تلقارمس

0
178
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

ستمبر کے مہینے میں آنسو گیس کا استعمال ٹھیک نہیں، ان دنوں کسان شہر سے راشن کارڈ کا بیج لینے آیا ہوتا ہے وہ بڑے مہمان نواز قسم کے لوگ تھے۔ انھوں نے انڈوں کی جگہ اپنے بچوں کے سر ابال کر اور روٹیوں کی جگہ عورتوں کے پستان کاٹ کر پیش کردیے۔ مگر آخری وقت جب میں نزع کے عالم میں تھا وہ میرا راشن کارڈ چرانے کی سوچ رہے تھے۔ انھوں نے اپنے خوانچے اونچی اونچی دیواروں پر لگا رکھے تھے اور نیچے وادی میں جھونپڑیاں جل رہی تھیں۔ جھونپڑیاں جلنےتک گاڑی پلیٹ فارم پر آجاتی اور سب لوگ آگے بڑھ کر اپنی اپنی لاش پہچان لیتے پھر وہ گرم کباب کی ہانک لگاتے کوئی نہ پوچھتا کس عزیز کے گوشت کے کباب ہیں آج کتنے بڈھے جمع ہوئے درخت نے کتنی بار جھک کر سلام کیا توری کی بیل پر کل کتنے پھول لگے اور مدھومالتی اداس کیوں ہے ہر پودے کو پانی دو،مگر قسم کسی کی نہ کھاؤ ہم سب ایک دوسرے کے فربہ ہونے کے غم میں گھلے جارہے ہیں۔

تہمد باندھے کاہنر سیکھنے کی کسی کو فکر ہی نہیں۔ ننگا آدمی خدا کو کیا منھ دکھائے گا ننگی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا مگر جب ننگی نے دامن نچوڑ دیا تو فرشتے وضو کرنےلگیں گے ایک بوند پانی کے لیے کتنے قطرے خون در کار ہے ہر چیز کا حساب ہونا چاہیے اور اس کا بھی کہ کل کتنا خون سفید ہوا ابلتے ہوئے خون کی دیگچی انگیٹھی پر سے اتار لو، باقی کام وہ خود آکر کرے گا نہیں اس میں ملائے گا کچھ نہیں بس آنکھیں بند کرکے کچھ پڑھے گا اور پھر اسے فرش پر پھیلادے گا جہاں جہاں تک خون بہتا چلا جائے گا وہاں وہاں تک فرش اپنا ہوگا ہماری فوجوں سے اس کا کیا مقابلہ وہ کمینگی کی حدتک نیا آدمی ہے اس کے کندھے پر ہمیشہ خالی بوری پڑی رہتی ہے اور بائیں ہاتھ میں اپنے جوتے تھامے رہتا ہے پاؤں کےنیچے زمین تک نہیں ہوتی پھر کہتا ہے میں اکتا گیا ہوں اس کےجسم کے اپنے کچھ مسائل ہیں وہ ہمیشہ اسٹیج پر بڑا سا ٹوپا پہن کرآتا ہے اور سامعین کی طرف پیٹھ کرکے کھڑا ہوجاتا ہے۔

اس طرح وہ بڑا اداس لگتا ہے پڑوسی کے فیتے سے اپنا قد ماپتا ہے پھر روئے گا بیٹھا ہوا میرے لیے آخر شراب درکار ہی کتنی ہے خدا کے وجود جتنی شراب چوری کے گلاس میں ڈالو ساتوں فرشتوں کو بلاکر پاس بٹھالو اور پھر بلند آواز سے کہو مفت کی ہے حرام کی ہے تم قاضی ہو اور تم پر حلال ہے بس ہوگیا کام میرا بھوت تمہارے بس میں ہے معلوم ہے نہر پار کرنے میں کتنے دن لگتے ہیں جہاں جنگ ختم ہوتی نظر آئے وہیں ہتھیار صاف کرنے لگ جاؤ۔ اس سے بڑا رعب پڑتا ہے عورت امید سے رہتی ہے جس رات گھڑا پھوٹا اسی رات بارش ہوئی اگر اس رات بارش نہ ہوتی تو چاروں لڑکیوں کی شادی ہوجاتی کل والی چودہ کی چودہ باتیں پھر سناؤ ایک لفظ زیادہ ہو نہ ایک لفظ کم یا پھر لکھ کر اپنے پاس رکھ لو جب پکاریں تو کاغذ کی کشتیاں ان کی طرف بڑھادو کسی سے ڈرنےکی ضرورت نہیں سبھی ہم جیسے نامرد ہیں مجھے تو طوائفیں روز کا روز ان کا احوال بتادیتی ہیں اچھی ہیں بے چاری بچوں کی طرف اپنا فرص پورا کرتی ہیں میں نے تو کسی کے ہاتھ ہتھ کڑی نہیں بھیجی تھی مجھے کیا غرض پڑی ہے کہ ان کے پھٹے میں پاؤں پھنساؤں اپنے جہازوں سے تو سامان اترتا نہیں کہ کسی کا سمندر خشک کرتا پھروں وہ پہاڑ کے دوسری طرف رہتے ہیں اور وہ نہر کےدوسرے کنارے پر دونوں میں دوستی ہے دونوں ایک دوسرے کی عورت پر بری نظر رکھتے ہیں کاش مجھے میری موروثی تلوار مل جاتی تو میں ان کے دودھ کی دھار کاٹ ڈالتا شکستہ دیوار پر اب عکس نہیں پڑتا شاید سورج نے رخ پھیر لیا ہے یہ بتانے کی کیا ضرورت تھی کہ قلعہ میں تلوار نام کی کوئی چیز بھی قدیمی شکستہ دیوار پر نہیں ٹنگی ہوئی تھی سورج کی روشنی کسی غیر مرئی چیز پر پڑتی تھی اور دیوار پر اس طرح عکس پڑتا تھا گویا تلوار ٹنگی ہو ہم سب اسے موروثی تلوار سمجھتے رہے خیال تھا جنگ میں کام آئے گی مگرتلوار کی تلاش میں ساری دیوار تڑوادینا پڑی نتیجہ یہ ہوا کہ خفیہ شادی کرنا پڑی عاشق کو بھائی جان کہا اور تمام وہ رسوم اداکیں جو بھائیوں سے کی جاتی ہیں تاکہ خاوند کو شک نہ ہو اپنے پاپ سے اس کا ہاتھ دکھوایا کہ کل کتنے برس جیے گا۔

وہ جتنےسال بھی جیا گدھے کی طرح سائبان کے نیچے کھڑا رہا تاکہ محبت مشتہر نہ ہو چقندر کی سرخی سے بھی کام لو ایک عنصر کو دوسرے سےعلیحدہ کرکے دیکھو سب ٹھیک ہوجائے گا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہر بن باس کی ایک مدت مقرر ہے کچھ صدیاں اور سمے جی ہاں اب اس کی پیدائش میں التوا کی گھڑیاں ختم ہوچکی ہیں اب تو عورتیں دو دوبچے جننے لگی ہیں کسی دن خبر پاؤگے کے دوسرا بچہ وہی ہے اور اسے تمہاری بیوی کوکھ میں چھپا کر گھر لے آئے گی کبھی تمہاری بیوی بھی خوب صورت تھی دوسرے کی عورت تو جاذب ہوتی ہی ہے اس کے اندر بھی جھانک کر دیکھو بچاری پیہم اسقاط کی وجہ سے نڈھال ہوئی جارہی ہے اسے آم چوسنےکے لیے دو یا پھر ترپھلے کامعجون بڑی گڑبڑ کردیتےہو یار کسی کودکان پر آنے تو دو بس پہلے سودے میں ہی پوبارہ ہوجائیں گے جن کے پاس پیسہ ہے ان کے پاس یہ سارا سامان نہیں جو میری دکان میں رکھا ہے کرنسی نوٹ تو کرٹن بل (Curtain Bell) کی طرح ٹن ٹنا نہیں سکتے ایک کلو گندم کے بدلے ایک کلو خیال تول دو آگے زمانہ بڑا سستا آرہا ہے کچھ تو بچوں کے لیے رہ جائے وہ بھی کیا یاد کریں گے کہ کسی رئیس باپ سے پالا پڑا تھا اب لگے سمندر سے ڈرنے پہاڑ پر چڑھ کرسورج تک نہیں پہنچ سکتے ہر دروازے پر ایک پاکھنڈی سادھو رین کوٹ (Rain Coat) پہنے کھڑا رہتا ہے پد یاترا کب شروع کر رہے ہو اس عیسائی لڑکی کو ضرور ساتھ لے جانا جس کی شادی کے لیے اخبار میں اشتہار چھپا تھا جب تم چلے جاؤگے تو پھر اخبار میں ایک اور اشتہار چھپے گا بکاؤ ہیں دو یتیم بچے اور ایک بیوہ عورت وہ دہلیز چیر (Wheels Cart) پر بیٹھا ہمیں گھورتا رہتا ہے اس کا ذکر میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا آہستہ آہستہ گھسٹتا ہوا وہ صبح سویرے مونہہ اندھیرے باہر نکل جاتا ہے پھر جب کچی سڑک پر گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنائی دیتی ہے اور سورج آہستہ سے اپنی روزن سے جھانکتا ہے۔

وہ آجاتا ہے یہ دیکھ کر ہمیں بڑی حیرت ہوتی ہے کہ وہ بالکل ٹھیک ٹھاک اور مطمئن ہے اسے ہمارے بارے میں کسی قسم کا شبہ تک نہیں ہمارے پاس بیچنے کے لیے بہت کچھ ہوگا خریدار شہر کے دروازے سے داخل ہوگا تو ہم اسے پھولوں کے ہار پہنائیں گے وہ ہمارے جسم کو چھوکر دیکھے گا پھر ناخنوں سے کرید کر ہمارا خون نکالے گا اور اسے انگلیوں کی پوروں پر مل کر اسکامعائنہ کرے گا آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کرے گاہونٹوں ہی ہونٹوں میں مسکرائے گااور ہمارے ماں باپ زور سے دہاڑ ماریں گے اور ساری دنیا میں پتہ چل جائے گاکہ ہو گیا سودا تم باہر سے آرہے ہو دروازہ آہستہ سے بھڑادو اور آکر میرے کان میں بتاؤ کہ باہر کون سی ہوا چل رہی ہے پوروا یا پچھوا یہ ماننےمیں تمہیں کیا حرج ہے کہ تم ایک اگنورینٹ پرسن ہو واش بیسن میں سبھی اپنے گندےہاتھ دھوتےہیں اور تولیوں سے منہ صاف کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں یہ کیا ہماری کم مہربانی ہے کہ تمھیں جینے کا حق دے دیا ہے سچ کہو اپنے اسپتال میں تم جی سکتے ہو جوشہر تم چھوڑ کر آئے ہو اس کی دیواروں پر ابھی تک تمہارے پیشاب سے بنی تصویریں رو رہی ہیں شاید وہ تمہاری تقدیر پر رو رہی ہیں کل وہ ہنسیں گی ضرور اور تمہیں شرمندگی ہوگی دوست کی بہن سے شادی کیوں نہیں کر لیتے یہ تو تمہارا خاندانی پیشہ ہے اب اپنی بہن سے اس بھنگی کی شادی کروا دو جس کے ساتھ یہ وعدہ کر رکھاہے یہ تو خیر سب کو بتادو کہ وہ ایہم بم کی ایجاد کے وقت کیا کہہ رہا تھا مگر اس بات کا خیال رکھنا کہ یہ کسی کو نہ پتہ چلے کہ تم کیا کہتے ہو کیوں کہ تم نے اس کی بات مان لی ہے کہ اب جسمانی طور پر تمہارا کوئی وجود نہیں ہے۔

- Advertisement -

مأخذ : دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم

مصنف:سریندر پرکاش

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here