(میز پر کھانا چُننے اور چھری کانٹے رکھنے کی آواز)
بیوی: چلیئے کھانا تیار ہے۔
لڑکی: کون آرہے ہیں؟
میاں: تمہیں ابھی معلوم ہو جائے گا۔۔۔ ایک عورت آنے والی ہے۔
بیوی: عورت؟
میاں: ہاں جو ہماری ہمسایہ ہے۔
لڑکی: ہمارے پڑوس میں تو کوئی عورت نہیں رہتی۔
میاں: بھولتی ہو۔
بیوی: ایک ویشیا ہے جو کچھ دنوں سے ساتھ والے مکان میں رہتی ہے سارا دن اددھم مچائے رکھتی ہے۔ وہ تو ہو نہیں سکتی۔
میاں: وہ کیوں نہیں ہو سکتی؟
بیوی: اس لیئے۔۔۔ اس لیئے کہ۔۔۔ وہ ایک بازاری عورت ہے۔
لڑکی: سب اسے نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔
میاں: چونکہ سب اسے نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ اس لیئیمیں نے اسے دعوت دی ہے اور اپنے یہاں بلایا ہے۔
بیوی: لوگ کیا کہیں گے؟
میاں: یہ کہیں گے کہ میں نے ایک گندی عورت کو اپنے گھر بلایا ہے اور اسے اپنی بیوی اور لڑکی کے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا اس سے باتیں کیں اور پھر رخصت کر دیا۔
لڑکی: کوئی مصلحت ہوگی اس میں!
میاں: مصلحت صرف یہ ہے کہ وہ اپنی اصلاح کر سکے میں تم دونوں سے کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ انسان کی ہر وقت اصلاح ہو سکتی ہے اس لیئیکہ اس میں نیکی کا جوہر کبھی فنا نہیں ہو سکتا۔ خطرناک سے خطرناک مُجرم کے سینے میں بھی کسی کونے کے اندر نور کا ایک ذرّہ ہوتا ہے جسے اکثر چھیڑا جائے تو اس کے سیاہ دل کو منور کرنے کا موجب ہوسکتا ہے یہ ویشیا جو تھوڑے دنوں سے ہمارے پڑوس میں آئی ہے صرف جسمانی طور پر خراب ہے۔ روح ایک پاکیزہ چیز ہے اسے کوئی طاقت ملوث نہیں کر سکتی۔ خراب افعال سے صرف پردے کے پیچھے چھپ جاتی ہے جتنا زیادہ انسان بُرائیاں کرتا ہے اتنا ہی زیادہ یہ پردہ موٹا ہوتا جاتا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا ضمیر جو روح کا دوسرا اور آسان نام ہے مر جاتا ہے۔ اس پردے کو اگر آہستہ آہستہ یا ایک دم ہٹا دیا جائے تو اس انسان کا دل ودماغ پھر سے روشن ہو سکتاہے۔
بیوی: کیا آپ اس عورت کی اصلاح کر سکیں گے؟
میاں: اگر ایک چراغ سے دوسرا چراغ روشن ہو سکتا ہے تو ایک انسان دوسرے انسان کو نیکی کا راستہ ضرور دکھا سکتا ہے۔ یہ نیک کام مجھ سے ہو جائے تو مجھ سے خوش نصیب انسان اور کون ہو گا۔ دُعاکرو کہ ایسا ہی ہو۔
لڑکی: پھر بھی اس کا یہاں آنا مجھے پسند نہیں۔
میاں: لڑکی تجھے اس خیال سے ہی کانپنا چا ہیئے کہ تو ایک انسان سے نفرت کر رہی ہے۔۔۔ تجھے یاد نہیں ایسی ہی ایک ویشیا کو سنگسار کرنے والوں سے حضرت عیسیٰ نے کہا تھا’’تم میں سے جو گنہگار نہیں وہ اسے پتھر مار سکتا ہے۔ ہم سب گنہگار ہیں اس لیئے ہمیں کسی کو نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چا ہیئے۔‘‘
لڑکی: اگر وہ واقعی اچھی ہو جائے تو اس سے بہتر اور کیا ہو گا لیکن سوال یہ ہے کہ آیا وہ بھی اچھا بننا چاہتی ہے!
بیوی: دیکھیں گے۔
میاں: کوئی کام شروع کرنے سے پہلے آدمی کو اپنے اوپر اعتماد ہونا چاہیئے جب سے وہ یہاں آئی ہے میں سوچتا رہا ہوں اُٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے یہی سوچتا رہا ہوں کہ مجھ میں کیا اس کام کا بیڑا اُٹھانے کی طاقت ہے؟۔۔۔ آج پندرہ سولہ روز کے مسلسل غوروفکر کے بعد جب میں نے محسوس کیا کہ میں یہ کام کر سکتا ہوں تو میں اس کے پاس گیا مجھے دیکھ کر گھبرا گئی جب میں نے اس سے کہا۔۔۔آج رات ہمارے گھر آؤ اور شام کا کھانا میری بیوی اور لڑکی کے ساتھ کھاؤ تو وہ بھونچکاسی گئی۔۔۔ میں نے محسوس کیا کہ اس روشنی میں جو اس کے اندر دبی پڑی ہے ایک ارتعاش سا پیدا ہوا۔ اس نے بڑی کوشش سے اپنے لہجے میں شرافت پیدا کی اور جواب دیا’’آپ کی بہت مہربانی۔ میں حاضر ہو جاؤں گی‘‘۔ (دُور سے ایک فحش قسم کا ریکارڈ بجنے کی آواز آتی ہے۔ ریکارڈ بجنے کے چند لمحات بعد ہی مردانہ قہقہوں کا شور سنائی دیتا ہے جسے دو تین مرد شراب پی کر گانے کا لُطف اُٹھا رہے ہیں۔ یہ آوازیں دُور سے آرہی ہیں)
بیوی: اب وہ حاضر ہو چکی۔۔۔ یہ شورسُنا آپ نے؟
میاں: سنا۔۔۔ لیکن میں مایوس نہیں ہوا۔
بیوی: میرا کہا مانیے اور اس کی اصلاح کا خیال چھوڑیے۔
لڑکی: اور مالک مکان سے مل کر اسے باہر نکالنے کی کوشش کیجئے۔
بیوی: میں سُنتی ہوں کہ مالک مکان کو اس بات کی کچھ خبر ہی نہیں کہ اس کامکان ایک بازاری عورت نے کرائے پر لیا ہے۔
میاں: یہاں سے نکال دی جائے گی تو کہیں اور جا رہے گی۔
لڑکی: کم از کم یہاں کی غلاظت تو دُور ہوگی۔
میاں: اپنے گھر کا کوڑا کسی اور گھر کے آگے ڈھیر کر دینا عقلمندی نہیں ۔۔۔ کیوں نہ اس غلاظت ہی کو ہمیشہ کے لیئے دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
بیوی: آپ نے کوشش کی تھی۔ مگر وہ نہیں آئی۔
میاں: میں ایک بار پھر کوشش کروں گا
(عقب میں فحش گانے اور قہقہوں کا شور اُبھرتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ منظر تبدیل ہو گیا ہے اور ہم سامعین کو ویشیا کے مکان میں لے گئے ہیں۔۔۔ ریکارڈ ختم ہوتا ہے)
ایک مرد: واہ وا۔۔۔واہ وا۔۔۔ واہ وا۔۔۔
دوسر امرد: کیا کہنے ہیں سُندری بائی کے۔
تیسرا مرد: کیا ہے جو یہاں نہیں ہے‘ شراب ‘ ٹھنڈا سوڈا ‘ نئی نئی فلموں کے ریکارڈ ۔۔۔ سُندری بائی کا کوٹھا تو عجائب گھر ہے عجائب گھر۔
پہلا مرد (ہنستا ہے) عجائب گھر میں شراب ‘ ٹھنڈا سوڈا اور نئی فلموں کے ریکارڈ کہاں ۔۔۔ جو بات کرئے گا سالے عجیب ہی کرے گا۔
(سب ہنستے ہیں)
سُندری: میرا کوٹھا عجائب گھر نہیں تو چڑیا گھر ضرور ہے۔
(سب ہنستے ہیں)
پہلا مرد: رنگ رنگ کے جنور آتے ہیں۔
تیسرا مرد: سُندری بائی۔ یہ بات ٹھیک نہیں۔ ہمیں جنوربنا دیا۔۔۔ کیا ہم جنور دکھائی دیتے ہیں۔
سُندری(مسکرا کر) چڑیا گھر میں شیر بھی تو ہوتے ہیں۔ خان صاحب۔
پہلا مرد (اپنے ساتھی کی پیٹھ ٹھونک کر) واہ میرے شیر۔۔۔!
(سب ہنستے ہیں)
تیسرا مرد: باتیں کرنا کوئی سُندری بائی سے سیکھے۔
سُندری: اجی کہاں باتیں کرنا آتی ہیں۔۔۔ آج ایک ذاڑھی والے بزرگ آئے۔ ان کے سامنے تو میں بالکل گونگی ہو گئی تھی۔
پہلا مرد: کیا کرنے آئے تھے مولانا؟
سُندری کہتے تھے‘ آؤ رات کا کھانا ہمارے گھر کھاؤ۔
تیسرا مرد: آدمی مہمان نواز تھے۔
پہلا مرد: جو بات کرو گے اُلٹی۔ گدھے چند کہیں کے۔ مہمان تو وہ خود تھا سُندری بائی کا۔۔۔ ہاں توسُندری بائی پھر کیا ہوا۔ پیٹ بھرا تم نے اس کا ؟
سندری: نہیں وہ سچ مچ دعوت ہی دینے آیا تھا۔۔۔ یہ سامنے مکان ہے اس کا۔
دوسرا: کیا کہتی ہو سُندری۔۔۔ ارے وہ تو بہت بڑے وہ ہیں۔۔۔
تیسرا: کیا مطلب؟
دوسرا: وہی ۔۔۔ یعنی بڑے نیک آدمی ہیں۔۔۔ کیسے آگئے یہاں؟
سندری: بات یہ ہے کہ میرا آنا جانا یہاں لوگوں کو بہت ناگوار گزرا ہے نگوڑے چاہتے ہیں کسی نہ کسی طرح مجھے اس مکان سے دھکامل جائے اب کیا بتاؤں تم لوگوں نے ناک میں دم کر دیا۔ پڑوس کے لونڈے کوٹھوں پہ چڑھ چڑھ کر کوڑا کرکٹ پھینکتے ہیں۔ ذرا باہر نظر ڈالو۔ یہ سب ہڈیاں آج ہی پھینکی گئی ہیں۔۔۔ اب کل سویرے بھنگن آئے گی تو اٹھواؤں گی۔۔۔ میرا خیال ہے کہ وہ بھی اسی لیئے آیا تھا۔مردُود۔ یوں تو کھانے کی دعوت دے گیا تھا۔ جاتی تو مہین مہین چٹکیاں لے کر یا تو نصیحتیں کرتا یا فضیحتیں۔
تیسرا آدمی: اجی ہٹاؤ سا لے کو۔
دوسرآدمی: اچھا ہوا جو تم نہ گئیں۔ اگر چلی جاتی تو بندہ جنگل کی راہ لیتا۔ یہاں سندری کا دم بہت غنیمت ہے۔
پہلا آدمی: کیا شک ہے؟
سُندری: آگ لگے سُندری اور اس کے دم کو۔ کہیں بھی تو چین نہیں ملتا نگوڑ ماری کو ۔۔۔ در بدر کی ٹھوکریں لکھی ہیں نصیب میں۔ دیکھ لینا یہاں سے بھی چند دنوں کے بعد یہ لوگ نکال باہر کریں گے۔ اب میں کیا کہوں۔ ان سے کسی سے ملتی نہیں۔ کسی سے کچھ لیتی نہیں دیتی نہیں ۔ پھر جانے کیوں مجھ نگوڑ ماری کی جان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔۔۔ ادھر تم لوگوں کی خوشامد کروں ادھر ان کے آگے ہاتھ جوڑوں۔۔۔ دو مہینے کا کرایہ پورے اسیّ روپے پیشگی منشی ٹھونک بجا کر لے گیا تھا پھر اس مکان کا دروازہ کھولا گیا تھا۔۔۔ کچھ بھی ہو‘ اب میں نے بھی تہیہ کر لیا ہے ۔ مر جاؤں ‘ پر اس مکان سے کبھی نہ نکلوں گی۔
(دروازے پر دستک ہوتی ہے)
پہلا: یہ کون؟
سُندری: ہوٹل کا چھوکرا ہو گا۔
دوسرا آدمی: ہاں۔ خالی بوتلیں لینے آیا ہو گا۔
(دروازہ کُھلتا ہے)
سُندری: کون ہو تم؟
میاں: میں نے میری بیوی نے اور میری لڑکی نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا۔ ہم تمہارے منتظر تھے۔
سُندری: مجھے فرصت نہیں ہے‘ جاؤ۔
میاں: کتنی دیر میں فرصت ہو جائے گی ہم ایک دو گھنٹے اور انتظار کر سکتے ہیں۔
سُندری: تم دیکھتے نہیں۔ یہاں کون بیٹھے ہیں۔
میاں: دیکھ رہا ہوں۔ میرے بھائی ہیں۔ یہ بھی ساتھ چلیں۔
سُندری: اپنے ان بھائیوں کو ساتھ لے جاؤ۔ میں نہیں جاؤں گی۔
میاں : کیوں؟
سُندری: بس میں نہیں جاؤں گی۔ یہ تم ہندی کی چندی کیا کرتے ہو۔
میاں: معافی چاہتا ہوں۔۔۔ لیکن ایک بار پھر درخواست کروں گا کہ تم اپنا وعدہ پورا کرو۔ ہم دو گھنٹے اور تمہارا انتظار کر سکتے ہیں۔
سُندری: لہجے میں تندی اور تلخی پیدا ہو جاتی ہے تم چاہتے کیا ہو مجھ سے۔۔۔ دفان کیوں نہیں ہوتے یہاں سے۔۔۔ یہ جنہیں تم اپنے کہتے ہو‘ اوّل درجے کے شرابی کبابی ہیں۔۔۔ سُنا۔۔۔ یہ میرے گاہک ہیں۔ میں ان کے پاس اپنا آپ بیچتی ہوں۔ سمجھے۔۔۔ میں ایک بازاری عورت ہوں۔۔۔ ایک ویشیاکیا چاہتے ہو تم مجھ سے ؟ میں کسی کے گھر نہیں جایا کرتی۔ میری سجی سجائی دوکان موجود ہے لوگ خود چل کر یہاں آتے ہیں۔۔۔ جو مال بیچتی ہوں تمہیں خریدنا ہے تو آؤ اپنے ان بھائیوں کے ساتھ بیٹھ جاؤ۔۔۔ ایک بوتل شراب کی لاؤ ‘ پیو اور پلاؤ۔۔۔
دوسرا آدمی: سُندری۔۔۔
سُندری: خاموش رہو۔۔۔ تنگ کر رکھاہے ان شریف آدمیوں نے مجھے۔۔۔ آج تو مجھے جی ہلکا کر لینے دو۔۔۔ دن اور رات کے کھانے پر ان کے یہاں جو ہڈیاں جمع ہوتی ہیں میرے گھر کے صحن میں پھینک دی جاتی ہیں جو کوڑا اکٹھا ہوتا ہے ادھر لڑھکا دیا جاتا ہے۔ انسان کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔۔۔ اب مجھے دعوت دی جارہی ہے۔ کیوں؟۔۔۔ کیا زہر دینے کا ارادہ ہے؟
میاں: مجھے افسوس ہے بعض لوگوں کی جہالت کے باعث تمہیں دُکھ پہنچا جو کوڑا تمہارے گھر پھینکا جاتا ہے ‘ کہو تو میں ہر روز جھاڑو دے کر صاف کر دیا کروں۔
سُندری: مجھے اس کی ضرورت نہیں۔۔۔ جاؤ یہاں سے دفان ہو جاؤ۔۔۔ جاؤ۔۔۔
دوسرا آدمی: سُندری۔
سُندری: سُنتے ہو کہ نہیں۔۔۔ میں کہتی ہوں بھاگ جاؤ یہاں سے۔۔۔
دوسرا آدمی : سُندری۔۔۔ خاموش ہو جاؤ اب۔۔۔ (دوسری طرف مخاطب ہو کر)آپ اس وقت تشریف لے جائیے ۔ چڑھ گئی ہے اس کے دماغ کو۔
سُندری: چڑھ گئی ہے میرے دماغ کو۔۔۔ چلو ایسا ہی سہی۔۔۔ اب جاؤ ٹکر ٹکر میر امنہ کیا دیکھتے ہو۔ کیا اور بے عزتی کرانا چاہتے ہو؟
میاں: بیوی تم نے کوئی بے عزتی نہیں کی۔۔۔ میں پھر آؤں گا۔
سُندری: اس وقت تو جا (زور سے دروازہ بند کر دیتی ہے)
دوسرا آدمی: (توقف کے بعد) سندری یہ تم نے کیا کیا۔۔۔ چچ چچ چچ۔۔۔ بعض دفعہ تم حد کر دیتی ہو۔
سُندری ۔ بکواس مت کرو۔۔۔
(وہی ریکارڈ لگاتی ہے جو پہلے بجایا گیا ہے۔۔۔ کچھ دیر بجانے کے بعد اس کو آہستہ آہستہ دھیما کر دیا جائے۔ جب ذیل کا مکالمہ شروع ہو‘ تو عقب میں اس ریکارڈ کی آواز آتی رہے)
لڑکی: معلوم ہوتا ہے۔ انہیں ناکامی ہوئی ہے۔
بیوی: ریکارڈ جواب بجنا شروع ہوا ہے۔ اس سے یہی پتہ چلتا ہے۔
لڑکی: جب نہ تب یہی ریکارڈ بجایا جاتا ہے۔ میں تو سُنتے سُنتے تنگ آگئی ہوں۔ کم بخت ٹوٹ بھی نہیں چکتا۔
بیوی: نہ کبھی یہ ٹوٹے گا نہ کبھی یہ بیسوا یہاں سے دفان ہوگی۔
لڑکی: جانے کس بات پر اتنی ہنسی آتی ہے انہیں؟
بیوی: مذاق اُڑا رہے ہیں تمہارے باپ کا؟
(دروازہ کھولنے کی آواز)
میاں: میرا کسی نے مذاق نہیں اُڑایا۔ وہ تو بہت شریف آدمی ہیں۔
بیوی: کون؟
میاں: وہی جو اس عورت کے پاس بیٹھے ہیں۔ میں گیا تو انہوں نے میری بڑی عزت کی۔
بیوی: آپ کے ساتھ وہ آئی نہیں۔
میاں: اپنے مہمانوں کو چھوڑ کر کیسے چلی آتی۔
لڑکی: ضرور اس نے انکار کیا ہو گا؟
میاں: آدمی بعض دفعہ جلدی میں غلط فیصلہ کر لیتا ہے بعد میں اس کو بدل بھی دیتا ہے۔
بیوی: چلیئے۔ کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔
میاں: میں نہیں کھاؤں گا۔۔۔ تم دونوں کھا لو۔
لڑکی: اس عورت نے تو آپ کا کھانا پینا اور سونا حرام کر دیا ہے لعنت بھیجئے۔
میاں: لڑکی وہ انسان جو دوسرے انسان پر لعنت بھیجے انسان کہلانے کا کبھی مستحق نہیں ہو سکتا۔ وہ بیچاری پہلے ہی ایک لعنت میں گرفتار ہے اب اس پر تم لعنتیں بھیجنا چاہتی ہو۔ دنیا میں لعنتوں کی فراوانی اسی وجہ سے تو ہے۔۔۔ جاؤ کھانا کھاؤ اور آرام کرو۔
(دُور سے لڑنے جھگڑنے کی آوازیں آتی ہیں ان آوازوں میں سُندری کی آواز بھی شامل ہے)
بیوی: یہ کیا ہوا؟
لڑکی: شریف آدمی اپنی شرافت دکھا رہے ہیں۔
(شور شدّت اختیار کر جاتا ہے)
بیوی: یہ تو کوئی بہت بڑا فضیحتا معلوم ہوتا ہے۔
میاں: میں جا کے دیکھتا ہوں۔
بیوی: نہیں آپ نہ جائیے‘
لڑکی: شرابی ہیں‘ نشے میں کوئی چیز ہی دے ماریں گے۔۔۔
بیوی: یہ جھگڑا تو معلوم ہوتا ہے اپنے پڑوسیوں سے کر رہی ہے۔
میان: وہ ستاتے جو رہے ہیں۔ میں ان کو سمجھاتا ہوں۔
(دور سے آواز آتی ہے کسی مرد کی جو سندری کو روکنا چاہتا ہے) ’’سُندری ۔۔۔سُندری۔۔۔سُندری۔۔۔رُک جاؤ۔۔۔ ٹھہرو۔۔۔ سندری۔۔۔ ساتھ ہی تیز قدموں کی دبی دبی چاپ بھی سُنائی دیتی ہے۔۔۔ پھر ایک دم دروازہ زور سے کھلتا ہے اور مائیکروفون کے بالکل پاس ہی وہی مرد سُندری پکارتا ہے۔
سُندری (سانس چڑھا ہوا ہے) یہ کیا تماشا بنا رکھا ہے تم اشرافوں نے ۔۔۔ ایک پل کے لیئے مجھے چین نہیں لینے دیا جاتا۔۔۔ کیا بگاڑا ہے میں نے تم لوگوں کا ۔۔۔ بتاؤ بتاتے کیوں نہیں؟۔۔۔ بڑے بھولے بڑے شریف بنتے ہو پر یہ سارے کانٹے تمہارے ہی تو بوئے ہوئے ہیں۔۔۔ آئے تھے مجھے کھانے کی دعوت دینے۔۔۔ دو گھنٹے میرا انتظار کرنے کو تیار تھے۔ پر ان حرامی لونڈوں کو پتھر دے کر بھیجنے میں تم نے ایک منٹ دیر نہ کی۔۔۔ دیکھتے ہو میرا ماتھا۔۔۔ دیکھتے ہو یہ لہو۔۔۔ ڈُوب مرنا چاہیئے تمہاری شرفت کو۔
دوسرا آدمی: سُندری اب چلو یہاں سے۔
سُندری: تم ڈرتے ہو؟ ۔۔۔ اس بے ایمان اور دھوکے باز سے ڈرتے ہو۔۔۔
سامنے کھڑی ہونا‘ منہ نوچ ڈالوں اگر ایک لفظ بھی منہ سے نکالے۔۔۔ رنڈی سے الجھنے کا مزا نہ چکھا دوں تو میرا نام سندری نہیں۔۔۔ ناک میں دم آگیا ہے میرا ہر روز ایک نیا طریقہ مجھے چھیڑنے کا نکالا جاتا ہے ہر روز میرے گھر میں گندگی پھینکی جاتی ہے۔ سن لو‘ اگر پھر کبھی مجھے یوں ستایا گیا تو مجھ سے کوئی بُرانہ ہوگا۔ تمہاری ان نیک بیویوں کی زندگی دُوبھر کر دُوں گی۔۔۔
میاں: غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔۔۔ اب مجھے بتاؤ بات کیا ہوئی۔
سُندری: (اور زیادہ خشم آلود ہو کر) میر اغصہ اس وقت ٹھنڈا ہو گا جب تمہارے منہ پر تھوک دُوں گی۔۔۔تھو۔۔۔
دوسرا آدمی : (گھبرا کر) سُندری۔۔۔
سُندری: بکو نہیں۔۔۔ سنا ۔ اب میر اغصہ ٹھنڈا ہو اہے۔
میاں: (بڑے تحمل کے ساتھ) تو بیٹھ جاؤ اور ہمارے ساتھ کھانا کھاؤ۔
سُندری: تم ۔۔۔ تم۔۔۔ (جذبات کی شدّت کے باعث رو دیتی ہے اور تیز قدمی سے باہر چلی جاتی ہے۔ دروازہ زور سے بند ہوتا ہے قدموں کی چاپ چند لمحات جاری رہتی ہے۔۔۔ رونے کی آواز بھی ساتھ ساتھ آتی ہے۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سُندری اپنے گھر جار ہی ہے۔
دوسرا آدمی: سُندری۔
سُندری (روتے ہوئے) چپ رہو۔
دوسرا آدمی: تم نے بہت غلطی کی۔
سُندری: (روتے ہوئے) میں کہتی ہوں‘ چُپ رہو۔۔۔ چُپ رہو۔۔۔ چُپ رہو۔
دوسرا آدمی: کتنا شریف آدمی ہے۔
سُندری: سات جھاڑو اور حُقے کا پانی اس کی شرافت پر۔
دوسرا آدمی: کبھی کبھی تم بالکل آپے سے باہر ہو جاتی ہو۔۔۔
سُندری(روتے ہوئے) دُور ہوتے ہو کہ نہیں یہاں سے۔۔۔ (دھکے دے کر اس کو باہر نکال دیتی ہے) خبردار پھر یہاں کبھی نہ آنا۔۔۔ جاؤ۔۔۔جاؤ۔۔۔ دروازہ زور سے بند کر دیتی ہے اور خود پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیتی ہے۔۔۔ کبھی کبھی میں بالکل آپے میں نہیں رہتی۔۔۔ میرا دل پتھر کا تو نہیں ہے۔۔۔ اور یہ چوٹ جو میرے ماتھے پر لگی ہے۔۔۔ اور یہ لہو۔۔۔ میں اس کا بدلہ نہ لیتی۔۔۔ تھوک ہی تو پھینکی تھی میں نے بھالا تو نہیں مار دیا تھا۔۔۔ بیٹھ جاؤ اور کھانا کھا کے جاؤ۔۔۔ جیسے مجھے کھانے کو کچھ ملتا ہی نہیں ‘ بھکارن ہوں۔۔۔ (روتی ہے)۔۔۔ پاجی کہیں کا۔۔۔ (اس ریکارڈ پر سوئی رکھتی ہے ریکار ڈبجنا شروع ہوتا ہے۔۔۔ سُندری کی سسکیاں بھی ساتھ ساتھ سُنائی دیتی ہیں)۔۔۔ مردُود۔۔۔ دھوکے باز۔۔۔(چند سیکنڈ ریکارڈ اور بجتا ہے سندری ضمیر کی سرزنش سے اُکتا کر چِلّا اُٹھتی ہے) نہیں نہیں۔۔۔ نہیں ۔۔۔ (ریکارڈ ایک دم اُٹھا لیتی ہے اور زمین پر پٹخ دیتی ہے پھرپھوٹ پھوٹ کے رونا شروع کر دیتی ہے۔ رونے کی یہ آواز آہستہ آہستہ تحلیل کر دی جائے)
وقفہ
بیوی: آج کئی روز سے ریکارڈ نہیں بجا۔
لڑکی: شور وور بھی سُنائی نہیں دیا۔
میاں: پتہ نہیں کیا بات ہے ۔ تین چار دفعہ اس کے یہاں گیا ہوں۔ اندر سے دروازہ بند ہوتا ہے دستک دیتا ہوں۔ پر کوئی بولتا ہی نہیں۔
بیوی: شاید بیمار ہو۔
میاں: میں نے یہی سوچا تھا اور اسی لیئے گیا بھی تھا پر اس نے دروازہ ہی نہیں کھولا۔
لڑکی: اس نے آپ سے اس رو زجو سلوک کیا۔۔۔
میاں: بُھول جاؤ ‘ ا س کو‘ ایسی باتیں کبھی یاد نہیں رکھنی چاہئیں۔
بیوی: کیا آپ کا ابھی یہی خیال ہے کہ اسے سدھارا جا سکتا ہے؟
میاں: قطعی طور پر۔
بیوی: کیسے؟
میاں: قدرت خود بخود کوئی راستہ پیدا کر دے گی۔
(دروازے پر دستک ہوتی ہے)
بیوی: (لڑکی سے ) بیٹی! دیکھو تو کون ہے؟
میاں: تم بیٹھو میں دیکھتا ہوں۔
(قدموں کی چاپ۔۔۔دروازہ کھولنے کی آواز)
میاں: آؤ۔۔۔آؤ۔۔۔آجاؤ۔۔۔
سُندری (شرمندگی کے احساس کے ساتھ ) میں۔۔۔میں۔۔۔
میاں: کئی بار تمہارے مکان پر گیا مگر شاید تمہاری طبیعت علیل تھی۔
سُندری: (رندھی ہوئی آواز کے ساتھ) مجھے۔۔۔ مجھے معاف کر دیجئے!
میاں(مُسکرا کر) کس بات کی معافی مانگتی ہو۔۔۔ آؤ‘ بیٹھو۔۔۔ تم نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے مجھے رنج پہنچا ہو۔
سُندری: میں نے اس روز بڑا پاپ کیا۔ مجھے معاف کر دیجئے(پاؤں پڑتے ہی رونا شروع کر دیتی ہے)
میاں: ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ یہ کیا۔۔۔سُندری اُٹھو۔۔۔ مجھے گنہگار نہ کرو۔
سُندری: آپ ایک بار کہہ دیجئے کہ میں نے معاف کر دیا۔
میاں: لو بھئی کہہ دیا۔۔۔ اُٹھو اب۔۔۔
سُندری: (سُبکیاں لیتے ہوئے) ۔۔۔ اتنے روز مجھے نیند نہیں آئی۔۔۔ بس سوچتی رہی۔۔۔ کیا کیا خیال مجھے نہیں آئے۔۔۔ کئی بار سوچا کچھ کھا کے مر جاؤں۔۔۔
میاں: خود کشی کمزور آدمی کرتے ہیں۔
سُندری: میں تو ضرور کر لیتی اگر مجھ میں ہمت ہوتی۔
میاں: یہ ہمت ہی کمزوری کا دوسرا نام ہے۔
سُندری: مجھے معاف کر دیا ناں آپ نے؟
میاں (مُسکراتا ہے) ہاں کر دیا۔۔۔ آؤ بیٹھو۔
سُندری: میں بس معافی مانگنے اور یہ کہنے آئی تھی کہ میں کل یہاں سے چلی جاؤں گی۔
میاں: سُنو تو۔۔۔سُنو تو۔۔۔
(قدموں کی چاپ)
میاں: چلی گئی۔۔۔(وقفہ)خیر۔۔۔
لڑکی: کیا یہ وہی عورت تھی؟
میاں: وہی۔ بالکل وہی‘ مگر تم نے انقلاب دیکھا؟۔۔۔ چند ہی دنوں میں کیا سے کیا ہو گئی ہے۔
لڑکی: آج چہرے پر پوڈرسُرخی بھی نہیں تھی۔
میاں (وقفہ) مگر یہاں سے جا کیوں رہی ہے؟
بیوی: کیا کرے گی؟
میاں: میں تھوڑی دیر کے لیئے یہاں بیٹھ سکتا ہوں۔
سُندری: کیوں نہیں۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔ شوق سے بیٹھیئے۔
میاں (رُک رُک کر) نہیں۔۔۔ میرا آنا تمہیں ناگوار گزرا ہے۔
سُندری: جی نہیں۔۔۔ ناگوار کیوں گزرنے لگا۔۔۔ آپ۔۔۔آپ۔۔۔ تشریف ر کھیئے
میاں:(بیٹھ جاتا ہے۔۔۔ تم بہت اچھی ہو)
سُندری: جو آپ اچھے ہوتے ہیں وہ بُروں کو بھی اچھا سمجھتے ہیں۔
میاں : تم میں کیا بُرائی ہے؟۔۔۔ایک تھی سو دُور ہو گئی۔۔۔ اب آرام سے زندگی بسر کرو۔ یہاں سے جانے کی کیا ضرورت ہے۔ تمہیں کوئی نہیں ستائے گا۔ میں اس کا وعدہ کرتا ہوں۔
سُندری: آپ کی بہت مہربانی لیکن یہاں میرا گزر کیسے ہو گا۔۔۔ کسی گھر میں آپ مجھے نوکر کرا دیں۔۔۔ لیکن مجھے نوکر کون رکھے گا؟۔۔۔
میاں: یہاں میرے پاس بیٹھ جاؤ۔۔۔ بیٹھ جاؤ۔۔۔ (سُندری جھجکتی جھجکتی پاس بیٹھ جاتی ہے (تم نوکر بننا چاہتی ہو۔۔۔ کس کی؟‘‘)
سُندری: کوئی بھی رکھ لے۔
میاں (آواز میں لرزش سی پیدا ہو جاتی ہے) اور جو کوئی خود تمہارا نوکر بننا چا ہے (سُندری کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا ہے مگر وہ فوراً یوں ہٹا لیتی ہے جیسے سانپ نے ڈس لیا ہے) میرا مطلب ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔
سُندری : کیا مطلب ہے آپ کا؟
میاں: دیکھو سُندری ۔۔۔ اب تمہیں کوئی نہ ستائے گا۔ بڑے آرام سے زندگی بسر کرو گی۔۔۔ چند دنوں ہی میں تمہیں بہت بڑا فرق محسوس ہو گا اور۔۔۔اور (خشک مسکراہٹ کے ساتھ) تمہاری زندگی اب ایک نئی کروٹ بدلے گی۔۔۔ سُندری تم نہیں جانتی کہ تم کتنی سُندر ہو۔۔۔ تمہیں بُرے بُرے آدمیوں کی صحبت میں دیکھ کر مجھے کتنا دُکھ ہوتا تھا۔۔۔ لیکن اب۔۔۔ اب ۔۔۔ تم خاموش کیوں بیٹھی ہو۔۔۔ کچھ بولو۔۔۔ کچھ کہو۔۔۔
سُندری: (ایک دم اٹھ کھڑی ہوتی ہے یا بہت کچھ کہنا چاہتی ہے مگر کہہ نہیں سکتی‘
چلے جائیے یہاں سے؟
میاں: لیکن۔۔۔لیکن۔۔۔
سُندری: چلے جاؤ یہاں سے؟
میاں: اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ تو میں کل آؤں گا۔۔۔ تم سوچ لینا۔
(قدموں کی چاپ۔۔۔ دروازہ کھلنے پر ایک دم زور سے بند کرنے کی آواز ۔۔۔ اس کے بعد پھر قدموں کی چاپ ‘ چند لمحات کے بعد دروازہ کھولنے کی آواز ‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا کریکٹر اپنے مکان میں پہنچ گیا ہے)
بیوی: مل آئے۔
میاں: ہاں مل آیا۔۔۔ وہ تو جانے کے لیئے بالکل تیار تھی۔
بیوی: آپ کے کہنے سے رُک گئی۔
میاں: ہاں رُک ہی گئی۔ بہت دیر تک سمجھانا پڑا۔
بیوی : کیا کہتی تھی۔
میاں: کچھ نہیں بیچاری بہت پریشان تھی۔۔۔ آدمی پریشان ہو ہی جاتا ہے اسی حالت میں برسوں ایک ڈگر پر چلتے چلتے ایک دم نیا راستہ اختیار کرتے وقت دل ودماغ پر بہت اثر پڑتا ہے۔
لڑکی: تو اب وہ نہیں جائے گی۔
میاں: کہاں جائے گی؟۔۔۔ اس جگہ اور دوسری جگہ میں فرق ہی کیا ہے۔۔۔
کچھ بھی نہیں۔ میں نے اس کو سمجھایا کہ تمہیں نئی کروٹ لینی چاہیئے تاکہ تمہاری زندگی خوشگوار بن جائے تمہارے سب دُکھ درد دُور ہو جائیں۔
بیوی: بہت خوشی کی بات ہوگی اگر وہ سمجھ جائے۔
(دُور سے سُندری اور ایک مرد کے قہقہوں کی آواز آتی ہے۔ ساتھ ہی فحش ریکارڈ بجنا شروع ہوتا ہے جو پہلے کئی بار سُندری کے ہاں بجتا رہا ہے۔۔۔ آہستہ آہستہ (فیڈ آؤٹ)
مأخذ : کتاب : کروٹ اشاعت : 1946
مصنف:سعادت حسن منٹو