وہ ایک لمحہ جو ترک تعلقات کا تھا
پھر اس کے بعد کہاں کوئی پل حیات کا تھا
جو مسئلہ تھا وہ باہم ضروریات کا تھا
مرے فرار کا اور آپ کی نجات کا تھا
زباں حجاب کی لہجہ تکلفات کا تھا
لبوں کے بیچ میں پردہ مکالمات کا تھا
وہ ایک پھول جو نازک تھا سارے پھولوں میں
اسی پہ مجھ کو گماں پتھروں کی ذات کا تھا
لرزتے کانپتے سے لب جھکی جھکی سی نظر
حیا تو آج کی تھی ذکر کل کی رات کا تھا
کسی کے دل کا جنازہ اٹھا تھا بستی سے
یوں قافلہ تو کسی لوٹتی برات کا تھا
مأخذ : بھینی بھینی مہک
شاعر:ظفر عدیم