موت کا پنجہ

0
365
urud-story
- Advertisement -

براعظم افریقہ اپنے پراسرارجنگلوں اور خوفناک درندوں کے لیے ساری دنیا میں مشہور ہے ۱۹۳۲ میں وہاں اچانک۔۔ شاید دنیا کی تاریخ میں پہلی اور آخری بار ایک ایسا ہیبت ناک اور خونخوار پرنده نمودار ہوا، جس کی چیرہ دستیوں کی لڑزہ خیز داستانوں نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایک چھوٹے طیارے کے برابر ڈیل ڈول والا یہ خوں خوار پرندہ جب پرواز کرتا تو کسی تند و تیز طوفان کا گمان گذرتا ، اس کے سانس کی رفتاراتنی تیز تھی کہ چھوٹے موٹے جانور آٹھ دس فٹ کی دوری سے ہی کھینچ کر اسکی چونچ میں پہنچ جاتے طاقت کا یہ حال تھا کہ اپنے پنجوں میں گھوڑوں اور جنگلی بھینسوں تک کو زندہ دبوچ کر ا جاتا۔ اسکے خوف سے گاؤں کے گاؤں ویران ہوگئے ، ایک بار وہ جس طرف سے گذر جاتا ،پوری بستی کی بستی وه علاقہ خالی کر کے کسی گوشہ عافیت کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی۔ یہ عفریت صفت پرندہ‘‘ چنگل’’ کے نام سے مشہور ہوا۔ چنگل کی چیرہ دستیوں کے زیادہ تر شکار چرواہے ہوتے، وہ ایک ہی وارمیں کئی جانور مارڈالنا یا چرواہوں کو پنجوں میں دبوچ کر اٹھائے جاتا ۔دنیا کے بڑے بڑے شکاری اسے مارنے کے لیے آئے مگرخود اس کا شکار ہو گئے ، سب سے پہلے جرمنی کا مشہور شکاری جان بل ایک آئرش شکاری کروکر کے ساتھ اس عفریت کو شکار کرنے افریقہ پہنچا، وہ دونوں برسوں افریقی صحراؤں اور جنگلوں کی خاک چھانتے رہے مگر انھیں چنگل کی بو تک نہ ملی، وہ تھک ہار کر واپس ہورہے تھے کہ بل ٹسی ٹسی نام کی مکھیوں کا شکار ہوگیا ، ان مکھیوں کے کاٹنے سے نیند کی بیماری ہوجاتی ہے جس کا واحد علاج گولڈن گھاس ہے کروکر بل کو سوتا چھوڑ کر کولڈن کی تلاش میں نکلا ہی تھا کہ اچانک فضا گڑگڑاہٹ کی آواز سے گونج اٹھی ، مقامی باشندے فورا اپنے اپنے جھونپڑوں میں دبک گئے کیوں کہ انھیں معلوم تھاکہ یہ چنگل کے پروں کی آواز ہے اوراب کسی باہررہ جانے والے کی خیر نہیں ،کروکر بڑی تیزرفتاری کے ساتھ بل کی طرف بھاگا مگراس کے پہنچنے سے قبل چنگل کی نگاہ اس پریڑچکی تھی وہ تیرکی طرح بل پر چھٹا اوراسے اپنے پنجوں میں دبا کرفضا سیلگوں کی بے پناہ وسعتوں میں گم ہوگيا۔ کروکر دل برداشتہ ہوکر آئرلینڈ واپس چلا آیا اس نے اخبارات میں اس عفریت کے متعلق متعدو مضامین لکھ کردنیا کو اس کی تباہ کاریوں سے روشناس کرایا جب اس کی تباہ کاریاں حد سے تجاوز کرگئیں تو دنیا کی کئی حکومتوں نے بڑے بڑے انعامات کا اعلان کیا ، اور دنیا کے کونے کونے سے طالع آزما افریقہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ ان میں زیادہ تر تعداد تو ایسے لوگوں کی تھی جوکئی ماہ تک جنگلوں اوصحراوں کی خاک چھان کر بے نیل مرام وطن واپس لوٹ گئے،انھیں چنگل کی بوتک نہ ملی کچھ ایسے بدقسمت بھی تھے جن پرٹی ٹسی مکھیوں زہریلے مچھروں ، گھڑیالوں، سانپوں اور مردم خوروں کی نظر کرم پڑگئی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گمتامی کے اندھیروں میں گم ہو گئے ، سیکڑوں کی تعداد میں دو چار ایسے بھی تھے جنھیں یہ عفریت نظرتو آیا مرگاسے شکار کرنے سے پہلے خودہی اس کا شکاربن گئے۔ان طالع آزما اور اولوالعزم شکاریوں میں دو کا دردناک انجام یاد کرکے اب بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ دونوں بدنصیب شکاری تھے، ونگر اور ایک فرانسیسی خاتون مادام انڈری۔

مادام انڈری بڑی باہمت اور شیر دل خاتون تھیں وہ بڑی تیاری کے ساتھ چنگل کا مقابلہ کرنے، افریقہ آئیں انہوں نے ایک ایسی پوشاک سلوائی جس کے اوپر زہرمیں بجھی ہوئی سوئیاں ٹکی ہوئی تھیں، فرانس اور انگلینڈ کے متعدد ڈاکٹروں سے مل کر ایسے کیمیائی مرکبات حاصل کئے جنھیں کھانے کے بعد کافی دنوں تک بغیر کچھ کھائے پئے تندرست اورچاق وچو بند رہا جا سکتاہے۔اندری نے سنا تھا کہ چنگل اکثر ابی سینیا کے اطراف میں دکھائی دیتا ہے، لہذا وہ پیرس سے جنوب کی سمت چل کرعدیس ابابا پہنچیں اور وہاں سے اونٹوں پر سوار ہوکرابی سینیا کے لیے روا نہ ہوئیں۔ ان کے ہمراہ صرف ان کا ادھیڑ عمرپوش خارم جم تھا۔ ایک چاندنی رات میں جب وہ ایک نخلستان میں ٹھہرے ہوئے تھے نصف شب کے قریب ان کی آنکھ کھل گئی ما دام نے رات ہی کے وقت سفر شروع کرنے کی تجویز پیش کی جم نے بھی اس تجویز کو پسند کیا اور سفرپر روا نہ ہوگئے ابھی تھوڑی دور چلے ہوں گے کہ طوفان نے آگیرا نخلستان کافی پیچھے چھوٹ گیا تھا، اور سامنے تاحد نگاه ریت ہی ریت تھی ، انڈری نے جہاں تھے وہیں رک جانے کا حکم دیا مگر جم کا اونٹ قابو سے باہر ہوگیا اور ایک سمت کوبھاگ نکلا انڈری آواز دیتی رہی مگر جم کی لاکھ کوششوں کے باوجود اونٹ قابومیں نہ آیا ، دفعتا انڈری کے ذہن میں ایک خیال کوند گیا اس نے سوچا شاید نو کرنے بے وفائی کی ہے اوراسے تنہا چھوڑ کر بھاگ نکلا ہے اس نے رائفل سیدھی کی اور اسکی پشت کا نشانہ لے کرٹریگر دبانا ہی چاہتی تھی کہ اس کے اس کا اونٹ بھی دوڑ پڑا اور وہ خود زمین پرآگرہی، جم تو بچ گیا مگربیچاری انڈری سیکڑوں من ریت کے نیچے دفن ہوگئی۔ونگر کا شمار فرانس کے سب سے باہمت شکاریوں میں ہوتا تھا۔وہ کئی ماہ تک نائجراور دھوائی کے علاقوں میں بھٹکتا رہا مگرجب چنگل کا کوئی سراغ نہ مل سکا تو اس نے دوسرے جانوروں کا شکار کرنے کا فیصلہ کیا اور دریائے نائجر کے کنارے ایک گھنے جنگل میں داخل ہوا۔ایک دن اس نے کچھ پرندوں کا شکار کیا اور نھیں بھوننے کے لیے اور الاوروشن کر کے انگارے بننے کا انتظارکرنے لگا پاس ہی ایک صاف شفاف چشمہ بہہ رہا تھا چشمے کو دیکھ کر اس کا جی غسل کرنے کو چاہا اور اس میں اترگیا، دن بھر کی تھکن سے چور جسم پر چشمے کے سرد اورتازہ پانی نے نشہ کی سی کیفیت طاری کردی اور ونگریہ تک بھول گیا کہ اس نے گوشت بھوننے کے لیے آگ جلا رکھی ہے اور اس کے قریب ہی اس کی رائفل اور کارتوسوں کا تھیلا بھی رکھا ہوا ہے ابھی وہ چشمے کے سرد پانی کے جاں نوازچھنٹیوں سے لطف اندوز ہوہی رہا تھا کہ ہوا کے جھونکوں سے کچھ چنگاریاں اڑیں اور کنیوس کے تھیلے پرجا گریں، تھیلا سلگتے یکبارگی لودے اٹھا اور ونگرکی کل متاع حیات آگ کی نذر ہوگئی، پورا جنگل بارودکی دھماکہ خیز آواز سے گونج اٹھا۔ اورونگر کا مستقبل بےپناه اندھیروں میں ڈوب گیا وہ پٹھی پٹھی نگاہوں سے اس آگ کو دیکھتا رہا جس نے اسے اس خوفناک جنگل میں بالکل بے دست وپابنا دیا تھا، تھوڑی دیر بعد جب آگ سرد پڑگئی تو وہ راکھ کے ڈھیر سے اپنی بندوق نکالنے کے لیے آگ بڑھا۔ کیونکہ ابھی اس سے لوہے کے ڈنڈے کا کام تولیاہی جاسکتا تھا ، لیکن ابھی وہ اس کے قریب ہی پہنچا تھاکہ سنسناتا ہوا ایک تیر آیا اور اس کے بازو میں پیوست ہوگیا۔ اس کے منہ سے بے ساختہ قسم کی ایک چیخ نکل گئی اس نئی افتاد نے اس کے سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیت سلب کرلی وہ جہاں تھا وہیں جم کر رہ گیا اور ابھی اپنی اس بدقسمتی پر اچھی طرح غوربھی نہیں کر پایا تھا کہ دوسرا تیر اس کے پیرمیں لگا۔ پھر تیروں کی بارش شروع ہوگئی اور تھوڑی دیر میں وہ سرسے پیرتک تیروں میں بندھ گیا ، اورتیروں کے ہی اس بستر پرابدی نیند سوگیا۔فرانس امریکہ پرتگال، اسپین، انگلینڈ اور دوسرے ممالک کے بہت سے شکاری چنگل کا شکار کرنے آئے اور ناکام ونامراد واپس لوٹ گئے چنگل کی تباہ کاریوں کی اندرہناک داستان شده ہندوستانی پہنچی اورا تر پردیش کی ایک چھوٹی سی ریاست دیتا کے جواں سال راجکمار گووند سنگھ اس عفریت کو جہنم رسید کرنے کا عزم صمیم لے کرافریقہ روانہ ہوئے وہ بمبئی سے سمندری جہاز کے ذریعے ڈرین پہنچے اور وہاں تین دن آرام کرنے کے بعد شمال کی سمت پیدل روانہ ہوئے ، چھ ماہ تک جنگل جنگل بھکنے کے باوجود چنگل کا کوئی سراغ نہ ملا، وہ اس علاقے سے واپس ہونے والے ہی تھے کہ ان کی ملاقات ایک دن کچھ انگریز سیاحوں سے ہوگئی انھوں نے بتایا کہ جنگل آج کل اسی علاقے میں ہے اور ان لوگوں نے اسے بچشم خود دیکھا ہے گوووند سنگھ کی ہمت بندھ گئی انہوں نے اپنے پانچوں ساتھیوں سے کہا، اگر ہم لوگ انگ انگ رہ کر تلاش کریں تو بڑی آسانی سے اس کا پتہ یا سراغ مل جائیگا جسے بھی وہ دکھائی دے جائے، وہ فورا ایک ساتھ دو فائر کرکے دوسروں کو خبر دار کر دے، کافی ردوقدح کے بعدان لوگوں نے ان کی بات مان لی اور وہ سب راج کمار کا ساتھ چھوڑ کر ایک طرف چلے گئے۔

اب راج کمارتنہا تھے، چاردن گذر گئے، وہ تنہائی سے ادب کر مغرب کی سمت یوں ہی بغیر کسی مقصد کے چل پڑے شام ہوتے ہوتے وہ جنگل کے کنارے جا پہنچے آگے کی ذہین انتہائی ناہموارتھی جیسے کسی ندی کی ترائی ہو، انہوں نے وہیں ایک درخت پراپنا اڈاجمایا، تھیلے سے کچھ میوے نکالکر کھائے اور اسی درخت پرسورہے انہوں نے شاخوں کو اس طرح الجھالیا تھا کہ اس کے سہارے آرام سے سو سکیں۔دوسرے دن سویرے ضروریات سے ضروریات سے فارغ ہوکے پھراسی درخت پر آجمے تقریبا چار بجے انہوں نے کھانا تیار کرنےکے لئے آگ جلائی ، ابھی انہوں نے آگ جلائی ہی تھی کہ ایک انگریز جوڑا ادھر نکلا ،اس سنسان جنگل میں ایک ہندوسانی کو تنہا پاکر انھیں بڑی حیرت ہوئی، اس جوڑے کو جب یہ معلوم ہواکہ یہ ہندوستانی چنگل کے شکار کے لیے آیا ہوا ہے تو مردنے کہا : ہمیں بڑی خوشی ہوگی اگر آپ اسے مارسکیں ، لیکن آپ ایسا کر سکیں گے مجھے اس میں شبہ ہے آپ نے کبھی دیکھا ہےاسے ؟ گووند سنگھ نے پوچھا۔ہاں میں نے ایکبار دیکھا ہے ، وہ پرندہ نہیں ہے بلکہ ایک چھوٹا موٹا طیارہ ہے، اس کے اڑنے سے طیارے کی طرح آواز ہوتی ہے اور وہ اتنی ہی تیز رفتار کے ساتھ اڑتا بھی ہے، ایک ساتھ تین آدمیوں کو چونچ اور پنجوں میں دبا کراٹھا لے جاتا اس کے لیے معمولی بات ہے ۔ ابھی وہ اس طرح کی غیر رسمی باتوں میں مشغول تھے کہ فضا یکایک کسی طیارے کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھی ، آواز بتدریج نزدیک آتی جارہی تھی گووند سنگھ نے انگریز سے پوچھا کیوں جناب ! کیا یہاں قریب میں کوئی ہوائی اڈہ بھی ہے ؟ آواز قریب آتی جارہی تھی، انگریز نے اس پر غور کیا اوراچھل کر کھڑا ہوگیا راجہ صاحب تیار ہو جائیے چنگل آرہاہے ۔

گووند سنگھ نے چھپٹ کر اپنی بندوق اٹھالی اور بولے آخر بھگوان نے اسے میرے پاس بھیج ہی دیا ۔ آواز اور قریب آگئی یہاں تک کہ مشرقی افق پر ایک بڑا سادھبہ نظر آنے لگا جو تیزی کے ساتھ اسی سمت بڑھ رہا تھا، اب ہوا کی رفتار بھی کچھ تیز ہوگئی معلوم ہورہا تھا کہ کسی بھیانک طوفان کی آمد آمد ہے ۔گووسنگھ بندوق کو شانے سے لکا کرنشانہ باندھنے لگے، جیسے ہی چنگل نشانے کی زدمیں آیا انہوں نے ٹریگر دبا دیا گولی اس کے ایک بازو کو زخمی کرگئی ، وہ غضبناک ہو اٹھا اور بڑی تیزی کے ساتھ ان کی طرف اس طرح جھپٹا جیسے آسمان سے کوئی کالا پہاڑگر رہا ہو۔گووند سنگھ نے یکے بعد دیگرے نو فائر کئے کچھ گولیاں توخالی گئیں، مگرجولگیں بھی وہ پروں میں یا پنجوں میں چنگل کو کسی طرح کا گزند نہیں پہنچ سکا اور وہ ایک دم ان کے اوپرآگیا۔موت کو بالکل سرکے اوپر منڈلاتے دیکھ کر بھی راجکمار کے ہوش وحو اس قائم رہے۔ ابھی ان کی رائفل میں دو گولیاں باقی بچی تھیں مگر انہوں نے کچھ سوچ کر ان کا استعمال مناسب نہیں سمجھا اورکمرسے زہر میں بجھی کٹار نکالنے لگے۔ابھی وہ کٹارنکال بھی نہیں پائے تھے کہ چنگل انکے اوپرجھپٹ پڑا، گووند سنگھ نے کٹار پھینک کرا سپردار کئے جوجواس کے نیچے پرلگی اور وہ کچھ آگے کی جانب کھسک آیا سااور کٹار کی چوٹ سے تلملا اٹھا تھایا گووندسنگھ کی ہوشیاری کو تاڑ گیا تھا کیوں کہ نہ تو وہ زمین پر آیا اور نہ سنگھ کے اوپرگرا، بلکہ ان کے سر سے چھ فٹ اوپر منڈلاتا رہا۔ یکایک اسنے اپنی چونچ کھولی اور ایک خوفناک چیخ کے بعد اپنا سانس تیزی کے ساتھ اوپرکی طرف کھنچنے لگا۔ اور راج کمارا س طرح اس کی طرف کھنچنے لگے جیسے انھیں رسی باندھد کرگھیسٹا جا رہا ہو، انگریز جوڑا جو درخت کی آڑمیں بیٹھ یہ تماشہ دیکھ رہا تھا انجام کے خوف سے کانپ اٹھا اسکے سانس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ گووند سنگھ باوجود اپنی پوری قوت صرف کرنے کے اپنے قدم جمائے نہ رکھ سکے اورکھنچ کراس کے غارکے دہانے جیسے منہ میں غائب ہوگئے۔

جیسے ہی وہ اس کے منہ میں گئے وہ تیزی کے ساتھ اوپراٹھا شکار کو نگل جانے کے ارادے سے اس نے اپنی چونچ بند کرنی چاہی مگر راج کمار موت کے منہ میں پہنچ کربھی ہوش و خواس کوقابو رکھنے میں کامیاب رہے، یکایک بجلی کی سی تیزی۔ کے ساتھ ایک خیال ان کے ذہن میں کوند گیا، اور جیسے ہی چنگل نے اپنی چونچ بند کرنی چاہی انہوں نے اپنی رائفل سیدھی کرکے اس میں اڑادی، رائفل کا کندہ چونچ کے نیچے والے حصہ میں تھا اور نالی تالو سے لگی ہوئی تھی ، اس طرح چنگل کی چونچ پوری طرح بند نہ ہوسکی اور گووند سنگھ اچھی طرح چنگل کی چونچ پوری طرح بند کرنے میں ناکام رہنے کی وجہ سے چنگل اور زیادہ غضبناک ہو اتھا وہ بار بار اسے بند کرنے کی کوشش کرتا مگررائفل آڑے آتی ، اب گووند سنگھ نے گی انگلی ٹریگر پرمضبوطی کے ساتھ جمادی ، رائفل کی نالی ٹھیک تالو پر رکھی تھی اب آخری کوشش کا وقت آپہنچا تھا انھون نے ٹریگر دبا دیا اور ایک ہیبت ناک آواز کے ساتھ گولی چنگل کا تالو پھاڑ کر باہر نکل گئی۔ ایک تو لمحہ بھی ضائع کئے بغير انہوں نے دوسری گولی داغ دی۔ چنگل کا سرچتھڑے چتھڑے ہوگیا اور ایک دلدوز چیخ کے ساتھ وہ زمین پر آرہا اس طرح وہ عفریت صفت پرندہ جس نے پورے مشرقی افریقہ میں دہشت پھیلا رکھی تھی ایک ہندوستانی راجکمار کے ہاتھوں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیسی کی آغوش میں سوگیا۔چنگل کا سرآج بھی دتیا کے سابق مہاراجہ کے ڈرائگ روم کی ذینت ہے ، مہاراجہ نے اس کا باقی دھڑحکومت کے حوالہ کر دیا تھا جو ابتک لندن کے میوزیم میں محفوظ ہے۔

- Advertisement -

مصنف :ادارہ

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here