غم سے گر آشنا نہیں ہوتا
آدمی کام کا نہیں ہوتا
اک نیا راستہ نکلتا ہے
جب کوئی راستہ نہیں ہوتا
آدمی سے خطا بھی ہوتی ہے
آدمی دیوتا نہیں ہوتا
مے کدے میں سب ایک ہوتے ہیں
کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا
عشق میں جنگ میں سیاست میں
کچھ بھی ہو ناروا نہیں ہوتا
زیست میں وہ گھڑی بھی آتی ہے
جب کوئی آشنا نہیں ہوتا
جب وہ میرے قریب ہوتے ہیں
مجھ کو اپنا پتہ نہیں ہوتا
ہے عجب دور بے وفائی کا
کوئی وعدہ وفا نہیں ہوتا
ہم نہ دیکھیں یہ اور بات ظفرؔ
وہ کہاں رونما نہیں ہوتا
مأخذ : خموش لب
شاعر:ظفر محمود ظفر