معصوم چور

0
332
urud-story
- Advertisement -

گول چہرہ بڑی بڑی نیلی غزالی آنکھوں اور چہرے پر گہری معصومیت دیکھ کر کوئی شخص نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ اٹھائی گیرہے ۔ اور اس کا کام شاپنگ سنٹر سے قیمتی اشیا چرانا ہے وہ اپنا کام اتنی صفائی سے کرتی تھی کہ کسی کوشبہ تک نہ ہوتا کہ اس شاپنگ سنٹر سے جتنی بھی قیمتی اشیاء غائب ہورہی ہیں یہ سب اسی معصوم چہرے والی حسینہ کے بائیں ہاتھ کا کھیل سے وہ یہ کام دونوں ہاتھوں سے سرانجام دیتی تھی ۔وہ ویسٹ میئر شاپنگ سنٹر سے دو سال سے قیمتی اشیا چوری کر کے لے جا رہی تھی ۔اور کوئی بھی اس پر شبہ مہ کر سکہ تھا۔شاپنگ ہال کے مختلف اسٹورز اور کاونٹروں پر گھومتے وقت اس کا درمیانے سائزکا ہینڈ بیگ اس کے بائیں کندے پر لٹکا ہوتا وہ چلتے چلتے کسی بھی کاونٹر پر رک جاتی اس کا بائیں ہاتھ ہمیشہ ہینڈ بیگ پر ہوتا دائیں ہاتھ سے وہ مطلوبہ چیزاٹھاتی جو نہی چیز اس کے ہاتھ میں آتی۔ بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی حرکت میں آجاتی اور بیگ کھل جاتا چوری شدہ سامان بیگ میں چلا جاتا وہ اپنی کہنی سے اس طرح بیگ بند کرتی جیسے اپنے کو لہے پرخارش کررہی ہو۔ اس پورے عمل کے دوران اس کا جسم ہمیشہ متحرک رہتا اپنا کام نپٹانے کے بعد وہ وہاں سے تیزی سے ہٹ جاتی۔اس طرح کسی کے علم میں یہ بات نہ آتی کہ اس نے کوئی قیمتی چیز چوری کرکے بینڈ بیگ میں ڈال دی ہے۔اتنے بڑے سٹور سے اس طرح چیزیں چوری کرنے میں بہت سے خطرات درپیش تھے کچھ توکلرک ہی بہت تیزتھے ان کی تیزآنکھیں کہیں رکتی ہی نہ تھیں وہ چاروں طرف بڑی ہوشیاری سے دیکھتے رہتے اٹھائی گیروں کا پتہ چلانےکے لیے بعض جاسوس مرد اور عورتوں کی خدمات بھی حاصل کی گئی تھیں ان جاسوسوں کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا وہ ہر وقت سٹور کے کسی نہ کسی حصے میں مصرون نظر آتے تھے تاکہ کسی کو شک نہ گزرے۔ پھر شاپنگ ہال کے مالکان نے محافظ بھی رکھے ہوئے تھے۔ وہ بھی اپنی سبزرنگ کی وردی میں ان دروازوں پر کھڑے رہتے جہاں سے گاہگ سٹورمیں آتے اور واپس جاتے تھے جب کسی گاہگ پر ان کو شک ہوتا تو ان کوسٹور سے باہر برآمدے میں چیک کیا جاتا تھا تاکہ اسٹورکے اندر کسی قسم کا ہنگامہ نہ ہو۔ ان تمام حفاظتی اقدامات کے با وجود اسے کسی قسم کا خوف یا ڈرنہ تھا۔ اسے اپنے اوپر مکمل اعتماد تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دو سال میں ایک بار بھی نہ پکڑی گئی اورنہ ہی کسی نے اس شبہ ظاہر کیا اس کا کہنا تھا کہ اگراعتماد ہوگا تو اس سے لوگوں میں آپ کے لیے عزت بڑھے گی اور اس طرح لوگ چوریا اٹھائی گیراورایک شریف شہری میں تمیز کرسکیں گے اس میں یہی ایک خصوصیت تھی۔ نہ صرف یہ کہ اپنی مہارت پراعتماد تھا بلکہ اسے یہ اعتماد بھی تھا کہ اسے کوئی بھی پکڑ نہیں سکتا۔

ا س روز بھی وہ نہایت اعتماد سے اپنا کام مکمل کر کے جونہی اسٹورسے باہر نکلی اسے اپنے دائیں کندھے پر دباو محسوس ہوا۔ وہ فورا گھومی اس نے دیکھا کہ اسٹورکا محافظ کھڑا ہے۔ یہ محافظ اسٹور کی مخصوص سبز وردی میں ملبوس ہونے کے باوجود بہت ہی خوبصورت لگ رہا تھا۔اس کی آنکھوں میں بھی اعتماد کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ اس کا جی چاہا اس کے گلے میں باہیں ڈال کر ایک بھرپور بوسہ لے لیکن یہ حرکت اس کے لیے موزوں نہ تھی۔جی فرمایئے اس نے نہایت پر سکون لہجے میں پوچھا وہ قطعا پریشان نہ تھی۔مجھے افسوس ہے محترمہ میں نے آپ کو روکا میں آپ کے ہینڈ بیگ کی تلاشی لینا چاہتا ہوں، محافظ نے کہا۔میرے بینڈ بیگ کی تلاشی آخرکیوں؟ اس نے پھر ٹھہرے ہوئے لہجے میں پوچھا:محترمہ مجھے شبہ ہے کہ آ پ کے ہینڈ بیگ میں اسٹورسے چرائی ہوئی چند چیزیں ہیں چرائی ہوئی چیزیں اس کی معصومیت سے پر گہری جھیل کی طرح نیلی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں تمہیں کسی شریف خاتون سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے حیرانی کی بات ہے کیا میں اٹھائی گیر نظر آتی ہوں؟ اس کی آواز میں اعتماد تھا۔

مجھے افسوس سے پھر یہی کہنا پڑ رہا ہے محترمہ محافظ نے اصرار کیا۔۔کیا کروں مجھے حکم یہی ملا ہے۔۔حکم ، اس کے ماتھے پرتیوریاں پھیل گئیں۔ ایک خوبصورت اور دلکش چہرے والی خاتون کی ناراضگی بجا تھی کیوں نہ ہوتی اس کی دیانت پرشبہ کیا جا رہا تھا۔ اسے مجبوبہ دلنواز کا خطاب دینے کی بجائےچور بنایا جا رہا تھا۔نوجوان محافظ نے ٹوپی اتار کرسر کو خم کرتے ہوئے ایک بارپھراپنا مطالبہ دہرایا جی ہاں محترمہ آپ کی مہربانی ہوگی ، ایسا کہتے ہوئے اس کے کالے گھنگریالے بال پیشانی پر گر گئے اور اس کی مردانہ وجاہت نمایاں ہوگئی۔ اس کے بعد اس محافظ نے اس کو اپنے بازوؤں کے گھیرے میں لے لیا تاکہ وہ کہیں جا نہ سکے۔ اس نے صورتحال اور ماحول کاجائزہ لیا اس کی پشت پہ سرخ اینٹوں کی دیوار تھی۔ دائیں اور بائیں محافظ کے بازوپھیلے ہوئے اور سامنے وہ خود چٹان کی طرح کھڑا تھا اس نے محسوس کیا کہ وہ کسی بھی وقت اس کا ہینڈ بیگ چھین سکتا ہے۔ یہ سوچ کر اس نے باہرکی طرف کھسکنا شروع کیا اور اس سے سوال کیا تمہارے خیال میں کیا کیا چیزیں چوری کر لی گئی ہیں۔ایک کیمرہ ،ایک نہایت قیمتی سگریٹ لائٹر اور کچھ اورچیزیں یہ بھی ہوسکتا ہے، میری اطلاع غلط ہومگر اس کے لیے ہینڈ بیگ کی تلاشی لینا ضروری ہے۔میں احکامات سے مجبور ہوں ، آپ برانہ منائیں تو ابھی اس کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ وہ پھربول اٹھی ٹھیک ہے لو تلاشی لے لو اس کے ساتھ ہی اس نے ہینڈبیگ کو کندھے سے اتارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔

ابھی وہ ہینڈبیگ اتار ہی رہی تھی کہ اچانک سامنے کی طرف سے ایک لمبا تڑنگا نہایت پھرتیلا نوجوان آندھی کی طرح آیا اور اس کے ہاتھ سے ہینڈ بیگ چھین کر ہوا ہوگیا۔یہ سب پلک جھپکنے میں ہوگیا اور محافظ ہکا بکا رہ گیا ۔ غصے میں اس نے سر پیٹ لیا۔ اتنے میں وہ چلائی روکو چور کوروکو وہ میرا ہینڈ بیگ لے گیا۔ میرے پیسے بھی لے گیا۔ اب میں گھر کیسے جاوں گی؟محافظ نے سے ڈانٹا محترمہ آپ کو تو خوش ہونا چاہیئے ہینڈبیگ چھین کر اس نے آپ کا بھرم رکھ لیا۔ چلانے سےکیا فائده؟ کیوں نہ چلاؤں ایک تو میرا ہینڈ بیگ چھن گیا اوپر سے تم مجھے ڈانٹ رہے ہو؟ہمدردی تو ذرا بھر بھی نہیں ہے۔ میری جگہ تمہاری بیوی ہوتی اور کوئی اس کا ہینڈبیگ چھین کر لے جاتا تو پھرمیں دیکھتی تم اسے کیسے ڈانٹتے؟ اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے چہرے پر غصے کے آثار تھے لیکن گہری نیلی آنکھیں پرسکون تھیں۔ محافظ کومحسوس ہوا کہ وہ اس پر ہنس رہی ہے اور اس کی ناکامی کا منہ چڑارہی ہےجب وہ اپنے فلیٹ میں میں پہنچی تو ہارلے نے دروازے ہی میں اسے خوش آمدید کہا:دونوں نے بہت بڑا ہاتھ مارا تھا اور جس طرح وہ بیگ چھین کر لانے میں کامیاب ہوا تھا وہ اس سے اس کا خراج وصول کرنا چاہتا تھا۔ فتح کا نشہ تواس پر بھی طاری تھا اس نے ہارلے سے کہا کہ تمہیں تو اولمپک میں شرکت کرنی چاہیئے کیا تیزی تھی تمہاری ٹائمنگ اتنی درست تھی کہ جب تک وہ سنبھلتا تم جاچکے تھے۔لیکن جان اب ہمیں کسی اور شاپنگ ہال کارخ کرنا چاہئے کیونکہ انہیں شک ہوگیا ہے کہیں ایسانہ ہوکہ ہم پکڑے جائیں اور ہمارا بھرم کھل جائےہارلے نے نہایت فکرمند ہو کر کہا۔ وہ باتیں بھی کرتا جاتا تھا اور میز پررکھی ہوئی چیزیں ایک تھیلے میں ڈالا جاتا تھا۔ بات تو تہاکری ٹیک ہے۔ ایسا کرنے میں تمہارا دهندا خراب ہوجائے گا اس نے جواب دیا۔تاہم تمہیں مجھ پراعتماد ہونا چاہیئے جس طرح آج بچے ہیں اسی طرح آئندہ بھی بچ جائیں گے۔لیکن تمہاری باتیں میرا اعتماد ختم نہیں کرسکتیں۔ کمبرلینیڈ ہال قصبہ کے دوسرے کونے میں واقع تھا۔ اس نے وہاں جانا شروع کر دیا اور ایک ہفتہ تک وہ اسٹورز کی مختلف جگہوں کا جائزہ لیتی رہی اور چوری کرنے کے بعد اپنے بچ نکلنے کی راہیں تلاش کرتی رہی ۔ اس نے کرائے کے جاسوسوں کے چہرے بھی یاد کیے۔ اس نے نیلی وردی والے محافظوں کے کھڑے ہونے کی جگہوں کا اندازہ کر لیا ۔ یہ اسٹور بھی اتنا ہی بڑا تھا جتنا ویسٹ میئرشاپنگ ہال تھا۔ پھر جب اس نے دیکھا کہ اسٹور کے ملازم منیجر اور دوسرے افراد اس سے مایوس ہو گئے ہیں تو اس نے ٹھیک آٹھویں دن اپنا دھندا شروع کر دیا۔ شیلفوں اور کاونٹروں سے چیزیں غائب ہونا شروع ہوگئیں ان کا پرانا اعتماد لوٹ آیا وہ نہایت صفائی سے اپنا کام کرتی رہتی ہارے بھی بہت خوش تھا اس کی جیبیں رقم سے بھری رتیں پھراس حسینہ کاخراج منافع کے طور پر ملتا تھا۔ اسٹور کے مالکان بہت پریشان تھے۔ انھوں نے پہلے سے بھی زیادہ سخت حفاظتی انتظامات کئے لیکن چوری کے واقعات کم نہ ہوئے۔اس نے کمبر لینڈ ہال میں آکر اپنا طریق کار ہی بدل دیا تھا وہ جب بھی اسٹور میں داخل ہوتی تو خوبصورت ہیٹ اور اوور کوٹ پہنے ہوتی اس کی چال میں بھی تبدیلی آگئی تھی اس کے اوور کوٹ کی ایک خوبی یہ تھی کراس کے اندر جو بھی چیز رکھی جاتی کسی کو اس کا پتہ نہیں چل سکتا تھا۔ اس کے ہینڈ بیگ کا تو کسی کو بھی علم نہ تھا جواس نے کوٹ کے اندر بازو پر لٹکایا ہوتا تھا اور اس کے اندار اسٹور سے اڑائی جانے والی قیمتی اشیا نہایت صفائی سے منتقل ہوتی رہتی تھیں۔ پھر ایک دن اس کو پکڑلیا گیا۔

حسب معمول اس روز بھی وہ قیمتی زیورات جواہر اور دوسری اشیاء اڑانے اور انھیں اپنے مخصوص انداز میں ہینڈ بیگ میں منتقل کرنے کے بعد باوقار انداز میں پنے تلے قدم رکھتی باہرنکل رہی تھی کہ اسٹور کے ایک محافظ نے اسے روک لیا۔ محافظ نے اس کے دائیں کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے رکنے کی درخواست کی۔ وہ فورا گھومی اور پوچھا جی فرمایئے ایسا کرتے وقت وہ قطعا پریشان نہیں تھی اس کے چہرے پرگہرا سکون تھا۔ اسے روکنے والا نیلی وردی میں ملبوس محافظ تها وہ ایک وجیہ نوجوان تھا وہ اس کے چہرے پرمعصومیت اور اعتماد دیکھ کر ایک بار تو ٹھٹھک گیا لیکن دوسرے ہی لمحے وہ سنبھل گیا اور کہا مجھے افسوس ہے کہ محترمہ میں نے آپ کو روکا دراصل میں آپ کی تلاشی لینا چاہتا ہوں میری تلاشی آخرکیوں؟ مجھے شک ہے کہ آپ کے پاس سٹور سے چرائی ہوئی قیمتی اشیاء ہیں۔چرائی ہوئی اشیاء اس کی معصومیت سے پرگہری جھیل جیسی نیلی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ کیا کسی شريف خاتون سے بات کرنے کا یہی انداز ہے؟ آپ کا فرما نا بجا ہے محترمہ لیکن میں فرض کے ہاتھوں مجبورہوں آپ اپنی تلاشی دے دیں، اس کا لہجہ سخت تھا لیکن اس کا اعتماد متزلزم نہیں ہوا۔ لیکن آج وہ پھرویسٹ میئر شاپنگ ہال میں ہونے والے حادثے جیسی صورتحال سے دوچارتھی اس محافظ نے اسے گھیرے میں لے رکھا تھا کسی کو یہ شک نہیں ہورہا تھا۔لوگ یہی سمجھتے رہے کہ وہ دونوں رازونیاز میں مصروف ہیں جب اس نے دیکھا کہ قرار کے سب راستے مسرود ہو چکے ہیں اور محافظ کسی بھی لمحے پیشقدمی کرکے اسے سب کے سامنے شرمنده کر سکتا ہے تو اس نے اپنے کوٹ کے بٹن کھولنے شروع کردئیے کوٹ کھلتے ہی جہاں محافظ کو بائیں بازو پر لٹکا ہینڈ بیگ دکھائی دیا۔ اسی وقت کوٹ کے بائیں بازو سے ایک مصنوعی ہاتھ نکل کرفرش پر گر پڑا خاتون نے نئے اسٹور سے آکرچوری کا طریقہ کارہی بدل دیا تھا اس نے دایاں بازو توکوٹ کی آستین سے باہرنکالا ہوتا جب کہ بایاں آستین میں ڈالنے کی بجائےوہاں مصنوعی ہاتھ لٹکائے رکھتی۔ اوراصل بایاں ہاتھ کوٹ کے اندر ہوتا جس پر اس کا وہی درمیانے سائز کا ہینڈ بیگ لٹکا ہوتا وہ نہایت تیزی سے دائیں ہاتھ سے کوئی چیزاٹھائی اورکوٹ کے اندر بائیں ہاتھ میں تھما دیتی جو نہایت پھرتی سے اس چیز کو بیگ میں منتقل کر دیتا۔ دیکھنے والا اگر کوئی ہو تویہی سمجھتا کہ اس نے کوئی موومنٹ ہی نہیں کی جس وقت مصنوعی ہاتھ گراتو محافظ حیران رہ گیا لیکن یہ وقت حیران ہوئے کا نہیں تھا اس نے پھرتی سے ہینڈ بیگ کی طرف ہاتھ بڑھایا کہ اچانک خاتوں کا پرانا ساتھی ہارے نہایت تیزی سے آگے بڑھا اور بیگ چھنینے کی کوشش کی لیکن محافظ نے خاتون کو ایک طرف بٹا دیا اور اسی لمحے ایک زور دار دھماکہ ہوا اور سب نے دیکھا کہا ہارے فٹ بال کی طرح فضا میں اچھلا اور دھپ سے منہ کے بل فرش پڑدھیر ہوگیا محافظ کی ایک ہی ٹھوکرنے ہارے کو اگلے جہاں کی سیر کرادی۔ اس دوران محافظ کی ٹوپی کر گئی اور اس کے گھنگریالے سیاہ بال ماتھے پہ بکھر گئے. وہ بالوں سے اسے پہچان گئی اور بے اختیاراس کے منہ سے نکلا تم! تم یہاں کیسے پہنچ گئے ؟ تم تویسٹ شاپنگ ہال میں تھے۔

- Advertisement -

آپ کے بچ نکلنے کے بعد میں نے مالکان سے عہد کیا تھا کہ میں ہرقیمت پر آپ کو پکڑکردکھاوں گا۔ پھر جب آپ نے اس اسٹورپرآنا جانا چھوڑ دیا تومیرا ماتھا ٹھنکا کہ کہیں آپ نے کسی اور اسٹور کو اپنی سرگرمیوں کا گڑھ تو نہیں بنالیا؟ قصبہ میں دوہی اسٹور ہیں ایک ویسٹ میئر شاپنگ ہال اوردوسرا یہ پھرجب اطلاع ملی کہ اس اسٹورمیں بھی اچانک چوریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ تو میں نے مالکان سے اپنا تبادلہ یہاں کروالیا میری عادت ہے کہ جب تک مجرم کو پکڑ نہیں لیتا مجھے چین نہیں آتا۔

مصنف :خواجہ شوکت محمود

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here