چند لمحوں کی جوانی

0
333
urud-story
- Advertisement -

ڈاکٹر ہیڈ یگر نے جواپنی خصوصیات کے اعتبار سے ایک عجیب وغریب انسان تھے، ایک دن اپنے ہم عمرکے بزرگ دوستوں کو اپنے دفتر میں مدعو کیا۔ ڈاکٹر ہیڈیگران پر اپنا ایک خاص تجربہ کرنا چاہتے تھے۔ ان چار بزرگوں میں سے تین تو سفید داڑھی والے مردمسٹر میلبورن، کرنل کلیگر یو اورمسٹر گیس کاٹن تھے اور ایک سوکھی ساکھی مرجھائی ہوئی سی خاتون وچرلی تھیں، یہ سب کے سب سن رسید ہ، اداس اورافسردہ لوگ تھے جں کی زندگیاں نا کام ہو رہی تھیں اور جن کی سب سے بڑی بدقسمتی شاید یہ تھی کہ وہ اب سے بہت پہلے اپنی قبروں میں کیوں نہیں پہنچے۔جوانی میں مسٹرمیلبورن ایک کامیاب تاجر تھے لیکن انھوں نے سٹہ بازی میں سب کچھ کھودیا تھا اوراب وہ کوڑی کوڑی کو محتاج تھے۔ کرنل کلیگر یو نہایت عیاش تھے اورانھوں نے حد سے زیادہ دادعیش دے کرہی اپنی زندگی اور صحت کو برباد کیا تھا اور نہ جانے کتنے امراض اپنے بوسیدہ جسم کے اندر چھپائے پھرتے تھے مسٹرگیس ٹن ایک نا کام سیاست داں تھے۔اور اپنے زمانے میں وہ کافی بد نام رہ چکے تھے۔ ڈاکٹر ہیڈ یگرکی چوتھی مہمان وچرلی تھیں جواپنی جوانی میں بڑی حسین تھیں بعض واقعات ایسے ہوئے جن سے وہ بہت بدنام ہو گئیں اوراب وہ ایک مدت سے گوشہ نشین تھیں۔ یہاں جن تین مرد… بزرگوں کا ذکر کیاگیا ہے کبھی یہ تینوں ہی دچرلی کے عاشق زار تھے اور اپنے جذبہ رقابت کے زیراثر ایک دوسرے کا گلا کا ٹنے پر تلے ہوئے تھے۔ڈاکٹرہیڈ گیرنے اپنے دوستوں کو بیٹھنے کا اشاره کرتے ہوئے کہا کہ میرے پرانے دوستو! میں اپنے ایک تجربے کے سلسلے میں آپ لوگوں کی مدد چاہتا ہوں؟یہاں ڈاکٹر ہیڈیگر کے کمرے کاکسی قدر تفصیلی بیان دلچسپ ہوگا، ڈاکٹرکا یہ کمرہ ایک نہایت پرانی وضع کا تاریک کمرہ تھا اس میں ہر طرف مکڑی کے جالے لگے ہوئے تھے اورہرچیزپرگرد کی موٹی موٹی تہیں جمی ہوئی تھیں دیواروں سے لگی ہوئی کتابوں کی چند الماریاں جن کے نچلے تختوں پرکاغذ کے ڈھیربندھے ہوئے رکھے تھے بیچ کی الماری کے اوپر بقراط کے جسم کے بالائی حصے کا ایک مٹی کا مجسمہ رکھا ہوا تھا ڈاکٹر ہیڈیگر کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ اس مجسمے سے مشورہ لیتے ہیں دوالماریوں کے بیچ میں ایک آئینہ لٹک رہا تھا جس کے چاروں طرف ایک پرانا چوکٹالگا ہوا تھا۔ یہ آئینہ بھی عجیب وغریب تھا کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے جتنے مریض اس دنیا سے سدھار چکے تھے وہ سب اس کے اندر رہتے تھے اورجب کبھی ڈاکٹر ہیڈیگر اس آئینہ کی طرف دیکھتے تھے وہ سب مریض انھیں گھورنے لگتے تھے۔

کمرے کی دوسری جانب دیوار پر ایک نوجوان خاتون کی قدآدم تصویر لگی ہوئی تھی، يہ تصویرڈاکٹر صاحب کی محوبہ کی لگی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی شادی اس نوجوان خاتون سے ہونے والی تھی ، اتفاق سے اس کی طبیعت کچھ ناساز ہوگئی اوراس نے ڈاکٹرصاحب کی دی ہوئی دواپی لی جس سے خاتون شادی کی رات کو ہی دنیا سے سیدھا رگئی ۔اس کمرے میں ایک اورعجیب چیز ایک کتاب تھی جس پر کالے چمڑے کی جلد چڑھی ہوئی تھی ایک بار ایک خادمہ نے گردصاف کرنے کے لئے اسے اٹھایا توکئی بھیانک چہرے آئینہ میں سے جھانکنے لگے اور بقراط کےمجسمے کی کی پیشانی پربل پڑگئے۔ ڈاکٹر ہیڈیگر کے دوستوں نے جب ان کے عجیت تجربہ کا ذکر سناتووہ سمجھ گئے کہ یہ تجربہ اتنا ہی عجیب ہو گا اجتنا ہے چوہے دان میں پھنسا عجیب ہوتا ہے۔ آخر ڈاکٹرہیڈ یگر اٹھے اور جادو والی کتاب اٹھالائے۔ اس کتاب میں سے انھوں نے سوکھا ہوا گلاب کا پھول نکالا اورایک لمبی آہ بھر کر کہا ‘‘یہ گلاب کا پھول اب سے پچپن سال پہلے بہت شاداب تھا۔ یہ مجھے سلویا وارڈ نے دیا تھا، جس کی تصویر سامنے لٹکی ہوئی ہے پچپن سال سے یہ اسی کتاب میں رکھا ہوا ہے اب ذرا سوچئے کہ کیا نصف صدی کا یہ رانا گلاب کا پھول پھر سے تروتازہ ہوسکتا ہے؟وچرلی نے ڈاکٹرکی اس بات سے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔ یہ کیا فضول بات ہے۔یہ تو بالکل ایسی ہی بات ہوئی جیسے کوئی شخض کہے کہ ایک بوڑھی عورت پھر سے جوان ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹرہیڈیگر نے کہاکہ اچھا دیکھو! یہ کہہ کرانھوں نے صراحی کا ڈھکنا کھولا ادراش سوکھے پھول کو پانی میں ڈال دیا کچھ دیر تو وہ پانی کی سطح پرتیرتا رہا۔ لیکن جلدہی اسمیں تبدلی دکھائی دینے لگی۔ اس کی خشک پتیاں حرکت میں آئیں اوران پرگہرا سرخ رنگ چھانے لگا جیسے پھول موت کی نیند سے بیدار ہورہا ہو دیکھتے ہی دیکھتے نصف صدی پرانا گلاب کا سوکھا ہوا پھول ایسا ہی تروتازہ اور شاداب نظرآنے لگا، جیسا وہ اس وقت تھا حب سلویا نے اسے اپنے منگیتر ڈاکٹر ہیڈیگر کو دیا تھاوہ ابھی پوری طرح کھلا نہیں تھا، اس لیے اس کی کچھ نرم ونازک پتیاں پھول کی آغوش میں مڑی ہوئی تھیں اور ان پرشبنم کے قطرے چمک رہے تھے ۔ڈاکٹرکے دوست بولے یہ تو اچھا خاصہ شعبدہ ہے بتاوتم نے یہ کیوں کیا، ڈاکٹر نے جواب دیا کیا آپ نے کبھی چشمہ شباب آور کا نام سنا ہے جس کی تلاش میں اسپین کا سیاح پانسی ڈی لیون اب سے تین صدی قبل نکلا تھا۔وچرلی نے کہا وہ تلاش میں تو گیاتھا، پر وہ چشمہ اسے ملابهی؟ڈاکٹر نے جواب دیا نہیں اسے چشمہ شباب آور نہیں ملا کیوں کہ اس نے صحیح مقام پر اسے نہیں ڈھونڈا ۔ اگرمیری اطلاع صحیح ہے تویہ چشمہ فلوریڈاکے جنوبی حصے میں مکا کو جھیل کے قریب واقع ہے۔ اس چشمہ کا منبع منگولیا کے بڑے بڑے درختوں سے ڈھكا ہوا ہے جو صدیوں پرانے ہونے کے باوجود آج بھی سرسبزوشاداب ہیں میرے ایک دوست نے مجھے اس چشمے کا تھوڑا ساپانی بھیجدیا ہے جو آپ لوگ اس صراحی میں دیکھ رہے ہیں ۔ کرنل کلیگر یو نے اپنا گلہ صاف کرتے ہوئے پوچھا۔ اچھا جناب انسانوں پراس پانی کا کیا اثر ہو گا ۔؟

ڈاکٹر نے جواب دیا یہ بات آپ ابھی دیکھ لیں گے۔ آپ سب اس صراحی سے اتنا پانی پی سکتے ہیں جو آپ کو پھرسے جوان بنادے جہاں تک میرا سوال ہے مجھے بوڑھا ہونے میں اتنی مصیبتیں اٹھانی پڑی ہیں کہ میں پھر سے جوان ہونا نہیں چاہتا البتہ آپ لوگوں پر جوتجربہ کروں گا میں اسکی کامیابی ضرور چاہتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر ہیڈیگر میز پر رکھے ہوئے چار گلاسوں میں صراحی سے پانی انڈیلنے لگے ۔ گلاسوں کی تہہ سے اوپر تک چھوٹے چھوٹے بلبلے اٹھ رہے تھے اور ہلکی ہلکی دل پسند خوشبو نکل رہی تھی۔ اگرچہ ڈاکٹر کے دوستوں کو یقین نہیں تھا کہ وہ اس پانی کو پی کر پھرسے جوان ہو جائیں گے پھر بھی وہ اسے پینے کو بے چین تھے ۔ڈاکٹرنے کہا میرے معزز دوستو! اس پانی کو پینے سے پہلے آپ یہ عہد کر لیجئے کہ آپ شباب لوٹ آنے کے بعد گنا ہوں سے بچپں گے اورنیکیوں پراس طرح قائم رہیں گے جس سے آپ دوسرے تمام نوجوانوں کے لیے نمونہ بن جائیں۔ ڈاکٹر کے دوستوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور وہ صرف ایک طنز آمیزہنسی ہنس دئیے۔ جس کا مطلب شاید یہ تھا کہ جوانی میں جو غلطیاں وہ کر چکے ہیں ان کا خیال کیا انھیں بھولے سے بھی آسکتا ہے۔ڈاکٹر نے ادب سے جھک کر کہا اچھا تواب آپ اس پانی کو پی لیجئے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے اپنے تجربے کے لیئے اتنے اچھے آدمی منتخب کیئے ہیں۔یہ سن کران چاروں بوڑھوں نے اپنے خشک ہاتھوں سےبھرے بوئے گلاس اٹھالیئے اور پانی پی کر خالی گلاس پھر میز پررکھ دیئے۔پانی حلق سے اترتے ہی ان کے چہروں پرہلکی ہلکی سرخی آنے لگی، بالکل اسی طرح جیسے شراب سے آجاتی ہے۔ انکے چہروں کی مردنی دورہوگئ اور تندرستی کے آثار ظاہر ہونے لگے ۔وہ مسکرا مسکراکرایک دوسرے کو دیکھنے لگے ۔ وچرلی نے اپنی ٹوپی ٹھیک کرنی شروع کردی کیوں کہ اسے محسوس ہونے لگا تھا کہ میں جوان ہورہی ہوں۔وہ چاروں کی زبان ہوکر ہولے ہمیں یہ پانی اور دوہم میں جوانی کے آثار پیدا ہو رہے ہیں مگر ابھی ہم بوڑھے ہيں ہمیں اور پانی ڈاکٹرہیڈدیگر نے فلسفیانہ انداز میں انھیں بغور د یکھتے ہوئے کہا صبر کیجئے صبر کیجئے آپ کو بوڑھا ہوتے ہوتے ایک مدت لگی ہے جوان ہونے کے لیئے آدھا گھنٹہ توصبر سے بیٹھے رہئیے اور پانی دینے میں مجھے کیاغذہوسکتا ہے۔یہ کہہ کرانھوں نے چاروں گلاس پھر اس جادواثر پانی سے بھر دئیے اور چاروں بوڑھوں نے یہ گلاس غٹاغٹ چڑھا لیئے ابھی صراحی میں اتنا پانی اور تھا کہ شہر کے تمام بوڑھے اسے پی کر اپنے پوتوں اور نواسوں کی برابر معلوم لگتے۔ پانی نے اس دفعہ تیزی سے اثر دکھا یا اورچاروں پانی نے اس دفعہ تیزی سے اثردکھایا اور چاروں بوڑھوں کی آنکھوں میں روشنی اور چمک پیدا ہوگئی ، سفید بال سیاہ ہو گئے۔ اب میز کے اردگرد ایک گداز جسم والی جوان عورت او تین تندرست مرد بیٹھے تھے۔

کرنل کلیگر یوبولے وچرلی آج تم کتنی پیاری معلوم ہورہی ہو۔وچرلی برسہا برس سے جانتی تھی کہ کرنل کلیگریو باتیں بہت بناتے ہیں ۔ وہ اٹھ کر سیدھی آئینہ کے پاس پہنچی اور اپنا دلکش چہرہ دیکھ کر مسکرانے لگی کبھی وہ بال ٹھیک کرتی اور کبھی آئینہ کے بالکل قریب جاکراپنا چہرہ غور سے دیکھتی کہ کہیں کوئی جھری تو باقی نہیں رہ گئی ہے کبھی بالوں پر ہاتھ پھرتی اور لٹیں اٹھا اٹھا کر دیکھتی کہ چوٹی کی برف بس پگھل کربہہ گئی ہے۔یا ابھی کچھ باقی ہے۔ آخروه اٹھلاتی اور بل کھاتی ہوئی اس طرح میز کے پاس پہنچی جیسے ناچ رہی ہو اور ڈاکٹر سے مخاطب ہوکر بولی میرے اچھے ڈاکٹر مجھے ایک گلاس پانی اور د ے دیجئے۔!ڈاکٹر نے جواب دیا ہاں ہاں ایک ایک گلاس اور پی لیجئے یہ کہہ کر ڈاکٹر نے چاروں گلاس پهر بھردیئے ان سب نے ایک ایک گلاس اور پیا۔مسٹرگیس کاٹن کاذہن سیاست میں غوطے لگارہا۔ تھا مگر یہ نہیں معلوم کہ یہ سیاست پرانی تھی یانئی کیوں کہ ہر سیاست کا رنگ ایک ہی نظرآتا ہے۔ کرنل کلیگر یونے گانا شروع کر دیا اور میزپر طبلہ بجانے لگا۔ دوسری طرف مسٹرمیلبون تجارت کا کوئی بڑا منصوبہ بنانے میں مصروف تھے۔چاروں کے چہروں پرسرخی چھاگئی۔ ایسامعلوم ہوتا تھا، جیسے پڑھاپے کی ساری تکلیفیں اور غمگینیاں کبھی تھی ہی نہیں۔ ان کا جی چاہتا تھا کہ وہ اپنی تھوڑی دیر پہلے والی کمزوری اور درماندگی کا مذاق اڑائیں ۔ وہ اپنے پرانےانداز کےلباس پر بہت نہیں رہے تھے ۔ ان میں سے ایک اٹھا اور گھیا کے مریض کی طرح لنگڑ ا لنگڑا کر چلنے لگا ۔ دوسرے نے ناک کے سرے پر عینک رکھی اور کالی جلد والی جادو کی کتاب کے صفحوں پر جھک جھک کر دیکھنے لگا۔ تیسرے نے ڈاکٹر ہینڈ یگر کی نقل اتارنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد وہ سب سنسنہے پھیلنے اور اچھلنے کودنے لگے ۔ وجولی اچھل کر ڈاکٹر کی کرسی کے پاس پہنچی اور بولی ڈاکٹر پیارے بوڑھے ڈاکٹر،اٹھ کر میرے ساتھ ناچور اس پر چاروں نے یہ سوچ کر کہ بوڑھا ڈاکٹر اس نوجوان عورت کے ساتھ ناچتا کیسا معلوم ہوگا، خوب قہقہے لگائے۔

ڈاکٹر بولے:میں بوڑھا گٹھیا کا مریض ناچتا ہوا کیا اچھا معلوم ہوں گا۔ میرے ناچنے کے دن مدت ہوئی ختم ہوگئے۔ ان نوجوانوں میں سے کوئی بھی تم جیسا حسین ساتھی پاکربہت خوش ہوگا۔کرنل کلیگر یو اس کی طرف لیکے اور بولے:تم میرے ساتھ ناچو۔مسٹر گیس کاٹن کہنے لگے:نہیں!تم میرے ساتھ ناچو۔مسٹر میلبورن بولے،واہ پچاس برس ہوئے اس نے میرے ساتھ ناچنے کا وعدہ کیا تھا۔وہ سب کے سب وچرلی کے گہرد جمع ہو گئے۔ ایک نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا،دوسرے نے اس کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور تیسرے نے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرے۔ وچرلی نے شرمائے ہوئے ہانپتے ہوئے سنہتے ہوئے اور برا بھلا کہتے ہوئے اس طرح خود کو چھڑانے کی کوشش کی کہ چھوٹ نہ سکے، خوش باش نوجوان اس طرح ہنستے کھیلتے کم دیکھے گئے ہوں گے،مرر بڑا سا آئینہ،جو کمرے میں لگا ہواتھا، اس میں تین بڑے کھوسٹ ایک سوکھی ساکھی بڑھیا سے چہلیں کرتے ہوئے نظر آرہے تھے،اگروہ جوان تھے۔ ان کے مشتغل جذبات انکی جوانی کا ثبوت تھے۔ وہ جوان وچرلی بلی کو حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے ہاتھا پائی کر رہے تھے۔ آخر ان میں سے ایک کا دھکا اس میز کو لگا، جس پر جادو کے پانی کی صراحی رکھی ہوئی تھی میز الٹ گئی اور صراحی نیچے گر کر ٹوٹ گئی جس سے سارا پانی بہہ گیا۔ڈاکٹر کہنے لگے،ارے تم نے یہ کیا غضب کیا سارا پانی بکھر گیا!! وہ ہکا بکا رہ گئے۔ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وقت انھیں پھر اپنی آغوش میں بلا رہا تھا۔ انھوں نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا جو اپنی کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے اور گلاب کا پھول ان کے ہاتھ میں تھا ڈاکٹر پھول کو مخاطب کر کے بولے۔میری پیاری سلویا کے پھول مجھے تو ہر حالت میں پیارا معلوم ہوتا ہے۔ اب تو مر جھارہا ہے ۔

- Advertisement -

چاروں مہمان کا نپنے لگے۔ وہ سب ایک عجیب سی ٹھنڈک اپنے دلوں میں اور سارے جسم میں محسوس کر رہے تھے۔ وہ ایک دوسرے کو تکنے لگے۔ انھیں ایسا معلوم ہورہاتھا جیسے ہر لمحہ انکی جوانی رخصت ہو رہی ہے۔اور چہرے پر اور سائے جسم پر پھر جھریاں پڑتی جارہی ہیں ۔

مصنف :یتھنسیل ہاتھورن

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here