ڈھائی گھنٹے ہو چکے تھے اور میکو کا کوئی اتا پتا نہ تھا۔ رتن منی جی نے پریشان ہونا تو بہت پہلے سے شروع کر دیا تھا، جب اس کے لوٹ آنے کا وقت بھی نہیں ہوا تھا لیکن اب تو ڈھائی گھنٹے بھی پورے ہو چکے تھے۔ ان کی پریشانی بلاسبب بھی نہیں تھی۔ پچاس ہزار روپوں کا معاملہ تھا اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ اونچ نیچ ممکن تھی۔ وہ ڈرائنگ روم سے نکل کر گیلری میں لفٹ کے تھوڑے آگے تک دھیرے دھیرے ٹہلنے لگے تھے اور اب اس طرح ٹہلتے ہوئے بھی انہیں آٹھ دس منٹ تو ہو ہی گئے ہوں گے۔ اس دوران کئی لوگ لفٹ سے نکل کر اپنے اپنے فلیٹوں کی طرف جا چکے تھے اور کچھ باہر بھی گئے تھے۔ ایک آدھ نے مسکراکر ان کی طرف دیکھا تو وہ بھی مسکرا دیے تھے۔ اگرچہ ان کی مسکراہٹ میں تھوڑی سی کھسیاہٹ شامل تھی لیکن انہیں یہ بھی یقین تھا کہ کسی کو اس کا اندازہ نہیں ہوا ہوگا۔
اتنے میں شیام بابو لفٹ سے نکلے اورا نہیں کرتے پیجامے میں دیکھ کر بولے، ’’رتن جی! خالی ہوں توآئیے تھوڑی سی گپ شپ ہو جائے۔‘‘
’’جی نمستے، نمستے جی۔‘‘ وہ اس قدر الجھے ہوئے تھے کہ جواب دیتے دیتے ایک لمحہ کو شیام بابو کی تجویز ان کے ذہن سے بالکل غائب ہو گئی لیکن فوراً ہی انہیں سب کچھ یاد آ گیا اور انہوں نے بات سنبھالی، ’’جی بہت بہت دھنیہ واد۔۔۔ پھر کسی دن آؤں گا۔ آج کوئی آنے والا ہے۔‘‘
بات جھوٹ بھی نہ تھی۔ کوئی نہ کوئی تو آنے والا تھا ہی اور وہ اس کا انتظار کر بھی رہے تھے۔ ویسے شیام بابو نے گپ شپ کرنے کا سچ مچ کا نیوتا تھوڑی دیا تھا۔ وہ تو بس کچھ نہ کچھ کہنا چاہتے تھے۔ کچھ اور نہ سوجھا تو انہوں نے گپ شپ کی بات کہہ دی۔ بلکہ سچ پوچھیے تو انہیں اپنی آواز سن کر ہی پتا چلا تھا کہ ان کے منہ سے کیا نکل گیا ہے۔
رتن منی جی نے ایک بار پھر خود کو سجھا یا۔ بیکار پریشان ہو رہے ہو، میکو ایسا نہیں ہے۔ چھے سال تو مجھے ہی ہو گئے ’’کاسماس‘‘ میں۔ بہت سے لوگ تو ساڑھے چھے سال سے رہ رہے ہیں، جب یہ سارے فلیٹ بنے تھے۔ کسی نے اس کے بارے میں کوئی ایسی ویسی بات کبھی نہیں کہی۔ انہوں نے اپنے آپ سے کہا اور پھر چوروں کی طرح کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھا۔ سوئی دس منٹ آگے کھسک گئی تھی۔
اسی وقت ان کی نظر اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر جاتے ہوئے لفٹ کے موٹے موٹے تاروں پر پڑی تو ان کے چہرے پر اطمینان کی ایک لہر دوڑ گئی۔ ’’وہی ہوگا۔‘‘ وہ بدبدائے، لیکن لفٹ رکی اور اس کا دروازہ پورا کھلا بھی نہیں تھا کہ ان کی نظر ہلکے نیلے رنگ کی شیروانی پر پڑی تو وہ سمجھ گئے کہ مجاور صاحب ہیں، جن سے ان کی گاڑھی چھنتی ہے۔ لیکن اس وقت ان کی حالت کچھ اور ہی تھی اور محض اس خیال سے کہ مجاور صاحب انہیں دیکھ کر باتیں نہ کرنے لگیں وہ دوسری جانب کے فلیٹ کی طرف اس طرح لپکے جیسے کسی ضروری کام سے جا رہے ہوں۔ وہ تو خیریت ہوئی کہ مجاور صاحب کی نظر ان پر نہیں پڑی ورنہ بالکل ممکن تھا کہ وہ انہیں آواز دے کر بلا لیتے۔
انہوں نے اطمینان کی سانس لی۔ لیکن اطمینان کہاں؟ وقت کاٹے نہیں کٹ رہا تھا، چنانچہ انہوں نے میکو کی عادتوں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ کسی طرح تو وقت کٹے۔ انہوں نے سوچا۔ میکو کو آواز دی جائے اور وہ آس پاس ہو تو ’’جی شاب‘‘ کہہ کر اپنی لمبی سی گردن ذرا آگے کو جھکا کر سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ کچھ اس طرح کہ اس نے ’’جی شاب‘‘ نہ کہا ہو تو بھی آپ سمجھیں گے کہ اس نے یہی کہا ہوگا، آپ شاید سن نہ سکے۔ لیکن اس بات سے انہیں اطمینان نہیں ہوا کیوں کہ سارے ہی نوکر اسی طرح یا اس سے ملتے جلتے انداز میں مالکوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے دوسری بات سوچنا شروع کر دی۔
انہیں خوب اچھی طرح یاد تھا کہ انہوں نے اپارٹمنٹ میں منتقل ہونے کے پہلے ہی دن اسے دیکھا تھا، چھے سال پہلے۔ ان سارے برسوں میں انہوں نے اس کے بارے میں کوئی غلط بات نہیں سنی تھی۔ یہ سوچ کر انہیں کچھ اطمینان ہوا۔ اسی وقت انہیں خیال آیا کہ اس دوران چھے بار ہولی کا تہوار آیا اور اتنی ہی بار دیوالی کا، لیکن انہوں نے اسے ایک بار بھی کچھ نہیں دیا اور ہر بار یہ کام ا گلے تہوار کے لیے ٹالتے رہے۔ انہیں دکھ ہوا لیکن اپنے دل کا بوجھ کم کرنے کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو سمجھایا کہ کسی اور کو بھی تو ان موقعوں پر اسے انعام دیتے ہوئے نہیں دیکھا، نہ اس کے بارے میں سنا۔ ہر مہینے چالیس روپے تو دیے جاتے ہیں، کیا یہ کافی نہیں۔
پھر انہوں نے حساب لگایا تو یہ رقم ڈیڑھ ہزار روپے مہینے سے زیادہ ہو گئی اور تقریباً ہر ایک کا اپنا نوکر بھی تو ہے، اس کا کام ہی کیا ہے؟ بس جس دن کسی گھر کا نوکر چھٹی پر ہوتا ہے یا کام پر نہیں آتا، اس پر تھوڑا سا بوجھ پڑ جاتا ہے، جبھی تو کوئی اس کے بارے میں سوچتا نہیں۔ لیکن انہیں یہ بھی خیال آیا کہ ہر فلیٹ کا نوکر مہینے میں ایک ایک دن بھی غائب ہو جائے تو اس پر کام کا بہت بوجھ پڑ جاتا ہوگا اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس کی وجہ سے ہر ایک کو ایک قسم کا اطمینان رہتا ہے کہ کوئی نہ بھی ہو تو کام رکےگا نہیں اور یہ کہ کوئی کام ہو، اسے کہیں بھیجنا ہو، وہ ہر وقت تیار رہتا ہے۔ انکار کرنا تو اس نے سیکھا ہی نہیں اور ہر کام جھٹ پٹ کر دیتا ہے۔
اس کے بارے میں جو کچھ بھی انہیں معلوم تھا، انہوں نے دل ہی دل میں دہرا لیا۔ اس میں پانچ چھے منٹ لگ گئے کیوں کہ وقت کاٹنے کے لیے انہوں نے دھیرے دھیرے سوچا تھا۔ اسی وقت انہیں اس کی ایک اور بات یاد آ گئی۔ کوئی پوچھتا ہے کتنی دیر میں لوٹ آؤگے تو جواب دینے کے بجائے ایسے دیکھنے لگتا ہے جیسے پوچھ رہا ہو، ’’ہم شاب؟‘‘ اور جب کام اسے بتا دیا جاتا ہے تو وہ خود سے کچھ کہنے کے بجاے سر جھکائے جھکائے بائیں ہاتھ کی انگلیوں کے پوروں کو دوسرے ہاتھ کی انگوٹھے کے پاس والی انگلی سے چھو چھو کر کچھ بد بداتا ہے جیسے گنتی کر رہا ہو۔ ’’حساب لگا لیا میکو؟‘‘ پوچھنے پر وہ ایسی نظروں سے دیکھتا ہے جیسے کہہ رہا ہو، ’’بس ذرا دیر رک جائیے شاب۔‘‘ اور پھر تقریباً فوراً ہی سر کو ذرا اوپر کرکے کہتا ہے، ’’پونے دو گھنٹے لگیں گے شاب۔ دس منٹ گھاتے کے رکھ لیجیے۔‘‘
ایسا نہیں کہ اس کا حسب پونے دو گھنٹے پر ہمیشہ ہی ختم ہوتا ہو۔ یہ تو کام کام پر ہوتا ہے۔ کتنی دور جانا ہے، کتنی بار بسیں بدلنا پڑیں گی اور وہاں رکنا پڑےگا یا پھر بس کچھ دے کر آ جانا ہے۔ یہی سب اس کام کے سلسلے میں ہوا تھا۔ لیکن ایسا نہیں کہ اسے حساب کتاب کی ہمیشہ ہی ضرورت پڑتی ہو۔ ایسے کاموں میں جیسے مجاور صاحب کو معلوم کرنا ہو کہ پولیس لائنس کی مسجد میں عید کی نماز کتنے بجے ہوگی یا منشی لبھورام کی ارتھی کے بجے اٹھےگی، وہ کبھی حساب نہیں لگاتا۔ جتنی دیر حساب لگانے میں لگےگی اتنی دیر میں تو وہ لوٹ آئےگا۔۔۔ مسجد مشکل سے ڈھائی تین سو گز دور ہے اور لبھو رام جی کامکان سڑک کے اس پار کی دوسری گلی میں تھوڑا سا اندر چل کر۔
وہ خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ ان باتوں کو جو شاید سب کو معلوم ہیں دل ہی دل میں دہرانے اور کبھی کبھی بدبدانے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ وہ انہیں یاد کر لینا چاہتے ہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح وقت کٹ جائے لیکن انہیں اندر ہی اندر ایک دکھ اور بھی تھا کہ وہ اتنے پریشان ہیں اور گھر میں کسی نے ایک بار پوچھا بھی نہیں کہ بات کیا ہے اور وہ ڈرائنگ روم سے اٹھ کر بار بار گیلری میں ٹہلنے کیوں لگتے ہیں۔ اسی وقت انہیں ایک اور خیال آیا اور وہ مسکرا دیے۔
بات مسکرانے کی تھی بھی۔ خیال انہیں یہ آیا تھا کہ یہ بات کبھی انہوں نے وقت کاٹنے کے لیے تو نہیں سوچی۔ رتن منی جی نے وقت معلوم کرنے کے لیے کف اوپر کھسکایا تو اس کا ایک سرا گھڑی کے نیچے دب گیا۔ انہوں نے کف برابر نہیں کیا اور گھڑی بھی نہیں دیکھی۔ ایک دم انہیں محسوس ہوا کہ وہ بیکار کی باتیں سوچ کر خواہ مخواہ وقت برباد کر رہے ہیں۔ بھلا عید کی نماز کا وقت اور ارتھی کے بجے اٹھےگی معلوم کرنے کا میکو کی واپسی میں اس قدر دیر ہو جانے سے کیا تعلق؟ انہیں یہ سوچ کر تھوڑی سی خوشی تو ہوئی کہ وہ وقت کی قدر کرتے ہیں لیکن اس کے بجائے کیا کیا جائے، یہ ان کی سمجھ میں نہیں آیا۔
انہیں اپنی یادداشت پر کچھ کچھ شک ہوا۔ میکو نے سو دو نہیں بلکہ سوا تین گھنٹے میں واپس آنے کا حساب لگایا تھا۔ دور بھی تو کتنا ہے۔ انہوں نے سوچا، اتنی جلدی کیسے آجائے گا؟ لیکن انہیں یاد آیا کہ بات پکی کرنے کے لیے جب وہ شرٹ اور پینٹ کے بجائے ململ کا کرتا اور سفید بھک پے جامہ پہن، کندھے پر سبز رومال ڈال اور جالی دار گول ٹوپی اوڑھ کر اپنے سالے کے مکان سے ایک دوست کی کار میں تقریباً اسی قدر فاصلے سے سکسینہ جی کے یہاں گئے تھے تو بس ڈیڑھ گھنٹے لگے تھے۔ لیکن کار اور بس کا کیا مقابلہ؟ انہوں نے خود کو سمجھایا۔ اسے تو دوبسیں بدلنا پڑیں گی اور ضروری نہیں کہ بس وقت پر آہی جائے اور اگر آبھی گئی تو اپنے وقت پر آئےگی، مسافروں کو دیکھ کر تو وہ چلتی نہیں۔ اس کے علاوہ پیدل بھی تو چلنا ہوگا۔ رکشے اس علاقے میں مشکل سے ملتے ہیں اور آٹو رکشے کے حساب سے روپے انہوں نے دیے نہیں تھے۔
انہیں اپنی کنجوسی پر افسوس ہوا۔ دس دس کے تین نوٹوں کے بجائے اگر انہوں نے پورے پچاس روپے دے دیے ہوتے تو وہ اب تک کب کا واپس آ چکا ہوتا۔ ایسا نہیں کہ انہیں اس کا خیال نہ آیا ہو، بلکہ انہوں نے ایک بار تو یہ تک سوچا تھا کہ اسے سٹی بس کے چکر میں ڈالنے کے بجائے ’’کاسماس‘‘ کے باہر سے ہی آٹو رکشہ پکڑنے کے لیے کہہ دیں لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا تھا کہ انہوں نے اسے گن کر دس دس کے تین ہی نوٹ دے دیے تھے۔ اب وہ اپنے کیے پر پچھتا رہے تھے لیکن انہیں ٹھیک سے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس سے دوسری بس سے اتر کر آٹو رکشہ کر لینے کے لیے نہ کہنے پر افسوس کر رہے تھے یا اس تیز سواری پر سیدھے سکسینہ جی کے یہاں نہ بھیجنے پر۔ خیر جو ہونا تھا سو ہوگیا لیکن اب تو اسے آہی جانا چاہیے، پھر بھی اپنی بے چینی پر ذرا سی لگام لگانے کی کوشش کی انہوں نے۔
اب وہ گیلری میں ٹہلتے ٹہلتے کسی قدر تھک گئے تھے۔ یہاں ٹہلنے سے بس اتنا فائدہ ہوگا کہ وہ میکو کومنٹ آدھے منٹ پہلے دیکھ لیں گے، انہوں نے سوچا اور اس کے فائدے نقصان کو تولے بغیر ڈرائنگ روم میں جاکر صوفے پر بیٹھ گے۔ اتنے میں نوکرانی نے آکر پوچھا، ’’صاحب کھانا تیار ہے، لگا دیا جائے؟‘‘
بھوک تو انہیں لگ رہی تھی لیکن میکو کے انتظار میں اس کا کوئی خاص احساس نہیں ہو رہا تھا۔ پھر بھی انہوں نے سوچا کہ وہ آ جائے تو اطمینان سے کھانا کھایا جائے، ابھی تو کھاتے بھی نہیں بنےگا۔ چنانچہ انہوں نے نوکرانی سے جو پردے سے پیٹھ لگائے کھڑی تھی کہہ دیا، ’’ابھی نہیں۔ مالکن سے کہہ دو دس پندرہ منٹ بعد کھانا لگوائیں۔‘‘
یہ بات کہنے کو تو انہوں نے کہہ دی لیکن پھر سوچنے لگے کہ کھانے کی میز پر بیوی بچوں کی باتوں میں کچھ وقت کٹ جاتا اور وہ اپنی یہ الجھن تھوڑی دیر کے لیے بھول جاتے، لیکن اب تو نوکرانی نے مالکن تک بات پہنچا بھی دی ہوگی اور یہ بھی تو ممکن ہے، انہوں نے سوچا، کہ کسی ایسی بات پر جسے سن کر ہنسنا چاہیے وہ نہ ہنستے تو بچے اور ان سے زیادہ بیوی سوچتی کہ وہ کسی معاملے میں پریشان ہیں اور پریشانی کی باتیں تو لگی ہی رہتی ہیں، کبھی انکم ٹیکس کی پریشانی ہوتی ہے اور کبھی گنا کسانوں کو یکمشت ادائیگیاں کرنے کی۔
اسی وقت انہیں خیال آیا کہ اس کام کے لیے آفس کا چپراسی یا کوئی دوسرا ملازم بہتر رہتا لیکن اس میں ایک خطرہ یہ تھا کہ گنا کمشنر کو اتنی بڑی رقم بھیجنے کی بات پھیل بھی سکتی تھی اور یہ بھی ہو سکتا تھا کہ کسی نازک موقع پر وہ یہ راز جان بوجھ کر دوسروں کو بتا دیتا اور یہ بھی ہوسکتا تھا کہ کسی نازک موقع پر وہ یہ راز جان بوجھ کر دوسروں کو بتا دیتا۔ ویسے وہ سکسینہ بابو کو فون کر دیتے کہ ان کی چیز تیار ہے کسی سے منگا لیں تو اس وقت جس الجھن میں وہ گرفتار ہیں اس کی نوبت نہ آتی۔ لیکن آج کل کرپشن کے بہت سے معاملے پکڑے گئے ہیں، ایک معاملے میں تو ان کا نام بھی سدن میں آ چکا ہے۔ کون جانے ان کا ٹیلی فون سنا جاتا ہو اور کچھ گڑبڑ ہو جاتی تو سکسینہ جی یہ بھی کر سکتے تھے کہ اپنی جان بچانے کے لیے انہیں پھنسا دیتے۔
غرض وہ روپے پہنچانے کا جو بھی دوسرا طریقہ سوچتے اس میں زیادہ ہی بڑا خطرہ نظر آتا اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے، انہوں نے فیصلہ کن انداز میں سوچا کہ اب تو جو ہونا تھا وہ ہو گیا اور یہی طریقہ ایسا تھا جس میں خطرہ سب سے کم تھا۔ مناسب ترین فیصلہ کرنے کے لیے انہوں نے دل ہی دل میں اپنی تعریف کی اور فخر سے سر ذرا سا اوپر اٹھایا اور مسکرائے بھی، لیکن میکو اب تک لوٹ کر نہیں آیا تھا۔ اسی وقت ان کا جی چاہا کہ گیلری میں نکل کر ایک بار ذرا گیٹ کی طرف جھانک کر دیکھیں لیکن پھر یہ سوچ کر ارادہ بدل دیا کہ کوئی بری خبر آنے والی ہو تو جتنی دیر نہ آئے اتنا ہی اچھا ہے۔
بری خبر کی بات سوچنے کو تو انہوں نے سوچ لی لیکن ایسا لگا جیسے دل بیٹھا جا رہا ہو یکایک انہیں احساس ہوا کہ صوفے کے اسپرنگ ڈھیلے پڑ گئے ہیں اور وہ اس میں دھنسے جا رہے ہیں۔
اسی وقت جگدیش نے دروازہ کھولا تو ان کی نظر اس کے چہرے کے بجائے ان چیزوں پر پڑی جو وہ اپنے ہاتھوں میں لیے ہوئے تھا۔ ایک ہاتھ میں پلاسٹک کی ذرا موٹی پنی تھی جس میں انڈے تھے، دوسرے ہاتھ میں دو ڈبل روٹیاں اور انگلی میں لٹکا ہوا ایک تھیلا جس میں شاید بچوں کے لیے ٹافیاں اور تھورا بہت چھٹ پٹ سامان رہا ہوگا۔ اپنے خیالوں میں وہ ایسے ڈوبے ہوئے تھے کہ انہوں نے اس کی صورت نہیں دیکھی، لیکن تھا وہ جگدیش ہی۔ اس میں کوئی شک نہیں، انہوں نے سوچا مگر وہ میکو کی طرح تیز تیز چل رہا تھا۔ سستی سے دھیرے دھیرے کام کرنے پر تو ہر وقت اسے ڈانٹ پرتی رہتی ہے، آخر معاملہ کیا ہے؟ لیکن نہیں وہ جگدیش ہی تھا اور کوئی بھلا اس طرح گھر میں جا سکتا ہے؟ پھر صوفے پر سے ایک جھٹکے سے اٹھ کر انہوں نے اس دروازہ پر سے ذرا سا پردہ اٹھاکر جس سے لابی کا وہ حصہ صاف نظر آتا ہے جس میں فرج رکھا ہوا ہے کہا، ’’مالکن کہاں ہیں۔۔۔ ان سے کہو کھانا لگانے کو کہہ دیں۔‘‘
سامنے جگدیش فرج کھول کر سامان رکھ رہا تھا۔ ان پر نظر پڑتے ہی اس نے کہا، ’’مالکن اپنے کمرے میں ہیں۔ کہے دیتا ہوں۔‘‘
رتن منی جی یہ دیکھنے نہیں گئے تھے کہ سامان لانے والا جگدیش ہی تھا، کوئی اور نہیں، لیکن اسے دیکھ کر جانے کیوں انہیں اطمینان کا احساس ہوا۔ کھانا انہوں نے کس طرح کھایا، یہ کچھ وہی جانتے تھے۔ بڑی پلیٹ سے چاول نکالتے ہوئے چمچا ان کے تھال سے ٹکرایا تو انہوں نے جگدیش کی طرف دیکھا۔ وہ ان کی طرف اس طرح دیکھ رہا تھا، جیسے وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ اس کے دل کی بات رکھنے کے لیے انہوں نے کہا، ’’ذرا دیکھ لینا باہر کا دروازہ بند ہے نا؟‘‘
مشکل سے دس پندرہ سیکنڈ کے بعد اس نے کہا، ’’بند ہے۔‘‘ یہ انہیں معلوم تھا اور یاد تھا کہ گیلری سے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے وقت انہوں نے سٹکنی چڑھا دی تھی۔ پھر انہوں نے جگدیش سے دروازہ دیکھ آنے کو کیوں کہا تھا۔ انہوں نے یہ بات اس کا دل رکھنے کے لیے کہی تھی یا اس خیال سے اسے بھیجا تھا کہ وہ قدموں کی چاپ سنےگا تو دروازہ کھول کے دیکھےگا ضرور اورمیکو واپس آیا ہوگا تو ان کے بارے میں پوچھےگا ہی۔ وہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکے۔
اتنے میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ بڑے بیٹے نے جو بارہ تیرہ سال کا تھا، جب تک ’’رانگ نمبر‘‘ نہیں کہہ دیا، نوالہ ان کے حلق میں اٹکا رہا۔ کھانا کھانے کے بعد۔۔۔ وہ تو لیے سے ہاتھ پونچھ ہی رہے تھے کہ انہیں ایسا لگا جیسے کسی نے دروازہ دھیرے سے تھپتھایا ہو۔ جگدیش نے ڈرائنگ روم کا رخ کیا تو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا اور خود جاکر دروازہ کھولا۔ ہوا بھی شاید ان کی الجھن سے مزا لینے لگی تھی۔
اپارٹمنٹ کے تقریباً سارے فلیٹوں کے مالک بڑے بڑے سرکاری افسر تھے یا بیوپاری۔ تین چار تو ایسے تھے جن کی ملیں تھیں۔ دو رٹائرڈ فوجی افسر تھے۔ بس پانچ ایسے خاندان تھے جو اسی جگہ کے پرانے ایک منزلہ اور دو منزلہ مکانوں میں برسوں سے رہتے آئے تھے۔ ان ہی مکانوں اور ان کے چاروں طرف کی زمین پر جو پہلے خالی پڑی تھی ’’کاسماس‘‘ کی تعمیر ہوئی تھی۔ شرائط اور قیمت کے سلسلے میں بات چیت کے دوران جو تقریباً سوا سال چلی تھی اور کئی بار ٹوٹتے ٹوٹتے بچی تھی، مسرکھ بابو نے بلڈر سے کہا تھا،
’’یہ مکان اور ان کے چاروں طرف کی زمین میری ضرور ہے لیکن ان مکانوں کو خالی کرانے کے چکر میں ہرگز نہیں پڑوں گا۔ آٹھ دس لوگ جو جھگیوں اور جھونپڑیوں میں رہتے ہیں ان کا قبضہ تو ظاہر ہے ناجائز ہے۔ پھر بھی میں یہ نہیں چاہوں گا کہ ان کے ساتھ زور زبردستی ہو۔ اس لیے کچھ دے دلاکر معاملہ طے کر لیجیےگا۔ لیکن یہ کرائےدار تو میرے پتاجی کے زمانے کے ہیں بلکہ ان میں سے ایک تو کہتے ہیں کہ انہوں نے کئی سال تک دادا جی کو بھی دیکھا ہے۔ داداجی کو دیکھا ہے تو کرایےدار وہ انہیں کے زمانے کے ہوئے۔ ان کے سر چھپانے کا تو انتظام کرنا ہی پڑےگا۔‘‘
بلڈر نے ان کی بات مان لی تھی بلکہ یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ، ’’ان چاروں پانچوں کے لیے ایک ایک فلیٹ کا وہ انتظام ضرور کرےگا۔ قیمت بھی کچھ کم ہو جائےگی اور اگر ان کے لیے فوراً فلیٹ خریدنا ممکن نہ ہوا تو واجبی کرائے پر بھی دو تین سال رہ سکتے ہیں۔‘‘
بلڈر نے مسرکھ بابو کے چہرے پر ان کا ردعمل معلوم کرنے کے لیے نظریں گڑا دی تھیں۔ اس کو اندازہ ہوا کہ انہیں نہ صرف یہ کہ اس کی پیش کش منظور ہے بلکہ وہ خاصے مطمئن بھی ہیں تو اس نے پوری بات کہہ دی جو سوچی تو اس نے پہلے تھی لیکن کہی اس خیال سے نہیں تھی کہ وہ ذرا خوش ہو جائیں تو اپنی شرطیں بھی انہیں بتا دے۔
’’ہم کوئی آپ سے باہر تھوڑی ہیں۔ آپ کو ان کا خیال ہے تو ہمیں بھی ان کا کچھ کم خیال نہیں۔ چوتھی منزل کے پانچ فلیٹ بس انہیں کے سمجھیے، ادھر ہوا بھی خوب آئےگی اور کوئی پریشانی بھی نہ ہوگی۔ لفٹ تو ہوگی ہی، نیچے والے فلیٹ تو وہ لوگ پسند کرتے ہیں جن کے یہاں بڈھے لوگ زیادہ ہوتے ہیں اور یہ کہ کرایے میں رعایت کے لیے دو سال بہت کافی ہوں گے۔ دیکھیےگا وہ فلیٹ اس سے پہلے ہی خرید لیں گے۔ اس خیال سے کہ ایک کام پورا ہو تو دوسرے میں ہاتھ ڈالا جائے۔ ہم فائدہ کھانے میں نمک کے برابر رکھتے ہیں۔‘‘ بلڈر نے کہا تھا۔
اتنی لمبی بات اس نے دھیرے دھیرے، رک رک کر کہی تھی جس سے وقت بھی زیادہ لگا تھا اور مسرکھ بابو کو احساس بھی نہیں ہوا کہ شرطیں رکھی جا رہی ہیں۔ انہیں یہی لگا کہ وہ منظوری کی بات بس دوسرے لفظوں میں کہہ رہا ہے۔ انہیں یہ جان کر بھی خوشی ہوئی تھی کہ بلڈر نے کامپلیکس کا پورا نقشہ بنا لیا ہے، جس کے معنی تھے کہ زمین خریدنے کااس نے پکا ارادہ کر لیا ہے۔ اس وقت انہیں روپوں کی ضرورت بھی تھی۔ اتفاق سے اسی وقت میکو سامنے سے گزرا تو مسرکھ بابو کو ایک بات اور سوجھ گئی۔
’’اور یہ جو میکو ہے۔‘‘ انہوں نے گلا صاف کرنے کے لیے کھنکھارا، ’’یہ بھی پتا جی کے زمانے سے، بلکہ شاید تب سے ہے جب دادا جی جیوت تھے۔ ایک چھوٹی سی کوٹھری میں رہتا ہے۔ غریب کہاں جائےگا۔ اسے ایک کوٹھری دینا ہی ہوگی اور کرایہ بھی نہیں لگےگا۔‘‘ ان کی یہ نئی شرط سن کر بلڈر اور اس کا ساتھی ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے تھے جیسے انہوں نے کوئی ایسی بات کہہ دی جسے پورا کرنا ان کے لیے ناممکن ہو۔
’’یہ تو جیادتی ہے صاحب۔‘‘ بلڈر نے کہا تھا۔ اس کام کے لیے تو ہمیں سارا نقشہ پھر سے بنوانا پڑےگا۔ ایک کوٹھری بھی بڑھائی جائے تو ایک فلیٹ نکل جاتا ہے۔ ویسے ہم چوکیدار رکھیں گے ہی۔ ان میں آپ کے آدمی کو بھی کھپا دیں گے لیکن الگ سے کوٹھری دینے کے لیے نہ کہیے، ہمیں بھی چار پیسے کما لینے دیجیے۔‘‘
مسرکھ بابو نے، جن کی ہمت بڑھ چکی تھی، سوچا کہ جب نقشہ تک بن چکا ہے تو اب وہ جائےگا کہاں، اس لیے انہوں نے لہجہ تو نرم ہی رکھا لیکن مضبوطی سے اپنی بات پر اڑے رہے، ’’اس میں مشکل کیا ہوگی؟ اتنی بڑی زمین ہے، سوا انیس ہزار اسکوائر فٹ سے اوپر۔ اس میں بارہ فٹ چوڑی، پندرہ فٹ لمبی کوٹرڑی کے لیے آپ جگہ نہیں نکال سکتے؟ پتاجی تو اب ہیں نہیں۔‘‘ انہوں نے اپنی آخری ڈھال نکالی اور کچھ کچھ جذباتی ہو گئے، ’’لیکن میں یہ کیسے بھول جاؤں کہ وہ اس کا بہت خیال رکھتے تھے، اس کو پریشانی ہوئی تو ان کی آتما کو دکھ ہوگا۔‘‘
جہاں مسرکھ بابو دل ہی دل میں سوچ رہے تھے کہ بات اس پر ٹوٹنے لگی تو وہ جھک جائیں گے وہیں بلڈر نے بس ایک چال چلی تھی کہ یہ جھنجھٹ نہ پالنا پڑے تو اچھا ہے۔ اتنی بڑی زمین کوڑیوں کے مول مل رہی ہے، ایک کیا تین چار کوٹھریاں نکالی جا سکتی ہیں لیکن ظاہر یہی کیا تھا کہ مسرکھ بابو کی بھاؤناؤں اور ان کے پتاجی کی آتما کی شانتی کے لیے وہ اتنی بڑی قربانی دے رہا ہے اور بات پکی کر لی تھی۔
اپارٹمنٹ میں تینتالیس فلیٹ نکلے تھے، جن میں سے پانچ تو پرانے کرایے داروں کو آدھے کرایے پر دے دیے گئے تھے، باقی اڑتیس میں سے ایک مسرکھ بابو کا تھا۔ پہلی منزل پر، زیادہ تر فلیٹ بک گئے اور جو تھوڑے بچے تھے انہیں عارضی طور پر کرایے پر اٹھا دیا گیا تھا۔ چوبیس گھنٹے پانی اور بجلی کی سپلائی، شہر کے اندر ہونے کے باوجود تین طرف درختوں سے گھرے ہونے اور مناسب داموں کی وجہ سے خریداروں کا اسے انتظار نہیں کرنا پڑا۔ جو دو تین فلیٹ بچ رہے تھے، انہیں خریداری کا معاہدہ کرکے ایک سال کے لیے کرایے پر اٹھا دیا گیا تھا۔ پرانے کرایہ داروں نے بھی یہی کیا تھا کہ وہ پیسوں کا انتظام کر رہے ہیں اور جیسے ہی روپے ہاتھ آگئے وہ رجسٹری کرا لیں گے۔ ان سے طے یہ ہوا تھا کہ انہوں نے سوا سال یا زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سال میں روپوں کا سبیتا کر لیا تو انہیں موجودہ قیمتوں سے کچھ کم ہی رقم دینا پڑےگی لیکن اس کے بعد یہ سہولت نہیں ملےگی اور کرایہ داری دوسال سے زیادہ بالکل نہیں چلےگی۔ پرانے کرایہ داروں میں سے تین نے تو مقررہ مدت سے پہلے ہی اپنے اپنے فلیٹ خرید لیے تھے البتہ باقی دو کو روپوں کا انتظام کرنے میں دو سے ڈھائی سال تک لگ گئے تھے لیکن مسرکھ بابو کی سفارش پر ان کو وقت گزر جانے کے باوجود فلیٹ خالی کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا تھا اور قیمت نہ صرف بڑھائی نہیں گئی بلکہ اس میں رعایت بھی کر دی گئی تھی۔
سب سے بڑی بات یہ تھی کہ میکو کے سلسلے میں بھی بلڈر نے اپنا وعدہ پورا کیا تھا اور اسے کوٹھری نما کمرہ مل گیا تھا جو ذرا سا چھوٹا ہونے کے باوجود اس کے سر چھپانے کے لیے کافی تھا اور اسے کرایہ بھی نہیں دینا پڑتا تھا۔ وہ اس میں اپنا تالا بھی ڈال سکتا تھا۔
اپارٹمنٹ کے نئے باسیوں کو میکو سے مانوس ہونے میں دیر نہیں لگی اور لگتی بھی کیسے کیونکہ جو بھی فلیٹ دیکھنے آتا اس کی ملاقات سب سے پہلے اسی سے ہوتی۔ مقررہ اوقات سے پہلے یا بعد میں معلومات حاصل کرنے جو بھی آتا بلڈر کے کہنے پر وہی اسے فلیٹ کھول کر دکھاتا اور اس کی موجودگی میں ساتھ ساتھ لگا رہتا۔ اس لیے ایک طرح سے وہ ’’کاسماس‘‘ کاسب سے پرانا آدمی بن گیا تھا۔ اس کے پاس بہت زیادہ کام نہ تھا کیوں کہ زیادہ تر لوگوں کے پاس اوپر کا کام کرنے کے لیے اپنے اپنے نوکر تھے لیکن یہ بھی ہوتا کہ دسویں پندرہویں کسی نہ کسی فلیٹ کا کوئی نوکر گول ہو جاتا یا کوئی نوکری چھوڑ کر چلا جاتا تو نئے نوکر کا انتظام کرنے میں ظاہر ہے کہ کچھ نہ کچھ وقت لگتا ہی ہے، اس لیے ہر کسی کو کبھی نہ کبھی اس کی ضرورت پڑ ہی جاتی۔
چنانچہ طے یہ کیا گیا تھا کہ ہر فلیٹ سے اسے چالیس روپے مہینے دیے جائیں گے۔ یہ روپے شروع مہینے میں مسرکھ بابو کو دے دیے جاتے اور وہ ساری رقم یک مشت اسے دے دیتے، اس کا کام بھی چلتا رہتا اور فلیٹ میں رہنے والوں کا بھی۔ یوں تو کوئی خاص کام اس کے ذمہ نہ تھا لیکن اس کے ہونے اور نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے، اس کا اندازہ لوگوں کو اس وقت ہوتا جب وہ سال میں پندرہ بیس دن کے لیے گھر چلا جاتا۔ دیس اس کا بلاسپور تھا اور ’’شاب‘‘ کہنا اس نے شاید نیپالی چوکیداروں سے سیکھا تھا۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ ایماندار تھا اور اب تک کسی کو ایک پیسے کے ہیر پھیر کی اس سے شکایت نہیں ہوئی تھی۔
یہ سب اپنی جگہ، لیکن رتن منی جی کی پریشانی بھی ٹھیک تھی۔ ہوتے ہوتے ساڑھے تین گھنٹے ہوگئے تھے اور میکو اب تک لوٹ کر نہیں آیا تھا۔ اس نے حساب لگاکر بتائے تو ڈھائی یا ساڑھے تین گھنٹے تھے لیکن وہ ہمیشہ ہی بتائے ہوئے وقت سے پہلے آ جاتا تھا۔ معلوم نہیں کہاں رہ گیا؟ ہوسکتا ہے کوئی ایسی بات ہو گئی ہو جس کا پہلے سے حساب نہیں لگایا گیا ہو، انہوں نے اپنے آپ کو تسلی دی۔ لیکن اسی وقت انہیں خیال آیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس نے جھولا بس میں چھوڑ دیا ہو اور یاد اسے اس وقت آیا ہو جب بس دور نکل گئی ہو۔ یہ سوچتے ہی ان کے دل میں جیسے پنکھے لگ گئے۔ انہوں نے کھڑکی سے دیکھا کہ نسیم صاحب اپنے فلیٹ سے نکل رہے ہیں تو جلدی سے گیلری میں آ گئے۔ حسب دستور نسیم صاحب مسکرائے تو انہوں نے جواب میں مسکرانے کے بجائے کہا، ’’میکو کو ایک ضروری کام سے بھیجا تھا۔ ساڑھے تین گھنٹے ہو گئے، اب تک لوٹ کے نہیں آیا۔‘‘
’’کسے؟ برجو کو؟ بنرجی صاحب کا نوکر؟‘‘
’’نہیں نسیم صاحب، میکو، میکو جو پیچھے کوٹھری میں رہتا ہے۔‘‘ انہوں نے رک رک کر کہا۔
’’اچھا میکو، میں سمجھا تھا برجو۔ میکو ہے تو آتا ہی ہوگا۔‘‘ نسیم صاحب نے اطمینان سے کہا اور زینے کی طرف بڑھ گئے۔ انہیں نسیم صاحب کی یہ بےرخی ایک آنکھ نہ بھائی اور کچھ نہ سہی، ہمدردی تو کر ہی سکتے تھے۔ انہوں نے سوچا لیکن پھر انہیں خیال آیا کہ ہمدردی کا اظہار تو اس وقت کیا جاتا ہے جب نقصان ہو چکتا ہے۔ ’’ٹھیک کیا نسیم صاحب نے، ٹھیک ہی کیا۔‘‘ وہ دھیرے دھیرے بڑبڑائے، ’’بھگوان نہ کرے جو کسی ہمدردی کی مجھے ضرورت پڑے۔‘‘
نسیم صاحب چار چھے زینے اترنے کے بعد لوٹ آئے، شاید کچھ بھول گئے ہوں گے۔ رتن منی جی پر جیسے ہی ان کی نظر پڑی بولے، ’’آپ پریشان کیوں ہو رہے ہیں؟ میکو تو بہت ایماندار نوکر ہے لیکن ادھر میں نے دیکھا ہے کہ دوسرے نوکروں کے ساتھ رہ کر کچھ کچھ رنگ پکڑ رہا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ جلدی سے اپنے فلیٹ میں چلے گئے اور مشکل سے ایک ڈیڑھ منٹ میں لوٹ آئے۔ ایک چھوٹا سا کاغذ ان کے ہاتھ میں تھا۔ انہوں نے رتن منی جی سے کہا، ’’آپ نے گیٹ کے باہر کی گمٹی کے پاس جہاں پان کی دوکان ہے دیکھا، میں نے کئی بار اسے دوسرے نوکروں کے ساتھ وہاں بیٹھے دیکھا ہے؟‘‘
ان کا جی چاہا کہ فوراً ہی ڈگ بھرتے ہوئے جائیں اور اسے وہاں دیکھ آئیں لیکن پھر یہ سوچ کر کہ نسیم صاحب کیا کہیں گے، رک گئے اور انہوں نے جب یہ دیکھ لیا کہ وہ گیٹ پار کر چکے ہیں تب ہی زینے کی طرف قدم بڑھایا۔ گمٹی کے بالکل پاس جانا انہیں اچھا نہیں لگا، اس لیے تھوڑے فاصلے سے انہوں نے نظریں گاڑ کے دیکھا۔ یوں تو شام اتر آئی تھی لیکن پان کی دوکان کے بلب کی روشنی اتنی ضرور تھی کہ میکو وہاں ہوتا تو انہیں نظر آ ہی نہیں جاتا۔ پانچ چھے گھروں کے نوکر وہاں بیٹھے تھے۔ میکو ان میں نہیں تھا لیکن جانے کیوں بار بارانہیں خیال آتا رہا کہ پاس جاکر دیکھ لینا چاہیے تھا۔
رتن منی جی کو پچاس ہزار روپوں کی فکر تو تھی ہی لیکن اس سے زیادہ پریشانی اب انہیں اس کی ہونے لگی تھی کہ وہ کہیں پولیس کے ہتھے نہ چڑھ گیا ہو۔ ٹریفک کانسٹبل ہوئے جو چوراہوں کے موڑ پر کھڑے رہتے ہیں تو ہزار پان سو لے کے چھوڑ دیں گے۔ لیکن کوئی چھوٹا موٹا افسر بھی ساتھ ہوا اوروہ بھی ایسا جو ادھر ادھر منہ مارنے کے بجائے خود کو ایماندار ثابت کرکے جلدی جلدی ترقی کے ذریعے اس کی قیمت وصول کرنا چاہتا ہے، تب بڑی پریشانی کھڑی ہو سکتی ہے۔ میکو ویسے ہی سیدھا سادا ہے۔ پولیس کے دو ڈنڈے کھاکر فوراً اگل دےگا کی روپ کس نے بھیجے تھے اور کس کو بھیجے گئے تھے۔ کین کمشنر کے دفتر کے چپراسی تک مٹھی گرمائے بغیر سیدھے منہ بات نہیں کرتے اور یہ معلوم ہونے کے بعد کہ روپے سکسینہ جی کو بھیجے جا رہے تھے تو پولیس معاملہ سی۔ آئی۔ ڈی کے سپرد بھی کر سکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو بہت گڑبڑ ہو جائےگا۔ اپنی پریشانی میں انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ وہ غریب ہزار پان سو دےگا کہاں سے؟
روپوں کی تو کوئی بات نہیں، حساب کتاب کے اتنے روپے بلکہ اس سے زیادہ بھی تجوری میں پڑے ہی رہتے ہیں لیکن پوچھا یہ جائےگا کہ اتنے بہت سے روپے سکسینہ صاحب کو کیوں بھیجے گئے تھے۔ سی۔ آئی۔ ڈی سب کچھ کھود نکالےگی۔ ایک مہینے میں گنا کسانوں کا تین سال کا بقایا ادا کرنے کا حکم ہوا ہے اور میں نے ایک ایک سال کا بقایا دو دو مہینے میں ادا کرنے کی مہلت مانگی ہے اور فیصلہ ظاہر ہے کمشنر صاحب کو کرنا ہے، سیدھا سیدھا رشوت کاکیس بن جائےگا۔ ان کی پیشانی پسینے سے تر ہو گئی اور انہوں نے سوچا کہ اس سے اچھا تو یہی ہوگا کہ وہ جھولا بس ہی میں بھول جائے۔
لیکن پھر جیسے ایک دم ان پر انکشاف ہوا، ’’پچاس ہزار روپے، پچاس ہزار روپے ہوتے ہیں۔‘‘ اور ان کا دل دوسری طرح کی پریشانی سے بیٹھنے لگا۔ اس پریشانی کے سارے پہلوؤں پر وہ اب تک غور کر چکے تھے لیکن کچھ اس طرح کہ ایک پہلو سے پوری طرح سوچنے سے پہلے دوسرا خیال آ جاتا۔ اس لیے انہوں نے ایک ایک بات کو الگ کرنا شروع کیا۔ سب سے اچھا تو یہ ہوگا کہ وہ تھیلا سکسینہ بابو کے یہاں پہنچا آئے اور اگر پولیس کے ہاتھ ہی پڑنا ہو تو اس سے اچھا یہ ہوگا کہ وہ جھولا بس میں بھول جائے اور گھنٹہ بھر تک ادھر اُدھر تلاش کرنے کے بعد روتا پیٹتا لوٹ آئے۔ اس کے علاوہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ اسے کسی طرح پتہ چل گیا ہو کہ جھولے میں ضروری کاغذات کے بجائے پانچ پانچ سو کے پورے سو نوٹ ہیں اور اس کی نیت پھسل گئی ہو۔ لیکن میکو ایسا نہیں ہے۔ سچ پوچھیے تو انہیں میکو کے ایماندار ہونے پر خاصا افسوس بھی ہوا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ معاملہ کے پولیس کیس بننے کا خطرہ ہو۔
ابھی وہ یہ سب سوچ ہی رہے تھے کہ لفٹ رکی اور اس میں سے میکو برآمد ہوا۔ انہوں نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی اور اس پر کسی قسم کی فکر یا پریشانی کا نشان تک نہ پاکر اطمینان اور خوشی کی ایک لہر ان کے سارے بدن میں دوڑ گئی۔ لیکن اسے وہ چھپا گئے اور جھوٹ موٹ کے غصے سے بولے، ’’کہاں رہ گیا تھا۔ اتنی دیر لگا دی؟‘‘
’’کہیں نہیں شاب، ۳۷ نمبر کی بس تو میرے پہنچتے ہی سامنے سے نکل گئی اور پھر ۱۴۹ نمبر کاکناٹ پلیس میں ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑا۔‘‘
’’صاحب مل گئے تھے؟‘‘
’’گھر پر تھے نہیں، مگر تھوڑی ہی دیر میں آ گئے تھے۔‘‘ میکو نے گردن جھکائے جھکائے کہا اور قمیص کی اوپر والی جیب سے ساڑھے بارہ روپے نکال کر ان کے ہاتھ میں رکھ دیے۔ رتن منی بابو اس وقت اتنے خوش تھے کہ انہوں نے روپے واپس اس کی جیب میں ڈال دیے اور پوچھا، ’’تو نے جھولا سکسینہ صاحب کے ہاتھ میں دیا تھا نا؟‘‘
’’ہاں شاب ان ہی کو دیا تھا۔ وہ جھولا لیتے ہی اندر چلے گئے تھے اور مجھے روک لیا تھا۔‘‘
’’اندر سے جلدی واپس آ گئے تھے کہ دیر لگائی تھی؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’تھوڑی دیر میں آئے تھے اندر سے۔‘‘
’’روپے گن رہے ہوں گے‘‘ ان کے منہ سے نکل گیا لیکن انہوں نے یہ سوچ کر شاید میکو سمجھا نہ ہو، جلدی سے دوسرا سوال کر دیا، ’’کچھ کہہ رہے تھے؟‘‘
’’انہوں نے کہا تھا کہ آپ سے دھنیہ باد کہہ دوں اور میرے کو کہا تھا کسی کو بتانا نہیں کہ تم کہاں گئے تھے۔‘‘
میکو کا دل یہ سوچ کر الٹ پلٹ ہونے لگا تھا کہ اس کے پاس اتنے بہت سے روپے تھے لین وہ اس کی پریشانی بھانپ نہیں سکے تھے۔ ایک بار تو ان کاجی چاہاکہ اندر سے ایک ہرا نوٹ لاکر اس کو دے دیں لیکن انہوں نے پھر اپنا ارادہ بدل دیا اور یہ کہنے کے بجائے کہ اب جاؤ انہوں نے کہا، ’’اور سب تو ٹھیک رہا۔ کوئی گڑ بڑ تو نہیں ہوئی؟‘‘
’’گڑبڑ کیشی ساب‘‘ اصل میں وہ ’’شاب‘‘ کہنے والا تھا لیکن جلدی میں یہ نقطے ذرا پہلے لگ گئے۔ ’’اور کوئی کام شاب؟‘‘ اس کے اس جملے کے معنی تھے کہ جب کوئی کام ہو بلا لیجیےگا۔
انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور آہستہ سے مسکرا دیے۔
ویسے تو اپنے فلیٹ کے علاوہ ’’کاسماس‘‘ سے مسرکھ بابو کا اب کچھ لینا دینا نہیں تھا لیکن وہ سمجھتے اپنے آپ کو اس کامالک ہی تھے۔ گراؤنڈ فلو رکے اپنے فلیٹ سے جو انہیں مفت میں ملا تھا ٹہلنے کے لیے نکلتے اور دوسرے فلیٹوں کے رہنے والوں کو آتے جاتے دیکھتے تو مالکانہ شان سے دھیرے دھیرے چلنے لگتے۔ یہ تو ہر ایک کو معلوم تھا کہ ساری زمین کبھی ان کی ہوتی تھی، لیکن ہر شخص یہ بھی جانتا تھا کہ اب وہ بھی اسی کی طرح ایک فلیٹ کے مالک ہیں اور بس۔ پھر بھی کچھ لوگ ان کاخیال کرتے تھے اور انہیں دیکھتے ہی پاس جاکر باتیں کرنے لگتے تھے یا تیج تہوار میں انہیں گھر آنے کی دعوت دیتے وقت صرف ان کا دل رکھنے کے لیے کہہ دیتے تھے، ’’مسرکھ بابو آپ کے پتاجی بڑے دور درشی تھے نہیں تو کوئی اور ہوتا تو پچاس سال پہلے شہر سے اتنی دور یہ زمین خریدتا۔ ان دنوں تو یہاں کھیتی ہوتی رہی ہوگی۔‘‘
مسرکھ بابو کا سینہ فخر سے پھول جاتا اور چالیس برس تک دفتر میں نوکری کرنے کی وجہ سے جو عادت پڑ گئی تھی اس کے مطابق ان کے منہ سے نکلتا، ’’سر، یہ سارا علاقہ۔‘‘ لیکن فوراً ہی انہیں اپنی غلطی کا اندازہ ہو جاتا اور وہ جملے نئے سرے سے شروع کرتے، ’’یہ زمین پسند تو پتاجی نے کی تھی لیکن منظوری دادا جی سے بھی لی تھی اور رجسٹری تو داداجی نے ہی کرائی تھی۔ سب لوگ روکتے تھے کہ کہاں جنگل میں زمین خرید رہے ہو۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ اپنی چھڑی سے گیٹ کے باہر والی سڑک کی دوسری طرف اشارہ کرتے، ’’وہاں سے جنگل شروع ہو جاتا تھا۔ میں تو اس وقت چھوٹا تھا لیکن اچھی طرح یاد ہے۔ لوگ پتا جی سے کہتے تھے کہ رات میں وہاں سیاروں کی آواز سنائی دیتی ہے۔‘‘
وہ اس جملے کا اثر جاننے کے لیے مخاطب کے چہرے پر نظر ڈالتے اور انہیں انداز ہ ہوتا کہ پتاجی اور دادا جی کی دوراندیشی کا رنگ اس پر چڑھ گیا ہے تو ایک کوٹ اور کردیتے، ’’بھائی صاحب پہلے زمانے کے لوگ دیکھنے میں تو سیدھے سادے لگتے تھے، کوٹ پینٹ نہیں پہنتے تھے لیکن ہوتے تھے عقل والے۔‘‘ یکایک انہیں احساس ہوتا کہ جس شخص سے وہ یہ کہہ رہے ہیں وہ خود سوٹ بوٹ میں ہے تو فوراً بات کا رخ بدلتے، ’’لیکن صاحب کپڑوں سے کیا ہوتا ہے۔ عقل ہونا چاہیے عقل۔۔۔ آپ سے نہیں لوگوں نے کہا تھا کہ تیرہ لاکھ میں فلاٹ مہنگا ہے لیکن کیوں چار سال میں ہی اس کی قیمت ڈیوڑھی نہیں تو سوا گنی ہو ہی گئی۔‘‘ اپنی دلیل میں وزن پیدا کرنے کے لیے وہ ’’کاسماس‘‘ کی عمر دو ڈھائی سال کم کر دیتے۔
ویسے اتنی دیر تک بات چیت کرنے کے لیے مسرکھ بابو کو کم ہی لوگ ملتے تھے، کچھ انہیں دیکھ کر دور ہی سے کنی کاٹ جاتے، کچھ ان کے نمستے یا رام رام کا جواب دے دیتے اور کبھی کبھی ان کی صحت کے بارے میں بھی پوچھ لیتے اور کچھ دوسرے مسکراہٹ سے آگے نہ بڑھتے۔ بہت سے ایسے بھی تھے جو ان سے عاجز آ چکے تھے اور انہیں دیکھتے ہی کسی دوسرے سے اتنی گمبھیرتا سے باتیں کرنے لگتے جیسے انہیں دیکھا ہی نہ ہو۔
اس سلسلے میں ان کی آخری پناہ گاہ ان کے پرانے کرایہ دار تھے۔ وہ سمجھتے جو بھی ہوں لیکن ظاہر یہی کرتے تھے کہ مسرکھ بابو مہربانی نہ کرتے تو انہیں یہ فلیٹ شاید ہی مل پاتے اور یہ کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا لیکن میکو کو کمرہ نما کوٹھری تو صرف ان ہی کی وجہ سے ملی تھی اور وہ ان کو مالک اب بھی کہتا تھا۔ بات چاہے جہاں سے شروع ہو، مسرکھ بابو گھما پھرا کر میکو کو بیج میں لے ہی آتے اور پھر سینہ پھلا کر کہتے، ’’پتاجی اس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ وہ لوگ اسے کوٹھری دینے کو تیار نہ ہوتے تو میں زمین ان کے ہاتھوں ہرگز ہ بیچتا، کون سی بارات نکلی جا رہی تھی۔ مجھے کیا ملا، بس ایک فلیٹ۔ اس سے بڑے مکان میں تو میں پہلے بھی رہتا تھا۔‘‘ وہ ان سینتالیس لاکھ روپوں کا کوئی ذکر نہ کرتے جو انہیں نقد ملے تھے اور نہ بڑے بازار میں بجلی کے سامان کی اس شاندار دوکان کا جو تین لاکھ روپوں سے انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو کھلوا دی تھی جس نے کسی طرح ہائی اسکول تک پاس کرکے نہ دیا تھا۔
ان کے پرانے کرایے داروں میں دو تو ایسے تھے جن کا کہنا تھا کہ انہوں نے مسرکھ بابو کے دادا کا دیہانت بھی دیکھا تھا۔ ’’وہ ذرا جلدی سدھار گئے تھے، بھرا پرا خاندان چھوڑ کر وہ کہتے لیکن میکو کی بات نکلتی تو وہ اپنا سر کھجانے لگتے۔ اوم بابو کہتے وہ پرانا نوکر ہے لیکن کتنا پرانا اس بارے میں کچھ نہ کہتے۔ ’’ہاں یہ ضرور یاد ہے‘‘ وہ دماغ پر زور دیتے، ’’کہ تب اس کا رنگ کھلتا ہوا تھا۔ ’’کاسماس‘‘ کے شروع کے دنوں میں بھی ایسا کالا نہ تھا۔‘‘ پھر وہ اپنے آپ سے کہتے، ’’سمے سب کچھ بدل دیتا ہے۔‘‘ کوئی کہتا، ’’میکو کالا تو اب بھی نہیں ہے۔‘‘ تو وہ کہتے، ’’آپ نے تو سچ پوچھیے اسے اب جانا پہچانا ہے۔ میں تو اس میکو کی بات کر رہا ہوں جسے میں نے بہت سال پہلے دیکھا تھا۔‘‘
یہ کہتے کہتے انہیں اپنی تیس سال پہلے کی اس تصویر کا خیال آ جاتا جو ڈرائنگ روم کی الماری میں سجی تھی۔ ’’میں ہی کیا تھا، اب کیا ہو گیا ہوں۔‘‘ کچھ ایسی ہی بات سیٹھ جی بھی کہتے۔ وہ سیٹھ تو تھے نہیں لیکن ان کی توند اتنی بڑھ گئی تھی کہ لوگ انہیں سیٹھ جی کہنے لگے تھے۔ وہ کہتے، ’’ہے تو یہی، لیکن اک دن شاید اس کا بھائی بلاسپور سے آیا تھا۔ آپ دونوں کو ساتھ ساتھ دیکھیں تو ممکن ہے دھوکا کھا جائیں۔ ویسے ہر آدمی دوسرے سے کچھ نہ کچھ الگ تو ہوتا ہی ہے۔‘‘ پھر بھی اوم بابو اور پرانے مکانوں کے ایک دو کرایے دار جو اس وقت موجود ہوتے، اپنے اپنے طور پر یہ فیصلہ ضرور کرتے کہ وہ اس بارے میں میکو سے پوچھ لیں گے۔
اس بات کا پکا فیصلہ جو لفظوں میں چاہے نہ ہوا ہو، دو بار تو ہو ہی چکا تھا لیکن ہوتا یہ کہ میکو سے ملاقات یا تو اس وقت ہوتی جب اسے کسی کام کے لیے بلایا گیا ہو یا یہ کہ اسے دیکھتے ہی کوئی نہ کوئی کام یاد آ جاتا۔ ایسے میں اس سے کوئی ایسی بات بھلا کیسے پوچھی جاتی جس کا جواب مشکل ہی سے ہاں یا نہیں میں دیا جا سکتا ہو۔
کامن روم میں یوں تو دس بارہ لوگ دن کے وقت بھی ہر روز ہی موجود ہوتے لیکن شام میں بھیڑ بڑھ جاتی اور اتوار کے دن تو کبھی کبھی کرسیاں کم پڑ جاتیں اور لوگوں کو جگہ خالی ہونے کا انتظار بھی کرنا پڑتا۔ ایسے ہی ایک اتوار کو جب اکتوبر کے آخری تین چار دنوں میں جاڑے جیسے ایک دم آسمانوں سے اترنے لگے تھے، چند بڑے بوڑھوں نے فیصلہ کیا کہ اگلے اتوار کو کھلے میں دھوپ کا مزا لیا جائےگا۔ ’’ویسے اچھا تو یہ ہوتا کہ پکنک منانے کے لیے کہیں جایا جاتا۔‘‘ مہروتراجی نے، جو کئی دنوں سے کیرم کلب بنانے پر زور دے رہے تھے، کہا تھا، ’’لیکن اتنے بہت سے لوگ لدپھند کر کہا ں جائیں گے، اس لیے پکنک کا مزا کورٹ یارڈ میں ہی کیوں نہ اٹھا لیا جائے۔‘‘ اس تجویز کو پسند سب ہی نے کیا تھا اور اسی وقت یہ بھی فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ تیس تیس روپے کینٹین کے مالک کو دے کر چائے، کافی، پکوڑیوں اور ایک میٹھے کا انتظام اس کے سپرد کر دیا جائےگا۔ لیکن سگریٹ پان اس میں شامل نہیں ہوگا کیوں کہ ہر شخص تو ان کا شوق کرتا نہیں۔
کندن لال جی کو مذاق سوجھا تو انہوں نے کہا، ’’میں تو بھائی بیس ہی روپے دوں گا۔‘‘
’’کیوں صاحب بیس روپے کیوں؟‘‘ مہروتراجی سمجھے کہ شاید کندن لال بیس روپے ہی کافی سمجھتے ہیں۔
’’میں Diabetic جو ہوں۔ نہ میٹھا لوں گا، نہ چائے کافی میں شکر۔‘‘
سب لوگ ہنس دیے اور اس ہنسی نے فیصلہ پکا کر دیا۔
آج وہی اتوار تھا۔
سردی ذرا چمک گئی تھی۔ جانے کہاں سے بادلوں کے آوارہ ٹکڑے آسمان میں چھپا چھپاول کھیلنے لگے تھے اور جب ان میں سے کوئی دھوکے سے سورج کی روشنی میں پناہ لیتا جہاں وہ اور بھی زیادہ نظر آنے لگتا تو کوئی کرسی پر سے مفلر اٹھاکر گلے میں لپیٹ لیتا اور کوئی کوٹ کا ایک بٹن اور بند کر لیتا اور کوئی کینٹین کے ملازم سے کہتا، ’’چائے، خوب گرما گرم۔‘‘
الگ الگ رنگوں کی بید کی کرسیاں جو گھروں سے آئی تھیں، کیوں کہ کینٹین میں تو بس تھوڑی سی تھیں، قطاروں میں لگا دی گئی تھیں لیکن دھیرے دھیرے وہ بےترتیب ہو گئیں اور چھوٹے چھوٹے گروپ ادھر ادھر گپ شپ میں مصرف تھے۔ ہر شخص اپنے گروپ کی باتوں میں کھویا ہوا تھا لیکن کسی طرف سے قہقہے بلند ہوتے تو دوسروں کی نگاہیں ادھر ضرور اٹھ جاتیں۔
اتنے میں ایک عورت، عمر یہی کوئی تیس پینتیس کی رہی ہوگی، پانچ چھے سال کے ایک بچے کی انگلی تھامے گیٹ پر آئی تو چوکیداروں نے اسے روکا لیکن معلوم نہیں اس نے انہیں کیا بتایا کہ پہلے تو ایک چوکیدار نے میکو کی کوٹھری کی طرف اشارہ کیا پھر آگے بڑھ کر دور سے کوٹھری دکھا بھی دی او روہ دھیرے دھیرے اس طرف قدم بڑھانے لگی۔ اتنے میں میکو جو خان صاحب کے لیے ان کی پسند کی سگریٹ لینے گیا ہوا تھا، لوٹا اور چوکیداروں نے اس سے کچھ کہا تو اس نے اپنی ساری ادائیں بھلاکر سگریٹ کا پیکٹ اور باقی پیسے خان صاحب کے حوالے کیے اور اس عورت کی طرف لپکا جو دور ہی سے کوٹھری پر تالا لٹکتا ہوا دیکھ کر وہیں رک گئی تھی، کچھ لجائی لجائی سی لگتی تھی اور دھوپ میں کھڑی چپکے چپکے خوبصورت فلیٹوں کو دیکھ رہی تھی۔
حیرت توسب ہی کو ہوئی تھی اور وہ اپنی باتیں بھول گئے تھے لیکن کندن لال جی سے، جن کے بارے میں لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے تھے، صبر نہ ہو سکا اور انہوں نے راستے ہی میں میکو کو روک کر اس سے پوچھ لیا،
’’ابے میکو۔ یہ عورت تیری کیا لگتی ہے؟‘‘
’’مہرارو ہے شاب۔‘‘ میکو بس ذرا سا رکا اور پھر عورت کی طرف مڑ گیا اور جیسے ہی وہ اس کے پاس پہنچا، بچے نے عورت کے ہاتھ سے اپنی انگلی چھڑا کر میکو کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ذرا کی ذرا میں میکو جو ہمیشہ کی طرح ڈھیلے ڈھاے کپڑے پہنے تھا، انہیں کچھ ایسا نظر آنے لگا جیسا انہوں نے اسے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ پہلی بات انہوں نے یہ محسوس کی کہ اسے جوان نہیں کہا جا سکتا تو ادھیڑ کہنا بھی کچھ ایسا صحیح نہیں ہوگا۔ اس کی گردن سیدھی تھی، جھکی ہوئی نہیں اور بڑھے ہوئے شیو کے تقریباً سیاہ بالوں کے پیچھے اس کے چہرے کی جلد چکنی اور چمکدار تھی۔
حیرت ہر ایک کو تھی، کسی کو کم کسی کو زیادہ، لیکن پہلے جہاں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی گپ شپ کی وجہ سے فضا میں ایک طرح کی بھنبھناہٹ چھائی ہوئی تھی وہاں اب تقریباً سناٹا تھا، ایسا کہ کوئی بات کرتا تو دومیز ادھر تک سنائی دیتی۔ یہ حالت تو تھوڑی دیر میں ختم ہو گئی لیکن پہلے والی چہل پہل لوٹ کے نہ آئی۔
’’پرنتو مسرکھ بابو تو کہتے ہیں میکو ان کے پتاجی کے زمانے کا نوکر ہے۔‘‘ کندن جی نے کئی مہینے پہلے کی بات سے سرا جوڑتے ہوئے ’’پرنتو‘‘ لگایا۔
’’میں بھی جب پرانے مکان میں آیا تھا تو میکو وہاں رہتا تھا۔‘‘ مہروترا صاحب نے کہا تو رسان سے تھا لیکن اس میں شرارت چھپی ہوئی تھی۔ انہیں معاملہ کچھ دوسرا ہی لگ رہا تھا۔
’’آپ کو خوب اچھی طرح یاد ہے‘‘، کندن جی نے ہنستے ہوئے کہا، ’’وہاں کبھی اس کی مہرارو کو بھی آپ نے دیکھا تھا۔‘‘
مہروترا صاحب کچھ سوچنے لگے۔ جواب دینے کے لیے ان کے ہونٹ بھی ہلے لیکن وہ کچھ کہتے کہتے رک گئے۔ گردن اٹھاکر اوپر کی طرف دیکھا، کان کے اوپر سر کے بالوں کو دھیرے دھیرے کھجایا، پھر بولے، ’’رہتی تو وہاں نہیں تھی شاید لیکن مجھے یاد پڑتا ہے کہ آتے جاتے اسے دیکھا ضرور تھا۔ پر ایک بات سمجھ میں نہیں آتی۔ مجھے کچھ کچھ خیال ہوتا ہے کہ وہ ذرا بڑی تھی۔‘‘
’’اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟‘‘ کندن جی چہکے، ’’ضروری تو نہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ عمر بڑھے ہی۔ جیسے بڑھتی ہے ویسے ہی گھٹ بھی سکتی ہے۔‘‘ وہ شرارت سے مسکرائے۔ جس نے بھی یہ بات سنی وہ ہنس دیا۔
اب ماحول تھوڑا تھوڑا غیرسنجیدہ ہونے لگا تھا اور کندن لال جی یہ نہیں چاہتے تھے کہ اتنا زبردست اسکینڈل ہنسی مذاق میں اڑ جائے۔ اس لیے انہوں نے نہایت سنجیدگی سے کہا، ’’مہروترا صاحب اگر سات آٹھ سال پہلے وہ چار پانچ سال بھی بڑی ہوتی تو اب اس لائق بھی نہ ہوتی کہ الگنی پر لٹکائی جا سکے۔‘‘ انہوں نے چاروں طرف دیکھا اور قیں قیں کرکے ہنسے۔
بات اتنی دل کو لگنے والی تھی کہ ان کی ’’قیں قیں‘‘ بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکی اور وہ لوگ بھی جو اَب تک اس بحث سے الگ تھلگ سے تھے، ان لوگوں کو چھوڑ کر جن سے بات چیت کا سلسلہ انہوں نے اس وقت تک توڑا نہ تھا اور ان باتوں کو بھول کر جو وہ اس وقت کر رہے تھے، میکو کی مہرارو میں دلچسپی لینے لگے۔
اتنے میں کندن لال جی کی نظر میکو پر پڑی جو ایک میلا سا تھیلا ہاتھ میں لیے اپنی بیوی اور بچے کے لیے شاید کچھ لینے جا رہا تھا تو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بلایا اور جب وہ بالکل پاس آ گیا تو کڑک دار آواز میں اس سے پوچھا،
’’ابے میکو تو یہاں کتنے برسوں سے ہے؟‘‘
سوال میکو کی سمجھ میں نہیں آیا۔ سمجھ میں کیا نہیں آیا، اصل میں وہ الجھ یوں گیا کہ اس نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ اس طرح کی کوئی بات بھی پوچھی جا سکتی ہے۔
’’ہاں ہاں تو۔ میں نے پوچھا یہ تھا کہ تو ’’کاسماس‘‘ میں کتنے برس سے ہے؟‘‘ کندن لال جی نے رسان سے پوچھا۔
’’شاب پانچ سال سے۔‘‘ اس نے انگلیوں پر حساب بھی نہیں لگایا۔
کندن لال جی نے مہروترا صاحب کی طرف دیکھا۔ کہا کچھ نہیں لیکن جس طرح وہ انہیں دیکھ رہے تھے، اس میں یہ سوال چھپا ہوا تھا کہ آپ نے تو اس کی بیوی کو بھی کامپلکس بننے سے کئی سال پہلے دیکھا تھا۔ لیکن مہروترا صاحب نے اس سوال کو، جو پوچھا نہیں گیا تھا، کوئی اہمیت نہیں دی اور اپنی ہی الجھن میں کھوئے رہے۔ مہراوترا صاحب نے میکو پر ایک اور سوال داغ دیا،
’’اور تجھ سے پہلے یہاں کون تھا؟‘‘
’’یہاں؟‘‘
’’ہاں ہاں یہاں!‘‘
’’چاچا جی تھے شاب!‘‘
’’چاچا جی!‘‘ کندن لال جی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو انہوں نے اپنے حساب سے بال کی کھال نکالی۔
’’لیکن میکو؟‘‘ ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ سوال کس طرح پوچھیں۔
’’میکو شاب؟‘‘ وہ ذرا سا ہنسا، ’’ہمارے پریوار کا تو جو آدمی بھی لوگوں کے گھروں میں نوکری کرتا ہے اسے سب لوگ میکو ہی کہتے ہیں۔‘‘
کندن لال جی نے جو ساٹھ سال کی عمر پوری کر لینے پر پولیس انسپکٹر کی حیثیت سے رٹائر ہوئے تھے مجرموں سے پوچھ گچھ کے اپنے تجربے کا استعمال کیا۔
’’گھر کی بات نہیں۔ تو یہاں میکو کیسے ہو گیا؟‘‘
میکو کو اس سوال میں کوئی الجھن کی بات دکھائی نہ دی۔ ’’گھر میں تو شاب میں اب بھی شری لال ہوں۔ پرنتو نوکر ہم میکو ہی ہوں، چاچا بھی میکو ہی تھا۔‘‘
اب تو معاملہ کچھ کاکچھ ہو گیا تھا اور ہر ایک کی دلچسپی بھی بڑھ گئی تھی۔ بائیں جانب بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے جو اس معاملہ میں اب تک کوئی خاص دلچسپی نہیں لے رہے تھے اور سامنے والی کرسی پر پیر پھیلائے ہوئے تھے، لیکن اس طرح کہ ان کے پیروں کا رخ کسی کی طرف نہ ہو، میکو سے پوچھا، ’’اور تیرے چاچا سے پہلے؟‘‘
’’شاب میں ٹھیک سے نہیں جانتا لیکن چاچا جی کہتے تھے کہ ان کے ماما کا بھائی تین برس پرانے مکان کی کوٹھری میں رہا تھا۔‘‘ میکو نے کچھ اس طرح جواب دیا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔
یہ ساری باتیں کئی لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کی جگہ دوسرا نوکر آ جائے اور کسی کو پتہ ہی نہ چلے اور وہ بھی ایسا جس کا ہر روز کئی لوگوں سے سامنا ہوتا ہو۔ ان لوگوں کی بات تو خیر کسی طرح سمجھ میں آ سکتی ہے جن کا ’’کاسماس‘‘ کی تعمیر سے پہلے میکو سے کوئی لینا دینا نہ تھا کیوں کہ ان کے اپنے اپنے نوکر ہیں اور اس سے انہیں کوئی کام اسی وقت پڑتا ہے جب ان کے یہاں کام کرنے والا ایک آدھ دن کے لیے غائب ہو جاتا ہے لیکن ان لوگوں کو کیا ہو گیا تھا جو برسوں سے اسی جگہ کے پرانے مکانوں میں رہتے تھے اور خاص طور سے مسرکھ جی کو۔ یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی، لیکن سب سے زیادہ الجھن میں مہروترا جی تھے، جن کا خیال تھا کہ انہوں نے پرانے مکان میں رہنے کے دوران میکو کی بیوی کو دیکھا تھا۔
مانا کہ وہ میکو آج کے میکو کا چاچا تھا لیکن ان کی آنکھوں کو کیا ہو گیا تھا کہ وہ عورت کو پہنچاننے میں دھوکا کھا گئیں۔ وہ میکو کی طرف دیکھتے اور پھر آنکھیں بند کرکے پرانے والے مکان کے میکو اور اس کی بیوی کی تصویر ذہن میں بنانے کی کوشش کرتے تو دھند میں سے ایک چہرا ابھرتا اور دھیرے دھیرے میکو بن جاتا۔ بس یہ ہوتا کہ کبھی اس کا رنگ ذرا صاف ہوتا اور کبھی کچھ دبتا ہوا۔ کبھی بال چھوٹے ہوتے اور کبھی تھوڑے سے بڑے لیکن وہ ہوتا میکو ہی یا پھر بالکل میکو ایسا۔
اور پرانے مکان میں آنے والی اور اس کی میکو کی بیوی کی صورت، جسے انہوں نے خاصے غور سے دیکھا تھا اور جس کا ناک نقشہ ان کے دماغ میں تازہ تھا، جب وہ بند آنکھوں میں بنانے کی کوشش کرتے، تو کئی شکلیں ابھر آتیں جو دوسرے سے بہت زیادہ مختلف نہ ہوتیں، کبھی ان کا رنگ صاف ہو جاتا اور کبھی مٹ میلا۔ لیکن سب سے زیادہ الجھن میں ڈالنے والی بات یہ تھی کہ ان خیالی چہروں میں میکو کا بھی کچھ نہ کچھ رنگ ہوتا۔ ان ساری باتوں کا میکو کو کچھ بھی اندازہ نہ تھا اس لیے وہ پریشان پریشان نظروں سے کبھی ایک چہرہ دیکھتا، کبھی دوسرا اور کبھی تیسرا۔ رتن منی جی نے جو شاید اس کے بارے میں سب سے زیادہ سوچ چکے تھے اور اب تک خاموش بیٹھے تھے یکایک میکو سے پوچھا، ’’کیا تیرا چچا بھی شاب بولتا تھا؟‘‘
’’ہاں شاب!‘‘
’’لیکن تو نیپالی تو ہے نہیں‘‘
’’نہیں صاحب، ہم تو بلاسپور کا ہے۔ لیکن شاب ہم لوگ ایسا کام کرتے ہیں تو شاب ہی بولتے ہیں۔ چاچا بھی شاب بولتا تھا۔ اسی نے سکھایا تھا۔‘‘
’’تو صاحب بول لیتا ہے؟‘‘
’’ہاں ساب!‘‘
اس کا جواب سن کر کئی لوگ ہنس دیے تو اس نے پوچھا، ’’کوئی کام ہے شاب!‘‘
’’نہیں، کوئی کام نہیں۔‘‘ دو تین لوگوں نے ایک ساتھ کہا تو وہ گیٹ کی طرف چل دیا۔
یہ سب اس دن جب اسے پچاس ہزار روپے لے کر سکسینہ جی کے یہاں بھیجا تھا معلوم ہوتا تو وقت ذرا آسانی سے کٹ جاتا۔ رتن منی جی نے دل ہی دل میں سوچا اور مسکرا دیے۔
سب ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے لیکن اب ان کے چہروں پر پہلے والی الجھن نہ تھی۔ پھر بھی اصل سوال کا جواب تو اب بھی نہیں ملا تھا۔ دوبارآدمی بدل گئے اور کسی کو پتہ ہی نہیں چلا۔ اتنے میں کچھ کہنے کے لیے مہروتراجی کی فوجی مونچھیں پھڑکیں تو سب ان کی طرف دیکھنے لگے۔ ان کی مونچھیں کچھ کہنے کے لیے نہیں پھڑکی تھیں، ہوا بس یہ تھا کہ انہوں نے مسئلہ کے سارے پہلوؤں پر اس طرح سے سوچنا شروع کیا تھا جیسے وہ میدان جنگ میں ہوں اور دماغ میں دشمن کی ہر ممکن چال اور اس کا توڑ بٹھانے کی کوشش کر رہے ہوں۔ فرق بس اتنا تھا کہ یہاں دشمن کی فوجی دور دور تک نہ تھیں۔ کبھی کبھی ان کی مونچھیں پھڑکنا بند کر دیتیں لیکن ذرا ہی دیر میں یہ سلسلہ پھر شروع ہو جاتا۔ مگر جب انہیں اندازہ ہوا کہ سب ان کے منہ سے کچھ نہ کچھ سننے کا انتظار کر رہے ہیں تو انہوں نے کچھ کہا، اتنے دھیرے سے جیسے اپنے آپ سے کہہ رہے ہوں۔ لیکن شرماجی نے جن کی کرسی ان کی کرسی سے سٹی ہوئی تھی، یہ بات کچھ کچھ سن لی اور ان سے پوچھا، ’’آپ کیا کہہ رہے ہیں مہروترا جی، ذرا ہم سب کو بھی تو بتائیے؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘ مہروتراجی نے کہا، ’’میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ معاملہ کیا ہے۔ سارے نوکروں کی صورتیں قریب قریب ایک سی کیوں ہوتی ہیں۔۔۔ ایک دوسرے سے ملتی جلتی۔‘‘
یہ تو نہیں معلوم کہ یہ بات سن کر ہر ایک کو اطمینان ہو گیا تھا یا نہیں لیکن اب ان کے چہروں پر نہ پہلے والی حیرت تھی، نہ الجھن اور کئی تو یہ سوچنے لگے تھے کہ جب بھی وہ نوکر بدلتے ہیں تو اتنی جلدی سب کچھ پہلے جیسا کیوں ہو جاتا ہے۔
مأخذ : غلام گردش
مصنف:عابد سہیل