فکر انگیز انتشار میں ہیں
جب سے ہم میرؔ کے دیار میں ہیں
خود سے بے باک گفتگو کر کے
ایک اک لفظ کے حصار میں ہیں
عکس کے ساتھ آئنے بولیں
ایسے لمحے کے انتظار میں ہیں
کون ان کا شمار جانے ہے
کتنے دریا جو آبشار میں ہیں
اب کوئی کس کا احتساب کرے
جب سبھی ایک ہی قطار میں ہیں
ان کو لطف خزاں ہو کیا معلوم
قید جو اپنی ہی بہار میں ہیں
شاعر:ظفر مہدی