ایک بار میرے ایک خوش پوش دوست نے بھی اس کا ذکر کیاتھا لیکن میں نے اس کی بات پر کوئی خاص دھیان نہ دیا۔۔۔ سوچا تھا اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب کوئی ایک شہر کا آدمی دوسرے شہر میں آتا ہے تو اپنے شہر کے بارے میں ایسے ہی بڑھاچڑھاکر قصے بیان کرتا ہے جن سے کچھ سادہ لوح لوگ اتنے متاثر ہوتے ہیں کہ ریل گاڑیوں میں بھیڑ بڑھ جاتی ہے۔
لیکن اس روز جب میری بیوی نے وہ داستان سنائی (اور پھر موقع موقع کی بات ہوتی ہے۔ چوٹ کا مزہ تو جبھی آتا ہے جب لوہا گرم ہو) تو میں اس کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگیا۔۔۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس وقت تک میں بالکل ٹوٹ چکا تھا۔
کچھ دن پہلے میں نے ایک انگریزی فلم دیکھی تھی جس میں ایک عجیب و غریب پانی کا جانور تالاب میں اپنے کرتب دکھاتا تھا۔ لوگ تالاب میں سکے پھینکتے تھے اور وہ جانور تالاب کی تہہ میں سے وہ سکے اپنےمنہ میں دباکر لاتا اور اپنے مالک کی ہتھیلی پر رکھ دیتا۔ لوگ خوشی سے تالیاں بجاتے اور مزید سکےپھینکتے۔۔۔
میں نے سوچا تھا اگر ایک جانور یہ کام کرسکتا ہے تو میں کیوں نہیں کرسکتا؟ (گو وہ کسی دوسرے ملک کی بات تھی) اس سے لوگوں کی دل جوئی بھی ہوگی اور میں بھی دھندے سے لگ جاؤں گا۔ پھر سوچااگر لوگوں کو یہ پتہ چل گیا کہ جو کام دوسرے ملک میں ایک جانور کرتا ہے یہاں میں کر رہا ہوں تو بڑی سبکی ہوگی۔۔۔ لیکن لوگوں کو معلوم ہی کیوں کر ہوگا؟ آخر کتنے لوگ ہیں جو انگریزی فلم دیکھتے ہیں۔ یہاں کے عوام تو اسے میرا اوریجنل آئیڈیا ہی سمجھیں گے۔
ہاں تو لوہا گرم تھا (یعنی میں وہ کام کرنے کے لیے اپے آپ کو تیار کرچکا تھا جو دوسرے ملک میں جانور کرتا تھا) کہ میری بیوی نے اس جادوئی داستان کی چوٹ لگائی۔
آدھی رات کا وقت تھا۔ سارا شہر اندھیرے میں ڈوب چکا تھا اور سڑکوں کے کنارے بجلی کے کھمبے اپنے ہاتھوں میں چراغ لیے مؤدب کھڑے تھے۔ میرے قدموں کی آواز سناٹے میں دور دورتک گونج پیدا کر رہی تھی اور مجھے رہ رہ کر احساس ہو رہا تھا کہ یہ دو قدموں کی نہیں چار قدموں کی آواز ہے۔ میں پلٹ کر دیکھتا کہ وہ کون ہے جو میرے پیچھے چلا آرہا ہے۔ لیکن دور تک کوئی دکھائی نہ دیتا۔ میں قدرے خوف زدہ ہوجاتا اور پھر سیدھا چلنے کی کوشش کرنے لگتا۔ کیوں کہ میں شراب کے نشے میں دھت تھا۔
گلی کے نکڑ پر کھڑے ہوکر میں نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی، اپنے اعصاب پر مکمل قابو پانے کے لیے، تاکہ کوئی اڑوسی پڑوسی آجارہا ہو تو میرے لڑکھڑاتے قدموں سے اس پر یہ ظاہر نہ ہوسکے کہ میں نشہ میں ہوں۔
اچانک مجھےمحسوس ہوا کہ میرے قریب تھوڑے ہی فاصلے پر کوئی کھڑا مجھے گھور رہا ہے۔ میں نےیک دم پلٹ کر دیکھا لیکن وہاں دور دور تک کوئی نہ تھا۔ سوائے اس کے کہ ایک درخت کی شاخ پر سے کوئی پرندہ چیخ کر اڑا اور پھر اندھیرے میں گم ہوگیا۔ میں نے سوچا وہ محض میرا وہم تھا۔۔۔ وہاں کوئی نہیں ہے۔ بھلا ایسا کون ہوگا جو مسلسل اپنا وقت ضایع کرے گا اور مجھ بے مصرف آدمی کاتعاقب کرتا پھرے گا۔ لیکن یہ خیال کہ میرا باقاعدہ تعاقب کیا جاتا ہے پھر بھی میرے ذہن سے نہ نکل سکا۔
میں نے بڑے نپے تلے قدم اپنےگھر کی طرف بڑھانے شروع کیے۔ میرے مکان کے بالکل باہر کارپوریشن کی بجلی کا کھمبا ہے جس کی روشنی میرے گھر کو منور کیے رہتی ہے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے۔ لیکن اس کی روشنی کی وجہ سے میری بیوی کی نیند حرام ہوجاتی ہے۔ ایک دو بار تو اس نے غصہ میں آکر بلب کو پتھر مار کر توڑ بھی دیا تھا۔ لیکن کارپوریشن کے مستعد کارندے آئے اور پھر نیا بلب لگاگئے۔ میری بیوی بے بسی سے انھیں دیکھتی رہی اور ایک سرد آہ بھر کر خاموش ہوگئی تھی۔
بجلی کے بلب کی روشنی میں، میں نے اپنےگھر کو منور دیکھا، دہلیز پر میری بیوی اپنے تینوں بچوں کے ساتھ بیٹھی میرا انتظار کر رہی تھی۔ سامنے والے مکان کے چبوترے پر ہماری پڑوسن کھڑی میری بیوی سے باتیں کر رہی تھی جنھیں میری بیوی بظاہر بڑی توجہ سے سن رہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ کل جو وہ لوگ اس کے خاوند کو نشہ کی حالت میں دھت ٹیکسی میں ڈال کر لائے تھے تو یہ سب دشمنوں کا کیا دھرا تھا۔ انھوں نے زبردستی اس کے خاوند کو شراب پلادی تھی۔
’’ٹھیک کہتی ہو بہن یہ دشمن نگوڑے کسی کے پیچھے نہ پڑجائیں!‘‘ میری بیوی نے جواب دیا اور اچانک مجھے خیال آیا کہ کوئی میرے پیچھے پیچھے چلا آرہا ہے۔ میں نے بوکھلاکر پیچھے دیکھا۔ لیکن وہاں دور دور تک کوئی نہ تھا۔ صرف میرے اپنے قدموں کی آواز سارے میں گونج رہی تھی۔ میں ایک بار پھر سنبھل کر بالکل سیدھا چلنے کی کوشش کرنے لگا۔
مجھے دیکھ کر سامنےوالے مکان کے چبوترے پر سے وہ پڑوسن اندر اپنے گھر چلی گئی۔ میری بیوی کی گود میں سر رکھے اونگھتے ہوئے میرے بچوں نے سراٹھاکر میری طرف دیکھا اور میری بیوی اٹھ کھڑی ہوئی۔
میری بچیاں میری ٹانگوں سے لپٹ گئیں اور میرا لڑکا تھوڑے فاصلہ پر کھڑا ہوکر مجھے گھورنے لگا۔ جیسے ہی میری آنکھیں اس سے چار ہوئیں، میں اچانک خوف سے کانپ گیا اور میرا سارا نشہ ہرن ہوگیا۔ میری بیوی کہنے لگی، ’’سامنے والے بیکنٹھ پرساد کے پیچھے دشمن بہت بری طرح پڑگئے ہیں۔ کل انھوں نے زبردستی اسے شراب پلادی تھی۔‘‘
میرالڑکا اندر چپ چاپ چلا گیا تھا۔ اس نےمجھے کچھ نہیں کہا تھا لیکن میں نے محسوس کیا کہ وہ اتنا بڑا ہوگیا ہے کہ اس سے آنکھیں ملانے کے لیے مجھے اپنی پوری زندگی کی بے اعتدالیوں کاجائزہ لینا پڑے گا۔۔۔ میں آنگن میں سے ہوتا ہوا آہستہ آہستہ کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا آنگن میں میرے قدموں کی چاپ ابھری تو اچانک باہر گلی میں بھی کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی، میں نے بچیوں کو ٹانگوں سے الگ کیا، تیزی سے دروازے تک گیا اور جھانک کر باہر دیکھا۔
کارپوریشن کے بلب کی روشنی میں، مجھے اپنے مکان سے تھوڑے فاصلے پر ایک سایہ منڈلاتا دکھائی دیا۔ غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ وہ ایک دراز قد آدمی ہے جس نے سر پر فلیٹ ہیٹ رکھا ہوا ہے جس کا اگلا کونا پیشانی پر جھکا ہوا ہے۔ اس نے لمبا اوور کوٹ پہن رکھا ہے جس کا رنگ اندھیرے میں پہچانا نہیں جاسکتا۔ کالی پتلون کے نیچے سیاہ بوٹ ہیں جن کی ایڑیاں زمین سے ٹکراکر آواز پیداکرتی ہیں۔ وہ بالکل انگریزی فلموں کے ڈیٹیکٹو کی طرح لگ رہا تھا۔۔۔ ’’اف خدایا! یہ انگریزی فلمیں ہماری زندگی میں اس طرح کیوں گھستی چلی آرہی ہیں؟‘‘ میں بڑبڑایا اور آواز دی، ’’کون ہو تم؟‘‘
وہ آدمی رکا اور اس نے پلٹ کر دیکھا۔ مارے خوف کے میری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ اس آدمی نے جس طرح سفید دستانے پہن رکھے تھے ویسی ہی سفید بینڈیج Bandage اس کے چہرے کے گرد لپٹی ہوئی تھی۔ مجھے فوراً خیال آیا۔ یہ تو H.G.Wells کا Invisible Man ہے جس کی فلم آج کل ٹیلی ویژن پر قسط وار دکھائی جارہی ہے۔
’’اف خدایا!۔۔۔ پھر وہی انگریزی فلم۔۔۔؟ میرے ذہن میں میری آواز گونجی اور اس سے پیش ترکہ میں خوف کے مارے دروازہ بند کرلیتا وہ آدمی تیزی سے بھاگنے لگا اور پھر گلی کے آخری سرے پر پہنچ کر اندھیرے میں گم ہوگیا۔ اس کے بھاگتے ہوئے قدموں کی آواز گونجی اور پھر آہستہ آہستہ دور جاکر ختم ہوگئی۔ میں نے دروازہ بند کیا اور اندر کی طرف پلٹا۔
’’کون تھا؟‘‘ میرا بیٹا سامنے کھڑا مجھ سے پوچھ رہا تھا۔
’’ہونہہ۔۔۔ م۔۔۔معلوم نہیں شاید Invisible Man تھا،‘‘ میں نے بتایا اور چور نظروں سے اس کے چہرے پر دیکھ کر اندر کی طرف بڑھ گیا۔ کارپوریشن کے بلب کی روشنی میں میرے بیٹے کاچہرہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اس کی نظریں میرے اندر تک دھنسی جارہی تھیں۔
میں بستر پر لیٹا ہوا سگریٹ کا دھواں اڑا رہا تھا۔ بچے سب سوگئے تھے اور میری بیوی گھر کے کام کاج سےنپٹ کر تولیے سے ہاتھ پونچھتی ہوئی میرے بستر پر آبیٹھی۔ میں نے اپنا ہاتھ بڑھاکر اس کا شانہ سہلانا شروع کیا۔ اس نے پلٹ کرمیرے چہرے پر دیکھا پھر قدرے متفکر ہوکر بولی، ’’یہ آپ کی آنکھوں میں ڈر سا کیسا ہے؟‘‘
’’ڈر؟۔۔۔ نہیں تو!‘‘ میں نے اپنا چہرہ دوسری طرف پھیرتے ہوئے کہا اور سگریٹ کا ٹکڑا ایش ٹرے میں کچل دیا۔
’’بتی بجھادوں؟‘‘
’’بتی؟۔۔۔ نہیں۔۔۔ ہاں۔۔ ہاں بجھادو بجھادو!‘‘ میں نے بے دھیانی سے جواب دیا کہ میرے حلق میں ہکلاہٹ کے ہلکے ہلکے جھٹکے سے لگے۔
اس نے بتی بجھادی۔۔۔
لوہا گرم تھا۔۔۔ بس ایک ہی چوٹ سے کام ہوگیا۔ تب اس نےبتایا کہ میرے اس خوش پوش دوست کابتایا ہوا وہ قصہ اب زبان زدِخاص و عام ہوچکا ہے اور اکثر لوگ اس کے بارے میں جان کر یقین کرنےلگے ہیں اور قدرتی ہے کہ ریل گاڑیوں میں بھیڑ بڑھ گئی ہوگی۔
اس نئے شہر میں اپنے اس خوش پوش دوست کو ڈھونڈ نکالنا بڑا جوکھم کا کام تھا کہ اکثر لوگ خوش لباس تھے اور دور سے ایک ہی سے لگتے تھے۔ بس فرق اس وقت محسوس ہوتا جب پتہ چلتا کہ دوست نہیں ہیں صرف خوش لباس ہیں۔
اس کام میں مجھے ایک برس لگ گیا اور ایک برس کے بعد بھی دوست نہ ملا صرف اس کے بارےمیں خبر ملی کہ عرصہ ہوا وہ مرچکا ہے۔۔۔ اس کا مرجانا کوئی ایسی حیران کن بات نہ تھی کہ لوگ مرتے ہی رہتے ہیں۔ (یہ الگ بات ہے کہ اپنے عزیز کے مرنے کا غم ہمیں جس طرح اٹھانا پڑتا ہے وہ صرف ہم ہی جانتے ہیں) حیران کن وہ صورتِ حال تھی جس میں اس نےجان دی۔ وہ قصہ ناقابلِ یقین ضرور تھا لیکن اس کی تفصیل اس قصہ سےملتی جلتی تھی جو اس نے ایک بار مجھے سنایا تھا اور پھر میری بیوی نے بھی جس کی تائید کی تھی۔ اور جس میں ایک عورت کا ذکر تھا۔
شکل و صورت معلوم ہونے کے باوجود اتنے بڑے شہر میں اس عورت کو ڈھونڈ نکالنا آسان کام نہ تھا۔ سہولت کی صرف ایک ہی بات تھی کہ سب نے بتایا تھا جدھر سے وہ گزرتی ہے اس کے پیچھے ان گنت لوگ چل رہے ہوتے ہیں اور اس طرح کہ کسی کو شک تک نہ ہو کہ وہ سب اس عورت کا تعاقب کر رہے ہیں۔ کئی بار بازار میں چلتے چلتے ایسا محسوس ہوتا کہ بہت سے لوگ ایک ہی سمت میں جارہے ہیں اورایک دوسرے سے نظریں بچارہے ہیں میں بھی ان کے ساتھ ہولیتا۔ بازاروں میں میلوں میل چلتا جاتا اور آخر پتہ چلتا کہ سب لوگ گلیوں اور گلیاروں میں سے ہوتے ہوئے بکھر گئے ہیں اور میں اکیلا رہ گیا ہوں اور میرے آگے کوئی ایسی عورت نہیں جارہی ہے (جس کی شکل و صورت کی تصویر میرے ذہن میں محفوظ ہے) جس کا کہ تعاقب کرنے کا مجھے لوگوں پر شبہ ہوا تھا۔
ایسے موقعہ پر جب کہ میں بالکل تنہا رہ جاتا اور دور دور تک کوئی دکھائی نہ دے رہا ہوتا تو ایکا ایکی کسی دوسرے آدمی کے قدموں کی آواز مجھے اپنے پیچھے گونجتی ہوئی محسوس ہوتی۔ میں مارے خوف کے پلٹ کر دیکھتا تو H.G.Wells کا Invisible Manدور سے میرا تعاقب کرتا دکھائی دیتا اور جیسے ہی وہ دیکھتا کہ میں اس کی موجودگی سے باخبر ہوگیا ہوں وہ بھاگ کھڑا ہوتا۔
بات صاف تھی۔ جب ٹیلی وژن کی اسکرین پر اسے دوڑتے بھاگتے، کار چلاتے اور مجرموں سے مارپیٹ کرتے میں نے دیکھا تھا تو ضرور اس نے بھی مجھے تماشائیوں میں دیکھ کر پہچان لیا ہوگا۔ میں نےبھی اس کے بینڈیج میں چھپے ہوئے چہرے پر آنکھوں کی جگہ دو چھوٹے چھوٹے سوراخ جھانکتے دیکھے تھے۔
اس نے ان سوراخوں میں سے مجھے پہچان لیا اور ٹیلی وژن کے پردے میں سے نکل کر میرا تعاقب کرنا شروع کردیا۔ مگر۔۔۔ مگر یہ تو اس شہر کی بات ہے۔۔۔ میرا ہی تعاقب کیوں اور پھر اس شہر سے اس شہر تک؟ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی اور اس کے بھاگتے ہوئے پاؤں اپنے سیاہ جوتوں سمیت میرے ذہن میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ اس کے قدموں کی آواز میرے اندر گونج رہی تھی اور دو تیز چمکتی ہوئی آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں جو شاید میرے بیٹے کی آنکھیں تھیں۔
میں عجب تذبذب میں تھا۔۔۔ کہ میں جس کاتعاقب کرنا چاہتا تھا وہ بھی ایک Invisible شخصیت تھی اور ایک Invisible Man میرا تعاقب کر رہا تھا۔ میں جس مقصد کے لیے تعاقب کرنا چاہتا تھا وہ معلوم تھا اور وہ جس مقصد کے لیے میرا تعاقب کر رہا تھا، معلوم نہ تھا۔
آخر ایک دن وہ گھڑی آن پہنچی۔۔ اور یہ سچ ہے کہ کون سا لمحہ کب آئے گا، کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ میں کئی دن سے گلیوں اور بازاروں کی خاک چھانتا پھر رہا تھا ایک شام تھک ہار کر سمندر کے کنارے پھیلی ہوئی ریت پر نڈھال ہوکر گرگیا۔۔۔ میرے جسم کا انگ انگ دکھ رہا تھا۔ نرم نرم ریت نے مجھے قدرے سکون پہنچایا ہلکی ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا آیا اور میری آنکھ لگ گئی۔۔۔
ایکا ایکی شور بلندہوا۔ میں نے دیکھا بہت سے لوگ اپنے سروں پر دیوتاؤں کی مورتیاں اٹھائے سمندر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اور دیوتاؤں کی حمد و ثنا گاتے ہوئے ان مورتیوں کا سمندر میں وسرجن کرتے ہیں۔۔۔ اورشور مچاتے ہوئے سرجھکاکر ایک طرف کھڑے ہوجاتے ہیں۔
آہستہ آہستہ اندھیرا پھیلنے لگا۔ مورتی وسرجن کرنےوالے لوگ ایک ایک کرکے اپنے گھروں کو لوٹنےلگے۔ ساحل پر لہروں کی سرگم کے علاوہ اور کوئی آواز نہ تھی۔۔۔ میں لیٹے لیٹے یہ سارا منظر دیکھتا رہا۔ میں نے وہ چہل پہل بھی دیکھی تھی۔ دھندلکے میں منتر پڑھے جانے کی آوازیں بھی سنی تھیں اور اب اندھیرے میں اس خاموشی کو بھی محسوس کر رہا تھا۔۔۔ لہریں آگے بڑھ کرچپ چاپ ساحل پر پھیل جاتیں۔ میں دور، بہت دور سمندرکی وسعت اور اندھیرے کے سنگم میں کھوچکاتھا کہ اچانک میرے کانوں میں کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ میں ڈر گیا۔
’’ضرور یہ وہی Invisible Man ہوگا!‘‘ میں نے سوچا اور جھٹ سے اپنی نظریں گھماکر دوسری سمت دیکھا۔ وہاں کوئی نہ تھا۔
میں نے نظریں پھر سمندرکی وسعت پر گاڑدیں۔ مجھے آہستہ آہستہ ’’شڑاپ شڑاپ‘‘ کی مدھم سی آواز سنائی دی اور پھر حدِنظر پر اندھیرے میں ایک روشن سا نقطہ ابھرتا نظر آیا جو لمحہ بہ لمحہ بڑا ہوکر قریب آتا جارہا تھا۔۔۔
وہ ایک ادھیڑ عمر کی عورت تھی جس کے چہرے پر جوانی ابھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تھی۔ وہ سر سے پاؤں تک ہیرے جواہرات سے جڑے زیورات سے لدی ہوئی تھی۔ اور اس کا لباس ان دیویوں جیسا تھا جن کا ذکر دیوکتھاؤں میں آتا ہے۔ جب وہ قریب سے گزری تو میں نے غور سے دیکھا۔ میری آنکھیں خیرہ ہو اٹھیں اور ایک کوندا سا میرے ذہن میں لپکا۔ وہ بالکل وہی عورت تھی جس کاذکر میرے اس خوش لباس مرحوم دوست نے کیا تھا اور پھر میری بیوی نے اس کی تائید کی تھی۔
تو گویا اس طلسمی داستان کا آغاز ہوگیا۔ میں نے سوچا اور اٹھ کر اس عورت کا تعاقب شروع کردیا۔ بالکل اسی انداز سے جس انداز سے کہ میرا تعاقب H.G.Wells کا Invisible Man ایک عرصہ سےکر رہا تھا۔
ساحل پر سے گزرتی ہوئی وہ عورت ایک سڑک پر چلنے لگی۔ عجیب شاہانہ چال تھی۔ گردن بالکل اکڑی ہوئی، نگاہیں بالکل سیدھی جیسے مستقبل پر ٹکی ہوں۔ وہ بالکل بے پروا بے نیازانہ چلی جارہی تھی کہ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ وہ لوگ جو اس روز گلیوں اور گلیاروں میں بکھر کر گم ہوگئے تھے اور وہ لوگ جو اپنے دیوتاؤں کی مورتیاں سمندر میں وسرجن کر گئے تھے۔ سب نہ جانے کہاں سے اور کیسے آگئے ہیں اور چپ چاپ اس عورت کاتعاقب کرنے لگے ہیں اور اپنی انتہائی کوشش کر رہے ہیں کہ کسی کو اس بات کی کانوں کان خبر نہ ہو۔
عجیب حالت تھی۔۔۔ وہ داستان جس کی تفصیل مجھے کئی برس پہلے بتائی جاچکی تھی میری نظروں کے سامنے اپنی پوری جزیات کے ساتھ دہرائی جارہی تھی۔ بالکل ویسے ہی ہو رہا تھا جیسے کہ بتایا گیا تھا۔
حتی کہ سمندر کے کنارے بنا ہوا وہ قلعہ دکھائی دینے لگا جس کے طرزِ تعمیر کے بارے میں مجھے پہلے سے علم تھا۔ اس کی دیواروں کارنگ موسم کے اثر سے بالکل ویسا ہی ہوگیا جیسا کہ مجھے پہلے سے بتایا گیا تھا۔
بھیڑ ہر لمحہ بڑھ رہی تھی۔ وہ عورت پلٹ کر دیکھے بغیر چلی جارہی تھی۔ پھر اچانک وہ قلعہ کی دیوار کے سامنے جاکھڑی ہوئی۔ اس دیوار میں کوئی دروازہ نہ تھا لیکن عورت کو دیکھتے ہی دیوار نے ایک زوردار سانس لی اور اس کا سینہ غار کی طرح کھل گیا او رعورت بڑھ کر اس خلامیں سماگئی۔
سب طرف ایک کہرام سا مچ گیا۔ اسی شور و غل میں ان منتروں کی آوازیں بھی سنائی دینے لگیں جودیوتاؤں کی مورتیاں جل وسرجن کرتے وقت اچارن کیے گئے تھے۔ سب طرف مکمل اندھیرا تھا اور بے پناہ شور تھا۔
قلعہ کی دیوار پر ایک چبوترے کا ہیولا سانظرآرہا تھا۔ اس کا گنبد اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس کے اندر سے ہلکی سی روشنی آہستہ سےابھری۔ شور اک دم بندہوگیا۔
گنبد کے نیچے چبوترے پر اس عورت کاسراپا نظر آنے لگا تھا۔ پہلے روشنی اس کے پیچھے ہالہ بنائے ہوئے تھی پھر وہ خود نور میں نہا گئی۔ ویسے ہی جیسے رات کے وقت میرا گھر کارپوریشن کے بلب کی روشنی سے منور ہو اٹھتا تھا۔ وہ دنیا کی خوب صورت ترین عورت تھی۔ میں نے ایسا پروقار حسن آج تک نہیں دیکھاتھا۔ روشنی گویا اس کے وجود میں سے پھوٹ پھوٹ کر دور دور تک پھیل رہی تھی اور اس روشنی میں لوگوں کا بے پناہ ہجوم سایوں کی طرح نظر آرہاتھا۔
اس عورت نے اچانک اپنے زیوراتارنے شروع کیے اور چند زیور پوری طاقت سے ہجوم کی طرف پھینک دیے۔ زیور اس طرح لوگوں کی طرف لپکے تھے جیسے روشنی کی کرنیں لپکی ہوں۔ ان زیوروں کو اٹھانے کے لیے لوگ جھپٹے۔ دیکھتے ہی دیکھتے قیامت کا منظر نظر آیا۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہو رہے تھے۔ چیخ و پکار بلند ہوئی وہ عورت آہستہ سےچبوترے پر سے اتری اور اندھیرے میں غائب ہوگئی۔
اچانک میرے ذہن میں ایک خیال پیدا ہوگیا اور میں بے تحاشہ بھاگتا ہوا قلعہ کی پشت پر پہنچ گیا۔ میں نے دیکھا سنگین دیوار میں جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے جھروکے بنے ہوئے تھے میں ان جھروکوں میں پاؤں اور ہاتھ جماتا ہوا دیوار کے اوپر چڑھنے لگا۔ حتی کہ میں دیوار کے اوپر بنی ہوئی چوڑی سڑک پر پہنچ گیا۔ میں نے بغیر کچھ سوچےسمجھے اس سڑک پر بھاگناشروع کیا۔ ایک جگہ سے سیڑھیاں نیچے کو جاتی تھیں۔ میں نے سیڑھیوں پر سے اترنا شروع کیا اور ایک گلیارے میں سے ہوتا ہوا ایک بہت بڑے ہال میں پہنچ گیا۔
وہ ہال صدیوں پرانے فرنیچر اور آرائشی سامان سے بڑے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے سجا ہوا تھا اور بالکل خالی تھا۔ میں نے ادھر اُدھر نظریں گھماکر دیکھا وہ عورت کہیں نظر نہیں آرہی تھی، ہاں اس کا دیو کتھا کی دیویوں جیسالباس ایک کھونٹی پر ٹنگا ہواتھا۔ دور ایک ڈریسنگ ٹیبل تھا جس پر اس کے جسم کے باقی ماندہ زیور پڑے فانوس کی روشنی میں جگر مگر جگمگارہے تھے۔
’’وہ عورت کہاں گئی؟‘‘ میرے ذہن میں سوال ابھرا۔ ’’اپنے لباس اور زیوروں کے بغیر وہ عورت کہاں ہوگی؟‘‘ اچانک میری نظر ایک دیوار میں کھلے ہوئے دروازے پر پڑی جس کے اندر سے ہلکا ہلکا دھواں باہر آرہا تھا۔۔۔ میں نے آگے بڑھ کر دیکھا وہ ایک وسیع وعریض حمام تھاجو بھاپ سے بھرا ہوا تھا۔
’’ضرور وہ عورت اندر ہوگی!‘‘ میں نے سوچا۔ حمام میں ننگی، دنیا کی حسین ترین عورت! لوہا گرم ہوگا اور بس ایک ہی چوٹ سے کام ہوجائے گا۔ میرے سارے جسم میں ایک جھرجھری سی دوڑ گئی۔ میں نے پاگلوں کی طرح ادھر اُدھر گھوم کر اسے ڈھونڈنا شروع کیا۔ کافی دیر گزر گئی۔ وہ حمام بھول بھلیوں جیساتھا اورسب طرف بھاپ بھری ہوئی تھی۔ آخر اس بھاپ میں مجھے وہ عورت دکھائی دی۔ میں اس کی طرف آہستہ آہستہ بڑھنےلگا۔ وہ مادرزاد ننگی تھی اور بھاپ میں غسل کر رہی تھی۔ میں جب اس کےقریب پہنچا تو میری حیرانی کی انہتا نہ رہی۔ وہاں وہ عورت نہ تھی۔ ایک دیوار پر اس عورت کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ بالکل مادرزاد ننگی عورت کی تصویر۔
ساری بات میری سمجھ میں آگئی تھی۔ میرے اس خوش لباس دوست کی موت اس قلعہ کی دیوار پر سے کود کر ہوئی تھی۔ ظاہر ہے وہ تصویر کے اس طلسم کاشکارہوگیا ہوگا۔ اس کی سمجھ میں تصویر سے عورت اور عورت سے تصویر بننے کایہ معمہ نہ آیا ہوگا۔ وہ گھبراکر بھاگا ہوگااورآخر اسی دیوار پر سے گر کر مر گیا ہوگا جسے وہ پھاند کر اس حمام تک پہنچا ہوگا۔
میں آہستہ سےاس بھاپ بھرے حمام میں سے پھر ہال میں آیا۔ کھونٹی پر سے وہ قیمتی لباس اتارا اور اس میں ہیرے جواہرات میں جڑے ہوئے وہ زیور باندھے اور اندھیرے کی طرف بڑھنےلگا۔
میں نےقلعہ کی دیوار کے پاس ان گنت لاشیں پڑی دیکھیں اور قلعہ کوان کی موت پر افسوس سے اپنے ہاتھ ملتے دیکھا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا آگے بڑھنےلگا۔
میں نے کپڑوں اور زیوروں کی پوٹلی کو کھول کر دیکھا۔ اب میرے پاس بہت کچھ تھا، باقی مادندہ زندگی کاتحفظ۔۔۔ میں نےسوچا اب میں اپنے بیٹے کی تیکھی نظروں کے سامنے شرمسار نہیں ہوں گا۔ میری بچیاں گھبراکر اندھیرے میں میری ٹانگوں کےساتھ نہیں لپٹیں گی۔ میری بیوی کےدشمن مجھےکبھی زبردستی شراب نہیں پلائیں گے۔۔۔
اچانک میرے قریب کسی کے قدموں کی آواز گونجی۔ میں نے بغیر کسی خوف کے پلٹ کر دیکھا تھوڑے ہی فاصلہ پر H.G.Wells کا Invisible Man کھڑا مجھے گھور رہا تھا۔
میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ اب وہ یہ جان کر بھی کہ میں نے اس کو دیکھ لیا ہے بھاگانہیں ہے۔ میں نے پوٹلی پھر سے باندھی اور آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھنےلگا۔ قریب اورقریب بالکل قریب میرے اور اس کےدرمیان فاصلہ نام کی کوئی چیز نہ رہ گئی تھی۔ میں نے اپنا دایاں ہاتھ بڑھاکر اس کے کندھے پر رکھ دیا، اس کے جسم میں کوئی حرکت پیدا نہ ہوئی۔ میں نے اس کے چہرے پر دیکھا۔ اس کے بینڈیج میں لپٹے ہوئے چہرے میں سے دو آنکھیں مجھے برابر گھورے جارہی تھیں۔ میں نے ہاتھ بڑھاکر اس کا ہیٹ اتار پھینکا۔ پھر اس کے ہاتھوں کے سفید دستانے پھر اس کا لمبااوور کوٹ حتی کہ اس کے جسم پر سے میں نے تمام لباس نوچ ڈالا۔ میں نے دیکھا اس کا سارا جسم بینڈیج میں لپٹا ہوا ہے اور سفید بینڈیج پر جگہ جگہ خون کے دھبے پڑے ہوئے ہیں۔ میں نے ساری بینڈیج اتار پھینکی۔ اب وہاں سوائے بینڈیج کے ایک ڈھیر کے اور کچھ بھی نہ تھا جس پر جابہ جا خون کے دھبے تھے۔ میں نے حیرانی سے اس کے لباس اور بینڈیج کے ڈھیر کو دیکھا۔ اس کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ میں سناٹے کے عالم میں کھڑا تھا۔۔۔
اچانک مجھے محسوس ہوا کہ دو غیرمرئی ہاتھ میری طرف بڑھے ہیں اور انھوں نے آہستہ آہستہ میرا لباس اتارنا شروع کیا ہے۔۔۔
لباس کا ایک ڈھیر لباس کے دوسرے ڈھیر کا اس طرح تعاقب کر رہاتھا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہو رہی تھی۔
پھر سمندر میں سے پانی کاایک زوردار ریلا آیا اور قلعہ کی دیوارکے ساتھ ٹکڑاکر قریب پڑی ہوئی تمام لاشوں کو بہاکر لے گیا۔
مصنف:سریندر پرکاش