احتیاط عشق

0
180
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’کہانی ایک ایسی لڑکی کی ہے جس نے اپنے محبوب کو ایک سال قبل دیکھا تھا اور اسکی آنکھوں میں محبوب کا وہی عکس تھا۔ اب جبکہ وہ اس سے ملنے آرہا تھا تو وہ اس کے استقبال میں کوئی کمی نہیں رہنے دینا چاہتی تھی۔ اس نے سنا تھا کی اسکا محبوب فوج میں بھرتی ہو گیا ہے، اس سے اس میں اور بھی بانکپن آگیا ہوگا۔ مگر جب اس نے اسے ایئر پورٹ پر دیکھا تو وہ اسے دیکھ کر اس قدر حیران ہوئی کہ ایک بار تو اس نے اسے پہچاننے سے ہی انکار کر دیا۔‘‘

میں اوپر کی منزل میں عرشۂ چمن پر بیٹھی ایک کتاب پڑھ رہی تھی۔ نیچے پائیں باغ موتیا کے پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔

اتنے میں باہر کے صدر دروازے پر کسی نے اطلاعی گھنٹی بجائی۔ ’’کیا واہیات ہے۔‘‘ میں نے اپنے دل سے کہا، ’’کتاب کا یہ ورق کتنا دلچسپ تھا۔ تحریر میں روانی کے ساتھ عمق تھا۔ لوگ واقعی بہت ستاتے ہیں۔ کم از کم یہ صفحہ ختم کرلینے دیتے۔ مجھے چاہیے دو ایک غصیلے کتے پال لوں تاکہ بے وقوف دوستوں سے نجات ملے۔‘‘

بڑا بڑا تے ہوئے میں نے کتاب بالکنی کی دیوار پر رکھی۔ نیچے باغ کی طرف جھانک کر دیکھا۔ نجانے میں نے کتنی ہی کتابیں دوستوں کی مداخلت بے جا کی وجہ سے بالکنی پر رکھیں اور بھول گئی یا ہوا کا جھونکا انہیں اڑا لے گیا۔ اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو اچھا خاصا چھوٹا سا کتب خانہ بن جائے اور یہ سب دوستوں کی وجہ سے۔ ہاں۔۔۔ تو میں نے کتاب حسب معمول و عادت بالکنی کی دیوار پر رکھی اور نیچے باغ میں جھانک کر آنے والے کو دیکھنے لگی۔ دیکھا تو میری پرانی اور راز دار سہیلی ایفو اوپر چلی آرہی تھی۔ میرا غصہ خوشی سے اور اکتاہٹ مسکراہٹ سے بدل گئی۔ ہم مذاق دوست آئے تو دل کی کلی کھل جاتی ہے۔

’’آؤ آؤ۔ چلی آؤ۔ کاش مجھے معلوم ہوتا کہ تم تھیں۔‘‘ میں نے چلا کر کہا۔

- Advertisement -

’’سنو!‘‘ وہ زینے دوڑ کر طے کرتے کرتے بولی، ’’میں تم کو ایک بے حد پیاری بات سنانے آئی ہوں۔‘‘

’’ہائے جلد سناؤ۔‘‘

’’آج رات منیر آرہا ہے۔‘‘ وہ ہانپتے ہوئے بولی۔

’’منیر!‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔

وہ ہنس پڑی، ’’قسم لے لو منیر۔۔۔ پانچ دن کی چھٹی پر آرہا ہے۔ میں نے تم سے کہا تھا نا کہ اس سے میری ملاقات کراچی کی بندر گاہ پر ہوئی تھی۔ میں نے یکا یک اپنے دل میں اس کی گہری محبت محسوس کی تھی اور اس کے بعد ہمارے عہدو پیماں ہو ئے۔‘‘ یہ کہہ اس نے جھک کر دیوار سے عشق پیچاں کا ایک پھول توڑ لیا اور اسے سونگھنے لگی۔

’’لیکن ایفو۔ تم نے محبت میں عجلت تونہیں کی؟‘‘ میں نے صبح کے دمکتے آسمان پر نظر ڈالتے ہوئے پوچھا۔

’’بس رہنے دو تم اپنی احتیاطِ عشق روحی۔ تم دوسروں کو بزدلی سکھاتی پھرتی ہو۔ میں نے پہلی ہی نظر میں دل کھول کر اس کی پرستش شرو ع کردی۔ بات یہ ہے کہ اس کے صندلی رنگ اور اس کی دیو قامتی کی میں شیدائی ہوں۔ آنکھوں میں گہرائی ہے اور مسکراہٹ میں بلا کی اظہاریت۔‘‘

میں اپنی کتابیں سمیٹ کر ایک طرف رکھتے ہوئے اور اطمینان سے ایک کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی، ’’بھلا مجھے کیا اعترض ہو سکتا ہے۔ اچھا اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ تم میرے پاس کس غرض سے آئی ہو؟‘‘

ایفو عرشۂ چمن کی ایک نیچی سی دیوار پر بیٹھی ٹانگیں ہلا رہی تھی۔ مسکرا کر بولی، ’’میں چاہتی ہوں کہ اسے بجائے کسی ہوٹل یا ریستوراں میں مدعو کرنے کے۔۔۔ تمہارے سنگ مر مرکے شہ نشین میں رات کے کھانے پر مدعو کروں۔ وہ محبت کے خواب دیکھنے کے لیے بہترین جگہ ہے۔ سرخ گلاب گردن اٹھا اٹھا کر نیلے آسمانوں کو دیکھتے ہیں اور تاروں بھری رات کا سناٹا اس شہ نشین کے قریب سے دبے پاؤں گزر جاتا ہے۔‘‘

جب آدمی محبت کرنے لگتا ہے تو نجانے اس کا لہجہ شاعرانہ کیوں ہو جاتا ہے۔ اس کے احساسات شبنم کی بوند کی طرح نازک اورشفاف کیوں بن جاتے ہیں اور اس کا احساس کمتری پر لگا کر کیسے اڑ جاتا ہے۔میں نے ایفو کی شاعری سنی پھر بولی، ’’مجھے کوئی انکار نہیں ایفو۔ تم شوق سے میرے شہ نشین کو اپنی محبت کی آما جگاہ بناؤ۔‘‘ اس نے جھک کر مجھے پیار کیا، بولی، ’’لیکن کھانے پر تمہیں بھی موجود ہونا چاہیے روحی۔‘‘

’’شکریہ تمہارا۔ میں ضرور کھانے پر موجود ہوں گی بلکہ شہ نشین کے عقب میں جورات کی رانی کی جھاڑی لگی ہے اس میں ٹیپ ریکارڈ رکھ کر عشقیہ غزلیں بھی بجاؤں گی۔‘‘

’’کیا بات ہے تمہاری روحی۔ واقعی مجھے اس کا خیال بھی نہ آیا ہوتا۔ ٹیپ ریکارڈ۔ موسیقی محبت میں چار چاند لگا دیتی ہے۔ خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ آئندہ مہینے ہماری شادی ہو رہی ہے۔ تم آج رات اس کی رعنائی کی قائل ہو جاؤ گی۔‘‘

’’میں اب بھی قائل ہو۔ تمہاری زبانی سن چکی ہوں۔‘‘

’’لیکن دیکھنے کی اور بات ہوتی ہے روحی۔ تھیوری پڑھنے اور عملاً کام کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ چھریرا جسم، آنکھوں میں عمق، مسکراہٹ میں بلا کی اظہاریت جیسے مونا لیزا کی مسکراہٹ!‘‘

’’لیکن ایفو مجھے کلاسکی مسکراہٹیں نا پسند ہیں۔ گویا پکے گانے کی سی مسکراہٹ۔‘‘

’’تم ہر وقت اعتراض کرتی رہتی ہو۔ یہ عادت تمہاری بری ہے روحی۔ آج رات تم اس کی مسکراہٹوں کی قائل ہو جاؤ گی۔ ہائے ہائے۔‘‘ وہ دیوار پر سے کود پڑی اور فرطِ جذبات سے بے چین ہو کر میری سیامی بلے کو زور زور سے تھپکنے اور اس کے کان کھینچنے لگی۔

مجھے ہنسی آئی اورعجیب سا لگا لیکن میں ضبط کر گئی۔ پھر کچھ یاد کرکے بولی، ’’چاہے تو پہلے انہیں یہیں مہمان رکھو۔ چند دنوں کی تو بات ہے۔‘‘ وہ فوراً مسرت سے مجھ سے لپٹ گئی۔

’’کمال کرتی ہو روحی۔ ایسی عمدہ رائے ایک جاں نثار سہیلی ہی دے سکتی ہے۔‘‘

میں بولی، ’’بات یہ ہے میں نے ابھی ابھی صحنِ گلستان کی چبوتری پر ایک گلابی رنگ کا کمرہ بنوایا ہے۔ ایک آسمانی رنگ کی چار پائی اس میں فٹ کی ہے۔ دریچوں پر ہلکے کا سنی جالی کے پردے ٹانگے ہیں۔ چاہو تو تم اپنے کلاسیکی پیکر کواس قوس قزح میں ٹھہرا سکتی ہو۔‘‘

’’وہ اسی قابل ہے کہ اسے قوس قزح میں ٹھہرایا جائے۔‘‘ وہ شدت مسرت سے چیخ پڑی۔ رات کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ میں جلدی میں اپنے جوتے وہیں چھوڑ کر ننگے پاؤں چوکھٹ میں جا کھڑی ہو ئی اور ہدایات دینے لگی۔ باورچی کو تاکید کی کہ بریانی کا گوشت بالکل حلوہ بنا دے۔ یعنی اتنا نرم کہ چڑیا بھی کھا سکے اور ہر سانس میں زعفران کی افراط ہو۔ میٹھے میں مٹھاس کی انتہا ہو اور نمک مرچ بہت احتیاط سے استعمال کرے۔ میں نے کھانوں کی فہرست دیکھی تو میٹھے سمیت چودہ تھے۔ ہاں پھل علیحدہ اور خشک میوے اس سے علیحدہ۔ اس کے بعد اعلیٰ درجے کے سگریٹ پیش کیے جائیں اور خلال کے تنکے عرق گلاب میں خشک کر کے میز کے سرے پر رکھنے کو بھی کہہ دیا تھا۔ پھر باغ کے دروازے میں بیٹھ کر کافی پینے کا علیحدہ انتظام تھا۔ کافی کے ساتھ نمکین بادام تھے۔بوڑھا باورچی گہری سوچ میں مبتلا سر ہلاتا ہوا چلا گیا۔ نجانے وہ کیا سوچ رہا تھا۔ ممکن ہے سوچ رہا ہو کہ میں شاہ افرا سیاب کی دعوت کر رہی ہوں۔

جہاز آٹھ بجے آنے والا تھا مگر ہم نے وہ دوپہر پھولوں سے لدی ہوئی باغ کی ایک روش بیٹھ کر شطرنج کھیلتے ہوئے بسر کر ڈالی کیونکہ انتظار کی گھڑیاں صدیوں میں کٹتی ہیں۔ ہم دونوں ہی کھیل میں ہارتے رہے کیونکہ کچھ پتہ نہیں لگ رہا تھا کہ کیا کھیل رہے ہیں۔ گہرے گلابی رنگ کی ایشیائی دوپہر تھی اور آسمان پگھلے ہوئے نیلم کی طرح دمک رہا تھا۔ کاسنی ٹہنیوں پر سبز رنگ کے پرندے بیٹھے درد محبت کے نغمے الاپ رہے تھے۔ وہ دو پہر ہم نے بڑے اضطرار میں کاٹی۔

میں پہلے کہہ چکی ہو ں کہ جہاز آٹھ بجے آنے والا تھا مگر ایفو شام چھ بجے سے زرق برق لباس میں بن ٹھن کر تیار تھی۔ میں نے ایک ہلکے گلابی رنگ کی چادر جسم کے گرد لپیٹ رکھی تھی ۔ خس کا عطر لگا رکھا تھا اور حسین آدمی سے ملاقات کے لیے تیار تھی۔

’’ایک مہینے بعد ہماری شادی ہو جائے گی روحی۔ میرے ابا نے پانچ مہینے پہلے عروسی لباس کا آرڈر دے دیا تھا تاکہ شادی میں درزی کی وجہ سے خلل نہ پڑے۔‘‘

’’بڑے دور اندیش ہیں۔ بڑا اچھا کیا۔‘‘ میں نے تعریف کی پھر بولی، ’’تم نے اس سلسلے میں ہر بات آناً فاناً کردی۔ لمحے بھر میں تم نے محبت کرلی۔ لمحے بھر میں عروسی لباس سلوالیا۔ چٹ منگی پٹ بیاہ اسی کوکہتی ہیں ایفو۔‘‘

’’ورنہ اورکیا کرتی؟ میں تم جیسی سست ہوں کہ ایک بات پر گھنٹوں سوچتی رہ جاؤں اور ایک واقعہ پر سالوں غور کرتی رہوں۔‘‘ ایفو نے حقارت سے میری خامیاں مجھ کو جتائیں۔ میں بولی، ’’میں تم سی تیز ی کہاں سے لاؤں! اپنی اپنی فطرت ہے۔‘‘ ایفو مسکرا کر کہنے لگی، ’’لیکن تم منیر کو دیکھو گی تو انگشت بہ دنداں رہ جاؤ گی اور میری تیزی پھرتی کا رونا دوبارہ نہ روؤ گی۔ چھریرا جسم ۔ آنکھوں میں عمق۔ مسکراہٹ میں بلا کی اظہاریت۔‘‘

بہار کی اس ہوش ربا حسین رات میں جب ہم منیر کو لینے ہوائی اڈے پر پہنچے تو معطر ہوائیں ہمارے رخساروں کو مس کرنے لگیں۔ ایفو بات بات پر بلا وجہ قہقہے لگا رہی تھی اورمیں اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی۔تھوڑی دیر بعد ایفو کہنے لگی، ’’میں نے تم کو بتایا نہیں۔ اب منیر فوج میں شریک ہو گیا ہے۔ پہلے محض شاعر تھا۔ اب فوجی باقاعدگی نے اسے اور دلکش بنا دیا ہوگا۔‘‘ وہ ہنسے جارہی تھی۔

’’فوجی باقاعدگی؟‘‘ میں نے کہا، ’’مگر اس سے تو انفرادیت ماری جاتی ہے۔‘‘

’’ماری جاتی ہے توماری جانے دو۔ بانکپن تو پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘ ایفو نے جھلا کر کہا۔

’’ضرور۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

وہ اپریل کی تاروں بھری رات۔۔۔ اتنے میں اچانک تاروں کے نیچے ایک اور دم دار تارہ ابھرا۔ وہ ہوائی جہاز تھا۔ پھر وہ زمین پر لڑ کھڑاتا یوں اترا کہ میں نے سمجھا کہ کوئی شہاب ثاقب ٹوٹ کر گرپڑا ہے۔ مسافر اترنے لگے۔ ہم دونوں دورکھڑی ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہی تھیں۔ زمین پر اتنی روشنی نہ تھی کہ ہم مسافروں کی شکلیں دیکھ سکتے۔ آخر بمشکل ہمیں ایک دراز قد آدمی ہاتھ میں بیگ لیے اپنی طرف آتا ہو ا نظر آیا۔ ایفو چیخ پڑی، ’’وہ رہا۔۔۔وہ۔۔۔ہنس کی طرح چلتا ہوا چلا آرہا ہے۔ چلا آ رہا ہے۔۔۔‘‘

میں بھی اشتیاق سے دیکھنے لگی۔

’’منیر!‘‘ شدّتِ جذبات سے پست آواز میں ایفو چیخی۔

’’ایفو۔‘‘ منیر چلایا۔

جب ہم تینوں مسافروں کے اژدہام اور اندھیرے کے سیلاب سے باہر روشنی میں نکل آئے تو نظر اٹھا کر دیکھا تو ایک دوہرا بلکہ فربہ اندام آدمی جس کی آنکھوں میں وحشت تھی، جس کی رنگت تقریباً سیاہ تھی، جس کے بھدے پن نے اسے احمق سا بنا رکھا تھا، ہمارے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ غور سے دیکھنے پر اس راز کا بھی انکشاف ہوا کہ اس کے ہونٹوں کے گرد مونچھوں کی کمان بھی رکھی ہے۔

’’ہائے۔۔۔ ہی۔‘‘ ایفو اچانک زور سے چیخ پڑی۔ پھر سر اٹھا کراس کو دیکھتے ہوئے بولی، ’’ہائے۔۔۔ ہی۔ یہ منیر نہیں ہو سکتا۔‘‘ مرد نے پلٹ کر دیکھا،مسکرا کر بولا، ’’کیوں نہیں ہو سکتا! ارے ایفو پیاری۔۔۔ سال بھر میں تم مجھے بھول گئیں؟ میں تمہارا منیر ہوں۔‘‘

مجھے ہنسی آگئی جسے میں نے بڑی احتیاط سے روکنے کی کوشش کی۔ فوجی ترتیب نے اس میں بانکپن پیدا کر دیا ہوگا۔ ایفو کے یہ الفاظ میرے کانوں میں گونجے لگے۔ ایفو کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ سوال کر رہی تھی، ’’تم؟‘‘

’’تمہیں شبہ ہے ایفو؟‘‘ آنے والا رومانی انداز میں پوچھ رہا تھا۔ کاش کہ شبہ ہوتا۔ یقین نہ ہوتا۔۔۔‘‘ ایفو بے حد پریشان لہجے میں بولی، ’’خیر باہر تو نکلو۔ کار کھڑی ہے۔‘‘

ہم تینوں کار میں جا بیٹھے۔ دو منٹ موت کی سی خاموشی طاری رہی۔ چشم زدن میں تختہ الٹتے دیکھ کر میں خود حیران تھی۔ ایفو پیچ و تاب کھا رہی تھی۔ دائیں بائیں میں اورایفو تھیں۔ درمیان وہ بانکا بیٹھا تھا۔ مجھے زور سے ہنسی آرہی تھی اور میں سر دریچے سے باہر کیے رومال سے اپنا منہ بند کر رہی تھی۔ جلد بازی اور عجلت کی ایسی عبرت ناک سزا کسی کو پاتے ہوئے میں نے کبھی نہ دیکھا تھا۔

ایفو بدحواس اور غمگین بیٹھی تھی۔ بیٹھے بیٹھے اس نے منیر پر ایک سرسری نظرڈال کر پوچھا، ’’آخر بتاؤ تم کو ہو کیاگیا ہے۔ کیا افتاد پڑی؟ اتنے بدل کیسے گیے؟‘‘

’’میں بدل سکتا ہوں ایفو؟وہی دل ہے وہی جذبات۔۔۔‘‘

’’مگر۔۔۔ تم وہ نہیں رہے۔۔۔سال بھر میں درخت بھی اتنے بدل نہیں جاتے جتنے تم بدل گیے ہو۔‘‘

’’کس طریق پر بدلا ہوں؟‘‘ مہمان عزیز نے معصومیت سے سوال کیا۔ شاید اس کے لہجے میں معصومیت کا احساس ایفو کو بھی ہو گیا، ’’میرا مطلب ہے۔ بس۔ یہی۔۔۔ کہ تم تم نہ رہے۔۔۔ اچھا یہ دیکھو۔۔۔ یہ آگیا ہوٹل گلستان۔ تمہارے لیے سب سے اعلیٰ درجے کا کمرہ مخصوص کر لیا گیا ہے۔‘‘

میں حیران ہو کر ایفو کو دیکھنے لگی بولی، ’’یہاں؟‘‘ ایفو ذرا تلخی سے بولی، ’’ہاں ہاں یہاں۔ یہاں یہ زیادہ آرام سے رہیں گے۔‘‘ پھر وہ منیر کی طرف مڑ کر بولی، ’’اگر نائٹ کوچ سے میں آج چلی نہ گئی تو کل صبح تم سے ملاقات ہو سکے گی۔ خدا حافظ۔ فی امان اللہ!‘‘

تھوڑی دیر بعد جب ہم اپنے گھر پہنچے تو باورچی کی طرف سے گرم کافی کی معطرلپٹیں اور بریانی کے گوشت کی اشتہا انگیز خوشبو آ رہی تھی جو صحن میں پھیلی ہوئی تھی مگر ایفو کی اشتہا غائب تھی اور وہ گہری سوچ میں تھی اور میں بے احتیاطیِ عشق پر غور کر رہی تھی۔

کچھ دیر بعد وہ بولی، ’’روحی! آج کی نائٹ کوچ سے میں بڑی دور جارہی ہوں۔ پھر کبھی تم سے ملاقات ہوگی۔‘‘ اور وہ باغ کے زینے طے کر کے باہر نکل گئی۔

یہ ایک واقعہ ہے مگر سچا۔ کاش آپ اسے کہانی سمجھیں۔

مأخذ : گلستاں اور بھی ہیں

مصنف:حجاب امتیاز علی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here