سیلاب

0
166
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’یہ آزادی کے دور کے ایک ایسے اخبار کے مدیر کی کہانی ہے، جو آزادی کے لیے انقلابیوں کی تنقید کرتا ہے اور سرکار سے اشتہار حاصل کرتا ہے۔ ایک روز جب اس کی بیوی گھر کے عیش و آرام کو چھوڑ کر آزادی کی مہم میں شامل ہو جاتی ہے تو وہ بھی اس کے جوش کو دیکھ کر اس مہم میں سب سے آگے چل پڑتا ہے۔‘‘

سر غرور بلند کر کے ساحل نے سمندر سے کہا۔ میری شان ہی سے تیری شان ہے۔

سمندر نے پر شور قہقہہ لگایا اور کنارے کو بہا دیا۔

پنڈت رادھے شام ایک رجعت پسند اخبار کے ایڈیٹر اور مالک تھے۔ ان کا ضمیر اس پژمردہ چنگاری کی طرح تھا، جو خوشامد اور چاپلوسی کی منوں راکھ کے نیچے دب گئی ہو۔ قومی تحاریک سے وہ دور بھاگتے تھے۔ ترقی پسند انجمنوں کی کمزوریوں کو بےنقاب کر کے انہیں کوسنا، ان کا روز کا معمول تھا اور ان کی اس خدمت کے عوض انہیں سرکاری اشتہارات ملتے تھے۔ اگرچہ ان کے اخبار کی اشاعت چنداں حوصلہ افزا نہ تھی۔

اس وقت جب صوبہ بھر کے اخبارات قومی تحریک کی حمایت کر رہے تھے۔ نوجوانوں کی قربانیوں پر ان کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ نمک کے قانون کو توڑنے کی تلقین کرتے ہوئے اس کے پردے میں وہ دیر سے سوئی ہوئی قومی تحریک کی بیداری کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ان کے دن رات تحریک کی مخالفت کرنے میں صرف ہو رہے تھے۔

- Advertisement -

وہ تحریک کے خلاف لکھتے تھے۔ اس کے محرکوں کا مذاق اڑاتے تھے اور کہتے تھے، ’’قوم کی طاقت اور وقت ایک نہایت فضول اور بے معنی تحریک کے لئے صرف کئے جا رہے ہیں۔ ملک میں بیسیوں قسم کے ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں۔ نمک کا ٹیکس کوئی بڑا بھاری ٹیکس نہیں۔ اگر اسے منسوخ بھی کر دیا گیا۔ تو اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچےگا۔ ساٹھ ہزار! صرف ساٹھ ہزار، حالانکہ لاکھوں روپیہ عیش و عشرت میں صرف ہو رہا ہے۔‘‘

لیکن جب انہیں کوئی بتاتا کہ نمک کے ٹیکس کا بار مفلس لوگوں پر زیادہ پڑتا ہے اور غریبوں کے لئے ساٹھ ہزار روپیہ ساٹھ لاکھ کے برابر ہے تو وہ ایک پھیکی ہنسی ہنسکر بےزاری سے سر ہلا دیتے۔

وہ صرف نمک کی تحریک کے خلاف ہوں، یہ بات نہ تھی۔ وہ ہر ترقی پسند تحریک کے خلاف تھے۔ وہ ان قدامت پسند لوگوں میں سے تھے۔ جو برٹش راج کو ہندوستان کے لئے رحمت تصور کرتے ہیں اور سوچا کرتے ہیں۔ کہ اگر یہ راج نہ رہا تو ہندوستان میں پھر ابتری کا دور دورہ ہو جائیگا۔

صوبہ بھر کے اخبارا اور رسالے ان کا مذاق اڑایا کرتے۔ اپنے غپ شپ کے کالموں میں اس پر پھبتیاں کسا کرتے۔ انگریزی دانوں میں وہ YES MAN اور اردو والوں میں ’’جی حضوریے‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ لیکن انہیں اس بات کی شرم نہ تھی۔ بلکہ سرکار کی خوشنودی حاصل کرنے میں، اشتہارات لینے میں، ان کے ہمعصروں کے دیئے ہوئے یہی ’’خطابات‘‘ ان کے کام آتے تھے اور ستم ظریفی یہ کہ ان کے اخبار کا نام ’’رہبر‘‘ تھا۔

کانگرس کی طرف سے شہر میں نمک کے قانون کو توڑنے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ ایک عظیم الشان جلوس کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ پروگرام مرتب ہو چکا تھا۔ اتوار کا دن تھا اور اخباروں میں چونکہ چھٹی تھی۔ اس لئے ہر اخبار نے اپنے ضمیمے نکالنے کا انتظام کر رکھا تھا اور لوگ بڑی بیتابی سے ان کا انتظار کر رہے تھے۔ تاکہ صحیح پروگرام سے روشناس ہو سکیں۔ کملا بھی گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر اخبار کی منتظر تھی۔

وہ پنڈت رادھے شام کی آزاد خیال بیوی تھی۔ وہ اسے ہمیشہ ’رہبر‘ ہی پڑھنے کے لئے دیتے تھے۔ وہ دفتر میں چاہے کتنے اخبار منگائیں۔ لیکن گھر ان میں سے ایک کو بھی نہ جانے دیتے تھے اور کملا ہمیشہ چاہا کرتی تھی کہ وہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھے، اپنی سہیلیوں سے جو وہ سنتی تھی، اگرچہ اس کا ایک لفظ بھی اپنے خاوند کے سامنے زبان سے نہ نکلنے دیتی تھی۔ لیکن وہ چاہتی تھی کہ اس کے خاوند یہ سب چاپلوسی چھوڑ دیں۔ خوشامد کی ساری سے خود داری کی آدھی بھلی، لیکن اپنے خاوند کے منہ پر اس نے کبھی کچھ بھی نہ کہا تھا۔

چپراسی آ کر ’رہبر‘ کا ضمیمہ پھینک گیا۔ اس دو ورق کے اخبار میں بھی انہوں نے اس تحریک کے خلاف ایک چھوٹا سا لیڈ لکھ رکھا تھا۔ رنج اور غصہ کے مارے کملا نے اخبار کے پرزے پرزے کر دئے اور انہیں کونے میں پھینک کر کوچ میں دھنس گئی۔ تبھی اس کے خاوند، رہبر، کے قدامت پسند ایڈیٹر شری رادھے شام کمرے میں داخل ہوئے۔ پھٹے ہوئے اخبار کے پرزوں کو دیکھ کر انہوں نے ذرا تیکھے لہجے میں کہا، ’’یہ کیا بیہودگی ہے؟‘‘

کملا چپ کوچ پر بیٹھی تھی۔

انہوں نے پھر گرج کر کہا، ’’یہ کیا بیہودگی ہے۔‘‘

کملا اب کے بھی چپ رہی، اس نے صرف ایک بار اپنے خاوند کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا۔

برس ہی پڑنے کو تیار بادل کی طرح اس کی آنکھیں بھری ہوئی تھیں۔

رادھے شام آہستہ سے اس کے پاس کوچ پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے کہا، ’’دیکھ کملا، میں یہ سب برداشت نہیں کر سکتا۔ مجھے یہ سب جھگڑا بالکل ناپسند ہے، باہرہی میری کم مخالفت نہیں ہوتی۔ جو گھر میں اس کی ضرورت باقی رہ جائے۔‘‘

’’آپ مخالفت کی وجہ کیوں پیدا کرتے ہیں۔‘‘

پنڈت رادھے شام نے پھر جوش سے کہا، ’’میں ہر فضول تحریک کی تقلید نہیں کر سکتا۔ میں نہ عام لوگوں کی طرح دماغ سے عاری ہوں۔ کہ جو کوئی کہے اسے مان کر اندھا دھند اس کی تقلید کروں، نہ میں بیکار ہوں کہ کچھ کرتے رہنے کے لئے ہر تحریک کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کروں اور نہ مجھے شہرت کی تمنا ہے کہ عوام کو غلط راستے پر لگا کر اپنی لیڈری قائم رکھوں۔‘‘

کملا نے چیخ کر کہا، ’’آپ دیش کا کچھ فائدہ نہیں کر سکتے تو دیش بھگتوں کو گالیاں تو نہ دیں۔ اپنی خود غرضی کو چھپانے کے لئے کوئی دوسرا بہانہ آپ کے پاس نہیں کیا؟‘‘

اور ساری کے دامن میں منہ چھپا کر وہ رونے لگی۔

رادھے شام ہنسے ’’خود غرضی!‘‘ زیر لب انہوں نے کہا اور پھر بولے، ’’سادہ لوح عوام کو چھوڑ کر کون غرض مند نہیں۔ سب اپنی اپنی غرض کے لئے تحریکوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کسی کو عزت کی تمنا ہے، کسی کو شہرت کی۔ کسی کو کام کی خواہش ہے کسی کو نام کی، مجھے ان میں سے کسی چیز کی ضرورت نہیں، پھر میں کیوں مفت میں عوام کو دھوکا دوں، جومناسب سمجھتا ہوں لکھتا ہوں۔‘‘

کملا اب کچھ بھی نہ کہنا چاہتی تھی۔ لیکن رک نہ سکی۔ اس نے کہا، ’’یوں کیوں نہیں کہتے کہ عیش و آرام آپ کو اتنا پیارا ہے۔ یہ بڑے بڑے کمرے، یہ کرسیاں میز، یہ کوچ، یہ قیمتی کپڑے اور یہ سب عیش و آرام کے سامان آپ کو اتنے عزیز ہیں۔ کہ اس کی خاطر آپ اپنے ضمیر کو فروخت کر سکتے ہیں۔‘‘

’’تو کیا میں اکیلا ہی ان سب کو استعمال کرتا ہوں، کیا تمہارے آرام کے لئے میں یہ سب نہیں کرتا۔‘‘ انہوں نے گرج کر کہا۔

’’مجھے ان سب کی کوئی ضرورت نہیں‘‘ اور وہ اٹھ کر اندر کمرے میں چلی گئی۔ کچھ لمحہ تک مبہوت سے رادھے شام وہیں بیٹھے رہے۔ پھر وہ ہنسے اور زیر لب انہوں نے کہا، ’’بیوقوف! اور پھر۔۔۔ ’’عورت!‘‘ اور بیزاری سے سر ہلا کر وہ اٹھے اور باہر چلے گئے۔

’’قانون نمک کو۔۔۔ توڑ دو!‘‘

قانون نمک کو۔۔۔توڑ دو!

قانون نمک کو۔۔۔ توڑ دو!

اور پھر ’’لنگوٹی والے کی جے‘‘ اور ’’بندے ماترم‘‘

پنڈت رادھے شام بازار کے ایک کونے میں کھڑے جلوس دیکھ رہے تھے۔ جوں جوں جلوس گزرتا جاتا لوگ دوکانوں سے اٹھ کر، کام چھوڑ کر اس کے ساتھ شامل ہوتے جاتے۔ مردوں عورتوں کا ایک بےپناہ ہجوم تھا۔ ایک سمندر تھا کہ بہتا بہاتا چلا جا رہا تھا۔

سب سے آگے بال بھارت سبھا کے لڑکے تھے۔ معصومیت کے ننھے اوتار، چھوٹے چھوٹے جھنڈے لئے۔ ’’قانون نمک۔۔۔ توڑدو‘‘

کے نعرے لگاتے جا رہے تھے۔ ان کے چہرے جوش کی وجہ سے سرخ ہو رہے تھے اور ان پر ایک جلال برس رہا تھا۔ تھکاوٹ کی انہیں پروانہ تھی۔ دھول کی یاد دھوپ کی انہیں فکر نہ تھی۔ بس ایک ہی دھن تھی۔ کہ جب ان کا نائک اونچی آواز میں کہے، ’’قانون نمک‘‘ تو وہ اچھل کر جھنڈیاں ہلا کر اس سے بھی اونچی آواز میں نعرہ لگائیں، ’’توڑ دو‘‘

وہیں کھڑے کھڑے رادھے شام نے محسوس کیا۔ جیسے ان کا بھی دل ایک معصوم بچے کے قالب میں چلا گیا ہے اور وہ ان بچوں کے ساتھ اس افسانی سمندر میں لہروں سا بہا جا رہا ہے۔ تبھی وہ چونک پڑے۔

ایک ٹولی کے آگے آگے ایک شخص بے طرح اچھل رہا تھا۔ چہرہ جوش سے سرخ تھا۔ سر کے بالوں کی، قمیض کے گریبان یا آستینوں کی، اسے کچھ بھی چنتا نہ تھی۔ جنونیوں کی طرح وہ اچھل کر اور بار بار وہ سامنے خلا میں اشارہ کر کے کہتا تھا، ’’اوہ کی آیا؟‘‘ اور ساری کی ساری ٹولی چلا اٹھتی، ’’انقلاب‘‘ اور یہ شخص شہر کا مشہور وکیل تھا۔ ایم۔ اے۔ ایل۔ ایل۔ بی۔

پنڈت جی کے سارے جسم میں سنسنی دوڑ گئی اور ان کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور وہ دور تک اسے دیکھتے رہے۔ اچھل اچھل کر یہی نعرہ لگاتے دیکھتے رہے۔

جب وہ چونکے تو فضا میں لیڈی وانٹیروں کا گیت گونج رہا تھا اور بازاروں کی چھتوں پر بیٹھی ہوئی عورتیں ان کی آواز کے ساتھ آواز ملاکر گانے لگی تھیں۔

’’اسیں چین لوانگے‘‘

قانون نمک نوں توڑ کے۔ اسیں چین‘‘

پنڈت جی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ سب سے آگے آگے، ہاتھ میں قومی جھنڈا اٹھائے کملا، ان کی اپنی بیوی گا رہی تھی، ’’اسیں چین لوانگے‘‘ اور سب اس کی آوز میں آواز ملا کر گا رہی تھیں، ’’قانون نمک توں توڑ کے‘‘

خواتین کا جلوس گزر گیا۔ اس کے بعد شہر کے سر کردہ لیڈر نمک بنانے کا سامان اٹھائے چلے آ رہے تھے۔ چھتوں سے اور دوکانوں سے ان پر پھولوں کی بارش ہو رہی تھی۔ ان کے چہرے معمول سے دگنے معلوم ہوتے تھے۔

اور ان کے بعد ہزاروں کا ہجوم جیسے بہتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ پنڈت جی اپنی جگہ سے اترے اور ہجوم میں شامل ہو گئے۔

تبھی کسی نے زور سے نعرہ لگایا۔

’’قانون نمک کو‘‘

سب بولے،

’’توڑدو‘‘

ہجوم کی اس آواز میں پنڈت رادھے شام کی آواز بھی شامل تھی لیکن یہ آواز مختلف نہیں تھی۔ اپنے بھائیوں کی آواز سے ہم آہنگ۔۔۔ ایک آواز!ف

مأخذ : ڈاچی

مصنف:اوپندر ناتھ اشک

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here