یوں تو میرا خاص پیشہ جنگلی جانوروں کی چلتی پھرتی تصویریں لینا ہے جنہیں میں یا تو ٹیلیویژن کمپنیوں کو بیچ دیتا ہوں یا پھر اپنے غیرملکی سیاحت کے دوران شوقین ۔ مزاج لوگوں کو دکھا کر معاوضہ لیتا رہتا ہوں۔ لیکن کبھی کبھی بدرجہ مجبوری مجھے کسی جانور کا شکار بھی کرنا پڑتا ہے کوئلے کی دلالی میں ہاتھ تو کالے ہوتے ہی ہیں اس لئے مجھے بھی اس قسم کی تصویر اتارتے وقت اکثر و بیشتر چھوٹے موٹے حادثات کا سامنا ہوتا ہی رہا ہے۔ ایسا ہی ایک خطرہ مجھے ایک خطرناک سئور کی فلم لیتے وقت پیش آگیا تھا۔ یہ ان دونوں کا واقعہ ہے جب میں امریکہ میں اپنے ایک مقامی دوست کے ساتھ در جینا کے علاقے کے جنگلی میدان میں گھوڑے پرسٹرگشت کر رہا تھا ،جہاں میں اکثروبیشتر صرف سیاحت کے لئے آتارہتا تھا۔ اس وقت میں اس کی جنگلی میدان میں کچھ زیادہ ہی آگے نکل آیا تھا اچانک تقریبا تین سو گز کے فاصلے پر میری نظر ایک جنگلی سور پر پڑ گئی۔ میں نے اپنے ساتھی کی توجہ بھی اس جانب مبذول کرائی تو اس نے کہا کہ اس جنگلی سور کونظرانداز کر دینا ہی زیادہ مناسب ہے۔ میرے کافی اصرار کے بعد وہ آگے چلنے کو تیار ہوگیا۔ ہم آگے بڑھتے ہوئے اس سور سے دو سو گز کے فاصلے پر آگئے،تو ہم نے گھوڑوں سے نیچے اترآنا زیادہ بہتر سمجھا۔ میں نے اپنا کیمره سنبھالا، اور میرے دوست نے رائفل۔میں تصویریں لینے اور آگے بڑھنے میں اتنا منہمک سا ہوگیا تھا کہ مجھے اس وقت خیال آیا جب میں اس سورسے صرف پچاس گز کے فاصلے پر رہ گیا تھا ۔میں نے اپنے ساتھی کو گولی مارنے سے روکتے ہوئے کہا کہ میں اس سور کی کچھ اور قریب سے فلم لینا چاہتا ہوں۔ چنانچہ میں اور ذرا آگے بڑھ آیا۔ مجھ پر کچھ اس قسم کا جنون سوار ہوچکا تھا کہ میرااور اس سور کا فاصلہ اب کل۳۰ گزرہ گیا تھا ۔میں نے اپنے دوست کو قریب آنے کا اشارہ کیا میرایہ ساتھی انتہائی نڈر اور جری قسم کا انسان تھا۔ اس کو خونخوار سورسے جیسے کوئی خطرہ ہی نہیں تھا۔ شاید اس لیے بھی کہ بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بہت اچھا نشانے باز بھی ثابت ہوچکا تھا۔
میں اب اس سورسے صرت۲۰ گز دور تھا اس لےا میرے کمرکے کے موٹر کی آواز سے وہ چوکنا سا ہو کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ اس نے یہ بھی محسوس کر لیا تھا کہ آواز کس طرف سے آرہی ہے۔ اور جیسے ہی کچھ شبہ ہوا وہ فوری طور پر ہماری جانب لپکا اس کا انداز مجھے اتنا پیارا لگاکہ میں کیمرے کے دیوفارنڈرسے اپنی آنکھیں نہ ہٹا سکا اور برابر فلم لینے میں مشغول رہا۔ مجھے یہ امید تھی کہ میرا دوست مجھے خطرے میں گھریا ہوا دیکھ کر گولی ضرور چلائے گا۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ گولی داغنے کی آواز آئی۔ میں کیمرے سے ہی اس جنگلی او خونخوار سور کا جائزہ بھی لے رہا تھا اور تصویریں بھی اتا رہا تھا میں نے دیکھا کہ وہ گولی چلتے ہی رک گیا ہے لیکن مجھے تعجب یہ تھا کہ وہ گرا کیوں نہیں۔؟اتنے اچھے نشانے باز کانشانہ چوکنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ اتنے میں دوسری گولی بھی چلی اور سور کے قریب سے نکل گئی۔ لیکن وہ ویسا کا ویسا کھڑا رہا اور میں جوش وخروش میں آگے بڑھتا ہوا اس سے صرف چھ گز کے فاصلہ پر پہنچ گیا۔جب دوسری باربھی وہ کمبخت نہیں گرا تو میں سمجھ گیا کہ وہ بہت ہی غضبناک ہوگیا ہے اور میں کسی بھی لمحہ اس کےنکیلے پنجوں اور تیر جبڑوں کی گرفت میں آسکتا ہوں بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں تھی اورنہ میرے پاس رائفل ہی تھی۔ کیمرے کو بھی کسی حال میں چھوڑنا نہیں چاہتا تھا ۔کیوں کہ بمشکل تمام اتنی قیمتی تصویر ہاتھ لگ چکی تھی ،جسے کھو دینا میرے بس کی بات نہیں تھی۔ میں عجیب شش وپنج میں مبتلا تھا۔جس جھاڑی کی آڑ سے میں یہ فلم لے رہا تھا، وہ اتنی گھنی تھی کہ شاید سور مجھے دیکھ نہیں سکتا تھا۔ لیکن میں جھاڑیوں کی دراڑوں میں سے اسے اچھی طرح دیکھ رہا تھا شاید میری بو سونگھتا ہوا وہ دھیرے دھیرے جھاڑی تک پہونچ گیا۔ میں نے منہ سے عجیب طرح کی سیٹی بجانا شروع کر دی جس کا اثر یہ ہوا کہ وہ کچھ ٹھٹکا اورپھراس نے بھیانک غراہٹ کے ساتھ مجھ پر چھلانگ لگاری یہ موقع میرے دوست کے لیے بہت کافی تھا۔ اس نے موقع سے پورا فائدہ اٹھایا۔۔۔ اور اس سے پہلے کہ وہ غضبناک جنگلی سور مجھ پر چڑھ بیٹھے اس نے اپنی ایک ہی گولی سے سور کی کھوپڑی میں سوراخ کر دیا۔ میں نے دیکھا کہ میرے دوست کے پاس اس کی نہیں بلکہ میری ذاتی رائفل تھی جس میں صرف تین ہی گولیاں تھیں اورمیرے ساتھی کو بھی اس کا علم نہیں تھا۔ اس لئے خدانخواستہ وہ تیسری گولی بھی چوک جاتی توہم میں سے کوئی ایک ضرور قبل از دقت خداکرپیارا ہو جاتا۔
بعد میں میرے دوست نے مجھے ان جنگی سوروں کے شکار کی نہ جانے ایسی کتیہ لرزہ خیز داستانیں سنا دیں۔ جنہیں اگر میں پہلے سن لیتا تو شاید اس جنگلی سور کے پاس جانے کی ہمت بھی نہ کرتا۔