رجنی کول کی آنکھ اچانک کھل گئی۔ یوں محسوس کیا کہ ابھی کوئی چھوکر گیا ہے، کسی یخ بستہ لب نے سرگوشی کی ہے۔۔۔ ٹھٹھری سی، بےکیف، رست خیز۔۔۔سانسوں میں تھکن، سینے میں جکڑن اور بدن پر کسی لمس کی حدت دشت سکرات میں لے گئی۔۔۔ آہ نیم کش کے ساتھ ایک لمحے کے لئے آنکھیں موند لیں اور پھر آہستہ آہستہ مژگاں کھولنا شروع کیں۔ نیم تاریکی میں اسے سب کچھ مبہم، محدب اور مرگ نما نظر آ رہا تھا۔ درو دیوار کے سینے سے بدروحیں نکل کر اس کی طرف بڑھی چلی آ رہی تھیں۔ کمرہ سکڑ رہا تھا، فرش اوپر اٹھ رہا تھا، چھت نیچے آرہی تھی اور یوں لگنے لگا تھا کہ انفاس کی زنجیرگراں اب یا تب کبھی بھی ٹوٹ سکتی ہے، ایک چیخ نکلنے والی تھی کہ دور کہیں سے اذان کی آواز آئی، ساتھ میں بھجن کا شور اور بالکنی میں کوؤں کی کائیں کائیں بھی۔ اس نے راحت کی سانس لی، کھڑکیاں کھول دیں، سورج کی سیم گوں کرنیں سحر کے جھٹپٹے کو نگلنے کے لئے بس نکلنے والی تھیں۔
بالکنی میں سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے خواب کے بارے میں سوچنے لگی۔ خواب تعبیر طلب نہیں تھا۔ یکے بعد دیگرے دوبڑے صدموں نے اسے زندگی سے بےزار کر دیا تھا۔ اور جب سے گرمی کی تعطیلات ہوئی تھیں اور مکمل فراغت میسر ہوئی تھی وہ کچھ اور ہی گھٹن، تنہائی اور نارسائی کا کرب وجود میں بتدریج پیوست ہوتا محسوس کرنے لگی تھی۔ درون و بیرون سب ویران، کائنات کسی عفریت کا اکڑا ہو استخواں نظر آ رہی تھی۔ لکھنے پڑھنے سے دل اوب چکا تھا۔ خاندان میں کوئی نہیں تھا، پڑوسیوں کے ساتھ کوئی علیک سلیک نہیں۔ اگر کوئی معاملات رہے تو معاندانہ ہی رہے اور پڑوسی تھے بھی کہاں۔ پورا فلور خالی تھا، سب چھٹیاں منانے اپنے اپنے گاؤں چلے گئے تھے۔اسکول کے رفقائےکار فاصلہ بنائے رکھنے میں ہی عافیت سمجھتے تھے اور پھر اس کی جمالیات، ترجیحات اور تحفظات نے لوگوں کو مزید ورطئہ رعب و خوف میں ڈال رکھا تھا۔ یوں وہ ان تمام لوگوں کے درمیان رہتے، کام کرتے ہوئے بھی ایک ’گوسپ‘ سے زیادہ وجود نہیں رکھتی تھی کیوں کہ وہ ان کے د رمیان زیست نہیں کرتی تھی۔ پھر وہ کہاں زیست کرتی تھی؟
رجنی سگریٹ پیتے ہوئے اسی ایک نکتے پر مرتکز ہو گئی، میں کہاں زیست کرتی ہوں، کیوں کرتی ہوں اور کیوں کرنا چاہئے اور ایسے لوگوں کے درمیان بھلا کب تک رہا جا سکتا ہے جو روشنی اور تاریکی کے درمیان کھڑے ہیں۔ کچھ یادیں ہیں اور یادیں بھی کیا۔ تہمت زدہ، کابوسی، آسیبی۔
یہ ساری جدوجہد اسی اتہام سے بری ہونے کی ہی کوشش تھی اور اب یہ جنگ ہارچکی تھی۔ سگریٹ بجھ چکا تھا، اندمال کی چنگاریاں بھی، دل ڈوب رہا تھا رات کے آخری آنسو کی طرح، شریانوں کو منجمد کر دینے والی یاسیت کا غبار تھا جو آنسوؤں کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا تھا، کوئی مونس و غم خوار نہیں، وہ ایک اور خط لکھنے بیٹھ گئی۔
’’ڈیئر ماتاکھیر بھوانی! سوری تم میرے کسی کام نہیں آئیں!
ڈیئر بھگوان!۔ سوری، تم زندہ تھے کیوں کہ میں۔۔۔
ڈیئر ہزبینڈ۔ یہ شاید آخری چٹھی ہے، آج میری پچاسویں سالگرہ تھی۔۔۔ اور منصور کی۔۔۔ جان! میں بہت شرمندہ ہوں۔۔۔
ڈیئر اسماعیل! آج میری پچاسویں سالگرہ تھی، تم اس بار بھی مجھ سے ملنے نہیں آئے۔ میں بہت ٹوٹ چکی ہوں، امید تھی کہ تم آؤگے،بہت ٹوٹ کر پیار کرنا چاہتی تھی، خوں گشتہ تمناؤں کا انبار ہے، تم پر لٹاناچاہتی تھی لیکن تم نہیں آئے۔ میں کچھ کہنا چاہتی تھی، میں کچھ سننا چاہتی تھی لیکن تم نہیں آئے۔ میں تمہیں بتانا چاہتی تھی کہ جج نے اپنے فیصلے میں ثبوت نہیں اجتماعی ضمیر کا حوالہ دیا تھا اور اس فیصلے پر تمہارے ساتھ مل کر ہنسنا چاہتی تھی لیکن تم نہیں آئے۔ میں ہنس نہیں سکی، میں رو بھی نہیں سکی، میں کچھ نہیں کر سکی۔ رونا کس لئے اگر کوئی آنسو سمیٹنے والا نہ ہو، رونا کس کے لئے اگر کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ سب ناراض ہیں جانتی ہوں، پولیس، حکومت، عدالت، وکیل اور منصور بھی لیکن تم کیوں ناراض ہو؟ کیا اس لئے کہ میں تمہارے پاس نہیں آ سکی۔ کیسے آتی، کچھ کام ادھورے تھے، میں، تم، منصور سب ادھورے رہ گئے، اب تو موت ہی ہمیں مکمل کر سکتی ہے۔ میں تمہیں کل بارہ خطوط لکھ چکی ہوں۔ مانا کہ تم خطوں کا جواب نہیں دے سکتے لیکن ملنے تو آ سکتے ہو۔ کیا تم بھی مجھے ہسٹیریکل، خبطی، جنونی اور باؤلی سمجھنے لگے ہو۔ میں باؤلی نہیں ہوں۔ رجنی ہوں، وہی رجنی، تمہاری رجنی۔ لارڈ بائرن کی نظم ’دی ڈریم‘ یاد ہے نا؟ کتنے شوق سے تم پڑھ کر سناتے تھے۔ میں بھی جب تمہیں کبھی بلانا چاہتی ہوں تو وہی نظم پڑھتے ہوئے سو جاتی ہوں۔پہلے تم آجایا کرتے تھے لیکن اب وہ نظم بھی شاید اپنا اثر کھوچکی ہے یا پھر اب تمہاری وائبز تمہارے بس میں نہیں۔ She walks in beauty پڑھوں؟۔۔۔ میں بہت تھک چکی ہوں۔۔۔ محاذ جنگ سے پسپائی کی خبر لے کر آنے والے حوصلہ پست سپاہی کی طرح جو زندگی نو کی خاطر اپنی شکست کا مہابیانیہ تخلیق کرتا ہے اوراسی کوشش میں خاک آلود ہوجاتا ہے ۔۔۔۔ زندگی کے سارے سہارے ختم ہوگئے ہیں۔ اب مجھ سے مزید مہابیانیہ تخلیق نہیں ہوپاتا۔ میں پاگل ہوجاؤں گی۔یہ لوگ مجھے تم سے ملنے نہیں دے رہے ہیں، کہتے ہیں اجازت نہیں ہے۔ تم ہی بتاو اب میں کیا کروں؟ بے کیف حال ہے، تاریک مستقبل کی تنہائیاں ہیں۔ اتنے برسوں کی دوری نے تھکا دیا ہے، مزید دوری برداشت نہیں، تم بتاؤ کیا کروں۔۔۔؟‘‘
وہ خط لکھ رہی تھی اور آنسوؤں کی لکیر کو مٹائے جا رہی تھی، سگریٹ بھی جل بجھ رہا تھا، راکھ بھی اڑ رہی تھی اور دھواں بھی۔ جان لیوا یاسیت خلیوں کو سرد کرتی جا رہی تھی۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ سب کچھ قبل از وقت جی چکی ہے، اب صرف سانسیں ہیں سو انہیں سنبھال کر رکھنا کس لئے۔ خواب میں لمس کی حدت نے وصال کی آرزو میں مزید شدت پیدا کر دی تھی۔ اسماعیل اور منصور اسے یاد آ رہے تھے۔ منصور اس کا نوجوان بانکا سجیلا بیٹا۔ قدوقامت اور شکل و شباہت میں باپ کا عکس تھا۔ البم کوالٹنے پلٹنے لگی۔ وہ سارے خوبصورت لمحے جو البم میں بند تھے سرک سرک کر باہر آنے لگے۔
یہ کوئی ۱۹۹۰ کی بات تھی انہیں وادی سے جلا وطن ہوکر شہر آرزو میں آئے ہوئے تین چار ماہ ہوئے تھے۔ بےوطنی کا عذاب اپنی جگہ پر لیکن زندگی کی تلخیاں مصروفیت کی تسکین مانگ رہی تھیں۔ اس کے والد کو آسانی سے ملازمت مل گئی، وہ اپنی مصروفیت میں مشغول ہو گئے، والدہ درودیوار کو گھر بنانے میں جٹ گئیں اور رجنی یونیورسٹی میں داخل ہو گئی۔ باپ کی خواہش تھی کہ بیٹی پڑھ لکھ کر پروفیسر بن جائے۔ کوئی شناسا نہیں، کوئی سکھی سہیلی نہیں۔ انجان شہر کی انجان فضائیں۔ یونیورسٹی کا پہلا دن بور ہی ہونا تھا۔کئی دن یوں ہی گذر گئے، اجنبی ہونے کا خوف برقررار رہا۔ اسے خبر نہیں تھی کہ کوئی ایک آنکھ اس کا پیچھا کر رہی ہے، اس کے اندر اجنبیت کا خوف دور کرنے کے لئے بےتاب ہے۔۔۔ اور پھر وہ دن بھی آ گیا کہ اسے تو آنا ہی تھا، ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہوئے آپ کب تک اجنبی یا انجان بنے رہے سکتے ہیں۔۔۔ اسماعیل نے کیمپس کے عقبی دروازے سے متصل لان میں اسے مطالعہ میں محو دیکھ لیا اور ہمت مجتمع کرتے ہوئے، عجبیت اور جھجک کے تاثر کو زائل کرنے کی غرض سے خودکلامی کرتے ہوئے نرم خرام اس کے پاس گیا۔
ایک شعر سماعت سے ٹکرایا، اس نے سر اٹھایا۔ سامنے ایک وجیہ نوجوان کھڑا تھا۔
’تو آپ غالب کو بھی پڑھتے ہیں؟‘
’آپ کو اردو آتی ہے؟‘ وہ جھینپ گیا، اسے بالکل امید نہیں تھی کہ یہ ڈری سہمی ہوئی نازک اندام پنڈتائن اردو بھی جانتی ہوگی
’آپ جو شعر خود کویا مجھے سناتے ہوئے یہاں تک آئے ہیں ۔ آجکل ابو یہی غزل سنتے ہیں اور امی کو خوب چڑھاتے ہیں‘
’آپ کیا پڑھ رہی ہیں؟‘
’لارڈبائرن کی منتخب نظمیں‘۔ اس نے لارڈ کچھ اس انداز میں کہا کہ بائرن نفی ہوتا نظر آنے لگا
’آپ صرف بائرن کہہ سکتی تھیں، لارڈ پر زور ڈالنے کی کوئی خاص وجہ؟‘
’جی میں سمجھ گئی، میں صرف ایک ہی ازم پر یقین رکھتی ہوں۔۔لائف ازم‘
’عہد رومانس کا عرج پڑھ رہی ہیں آپ! اندازہ لگا سکتا ہوں‘۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’ایک بات آپ نے کبھی غور کی ہے؟ بائرن، کیٹس اور شیلی، یہ تینوں ہم عصرمیجر پوئٹ (بڑے شاعر) جوانی میں ہی مر گئے۔ اپنی زندگی نہیں جی سکے۔ کیا وجہ ہو سکتی ہے؟‘
’گڈ پیپل ڈائی ینگ‘ رجنی مسکراتے ہوئے کھڑی ہوگئی۔
دونوں ہم مزاج تھے، رجنی کے لئے تو یہ شناشائی کا دوستی اور دوستی کا محبت میں تبدیل ہونا تھا لیکن اسماعیل کے لئے یہ اس پہلے دن سے ہی محبت تھی جب وہ جھجک کی چادر اوڑھے کلاس روم میں داخل ہوئی تھی۔ دونوں کے درمیان مذہبی اور ثقافتی بعد تھا لیکن جب محبت کا بحر بیکراں اور بےکنار ہو جائے تو کیا دوریاں اور کیا فاصلے۔۔۔ ساری رکاوٹیں خس و خاشاک میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد دونوں نے عدالت میں جاکر شادی کر لی۔ خاندان والوں نے پرزور مخالفت کی اس لئے وہ دونوں شہر سے دور مضافات میں واقع ایک غیرمانوس محلے میں آکر آباد ہو گئے جہاں کمرے سستے میں دستیاب تھے اور غلاظتیں بھی۔ یہ زندگی کے خوبصورت ترین دن تھے۔ اندیشہ ہائے دنیا و مافیہا سے بےنیاز۔ جسم و جان کے ملنے، مٹنے، پگھلنے اور لمحوں کو ابدیت عطا کرنے والے دن تھے۔ سب کچھ جاوداں تھا۔ ’ایک ویران حقیقت(کائنات) کے قلمرو‘ میں ہر چیز جامد و ساکت اور ہر شئی گردش افلاک کے دائرے سے باہر تھی۔۔۔ صرف دو وجود کے علاوہ۔۔۔ عالم وصل کی سرگوشیاں، سرگوشیوں کی منقبت اور اس کی نکہت سے معطر ہونے والے درو دیوار، کواڑ، کھڑکیاں، شیشے اور مدھم نیلی فام روشنی!!! جنت اس لمحے سے بہتر کیسے ہو سکتی ہے، اگر ہے تو نہیں ہونی چاہئے!!! دونوں کوزہ گر تھے ،اپنے اپنے ہنر آزما رہے تھے۔ منصور اسی باہمی کوزہ گری کا منتہائے کمال تھا۔
سگریٹ بجھ گیا، ایک تصویر پر نظر منجمد ہو گئی۔ منصور اپنے باپ کی گود میں تھا۔ اسماعیل کے چہرے پر زندگی سے بھرپور مسکان تھی اور تخلیق اپنے خالق سے یوں بےخبر تھی گویا اس نے خالق کی تخلیق کی ہے۔۔۔ وہ سوچنے لگی کہ یہ خوشیاں ٹھہر کیوں نہیں جاتیں، یہ غم مستقل کیوں رہتے ہیں، ہم نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ میرا شوہر pacifist (ہر حال میں امن کا قائل) نہیں تھا لیکن وہ تشدد کا بھی حامی نہیں تھا۔ وہ تو زندگی سے بھرپور تھا، جینے کا استعارہ تھا۔ تصویر پر نظریں گاڑے وہ سوچے جارہی تھی۔۔۔ سوچے جا رہی تھی۔۔۔ اور پھر البم سرک کر ایک طرف کو لڑھک گیا۔۔۔
اسماعیل کو ایک کالج میں تقابلی ادب پڑھانے کے لئے لکچررکی نوکری مل گئی، منصور جب دودھ چھوڑنے کی عمر کو پہنچا تو رجنی نے بھی ایک اسکول میں نوکری کر لی۔ رجنی، اسماعیل، منصور اور محبت۔ زندگی مکمل تھی۔ سب کچھ سبک اور مست گام چل رہا تھا۔ اسماعیل کی شناخت بھی اس کی کمیونٹی میں مستحکم ہو رہی تھی۔ عاجزی کا پیکر اور نہایت ہی ملنسار۔ کوئی غرور نہیں، سیدھا سادا راست باز انسان جو اپنے طلبا کو شدت سے ایک بات کی تلقین کرتا تھا کہ نارمل ہونا اور ہنا دونوں انسان کے لئے مشکل ترین کام ہے۔محلے کے دیگر زعماء و مشائخین میں اس کے رائے مشوروں کی اہمیت تھی۔ اس کے کردار اور معاملہ فہمی سے لوگ متاثر تھے۔ وقت تیزی سے گزرتا گیا، ایک سیاسی مبصر اور انسانی حقوق کے فعال کارکن کے طور پر لوگ اسے جاننے لگے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ ملک کے حالات اچانک خراب ہونے لگے، فرقہ پرستی، دہشت گردی اور نسلی و مذہبی تفاخر کے واقعات میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ ایک بڑی کمیونٹی کے شدت پسندمذہبی جنونی ایک چھوٹی کمیونٹی کے ہین بھاؤناؤں سے گرست اساس پرستوں کے خلاف برسرپیکار ہو گئے۔ نتیجہ کمیونٹی کا ہر ’قدآور‘ شخص راڈار پر تھا۔ بسوں، ٹرینوں، مندروں، مسجدوں اور سیاحتی مقامات پر دھماکے معمول کا حصہ ہو گئے، پولیس کی چھاپہ مار کارروائی شروع ہوئی، ایک ہی رات میں ایک معینہ علاقے سے ہزار سے زائد نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا اور پھر ایک فہرست تیار کی گئی اور ان تمام لوگوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا گیا جو کمیونٹی کی تعمیر میں کوئی مثبت کردار ادا کر سکتے تھے۔۔۔ اسماعیل کے اوپر دہشت گردوں، بنیاد پرستوں نیز علیحدگی پسندوں کو فکری تعاؤن فراہم کرنے اور نوجوانوں کو دیش کے خلاف ورغلانے کا الزام تھا۔ وجہ ؟ وجہ اس کی بیوی تھی۔ رجنی کول۔
’’ڈیئرہزبینڈ
یہ پہلی چٹھی ہے۔اب چٹھیوں کے ذریعہ ہی ہماری بات ہو پائےگی۔ میں تم سے ملنے آئی تھی، منصور بھی ساتھ میں تھا اور رجنی گندھا کا پھول بھی۔آپ کو شاید وقت کا پتہ نہ چل پاتا ہو اس لئے بتارہی ہوں کہ منصور اب گیارہ سال کا ہو گیا ہے، کبھی کبھی اکیلے میں روتا ہے، میں بھی روتی ہوں، ہم دونوں روتے ہیں ایک دوسرے سے چھپ چھپ کر۔ میں اسے لے کر آئی تھی کہ تم اسے سمجھا دو لیکن چوکیدار نے اندر نہیں آنے دیا۔ جھڑک دیا۔کہا گیٹ پر آویزاں نوٹس بورڈ پڑھو، جلی حرفوں میں لکھا ہواہے ’عورتوں کا قبرستان میں داخلہ ممنوع ہے‘۔ امام صاحب سے میں نے بات کرنے کی کوشش کی، انہوں نے منع کر دیا۔ پھر جب میں منت سماجت کرنے لگی تو انہوں نے کہا کہ وہ نامحرموں سے بات نہیں کرتے، پھر منصور نے ان کے ہاتھ پکڑ لئے، رونے لگا۔ امام صاحب نے کوئی ایک حدیث پڑھی’صدمے کے موقعہ پر صبر ہی بہتر ہے‘ اور منصور سے کہا کہ اپنی امی کی طرف سے تم جاکر فاتحہ پڑھ آؤ۔ منصور کو سمجھائے کہ نہیں، پھول سونگھے یا نہیں۔ تمہارے پسندیدہ پھول۔ اس کی خوشبو نے تمہیں کچھ یاد دلایا کہ نہیں۔ منصور جب واپس آ رہا تھا تو امام صاحب نے اسے اپنے پاس بلایا۔ مجھے گیٹ کے باہر سے سب نظر آ رہا تھا۔ امام صاحب قبرستان کی راہداری میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ منصور مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ امی مسلمان کیسے ہوا جاتا ہے۔ امام صاحب کہہ رہے تھے کہ امی سے کہیں کہ وہ ایمان لے آئیں۔ ڈیئر ہزبینڈ تم کن لوگوں کے درمیان رہتے تھے۔۔۔ گڈ پیپل ڈائی ینگ۔ آئی مس یو، آئی لو یو۔۔۔ رجنی اسماعیل کول۔‘‘
رجنی اسماعیل ہمت ہارنے والی خواتین میں سے نہیں تھی۔ وہ وادی سے ۹۰ میں ہونے والی خونریز مہاجرت کا حصہ تھی، تیل، نمک، شکر اورسالن کا تبادلہ کرنے والے پڑوسیوں کا ذائقہ دفعتاً بدل گیا تھا۔ وہ خون مانگ رہے تھے اور زمین جائداد بھی،چھپنے کے لئے جگہیں نہیں تھیں۔ ایک آگ کا دریا پار کرکے آئے تھے۔ اس نے پولیس کے خلاف فرضی تصادم کا مقدمہ دائر کر دیا۔ کیس چلتا رہا، دن گزرتے رہے، عمر ڈھلتی رہی، اذیتیں بڑھتی گئیں، منصور بڑا ہوتا گیا، کچھ خلا کم ہوا، انصاف لٹکا رہا، بالوں میں سفیدی اترنے لگی اور پھر منصور نے مژدہ سنایا کہ اسے ایک بڑی کمپنی میں ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ میں ملازمت مل گئی ہے۔ زخم خوردہ زندگی کچھ اندمال فراہم کرنے لگی تھی۔
’منصور! یہ والا پرفیوم لگالے، یہ تیرے ابو کو بہت پسند تھا۔‘
دونوں ماں بیٹے اسماعیل سے ملنے گئے۔ رجنی گندھا کا گلدستہ بنوایا۔ وہ آہنی صدردروازے کے باہر ایک کونے سے لگ کر کھڑی رہی اور منصور کی واپسی کی راہ دیکھنے لگی۔ اسی دوران کچھ جنازے بھی اندر گئے اور کچھ چیرتی ہوئی نظریں بھی۔ منصور واپس آتے ہی اپنی امی پر برس پڑا۔
’امی ! آپ نے گلدستے میں خط کیو ں رکھا تھا؟‘
’آف کورس، تیرے ابو کے لئے‘
’آپ پاگل ہوگئی ہیں‘
’ہو سکتا ہے، مجھے یقین تھا کہ تیرے ابو خط پڑھنے کے لئے ضرور باہر آتے، تجھے بتانا چاہئے تھا کہ ابو امی نے خط لکھا ہے، ادھر چھوڑے جا رہا ہوں، ضرور پڑھنا۔‘ وہ منصور پر برس پڑی۔
منصور نے کمپنی جوائن کر لی، رجنی نہیں چاہتی تھی کہ منصور گھر سے باہر رہے، وہ ہر اس ملازمت کے خلاف تھی جس میں گھر سے باہر رہنا پڑے لیکن منصور کی ضد اور منطق کے سامنے کہ ساری عمر گھر میں تو نہیں بیٹھ سکتا گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی۔ منصور کو گئے ہوئے دو ماہ ہو گئے تھے اور یہ دو ماہ اسے دو جنم لگ رہے تھے۔ رجنی کی بھی طبیعت کچھ خراب رہنے لگی تھی، فرضی تصادم کا کیس ہار چکی تھی، اس کا دل بہت گھبرا رہا تھا، کوئی بہت برا خواب دیکھا تھا اور اب اس طرح کے خواب مسلسل آنے لگے تھے۔وہ صبح سے ہی اداس، ادھر مری بیٹھی تھی، اس نے منصورکو فون کیا اور ملازمت چھوڑ کر فوراً گھر آنے کے لئے کہا۔ منصور نے اسے تسلی دی کہ جلد ہی اسے ایک ہفتے کی چھٹی ملنے والی ہے۔ لیکن منصور نہیں آیا۔
’’ڈیئر ہزبینڈ
یہ شاید آخری چٹھی کا آخر ی پیراگراف ہے۔ تم منصور کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ وہ مجھ سے ملنے آ رہا تھا اور تمہارے پاس چلا گیا، اس نے غلط وقت پر غلط ٹرین پکڑ لی تھی، تمہارے پاس گئے ہوئے کئی ماہ ہو گئے ہیں۔ ابھی تم ملے نہیں؟ تمہارے ہی بغل میں اسے دفنانے کے لئے کہا تھا۔ مجھے یہ لوگ اندر نہیں آنے دیتے۔ روز قبرستان جاتی ہوں، گھنٹوں کھڑی رہتی ہوں اور دروازے کو چھو کر آ جاتی ہوں، گھر میں رہ کر کیا کروں، تم اور منصور ایک ساتھ ہو، میں یہاں اکیلی کیا کروں۔۔۔ درو دیوار کاٹتے ہیں۔ نبض تھمی جا رہی ہے۔۔۔ کیا کروں۔ سانسیں جب تب اکھڑنے لگتی ہیں۔ اب اور کتنا ظلم دیکھوں گی۔ اب اس سے بڑا ظلم اور بھی کچھ ہو سکتا ہے کہ میری دو جانیں یہیں سپرد خاک ہیں اور مجھے وہ مٹی تک دیکھنے کی اجازت نہیں جو تم دونوں نے پہن رکھی ہیں۔ منصور ایک مشت مٹی اور ایک کنکر لے آیا تھا۔ اب تو وہ بھی لانے والا کوئی نہیں۔۔۔ اب مٹی کون لائےگا، کنکرکون دےگا۔۔۔ اب رہا نہیں جاتا۔۔۔ اب رہا نہیں جاتا۔۔۔ اب نہیں رہ پاؤنگی۔۔۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح صبح سب انسپکٹر بھونسلے فون پر کسی کو گالیاں دے رہا تھا کہ اسی ثناء میں ڈپٹی پویس کمشنر رام کدم کی گاڑی احاطے میں داخل ہوئی۔
رام کدم: بھونسلے! وہ لیڈی رائٹر یاد ہے تم کو؟
کون سر؟ وہ رجنی کول؟ جس نے اپنے ایس ایس پی صاحب کو چھوڑ کر ایک محمڈن لونڈے سے شادی کر لی تھی؟
’شٹ اپ! لاش پوسٹ مارٹم کے لئے دے کر آ رہا ہوں۔ جتنی جلد ممکن ہو سکے نذرآتش کر دینا‘
مصنف:محمد ہاشم خان