ستم دوست کا گلہ کیا ہے
سنبھل اے دل تجھے کہا کیا ہے
نگہ ناز کو نہ دو تکلیف
دل میں اب یاس کے سوا کیا ہے
جس کو مرنے کی بھی امید نہ ہو
اس کی حسرت کو پوچھنا کیا ہے
یوں ہی انجام بن کے پھر پوچھو
مجھ سے تم میرا مدعا کیا ہے
سامنے ہے وہ جلوۂ رنگیں
یہ فریب نظر ہے یا کیا ہے
جی اٹھے اب بھی تم جو آ جاؤ
ورنہ بیمار میں رہا کیا ہے
شاعر:ظفر احمد صدیقی