کہانی کی کہانی:’’یہ ایک ایسے مرد کی کہانی ہے، جو اکیلے میں تو اپنی بیوی لکشمی سے بہت پیار جتاتا ہے مگر اپنی ماں کے سامنے خاموش ہو جاتا ہے۔ اس کی ماں لکشمی پر ایک کے بعد ایک ظلم کرتی جاتی ہے۔ ان ظلموں کو برداشت کرتے ہوئے لکشمی ایک دن اسپتال پہنچ جاتی ہے۔ اسپتال میں بھی اسے چین نہیں ملتا۔ اس کا شوہر وہاں آکر اس کے سارے گہنے لے جاتا ہے اور اس کے مرنے سے پہلے ہی دوسری شادی کر لیتا ہے۔‘‘
کسی قسم کے احساس کے بغیر گوبند نے چپ چاپ لکشمی کی چارپائی کے اردگرد پردے لگا دئیے، پردے۔۔۔ جو لکڑی کے فریم میں سفید کپڑا لگا کر بنائے گئے تھے اور حسب خواہش کھولے یا بند کیے جا سکتے تھے۔ تب مس سلطانہ اور بکیٹی تیز تیز چلتی ہوئی آئیں اور انکے بعد متین اور سنجیدہ ڈاکٹر صاحب اپنے بھاری قدم آہستہ آہستہ اٹھاتے ہوئے پردوں کے اندر چلے گئے۔
کچھ لمحہ تک کمرے میں خاموشی چھائی رہی۔ صرف چھت پر لگے ہوئے سفیدپردوں والے پنکھے اپنی پوری رفتار سے گھر گھر کرتے رہے اور جون کی تپتی دوپہر اپنی نیم وا آنکھوں سے غنودگی کی سی حالت میں چپ چاپ پڑی رہی۔
یکا یک پردے کے پیچھے سے کچھ اکھڑی اکھڑی سانسوں کی آواز آئی، پھر لکشمی کے بہکے بہکے الفاظ اور پھر سلطانہ کی لمبی سانس! ڈاکٹر نے کہا، ’’سٹریچر لے آؤ! اور یہ کہہ کر پردے کے پیچھے سے نکل کر وہ جیسے آئے تھے، ویسے ہی چلے گئے۔ ان کے پیچھے رومال سے آنکھیں پونچھتی ہوئی سلطانہ نکلی۔ دوسری بیمار عورتیں تجسس بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ اس کے نکلتے ہی رشیدہ نے پوچھا۔۔۔ ’’کیوں؟‘‘
’’ختم ہو گئی۔۔۔!‘‘ بھرے گلے سے سلطانہ نے جواب دیا۔
’’آخری وقت کیا کہتی تھی۔۔۔؟‘‘ سرتی بولی۔
’’صرف ایک بار کھنہ صاحب کو یاد کیا اور بس!‘‘ اور یہ کہہ کر آنسو پونچھتی ہوئی سلطانہ جلد جلد سٹریچر لینے کے لیے چلی گئی۔
لکشمی اپنے خاوند کو کھنہ صاحب، کہہ کر پکارا کرتی تھی۔ وہ لاہور ہی میں ملازم تھے اور ہر ساتویں دن باقاعدہ اسے دیکھنے آتے تھے۔ کوئی ایسے خوش شکل تو نہ تھے، مگر ایسے بھی نہیں کہ بدصورت کہے جا سکیں۔ ان کی آنکھوں میں کچھ ایسی بات تھی کہ آدمی بے ساختہ ان کی طرف کھنچ جاتا تھا اور پھر اتنی باتیں کرتے تھے، اتنے قہقہے لگاتے تھے کہ جب وہ آ جاتے تو ہسپتال کی اس خاموش اور ساکن فضا میں زندگی سی دوڑ جاتی۔ فقط لکشمی ہی ان کے آنے کا انتظار کرتی ہو یہ بات نہیں۔ اس کھلے اور کشادہ کمرے میں لوہے کی سخت، بے درد چارپائیوں پر لیٹی ہوئی بخار، حرارت، دوا، پرہیز کی باتیں سن سن کر عاجز آئی ہوئی دوسری بیمار عورتیں بھی ان کے آنے کی راہ دیکھا کرتی تھیں۔ وہ باتیں چاہے اپنے رشتے داروں سے کرتی ہوں، لیکن کان ان کے ادھر ہی لگے رہتے تھے اور لکشمی وہ تو نہ جانے یہ سات دن کیسے کاٹتی تھی؟ ہنستی تھی، دوسروں کو ہنساتی تھی، لیکن اس تمام ہنسی ٹھٹھے میں اپنے خاوند کا انتظار جیسے اس کے دل کے کسی نا معلوم گوشے میں چھپا رہتا تھا اور کون جانتا ہے کہ یہ ہنسی قہقہے، ہسپتال میں ایک بار طلوع ہوکر پھر غروب ہی نہ ہونے والے، دنوں کا کاٹنے کا محض بہانہ نہ تھے۔ یہ بات بھی نہیں اسے اپنے خاوند سے اتنی محبت اس مہلک بیماری کے دنوں میں ہوئی، اسی دن، جب شادی کے بعد ایک مہینہ گذار کر وہ اپنے میکے واپس آئی تھی تو اس کی سہیلیوں نے جان لیا تھا کہ بستی کی آزاد فضا میں دن رات کھیلنے والی، گلی محلوں کو اپنے قہقہوں سے گونجا دینے والی لکشمی اب محبت کی زنجیروں میں جکڑی گئی ہے۔
جب سہیلیاں اسے چاروں طرف سے گھیر کر بیٹھ گئی تھیں تواس نے فخر سے کہا تھا، ’’ان کی بات پوچھتی ہو؟‘‘ وہ تو مجھے پل بھر کے لیے لیے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے۔ کتنی کتنی دیر میری طرف دیکھتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں۔۔۔‘‘
فرط حیا سے اس نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا تھا اور پھر سہیلیوں کے اصرار پر اس نے گلاب بن بن کر کہا تھا۔ کہتے ہیں، ’’تم تو سورگ کی دیوی ہو، میں تمہاری پوجا کرتا ہوں۔‘‘
ستیا کی رشک بھری آنکھوں نے تب دیکھا تھا کہ اس کی یہ بات اپنے خاوند سے ہر ہندو عورت کو جو محبت ہوتی ہے، اس کی ہی مظہر نہیں، بلکہ اس حقیقت پر مبنی تھی جس کی تائید اس کا رواں رواں کر رہا تھا۔ تب اپنے خاوند کے بےالتفاتی کا دھیاں آجانے پر ایک سرد آہ اس کے دل کی گہرائیوں سے نکل گئی۔
ساوتری نے اپنے حسد کا اظہار ایک دوسرے ہی طریق پر کیا۔ کھسیانی سی ہنسی ہنستے ہوئے بولی۔۔۔ ’’ہاں بہن، انہیں محبت کیوں نہ ہوگی، ایک بار ہاتھ سے گنوا کر ہی آدمی کسی چیز کی قدر کرنا سیکھتا ہے۔‘‘
اس فقرے میں جوطنز پنہاں تھا اس کی طرف دھیان دیے بغیر سادہ لوح لکشمی نے مسرت کی رو میں سہیلیوں کو اپنی اس ایک مہینے کی ازدواجی زندگی کی بیسیوں کہانیاں سنا ڈالی تھیں۔ کس طرح اس کے شوہر اس پہ جان چھڑکتے ہیں۔ اسے آنکھوں سے اوجھل کرنا پسند نہیں کرتے۔ دفتر میں نہ جانے کیسے وقت گزارتے ہیں؟ ’’پہلی بیوی۔۔۔‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’وہ تو گنوار اور بیوقوف تھی۔ تمہیں پاکر تو میں نے زندگی کی مسرتیں پالی ہیں۔‘‘
تارا نے تب ہنستے ہوئے کہا۔۔۔ ’’ساس کو یہ سب کچھ کیسے بھاتا ہوگا؟‘‘
’’ان کے دل کی میں کیا جانوں۔‘‘ لکشمی نے مسرت بھرے لہجے میں جواب دیا۔ لیکن میٹھی تووہ ایسی ہیں جیسے مصری۔ بولتی ہیں تو رس گھول دیتی ہیں۔ میری تو عادت تم جانتی ہو سوتے سوتے دن نکل آتا ہے۔ مگر انہوں نے اس کا کبھی برا نہیں مانا۔ وہ خود چار بجے علی الصباح اٹھ کر نہا دھو، پوجا پاٹھ کر، گھر کا سب کام ختم کر دیتی ہیں۔ میں کچھ کرنے کی کوشش بھی کروں تو کہتی ہیں، ’’تمہیں ہی تو کرنا ہے بہو، میں کب تک بیٹھی رہوں گی۔‘‘
اور اس دن بستی میں لکشمی کی رحم دل اور فرض شناس ساس اور محبت کرنے والے ہنس مکھ خاوند کی کہانی گھر گھر پھیل گئی تھی اور شادی شدہ لڑکیوں نے دعا کی کہ ان کے خاوند اور ساسیں بھی ایسی ہی بن جائیں اور کنواری لڑکیوں نے دل ہی دل میں کہا، ’’بھگوان ہمیں بھی ایسا ہی گھر ور دینا۔‘‘
ربڑ کے پہیوں والا سٹریچر چپ چاپ مشرقی دروازے سے داخل ہوا گوبند اسے دھکیل رہا تھا اور مس سلطانہ خاموشی سے اس کے ساتھ چلی آرہی تھی۔ اس کا ہمیشہ ہنسنے والا چہرہ اترا ہوا تھا۔ جیسے اسی کے کسی قریبی رشتہ دار کی موت ہو گئی ہو۔ موتیں، ہسپتال میں ہمیشہ ہی ہوا کرتی ہیں اور ہسپتال کے ملازم اس درجہ ان کے خوگر ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے سب کام کسی قسم کے احساس کے بغیر کئے جاتے ہیں۔ لیکن لکشمی سے سلطانہ کو محبت سی ہو گئی تھی۔ سلطانہ پر ہی کیا موقوف، سب کواس سے انس ہو گیا تھا۔ اس نے اپنی ازدواجی زندگی کے کتنے ہی واقعات ایک عجیب سادگی سے بیان کئے تھے۔ اپنی ساس کے متعلق اس کے دل میں جو بلند خیالات تھے انہیں ہوا ہوتے دیر نہیں لگی۔ وہی زبان جو پہلے رس کی دھاریں بہاتی تھی بعد کو زہر بھی اگلنے لگی۔ کھنہ صاحب تب ملازم نہیں ہوئے تھے۔ مگر گھر کی سیاسیات میں وہ ماہر تھے۔ اپنا کام چالاکی سے نکالنا جانتے تھے۔ ماں کے سامنے چپ رہتے لیکن تنہائی میں کہتے، ’’لکشمی ان سب قصوروں کے لیے میں تم سے معافی چاہتاہوں‘‘ اور تب اسے ساس کی جھڑکیاں، طعنے کو سنے، گالیاں بالکل بھول جاتیں اور خاوند سے اس کی عقیدت کئی گنا بڑھ جاتی۔ وہ ساتھ ہیں تو پھر چاہے سارا جہان خلاف ہو جائے، وہ سب کی مخالفت خوشی خوشی جھیل لےگی۔ جی نہ چاہتے ہوئے بھی، ساس کو خوش کرنے کے لیے اس نے بھگوتی درگا کی پوجا سیکھی اور اپنی سہل انگاری کو چھوڑ کر محنت سے کام کرنے کی عادت بھی ڈالی۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود ساس کے تیور نہ بدلے۔ اس کی جھڑکیاں، طعنے، کوسنے بدستور جاری رہے مگر لکشمی نے سب کچھ ہنس ہنس کر سہنا سیکھ لیا تھا۔ ہاں ایک بارجب جلتا ہوا گھی گر جانے سے اس کے ہاتھ جل گئے تھے اور ابھی آرام بھی نہ آنے پایا تھا کہ اس کی ساس نے کپڑوں کی بھری گٹھڑی اس کے سامنے رکھ دی تھی، تو اس کی ہمیشہ مسکرانے والی آنکھیں بھر آئی تھیں۔ کپڑے دھوتے دھوتے اس کے چھالے پھوٹ گئے تھے۔ تب اندر کمرے میں جاکر وہ خوب جی بھر کر روئی تھی اور جب کھنہ صاحب آئے تھے تو اس نے کہا تھا، ’’مجھے اس نرک سے چھٹکارا دلاؤ۔ ماں اگر دھن والی ہے تو کیا اسی لیے یہ نرک کی اذیتیں برداشت کئے جائیں۔ تمہارے ساتھ تومجھے سوکھی روٹی پسندہے۔ مگر یہ ظلم تواب نہیں سہا جاتا۔‘‘
کھنہ صاحب نے اسے تسلی دی تھی اور مستقبل کے تصورات کا ٹھنڈا پھاہا اس کے جلتے ہوئے زخموں پر رکھ دیا تھا۔ انہوں نے کیا کیا کچھ نہ کہا تھا۔ جب وہ ملازم ہو جائیں گے تو اسے اپنے ساتھ لاہور لے جائیں گے۔ ماں تو نواں شہر ہی میں رہےگی اور وہاں لاہور میں۔۔۔ انارکلی، مال، لارنس، باغ، سنیما، تماشے، نمائشیں اور ان ہی مسرت بخش تصورات میں گم ہوکر وہ اپنے چھالوں کی ٹیس، اپنے دل کا درد سب کچھ بھول گئی تھی۔ لیکن سنگدل قسمت! جب وہ دن آیا اور کھنہ صاحب لاہور ہی میں سول سیکرٹریٹ میں ملازم ہو گئے تووہ دق جیسی بیماری میں مبتلا ہو گئی۔
آہستہ آہستہ چلتا ہوا سٹریچر پردے کے پیچھے پہنچا اور کچھ لمحے بعد سفید چادر میں لپٹا ہوا ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ لے کر دونوں طرف بچھی ہوئی چارپائیوں میں سے ہوتا ہوا مغربی دروازے سے باہر نکل گیا۔ ڈاکٹر صاحب برآمدے ہی میں کھڑے تھے۔ وہیں سے انہوں نے کہا، ’’مردہ خانے میں لے جاؤ۔ تب تک کھنہ صاحب آ جائیں گے۔ لہنا سنگھ توکب کا گیا ہوا ہے۔‘‘
پل بھرکے لیے بیمار عورتوں کے دل دھک دھک کرنے لگے۔
لکشمی کا نحیف وناتواں د ق سے مرجھایا ہوا، موت کی اس سفید چادر میں لپٹا ہوا مدقوق جسم سب کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔ دق کی ان سب مریضاؤں کا بھی تو آخر یہی حشر ہوگا۔ موت سے بھی زیادہ اندوہ ناک ہے، اپنے ہی جیسی بیماری سے کسی کو مرتے دیکھنا اور خود تل تل کرکے مرنا بہتوں کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا اور بعض کے آنسو بہنے لگے۔
پردے کے پیچھے سے نکل کر مس بیٹی غسل خانے میں ہاتھ صاف کرنے چلی گئی تو ہمیشہ دوسروں کا دکھ درد بٹانے والی رحم دل سلطانہ نے اس غم ناک ماحول کو کچھ بدلنے کی کوشش کی۔ ہمیشہ یہی ہوتا تھا ہمیشہ، جب کوئی مریضہ اس بھیانک بیماری کے ہاتھوں نجات پائی تھی اور کمرے میں موت کی اداس خاموشی چھا جاتی تھی تومس سلطانہ اپنے میٹھے، تسلی آمیز لہجہ میں اپنی دلچسپ باتوں، اپنے حیرت انگیز قصوں سے اس موت کی خاموشی کو دور کرنے کی کوشش کیا کرتی تھی۔ برس ڈیڑھ برس سے لکشمی بھی اس کام میں اس کا ہاتھ بٹاتی آئی تھی۔ لیکن آج وہ خود ہی موت کی گہری خاموشی میں سما گئی تھی۔
گھڑی نے ٹن ٹن دو بجائے۔ ٹمپریچر لینے کا وقت ہو گیا تھا۔ دل میں اٹھتے ہوئے آنسوؤں کے طوفان کو زبردستی روک کر، دوا میں پڑے ہوئے تھرما میٹر کو ہاتھ میں لیے اور مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے وہ رشیدہ کی چارپائی کے پاس پہنچی۔ لیکن آج سعی بسیار کے باوجود وہ لکشمی کی موت کوہنسی کے پردے میں نہ چھپا سکی۔
رشیدہ نے کہا۔ مس صاحب لکشمی بھی چلی گئی۔
تھرما میٹر کو رشیدہ کی زبان کے نیچے رکھ کر سلطانہ نے ایک لمبی سانس لی اور نبض کی رفتار دیکھنے کے لیے اس کی کلائی ہاتھ میں تھام لی۔
سرتی نے کہا، ’’آخری وقت تک اپنے خاوند کا نام اس کی زبان پر رہا۔ کیوں مس صاحب! کھنہ صاحب بھی اس سے اتنا ہی پیار کرتے ہوں گے؟‘‘
’’ہوں گے کیا۔ کرتے ہیں۔‘‘ سلطانہ نے رشیدہ کی کلائی کو چھوڑ کر کہا، ’’لکشمی کو مرنا بھی اسی لیے سہل ہو گیا۔ میں تو سوچتی ہوں، محبت کرنے والا خاوند جس خوش قسمت کے پاس ہے، موت اسے کچھ بھی تکلیف نہیں پہنچا سکتی۔ بےہوش ہونے کے کچھ دیر پہلے جب اسے معلوم ہوگیا کہ اس کا آخری وقت بس اب نزدیک ہی ہے تو مجھ سے اس نے کہا تھا۔۔۔ ’’مس صاحب جانے وہ کیوں نہیں آئے؟ اس بار تو انہیں آئے پندرہ دن ہو گئے۔ اس وقت جی چاہتا ہے کاش وہ میرے پاس ہوتے۔‘‘ پھر خود ہی ہنس کر بولی، ’’مس صاحب میں بھی کتنی بیوقوف ہوں وہ نہ بھی آئیں تووہ مجھ سے دور ہیں کیا؟ میرے دل میں توہر وقت انہیں کی تصویر رہتی ہے اور میں ہی ان سے کیا دور ہوں؟ کئی بار انہوں نے کہاہے، ’’لکشمی! تم توہر وقت میرے پاس رہتی ہو۔ بارہا کام کرتے کرتے تمہارا خیال آجانے سے غلطی ہو جاتی ہے‘‘ اس کے بعد وہ بے ہوش ہو گئی تھی۔ مرتے دم بھی جب اسے ہوش آیا تو خاوند کا نام ہی اس کی زبان پر تھا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے بھیگی آنکھوں کو پونچھ، گھڑی دیکھ کر سلطانہ نے تھرما میٹر رشیدہ کے منہ سے نکال لیا اور حرارت نوٹ کرنے کے لیے چارٹ اٹھایا۔
سرتی نے پوچھا، ’’لیکن مس صاحب یہ گہنوں کی بات کیاتھی۔ جب بھی کھنہ صاحب آتے تھے۔ ان کا ذکر ضرور چھڑ جاتا تھا۔ جب سے گہنے لے گئے۔ بس ایک بار ہی تو پھر آئے۔‘‘
تھرما میٹر کو دوا میں ڈال کر اور دوسرا اٹھا کر سرتی کو دیتے ہوئے اس نے کہا، ’’میں نے پوچھا نہیں، لیکن جب لکشمی آئی تھی تو سب گہنے ساتھ ہی لے آئی تھی۔ اسکی ساس نہیں چاہتی تھی کہ وہ ایک بھی گہنا ساتھ لے جائے۔ آخر ہسپتال میں اتنے گہنوں کا کام بھی کیا ہے؟ بازوبند، چوڑیاں، ملا، لاکٹ کوئی ایک گہنا ہو تو گہناؤں۔ نہ جانے کیوں اسے گہنوں سے اتنی محبت تھی۔ ساس تو مرتے دم تک نہ لے جانے دیتی۔ لیکن کھنہ صاحب اپنی ماں کو سمجھا بجھا کر لے آئے تھے۔ یہاں مریضوں کو گہنے پہننے کی اجازت نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے سمجھایا کہ انہیں ساتھ نہیں لانا چاہیے تھا۔ اب بھی بہتر ہے کہ انہیں کھنہ صاحب کے حوالے کر دو لیکن وہ گہنے اپنے پاس ہی رکھنا چاہتی تھی۔ آخر ڈاکٹر صاحب نے گہنے ایک لوہے کے صندوقچے میں بند کر کے چابی اسے دے دی اور صندوقچے کو ہسپتال کے سیف میں رکھ دیا۔ اس چابی کو وہ لحظہ بھر کے لیے بھی جدا نہ کرتی تھی۔ لیکن جب بیماری بڑھ گئی اور تن بدن کا بھی ہوش اسے نہ رہا اور جب ایک دن کھنہ صاحب کے کہنے پر میں نے اسے سمجھایا کہ گہنے تمہارے ہی نام بینک میں جمع کرائے جا سکتے ہیں تو اس نے چابی دے دی۔ یہی ایک بات لکشمی میں مجھے عجیب نظر آئی لیکن شاید انہی کے ذریعے وہ اپنے آپ کو زندہ سمجھتی تھی۔ اسی رات اس نے مجھے پاس بلا کر کہا تھا۔۔۔ ’’مس صاحب اب میں بہت دیر تک زندہ نہیں رہوں گی۔‘‘
سرتی کی زبان تھرما میٹر کی وجہ سے دکھنے لگی تھی۔ آخر اس نے خود ہی اسے نکال کر مس سلطانہ کو دے دیا۔ چونک کر سلطانہ نے تھرما میٹر لے لیا اور ٹمپریچر دیکھنے لگی۔
سرتی نے کہا، ’’یہ تو ٹھیک ہے مس صاحب، لیکن گہنے لینے کے بعد کھنہ صاحب نے ہرہفتہ آنا کیوں چھوڑ دیا؟ دو ہفتے گذر گئے انہیں آئے ہوئے۔‘‘
رشیدہ بولی، ’’بیمار نہ ہو گئے ہوں۔ نہیں توگرمی سردی، بارش، دھوپ انہوں نے کسی بات کا کبھی خیال نہیں کیا۔ باقاعدہ ہر ہفتے آتے رہے اورمیں توسوچتی ہوں مس صاحب لکشمی کی موت کی خبر سن کر ان کے دل پر کیسی گذرےگی؟ اپنی بیوی سے کسی کو ہی ایسی محبت ہوگی۔‘‘
تب شاید سٹریچر مردہ خانے میں پہنچا کر گوبند واپس آیا اور اس کے پیچھے ڈاکٹر صاحب بھی آئے۔ پردے کے پاس پہنچ کر گوبند نے پوچھا۔ ’’کپڑوں کو لپیٹ دوں ڈاکٹر صاحب۔‘‘ ڈاکٹر صاحب اس کے پاس جاکر کھڑے ہو گئے۔ بولے، ’’ہسپتال کی چادروں کو ڈس انفکٹر میں ڈال دو اور باقی کا سامان پڑا رہنے دو۔ ابھی شاید کھنہ صاحب یاان کا آدمی آ جائے۔ ہاں گدے باہر دھوپ میں ڈال دو۔‘‘
اسی لمحے برآمدے کے پاس سیڑھیوں پر سے سائیکل پھینک کر ہاتپتا ہوا پسینے سے تر لہنا سنگھ اندر آیا۔ ڈاکٹر صاحب نے آگے بڑھ کر پوچھا۔
لہنا سنگھ نے سر ہلایا۔ اس کی سانس پھول رہی تھی۔ جواب نہ بن پڑتا تھا۔
ذرا تلخی سے ڈاکٹر صاحب نے پوچھا، ’’ملے یا نہیں؟ کہا نہیں۔ تم نے کہ لاش کو آج شام سے پہلے لے جائیں۔‘‘
تھوک نگل کر لہنا سنگھ نے کہا، ’’وہ توشادی کرنے اپنے گھر چلے گئے ہیں۔‘‘
ٹھن سے ٹمپریچر کا چارٹ مس سلطانہ کے ہاتھ سے فرش پر گر پڑا اور رشیدہ نے جیسے گھبرا کر چیختے ہوئے کہا۔۔۔ مس صاحب! مس صاحب!
مصنف:اوپندر ناتھ اشک