پناہ گاہ

0
143
Love Poetry in Urdu
- Advertisement -

نہ جانے کہاں سے لکھمنیاکی ریگستان کی طرح خشک آنکھوں میں پانیوں کا سیلاب امڈ آیا۔ اس کا دل بھر آیا۔ اس نے اپنی چھ سالہ بیٹی سمتا کو زور سے بھینچ لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ سمتا بھی ماں کو روتا دیکھ کر بلک پڑی۔ بیٹی کو بلکتا دیکھ کر لکھمنیا نے اسے خود سے الگ کیا————

’’ہمرا مقدر ہی خراب ہے بیٹی۔ ہم بڑی بد نسیب ہیں‘‘———— آواز گلے میں پھنسنے لگی————’’ ہملوگوں کا ایک ہی سہارا تھا۔ وہ بھی چھن گیا۔ ہم بے سہارا ہو گئے اور تو اناتھ‘‘———— لکھمنیا نے آنچل سے آنسو خشک کئے پھر سمتا کے آنسو پوچھنے لگی اس نے آسمان کی طرف دیکھا —— دکھوں کا سمندر کتنا گہرا کتنا وسیع ہوتا ہے ———— ’’ہے بھگوان میرا گناہ کیا تھا جو اتنی بڑی سزا دی۔ ہم ماں بیٹی کے لئے روٹی پیدا کرنے والے کو ہی اٹھا لیا‘‘۔

لکھمنیا کا پتی ہزار یکا کو مرے آج تیسرادن تھا۔ لکھمنیا تین دن سے رہ رہ کر رو رہی تھی۔ کبھی اس کے آنسو خشک ہو جاتے تو کبھی جھرنوں کی طرح بہنے لگتے۔ نہ اسے کھانے کی سدھ تھی نہ پینے کی لیکن سمتا کی بھوک کا جب اسے احساس ہوتا۔ گھر میں بچا کچا کھانہ اسے کھلادیتی۔ گھر کیا تھا ایک جھونپڑی تھی جس میں بس تین جون کسی طرح پیر پسار کر سو سکتے تھے۔ جھونپڑی سے لگی ہی ایک چھوٹی سی دکان تھی۔ جس کا منہہ سڑک کی طرف کھلتا تھا۔ دکان کی چھت بھی پھو س ہی کی تھی۔ جب ہزاریکا زندہ تھا تو اسی دکان میں چائے اور پکوڑے بیچتا تھا۔ دکان اور مکان کے درمیان میں ٹاٹ کا ایک پردہ تھا جو دونوں کو دو حصی میں تقسیم کرتا تھا۔ لکھمنیا جھونپڑی کے اندر بیٹھ کر پیاز کا ٹتی یا بیسن گھولتی۔ ہزا ریکا پکوڑے تلتا، چائے بناتا اور اکیلئے ہی گاہکوں کو بڑھاتا۔ دکان کا سارا کام وہ تقریباً اکیلے ہی کرتا۔ چائے بنانا، پکوڑے تلنا، گاہکوں کو پانی بڑھانا یا جوٹھے برتن اٹھانا۔ البتہ لکھمنیا جوٹھے برتن کو دھو کر دکان میں بھیجوا دیتی۔ ہزاریکا، لکھمنیا کو دکان میں اس لئے آنے سے منع کر دیا تھا کہ پتا نہیں کس گاہک کی نظر کیسی ہو۔کبھی کوئی فقرہ ہی کس دے یا بری نظر سے دیکھ ہی لے۔

دکان سے اتنی آمدنی ہو جاتی تھی کہ تینوں جون کا گزارہ آرام سے ہو جاتا تھا لیکن اتنا پیسہ نہیں بچتا تھا کہ پیٹ کے جہنم کو بجھانے یا تن کو ڈھانپنے کے علاوہ کچھ اور سوچ سکے۔ تین روپیہ تو اسے روز سرکاری سو چایلیہ میں دینے پڑتے تھے۔ اسکی دکان شہر کے بزازہ روڈ میں بھیڑ بھاڑ والے علاقے میں تھی۔ جہاں تھانے والے کو کچھ پیسے دے کر روڈ کے کنارے جھونپڑی ڈال لی تھی۔ تھانے میں دو یا تین بار پانچ چھ کپ چائے مفت میں بھیجوانی پڑتی تا کہ کوئی سپاہی آکر اسے پریشان نہ کرے————البتہ دو مو سموں میں ہزار یکا کی پریشانی میں اضافہ ہو جاتا۔ سردی کے موسم میں جب کڑا کے کی سردی پڑتی۔ اسکے پاس نہ کوئی لحاف تھا اور نہ کوئی گرم چادر۔ پوال کو زمین پر ڈال کر اس پر بورے کا بستر بنا دیتا اور ایک بو سیدہ کمبل میں پتی پتنی اور بیٹی تینوں تن کو ڈھکے رہتے۔ لکھمنیا بیچ میں سوتی اس لئے کبھی وہ سمتا کو کمبل سے ڈھاکتی رہتی تو کبھی ہزاریکا کو۔ کہرے یا بارش والی رات میں یہ کمبل نا کافی ہوتا۔ ایسی صورت میں قریب کے پھل کی دکان سے ٹوٹے بکسے کی لکڑی مانگ کر لے آتا۔ اسی کا الاؤ جلاتا اور رات بھر تینوں تا پتے رہتے لیکن برسات کے موسم میں پریشانی میں مزید اضافہ ہو جاتا۔ پھوس کی چھت سے ٹپ ٹپ پانی ٹپکتا رہتا۔ ایسی راتوں میں تینوں افراد آنکھوں میں رات کاٹتے۔ رات بھر جہاں جہاں سے پانی ٹپکتا وہاں وہاں المونیم کے برتن رکھ کر کچے فرش کو گیلا ہونے سے بچانے کی ناکام کوشش کرتے مگر بے تحاشہ پانی ٹپکنے سے پورا فرش گیلا ہو جاتا اور کہیں پر بھی سونے کی کیا بیٹھنے کی بھی جگہ نہ ہوتی۔ اس وقت لکھمنیا اپنی قسمت کو کوستی کہ سارے دکھ ہم غریبوں کے ہی قسمت میں کیوں لکھ دیا گیا ہے۔ رات میں سکون سے سو بھی نہیں سکتے۔ اسے اپنی یا اپنے پتی کی فکر تو کم ہوتی کیوں کہ دونوں کو دکھ جھیلنے کی عادت سی ہو گئی تھی مگر سمتا کی چنتا اسے زیادہ ستاتی جب وہ اس کی نیند سے بوجھل آنکھوں میں دیکھتی تو اسکا دل تڑپ اٹھتا۔ وہ تڑپ کر سمتا کو سینے سے لگا لیتی اور گود میں سلانے کی کوشش کرتی مگر چھت سے ٹپکتے پانی کی وجہہ کر اسکی نیند میں بھی خلل پڑ جاتا۔

ہزاریکا کی موت نے لکھمنیا کی زندگی میں مشکلات کا پہاڑ کھڑا کر دیا تھا۔ سب سے بڑا مسلۂ پیٹ کے تندور کو ٹھنڈا کرنے کا تھا۔ ہزاریکا زندہ تھا تو دن بھر چائے کی دکان میں سخت محنت کر کے اتنا پیسہ کما لیتا تھا کہ تینوں جون کا پیٹ بھر سکے اور تن ڈھک سکے۔ اب لکھمنیا کے سامنے دو وقت کی روٹی کا انتظام بھی مشکل ہو گیا تھا۔ یہ سو چ کر اس کا دل بے قرا ہو اٹھتا۔ دل کے ویرانے میں دور دور تک دھول ہی دھول اڑنے لگتی ہے۔ گرم اور سیاہ دھول، کہیں یہ سیاہ بگولہ کسی دن اسے بھی اپنے ساتھ نہ اڑالے جائے————

- Advertisement -

’’ہے بھگوان ہم کا کریں۔۔۔ کہاں جائیں‘‘ ——لکھمنیا رو پڑتی ہے۔————’’ تم ہم لوگوں کو کیوں چھوڑ کر چلے گئے ہزاریکے۔۔۔ہمرا اب کوئی دھیان دینے والا نہیں۔ ہم اس جالم دنیا سے اکیلے کہاں تک لڑسکیں گے ۔۔۔ کب تک مقابلہ کر سکیں گے۔ مرد کے بنا عورت کا جینا دوبھر ہو جاتا ہے۔۔۔‘‘ وہ روتی رہی سسکتی رہی اور اس مألے کا حل تلاش کرتی رہی۔ بہت سوچ وچار اور غورو خوص کے بعد بالآخر وہ ایک نتیجے پر پہنچ گئی۔

دوسرے دن چائے کی دکان کے چولہے سے دھواں اٹھنے لگا تھا۔ لکھمنیا نے ساڑی کے پلو سے اپنے پورے چہرے کو ڈھک رکھا تھا۔ کام کرتے وقت ایک ہاتھ سے آنچل پکڑ کر کام کرتی—— جب چولہے میں آگ روشن ہو گئی تو اس پر دودھ گرم کرنے کے لئے چڑھا دیا اور برتن کو صاف کرنے لگی۔ تھوڑی دیر میں ہی چائے بن کر تیار تھی۔ دکان کھلی دیکھ کا اکا دکا گاہکوں کا آنا شروع ہو گیا تھا۔ لکھمنیا چائے بناتی۔ پکوڑے چھانتی اورسمتا گاہکوں کو پکوڑے اور چائے بڑھاتی۔ پانی بڑھاتی اور جوٹھے برتن اٹھا کر اسے صاف کرتی۔ دو چار دن تو لکھمنیا کو بڑا عجیب سا لگا لیکن پیٹ کا جہنم جب اپنا شعلہ اگلتا تو شرم و حیا اس آگ پر غالب آ جاتی۔ ایک دو دن اسے کئی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کوئی گاہک کم شکر کی چائے مانگتا، کوئی بغیر شکر کی، کوئی کڑک چائے۔ کبھی کبھی وہ جھنجھلا جاتی۔ اس طرح کام کرنے کی اسے عادت نہ تھی۔ پھر کبھی پکوڑے جل جاتے، کبھی کچی رہ جاتے۔ لیکن دھیرے دھیرے اسے سب کرنے کی عادت ہو گئی۔

فرصت کے اوقات میں لکھمنیا سمتا کی خوب سیوا کرتی۔ اپنے ہاتھوں سے نہاتی اس کے بالوں کو سنوارتی، کھانا کھلاتی اور دل کھول کر پیار کرتی۔ وہ اسکے پیار میں اس طرح کھو جاتی جیسے اب وہی اسکی زندگی کا سرمایہ ہے لیکن سمتا کی بڑھتی عمر کو دیکھ کر وہ اندر سے پریشان ہو جاتی۔ دکان میں اوباش قسم کے لڑکے جو چائے پینے کے لئے آتے وہ سمتا کو ہوس ناک نگاہوں سے نہارتے رہتے۔ کوئی پانی کا گلاس لینے کے بہانے سے اسکا ہاتھ پکڑ لیتا۔ کوئی گال میں چٹکی کاٹ لیتا کوئی گندے فقرے اُچھالتا، کوئی گانا گاتا——’’ آتی کیا کھنڈالا۔‘‘

لکھمنیا خاموشی سے سب دیکھتی رہتی اور خون کے گھونٹ پیتی رہتی۔ وہ کسی کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی۔ عورت ذات وہ بھی اکیلی ۔ کس کس سے جھگڑا کرتی۔ اوباش لڑکے کچھ بھی کر سکتے تھے۔ رات میں لکھمنیا اپنی چھوٹی سی تاریک جھونپڑی میں دروازہ بند کر کے چپ چاپ فرش پر لیٹ جاتی۔ اب اسے ہر لمحہ سمتا کی فکر ستاتی رہتی۔ اسکی عزت کا خیال دامن گیر رہتا۔ وہ بڑی ہونے لگی تھی۔ چائے کی دکان پر ہر طرح کے لوگ چائے پینے آتے تھے۔ کسی کی بری نظر کو، کسی کی نیت کو پہچا ننا آسان نہیں تھا۔ اگر کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو وہ اپنے سور گئیے پتی کو بھگوان کے یہاں کیا منہ دکھائے گی۔ سمتا کو وہ کسی بھی طرح دکان سے دور رکھنا چاہتی تھی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ سمتا اس کے بغل میں گہری نیند سو رہی تھی۔ اس نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے سمتا کے سر کو سہلایا۔ کتنی محبت اور کتنی مصیبتوں سے وہ اس کی پرورش کر رہی ہے۔ لکھمنیا کی آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ بہہ گیا۔ جوانی کا خنجر بھی بے سہارا عورت کو لہو لہان کر دیتا ہے۔ آج ہزاریکا موجود ہوتا تو اسے سمتا کی اتنی فکر نہ ہوتی۔ وہ دکان سنبھالتا اور لکھمنیا سمتا کی رکھوالی کرتی لیکن بیک وقت دکان اور سمتا کو سنبھالنا اسکے بس سے باہر تھا۔ تھوڑی دیر بعد لکھمنیا نے آنسو پوچھ لیے اور سمتا کی محفوظیت کے بارے میں سوچنے لگی۔

کچھ وقضے کے بعدوہ بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی اور ٹاٹ کا پردا ہٹا کر دکان میں آ گئی۔ چولہے میں ابھی بھی ہلکی ہلکی آنچ تھی سڑک پر آوارہ کتے بھونک رہے تھے۔ کبھی کبھی کسی سائیکل سوار یار کشے کے گزرنے کی آواز آرہی تھی۔ وہ ایک ٹیبل پر بیٹھ گئی۔ اسکی آنکھوں سے نیند کا چلمن اٹھ چکا تھا۔ دل میں طرح طرح کے خیال اور سوال ابھر رہے تھے۔ لکھمنیا کی آنکھوں میں گھوم پھر کر ایک ہی شخص کی تصویر بار بار ابھر رہی تھی۔ وہ تھی ماسٹر صاحب کی——

اُن کا پورا نام رام پریکھا سنگھ تھا لیکن سبھی لوگ انہیں ماسٹر صاحب ہی کہہ کر پکارتے تھے۔ عمر کی پچاسویں سیڑھی پر قدم رکھ چکے تھے۔ ہائی اسکول میں حساب کے استاد تھے لیکن سائنس اور انگریزی کی بھی کلاس لیتے تھے۔ ویسے تو انکا پورا کنبہ پاس کے ہی ایک گاؤں سعدی پور میں رہتا تھا مگر ماسٹر صاحب کا شہر میں بھی ایک چھوٹا سا مکان تھا جہاں صبح و شام بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے تھے۔ سنیچر کی شام کو وہ گاؤں چلے جاتے اور سمبار کی صبح میں واپس آ جاتے۔ ماسٹر صاحب اسکول جانے سے پہلے اور اسکول سے لوٹنے کے بعد ہزاریکا کی چائے دکان پر ضرور رکتے۔ چائے پیتے۔ ہزاریکا سے خیریت د ریافت کر تے اور چلے جاتے۔ اسکی موت کے بعد بھی ماسٹر صاحب کے معمول میں کوئی کمی نہیں آئی تھی بلکہ لکھمنیا سے کچھ زیادہ ہی ہمدردی ہو گئی تھی۔ وہ اسکا ہر روز حوصلہ بڑھاتے۔ اسکی ہر ممکن مدد کرتے۔ لکھمنیا کو دوبارہ دکان کھولنے کے لئے ماسٹر صاحب نے ہی پانچ سو روپئے دئیے تھے۔ اس لئے لکھمنیا کی سوچ کا محور ماسٹر رام پریکھا سنگھ ہی تھے۔ اگر ماسٹر صاحب سمتا کو اپنی سرپرستی میں لے لیں تو وہ سمتا کی طرف سے اطمنان ہو جائےگی۔ جب وہ اس فیصلے پر پہنچتی ہے تو قدرے اطمنان محسوس کرتی ہے اور آہستہ سے آکر بستر پر لیٹ جاتی ہے۔

دوسرے دن ماسٹر صاحب جب لکھمنیا کی دکان پر چائے پینے آئے تو وہ قدرے جھجھکتے ہوئی بولی——

’’ماسٹر صاحب آپ سے ایک بات کہنی ہے؟‘‘——اس وقت دکان میں اکا دکا گاہک ہی بیٹھ کر چائے پی رہے تھے۔ ماسٹر صاحب کو چائے کا گلاس سمتا پکڑا گئی تھی۔

’’ہاں ہاں کہو‘‘——ماسٹر صاحب ذرا سا سرک کر اس کے قریب آ گئے۔

’’ماسٹر صاحب ہمکو ایک چنتا بہت ستا رہی ہے۔‘‘—–لکھمنیا نے دکان کے اندر دیکھا۔ دونوں گا ہک آپسی گفتگو میں مہنمک تھے۔

کیسی چنتا لکھمنیا۔۔۔ بتاؤ۔۔۔ اگر ہمارے بس میں ہوگا تو ہم ضرور اس چنتا کو دور کرنے کی کوشش کرینگے‘‘—— ماسٹر صاحب نے چائے کی ایک بڑی سی گھونٹ لی۔

’’ماسٹر صاحب ہمکو سمتا کی چنتا ہے۔ وہ بڑی ہو رہی ہے۔ لچی لفنگے لڑ کے چائے پینے کے بہانے دکان میں آکر اسے بری نظر سے دیکھتے ہیں اور چھیڑ تے ہیں‘‘——لکھمنیا نے دھیمی آواز میں کہا۔ مگر سمتا جو اسکے پاس اب آکر کھڑی ہو گئی تھی، اس نے ماں کی بات سن لی تھی۔ اس نے ایک نظر ماں کی طرف کی تو دوسری نظر ماسٹر صاحب پر ڈالی کہ اس وشے پر ماسٹر صاحب کیا بولتے ہیں۔ ماسٹر صاحب کچھ پل رک کر بولے——

’’یہ تو واقعی بہت چنتا کی بات ہے‘‘——انہوں نے سمتا کی طرف دیکھا۔ واقعی وہ بڑی ہونے لگی تھی——پھر انہوں نے لکھمنیا کی طرف دیکھ کر کہا——’’ آخر تم نے اس سمسیا کا حل کچھ نہ کچھ تو سوچا ہوگا۔ تم بتاؤ تو میں بھی اپنا کچھ مشورہ دوں۔‘‘

’’ماسٹر صاحب ہمرے دماگ میں تو ایک ہی اپائے ہے۔۔۔ وہ ای ہے کہ آپ سمتا کا اپنے اسکول میں نام لکھو ا دیں تو دن بھر اسکول میں رہےگی دکان کے ماحول سے دور۔ اس کا سمے بھی کٹ جائےگا اور کچھ پڑھ لکھ بھی جائےگی۔‘‘

ماسٹر صاحب کچھ دیر تک تمام پہلو پر غور کرنے لگتے ہیں۔ اس لئے خاموش ہو جاتے ہیں۔ لکھمنیا کو ماسٹر صاحب کے جواب کا انتظار تھا اور سمتا کو لگ رہا تھا کہیں ماسٹر صاحب منع نہ کر دیں۔ جب ماسٹر صاحب کافی دیر خاموش رہتے ہیں تو لکھمنیا پھر بولتی ہے——

’’ماسٹر صاحب کا ای ممکن نہیں ہے۔‘‘

ماسٹر صاحب ایک لمبی سانس لے کر پہلے لکھمنیا کو دیکھتے ہیں پھر سمتا کو——

’’دیکھو لکھمنیا سمتا کی عمر اب بچوں والی نہیں رہی لیکن میرا ماننا ہے کہ پڑھنے لکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ سب سے پہلا مألہ تو اسکول میں داخلے کا ہے کہ اسے کس کلا س میں داخلہ کرایا جائےگا۔ پھر بھی میں کوشش کروں گا کہ اسکا داخلہ ہو جائے لیکن اسے بہت محنت کرنی پڑےگی تبھی جاکر اپنی عمر کے حساب سے کلاس پائےگی ورنہ چھوٹے بچوں میں بیٹھ کر پڑھنے سے احساس کمتری میں مبتلاہو جائےگی۔‘‘

’’ماسٹر صاحب آپ چاہیں تو کچھ بھی ناممکن نہں۔ گھر پر آپ بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے ہیں اگر ایک گھنٹہ سمتا کو بھی سمے دے دیں تو وہ ضرور پڑھ لے گی۔ آپ کی جو فیس ہے۔۔۔حالانکہ میں دینے کے لائق نہیں ہوں پھر بھی اپنا پیٹ کاٹ کر کچھ تو دے ہی دوں گی‘‘۔

’’پیسے کی کوئی بات نہیں ہے لکھمنیا میں پہلے ہیڈ ماسٹرصاحب سے بات کرکے دیکھتا ہوں۔ اگر وہ تیار ہو گئے تو کل ہی میں داخلہ کرا دونگا‘‘—— ماسٹر صاحب نے چائے کا گلاس سمتا کو پکڑا دیا۔

’’ماسٹر صاحب گریب کی بیٹی ہے اگر کچھ پڑھ لکھ جائے گی تو میں دعا ہی دوں گی۔ اس نے بیسن سے سنے دونوں ہاتھ جوڑ لئے۔

’’لکھمنیا میں ہر ممکن کوشش کروں گا سمتا پڑھ لکھ لے۔ اچھا اب چلتا ہوں۔ شام کو اسکے بارے میں بتاؤں گا۔‘‘

ماسٹر صاحب کے اشواسن سے لکھمنیا کو اطمنان ہو جاتا ہے۔ لیکن سمتا کے چہرے پر پرسنتا کے پھول کھل جاتے ہیں۔ سمتا چاہتی تھی کہ وہ بھی اسکول دیکھے، دوسرے بچوں کی طرح پڑھے لکھے۔ اسکول کا یونیفورم پہنے اپنے کندھے پر اسکول کا بستہ اٹھا ئے اور خوب دل لگا کر پڑھے۔ اس نے من ہی من میں سوچ لیا کہ وہ خوب دل لگا کر پڑھےگی اور اپنی عمر کی جماعت میں جلد پہنچ جائےگی۔

ماسٹر رام پریکھا سنگھ کی انتھک کو ششوں سے سمتا کا داخلہ اسکول میں ہو گیا۔ اب وہ اسکول جانے لگی۔ ماسٹر صاحب اسکول جانے سے قبل جب لکھمنیا کی دکان پر چائے پینے آتے سمتا اسکول جانے کے لئے تیار ملتی۔ وہ اسے ساتھ اسکول لے جاتے اور شام کو اسکول سے لوٹتے وقت چھوڑ جاتے۔ سمتا کھاپی کر کچھ دیر کے بعد ماسٹر صاحب کے گھر چلی جاتی۔ ماسٹر صاحب اسکول کا ہوم ورک کروا دیتے سبق بھی یاد کرا دیتے اور خود اسے گھر تک چھوڑ نے آتے۔

لکھمنیا اب خوش تھی کہ اسکی بیٹی محفوظ ہے۔ صبح سے لے کر شام تک اس ماحول سے الگ رہتی ہے اس لئے اب کوئی اس پر بری نظر بھی نہیں ڈالتا۔ اوباش قسم کے لڑکے جو صرف سمتا کے لئے چائے پینے آتے تھے اب آنا بند کر دیا تھا۔ سمتا کا دکان میں نہ رہنے سے لکھمنیا کے اوپر کام کا بوجھ بڑھ گیا تھا۔ اب وہ چائے پکوڑے بھی بناتی۔ گاہکوں کو بھی بڑھاتی برتن بھی صاف کرتی۔ مگر اس کے چہرے پر ذرا بھی پریشانی کی لکیر نہیں ابھر تی بلکہ خوشی کا تیج چمکتا نظر آتا کہ سمتا اب محفوظ ہے اگر وہ کچھ پڑھ لکھ جائےگی تو چائے کی دکان میں نہیں بیٹھےگی بلکہ کوئی اچھا کام کرےگی۔ پڑھ لکھ جانے کی وجہہ کر اسے اچھا ور بھی مل جائےگا۔

سورج ڈوب چکا ہے۔ چاروں سمت دھندلکا دم بہ دم گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ لکھمنیا دکان بند کر کے آرام سے اپنے دونوں پاؤں پھیلائے بیٹھی ہے۔ وہ بےفکر ہو کر اطمنان کی سانس لے رہی ہے۔ اب اسکے سیاہ بالوں میں چاندی کے ایک دوتار نظر آنے لگے ہیں اور ادھر سمتا پر چپکے چپکے دبے پاؤں جوانی دستک دے رہی ہے۔ سمتا کے جسم کے نقش و نگار ابھر آئے ہیں۔ اس کے کانوں میں اب انجان سی سر گوشیاں سنائی دینے لگی ہیں۔ آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک نمودار ہونے لگی ہے۔بدن سے باس اٹھنے لگا ہے لیکن وہ پڑھنے لکھنے میں ذرا بھی غفلت نہیں برتتی ہے۔ دل لگا کر محنت سے پڑھائی کرتی ہر روز ماں کو طرح طرح کی کہانیاں سناتی۔ انگریزی کے الفاظ بولتی تو لکھمنیا آواک سی اسک ا منہہ تکتی۔ کبھی ہندی کے بھاری بھر کم الفاظ استعمال کرتی تو لکھمنیا کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا لیکن وہ دل ہی دل میں خوش ہوتی کہ اسکی بیٹی من لگا کر پڑھ رہی ہے اور ماسٹر صاحب کی بےحد شکور ہوتی کہ انہوں نے سمتا کو اس لائق بنا دیا کہ اس کے طور طریقے، بول چال، رہن سہن سب میں تبدیلی آ گئی ہے۔ وہ بات بات پر ماں کو ٹوکتی کہ ماں ایسے بیٹھو، ایسے بولو، ایسے کھاؤ، لکھمنیا ہنس دیتی——

’’بیٹی اب نہیں بدل سکتی۔ بچپن سے ہمکوایسا ہی سنسکار ملا ہے۔ تو نئے زمانے کی پڑھی لکھی لڑکی ہے تیرے سنسکار بدل جائیں گے۔‘‘

’’سمتا تنک کر کہتی——ماں سنسکار بدلنے کے لئے عمر کی کوئی سیما نہیں ہوتی۔ مجھے دیکھو میں نے کتنی زیادہ عمر میں پڑھنا لکھنا شروع کیا اور کتنی جلدی سب کچھ سیکھ گئی۔‘‘

’’لیکن بیٹی اس میں تیرے ماسٹر صاحب کا بڑا ہاتھ ہے۔ جنہوں نے تجھے محنت سے پڑھایا، لکھایا اور تجھے اس قابل بنایا۔‘‘—— لکھمنیا کے چہرے سے خوشی پھوٹ رہی تھی۔

’’ماں واقعی ماسٹر صاحب بہت اچھے ہیں۔ وہ اس طرح پڑھاتے ہیں کہ ہربات دماغ میں کمپیوٹر کی طرح فٹ ہو جاتی ہے۔‘‘—— سمتا کے چہرے پر تیج تھا۔

’’بھگوان کرے تو پڑھ لکھ کر کچھ بن جائے تو میری تپسیا پوری ہو جائے‘‘۔

’’ماں میں کچھ بن کر ضرور دیکھاؤں گی۔‘‘—— سمتا نے مٹھی باندھ کر ہوا میں لہرایا۔

’’بھگوان کرے ایسا ہی ہو۔‘‘—— لکھمنیا اٹھ کر بستر لگانے لگی۔

لکھمنیا اب بے حد خوش تھی کہ وہ سمتا کو چائے کی دکان کے ماحول سے الگ رکھ کر ایک اچھا شہری بنا رہی ہے۔ لکھمنیا حسب اوقات اسکی ہر خواہش کی تکمیل کرتی۔ کتاب، کاپی، کپڑا۔ لیکن ماسٹر صاحب بھی کم مدد نہیں کرتے اچھی اچھی کتابیں خرید کر دیتے مہنگی کتابیں اپنے گھر سے دیتے۔ کچھ کتابیں لائبریری سے دلوا دیتے۔ اس طرح سمتا کے حصول تعلیم میں کوئی دشواری پیش نہیں آ رہی تھی۔

لکھمنیا کئی دن سے دیکھ رہی تھی دو پولس والے اکثررات میں اسکی دکان پر چائے پینے آتے اور کافی دیر تک کھڑے رہ کر ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہتے یہ دونوں قریب کے تھانے کے سپاہی تھے۔ دونوں کی نظریں دکان کے اندر بنی جھونپڑی کی طرف ہوتی۔ پہلے تو لکھمنیا سمجھ نہیں پائی کہ یہ پولس والے جھونپڑی کے اندر کیا تلاش کرتے ہیں لیکن آج تو حد ہو گئی۔ چائے پینے کے درمیان دونوں پولس والے سرگوشی کے انداز میں باتیں کر رہے تھے۔ ایک پولس والا چھونپٹری کے اندر جھانکتے ہوئے دھیرے سے بولا——

’’آج کل اس کی چھو کر یا نظر نہیں آتی ہے۔ لگتا ہے کسی دھندے پر لگا دیا ہے۔‘‘

دوسرا پولس والا بھی اندر جھانکا——-

’’ارے یہ لوگ اور کس دھندے پر لگائےگی۔ زیادہ پیسہ کمانے کا بس ایک ہی دھندا ہے۔‘‘

’’تو کا ہمکو بھی پیسہ دینا پڑیگا ہیرا لال‘‘

’’نہیں بنسی تو بھی کا بات کرتا ہے۔ اسکو دکان یہاں رکھنا ہے کہ نہیں۔ رات میں گشت لگانے کے درمیان موقع دیکھتے ہی اندر گھس جائیں گے۔ بس کام تمام‘‘۔

دونوں پولس والے چائے پی کر وہاں سے چلے گئے۔ لکھمنیا جوان لوگوں کی گفتگو پر ہی کان لگائے تھی جہاں تہاں سے کچھ الفاظ اسکی سمجھ میں آیا تھا مگر آخری جملہ چونکہ کچھ زور سے کہا گیا تھا اس لئے اس جملے کو سن کر اندر تک کانپ گئی۔ بات اسکی سمجھ میں آ گئی تھی کہ دونوں پولس والے سمتا کے بارے میں باتیں کر رہے تھے اور دونو ں کی نیت ٹھیک نہیں تھی۔ یہ پولس والے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اگر کسی رات چھونپڑی کے اندر گھس گئے تو وہ اکیلی جان کیا کر پائےگی۔ اس کی عزت تو جائےگی ہی سمتا کی بھی عزت لٹ جائے گی۔ پولس والے کا خوف اسکے اندر سرایت کر گیا تھا۔ وہ سمتا کے تحفظ کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگی تھی سوچتے سوچتے بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ ماسٹر صاحب کا مکان ہی سب سے زیادہ محفوظ ہے۔ وہ ماسٹر صاحب کو کہےگی کہ سمتا کو اپنے گھر میں ہی کسی کونے میں جگہ دے دیں جہاں وہ رات گزار سکے۔ اسے اب اپنے ساتھ رکھنا خطرے سے خالی نہیں ہے——یہ سوچ کر وہ قدر ے اطمنان محسوس کرتی ہے چائے کی دکان جلدی جلدی بند کرتی ہے حالانکہ ابھی ساڑھے آٹھ ہی بجے تھے۔ روزانہ وہ نو بجے دکان بند کرتی تھی۔ سمتا کے آنے کا وقت بھی وہی تھا۔ وہ یہ سوچ کر دکان جلد بند کر دی کہ آج ہی سے وہ سمتا کو ماسٹر صاحب کے گھر میں رہنے کا انتظام کر دےگی۔ دکان بند کر کے وہ ماسٹر صاحب کے گھر کی طرف چل پڑی۔

ماسٹر صاحب کا گھر باہر سے کھلا ہوا تھا۔ لکھمنیا اندر داخل ہو گئی۔ صحن سے ہوتے ہوئے ماسٹر صاحب کے کمرہ تک وہ پہنچ گئی ۔ کمرہ کا دروازہ بھی کھلا ہوا تھا۔ اس نے پردہ ہٹا کر جیسے ہی کمرہ میں قدم رکھا اندر کا منظر دیکھ کر اس پر سکتہ طاری ہو گیا گویا کاٹو تو بدن میں لہونہیں۔ ذہن ماؤف اور ہاتھ پاؤں جیسے شل ہو گئے ہوں ۔اس نے دیکھا۔

سمتا اور ماسٹر صاحب ادھ ننگے ایک ہی بستر پر سوئے ایک الگ ہی پاٹھ پڑھ رہے تھے۔

مصنف:احمد صغیر

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here