پھر وہی خوف تھا۔۔۔!
بھائی صاحب کا خوف۔۔۔!!
وہ امریکہ چلے گئے تھے تو ارشد اس خوف کو یوں بھول گیا تھا جیسے آدمی گزری پریشانیوں کو فراموش کر دیتا ہے۔ پندرہ برس تک وہ ایک آزاد آدمی تھا۔ بےفکر، بے خوف آدمی۔
بھائی صاحب بالکل ابا جی ٹائپ تھے، لیکن ان سے زیادہ خطرناک۔ ان کی عقابی نگاہیں وہ سب دیکھ لیتی تھیں جو ارشد چھپانا چاہتا تھا۔ وہ جان لیتے تھے کہ کتابوں کے انبار میں ایک ناول چھپایا گیا ہے، رپورٹ کارڈ پر اباجی کے جعلی دستخط کئے گئے ہیں، اتوار کی دوپہر کرکٹ میچ نہیں ہوا بلکہ فلم دیکھی گئی ہے۔ ارشد کو تقریباً یقین تھا کہ انہیں الہام ہوتا ہے۔ یا ان کی دو نہیں، پندرہ بیس آنکھیں ہیں۔
جس روز وہ امریکہ روانہ ہوئے، اس دن ارشد نے اپنے دوستوں کو برنس روڈ پر مغزنہاری کھلائی اور باہر قطار میں اکڑوں بیٹھے تین غریب لوگوں کو کھانا کھلانے کے پیسے بھی ادا کئے۔
پندرہ برس بعد بھائی صاحب بیوی بچوں کے ساتھ واپس آئے تو سب کچھ بدل چکا تھا۔ اباجی کی قبر کی دوبار مرمت کرائی جاچکی تھی۔ اماں کے گھٹنے جواب دے چکے تھے۔ چھوٹو ماسٹرز کرکے بجلی کمپنی میں ملازم ہو چکا تھا اور خود ارشد کا بڑا بیٹا ساتویں جماعت میں پہنچ چکا تھا۔
صرف ایک چیز نہیں بدلی تھی۔ ارشد کا خوف۔۔۔! دل کے اندر کہیں پوشیدہ خوف۔۔۔ لہو کے ساتھ سارے بدن میں دوڑتا خوف۔۔۔ پورا، مکمل، توانا، بھرپور خوف۔۔۔!!
اگرچہ بھائی صاحب نے ایئرپورٹ پر ارشد کا ماتھا یوں چوما تھا جیسے کوئی باپ فخر سے اپنے جوان بیٹے کا ماتھا چوم رہا ہو اور اسے بھینچ کر سینے سے لگایا تھا اور کار میں سارے راستے اس کا ہاتھ تھام کر اباجی کی باتیں کرتے آئے تھے مگر وہ خوف اس کے باوجود موجود تھا۔
گھر پر جب اماں زاروقطار رونے کے بعد سنبھل چکیں تو بھائی صاحب نے ان کے زانو سے سراٹھایا اور پہلے چھوٹو کو، پھر ارشد کو دیکھا۔
’’جی، بھائی صاحب؟‘‘ ارشد گھبرا کر بولا۔
وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ ’’چلو۔‘‘ انہوں نے دھیمی آواز میں کہا۔
قبرستان میں وہ دیر تک لوح کو دیکھتے رہے۔ چھوٹو اور ارشد کی نظریں بھائی صاحب پر جمی تھیں۔
’’وقت کیسے گزر جاتا ہے۔۔۔‘‘ وہ بولے۔
’’جی، بھائی صاحب۔‘‘ چھوٹو نے آہستہ سے کہا۔
بھائی صاحب نے لوح پر ہاتھ پھیرا۔ ’’گیارہ برس۔‘‘ انہوں نے کہا۔۔۔’’کتنا وقت لگا مجھے اباجی کے پاس آنے میں۔ تم دونوں کے مقابلے میں میرا نصیب کتنا خراب رہا۔۔۔‘‘
’’ایسا مت کہئے بھائی صاحب۔‘‘ ارشد نے کہا۔ ’’آپ کی مدد نہ ہوتی تو اباجی کا اتنا اچھا علاج۔۔۔‘‘
’’مدد۔۔۔!‘‘ بھائی صاحب نے کہا۔ ’’کیا ایک باپ کو صرف پیسے کی مدد درکار ہوتی ہے۔۔۔؟‘‘
قبرستان میں خاموشی تھی۔ صرف نیم کے پتوں کی سرسراہٹ اور دور سے کسی ہینڈپمپ کی آواز۔
بھائی صاحب نے ارشد کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا۔ ’’اچھا کیا، قبر پکی کروادی۔۔۔‘‘
’’جی، بھائی صاحب۔‘‘ ارشد نے کہا۔ بھائی صاحب نے کبھی اس کے کاندھے پر ہاتھ نہیں رکھا تھا۔
واپسی کے سفر میں تینوں خاموش رہے۔
گھر میں گھستے ہی بھائی صاحب نے جیسے کوئی چولا اتار پھینکا۔۔۔ ’’اماں۔۔۔‘‘ انہوں نے چلّا کر کہا۔ ’’بھوک سے تڑپ رہا ہوں اماں۔۔۔‘‘
لمحہ بھر میں پورا گھر جیسے جاگ اٹھا۔ ارشد نے خوشی کی ایک لہر کو بھائی صاحب کے وجود سے پھوٹتے اور اماں کی آنکھوں میں نمی بن کر جھلکتے دیکھا اور وہ ہکا بکا کھڑا رہ گیا۔ اور اسے اچانک احساس ہوا کہ بہت دنوں بعد۔۔۔ برسوں بعد گھر، وہی پرانا گھر بن گیا ہے۔ اماں ہیں اور بھائی صاحب ہیں اور اِردگرد زندگی کے ہزار طرح کے معاملات ہیں جن میں وہ ایک بےفکرے، ذمہ داریوں کے بوجھ سے آزاد چھوٹے بھائی کی طرح حصّہ لے سکتا ہے۔ چالیس سال کی عمر کے باوجود نوعمری کا ذائقہ چکھ سکتا ہے۔
خاندان میں ایک جشن سا برپا ہو گیا۔ دعوتیں، ملاقاتیں، قہقہے، اجتماعی غیبتیں، پرانے قصے۔ بھائی صاحب اور بھابھی جان بے حد خوش نظر آتے تھے۔ ارشد کی بیوی ان دونوں کو بہت پسند آئی تھی اور وہ اسے ہر جگہ ساتھ لیے پھرتے تھے۔
چھٹے یا ساتویں دن بھائی صاحب نے کھانے کی میز سے اٹھتے ہوئے ارشد سے کہا۔۔۔ ’’تھوڑی دیر کے بعد اماں کے کمرے میں آ جانا۔ ضروری بات کرنی ہے۔‘‘
ارشد کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ کیا بات کرنی ہے۔؟ اس نے سوچا۔ کیا گڑبڑ ہو گئی ہے۔۔۔؟ خوف کی وہی پرانی پرچھائیں ایک بہت بڑا سیاہ عفریت بن کر قہقہے لگانے لگی۔ ارشد کو اپنے اوپر غصہ آیا۔ حد ہو گئی۔
وہ سب سے آخر میں پہنچا۔ کمرے میں سب بیٹھے ہوئے تھے۔ اماں بستر پر تھیں۔ بھائی صاحب پائینتی پر آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے۔ بھابھی جان، ارشد کی بیوی، چھوٹو۔
ارشد نے کرسی پر بیٹھنے کے بعد بھائی صاحب کو غور سے دیکھا۔ ان کے چہرے سے صورتحال کا اندازہ لگانے کی کوشش کرنا ارشد کے لیے ہمیشہ ایک لاحاصل مشق ثابت ہوا تھا۔
بھائی صاحب نے ایک نظر اماں پر ڈالی، بھابھی جان کو دیکھا، انگلیاں چٹخائیں اور کہا۔۔۔ ’’ارشد، بات چھوٹی سی ہے، مگر تمہارے سامنے کرنی ضروری ہے۔۔۔‘‘
ارشد کا حلق خشک ہو گیا۔ ’’جی، بھائی صاحب۔‘‘ اس نے بمشکل کہا۔
’’تم اب اس گھر کے سربراہ ہو ارشد۔‘‘ بھائی صاحب نے کہا۔ ’’اباجی کے بعد تم نے جس طرح گھر کو سنبھالا ہے۔۔۔ تم نے اور عذرا نے ۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تمہیں کیسے داد دوں۔۔۔‘‘
’’کیسی باتیں کر رہے ہیں بھائی صاحب۔‘‘ ارشد کو سینے سے کوئی بوجھ اٹھتا محسوس ہوا۔
بھائی صاحب نے کہا۔ ’’نہیں۔ میں غلط نہیں کہہ رہا ہوں۔ تم نے وہ کیا، جو دراصل مجھے کرنا تھا۔ تقدیر شاید اسی کو کہتے ہیں۔ میں کچھ نہ کر سکا اور تم نے خود کو گھر کا سربراہ ثابت کر دیا‘‘۔
بھابھی جان ہنسیں۔ ’’بھئی، آپ سیدھی سی بات کو کتنا ڈرا مائی بنا دیتے ہیں۔۔۔‘‘
ارشد کو یوں لگا جیسے اس کے بدن میں توانائی آتی جا رہی ہو۔ اس نے کہا۔‘‘ بھابھی جان۔ آپ ہی بتادیں۔ بھائی صاحب تو اصل بات تک آتے آتے صبح کر دیں گے۔‘‘
بھائی صاحب مسکرائے۔ ’’مختصر سی بات یہ ہے اماں۔‘‘ انہوں نے اماں کا ہاتھ تھام کر کہا۔۔۔ ’’کہ میں چھوٹو کی شادی کرنا چاہتا ہوں۔ پندرہ دن کے اندر اندر۔!‘‘
چھوٹو نے گھبرا کر کہا۔ ’’کیا۔۔۔؟‘‘
کمرے میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ سب ایک ساتھ زور زور سے بولنے لگے۔ ارشد کا دل چاہا کہ اٹھ کر رقص کرنا شروع کر دے۔ سارا خوف پل بھر میں غائب ہو گیا تھا۔ اتنی سی بات تھی۔ اس نے سوچا اور مسکرایا۔
بھائی صاحب نے کہا۔۔۔ ’’چھوٹو۔۔۔ کوئی لڑکی پسند ہے تو صاف صاف بتادو۔ ورنہ میں ایک لڑکی پسند کرآیا ہوں۔ بہت اچھی لڑکی ہے۔ خاندان بھی بہت اچھا ہے۔‘‘
چھوٹو نے کہا۔ ’’بھائی صاحب۔ شادی۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔‘‘
بھابھی جان بولیں۔ ’’ان کے دوست کی چھوٹی بہن ہے۔ وہیں ہیوسٹن میں وکالت کرتی ہے۔ لڑکی بہت ہی اچھی ہے۔ بالکل پاکستانی۔ ایسی ڈاؤن ٹوارتھ کہ یقین نہیں آتا۔۔۔‘‘
’’چھوٹو۔‘‘ بھائی صاحب نے کہا۔ ’’سارا کھیل تمہاری مرضی کا ہے۔ اس لڑکی سے شادی کرو، یا کوئی اور لڑکی بتادو۔ شادی پندرہ دن میں ہی ہوگی۔ میرے واپس جانے سے پہلے پہلے۔۔۔‘‘ وہ بولتے بولتے لمحہ بھر کو رکے اور انہوں نے ارشد کی طرف دیکھا۔۔۔ ’’اور بات صرف شادی کی ہی نہیں ہے ارشد۔ میں چاہتا ہوں کہ ۔۔۔ اگر تمہیں کوئی اعتراض نہ ہو تو۔۔۔میں چھوٹو کو امریکہ بلوانا چاہتا ہوں۔۔۔!‘‘
ارشد خاموش بیٹھا رہا۔ وہ جانتا تھا کہ بھائی صاحب کے دل میں کیا ہے۔ اس گھر کے لیے گھر والوں کے لیے کچھ کرنے کی خواہش۔ کچھ ذمہ داریاں تاخیر سے پوری کرنے کی آرزو۔ شاید کو ئی احساس جرم۔
بھائی صاحب نے آہستہ سے کہا۔۔۔ ’’میں کچھ دن اماں کو بھی ساتھ رکھنا چاہتا ہوں۔ چار چھ مہینے۔ یا سال۔ جتنی دیر اماں رہ سکیں۔ تمہاری اجازت سے۔۔۔‘‘
ارشد نے سب کی نظروں کو خود پر مرکوز پایا اور گھبرا کراپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ بھائی صاحب کا یہ روپ بالکل انوکھا تھا۔ ارشد انہیں ایک سخت گیر حکمراں کی حیثیت سے جانتا تھا۔ ایک جابر تھانیدار، جسے ملزموں کی قطار کے سامنے ٹہلنے میں بڑا لطف آتا تھا۔ یہ درخواست کرنے کا انداز بالکل اجنبی تھا۔ شاید بھائی صاحب کی شخصیت کے بہت سے پہلو اس کی نگاہوں سے پوشیدہ تھے۔
’’بھائی صاحب۔‘‘ ارشد ہنسا۔ ’’آپ حکم دیتے ہوئے ہی اچھے لگتے ہیں۔ اجازت مانگتے ہوئے تو آپ۔۔۔ بس، عجیب سے لگتے ہیں۔ کیوں چھوٹو؟۔۔۔ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟‘‘
چھوٹو نے گڑبڑا کر کہا۔ ’’جی۔۔۔؟ جی ہاں۔۔۔ پتا نہیں۔۔۔‘‘
اگلے پندرہ دن یوں گزرے جیسے کوئی ٹرین طوفانی رفتار سے اڑتی چلی جارہی ہو۔ امریکہ سے لمبی لمبی ٹیلی فون کالز۔ شادی ہال کی تلاش۔ گھر میں رنگ روغن۔ شادی کارڈ۔ رشتہ داروں کی فہرستیں۔ جوڑے۔ زیورات۔ کسی علاقے کے کارڈ کون پہنچائےگا۔ بھائی صاحب چھوٹی سے چھوٹی تفصیل بھی نوٹ کرتے جا رہے تھے۔
شادی کارڈز کا ڈھیر دیکھتے دیکھتے انہوں نے کہا۔۔۔ ’’آدھے سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جنہیں میں نہیں جانتا۔ خیر۔ ٹھیک ہے۔ پندرہ سال خاندان سے دور رہنے کی کچھ سزا تو ہونی چاہئے۔۔۔‘‘
اماں بولیں۔۔۔’’سب تجھے جانتے ہیں۔‘‘
ارشد ہنسا۔۔۔ ’’ بڑی دہشت ہے بھائی صاحب، آپ کی۔۔۔ آخر امریکہ میں رہتے ہیں آپ۔۔۔‘‘
’’یہ کون ہیں۔۔۔؟‘‘ بھائی صاحب نے شادی کارڈ دیکھتے دیکھتے کہا۔ ’’زاہد حسین خان۔۔۔‘‘
’’گڑیا خالہ کے میاں ہیں۔‘‘ اماں نے کہا۔۔۔ ’’میر پور خاص والے۔۔۔‘‘
بھائی صاحب کچھ دیر سوچتے رہے۔ پھر انہوں نے سرجھٹک کر کہا۔ ’’اچھا، ہوں گے۔۔۔‘‘
دروازہ کھلا اور ارشد کی بیوی چائے کی ٹرے لیکر اندر داخل ہوئی۔
’’اوریہ کون ہیں۔؟‘‘بھائی صاحب نے ایک اور کارڈ کو دیکھا۔ ’’مسز فاخرہ نیازی مع اہل خانہ۔۔۔‘‘
ارشد کی بیوی نے ایک مگ میں چینی ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔ ’’ان کی آفس کو لیگ ہے۔۔۔‘‘
ارشد نے اپنے دل پر خوف کا وہی سایہ منڈلاتا محسوس کیا۔
’’کن کی۔۔۔؟‘‘ بھائی صاحب مسکرائے۔ ’’ارے بھائی، اپنے شوہر کا نام کیوں نہیں لیتی ہو۔؟ سیدھا سا سوال پوچھو تو جواب ملتا ہے، ان کی آفس کولیگ ہے۔۔۔‘‘
’’مارکیٹنگ منیجر ہے بھائی صاحب۔‘‘ ارشد نے ٹرے سے مگ اٹھاکر اماں کو دیتے ہوئے کہا۔ لمحہ بھر کو اسے یوں لگا جیسے بھائی صاحب اسے دیکھ رہے ہیں۔ مگر اس نے نظر یں اٹھائیں تو بھائی صاحب پھر کارڈز پلٹنے میں مصروف ہو چکے تھے۔
’’اسلم مرزا۔۔۔‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’یہ وہ نہیں ہیں، جن کی ورکشاپ تھی مین روڈ پر۔۔۔؟‘‘
اماں کا ہنستے ہنستے برا حال ہو گیا۔ ’’بالکل باؤلا ہو گیا ہے تو۔۔۔ ارے، یہ تیرے چچا سسر ہیں۔ بہو نے نام لکھوایا تھا ان کا۔ شکر کر، وہ کمرے میں نہیں ہے۔ ورنہ ابھی معافیاں مانگ رہا ہوتا۔۔۔‘‘
بھائی صاحب نے سارے کارڈ سمیٹ کر میز پر رکھ دیئے۔۔۔ ’’ٹھیک کہتی ہو اماں۔ اس عمر میں ایسا خطرہ مول نہیں لینا چاہئے۔۔۔‘‘
دیکھتے ہی دیکھتے شادی کا وقت آن پہنچا۔
چار دن کا مسلسل ہنگامہ۔ مہمان، کھانے، استقبالیہ جملے، گاڑیوں کا بندوبست، ڈھولک کی تال پر بےسرے گیت جن کا کوئی سر پیر نہ تھا، بوڑھے رشتہ داروں کے شکوے، اماں کی فرمائشیں، بھائی صاحب کے عجیب وغریب احکامات۔ ارشد ہر رات تھکن سے چور بدن کو گھسیٹتا ہوا بستر تک لے جاتا تھا اور گرتے ہی سو جاتا تھا۔
ولیمہ کی تقریب ختم ہوئی تو ارشد نے اطمینان کا سانس لیا۔ یہ آخری امتحان تھا۔ کھڑے کھڑے اس کی پنڈلیوں میں درد ہو رہا تھا مگر وہ ہال کے گیٹ پر کھڑا مہمانوں کو رخصت کرتا رہا۔ بھائی صاحب کسی فیملی کو رخصت کرنے کے لیے ان کے ساتھ ساتھ گیٹ تک آئے تو اسے دیکھ کر مسکرائے۔ وہ فیملی ایک ٹوٹی چھوٹی سفید کار میں بیٹھ کر رخصت ہوئی تو بھائی صاحب نے اس سے کہا۔ ’’پیناڈول کھا لینا۔ ٹانگوں کا درد ٹھیک ہو جائےگا۔‘‘
ارشد بھونچکا رہ گیا۔ بھائی صاحب نے وہ بات جان لی تھی جو پانچ سو مہمانوں میں سے کوئی نہ جان سکا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’آپ کی نظر اب تک بہت تیز ہے بھائی صاحب۔۔۔‘‘
بھائی صاحب نے اسے غور سے دیکھا۔ ارشد کو یوں لگا جیسے وہ کچھ کہتے کہتے رک گئے ہوں۔
ایک لمحے کو۔۔۔ بس، ایک لمحے کو ارشد نے اپنے آپ کو اسی پرانے خوف کے مقابل پایا۔ بھائی صاحب کا چہرہ اور ان کی آنکھیں اور ان کی پوری بدن بولی جیسے کچھ کہہ رہی تھی۔ کوئی اشارہ دے رہی تھی۔ مگرپل بھر میں سب کچھ بدل گیا۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی اور انہوں نے کہا۔۔۔ ’’نظر کا نہیں، بڑھتی ہوئی عمر کا کمال ہے۔ تم سے دس سال بڑا ہوں، میری ٹانگوں میں زیادہ درد ہو رہا ہے۔ سمجھے۔۔۔؟‘‘
اندر سے دو لڑکے کیمرے اور لائٹیں اٹھائے، نمودار ہوئے۔ ’’اچھا جی۔ ہمارا کام تو ختم ہو گیا۔ وڈیو چاردن بعد ملےگی۔۔۔‘‘
پیچھے پیچھے کیٹرنگ والا تھا۔ ’’گھر والوں کا کھانا لگا دیا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’ذرا جلدی جمع کر لیں سب کو۔ دیر ہو رہی ہے۔۔۔‘‘
گھر پہنچنے کے بعد پھر میلہ لگ گیا۔ چائے بنانے کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ لاؤنج کے قالین پر اخبار بچھا کر مونگ پھلیوں کا ڈھیر سجا دیا گیا۔ آثار بتارہے تھے کہ ابھی تین چار گھنٹے تک محفل جمےگی۔ ارشد نظر بچا کر نکلنے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا کہ بھائی صاحب پانی سے بھرا گلاس اور دو گولیاں لے کر اس کے پاس آ گئے۔
’’کیا کرتے ہیں بھائی صاحب۔۔۔‘‘ ارشد نے کہا۔۔۔ ’’میں خود کھا لیتا۔۔۔‘‘
بھائی صاحب نے اسے گولیاں تھما کر کہا۔ ’’تھکن بھی ختم ہوجائے گی اور نیند بھی۔۔۔‘‘ ان کے لہجے میں کچھ اداسی تھی۔ اور کچھ تھکن۔ ’’چار پانچ دن میں واپس جانا ہے یار۔۔۔ پھر یہ سب کہاں دیکھنے کو ملےگا۔‘‘
ارشد نے گولیاں نگل کر کہا۔۔۔ ’’ایسی ڈپریشن والی باتیں مت کریں بھائی صاحب۔ کچھ دنوں بعد اماں آپ کے پاس آجائیں گی۔ پھر شاید چھوٹو بھی۔۔۔‘‘
بھائی صاحب اس کے پاس ہی بیٹھ گئے۔ ’’سب کوششیں ہوتی ہیں یار۔ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی کوششیں۔ تم سب لوگ وہاں آبھی جاؤ تو بھی بات نہیں بن سکتی۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہاں زندگی بہت مختلف ہے۔ یہ گھر،یہ زندگی، یہ رونق جوں کی توں وہاں نہیں جا سکتی۔‘‘
ارشدنے آہستہ سے کہا۔ ’’آدمی کو سب کچھ نہیں ملتا بھائی صاحب۔۔۔‘‘
بھائی صاحب نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ ’’تم بڑے ہوگئے ہو ارشد۔ مجھے بہت خوشی ہوئی ہے اتنے برسوں بعد تمہیں دیکھ کر، جان کر۔۔۔‘‘
’’چالیس سال کا ہوگیا ہوں بھائی صاحب۔۔۔‘‘
’’ہاں! یہ بھی ہے۔ مگر بعض لوگ عمر کے ساتھ بڑے نہیں ہو پاتے۔ تمہارے کیس میں ایسا نہیں ہوا۔ شاید اباجی کے رُخصت ہو جانے کے سبب۔ یا شاید تمہیں سمجھ دار ہی پیدا کیا گیا تھا۔ سب کچھ حاصل کر لیا تم نے۔ ایک اچھی فیملی۔ ایک اچھا کیریئر۔ گھر، گاڑی، عزت۔ میں آج دیکھ رہا تھا، لوگ تمہیں پسند کرتے ہیں۔ تمہارے دفتر والے، خاندان والے، محلے والے۔ تم سوچ نہیں سکتے، آج میں کتنا مطمئن ہوں۔۔۔‘‘
ارشد ہنسا۔۔۔ ’’بہت کچھ مل جاتا ہے بھائی صاحب، سب کچھ پھر بھی نہیں ملتا۔ ہر آدمی کے اپنے خواب ہوتے ہیں۔ کامیابیوں کے اپنے پیمانے ہوتے ہیں۔۔۔‘‘ وہ اور بھی کچھ کہنا چاہتا تھا مگر رک گیا۔
بھائی صاحب اسے پھر غور سے دیکھ رہے تھے۔
ارشد ان کی نظر خوب پہچانتا تھا۔ یہ وہی نظر تھی جو دل میں گھبراہٹ پیدا کردیتی تھی۔ کوئی خدشہ بدن کے اندر کہیں بیدار ہونے لگتا تھا۔ نہ جانے وہ کیا کہنے والے ہیں۔ نہ جانے کیا منظر عام پر آنے والا ہے۔
دوسرے کمرے میں بچوں نے ٹیپ ریکارڈر آن کر دیا تھا۔ کسی بھارتی گانے کی دُھن پر رقص شروع ہو گیا تھا۔ بھابھی جان قالین پر سوئی ہوئی ایک بچی کو پھلانگ کر آئیں اور چائے کے دو مگ انہیں تھما کر بولیں۔۔۔ ’’دونوں بھائی کان کھول کر سن لیں۔ اس کے بعد چائے نہیں ملےگی۔ غضب خدا کا، دیگ بھر کر چائے بنانی پڑتی ہے۔۔۔‘‘ وہ جس تیزی سے آئی تھیں، اسی تیزی سے واپس چلی گئیں۔
بھائی صاحب اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔ ’’آؤ۔ اوپر چلتے ہیں۔۔۔‘‘
ان کے پیچھے پیچھے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ارشد بے یقینی کی کیفیت میں تھا۔ شاید وہ کوئی بات کرنا چاہتے تھے۔ یا شاید یونہی تنہائی میں اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ بیٹھنا چاہتے تھے۔ اسے اپنے اوپر پھر غصّہ آیا۔ چالیس سال کی عمر میں پچاس سالہ بھائی کا خوف۔ کوئی سنے تو ہنستے ہنستے پاگل ہو جائے۔
کمروں سے گزر کر وہ پہلی منزل کے کھلے ٹیرس میں آ گئے جسے شیشے کا ایک سلائڈنگ دروازہ باقی گھر سے الگ کرتا تھا۔ کرسیوں پر میلے کپڑوں اور تولیوں کے ڈھیر تھے۔ ارشد نے انہیں اٹھا کر ایک کونے میں ڈال دیا۔ اوندھی پڑی ہوئی پلاسٹک کی میز کو سیدھا کیا اور کرسیاں اپنی جانب کھسکائیں۔
بھائی صاحب نے شیشے کا دروازہ بند کر دیا۔
ارشد نے بیٹھنے کے بعد اپنی پوری ہمت مجتمع کرکے کہا۔۔۔ ’’مجھے یوں لگتا ہے بھائی صاحب، جیسے آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔‘‘
بھائی صاحب نے چائے کا گھونٹ بھر کر مگ میز پر رکھ دیا۔ کچھ دیر وہ مگ کو غور سے دیکھتے رہے۔ یوں جیسے کچھ سوچ رہے ہوں۔ پھر وہ بولے۔ ’’ہاں! میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ مگر سمجھ میں نہیں آرہا کہ تم سے یہ بات کروں یا نہ کروں۔۔۔‘‘
دل میں پھیلتی گھبراہٹ کے باوجود ارشد کو حیرت ہوئی۔ بھائی صاحب اور یہ تذبذب۔۔۔!
بھائی صاحب نے کہا۔۔۔ ’’پتا نہیں، تم اس محبت کو سمجھ پاؤگے یا نہیں، جو میں تم سے کرتا ہوں۔ برسوں سے کرتا آیا ہوں۔ میں دس سال کا تھا جب تم پیدا ہوئے تھے۔ ایک ننھا سا کھلونا، جو شوخ رنگ کے کپڑوں میں لپٹا رہتا تھا اور مسکراتا رہتا تھا۔۔۔‘‘ ان کی آواز میں گئے دنوں کی یاد گونجتی تھی۔ ’’ایک بہت چھوٹا سا بچہ، جس کے پاس میں گھنٹوں بیٹھا رہتا تھا، اس سے کھیلتا رہتا تھا۔۔۔ وہ اٹھ کر بیٹھنے لگا۔۔۔ پھر چلنے لگا۔۔۔ کبھی میرا ہاتھ تھام کر۔۔۔ کبھی میری قمیص پکڑ کر۔۔۔‘‘
ارشد خاموش بیٹھا رہا۔
بھائی صاحب نے کہا۔۔۔ ’’میں ان دنوں سب کچھ بھول گیا تھا۔ گھر سے باہر جانا بھی۔۔۔ کھیل کود بھی۔۔۔ دوستوں کو بھی۔۔۔ بس، تم تھے اور تمہیں اپنے ساتھ، اپنی حفاظت میں رکھنے کا کام تھا جو ہر وقت یاد رہتا تھا۔ مہینے گزرتے گئے۔ سال گزرتے گئے۔ مگر میری وہ توجہ ختم نہیں ہوئی۔ بات عجیب سی ہے مگر سچ یہ ہے کہ میں نے ان گزرے چالیس برسوں میں تمہیں اپنا چھوٹا بھائی نہیں سمجھا۔ میرے لیے تم ایک بیٹے کی طرح تھے اور میں وہ باپ تھا جسے تمہارا خیال رکھنا تھا۔ غور کرو۔۔۔ گزری باتوں کو یاد کرو تو تمہیں قدم قدم پر ایک ایسا بڑا بھائی نظر آئےگا جو زندگی کے ڈرامے میں باپ کا رول ادا کر رہا ہے۔ یہ کردار میں نے خود منتخب کیا تھا۔۔۔ اور خود ہی نبھایا۔ نہ جانے یہ کیا تھا۔ کوئی نفسیاتی ٹیڑھ تھی۔ یا کوئی کمپلیکس۔ جو بھی تھا، تمہارے جوان ہونے تک یونہی چلتا رہا۔ کیونکہ تم نے بھی اسے قبول کرلیا تھا۔ تمہارے لیے ابا جی سے زیادہ اہم میں تھا۔ میرے سامنے سرخرو ہونا، مجھ سے ڈرنا، میری بات ماننا، پریشانی میں مجھ سے مدد طلب کرنا۔۔۔ تم نے ساری زندگی یہی کیا۔۔۔‘‘
ارشد حیران بیٹھا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کو کبھی اس نئے زاویہ سے نہیں دیکھا تھا۔ ذرا سی دیر میں بھائی صاحب نے جیسے گتھی سلجھا دی تھی۔ ہر چیز، ہر واقعہ، ہر رویہ۔۔۔ سب کچھ اپنی جگہ فٹ ہوتا جاتا تھا۔
بھائی صاحب کی نگاہیں کھلے ٹیرس سے نظر آنے والے تاریک آسمان کی جانب تھیں۔ ’’تم پر نظر رکھنا، ہمیشہ میری ڈیوٹی رہی۔ کہیں تم بگڑنہ جاؤ۔۔۔ کہیں غلط راستوں پر نہ چل پڑو۔۔۔ کہیں تمہیں نقصان نہ ہو جائے۔۔۔ باپ کے دل میں کیسے کیسے خدشات ہوتے ہیں، یہ میں نے بہت کم عمری میں جان لیا تھا۔ آج پلٹ کر دیکھتا ہوں تو خود مجھے بھی حیرت ہوتی ہے۔ میں کبھی ذمہ دار شخص نہیں رہا۔ لاپرواہی میری عادت رہی ہے۔ اباجی کے انتقال پر بھی میں نہیں آیا۔ میں اسی ٹائپ کا۔۔۔ اسی طرح کا ہوں۔۔۔ مگر تمہارا معاملہ بالکل الگ۔۔۔ بالکل مختلف تھا۔ تم میری سب سے بڑی ذمہ داری تھے۔‘‘ وہ ہنسے۔ ’’زبردستی کی ذمہ داری جو میرے لیے زندگی اور موت جیسا مسئلہ تھی۔ یہ باتیں میں نے کبھی کسی سے نہیں کہیں۔۔۔ کسی سے بھی نہیں۔ تم پہلے آدمی ہو۔۔۔ اور شاید آخری بھی ۔۔۔ سمجھ رہے ہونا۔۔۔؟‘‘
ارشد نے کہا۔۔۔ ’’جی، بھائی صاحب۔‘‘
بھائی صاحب میز پر رکھے چائے کے خالی مگ کو ایک انگلی سے کبھی دائیں، کبھی بائیں کھسکا رہے تھے۔ ’’تمہیں شاید حیرانی ہوگی۔۔۔ امریکہ جاکر بھی میری ڈیوٹی ختم نہیں ہوئی۔ میں نے ایک ایک پل کی خبر رکھی۔ تمہارے ایک ایک پل کی۔ تم خود شاید اپنے گزرے سالوں کے بارے میں بہت کچھ بھول چکے ہوگے۔ مگر مجھے سب یاد ہے۔ ہر بات، ہر معاملہ۔۔۔ بہت محنت کرنی پڑی مجھے اس پر۔۔۔ وہاں، امریکہ میں زندگی یوں بھی بہت سخت ہوتی ہے۔ مگر یہ امتحان اس سے بھی زیادہ کڑا تھا۔ ہزاروں میل دور بیٹھ کر تمہیں نظر میں رکھنے کا امتحان۔۔۔‘‘
برسوں پرانے، بھولے بسرے نہاں خانوں سے ایک یاد نکلی اور ارشد کے سامنے آکر بیٹھ گئی۔ اس روز ارشد کی جیب کٹ گئی تھی۔ پوری تنخواہ۔۔۔ ٹھیک ہے، آٹھ ہزار روپے ہی تھے۔ مگر ان دنوں آٹھ ہزار روپے بہت ہوتے تھے۔ ارشد کو یاد آیا، اس نے اماں کو اس سانحے کی خبر نہیں دی تھی۔ دو دن بعد بھائی صاحب کا فون آ گیا تھا۔ ریسیور میں سے ان کی آواز کٹ کٹ کر آ رہی تھی۔ ’’ناصر تمہیں دس ہزار روپے دے جائےگا آفس میں۔۔۔ تمہارے لیے ہیں۔۔۔ فضول خرچی مت کرنا۔۔۔‘‘
بھائی صاحب نے کہا۔۔۔ ’’تم وہ سب کچھ بن گئے جس کی میں نے آرزو کی تھی۔ کامیاب، ایماندار، خوش مزاج، حوصلہ مند۔۔۔ پھر بھی میں تمہیں دیکھتا رہا۔ جیسے آدمی اپنی تخلیق کو دیکھتا رہتا ہے۔۔۔ بے سبب دیکھتا رہتا ہے۔۔۔ بے سبب خوش ہوتا رہتا ہے۔۔۔‘‘
ارشد کے دل کے اندر کہیں وہی خوف انگڑائی لے کر بیدار ہونے لگا۔۔۔! کوئی ہولناک بات رونما ہونے والی ہے۔ کوئی اس کے کانوں میں سرگوشی کر رہا تھا۔ آہستہ آہستہ دُہرائے جا رہا تھا۔
بھائی صاحب اٹھ کھڑے ہوئے۔ دو قدم آگے بڑھ کر انہوں نے ٹیرس کے باہر اندھیرے میں دیکھا۔ یوں جیسے کچھ تلاش کررہے ہوں۔ ارشد کو یوں لگا جیسے وہ جان بوجھ کر دوسری جانب دیکھ رہے ہوں۔ روبرو ہونے سے گریزاں۔
نیم اندھیرے اور سناٹے میں ان کی آواز ہوا کے دوش پر تیرتی ہوئی آئی۔۔۔ ’’یہ جو فاخرہ نیازی ہے۔ تمہاری مارکیٹنگ منیجر۔ اس کے شوہر کا انتقال کب ہوا۔۔۔؟‘‘
ارشد کو یوں لگا جیسے وہ سڑک پر چلتے چلتے کسی دھماکے کی زد میں آ گیا ہو۔ ایک مہیب، لرزہ خیز دھماکا۔۔۔ چیتھڑوں کی طرح اڑتے بدن۔۔۔ اور ہر جانب سانس بند کر دینے والا غبار۔۔۔
’’پانچ چھ سال ہوئے ہیں بھائی صاحب۔۔۔‘‘ اس نے اپنے ہاتھوں کی کپکپاہٹ پرقابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے سرسری سے انداز میں کہا۔۔۔ ’’ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا کار کا۔۔۔‘‘
اندیشوں کے ہزاروں ناگ ہر جانب پھنکار رہے تھے۔ ارشد نے یاد کرنے کی کوشش کی۔ ولیمے کی تقریب میں بھائی صاحب نے سب سے ملاقات کی تھی۔۔۔ سارے آفس والوں سے۔۔۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر صاحب کے کان میں کوئی سرگوشی بھی کی تھی اور دونوں قہقہہ مار کر ہنسے تھے۔ سب سے فرداً فرداً سلام دعا۔۔۔ ہر منظر دھیرے دھیرے اس کے سامنے سے گزر رہا تھا۔۔۔ نورین، امجد، بلال، عبداللہ۔۔۔بھائی صاحب کہہ رہے تھے۔۔۔ بھئی، یہ تو خاندان میں سب سے نالائق ہے۔۔۔ تمہاری کمپنی میں اتنی ترقی کیسے کر گیا۔۔۔ بہت سارے قہقہے۔۔۔ فاخرہ نے بھی سلام کیا تھا۔۔۔ اپنا نازک سا ہاتھ اٹھا کر۔۔۔ آداب، بھائی صاحب۔۔۔ بھائی صاحب نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا تھا۔۔۔ اتنی بہت سی لڑکیوں میں سے صرف فاخرہ کے سر پر۔۔۔ مگر اسی وقت وہ طفیل سے کچھ کہہ رہے تھے۔ کمپنی کے بارے میں کوئی بات۔ فاخرہ کو بھائی صاحب نہیں کہنا چاہئیے تھا۔۔۔ بھائی جان کہنا چاہئیے تھا۔۔۔ ہزاروں خیالات تھے جو بیک وقت یلغار کر رہے تھے۔
’’کبھی کبھی آدمی کی زندگی اسے ایسے امتحان میں ڈال دیتی ہے ارشد۔‘‘ بھائی صاحب نے باہر اندھیرے کو گھورتے ہوئے کہا۔۔۔ ’’جو خود ہماری طاقت سے بڑا ہوتا ہے۔ پتا نہیں، تم سمجھ پاؤگے یا نہیں۔ جیسے کوئی پرندہ اڑتے اڑتے اچانک فیصلہ کرے کہ اسے چاند کو چھوکر آنا ہے۔ یا جیسے کوئی بوڑھا، لاغر جسم بے پناہ وزن اٹھانے کی کوشش کرے۔ آدمی ہمیشہ ایسا ہی بےخبر ہوتا ہے۔ دیکھنے میں بہت عام سی بات ہوتی ہے۔ کوئی چھوٹی سی ملاقات۔ کوئی مختصر سی گفتگو اور ایک طوفان سا برپا ہو جاتا ہے۔ آدمی کا دل کہتا ہے، یہ وہی ہے۔۔۔ وہی ہے جس کی مجھے تلاش تھی۔ جسے میں زمینوں، آسمانوں میں ڈھونڈتا پھرتا تھا۔ کبھی وہ کوئی چہرہ ہوتا ہے۔۔۔ کبھی آنکھیں۔۔۔ کبھی مسکراہٹ۔۔۔ کبھی ذہانت۔۔۔ کبھی حاضر جوابی۔۔۔ کبھی کوئی اور ادا۔۔۔‘‘
ارشد کا دل سینے کے زنداں میں کسی وحشی کی طرح سر پٹخ رہا تھا۔ اس نے کہا۔۔۔ ’’بھائی صاحب، میرا خیال ہے کہ۔۔۔‘‘
بھائی صاحب نے اس کی بات جیسے سنی ہی نہ تھی۔۔۔ ’’وہ کیمسٹری پہلی ملاقات میں ہی صاف نظر آ جاتی ہے۔ مرد کو بھی اور عورت کو بھی۔ اِردگرد کے لوگوں کو ساری زندگی نظر نہیں آتی۔ یہ خوش نصیبی ہوتی ہے ارشد۔۔۔ مقدر والوں کو ملتی ہے۔ اربوں انسانوں سے بھری اس دنیا میں ایک فیصد سے بھی کہیں کم لوگوں کو۔۔۔ ریسرچ یہی بتاتی ہے۔۔۔ مگر ریسرچ یہ نہیں بتاتی کہ اس کے بعد کیا ہوتا ہے۔۔۔‘‘
ارشد ایک بےمنزل مسافر کی طرح تھا۔ کہاں جانا ہے۔۔۔؟ کس جانب رخ کرنا ہے۔۔۔؟ بھائی صاحب کی نظر ہمیشہ سے تیز تھی۔ مگر اتنی تیز۔۔۔؟ کب سے جمع کررہے تھے وہ یہ ساری معلومات۔۔۔؟ اس نے پوری اعصابی قوت کی مدد سے اپنے حواس بحال کئے اور کہا۔۔۔ ’’مجھے لگتا ہے آپ کو میرے بارے میں کوئی سنگین غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘
بھائی صاحب نے گردن گھما کر اس کی طرف دیکھا۔
بدن کی ہر پور میں خوف کی سرسراہٹ کے باوجود ارشد پوری استقامت سے انہیں دیکھتا رہا۔ نظر نہیں جھکانی ہے۔ اس نے اپنے آپ سے کہا۔ نظر جھکانے کا مطلب ہے اعتراف جرم۔
’’میں تمہاری بات نہیں کر رہا ہوں۔۔۔‘‘ بھائی صاحب پھر باہر کی تاریکی کو دیکھنے لگے۔۔۔ ’’یہ ایک عام سی بات ہے۔ سیدھے سادے فارمولے۔ کوئی بھی آدمی زندگی کے اس کڑے امتحان کی زد میں آ سکتا ہے۔ وہ عورت کسی بھی موڑ پر۔۔۔ کسی بھی راستے پر مل سکتی ہے۔ بس، ایک جھماکا ہوتا ہے اور۔۔۔ اور سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ ساری خواہشیں، تمام امنگیں غیر اہم ہو جاتی ہیں۔ آدمی کو اگر یاد رہتا ہے تو بس ایک کھنکتا لہجہ۔۔۔ یا ایک خیرہ کن مسکراہٹ۔۔۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔ کوئی نادیدہ مقناطیسی کشش اسے آگے۔۔۔ اور آگے لیے جاتی ہے اور وہ بڑھتا جاتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بہت نقصان ہو سکتا ہے۔ سب کچھ بکھر سکتا ہے۔ ساری زندگی کی ترتیب بگڑ سکتی ہے۔‘‘
ارشد نے بھائی صاحب کو دیکھا۔ وہ بدستور ٹیرس کی چھوٹی سی دیوار کے اوپر دیکھ رہے تھے۔ یہ سب کیا تھا۔۔۔؟ اس نے سوچا۔۔۔ شاید کسی تہذیبی قدر کی پاسداری۔ اپنے چھوٹے بھائی سے گفتگو کرنا کیسا مشکل ہو جاتا ہے۔ شریف گھرانوں کی خاص ادا۔ جہنم میں جائے سب کچھ۔ مجھے کیا کرنا چاہئے۔۔۔؟ کس طرح بچ نکلنا چاہئیے۔۔۔؟
بھائی صاحب نے کہا۔۔۔ ’’نو عمری میں یہ کوئی امتحان نہیں ہوتا۔ ہاں، عمر زیادہ ہو تو یہ سچ مچ امتحان بن جاتا ہے۔ تیس سال، چالیس سال، پچاس سال، ساٹھ سال۔ جتنی زیادہ عمر، اتنا بڑا امتحان۔ آدمی کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں۔ وہ آگے بڑھتا جائے۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ آگے کون سی دنیا ہے۔ یا پلٹ جائے اور زندگی بھر اس پچھتاوے سے دوچار رہے کہ اگر ایک قدم آگے اٹھا لیا جاتا تو کتنے امکانات کے در کھل سکتے تھے، زندگی کتنی مختلف ہو سکتی تھی۔ آدمی جانچنے لگتا ہے، حساب لگانے لگتا ہے۔۔۔ زندگی کا۔۔۔ رشتوں کا۔۔۔ معاشرے کے دباؤ کا۔۔۔ حالانکہ وہ اس وقت حساب لگانے کے قابل نہیں ہوتا۔ برسوں بعد جس کا دل خوشی سے آشنا ہو، مدتوں بعد جو ہر جانب اسی سنہری دھوپ کو پھیلتا دیکھے جو نوجوانی کے زمانوں میں ہر طرف نظر آتی تھی، وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کہاں رکھ سکتا ہے۔ وہ برسوں بعد خود کو پرکشش محسوس کرتا ہے۔ پرجوش، نوجوان اور چاہے جانے کے قابل۔ خود کو دس سال، بیس سال پیچھے محسوس کرتا ہے جب سب کچھ حسین تھا اور ابھی گزرنے والے وقت نے اور پیدا ہونے والے بچوں نے اور روزگار کے جھمیلوں نے اسے لاکھوں، کروڑوں عام آدمیوں کے ہجوم کا حصہ نہیں بنایا تھا۔‘‘
ارشد کسی پتھر کے بت کی طرح ساکت بیٹھاتھا۔ بھائی صاحب نے ساری زندگی میں کبھی اتنی دیر تک اس سے باتیں نہیں کی تھیں۔ یہ سارا منظر ارشد کو کسی خواب کا حصہ لگ رہا تھا۔ شاید یہ حقیقی نہیں تھا۔ شاید اسے کسی بھی وقت ختم ہو جانا تھا۔
’’جانتے ہو کیا ہوتا ہے ارشد۔۔۔؟‘‘ انہوں نے تاریکی پر نظریں جمائے جمائے کہا۔۔۔ ’’آدمی بے خطر کود پڑتا ہے۔ اپنے دل میں جنم لینے والے حیرت انگیز حوصلے کے ساتھ۔۔۔ اپنے بازؤوں میں بھرنے والی نئی طاقت کے ساتھ، وہ ایک ہاتھ تھام لیتا ہے جس میں محبت کی حرارت ہوتی ہے۔ ان آنکھوں میں جھانک لیتا ہے جہاں خود اس کا عکس جھلملا رہا ہوتا ہے۔ اس چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھر لیتا ہے جو وارفتگی سے تمتما رہا ہوتا ہے۔ چنگاری ایک چھوٹے سے شعلے میں بدلتی ہے۔۔۔ پھر بھڑکتی ہوئی آگ میں۔۔۔ اور پھر ایک ایسے خوفناک آتش فشاں میں، جس کی زد سے کوئی بچ کر نہیں نکل سکتا۔۔۔‘‘
ارشد کے لیے کچھ کہنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ نہ کہنا اس سے بھی زیادہ پریشان کن۔ بھائی صاحب کے سامنے اس کی ساری زندگی اسی طرح گزری تھی۔ کچھ نہ کہنے میں۔ بےحوصلگی میں۔ ہمت سے محرومی میں اور اب۔۔۔ اب تو بات ہی مختلف تھی۔
’’آدمی اسے حاصل کر لیتا ہے۔‘‘ بھائی صاحب بدستور تاریکی سے مخاطب تھے۔ ’’قدیم زمانوں کے وحشی انسان کی طرح اس پر اپنی مہر لگا دیتا ہے۔ میری عورت۔ کل تک یہ کسی اور کی تھی، مگراب یہ میری ہے۔ مکمل طور پر میری۔ یہ کوئی عام افیئر نہیں ہوتا ارشد۔۔۔ یہ وہ اتفاقی واقعہ نہیں ہوتا، ون نائٹ اسٹینڈ نہیں ہوتا، اڈلٹری، بے وفائی، دھوکہ دہی نہیں ہوتی جس کے بعد احساس جرم، بدن کو دیمک کی طرح چاٹنے لگے۔ یہ ایک نئی دنیا کا حیران کن سفر ہوتا ہے۔ آدمی کی طلب بڑھتی جاتی ہے۔ تڑپ بڑھتی جاتی ہے۔ اس کا بدن نئی راحتوں سے آشنا ہوتا ہے۔ اس کی روح نئے ذائقوں سے سیراب ہوتی ہے۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ وہ دونوں دیکھنے میں کیسے ہیں، اِردگرد کون سا موسم ہے، عمر کا کون سا حصہ ہے، دن کا کون سا پہر ہے۔۔۔ دنیا ایک جزیرہ بن جاتی ہے جہاں ان دونوں کے سوا کوئی نہیں ہوتا۔۔۔اور آدمی کو محسوس ہوتا ہے کہ ساتھ گزرنے والا ہر لمحہ اسے طاقت بخشتا ہے۔ طاقت اور بےپناہ توانائی اور مڈل ایج کے باوجود نوجوانی کی سی مسرت۔ آدمی سوچتا ہے کہ یہی تو وہ زندگی تھی جو میں دراصل گزارنا چاہتا تھا۔ یہی تو وہ رشتہ تھا جو میں قائم کرنا چاہتا تھا۔۔۔‘‘
نیچے لڑکیوں نے ڈھول کی تال پر کوئی گیت گانا شروع کردیا تھا۔ اماں شاید گاؤ تکیہ سے ٹیک لگائے بیٹھی ہوں گی۔ ارشد نے سوچا۔ چھوٹو اور اس کی نئی نویلی دلہن اندر کمرے میں سرگوشی میں باتیں کر رہے ہوں گے۔ ایک خوشیوں بھرا گھر۔ اس بات سے لاعلم کہ اوپر ٹیرس پر وہ اندر ہی اندر کانپ رہا ہے اور بھائی صاحب کسی مجسمہ کی طرح ساکت کھڑے، باہر تاحد نگاہ پھیلے اندھیرے کو دیکھ رہے ہیں اور بول رہے ہیں۔۔۔ خوفزدہ کرنے والی باتیں۔۔۔ کوئی مشین ہے جو دل کے اندر دور کہیں گہرائی میں دفن باتوں کے پرنٹ آؤٹ نکالتی جا رہی ہے۔۔۔ کھٹاکٹ۔۔۔ کھٹاکٹ۔۔۔
بھائی صاحب نے کہا۔۔۔ ’’عذاب اس کے بعد شروع ہوتا ہے۔‘‘ ارشد نے ان کی آواز میں تلخی کا سایہ لہراتے دیکھا۔۔۔ ’’آدمی کو خزانہ مل جاتا ہے۔۔۔ اس کے بعد تو اطمینان کا دور شروع ہونا چاہئے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ ساری خوشی اور سارے جوش کے باوجود آدمی ایک دوہری زندگی کا آغاز کرتا ہے۔۔۔ ڈبل لائف۔ ایک وہ، جو عام زندگی ہے۔ بیوی، بچے، نوکری، ذمہ داریاں، دوست، محفلیں اور ایک وہ، جو جزیرے پر گزرتی ہے۔ دو زندگیاں۔ دو مختلف دنیائیں۔ درجنوں، سینکڑوں ای میلز اور ایس ایم ایس۔ لاتعداد فون کالز۔ تنہائی میسر آتے ہی رابطہ کرنے کی خواہش۔ دفتر میں، گھر پر، چھٹیوں کے دوران، باربار، ہزار بار۔۔۔ ہر گفتگو پہلے سے زیادہ جادو بھری۔ اس گفتگو میں کہیں مہینے کے سودے اور بچوں کی فیس اور بھانجے کی بدتمیزی اور مکان کی مرمت کا ذکر نہیں ہوتا۔ یہ تو خوابوں کی گفتگو ہوتی ہے۔ ان خوابوں کی، جو آنکھوں میں ہیں۔ اور ان خوابوں کی، جو ابھی مل کر دیکھنے ہیں۔ ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔۔۔ بہت آگے جانا ہے۔۔۔ ایک پوشیدہ تعلق کو مستقل اور مکمل تعلق میں ڈھالنا ہے۔۔۔ سب کے سامنے آنا ہے۔۔۔‘‘
ارشد جہاں بیٹھا تھا وہاں سے بھائی صاحب کا پروفائل واضح نظر نہیں آتا تھا۔ شیشے کے بند دروازے سے چھن کر آنے والی دھیمی روشنی سے ان کے چہرے کا صرف ایک رخ دکھائی دیتا تھا۔ ایک گال اور سفید ہوتی قلمیں اور گردن۔ مگر ان کے چہرے پر سختی نہیں تھی۔ شاید حکمت عملی کا حصّہ۔ ارشد نے سوچا۔ چھوٹے بھائی کو سمجھانے کے لیے نرم رویہ کا ہتھیار۔ ارشد کا دماغ ایک بےحد مصروف چوراہے کی طرح تھا جہاں خیالات دیوانہ وار دوڑتے ہوئے آتے تھے اور نہ جانے کہاں غائب ہو جاتے تھے۔ سب کچھ غیرمعمولی تھا۔ ایب نارمل۔ اس نے خود سے کہا۔ زندگی میں بہت چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر وہ قیامت مچادیا کرتے تھے۔ گرجدار آواز اور سرخ چہرہ۔۔۔ روح لرزا دینے والا غصہ۔۔۔ اور اب۔۔۔ اور اب۔۔۔
بھائی صاحب کی آواز ذرا مدھم تھی۔ ’’مگر جب تک اس تعلق کو دنیا کے سامنے لانے کا وقت نہیں آتا، اس وقت تک آدمی کو جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ مسلسل اور متواتر جھوٹ۔ ہر قدم، ہر بات، ہر جملہ جھوٹ۔ نارمل نظر آنے کی اداکاری۔ یوں جیسے زندگی میں کوئی تبدیلی آئی ہی نہیں ہے۔ جیسے اِردگرد پھیلے رشتوں میں دل بدستور الجھا ہوا ہے۔ اور سچ کیا ہوتا ہے۔۔۔؟ یہ کہ اس نظر آنے والی زندگی سے آدمی کا کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔ آدمی اپنے فرائض ادا کرتا رہتا ہے، بچوں کو توجہ بھی دیتا رہتا ہے، چلتا، پھرتا، کھاتا، پیتا رہتا ہے مگر اس کی توجہ۔۔۔ یس، توجہ کہیں اور ہوتی ہے۔ وہ ایک دنیا میں سانس لیتا ہے، دوسری میں زندگی بسر کرتا ہے اور دباؤ۔۔۔؟ ۔۔۔ بے پناہ ذہنی دباؤ۔ عام انسان کی قوت برداشت سے باہر۔۔۔ آنکھوں میں خواب اور دل میں حوصلہ نہ ہو تو یہ دباؤ کسی بل ڈوزر کی طرح کچلتا گزر جائے۔ یہ دوہری زندگی گزارنے والا۔۔۔ یہ اچھا کارکن اور اچھا دوست اور اچھا شوہر اور اچھا باپ۔۔۔ اس کے دل میں ایک راز ہے جو کسی کو بھی نہیں بتایا جا سکتا۔ عزیز ترین لوگوں کو بھی نہیں۔ اس راز کی ساری اذیت، سارا بوجھ، سارا اعصابی تناؤ۔۔۔ یہ آسان نہیں ہوتا۔۔۔‘‘
ارشد کو وہ شام یاد آئی۔۔۔ فاخرہ بہت مضطرب تھی۔۔۔ تم تنہائی کی خوفناکی سے واقف نہیں ہو۔۔۔ وہ کہہ رہی تھی۔۔۔ بچے سو جاتے ہیں اور میں جاگتی رہتی ہوں۔۔۔ جاگتی رہتی ہوں اور سوچتی رہتی ہوں۔۔۔ میں کہاں جارہی ہوں، کسی منزل کی طرف یا کسی گہری کھائی کی طرف۔۔۔ تمہارے پاس تو ایک پوری دنیا ہے جہاں تم مصروف رہ سکتے ہو۔۔۔ اور بھی بہت کچھ کہا تھا فاخرہ نے۔۔۔ اتنی دیر تک کہ ارشد کے اعصاب جواب دے گئے تھے۔۔۔ اور اس نے چلّا کر کچھ کہا تھا۔۔۔ شاید صبح سے شام تک محیط تکلیف کی کوئی بات۔۔۔ یا شاید کچھ اور۔۔۔ اور گہری ہوتی شام کے سائے میں فاخرہ کی آنکھوں میں حیرت ڈولتی تھی۔۔۔ حیرت، کہ ایک یکسر نئی بات سامنے آئی تھی۔۔۔ حیرت، کہ اذیت کے اس سفر میں وہ تنہا نہیں تھی۔۔۔
ہوا کا ایک جھونکا آیا تو ارشد کو احساس ہوا کہ اس کے ماتھے پر اور کرسی کو مضبوطی سے گرفت میں لینے والی ہتھیلیوں پر پسینہ ہے۔ ریلیکس۔ اس نے خود سے کہا۔ بدن کو ڈھیلا چھوڑ دو۔ حواس کو بحال رکھو اور سوچو۔۔۔ کون ہے جس نے یہ سب باتیں بھائی صاحب کو۔۔۔ اور پھر اتنی تفصیل کے ساتھ۔۔۔ کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا عذرا۔۔۔؟ کہتے ہیں، بیویوں کا راڈار بہت تیز ہوتا ہے۔۔۔ مگر اس کا احساس تو سب سے پہلے مجھے ہوتا۔۔۔ شاید کوئی اور ہے۔۔۔ یا شاید ۔۔۔یا شاید۔۔۔
بھائی صاحب کی آواز وہی تھی۔ صاف، واضح، کھرج والی آواز۔ مگر ان کے لہجے میں تھکن تھی۔ جسے کوئی استاد بولتے بولتے تھک رہا ہو۔ ’’آدمی کو پتہ بھی نہیں چلتا مگر اس کے اعصاب چٹخنے لگتے ہیں۔ اس کا بدن تھکنے لگتا ہے۔ وہ اپنے سیل فون کو چھپا کر رکھتا ہے۔ پیغامات کو ڈیلیٹ کرتا رہتا ہے۔ ای میل کا پاس ورڈ بدلتا جاتا ہے۔ ایک مسلسل خوف سائے کی طرح اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ کہیں راز کھل نہ جائے۔ اسے رات کو بہت دیر سے نیند آتی ہے۔ وہ سب کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھتا ہے اور چند نوالے لے کر اٹھ جاتا ہے۔ ایک نئی زندگی کا خیال تھوڑی سی دیر کو توانائی بخشتا ہے اور پھر بہت دیر تک طرح طرح کی فکریں ستاتی رہتی ہیں۔ کام کرتے ہوئے، باتیں کرتے ہوئے، ٹی وی دیکھتے ہوئے اس کا دماغ کسی تیز رفتار مشین کی طرح چلتا رہتا ہے۔ امکانات، خدشات، آنے والے دنوں کا تصور۔۔۔ کیا ہوگا۔۔۔؟ کیسے ہوگا۔۔۔؟ کتنی زندگیاں متاثر ہوں گی۔۔۔ کس کس کی نظریں سوال کریں گی۔۔۔؟ کتنے ہنگامے، کتنی لڑائیاں ہوں گی۔۔۔؟ سوال ہزاروں ہوتے ہیں۔۔۔ اور جواب، غیب کے پردے میں پوشیدہ اور اس ساری تھکا دینے والی مشق کے دوران آدمی کی تنہائی۔۔۔ کوئی ہم راز نہیں۔۔۔ کوئی سہارا دینے والا نہیں۔۔۔‘‘
ارشد نے بھائی صاحب کو دیکھا جو تاریکی کے روبرو کھڑے تھے اور اس کے دل میں دُکھ کی لہر اٹھی۔ ایسا دکھ، جس کی جڑیں کسی احساسِ جرم میں نہیں تھیں۔ ایک معصوم سا، پیارا سا دکھ، کیونکہ کوئی بات، بھائی صاحب کے لیے تکلیف کا سبب بنی تھی۔ بھائی صاحب نے ہمیشہ یہی کیا تھا۔ غلط اور صحیح کی درجہ بندی۔ نیکی کی راہ اور بدی کی راہ۔ سفید درست ہے، سیاہ غلط ہے۔ یہ جانے بغیر کہ ان کے درمیان سلیٹی رنگ بھی ہوتا ہے۔ صبح کے اجالے اور رات کے گھپ اندھیرے کے بیچ شام کا دھند لکا بھی ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ بہت ذہین ثابت ہوئے تھے۔ ارشد کے اندازوں سے کہیں زیادہ ذہین۔
’’پھر کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں ڈیڈ لائن آ جاتی ہے، ارشد۔۔۔‘‘ بھائی صاحب کی آواز آئی۔۔۔ ’’فیصلے کی گھڑی سرپر آ پہنچتی ہے۔ تخت یاتختہ۔۔۔ حملہ کرنے کا وقت یا ہتھیار ڈال دینے کا وقت۔ اپنی زندگی کو بدلنے کا وقت اور خود سے وابستہ بہت سے لوگوں کی زندگیاں بدل ڈالنے کا وقت۔ آدمی کی پوری زندگی کا سب سے مشکل فیصلہ۔۔۔ جس کی گھریلو زندگی تلخ ہو، اس کے لیے یہ فیصلہ کرنا بے حد آسان ہوتا ہے۔ مگر جس کے اردگرد سب کچھ نارمل ہو۔۔۔ قابل برداشت ہو۔۔۔ یا خوشگوار ہو۔۔۔ وہ کیا کرے۔۔۔؟ ۔۔۔ اس زندگی کو چھوڑ دے، جو بظاہر مکمل دکھائی دیتی ہے۔۔۔؟ یا اس زندگی کو، جس سے سارے خواب، سارا حسن، ساری خوشی وابستہ ہے۔۔۔؟ یہ سفر اختیار بھی کرنا چاہئیے یا نہیں۔۔۔؟ پانچ سال بعد۔۔۔ دس سال بعد۔۔۔ دریا کنارے زندگی کیسی ہوگی۔۔۔ اور اس پار جا اتریں تو کیسی ہوگی ۔۔۔؟۔۔۔ جو نظر آتا ہے، وہ حقیقت ثابت ہوگا یا ایک اور سراب؟۔۔۔ میں خزانہ پانے والا ہوں یا خزانہ کھونے والا ہوں۔۔۔؟ یہ سب ۔۔۔ یہ سب کھیل نہیں ہوتا ارشد۔۔۔ اس بساط پر ایک غلط چال سب کچھ تباہ کر سکتی ہے۔ گھروں کو اور دلوں کو اور زندگیوں کو۔ ایک طرف آدمی کے بیوی بچے ہوتے ہیں اور گھر آنگن اور بھائی بہن، ماں باپ۔۔۔ اور دوسری طرف وہ، جس کا چہرہ تصور میں آتے ہی ہر جانب پھول کھلنے لگتے ہیں اور موسم بدلنے لگتے ہیں۔۔۔ اور آدمی کا ہاتھ ایک بٹن پر ہوتا ہے۔۔۔ ایک بٹن، جسے دباتے ہی ایک دھماکہ سب کچھ بکھیر دے گا۔۔۔ جوانی میں اس تکلیف سے سب ہی گزرتے ہیں۔ کسی ہجر کی اذیت سے، کسی نارسائی کے درد سے، کسی کے کھو جانے سے۔۔۔ مگر وہ جوانی ہوتی ہے جب زندگی کی ہزار رونقیں اور آنے والے برسوں میں پوشیدہ لاکھوں امکانات، گہرے سے گہرا گھاؤ مندمل کر دیتے ہیں۔ لیکن آدمی ایک زندگی گزار چکا ہو، عمر کی بہت سی منزلیں طے کر چکا ہو تو یہ سب۔۔۔ یہ بے حد۔۔۔ یہ ۔۔۔‘‘ بھائی صاحب کی آواز لڑکھڑا گئی۔
کچھ تھا، جو ارشد کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ جیسے تندوتیز بحث میں وقت پر کوئی دلیل یاد نہ آئے۔ جیسے کوئی چہرہ شناسا لگے مگر نام یاد کے غبار میں گم ہو جائے۔۔۔ بھائی صاحب آخر کیا کہنا چاہتے تھے۔۔۔ محنت تو بہت کی تھی انہوں نے۔۔۔ ایک اچھے استاد کی طرح ہر بات، ہر پہلو، ہر زاویہ پر مکمل گرفت۔۔۔ مگر وہ ٹریک پر نہیں تھے۔۔۔ ارشد انہیں دیکھتا رہا۔ ان کے کاندھوں کو اور گردن کو اور چہرے کے اس ذرا سے حصے کو، جو پیچھے سے نظر آتا تھا۔ نہ جانے وہ کتنا جانتے تھے۔ اس نے خود سے کہا۔ نہ جانے کتنا ان کی نظروں سے اوجھل تھا۔ آدمی آخر کسی دوسرے کے بارے میں کتنا جان سکتا ہے؟ خود فاخرہ اسے کتنا جانتی تھی۔؟ اور عذرا۔؟ اور بچے اور چھوٹو اور اماں۔؟ آدمی کسی دوسرے کی تڑپ سے کتنا آگاہ ہو سکتا ہے۔؟ کسی دوسرے کے دُکھ کو کس حد تک سمجھ سکتا ہے۔؟ کہاں ہوتا ہے کسی دل میں چھپی بیزاری اور نفرت اور گداز اور وارفتگی کو جان لینے والا سپرمین۔؟ اور اگر نہیں ہوتا، تو پھر یہ سب کیا ہے۔؟ یہ جو ہورہا ہے۔ یہ جو ایک ہولناک خواب کی طرح رونما ہوتا جا رہا ہے۔ یہ جو زندگی کے بدترین خوف کی طرح تہہ درتہہ، باب در باب کھلتا جا رہا ہے۔
’’آدمی کی قوت سے بڑا امتحان ہوتا ہے یہ۔‘‘ بھائی صاحب کی آواز مدھم تھی اور لرزاں۔ ’’اپنے سب سے عزیز خوابوں کو چھوڑنے کا۔۔۔ اپنی آرزؤوں سے بچھڑنے کا۔۔۔ اپنے دل میں کوئی تیز دھار والا خنجر گھونپنے کا۔۔۔ دو چار ہاتھ کی دوری پر موجود منزل تک پہنچنے کے بجائے۔۔۔ کسی صحرا کی جانب رخ کرنے کا۔۔۔ یہ آسان نہیں ہوتا ارشد۔۔۔‘‘ ان کی آواز جیسے کانپ رہی تھی۔ ’’تمہارا بھائی۔۔۔ تمہار ا باپ تم سے کہہ رہا ہے۔۔۔ زندگی کے اتنے برس گزارنے کے بعد۔۔۔ تمہارا نگراں، تمہارا محافظ کہہ رہا ہے۔۔۔ سمجھ رہے ہو تم۔۔۔ ؟‘‘
ان کی آواز دھیمی ہوتے ہوتے غائب ہو گئی۔۔۔ جیسے چراغ کی لو مدھم ہوتے ہوتے بجھ جائے۔۔۔ اور ایک گہرا سناٹا۔۔۔ آسمان سے زمین تک چھائی ہوئی خاموشی جس میں ایک سوال گونجتا تھا۔۔۔ سمجھ رہے ہو تم۔؟ ۔۔۔ سمجھ رہے ہو تم۔ ؟
ارشد یوں ساکت بیٹھا تھا جیسے اس کی ذرا سی حرکت کانچ کے بنے ہوئے اس پورے منظر کو توڑ دےگی۔۔۔ کرچی کرچی کر دےگی۔
ایک خیال کسی ضدی فقیر کی طرح دل کے دروازے کو پیٹ رہا تھا۔ یہ کچھ اور ہے۔ یہ کچھ اور ہے۔ کوئی وحشت کے عالم میں چلا رہا تھا۔ خوف۔۔۔؟ کہاں تھا خوف۔۔۔؟ یہ تو کوئی گھبراہٹ تھی۔۔۔ آنے والے کسی صدمے کی تیاری۔
بھائی صاحب ذرا سے مڑے۔
روشنی کی کسی مدھم، کمزور سی کرن میں ان کے چہرے پر کچھ چمکا۔۔۔ جیسے کوئی آنسو۔
اسی وقت ٹیرس کا شیشے کا دروازہ ہلکی سی آواز کے ساتھ پھسلتا ہوا کھل گیا۔
بھابھی نے کہا۔۔۔ ’’کیا خفیہ منصوبے بنا رہے ہیں بھئی دونوں بھائی یہاں۔۔۔‘‘
ارشد اس لمحے ایک بے ہمت، بے طاقت انسان تھا۔ ہاتھ پیر ہلانے سے معذور۔۔۔ اس کا پورا بدن جیسے مفلوج تھا اور دل کی دھڑکن کسی وحشی تال سے ہم آہنگ تھی۔ تو کیا بھائی صاحب۔۔۔ تو کیا بھائی صاحب بھی۔۔۔؟
ایک خواب کے عالم میں اس نے بھائی صاحب کو مڑتے دیکھا۔۔۔ اور آنسوؤں سے بھیگے چہرے کو صاف کرتے۔
’’کیا ہوا۔۔۔ کیا ہوگیا۔۔۔؟‘‘ بھابھی کی آواز میں گھبراہٹ تھی۔
’’کچھ نہیں۔۔۔‘‘ بھائی صاحب نے کہا۔ ’’اباجی کی باتیں یاد کر رہے تھے۔۔۔‘‘
بھابھی انہیں سہارا دے کر اندر لے گئیں۔
ارشد وہیں ٹیرس پر بیٹھا رہا۔ نیم تاریکی میں۔
مصنف:اخلاق احمد