بیمار غم

0
157
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’یہ کہانی سماج میں عورت کے حالات کی عکاسی کرتی ہے۔ سماج نے عورت کو ہر طرح کے حق دے رکھے ہیں مگر جس حق کی اسے سب سے زیادہ ضرورت ہے اسی سے اسے محروم رکھا گیا ہے اور وہ حق ہے اپنی پسند کے شریک حیات کے انتخاب کا۔ اگر یہ حق اسے نہیں تو پھر اس زندگی کا فائدہ ہی کیا؟‘‘

ابھی تو زردی ہے رخ پہ کم کم،ابھی سے روتے ہیں سارے ہمدم

یونہی جو چندے رہی تپ غم، تو پھر لہو بھی نہیں رہے گا

اسے لاکر اس کی خواب گاہ میں لٹا دیا گیا۔ رات گرم تھی اور ویران۔ اس کی خواب گاہ کی دیواریں ہلکے آسمانی رنگ کی تھیں۔ اس پر سیاہ رنگ میں چینی کسانوں کی تصویریں پینٹ کی ہوئی تھیں جوچائے کے کھیت میں مشقت کر رہے تھے۔ خواب گاہ کے لمبے لمبے سنہرے اور فیروزی رنگ کے پردے خزاں کی ہوا سے نہ جانے کیوں ایک عجیب المناک انداز میں ہل رہے تھے، جیسے کوئی انہیں جھنجھوڑ رہا ہو اور زندگی کے خواب سے بیدار کر رہاہو۔

ایک طرف ایک چھوٹی سے منقش صندل کی میز پر چاندی کے دو بڑے بڑے گلدانوں میں حنا کے پھول رکھے تھے۔ جن کی نکہت کمرے کو کچھ اور زیادہ حسین بنا رہی تھی۔اک کونےمیں آسمانی رنگ کے پتھر میں محبت کے دیوتا کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ اس کے قدموں میں میری پالتو بلی شکوری سو رہی تھی۔ دریچے کے نیچے ستاربے کسی کی حالت میں پڑا تھا۔ اس کا غلاف کوچ کے پاس ہی قالین پر رکھا ہوا تھا۔ اس سے کچھ دور خزاں کے چند خشک اور زرد پتے پڑے ہوئے تھے۔

- Advertisement -

اسے لاکر خواب گاہ میں لٹا دیا گیا۔ نیلی ساٹن کے فانوس سے چھن کر مدھم چراغ کی پیلی پیلی کرنیں اس کے لیموں جیسے زرد رنگ چہرے پر کانپ کر اس کی ناتوانی اور اضمحلال کو زیادہ دردناک بنارہی تھیں۔ سیاہ، دراز اور ایشیائی حسن، دل فریبی سے لبریز، ساٹن جیسے بال مخملی تکیے پر بکھر گیے تھے۔

آہ ناشاد لڑکی!

زندگی نے اس سے برا سلوک کیا۔

میں انتہائی فکر مندی اور اضطرار کی کیفیت میں اس کے سرہانے ایک چھوٹی سی الماری سے ٹیک لگائے کھڑی تھی اور اسے دیکھ رہی تھی۔ ہائے وہ وقت! مجھے اب تک نہیں بھولا۔ واقعی زندگی کے چند واقعات انسان کو کبھی نہیں بھولتے! رات سنسان اور خاموش تھی۔ قبرستان کی شام کی طرح خاموش۔۔۔! کھڑکی کے باہر باغ میں کہیں دور تاڑ کے چپ چاپ درختوں پر چاند طلوع ہو رہا تھا۔ خزاں کی ہوائیں خشک پتوں کو اڑا اڑا کر اندر لارہی تھیں۔ کئی تو اس کے بستر پر بھی پڑے تھے۔ قریب ہی دریچے کے باہر ناشپاتی کی اک خزاں رسیدہ پتلی سی ٹہنی پر نیلگوں چشم عربی بلبل اداس بیٹھی زرد چاند کو تک رہی تھی جو اس کے پیچھے طلوع ہو رہا تھا۔ رات کے سناٹے میں اور چاند کی مدھم زرد روشنی میں ننھی بلبل کی سیاہ تصویر ایسی نظر آتی تھی جیسے کوئی مغموم روح عالم ارواح میں بیٹھی اپنے اعمال نامے پر غور کر رہی ہو۔

میرا اضطرار اور غصہ بڑھتا گیا۔ آہ بدنصیب مظلوم لڑکی! بے رحم رواج نے اسے تباہ کردیا۔ اس کی زندگی کی پنکھڑی کو رواج کی ظالم اور بے پناہ انگلیوں نے قریب قریب نوچ لیا۔۔۔ اللہ! کیا مشرقی لڑکی محض اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کی خوشیوں پر بھینٹ چڑھادی جائے؟ کیا اسے خود اپنی زندگی کے معاملے میں بھی دخل دینے کا اختیار نہیں؟ کدھر ہیں وہ ریفارمر، جو قوم کے آگے لمبی لمبی تقریریں کرتے اور بہبودی قوم کا ترانہ بڑے زور و شور سے گاتے ہیں؟ سٹیجوں پر کھڑے ہوکر اپنے سینے پر ہاتھ رکھ رکھ کر، قومی درد جتانے والے ریفارمر کدھر ہیں؟ وہ گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھیں، انہوں نے اپنی ماؤں کے لیے کیا کیا؟ لڑکیوں کے لیے کیا کیا؟ جو کل قوم کی مائیں بننے والی ہیں۔ کیا ان کا ہمدردی اور قوم کے عشق سے لبریز دل۔۔۔ مظلوم لڑکیوں کی آہ سے تھرا نہیں اٹھتا۔ کیا ان کی تمام ہمدردی،تمام درد محض فرقہ رجال ہی تک محدود ہے؟ اگر ان کے احساسات صرف مردوں کے دکھ درد تک ہی محدود ہیں تو پھر یہ بزرگ کس منہ سے قوم کے امام بنے پھرتے ہیں؟ پھر وہ کیوں اس نام سے منسوب کیے جاتے ہیں؟ کیا وہ عورت کو قوم سے خارج سمجھتے ہیں؟ کیا قوم صرف مردوں ہی کے احتجاج کا نام ہے؟

اے خدا! ان بزرگوں نے ہمارے لیے کیا کیا؟ کچھ نہیں کیا۔ آہ! کچھ بھی نہیں کیا۔ ان سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ ہم کو زندگی کے اس نازک ترین مسئلہ میں رائے دینے کا اختیار دے دیں، جس پر مرد اور عورت کی آئندہ خوشیوں اور امیدوں کا انحصار ہوتا ہے اور جس میں دخل دینا انسانی فطرت ہے۔ یہ لوگ لڑکوں کی یونیورسٹیوں کے لیے جھگڑتے ہیں، اپنی انجمنوں کے لیے بھیک مانگتے ہیں، اپنی شہرت کے لیے تقریریں کرتے ہیں مگر ہمارے لیے آج تک کسی بزرگ نے، کسی ریفارمر نے یہ قانون نہیں بنایا کہ خود زندگی کے مسائل میں ہماری رائے ضروری سمجھی جائے۔

کچھ سوچ کر میری آنکھوں میں آنسو آئے۔ میں بیمار پر جھک گئی اور مشکل سے اتنا کہہ سکی،’’جسوتی!‘‘ اس نےآنکھ کھولی۔ سیاہ اور نرگسی آنکھ، جس میں ہزاروں ہی حسرتیں تھیں اور کہا،’’آہ!‘‘ پھر چھت کی طرف تکنےلگی۔ اس کی نیم وا آنکھوں میں سے زندگی کی پرانی تمنائیں جھانکتی معلوم ہوتی تھیں۔ اب بھی وقت تھا۔ اب بھی اس کے بزرگ اس پھول کو باد خزاں کے تند جھونکوں سے بچا سکتے تھے۔

میں آنسو پونچھتی ہوئی باغ کے دروازے سے باہر آئی۔ اب چاند، اداس چاند تاڑ کے چپ چاپ درختوں پر آگیا تھا اور خزاں رسیدہ ٹہنی پر مغموم بلبل اسی طرح خاموش بیٹھی اسے تک رہی تھی۔

مأخذ : خلوت کی انجمن

مصنف:حجاب امتیاز علی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here