی نہ ہو گا جس کا نام بوانگ ۱۳۳ ہے اور جس کے لینڈنگ گیرلمیں بارہ پہیچے ہوتے ہیں جن کی مدد سے یہ چھوٹے رن ویز سے بھی اڑن کر سکے گا جب کہ اس جسامت کے دوسرے طیاروں کو خاصے لمبے رن ویز کی ضرورت ہے۔اور جن کے تیار کرنے کے لئے گنجان آباد ممالک میں بڑی مشکلات پیش آتی ہیں ۔ اس بوانگ کے ڈیزائن کا انتخاب پانچسو ڈیزائنوں میں سے کافی سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے اور وقتی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے بہترین طیارہ قرار دیا گیاہے۔ ان حیرت انگیز تیز رفتار طیاروں کے بنانے میں سیکڑوں مشکلات پیش آتی رہیہ ہیں ۔مثلا تیز رفتار طیاروں کی اڑان سے کافی گری پیدا ہوتی ہے۔اس لئے ان کے لئے سکون سی دھات کا استعمال کیا جائے مثلا ۷۶۰ میل فی گھنٹہ کی رفتار پر رینج ۲۰۲ قسم کے طیاروں کا درجہ حرارت ۱۰۰ ڈگری ہوگا۔ اور اس درجہ حرارت پر ایلومینیم بیکار ثابت ہوتا ہے۔چنانچہ اب ایسے یا مشردھات کی تلاش جاری ہے جو زیادہ سے زیادہ گرمی کوبرداشت کر سکے۔ ایک اور طیارے لاک ہیڈ۔ ایل۔۲۰۰۰ کی رفتار اٹھارہ سومیل فی گھنٹہ ہے۔ جب یہ ستر ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا ہوتا ہے۔تو اس کے اندر کا درجہ حرارت صرف ۲۴ سنیٹی گریڈ ہوتا ہے جبکہ باہر کا ۲۳۲ ہوتا ہے۔اندازہ لگائیے سو ڈگری پر اپ کی چائے بن جاتی ہے۔چنانچہ اب ایسی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں جن کی وجہ سے اندر کی گرمی کو تو بڑھایا جا سکے گا اور باہر رگڑ سے پیدا ہونے والی گرمی کو کم کیا جا سکے گا۔ جہاز کی رفتار کے پیش نظر پروں کے ڈیزائن بھی خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ایل دو ہزار کے دنگ بابر ڈیلٹا ٹائپ یا نکونے سے ہوتے ہیں جبکہ بوانگ کے پر ضرورت کے مطابق گھٹائے بڑھائے جا سکتے ہیں۔ظاہر ہے کہ اس قدر وزن کواتنی برق رفتاری سے اڑانے کے لئے انتہائی طاقت ور انجنوں کی ضرورت پڑتی ہوگی چنانچہ کن کوڑ کے چار انجنوں میں سے ہر انجن ۳۵ پونڈ کا دھکا پیدا کرے گا۔ اور اس کے لئے ایک لاکھ پچاسی ہزار پونڈ ایندھن کی ضرورت پڑے گی ۔ امریکن آج کل کامیابی سے متھیین سے اندھن تیارکرنے کے لئے تجربات کر رہے ہیں کیونکہ اس میں وزن کم اور طاقت زیادہ ہوگی۔ اور اس صورت میں سفر کے اخراجات میں بھی بھاری کمی ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ متھیین سے دوسرے اہم کام بھی لےی جاسکیں گے۔اونچی اڑان کے سلسلے میں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بہت زیادہ بلندی پرسفر کرنے سے ایڈمیشن یا شعاع افشانی کے بڑھنے سے اور مضرت رساں ہو جانے کا امکان پیدا ہوجاتا ہے،لیکن اکسپوزنگ ٹائم کم ہونے سے ا س کی مقدار صحت کے لئے بالکل نقصان دہ نہیں ہوگی۔صرف سال میں دوبارہ جب سورج کی حدت میں شدید اضافہ ہوجاتا ہے اور روشنی بھڑک اٹھتی ہے اس مقدار کے نقصان رساں ہونے کا امکان ہے،لیکن اس کا بھی حل تلاش کرلیا گیا ہے۔سائنیس کے جدید ترین آلات سے لیس زمینی راڈر سورج کی اس شعاع فشانی کی اطلاع قبل ازوقت ہی دے دیں گے۔ان کے علاوہ خلا میں پرواز کرنے والے مضوعی سیاروں سے بھی اس کی اطلاع ملتی رہیگی۔جس کے نتیجہ میں اس وقت ان طیاروں کو کم بلندی پر اڑایا جائیگا۔اور اس طرح ان مضرت رساں شعاوں کا مسائلہ حل ہو جائے گا۔ہوائی اڈے کے رن ویز کو البتہ تبدیل کرنا پڑے گا لیکن یہ تبدیل کوئی خاص نہیں ہوگی۔ہوائی ماہرین کا خیال ہے کہ ۱۹۹۰تک ہائپر سونک ٹرانسپورٹ طیارے اپنا کام شروع کر دیں گے ۔ اس وقت زمین کے کسی بھی حصے کے دور سے دور مقام پر پہنچےی میں صرف ۳۰ منٹ کا مختصر وقت لگے گا ،سفر کر نے میں وقت کا مسلہ بالکل ختم ہو جائیگا۔ لیکن گھر سے ایرپورٹ تک پہنچےل میں اسے کم سے کم ایک گھنٹہ لگے گا۔بہرحال ان فولادی چڑیو ں کا کھیل ابھی جاری ہے۔اور دیکھئیے وقت کی اڑان کے ساتھ ساتھ یہ چڑیاں کون کون سی نئی اور حیرت انگیز اڑانیں کرتی ہیں۔انسان اور اس کی حیرت انگیز صلا حتیں اس کی خلا کا شہنشاہ بنا سکیں گی یا نہیں ۔ اس کا جواب شاید ہماری اور آپ کی زندگی ہی میں مل جائے۔

مصنف :ڈاکٹر اجمل حسین

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here