کہانی کی کہانی:’’انسان کی جبلی خواہشات پر قدغن لگانے اور قابو نہ پانے کی کہانی ہے۔ جو جاتک کتھا اور ہندو دیو مالا کے حوالے سے تشکیل دی گئی ہے۔ سنجے بھکشا لینے اس مضبوط ارادے کے ساتھ جاتا ہے کہ وہ بھکشا دینے والی عورت کو نہیں دیکھے گا لیکن ایک دن اس کی نظر ایک عورت کے پیروں پہ پڑ جاتی ہے، وہ اس کے لیے بیاکل ہو جاتا ہے۔ اپنی پریشانی لے کر آنندہ کے پاس جاتا ہے وہ سندر سمندر کا قصہ، بندروں ، چاتر راجکماری کی جاتک کتھا سناتا ہے۔ سنجے تہیہ کرتا ہے کہ اب وہ بستی میں بھکشا لینے نہیں جائے گا لیکن کچھ وقت بعد اس کے قدم خود بخود بستی کی جانب اٹھنے لگتے ہیں۔ پھر وہ سب کچھ چھوڑ کر جنگل کی طرف ہو لیتا ہے لیکن وہاں بھی اسے شانتی نہیں ملتی ہے۔‘‘
اگلے دن وہ پھر اسی گلی میں گیا اور اسی دروازے کو کھٹکھٹایا، پھر وہی کومل پیروں والی ڈیوڑھی پہ آئی اور پھر اس نے نیچی نظروں کے ساتھ بھکشا پاتر آگے کر دیا اور بھکشا لے کے چلا گیا۔ یہی اس کا نیَم تھا۔ کتنی ڈیوڑھیوں سے کتنی ناریوں کے ہاتھوں سے اس نے بھکشا لی تھی مگر کبھی نظر اٹھا کے کسی کو نہیں دیکھا، اس نے جان لیا تھا کہ پنچ اندر یہ میں آنکھ سب سے زیادہ پاپی ہے، جو دکھائی دیتا ہے وہ سب مایا کا جال ہے۔ دیکھنے والا مایا کے جال میں پھنستا ہے اور دکھ اٹھاتا ہے۔ سو آنکھ دکھ دیتی ہے، سو مت دیکھو اور مت پھنسو اور مت اٹھاؤ۔ سو وہ نہیں دیکھتا تھا کہ بھکشا کس ہاتھ سے مل رہی ہے، سو اس نے یہاں بھی نہیں دیکھا کہ بھکشا دینے والی کون ہے۔ کیسی اس کی مورت ہے، بس اجلے کومل پیر اس کی جھکی نظروں کے سامنے پل بھر کے لئے آتے اور اوجھل ہو جاتے، وہ اس ڈیوڑھی پہ ایک دن آیا اور دو دن آیا اور آتا چلا گیا کہ بھکشا اس ڈیوڑھی سے بہت شردھا کے ساتھ ملتی تھی۔
وہ بسنت پنچمی کا دن تھا، گلی گلی دوارے دوارے پیلی ساڑھیاں لہرا رہی تھیں، مانو سرسوں کھیتوں میں نہیں گلیوں میں پھولی ہے اور گیندا کیاریوں میں نہیں ڈیوڑھیوں میں مہکا ہے، اس نے آج پھر اسی دوارے جا کے سانکل بجائی اور پھر کومل پیروں والی ڈیوڑھی پہ آئی۔ پر آج ان پیروں میں مہندی لگی تھی، اس نے جھکی نظروں سے ان پیروں کو دیکھا اور اچنبھا کیا کہ گورے پیروں میں مہندی کیسی رچتی ہے اور پیرکیا سے کیا بن جاتے ہیں، وہ اچنبھے سے مہندی رچے گورے کومل پیروں کو تکنے لگا۔ یہ دھیان ہی نہ رہا کہ اسے بھکشا بھی لینی ہے۔
’’بھکشو جی! جلدی کرو تیوہار کا دن ہے۔‘‘ اور اس آواز کے ساتھ کہ یہ آواز آج اس نے پہلی بار سنی تھی بھکشا پاتر کے ساتھ ساتھ اس کی نظریں بھی اٹھ گئیں اور پھر اٹھی ہی رہ گئیں۔ کیا موہنی مورت تھی، مکھ چندرما جیسا، بال گھٹا سے، آنکھیں مرگ کی سی، گردن مورنی کی سی، چھاتیاں ناشپاتیاں، گات بھری بھری، کمر پتلی پتلی، ساڑھی بسنتی، ماتھے پہ لال بندی، وہ سدھ بدھ کھوئے ٹکٹکی باندھ، اسے تکنے لگا، وہ سندری ایسی ہڑبڑائی کہ بھوجن سے بھری تھال ہاتھ سے گر پڑی۔
سنجے اس شبھ دن خالی پاتر کے ساتھ اپنے استھان پر واپس آیا، من کو ایک چنتا لگ گئی تھی، کیا مجھے موہ نے آگھیرا ہے، بہت وچار کیا، کچھ سمجھ میں نہ آیا جیسے اس کی مت ماری گئی ہو، آنندہ کے پاس پہنچا اور بولا کہ ’’پربھو! میں بیاکل ہوں۔‘‘
آنندہ نے اسے دیکھا جیسے ٹوہ رہا ہو، ’’کارن؟‘‘
’’ناری!‘‘
’’ناری؟‘‘
’’ہاں ناری۔‘‘ اور سنجے نے اپنی ساری بپتا کہہ سنائی۔
آنندہ اچنبھے کے ساتھ آنکھیں کھولے اس کی بپتا سنتا رہا، پھر اس نے آنکھیں موند لیں، آنکھیں موندے چپ بیٹھا رہا، پھر آنکھیں کھولیں اور بولا، ’’بندھو! گلیاں اور ڈیوڑھیاں موہ کا جال ہیں، بھکشوؤں کا نیَم یہ ہے کہ وہ گلیوں میں رکتے نہیں اور، ڈیوڑھیوں میں ٹھہرا نہیں کرتے، گلی گلی دوارے دوارے پھرتے ہیں، بھکشا آج یاں سے کل واں سے، پر مورکھ تونے اس نیَم کا پالن نہیں کیا، تونے وہی کیا جو سندر سمدر نے کیا تھا۔‘‘
’’سندر سمدر نے کیا کیا تھا؟‘‘
’’تو نہیں جانتا سندر سمدر نے کیا کیا تھا؟‘‘
’’نہیں پربھو ! میں نہیں جانتا کہ سندر سمدر نے کیا کیا تھا۔‘‘
تب آنند نے سنجے کو سندر سمدر کی کہانی سنائی۔
سندر سمدر کی کہانی
جنم اشٹمی کا دن تھا۔ سہانی رت، منگل سمے، بھادوں کی رِم جھم ہو رہی تھی، ایک حویلی میں ایک بڑھیا بڈھا دھاروں دھار رو رہے تھے۔
ایک کنچنی ادھر سے گزری تو اس نے اچرج کیا، ’’ہے دکھیارو! تم پہ کیا بپتا پڑی ہے کہ آج جنم اشٹمی کے دن جب ہر نر ناری، بوڑھا بالک اُتسب مناتا ہے، تم آنسوؤں کی گنگا جمنا بہا رہے ہو۔‘‘ وہ دکھ سے بولی، ’’اری ہمارے لئے نہ اب جنم اشٹمی ہے نہ ہولی دیوالی ہے، پوت کے بچھڑنے کا روگ ایسا لگا ہے کہ ہر گھڑی اسے یاد کرتے ہیں اور روتے ہیں۔‘‘
’’پوت بچھڑ گیا؟‘‘
’’اری ہمارے ایک ہی تو پوت تھا، وہ ہم سے بچھڑ گیا اور ہماری دنیا اندھیر کر گیا۔‘‘
’’کیسے بچھڑ گیا؟‘‘
’’ایک دن بدھ دیو کا اس نگر سے گزراہوا، ان کے اپدیش نے اسے ایسا بدلا کہ کہاں تو چھیلا بنا پھرتا تھا اور کہاں یہ کہ سر منڈایا اور پیلا پہنا اور شاکیہ منی کے پیچھے ہو لیا۔‘‘
’’اس پوت کا نام کیا ہے؟‘‘
سندر سمدر۔‘‘
’’اچھا میں تمھارے پوت کو واپس لاؤں گی۔‘‘
’’اری تو کیسی بات کرتی ہے، شاکیہ منی کے سنگھ میں جاکے کون واپس آیا ہے۔‘‘ کنچنی نے تاؤ دکھایا، بولی، ’’وہ اپنے سمے کا منی ہے تو میں بھی اپنے سمے کی کنچنی ہوں۔‘‘
یہ کہہ وہ وہاں سے چلی۔ شاکیہ منی کا اتا پتا لیا کہ ان دنوں کہاں براجتے ہیں اور کس نگر میں ان کے بھکشو بھکشا لینے پہنچتے ہیں، اسی نگر پہنچ ایک اونچی حویلی لے ووہاں رہ پڑی، سندر سمدر ہر روز بھکشا پاتر لے بستی میں پہنچتا، کبھی اس گلی میں کبھی اس گلی میں، ایک روز اس گلی میں آیا اور اس اونچی حویلی کی ڈیوڑھی پہ پہنچا۔ وہ کنچنی تو باٹ ہی دیکھ رہی تھی، تھال لے کر خود ڈیوڑھی پہ آئی، ایسی چترائی سے بات کی اور بھکشا دی کہ سندر سمدر نے اگلے دن پھر اسی گلی کا پھیرا لگایا اور اسی ڈیوڑھی پر آیا، پھر وہ اس ڈیوڑھی سے ایسا ہلا کہ دوارے دوارے جانا چھوڑا، روز اس ڈیوڑھی پہ جا کھڑا ہوتا اور بھکشا پاتر بھروا کے لوٹتا، ایک دن چترائی سے کہنے لگی کہ ’’بھکشو جی، تمھارے نیَم میں کوئی فرق نہ پڑے تو آج یہیں پدھارو اور بھوجن کرو، میں جانوں گی کہ میری کٹیا کو چار چاند لگ گئے۔
سندر سمدر نے وچار کیا، پھر دل میں کہا کہ تتھاگت نے کبھی کسی کو نہ نہیں کیا، ایک مورکھ نے ان کے سامنے بھوجن کے نام ماس لاکے رکھ دیا، اس پہ بھی نا نہیں کہا ماس کھا لیا، مجھے بھی یہی نیتی اپنانی چاہیے، سو سندر سمدر نے اس دن اسی ڈیوڑھی میں بیٹھ کے بھوجن کیا، اس کنچنی نے دوسرے دن بھی یہی اِچھّا کی اور سندر سمدر نے پھر اس کی اِچھّا مان لی، بس سندر سمدر روز ہی اس ڈیوڑھی میں بیٹھ کے بھوجن کرنے لگا۔
سندر سمدر کو اپنی ڈیوڑھی پہ بلا لینے کے بعد اس کنچنی نے گلی کے بالکوں کو بہلایا پھسلایا اور سکھلایا کہ جب بھکشو جی ڈیوڑھی میں بیٹھ کے بھوجن کریں تو تم گلی میں خوب دنگا کرنا اور دھول مٹی اڑانا۔ میں دکھاوے کے لئے ڈانٹوں ڈپٹوں گی، تم بالکل مت ماننا، اگلے دن ان بالکوں نے یہی کیا، کنچنی نے بالکوں کو ڈانٹا ڈپٹا مگر انھوں نے ایک کان سنی اور دوسرے کان اڑادی۔ اگلے دن کنچنی سندر سمدر کے سامنے ہاتھ باندھ کے کھڑی ہو گئی، کہا کہ ’’پربھوجی! گلی کے بالک بگٹٹ ہیں، گردمٹی اڑا کے بھوجن کو خراب کرتے ہیں۔ میں ونتی کرتی ہوں کہ آپ اندر آ کر پدھاریں اور بھوجن کریں۔‘‘ سندر سمدر نے پھر بدھ نیتی کو یاد کیا اور کنچنی کی بات چپ چاپ مان لی، اس دن سے سندر سمدر ڈیوڑھی سے نکل اندر دالان میں بیٹھ کے بھوجن کرنےلگا۔
وہ بھوجن کرتا اور کنچنی اس کی سیوا کرتی، سیوا کرتے کرتے چھب دکھاتی، کیا اس کنچنی کی چھب تھی اور کیا روپ تھا۔ صورت سرخ سفید جیسے سیب انار، چٹیا ناگن جیسی، بھنویں کمان سی، گول گدرائی چھاتیاں، کمر پتلی، کولھے بھرے بھرے، سندر سمدر جب اس کی اور دیکھتا تو اس کا جی ڈوبنے لگتا۔ تتھاگت نے اپنے گیان سے جانا کہ ان کا ایک بھکشو کس گت میں ہے، ان دنوں تتھاگت نے اپنے پورے سنگھ کے سنگ سرا وستی کے باہر اناتھ ہند کے باغ میں باس کیا تھا، سب سنگھی اپدیش سننے کے لئے اکھٹے ہوئے، تتھاگت ایک گھنے آم تلے بیراسن مار کر بیٹھے اور آنکھیں موند لیں، کچھ دیر بعد آنکھیں کھولیں، سنگھیوں کو تکا پھر ان کی گیان بھری نظریں سندر سمدر پہ آکے ٹھہر گئیں، ٹکٹکی باندھ کے اسے دیکھتے رہے، پھر بولے، ’’سنگھی! تیرا من کس کارن اچاٹ ہے؟‘‘
سندر سمدر نے سر جھکا لیا اور رکتے رکتے بولا، ’’ہے تتھاگت موہ کے کارن۔‘‘ تتھاگت ٹکٹکی باندھے اسے دیکھا کئے، پھر بولے، ’’بھکشو! موہ میں دکھ ہے، کامنا آدمی کی دردشا کرتی ہے، کامی آدمی سے وہ بندر بھلے جنھوں نے یہ بھید جان کر گرہ میں باندھا اور سکھ پایا۔‘‘ بھکشوؤں نے پوچھا، ’’ہے تتھاگت! وہ بھلے بندر کون تھے اور کہاں تھے؟‘‘
’’کیا تم نے بھلے بندروں کی کہانی نہیں سنی؟‘‘
بھلے بندروں کی جاتک
برس برس ہوئے مُنش جاتی سے دور پرے ہمالہ کی تلہٹی میں بندروں کی برادری رہتی تھی، ایک بار ایسا ہوا کہ کوئی شکاری اِدھر آ نکلا، اس نے ایک بندر کو جتن کرکے پکڑا اور بنارس جاکے راجہ کو دے دیا، اس بندر نے راجہ کی ایسی چاکری کی کہ اس نے پرسن ہوکے اسے آزاد کر دیا۔ وہ بندر لوٹ کے اپنے جنگل پہنچا تو برادری اس کے گرد اکٹھی ہوگئی، سب پوچھنے لگے کہ ’’بندھو تو اتنے دنوں کہاں رہا؟‘‘
’’بندھوؤ! میں مُنش جاتی کے بیچ رہا۔‘‘
’’منش جاتی کے بیچ۔۔۔؟ اچھا۔۔۔؟ پھر بتا کہ تونے اس جاتی کو کیسا پایا؟‘‘
’’بندھوؤ! یہ مت پوچھو۔‘‘
’’ہم تو پوچھیں گے۔‘‘
’’اچھا یہ بات ہے تو سنو کہ منش جاتی میں بھی نرمادہ ہوتے ہیں جیسے ہمارےبیچ ہوتے، پر ان میں نر کی ٹھوڑی پہ لمبے لمبے بال ہوتے ہیں اور مادہ کی چھاتیاں بڑی بڑی ہوتی ہیں، اتنی بڑی کہ تھل تھل کرتی ہیں، تھل تھل والی چھاتیوں والی ٹھوڑی پہ بال کو موہ میں پھنساتی ہے اور دکھ دیتی ہے۔‘‘ بندروں نے کانوں میں انگلیاں دے لیں، چلائے، ’’بندھوو بس کر ہم نے بہت سن لیا۔‘‘ پھر وہ اس ٹیلے سے یہ کہہ کے اٹھ گئے کہ ہم نے یاں بیٹھ کے برائی کی بات سنی ہے، اب یاں سے اٹھ جانا چاہئے۔
’’تتھاگت یہ جاتک سنا کے چپ ہوئے، پھر بولے، ’’بھکشوؤ! سنانے والا بندر میں تھا، سننے والے بندر وہ تھے جو آج میرے بھکشوہیں۔‘‘ ایک بھکشو نے اچنبھے سے پوچھا کہ ’’ہے تتھاگت ناری مرد کو کیسے دکھ دیتی ہے جب کہ مرد بلوان ہے اور وہ نربل ہے؟‘‘ تتھاگت مسکائے، ’’بھولے بھکشوؤ! ناری نربل ہے تو کیا ہوا، چاتر جو ہوئی اپنی چترائی سے بلوانوں کے بل نکال دیتی ہے، کیا تم نے چاتر راجکماری کی جاتک نہیں سنی؟‘‘
’’نہیں تتھاگت۔‘‘
’’تو سنو۔‘‘
چاتر راجکماری کی جاتک
بیتے سمے کی بات ہے کہ بنارس میں ایک راجہ تھا جس نے تکشیلا جاکے ودّیا حاصل کی، بہت وِدھوان، بہت بدھیمان، اس کے ایک پُتری تھی، یہ سوچ کر کہ پُتری خراب نہ ہو جائے وہ اس پر بہت کڑی نظر رکھتا تھا، پر ناری کو سات تالوں میں بھی رکھو تو وہ خراب ہو کر رہتی ہے، راجہ نہےبہت چوکسی کی مگر راجکماری کے نین ایک رسیا سے لڑ گئے۔ نین تو لڑ گئے پر ملنے کی صورت نہیں نکلتی تھی کہ محل میں چوکی پہرہ بہت تھا۔ رسیا نے اپنی دایاکو اپنا بھیدی بنایا اور محل میں بھیجا، دایہ محل میں جا کر راجکماری کی چاکر بن گئی، ساتھ ہی تاک میں رہی کہ موقع ملے تو راجکماری سے بھید کی بات کی جائے۔ ایک دن کی بات ہے کہ وہ بیٹھی راجکماری کے سر میں جوئیں دیکھ رہی تھی، جوؤں کو کریدتے کریدتے اس نے ناخن سے سر کو کھجایا، راجکماری بھی اڑتی چڑیا کو پکڑتی تھی۔ بھانپ لیا کہ دال میں کالا ہے، بولی، ’’اری منھ سے پھوٹ کہ اس نے کیا کہا ہے۔‘‘
دایا نے حوصلہ پکڑا، کہا، ’’پوچھتا ہےکیسے ملوں؟‘‘ بولی، ’’یہ کون سی بڑی بات ہے، سدھا ہوا ہاتھی، کالی گھٹا، نرم کلائی۔‘‘
دایہ نے راجکماری کا کہا رسیا کو جا سنایا، رسیا بھی کھیلا کھایا تھا، سب اشارے سمجھ گیا، ایک ہاتھی کو سدھایا، ایک نرم سے لڑکے کو ملایا، اب ساون کے دن آئے اور کالی گھٹائیں گھر کر آئیں تو رات پڑے ہاتھی پر بیٹھ، لڑکے کو ساتھ بٹھا محل کی دیوار تلے جا پہنچا، اِدھر راجکماری نے راجہ سے کہا کہ مہاراج کیسی سندر ورشا ہو رہی ہےمیں تو اس ورشا میں اشنان کروں گی۔ راجہ نے بہت بہلایا پر وہ نہ مانی۔ اشنان کے لئے مینھ میں نکلی اور اس منڈیر پہ جا بیٹھی جس کے برابر رسیا ہاتھی پر سوار بیٹھا تھا، راجہ نے یہاں بھی چوکسی کی، اس کے پیچھے پیچھے مینھ میں گیا، جب وہ کپڑے اتارنے لگی تو اس نے منھ پھیر لیا پر راجکماری کی کلائی کو پکڑے رہا۔ راجکماری بھی بلا کی بنی ہوئی تھی، اس نے انگیا کھولنے کے بہانے کلائی راجہ کے ہاتھ سے چھڑائی، پھر گھڑی بھر بعد لڑکے کی کلائی راجہ کے ہاتھ میں پکڑا دی اور منڈیر سے کود ہاتھی پر بیٹھ گئی اور پھر یہ جا وہ جا۔
اندھیرے میں راجہ کوکچھ پتہ نہ چلا کہ کیا ہوا، اور پھر یوں بھی اس نے منھ پھیر رکھا تھا، بس اسی طری منھ پھیرے کلائی پکڑے واپس ہوا، راجکماری کی اٹاری میں اسے دھکیل آگے سانکل لگا دی۔ جب صبح ہوئی تب پتہ چلا کہ راجکماری تو رسیا کے ساتھ بھاگ گئی، راجہ نے ہار کے کہا کہ ’’ناری کی چوکسی کٹھن کام ہے، کلائی پکڑ لو تو بھی جل دے جاتی ہے۔‘‘ تتھاگت جاتک سنانے کے بعد چپ ہوئے پھر بولے، ’’بھکشو! جانتے ہو وہ راجہ کون تھا، وہ راجہ میں تھا کہ پچھلے جنم میں راج گدی پر بیٹھا تھا اور ایک میری پتری تھی۔‘‘ چپ ہوئے، پھر ٹھنڈا سانس بھر کے بولے، ’’میں نے پراکرتی کے بھید جانے پر ناری کے بھید بھاؤ نہیں جان پایا۔‘‘
سندر سمدر جیسے سوتے سے جاگ اٹھا، ناری کے چکر کو جانا اور اس چکر سے نکلنے کی ٹھانی، من میں کہا کہ آج میں اس ناری سے کہہ دوں گا کہ کل سے میری باٹ نہ دیکھے، یہ پرتگیا کر کے وہ اس ڈیوڑھی پر پہنچا، کنچنی نے روز کی طرح اس کی آؤ بھگت کی اور اندر لے جاکے دالان میں بٹھایا، پر آج اس کے سکھلائے ہوئے بالکوں نے ڈیوڑھی کے اندر آکے دھما چوکڑی شروع کر دی، اس رنڈی نے پہلے تو بالکوں کو ڈانٹا پھٹکارا، پھر جب وہ نہ مانے تو سندر سمدر سے کہا کہ’’بھکشو جی! یاں یہ بالک رول مچاتے ہیں اور تمھیں ستاتے ہیں، اچھا ہو کہ اوپر کوٹھے پہ چل کے بھوجن کرو۔‘‘
سندر سمدر یہ سن کر پہلے تو رکا، پھر سوچا کہ لوگ بالک سمان ہیں، ان کی اِچھا پوری کرنی چاہیے، یہی بدھ نیتی ہے اور یوں بھی آج اس گھر میں میرا آخری بھوجن ہے۔ کل میں کہاں اور یہ گھر کہاں، بس یہ سوچ کے وہ اٹھ کھڑا ہوا، آگے آگے کنچنی پیچھے پیچھے وہ سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا۔ اپنے پیروں پر نظریں جمائے ایک ایک سیڑھی چڑھ رہا تھا، اس نے کہاں یہ دھیان دیا کہ آگے کون چل رہا ہے، مگر آگے جانے والی کئی بار رک کے کھڑی ہوگئی جیسے وہ تھک گئی ہو اوور ہر بار سندر سمدر بے دھیانی میں ایک نرم نرم سائے کے ساتھ چھو گیا۔
سیڑھیاں چڑھ کے کنچنی نے سندر سمدر کو ایک سجی بنی اٹریا میں لے جا کے نرم سیج پر بٹھلا دیا، پھر آپ بھی برابر میں یہ کہہ کے پسر گئی کہ سیڑھیاں چڑھ کے میں تو تھک گئی اور اے مرے بندھو! ناری کے پاس مرد کو پھسلانے کے چالیس گر ہیں، وہ کنچنی ان چالیس گروں میں پیری ہوئی تھی۔ اس نے پہلے تو ایک لمبی انگڑائی لی، انگڑائی لیتے ہوئے باہیں کہ ننگی تھیں، اوپر اٹھائیں پھر شرما کے مسکا کے گرادیں، پھر ناخن سے ناخن کھرچنے لگی، پھر دانتوں میں ساڑھی کا پلوّ دبا کے لجائی۔ بلاکسی کارن کے زور سے ہنسی، پھر ایک دم سے ہاتھوں میں منھ چھپا لیا، آپ زور زور سے بولی، پھر ایسے ہولے ہولے بولی جیسے کانا پھوسی کر رہی ہو، پہلے دور سمٹ کے بیٹھی، پھر وہ بیسوا بِھڑکے بیٹھ گئی، چھاتیوں سے پلوّ ڈھلکایا پھر اوپر سرکا لیا، رانوں سے ساڑھی سرکائی پھر جلدی سے نیچے کرلی۔
اور ایک بار تو ایسی انگڑائی لی کہ پنڈا کھل گیا، پھر وہ جلدی سے سمٹ گئی، اور ایک بار ہونٹ ہونٹوں کے پاس لے آئی، پر پھر شرما کے لجا کے پیچھے ہٹ گئی۔ اور اے مرے بندھوؤسندر سمدر تو بالکل موہت ہو گیا، بھولا کہ وہ بھکشو ہے اور وہ تو پہلے سے ہی گرمائی ہوئی تھی، اسے گرماتا دیکھ کے کھل کھیلی، بے حیا نے نہ اپنے بدن پہ کوئی دھجیّ رہنے دی اور نہ اس کے تن پہ کوئی لتّا رہنے دیا، سینہ سے سینہ اور رانوں سے رانوں بھڑنے لگیں۔‘‘
آنند چپ ہو گیا، سنجے تڑپ کے بولا، ’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ آنند ہنسا، ’’تتھاگت بیراسن باندھے آنکھیں موندے بیٹھے تھے، انھیں خوب دکھائی دے رہا تھا کہ باغ سے دور شراوستی کی اس اونچی حویلی کی اٹریا میں مار ایک بھکشو کے ساتھ چھل فریب کر رہی ہے، ملنے کی نوبت آگئی تھی، بدن بس گڈ مڈ ہونے لگے تھے کہ امی تابھ نے اس اٹریا میں اپنا درس دکھایا، سندر سمدر کی بسری سدھ واپس آئی، بس کام ندی میں ڈوبتے ڈوبتے باہر نکل آیا۔‘‘ آنند کہانی سنا کے چپ ہوگیا، ادھر سنجے وچاروں میں ڈوبا ہوا تھا، پھر ٹھنڈا سانس بھرا اور کہا کہ ’’وہ کیسا منگل سمے تھا کہ تتھاگت ہمارے بیچ براجتے تھے، کوئی اگیانی ناری کے چھل میں آ جاتا تو وہ اسے جیوتی دکھاتے اور ستیہ پتھ پہ لے آتے۔‘‘
چپ ہوا پھر بولا، ’’مجھے ناری کے چھل سے کون بچائے گا۔‘‘ آنند بولا، ’’ہے سنجے میں تجھ سے وہی کہتا ہوں جو امی تابھ نے مجھ سے کہا تھا کہ آنند تو اب آپ اپنا دیپ بن۔‘‘ سنجے نے یہ سن کر وچار کیا پھر کہا کہ میں آپ اپنا دیپ بنوں گا، سو دوسرے دن جب وہ بھکشا پاتر لے کے بستی کی اور چلا تو پرتگیا کی کہ وہ اس گلی میں نہیں جائے گا، پر جب وہ بستی میں داخل ہوا تو اس نے کیا دیکھا کہ یہ راستہ اسی گلی کی اور جا رہا ہے، جس رستے پہ چلتا لگتا کہ وہ رستہ اسے اسی گلی میں اسی ڈیوڑھی پرلئے جا رہا ہے، وہ ٹھٹک کر کھڑا ہوگیا، پھیلی ہوئی شراوستی آج کتنی سمٹ گئی تھی۔
اس نگر کی ایک ایک گلی اس کی کھوندی ہوئی تھی، ہر گلی کی ہر ڈیوڑھی سے وہ بھکشا لے چکا تھا، مگر آج جس گلی، جس ڈیوڑھی کا اس نے دھیان کیا لگا کہ وہاں وہ ہاتھ میں تھال لئے اس کی باٹ دیکھتی ہے، وہ ایک بار پورے نگر کوو دھیان میں لایا۔ پھر اس نے اچنبھا کیا کہ کتنی گلیاں ہیں کہ جال کے سمان پھیلی ہوئی ہیں اور گلی گلی کتنی ڈیوڑھیاں ہیں کہ ہر ڈیوڑھی میں کوئی نہ کوئی ناری بھکشا دینے کے لئے کھڑی ہے، گلیاں، ڈیوڑھیاں، ناریاں، اس نے سوچا کہ یہ سب مایا کا جال ہے، پھر وہ ان بھلے بندروں کوو دھیان میں لایا جنھوں نے ناری کی بات سن کے کانوں میں انگلیاں دے لی تھیں اور اس استھان کو چھوڑ دیا تھا جہاں انھوں نے یہ بات سنی تھی، مجھے بھی یہ نگر چھوڑ دینا چاہئے اور وہ نگر سے منھ موڑ کے جنگل کی اور ہو لیا۔
گلیاں، ڈیورھیاں، ناریاں سب پیچھے رہ گئی تھیں، سنجے اب گھنے جنگلوں میں چل رہا تھا، چلتے چلتے اس نے پھولے ہوئے ایک اشوک کے پیڑ کو دیکھا اور رک گیا، اس پیڑ کے نیچے اس نے نرجن باس کیا۔ بسنت رت تھی، سرسوں پھولی ہوئی تھی، گیندا مہک رہا تھا، اشوک کی ڈالیاں اپنے ہی بوجھ سے جھکی ہوئی تھیں، سنجے یہ سماں دیکھ کے بہت پرسن ہوا، اشوک کو دیر تک دیکھا کیا، پھر وہ اچنبھے سے من ہی من میں کہنے لگا کہ ہے رام کس کنیا نے اس اشوک کو ٹھوکر ماری ہے کہ وہ اتنا پھولا ہے۔ بس اس وچار کے ساتھ اس کا دھیان مہندی والے اُجل کو مل پیروں کی اور چلا گیا، کیا اس اشوک کو ان مہندی والے اُجل کومل پیروں نے ٹھوکر ماری ہے، وہ سندری بسنتی ساڑھی میں لپٹی اس کے دھیان میں ابھری، تھوڑی دیر تک وہ اس دھیان میں ایسے ڈوبا رہا کہ کسی بات کی سدھ بدھ ہی نہ رہی۔ مگر پھر اچانک وہ چونکا، یہ تو میں پھر موہ کے پھندے میں پھنس رہا ہوں، وہ ترت وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا، اس پیڑ تلے برائی کی بات میرے دھیان میں آئی ہے، مجھے یہاں سے اٹھ جانا چاہئے۔
سنجے نے پھر ایک لمبی یاترا کی اور جنگل جنگل مارا پھرا، دن گزرے، مہینے بیتے، رتیں چڑھیں اور اتریں، ہر رات اپنی چہک مہک کے ساتھ آئی اور بیت گئی، ہر رت سنجے کو دکھی کر کے گئی، کبھی پھولتی سرسوں، کبھی بوراتے آم، کبھی ڈولتا، بھنبھناتا بھونرا، کبھی منڈلاتی بھنبھیری، کبھی دکھیا کوئل کی پکار، کبھی اداس دادر کی جھنکار، کبھی چمپا کی مہک، کبھی بیلے کی باس، تو یوں کہو کہ ہر رات آتی اور یادوں کی شانت ندی میں ہلکورے پیدا کر جاتی۔ ہر بہانے بیتا پل لوٹ کے آ جاتا اور وہ سندر مورت سامنے آکھڑی ہوتی۔ سنجے سوچ میں پڑگیا کہ یہاں بھی سب رستے اسی دوار کی اور جاتے ہیں۔ بہت وچار کے بعد اس نے یہ تت نکالا کہ رتیں پنچ اندری سے ملی ہوئی ہیں اور پنج اندری دکھ کے پانچ دروازے ہیں، آدمی موہ میں کس کس راہ سے پھنستا ہے کہ کبھی کوئی کو مل پنکھڑی چھوکے، کبھی کوئی رسیلی بانی سن کے، پھر کبھی کوئی مہک اسے لے اڑتی ہے، کبھی رنگ اسے لے ڈوبتا ہے، سوبات یوں ہے کہ ہر رت دکھ دیتی ہے، یہ جان کر وہ اداس ہوا اور دکھی ہوکے کہا کہ نگر میں گلیاں ہیں اور جنگل میں رتیں ہیں، میں موہ کے جال سے کیسے نکلوں۔
سنجے انھیں وچاروں میں تھا کہ پت جھڑ آگئی، ڈول ڈول سوکھے پتے بکھرنے لگے، ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ ان گنت پتّے ٹہنیوں سے گرتے اور جہاں تہاں تتر بتر ہوجاتے، اب یہ رت مجھ سے کیا کہنے آئی ہے۔ سنجے پھر سوچ میں پڑ گیا۔ دھیرے دھیرے پھر اس کے اندر کن من ہوئی۔ اسے پھر کچھ یاد آنے لگا تھا، پر اب کے ایک یاد اور ہی طرح کی آئی۔ یہی رت تھی اور ایسا ہی جنگل تھا، تتھاگت نے بیچ پت جھڑ یہاں آکے باس کیا تھا۔ ارد گرد پیلے پیلے سوکھے پتّے بکھرے پڑے تھے، ہاتھ بڑھا کے پتوں سے مٹھی بھری پھر آنند کو دیکھا، ’’آنند! کیا سب پتے میری مٹھی میں آگئے ہیں؟‘‘
آنند جھجکا پھر بولا، ’’ہے تتھاگت یہ رت پت جھڑ کی ہے، پتّے جنگل میں اتنے جھڑے ہیں کہ ان کی گنتی نہیں ہوسکتی۔‘‘ تتھاگت نے کہا، ’’آنند! تونے سچ کہا، پت جھڑکے ان گنت پتوں میں سے میں بس ایک مٹھی اٹھا سکا ہوں، یہی گت سچائیوں کی ہے، جتنی سچائیاں میری مٹھی میں آئیں، میں نے ان کا پرچار کیا، پر سچائیاں ان گنت ہیں، پت جھڑ کے پتوں کے سمان۔‘‘
اس یاد نے اس پر نرالا جادو کیا کہ وہ جہاں کا تہاں کھڑا رہ گیا، پھر نہ ایک قدم آگے بڑھا، نہ ایک قدم پیچھے ہٹا، وہیں ایک گھنے پیپل کی چھاؤں میں آسن مار کے بیٹھ گیا اوور گرتے زرد سوکھے پتّوں کو تکنے لگا، پت جھڑ کے ان گنت پتّے، ان گنت سچائیاں، ایک حیرانی کے ساتھ وہ گرتے پتّوں کو دیکھ رہا تھا، دیکھتا رہا۔ دھیرے دھیرے کرکے اس کی آنکھیں مندتی چلی گئیں، جو باہر ہے وہی میرے اندر بھی ہے۔ آسن مارے آنکھیں موندے بیٹھا رہا، بیٹھا رہا جانے کتنے دن، کتنے جگ، جب اس نے آنکھیں کھولیں توجانا کہ ان گنت رتیں بیت گئی ہیں اور اب وہ پت جھڑ میں ہے، اس کی گرد میں زرد سوکھے پتے بھرے تھے، وہ زرد سوکھے پتّوں میں نہایا ہوا تھا اور دھوپ میں تپ رہا تھا۔
اس نے نظریں اٹھا کے اوپر دیکھا، جس پیپل کو گھنا دیکھ کے وہ اس کی چھاؤں میں بیٹھا تھا اس پیپل کا ایک ایک پتہ جھڑ چکا تھا، پھر اس نے ارد گرد نظر ڈالی اور دور تک دھرتی کو زرد پتّوں سے ڈھکا پایا۔ دور تک پیڑ لنڈ منڈ کھڑے نظر آرہے تھے، اس نے اپنے شانت من میں جھانکا، میری کامنائیں بھی زرد سوکھے پتّوں کے سمان جھڑ چکی ہیں، پھر اس نے کہا کہ بسنت رت، برکھا رت، جاڑے کی رت، سب رتیں آنی جانی ہیں، بھول جھڑ جاتے ہیں، بس اڑ جاتی ہے، ٹہنیاں سوکھ جاتی ہیں، پر پت جھڑ امر ہے، وہ مسکایا جیسے اس کی مٹھی بھر گئی ہو، وہ اٹھ کھڑا ہوا، اب وہ شانت تھا، من میں کہا کہ میری یاترا سدھ ہوئی، اب مجھے واپس چلنا چاہئے۔
سنجے جنگل میں خالی پاتر بیاکل من کے ساتھ گیا تھا، جنگل سے بھری مٹھی اور شانت ہردے کے سنگ لوٹا۔ جنگل سے نکل آیا تھا، اب وہ بھری بستی میں تھا، شراوستی میں اس سمے کیسی چہک مہک تھی، لگتا تھا کہ نگر نہیں پھلا پھولا باغ ہے، رنگ اور سوگندھ کی ندی امنڈی ہوئی تھی، چہکتے پنچھی، مہکتی کیاریاں، سندر ناریاں، رنگ رنگ کی ان کی ساڑیاں، گلیوں میں آتیاں جاتیاں۔ اس نے ایک بیراگ کے ساتھ یہ سب کچھ دیکھا، ایک بار جی میں آئی کہ بستی کے بیچ کھڑا ہو کے چیتاؤنی دے کہ ہے اگیا نیو، ہے شراوستی کے باسیو! رنگ رس میں مت ڈوبو، پھول کمھلا جاتے ہیں، بو باس اڑجاتی ہے، رنگ روپ اتر جاتا ہے، جو بن ڈھل جاتا ہے، سندرتا کی سب رتیں آنی جانی ہیں، پت جھڑ امر رت ہے، پر من میں تو بیراگ رچ گیا تھا بولنے کو اب جی کب چاہتا تھا، گم سم آنکھیں جھکائے شراوستی کی گلیوں سے گزرا۔ آنکھ اٹھا کے یہ بھی نہ دیکھا کہ کس گلی میں اور کس دوارے بھکشا مانگتے ہو، کیوں دیکھیں، مطلب تو بھکشا سے ہے، بیراگی کو اس سے کیا کہ کس دوار سے ملا ہے اور کن ہاتھوں سے ملا ہے۔
جھکی نظروں سے بس دینے والی کے پیروں کو دیکھا اور حیران رہ گیا، بالکل ویسے ہی گورے مہندی لگے پیر، کیا یہ وہ ہے، چونک کے نظر اٹھائی، کیا دیکھا کہ وہی کھڑی ہے، بالکل اسی بر میں بسنتی ساڑھی، ماتھے پہ لال بندی، ہاتھ میں بھوجن سے بھری تھال، اٹھی نظریں اٹھی رہ گئیں، قدم جہاں تھے وہیں جم گئے۔ نہ کوئی قدم پیچھے نہ کوئی قدم آگے، ایک پل میں جگ بیت گئے، لگا کہ جنم جنم سے وہ اس ڈیوڑھی پہ اسی گت سے کھڑی ہے اور جنم جنم سے وہ اسی طرح ٹھٹکا ہوا اسے تک رہا ہے۔
من اس کا پھر بیاکل تھا اور آتما پھر دکھی تھی، رت پھر بدلنے لگی تھی، لنڈ منڈ پیڑوں میں کونپلیں پھوٹ رہی تھیں، اس نے ایک وسوسے کے ساتھ اپنے اندر جھانکا، کیا میرے بھیتر پھر کوئی کونپل پھوٹ پڑی ہے اور اس نے اچنبھے کے ساتھ سوچا کہ اپنے دیپ کے اجالے میں چلتے چلتے میں کہاں آگیا ہوں اور یہ کیسے پتّے ہیں کہ میری مٹھی میں آگئے ہیں۔
مصنف:انتظار حسین