وہ چست قمیض پہنتی تھی اور اپنے آپ کو قدامت پسند بتاتی تھی۔ کرکٹ کھیلتے کھیلتے اذان کی آواز کان میں پہنچ جاتی تو دوڑتے دوڑتے رک جاتی، سرپہ آنچل ڈال لیتی اور اس وقت تک باؤلنگ نہیں کرتی جب تک اذان ختم نہ ہوجاتی۔
یہ اس لڑکی کا ذکر ہے جو مہاتما بدھ کی پیرو تھی اور تیسوں روزے رکھتی تھی۔ پکچر کا پروگرام ہو یا کرکٹ کا میچ، روزہ اس کا کبھی قضا نہیں ہوا۔ گولے کی آواز پر وہ پرس سے الائچی نکالتی، روزہ افطارتی اور پھر مصروف ہوجاتی اور انٹر کالجیٹ تقرری مقابلے میں ایک مرتبہ وہ صرف اس وجہ سے ہار گئی تھی کہ جب اس کی باری آئی تو مغرب کی نماز کا وقت ہوچکا تھا۔ اور وہ نماز قضا نہیں کرسکتی تھی۔
مگر وہ فرقہ پرست نہیں تھی۔ وہ مہاتما بدھ کی پیروتھی اور انسان دوستی اس کا مسلک تھا، یہ الگ بات ہے کہ اس نے محسن کو جو سوئٹر اپنے ہاتھ سے بن کر دیا تھا اس کا مطلب محسن نے انسان دوستی کے سوا کچھ جانا۔ یہ سوئٹر پہن کر اس نے جذبے کی گرمی محسوس کی اور ایک قدم آگے بڑھادیا۔ مگر اسے فوراً ہی پیچھے ہٹنا پڑا۔ محسن نے معذرت کی اور ساجدہ نیاز نے جواب دیا، ’’میں مہاتما بدھ کی پیروہوں اور معاف کردیا کرتی ہوں۔‘‘
اس جواب سے محسن کو بہت ڈھارس ہوئی۔ وہ خود بھی تو تلوارسے اسلام پھیلانے کا قائل نہیں تھا۔ اس نے امن و آشتی کی فضا میں اپنے جذبے کی خاموش تبلیغ کا تصور کیا اور مطمئن ہوگیا۔ جذبے کی خاموش پر امن تبلیغ سے اس نے چند دنوں میں زمین ہموار پایا اور تجویز پیش کی کہ ’’چلو پکچر دیکھیں۔‘‘
اس نے اسے غور سے دیکھا اور سنجیدگی سے بولی، ’’دیکھیے میں بہت قدامت پسند ہوں۔‘‘
محسن کو ایک دفعہ پھر معذرت کرنی پڑی اور چونکہ وہ مہاتما بدھ کی پیرو تھی، اس نے اسے معاف کردیا۔
چند دنوں میں اس نے کھویا ہوا اعتماد پھر پالیا اور ایک روز جب وہ ملے تو موسم بہت خوشگوار تھا۔ اس نے موسم کو اشارہ غیبی جانا اور تجویز پیش کی کہ ’’دریا پر چلیں۔‘‘
وہ پھر سنجیدہ ہوگئی، اور بولی، ’’دیکھیے میں بہت قدامت پسند ہوں اور مردوں کے ساتھ بوٹنگ نہیں کیا کرتی۔‘‘
محسن نے جب یہ مقدمہ اشرف کے سامنے پیش کیا تو وہ بہت ہنسا۔ ’’لڑکی اور قدامت پسند۔‘‘
’’ہاں ہار، وہ بہت قدامت پسند ہے۔‘‘
اشرف ہنستے ہنستے رکا اور سنجیدگی سے کہا، ’’احمق، لڑکی کبھی قدامت پسند نہیں ہوتی۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ ہے کہ لڑکی تاریخ میں کبھی قدامت پسند نہیں ہوئی۔ قدامت پسند صرف دوچیزیں ہوتی ہیں، بوڑھی عورت اور نوخیز لڑکا۔ تیسری کوئی مخلوق قدامت پسند نہیں ہوتی۔‘‘
محسن نے اشرف کے نقطۂ نظر سے اتفاق نہیں کیا۔ اشرف کا ان معاملات میں نقطۂ نظر اتنا مختلف تھا کہ محسن کو اس سے کبھی اتفاق نہ ہوسکا۔ اشرف رومانٹک ہونے کے سخت خلاف تھا۔ یہاں تک کہ جب عطیہ نے نیند کی گولیاں کھاکر خودکشی کا تہیہ کیا اس وقت بھی وہ رومانٹک نہیں ہوا۔ اور عطیہ نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا، ’’میں نے تو نیند کی گولیاں کھائیں اور بچ گئی مگر تم ایک دن شاہی مسجد کے مینار سے کود کر خودکشی کروگے۔‘‘
اشرف نے نہایت سادگی سے جواب دیا، ’’نہیں ، میں شاہی مسجد کے مینار پر چڑھا ہوں، خود کشی کے لیے وہ نہایت نامناسب مقام ہے۔‘‘
مگر ایسا بھی نہیں کہ اشرف کو خودکشی کا خیال کبھی آیا ہی نہ ہو۔ عطیہ کی خاطر وہ خودکشی کرنے کے لیے سچ مچ تیار ہوگیا تھا۔ کئی دن وہ اس خیال سے باؤلا بنا پھرتا رہا۔ مگر وہ بے سوچے سمجھے قدم اٹھانے کا قائل نہیں تھا۔ اس نے متانت سے اپنے اس جذبے پر غور کیا اور پھر اس کا ذکر سید حسن سے کیا۔ سید حسن نہایت ثقہ اور سمجھدار آدمی تھے اور آزادی اظہار کے سخت حامی۔ انہیں یہ بات معلوم تھی کہ خودکشی بھی اظہار ذات کی ایک صورت ہے۔ پس انھوں نے اس میں براہ راست مخل ہونا اپنے اصول کے خلاف جانا، البتہ اتنا کہا، ’’ڈاکٹر اصغر سے مشورہ کیا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کرلو۔‘‘
یہ بات اشرف کے دل کو بہت لگی۔ وہ فوراً ڈاکٹر اصغر کے پاس گیا۔ جب وہ وہاں سے واپس آیا اس کا ارادہ بدل چکا تھا۔ ’’بات یہ ہے،‘‘ اس نے نہایت متانت سے کہا۔ ’’میں نے اپنی الجھن کو سمجھ لیا ہے۔ میں اصل میں اڈیپس کمپلیکس کا شکار ہوں۔ میری والدہ مرحومہ کا رنگ سانولاتھا اور عطیہ کی رنگت بھی سانولی ہے۔‘‘
یوں اس کے بعد بھی اشرف سانولی لڑکیوں کے پیچھے دیوانہ ہوتا رہا۔ مگر اس نفسیاتی بصیرت کے ساتھ کہ وہ اڈیپس کمپلیکس کا شکار ہے اور اس لیے خودکشی کے خیال نے اسے پھر کبھی نہیں گھیرا۔
سید حسن کسی کمپلیکس کا شکار نہیں تھے۔ ان میں ثقاہت اور دانشوری اس درجہ فراواں تھی کہ وہ کسی کمپلیکس میں مبتلا ہو ہی نہیں سکتے تھے۔ البتہ وہ لندن کے نوسٹالجیا میں مبتلاتھے۔ شام کو وہ روز برٹش کونسل محض اس وجہ سے جاتے تھے کہ وہ گوشہ انہیں لندن کا گوشہ لگتا تھا۔ لاہور سے بیزار تھے کہتے تھے کہ ’’یہاں آکر دنیا سے کٹ گیا ہوں۔ لندن کے اخبار یہاں ہفتہ بھر بعد پہنچتے ہیں۔‘‘
جب وہ لیڈرز پروگرام میں امریکہ گئے تھے تو وہاں سے صرف ایک ریفریجریٹر اور ایک بدھ کی مورتی لائے تھے۔ کار انہوں نے بہت بعد میں خریدی تھی اور پھر کار ہونےکے باوجود وہ ہفتے میں ایک دن بس میں سفر لازماً کرتے تھے تاکہ عوام سے ان کا رابطہ قائم رہے اور وہ طبقاتی علیحدگی پسندی کا شکار نہ ہوجائیں۔ وہ کھدر کا کرتا پہنتے تھے اور شہر کے فائیو اسٹار ہوٹل میں بیٹھتے تھے اور اپنے انگریزی پھولوں کی کیاری میں انہوں نےموتیا کی قلم بھی لگائی تھی تاکہ دیسی کلچر فراموش نہ ہوجائے۔ صادقہ زین العابدین نے ان پھولوں کے بارے میں یہ سوال اٹھایا کہ ان میں مہک تو ہے ہی نہیں۔ مگر جب سید حسن نےاسے یہ سمجھایا کہ ’’خوشبو اور مہک کا مطالبہ خام جمالیاتی مذاق کا مطالبہ ہے‘‘ تو وہ اپنے اعتراض پر خود ہی شرمندہ ہوگئی۔ پھر اس نے خوشبودار دیسی پھولوں کو بھول کر سیدحسن کے انگریزی پھولوں کو اس طرح پسند کرنا شروع کیا۔ جیسے نئے نئے تہذیب یافتہ ہلکے پھلکے گانوں سے ترک تعلق کرکے کلاسیکی موسیقی سے عشق کرتے تھے۔
صادقہ زین العابدین نے آدرے ہیبرن کی طرز پر اپنی زلفیں ترشوائی تھیں۔ عاشورہ کے دن وہ ان زلفوں میں کنگھی نہیں کرتی تھی اور کالا لباس پہنتی تھی۔ کالے لباس پر دوستوں نے انگلیاں اٹھائیں تو سید حسن رقیق القلب ہوگئے اور بولے ’’محرم میں کالی قمیض پہننا مذہب نہیں کلچر ہے۔‘‘
اس پر سب چپ ہوگئے کیونکہ کلچر کے تو سب ہی قائل تھے۔ اور جب سید حسن نے اپنے گھر مجلس منعقد کی تو اس میں سب شریک ہوئے۔ صادقہ زین العابدین نے اس روز نہ بالوں میں تیل ڈالا تھا نہ کنگھی کی تھی اور ملگجی سیاہ قمیض کے پہلو والےٹچ بٹن سب کھلے ہوئے تھے۔ سید حسن کا دل اس دن یوں بھی گداز ہوجاتا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ اور بھی بے چین رہے۔ اور اس نے سید حسن کے گھر پہنچ کر مہاتما بدھ کی مورتی پر اپنا رومال ڈال دیا اور دیوار میں آویزاں نیو ڈکوالٹا کردیا۔ پھر اس نے نجم الحسن کی بنائی ہوئی تجریدی تصویر ذوالجناح کو کارنس پر سجایا اور بڑی عقیدت کے ساتھ اگر بتیاں سلگائیں۔ سید حسن نے اپنی انگریزی پھولوں کی کیاری سےپھول لاکر ہار گوندھا اور نجم الحسن کی پینٹنگ پر ڈال دیا۔ پھر صادقہ زین العابدین کا بازو بن کر سوز پڑھا۔ سید حسن سوز پڑھ کر روئے اور بولے کہ ’’ذوالجناح اور علم صلیب سے بڑے سمبل ہیں۔ پتا نہیں ہمارے پینٹران سےکیوں متاثر نہیں ہوئے؟‘‘ اشرف نے کہ پچھلے ایک سال سے مستقل مسلمانوں کا متھ کا متلاشی تھا، یہ سنا اور متاثر ہوا اور قمیض اتار کر ماتم کیا۔ اس نے اعلان کیا تھا کہ اگلے برس وہ بھی کافی قمیض پہنے گا۔ مگر چونکہ چند ہی ماہ بعد مارکیٹ میں ایک نئی کتاب آگئی اور اشرف کو یونگ سے چند در چند اختلافات ہوگئے اس لیے یہ ارادہ پورا نہ ہوسکا۔ مگر محسن کے طریقے میں ایک اعتدال تھا۔ خدا کے وجود سےانکار تو اس نے میٹرک میں فرسٹ ڈویژن لیتے ہی کردیا تھا اور اب توخیروہ ایم۔اے تھا۔ مگر اسلام کا وہ ایک سوشل موومنٹ کے طور پر ہمیشہ قائل رہا۔ سماجی اصلاحات کے اس پروگرام کو سماج دشمنوں سے بچانے کے لیے امام حسین نے جو قربانی دی اسے وہ مانتا تھا۔ البتہ محرم میں وہ ریفارم کا طالب تھا۔ تاہم سید حسن کے گھر کی مجلس میں بیٹھنے اور رولینے میں اسے مضائقہ نظر نہیں آیا۔
ساجدہ نیاز کو محسن کے گریہ پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ اس نے بے تعلقی کے انداز میں کہا، ’’کوئی رافضی ہو یا مرزائی، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ میں تو مہاتما بدھ کی پیرو ہوں۔‘‘ یہ سنجیدہ قسم کی بے تعلقی اس کا مخصوص وصف تھی اور نازک سے نازک موقعے پر برقرار رہتی تھی۔ جب اس نے لیڈی چیٹر لیز لور، کا سالم ایڈیشن ختم کیا اور کرداروں کے رویے پر محسن سے تبادلہ خیال شروع کیا تو محسن کو ایک مرتبہ پھر زمین ہموار نظر آئی اور اس نے بحث کی گرماگرمی میں اس کا ہاتھ تھام لیا۔ ساجدہ نیاز بولتے بولتے رکی مکمل بے تعلقی سے اپنے ہاتھ کو محسن کے ہاتھوں میں دیکھا اور سنجیدگی سے بولی، ’’آپ کو یہ معلوم ہے کہ میں ایک قدامت پسند لڑکی ہوں؟‘‘ اس فقرے پر محسن کے ہاتھوں کی گرفت آپ ہی آپ ڈھیلی پرگئی اور ساجدہ نیاز نے نہایت متانت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔
ساجدہ نیاز محسن ہی کو نہیں اپنی بہن زاہدہ کو بھی غیر سنجیدہ جانتی تھی اور زاہدہ واقعی غیرسنجیدہ تھی۔ اس کے کمرے میں بغیر دستک دیے گھس آتی اور اگر وہ سوتی ہوتی تو لحاف اٹھاکر الگ پھینک دیتی۔ اس ہڑدنگے پن میں تو وہ اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ گئی تھی۔ گھر کے کمروں سے لے کر عقب کے باغیچے تک قلانچیں لگاتی پھرتی تھی۔ جب افو گرمیوں کی چھٹیاں خالہ کے گھر گزارنے آیا تو ساجدہ نیاز نے تو اسے مطلق منہ نہ لگایا۔ منہ کیا لگاتی، فرسٹ ایئر کا تو وہ طالب علم تھا۔ مگر زاہدہ ایک دن کے اندر اندر اس سے گھل مل گئی۔ خیر پہلادن تو کچی امیاں توڑنے ہی میں گزرگیا۔ اور دونوں اس میں ایسے غرق ہوئے کہ انہیں ایک دوسرے کے وجود کا احساس تک نہیں ہوا۔ دوسرے دن جب انہیں ایک دوسرے کے وجود کا احساس ہوا تو وہ بھی عجب طرح سے۔ نہ انہوں نے رومانٹک باتیں کی تھیں، نہ ایک دوسرے کاہاتھ تھاما تھا، نہ آئیڈیلزم بگھاری تھی۔ ہوا یوں کہ جب وہ امیاں توڑ کر درخت سے زاہدہ کا سہارا لے کر اتر رہا تھا تو اس کا سانس تیز اور گرم ہوگیا۔ اور گرمی اس وقت بہت تھی۔ اتنی تپتی دوپہری میں درختوں کے درمیان گھومتے گھومتے ان کے جسم پھنکنے لگے تھے۔ زاہدہ کے گورے گال گرم ہوکر سرخ ہوگئے تھے اور قمیض پسینے میں بھیگ کر بے بنیائن والی بھری پشت پر چپکنے لگی تھی اور اس کے شانوں کے سہارے درخت سے نیچے اترتے اترتے افو کا سانس تیز ہوگیا اور بانہیں اس کی بھیگی کمر کے گرد لپٹتی چلی گئیں اور جیسے گرم دوپہروں میں دانہ چگتے چگتے ایکا ایکی مرغا پھولنے لگتا ہے اور مرغی بیٹھنے لگتی ہے اور پھر دونوں گتھم گتھا ہوجاتے ہیں بس اسی طرح کھڑی دوپہر میں ایک اندھیرے نے انہیں آناً فاناً آلیا۔
جب اندھیرا چھنٹ گیا تو انہوں نے اپنے آپ کو بہت ہلکا اور بہت پاکیزہ محسوس کیا۔ بس انہیں یوں لگا کہ کچی امیاں کھاتے کھاتے انہوں نے کوئی میٹھا رس بھرا آم چوس لیا ہے۔
مگر ساجدہ نیاز کو آم اور امیوں سے نفور تھا۔ ریفریجریٹر میں لگے ہوئے سروے کو نکال کر چینی کی سفید پلیٹ میں وہ بڑے سلیقے سے اس کی دو پھانکیں تراشتی، پھانکوں کو قتلہ قتلہ کرتی اور ایک متانت آمیز بے تعلقی کے ساتھ انہیں کانٹے سے تناول کرتی۔ مذہبی عقیدے سے لے کر سردے کی قاش تک اس نے یہ متانت آمیز بے تعلقی برقرار رکھی تھی۔ مگر محسن اور اس کے درمیان پھر بھی لڑائی ہوکر رہی۔ ہوا یوں کہ ایلوس پریسلے کا مسئلہ درمیان میں آگیا۔ محسن اسے ولگر کہتا تھا۔ بات بڑھ گئی اور ساجدہ نیاز نے اعلان کیا کہ ’’میرے اور آپ کے درمیان نظریاتی اختلاف پیدا ہوچکا ہے۔‘‘
محسن نے جب یہ تشویشناک اطلاع اشرف کو دی تو اس نے اسے جھڑک دیا، ’’فضول باتیں مت کرو۔ عورت اور مرد کے درمیان نظریات کا اختلاف کبھی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘
’’مگر وہ ہوگیا ہے۔‘‘
’’ہوگیا ہے تو یا تم مرد نہیں ہو یا وہ عورت نہیں ہے۔‘‘
اشرف کا نظریہ یہ تھا کہ نظریات آدمی کی حماقت ہیں۔ عورت کے نظریات نہیں ہوتے، احساسات ہوتے ہیں۔ مگر ساجدہ نیاز کو یہ احساس تھا کہ وہ نظریات رکھتی ہے۔ اس کے اسی احساس نے محسن کے لیے جدائی کی اذیت کا سامان کیا۔ محرومی کے عالم میں محسن نے کیا کچھ نہیں سوچا کہ وہ خودکشی کرلے، کہ وہ کپڑے پھاڑ کر جنگل میں نکل جائے اور سادھو بن جائے۔
سید حسن نے ان میں سے کسی تجویز پر صاد نہیں کیا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ سب اظہار ذات کے روایتی سانچے ہیں۔ ’’اور عشق‘‘ انہوں نے اپنے دانشوارنہ لہجے میں کہا۔ ’’کوئی تخریبی طاقت نہیں ہے۔‘‘
’’اور جو عاشق صحراؤں میں نہیں گئے وہ تیشے سے سر پھاڑ کے مرگئے۔ ان کے متعلق کیا ارشاد ہے۔‘‘ محسن نے جل کر سوال کیا۔
’’وہ عشق نہیں تھا، مریضانہ داخلیت پسندی تھی۔‘‘ سید حسن نے وثوق سے کہا۔
محسن کہ عقلیت پسند تھا۔ اس استدلال سےقائل ہوگیا۔ اس نے جینے کا حوصلہ پیدا کیا اور ساجدہ نیاز کو ٹیلیفون کرڈالا۔ ساجدہ نیاز اس دن روزے سے تھی۔ سحری کھانے کےفوراً بعد وہ ستار لے کر بیٹھ گئی تھی۔ جب اذان ہوئی تو اس نے وضو کرکے فریضۂ سحری ادا کیا۔ پھر تلاوت کرنے بیٹھ گئی۔ صبح ہوئے پہ اس نےقرآن جزدان میں بند کیا، ریڈیو آن کیا اور جالندھر سے بھجن سننے لگی۔ اتنے میں محسن کا ٹیلیفون آگیا۔ اس نےنہایت بے تعلقی سے محسن کی بات سنی اور پھر بڑی شائستگی سے جواب دیا، ’’محسن صاحب، معاف کیجیے، میرے اور آپ کے درمیان نظریات کا فرق ہے۔ میں اپنے آپ کو آپ سے بہت دور محسوس کرتی ہوں، اس لیے آنے سے معذور ہوں گی۔ شکریہ۔‘‘ اور وہ ٹیلیفون بند کرکے جب برآمدےمیں آئی تو سامنے باغیجے میں زاہدہ دوپٹے سے بے نیاز، شلوار کے پائنچے چڑھائے امرود کے پیڑ پر چڑھ رہی تھی۔ افو نے اس کی دونوں ٹانگیں پکڑی ہوئی تھیں اور اسے اوپر سہارا دے رہا تھا۔ زاہدہ نے ایک کچا امرود توڑ کر آدھا کھایا اور آدھا پلٹ کر افو کے سر پہ کھینچ مارا۔ افو نے کچکچاکر اس کی ننگی پنڈلی میں کاٹ لیا۔ روزہ دار ساجدہ نیاز کو اس بیہودگی پر سخت غصہ آیا۔ وہ واپس اپنے کمرے میں چلی گئی۔ کچھ دیر بے اطمینان سی بیٹھی رہی، سمجھ میں نہ آیا کہ روزے کا لمبا دن کیسے کاٹا جائے۔ آخر اس نے پھر ستار اٹھایا اور روزے کے وقت تک مشق جاری رکھنے کی ٹھانی۔
محسن نے جینے کاحوصلہ اس ٹیلی فون کے بعد بھی نہیں ہارا۔ اس نے اب اپنے عشق کو ایک تربیتی کورس تصور کرلیا تھا اور اپنے ہجر کو ایک تخلیقی تجربہ سمجھ کر مطمئن تھا۔ مگر بار بار اس پہ دورہ سا پڑتا۔ ساجدہ اسے بے طرح یاد آتی اور پھر اسے یوں لگتا کہ اس کا عشق تعمیری طاقت بننے کی بجائےمائل بہ تخریب ہے اور وہ بیمار قسم کی داخلیت پسندی کا شکار ہو رہا ہے۔
اشرف نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالا اور سیدھا سوال کیا۔
’’تم نے اسے۔۔۔‘‘
مگر محسن اس سوال پر اتنا سٹپٹایا کہ اشرف کا فقرہ پورا نہیں ہونے دیا اور جواب دیا، ’’نہیں۔ نہیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’بس نہیں۔‘‘
’’احمق،‘‘ اشرف نے تحقیر آمیز لہجے میں کہا۔ ’’وہ مہاتما بدھ کی پیرو ہے، معاف کردیتی۔۔۔ مہاتما بدھ کے پیرو ہونے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔‘‘
محسن نے دکھ بھری نظروں سے اسے دیکھا اور چپ رہا۔ پھر وہ سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر اس نے ٹھنڈا سانس بھرا اور بولا، ’’خیر اب تو وہ گئی۔‘‘
’’گئی؟ کون گئی؟ تو نرا گاؤدی ہے۔ دو چیزیں آکر نہیں جایا کرتیں۔ بڑھاپا اور عورت۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ ہے کہ پھر آئے گی۔‘‘
’’میں صحیح کہتا ہوں۔‘‘ اشرف نے پھر کہا، ’’تاریخ اور عورت، یہ دو طاقتیں ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہیں۔ جو عورت آگئی ہے وہ نہیں جائے گی۔ مگر آنے والی ایک مرتبہ ضرور جاتی ہے۔ اور سوچنےکی مہلت دیتی ہے اور جانے والی ایک مرتبہ ادبداکر پلٹتی ہے، طے بات ہے کہ وہ پھر آئے گی۔‘‘
اور اس کے بعد اشرف روز ملنے پر اس سے پہلا سوال یہ کرتا، ’’آئی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’انتظار کرو، آئے گی۔‘‘
اور ایک روز محسن نے اطلاع دی مگر مری ہوئی آواز میں، ’’یار وہ آئی تھی۔‘‘
’’دیکھا، میں نہ کہتا تھا۔ مان لو اب ہمیں استاد۔‘‘
مگرمحسن نےاشرف کے اس افتخار کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ رک کر بولا، ’’یہ سوئٹر جو میں پہنے ہوئے ہوں، یہ مجھے ساجدہ نے پریذینٹ دیا تھا۔‘‘
’’پھر؟‘‘ اشرف نے بھونچکا ہوکر پوچھا۔
’’پھر یہ کہ ساجدہ آئی، اس نے کہا، ’’ہم آپ نظریاتی طور پر الگ ہوچکے ہیں، مہربانی فرماکر ہمارا سوئٹر ہمیں واپس دے دیجیے۔‘‘
’’اچھا؟‘‘ اشرف حیران رہ گیا، ’’پھر؟‘‘
محسن کہ عشق سے زندہ رہنے کےآداب سیکھ رہا تھا، بولا، ’’پھر کیا؟ معاملہ تو ختم ہوگیا۔ مگر تم جانتے ہو کہ یہ دسمبر کا مہینہ ہے۔ جنوری کا مہینہ پورا پڑا ہے۔ میں نے صاف کہہ دیا کہ سردیوں ، سردیوں میں یہ سوئٹر واپس کرنے سے معذور رہوں گا۔‘‘
’’معقول بات ہے۔ کیا کہا اس نے؟‘‘
’’کیا کہتی؟ وہ مہاتما بدھ کی پیرو ہے، پھر اس نےمعاف کردیا۔ کہہ گئی ہے میں آپ کے مسئلے کو سمجھتی ہوں۔ بہرحال مارچ کے پہلے ہفتے میں سوئٹر میرے پاس پہنچ جانا چاہیے۔‘‘
محسن یہ کہہ کر چپ ہوگیا مگر پھر بھی بے اطمینان سا رہا۔ اشرف نے اسے غور سے دیکھا اور کہا، ’’اب کیا تکلیف ہے تمہیں۔‘‘
’’یار میں سوچتا ہوں کہ تم سچ ہی کہتے تھے۔‘‘ محسن رکا اور پھر بولا، ’’میں سوچتا ہوں خطا مجھی سے ہوئی، وہ تو مہاتما بدھ کی پیرو ہے، معاف بہرحال کردیتی۔‘‘
مأخذ : گنی چنی کہانیاں
مصنف:انتظار حسین