پھول کا پیکر زمیں
اور کبھی پتھر زمیں
ہو رہا ہوں خون خون
ہے لئے خنجر زمیں
دے دیا سارا لہو
پھر بھی ہے بنجر زمیں
رکھ دے موتی کی جگہ
ہاتھ میں کنکر زمیں
سر کے نیچے آسماں
پاؤں کے اوپر زمیں
فصل گل بوئی ہوئی
لے گئی منظر زمیں
ہر قدم پر ہے لئے
اک نہ اک محشر زمیں
پھڑپھڑاہٹ ہے بہت
چھوڑ دے شہ پر زمیں
میرا بھی بدلا مزاج
تیرا بھی تیور زمیں
مأخذ : شب شکن
شاعر:ظفر ہاشمی