گھنے جنگلوں میں کرن رہ گئی
ہمارے بدن میں تھکن رہ گئی
اجالوں کو تنہائیاں پی گئیں
اندھیروں میں غرق انجمن رہ گئی
کہیں رشتۂ جان و تن کھو گیا
کہیں ساتھ تاب بدن رہ گئی
لہو رو کے کہتا رہا میں غزل
پس پردہ فکر سخن رہ گئی
میں گونگے سفر کا مسافر رہا
ہر اک گام پر اک جلن رہ گئی
جو بستر سے اٹھا سنبھلتے ہوئے
جبین سحر پر شکن رہ گئی
ظفرؔ جس سے خوشبو کی لذت ملی
بکھر کر وہ شاخ چمن رہ گئی
شاعر:ظفر ہاشمی