یار صادق! بڑے افسوس کے ساتھ تمہیں اطلاع دی جاتی ہے کہ تمہارا انتقال پرملال ہوچکا ہے۔۔۔ فون پر صادق کادوست منیر کہہ رہا تھا۔
’’کیا۔۔۔؟ تم کیا کہہ رہے ہو منیر۔۔۔‘‘ صادق جھنجھلاگیا۔ یہ شخص ہمیشہ یوں ہی فون پر مذاق کرتا ہے۔
’’یہ کہہ رہا ہوں کہ تمہارے گھر سے ٹیلی گرام آیا ہے۔ وہاں تمہارے مرنے کی اطلاع پہنچ گئی ہے۔ وہ جو کل پلین گراہے نا۔ اس میں تم مرچکے ہو۔ اب وی سی آر پرننگی عورتوں کو دیکھنا چھوڑدو اور مٹی میں ملنے کو تیار ہوجاؤ۔ منیر نے کھٹ سے فون رکھ دیا۔‘‘
میں مرگیا ہوں۔۔۔؟ اپنی موت کا نام سنتے ہی وہ خوف کے مارے لرزنے لگا۔ اس نے فون ہاتھ سے یوں رکھا جیسے درخت سے شاخ کرٹ کر گرتی ہے۔ میں مرچکا ہوں۔۔۔ امی، ابا، ثریا سب مجھے روچکے ہیں۔۔۔؟
وہ منہ کھولے آنکھیں پھارے چاروں طرف دیکھنے لگا۔۔۔ میرا مرنا اتنی معمولی سی بات ہے کیا! اس نے جب بھی اپنی موت کا تصور کیا تو زمین و آسمان اپنی جگہ ہل گئے تھے، پوری کائنات تہہ وہ بالا سی ہوگئی تھی۔۔۔ ابھی کل تک وہ کتنا خوش تھا۔۔۔ وہ جس پلین سے انڈیا جانے والا تھا وہ گرگیا اور خوش قسمتی سے صادق اس میں سوار نہیں ہوا تھا۔ موت اس کے سر پر سے گزر گئی تھی۔۔۔ ساری رات صادق اس واقعہ کی تفصیل ثریا کو لکھتا رہا کہ کیسے عین وقت پر اس کی سیٹ CONFIRMنہ ہوسکی اور وہ بال بال بچ گیا۔۔۔
لیکن اب تم مرچکے ہو، بڑے افسوس کے ساتھ تمہیں اطلاع دی جاتی ہے کہ تمہارا انتقال پرملا ہوچکا ہے۔۔۔ اس کے دوست منیر کی آواز چاروں طرف گونج رہی تھی۔
اس نے اپنے زندہ ہونے کایقین کرنا چاہا۔ سامنے پڑے ہوئے ثریا کے خط کو اٹھاناچاہا۔ لیکن مرے ہوئے انسان کا ہاتھ کہیں اٹھ سکتا ہے۔
تم مرچکے ہو۔۔۔ چاروں طرف سے منیر کی آواز گونج رہی تھی کیونکہ اسی پلین میں اس کا ہم نام ایک اور صادق سوار ہوچکا تھا جس نے اپنے ساتھ صادق کی زندگی بھی جلتے ہوئے پلین میں جھونک دی تھی۔ اب وہ اپنے پیاروں کے لیے مرچکاہے۔
اس بات کا یقین نہ کرنے کے لیے کیا رہ گیا ہے۔ یہ امریکن سینٹ کی خوشبو میں مہکتا ہوا سوٹ، سات ہزار ریال روپے کمانے والا جفاکش بدن، ثریا کی محبت میں سرشار دل۔۔۔ ان سب کو لوگ مٹی میں ملاچکے ہیں۔
صادق گھبراہٹ کے مارے۔۔۔ گھٹنے لگا۔۔۔ غلطی میری ہے۔۔۔ میں نے ثریا کو لکھا تھا ۲۵کو آرہا ہوں۔ مگر سیٹ ابھی کنفرم نہیں ہوئی ہے۔ مجھے فوراً دوسرا خط بھیجنا چاہیے تھا۔ ذرا سی غلطی کیا ہوئی کہ لوگوں نے اسے مارڈالا۔۔۔ پہلی میری موت کی تصدیق تو کرلیتے اور اس منیر کو دیکھو میرا مذاق اڑا رہاہے۔ گھر میں کیسا کہرام مچا ہوگا۔ اس نے لرزکر سوچا۔ ابا دل کے مریض ہیں۔ امی کو ہائی بلڈپریشر ہے۔ اور ثریا آج تو غم کے مارے پاگل ہوگئی ہوگی۔۔۔ ثریا کو حاصل کرنے کے لیے اس نے پانچ برس تک اس کے باپ کی خوشامدیں کی تھیں اور پھر اپنے نام کے ساتھ کلرکی کا داغ مٹانے کے لیے وہ گھر سے اتنی دور آگیا تھا۔ ماں باپ بیوی بچوں کو چھوڑ کر اکیلا اس صحرا میں ریت کے ذرے کی طرح تپ رہا تھا۔ دوزخ کی طرح بھڑکتی ہوئی لوہے کی بھٹی میں وہ دن بھر کام کرکے نکلتا تو چہرہ سرخ ہوجاتا تھا۔ ہاتھ پاؤں کانپتے تھے، رات دوسری دوزخ میں گزارنا پڑتی۔ عرب کی جان لیوا گرمی میں وہ ریت کے اوپر ٹینٹ کے نیچے ساری رات گزار دیتا تھا۔ اپنے خاندان کو سکھ کی چھاؤں میں بٹھانے کے لیے وہ سوتے جاگتے ان دنوں کے خواب دیکھتا جب ثریا سچ مچ اس کی بانہوں میں ہوگی۔ دونوں بچے اس کی گود میں ہوں گے۔ وہ اپنے گھر میں فوم کے گدے پر فین کے نیچے لیٹا ہوگا۔ اس کا گھر اس کی جنت تھا۔۔۔ چھٹیوں میں گھر جاتا تھا تو جی چاہتا سارا دن بستر پر لیٹا رہے۔ چھٹیاں ختم ہونے کے خیال سے جی گھبراتا تھا۔
’’ایک ہفتے کی چھٹی اور بڑھالوں گا‘‘، وہ خوش ہوکر ثریا سے کہتا تھا۔
’’کتنی تنخواہ کٹ جائے گی۔۔۔؟‘‘ ثریا گھبراکر پوچھتی۔۔۔
’’کٹنے دو۔۔۔ تمہیں چھوڑ کر جانے کو جی نہیں چاہتا‘‘، وہ ثریا کو اپنی طرف کھینچ لیتا۔
اب ثریا بیوہ ہوگئی ہے۔۔۔ میں اس کے لیے مرگیا ہوں۔
گھبراکر اس نے ثریا کے تصور کو دور ڈھکیلا۔۔۔
سامنے سعودی ایرلائن کا کلینڈر لگا تھا۔ جدہ ایئرپورٹ کی شاندار عمارت اندھیرے میں جگمگا رہی تھی۔ یہ روشنیاں جو آج ہر نوجوان کے خوابوں میں جھلملاتی ہیں۔ صادق نے بھی چھ برس تک دھکےکھائے تھے یہاں پہنچنے کے لیے۔ نوکری دلانے والے ایجنٹوں نے چکمے دیے، عزیز رشتہ داروں نے برسوں نوکری دلانے کے بہانے اپنے آگے جھکائے رکھا۔ ثریا نے دن رات غریبی کے طعنوں سے کلیجہ چھلنی کیا۔ اماں، ابا کو اس سے بڑھ کر کوئی ناخلف نظر نہیں آتا تھا۔
اس کے پڑوسی اکرم صاحب دوبئی گئے تو اچانک ان کے سارے گھر کا رنگ نکھر گیا۔ ٹوٹا پھوٹا کھپریل کا کمر جھکا گھر، سرسوں کے پودے کی طرح راتوں رات اوپر اٹھتا گیا۔ اکرم کے یہاں سے جب ٹیپ ریکارڈ پر مہدی حسن کے گانے کی آواز آتی تھی، تو صادق کو جانے کیوں غصہ آتا تھا۔ ان کے یہاں گرینڈر پربادام پیسے جاتے توامی کی کمزوری بڑھ جاتی۔ ثریا نے اکرم کی بیوی سے دوستی ختم کردی۔ سلکین کی ساریاں اور چمکتی ہوئی میکسیاں پہن کر جی کیوں جلاتی ہے وہ۔۔۔ مگر اب کیا ہوگا۔۔۔؟
کہیں ابا اس صدے سے مر نہ جائیں۔ وہ بھاگتا ہوا اپنے باس کے کمرے میں پہنچا۔ سر! مجھےایک ارجنٹ کال انڈیا کو بک کرنا ہے۔
کیوں خیریت تو ہے نا۔۔۔؟ صادق کا آنسوؤں سے بھیگا ہوا چہرہ دیکھ کر اس کا امریکن باس گھبراگیا کہ کہیں ماں کے مرنے کی جھوٹی خبر سناکر ایک مہینے کی چھٹی نہ مانگ بیٹھے۔ وہ ان ہندوستانی کام چور چھوکروں کی رگ رگ سے واقف تھا۔
’’کیا بتاؤں سر عجیب بات ہوگئی ہے‘‘، صادق نے ہکلاتے ہوئے کہا، ’’وہ جو پلین کا حادثہ ہوا ہے نا۔ میں اسی پلین سے انڈیا جانے والا تھا۔ میرے مرنے کی اطلاع میرے گھر پہنچ گئی ہے۔۔۔‘‘ بات ختم کرکے وہ رو پڑا۔ جیسے اپنی موت کا دکھ اس کے لیے ناقابل برداشت ہو۔
’’ہاہاہا۔۔۔ FANTASTIC‘‘ بوڑھا امریکن ہنسنے لگا۔
’’تم کیوں گھبرا رہے ہو۔۔۔ ابھی فون مت کرو۔ ذرا اپنے مرنے کا تماشہ دیکھو۔۔۔‘‘ اس کے باس نے فون اٹھاکر اپنے پاس رکھا اور جھک کر فائلیں الٹ پلٹ کرنے لگا۔
اپنے مرنے کا تماشہ دیکھوں، ہونہہ یہ بے مروت سفید چمڑی والا امریکن کیا جانے کہ اس وقت میرے گھر میں کیسی قیامت مچی ہوگی۔ یہ سالے تو اپنے بوڑھے ماں باپ کو کسی آرام گھر پہنچا دیتے ہیں۔ اب تک جانے کتنی بیویوں کو طلاق دے چکاہوگا۔ جانے اس کے کتنے بچے یتیم خانوں میں پل رہے ہوں گے۔
’’سر مجھے ڈر لگ رہا ہے‘‘، وہ بے بسی سے ہاتھ ملتے ہوئے آہستہ سے بولا۔
’’میری بیوی کہیں اس صدمے سے جان نہ دے دے۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ اتنی سی بات پر۔۔۔؟‘‘ بوڑھے امریکن نے عینک ماتھے پر سرکاکر اسے غور سے دیکھا۔۔۔ ’’تو کیا انڈیا میں مسلم عورت کو بھی ستی کردیا جاتا ہے‘‘، اس نے آنکھیں پھاڑ کر پوچھا۔
ابے چپ سالے، صادق نے دل ہی دل میں اسے گالی دی۔ انڈیا میں کسی بھی عورت کو ستی کرنے کے لیے مجبور تھوڑی ہی کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کی ہر عورت شوہر کے مرنے کے بعد خود ہی موت کو ترجیح دیتی ہے۔۔۔ میرے بغیر ثریا کے لیے اب دنیا میں کیا رہ جائےگا؟ وہ کتنی محبت بھرے خط لکھتی ہے۔۔۔ صادق کے سامنےبال بکھرائے، سفید کپڑے پہنے، سونی کلائیاں لیے ثریا آگئی، جورو رو کر دیواروں پر اپنا سر پٹک رہی تھی اور سارے رشتے دار اسے تھامے بیٹھے تھے۔۔۔ اسے تھامے رہو، میرے آنے تک کہیں وہ اپنے کپڑوں میں آگ لگاکر نہ مرجائے۔ اپنی موت کے صدمے سے خود ہی اس کا کلیجہ دہل رہا تھا۔ اب تک ثریا اپنی ہری، لال پیلی، نیلی ساریاں زیورمیک اپ کا سامان جلاچکی ہوگی۔ ابا کو کسی طرح ہوش نہیں آرہا ہوگا۔
صادق گھبراکر پھر بھاگا، ٹیلی فون بوتھ پر، مگر انڈیا کی لائن نہیں ملی، اپنے مرنے کا تماشہ دیکھو، بار بار امریکن باس کی بات اسے یاد آرہی تھی۔
فون کون اٹھائے گا۔۔۔؟ ثریا۔۔۔؟ مگر وہ تو غم کی شدت سے بے ہوش ہوگی۔۔۔ امی۔۔۔؟ انہیں تو اب تک کسی کلینک میں شریک کردیا گیا ہوگا۔۔۔ ابا۔۔۔؟ بھلا اپنے اکلوتے بیٹے کے مرنے کی خبر سننے کے بعد کیا ابا اب تک زندہ ہوں گے۔
چھ سال پہلے جب وہ گھر سے پہلی بار چلا تھا، تو اس کے گھر کی چھتیں امی کی آنکھوں کی طرح ٹپک رہی تھیں۔ دیواریں ثریا کی پھٹی ساریوں کی طرح میل اور بدصورت تھیں۔ ٹرین میں سوار ہونے سے پہلے وہ بار بار اپنے دوست عمران کا ہاتھ پکڑ کر کہہ رہا تھا۔۔۔ ’’گھر کا خیال رکھنا، ابا کے پاس آتے جاتے رہنا۔۔۔‘‘
سچ مچ عمران نے اس گھر کو سنبھال لیا۔ ابا ہر خط میں لکھتے۔۔۔ عمران بالکل تمہاری طرح ہم سب کا خیال رکھتا ہے۔ بجلی کا بل، گھر کا ٹیکس، بچوں کی فیس، ثریا کی نازبرداری ہر ذمے داری اس نے اپنے سر لے لی تھی یہاں تک کہ اماں اور ثریا کے درمیان پیسہ خرچ کرنے پر جو آئے دن کھٹ پٹ ہوتی تھی وہ جھگڑے بھی عمران کو ہی طے کرنا پڑتے۔
دو برس بعد ایئرپورٹ کے لاؤنج میں سب سے پہلے اسے عمران نظر آیا، جو اس کے نئے بچے کو گود میں سنبھالے ہوئے تھا۔
دوبرس تک صحرا کی خاک چھاننے کے بعد گھر کے نرم گدے پر لیٹنے کے بعد یوں لگاجیسے کسی اور کے گھر آگیا ہو۔ یہی تو گھر اس کے خوابوں میں بسا ہوا تھا۔ یہی سکھ تو زندگی کی آدرش تھا۔ جی چاہتا صبح بستر سے نہ اٹھے، کوئی اس کے سامنے دوبئی جانے کا نام مت لو۔
بس اب کی بار وہ اوور ٹائم کماکر خوب پیسے لے کر لوٹونگا۔ پھر کہیں نہیں جاؤں گا گھر چھوڑ کر۔۔۔ مگر اوورٹائم کے نام سے ہی پسینہ آجاتا تھا۔ دن بھر ماتھے سے پسینہ پونچھے بغیر کام کرنے کے بعد، تھوڑی دیر آرام کیے بغیر پھر کام میں جٹ جاؤ۔ رات کو بارہ بجے لیٹو تو کمر ٹیڑھی ہوجاتی، ہاتھ پیر کانپنے لگتے ہیں مگر صبح ۵ بجے اٹھنے کاخوف سونےبھی نہ دیتا تھا۔
لو۔۔۔ آخر دوبئی جانے کا منحوس دن آگیا۔۔۔
اماں۔۔۔ امام ضامن باندھ کر کہتیں۔۔۔ خیریت کے ساتھ پہنچو۔
’’اب کی بار میرے لیے سونے کی چوڑیاں لانا۔۔۔‘‘ ثریا گلےمیں بانہیں ڈال کر کہتی۔۔۔
’’میرے لیے بادام۔۔۔ میرے لیے گڑیا۔۔۔ کپڑ۔۔۔ ٹیپ ریکارڈر۔۔۔‘‘
بہت دنوں تک اس کا کام میں جی نہیں لگتا تھا۔ ثریا کتنی صحت مند ہوگئی ہے، بچے بڑے ہو رہے ہیں۔ابا کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ ثریا اسے خوابوں میں ملے۔۔۔ بچوں کے فوٹو کو پیار کرکےجی بہلائے اور اس کے گھر میں ہر طرف عمران دوڑتا پھرے۔
اس نے پھر فون کرنے کی کوشش کی۔
وہ جب بھی گھر جاتا تھا اتنے دنوں کی جدائی پر ثریا اسے خوب جلاتی، ترساتی تھی، وہ جھوٹ موٹ کی غصہ میں ہاتھ جھٹک دیتی تھی۔
اری دیکھو تو میری جان، تیرے لیے کیا لایا ہوں۔
وہ جیب میں سے سرخ کاغذ میں لپٹی ہوئی سنہری چوڑیاں نکالتا۔
اللہ۔۔۔ یہ تو سونے کی ہیں۔۔۔ وہ خوشی کے مارے اچھل پڑتی اور چوڑیاں اس کے ہاتھ سے چھین کر باہر کی طرف بھاگتی۔
عمران۔۔۔ عمران۔۔۔ ذرا دیکھو تو صادق میرے لیے کیا لائے ہیں۔ وہ چوڑیاں پہن کر اپنے گورے ہاتھ عمران کی طرف بڑھادیتی تھی۔
صادق نہال ہوجاتا تھا۔۔۔ اس خوشی کی خاطر اوور ٹائم کی ساری تھکن اترجاتی تھی۔
ادھر اماں، ابا کو تو جیسے جینےکا ہوکا سا ہوگیا تھا۔ اپنی صحت بنانے کی فکر میں گھلے جاتے تھے۔ ہر خط میں زیادہ پیسے بھیجنے کی فرمائش ہوتی۔ میوہ، مٹھائیاں، دودھ، بادام۔۔۔ سارا دن دونوں سوچتے رہتے کہ اب کیا کھائیں۔۔۔ کچھ نہ مانگتا تو عمران۔۔۔ اتنی خدمت کرنے پر بھی سرجھکائے شرمندہ سا کونوں میں چھپتا پھرتا۔
آج بھی وہی سب کو سنبھالے بیٹھا ہوگا۔
اس کے رونے کی آواز سن کر ٹینٹ میں سونے والے لوگ جاگ پڑے، ’’کیا ہوا۔۔۔؟ کیوں رو رہے ہو صادق بھائی؟‘‘
’’میں مرگیا ہوں۔۔۔‘‘ وہ چلانے لگا۔
’’یار، اس آدمی کا دماغ کچھ سرک گیاہے آج۔۔۔‘‘ وہ سب پھر سونے لگے۔
اب کی بار اس نے فون ملایا تو اپنے گھر میں گونجتی ہوئی بیل کی آواز سنائی دی۔
’’ہیلو۔۔۔ آپ کون صاحب بات کر رہے ہیں؟‘‘ ثریا کی آواز سن کر وہ اچھل پڑا۔۔۔ (اپنے مرنےکا تماشہ دیکھو) بوڑھا امریکن اس سے کہہ رہا تھا۔۔۔
’’میں۔۔۔میں صادق۔۔۔ صادق کا دوست منیر بات کر رہا ہوں۔‘‘
’’اچھا منیر بھائی ہیں۔۔۔ میں خود آپ کو فون کرنے والی تھی۔‘‘ (ثریا کتنی پرسکون معلوم ہو رہی تھی۔۔۔ نہیں یہ جھوٹ ہے اس کے مرنے کی اطلاع گھر نہیں پہنچی ہے)
’’منیر بھائی ذرا یہ معلوم کیجیے کہ صادق کے پرویڈنٹ فنڈ کا کتنا روپیہ ہے۔ یہ سب روپیہ مجھے ملنا چاہیے۔‘‘
’’بہت بہتر۔۔۔ اور کچھ۔۔۔؟‘‘ گالوں سے بہتے ہوئے نمکین آنسوؤں نے اس کا منہ کڑوا کردیا۔
’’جی اور کچھ نہیں کہنا ہے۔ بات یہ ہے کہ میری ساس اور خسر مجھ سے بہت لڑائی جھگڑے کر رہے ہیں اور روپے کے لیے میں بیچاری بیوہ۔۔۔‘‘
’’بند کرو بکواس۔۔۔‘‘ اس نے غصہ میں فون پٹک دیا۔ خود غرض، مکار عورت مجھ سے محبت کا ناٹک کھیلتی رہی۔ میرے ماں باپ کو بدنام کر رہی ہے۔ کیا میری لاش کے سامنے بیٹھ کر امی ابا میرے روپے کا یاد کرسکتے ہیں۔ اس عورت کو اب طلاق دیناہوگی۔۔۔ ابھی ابا سے بات کرتا ہوں۔۔۔ غصہ کے مارے اس کی سانس پھول رہی تھی۔ ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔
ہیلو۔۔۔ (کہیں ابا میری آواز سن کر خوشی کے مارے مر نہ جائیں۔)
’’جی۔۔۔ میں خالق بات کر رہا ہوں۔ صادق کا دوست۔‘‘
’’جیتے رہو بیٹا۔۔۔ (ابا کی بےحد کمزور نحیف آواز آرہی تھی۔) ہم پر تو مصیبت کاپہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔ ہماری بہو صادق کا تمام روپیہ خود لینا چاہتی ہے۔ اب تم ہی بتاؤ کہ ہم دونوں کا کھانا پینا۔۔۔‘‘
’’جی۔۔۔جی۔۔۔‘‘ صادق کی آنکھوں سے پھر آنسوؤں کی دھار بہنےلگی۔
’’خالق میاں، کچھ تمہیں اندازہ ہوگا صادق کا کتنا روپیہ بینک میں۔۔۔‘‘
’’روپیہ۔۔۔؟‘‘ اس نے اپنے ہونٹ دانتوں سے کاٹ دیے۔
’’میرے سامنے تو صادق کی لاش پڑی ہے۔ یہ بتائیے اس کا کیا کروں؟‘‘ (اگر ابا سامنے ہوتے تو یہ بات ان کی گردن پکڑ کر پوچھتا۔)
’’اسے تم دفن کردو بیٹا۔۔۔‘‘ ابا نے بڑی محبت اور شفقت کے ساتھ کہا۔
مأخذ : یقیں کے آگے گماں کے پیچھے
مصنف:نیاز فتح پوری