آؤ خط سنو!

0
182
Urdu Drama Stories
- Advertisement -

کشور: اپنی بیوی سے ‘ اشتیاق بھرے لہجے میں ) ادھر آؤ‘ خط سنو!

لاجونتی: (دور سے) کیا کہا؟

کشور: میں کہتا ہوں ادھر آؤ خط سنو!

لاجونتی: کوئی اور کام نہ کروں (غصے میں ‘ لو سناؤ کیا کہتے ہو؟

کشور: (گھبرا کر :۔۔۔۔۔۔میں کیا کہہ رہا تھا؟۔۔۔ہاں۔۔۔ دیکھو لا جونتی ‘ پونا سے نرائن کا خط آیا ہے‘ بے چارہ پچھلے دنوں بہت تکلیف میں تھا۔۔۔ اس نے یہاں سے ایک کتاب منگوائی ہے اور لکھا ہے۔۔۔

- Advertisement -

لاجونتی: اور ہاں۔۔۔ وہ دوست جو آپ کی کتاب مہینہ ہوا مانگ کر لے گیا تھا ابھی تک واپس کیوں نہیں لایا۔۔۔ آپ کے دوستوں کی یہی باتیں تو مجھے اچھی نہیں لگتیں۔ یہ الماری سب ‘ کتابوں سے بھری ہوئی تھی اور آج اس میں ایک کتاب نظر نہیں آتی‘ چولہے میں جائیں ایسے جھوٹے دوست۔۔۔ ایک بھی ناول تو نہیں رہا پڑھنے کے لیئے سب کے سب آپ نے اپنے یاردوستوں کی نذر کر دئیے ہیں۔ ایک فقط گھر میں دل بہلاہے کا یہی سامان تھا سو وہ بھی غارت ہوا۔

کشور: گھبرانے کی کوئی بات نہیں‘ سب کتابیں آجائیں گی۔ پڑھ کرسب لوٹا دیں گے۔ ایک تو آج ہی کمار واپس دے گیا ہے۔۔۔ چھوڑو اس قصے کو۔۔۔ ہاں‘ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ نرائن کاخط آیا ہے۔ وہ لکھتا ہے۔۔۔

لاجونتی: ٹھہرو تو۔۔۔ یہ کمار ایک کتاب تو ٹھیک واپس دے گیا ہے پرفسانہ آزاد کی چار جلدیں بھی تو اٹھا کر لے گیا ہے اور جو کتاب اس نے واپس دی ہے کیا پہچانی جاتی ہے کہ ہماری ہی ہے؟۔۔۔ کتھے اور چونے کے دھبے ‘ سالن کے داغ ۔۔۔ پنسل اور قلم سے بنائے ہوئے بیل بوٹے۔۔۔ یہ کیا سب آپ نے ڈالے تھے یا میں نے؟

کشور: جس گھر میں بچے زیادہ ہوں وہاں ایسی باتیں ہو ہی جاتی ہیں۔ میں نے اس سے کہہ دیا تھا کہ ’’فسانہ آزاد کی سب جلدوں کو الماری میں بند رکھا کرئے اور پڑھتے وقت ان پر کاغذ چڑھا لیا کرے۔۔۔ تو قصہ یہ ہے کہ نرائن کا خط آج صبح کی ڈاک سے آیا ہے‘ وہ بیچارا بہت پریشان تھا۔ تمہیں نمسکار لکھا ہے۔

لاجونتی: نمسکار۔۔۔ پہلے آپ یہ تو بتائیے کہ قمیص میں آپ نے آج اتنا میلاکالر کیوں لگایا ہے؟۔۔۔ کیا میز کے دراز میں کوئی اور سفید کالر نہیں تھا؟۔۔۔ ابھی پرسوں ہی تو میں نے سب کالر دھوکر استری کیئے ہیں آخر یہ کیا ہو رہا ہے؟۔۔۔ میں کچھ دنوں سے دیکھ رہی ہوں کہ آپ اپنے لباس کی طرف بالکل دھیان نہیں دیتے۔۔۔ آپ کے شو کے تسمے بھی ٹوٹے ہوئے ہیں۔ حالانکہ میں نے کل ہی نئے تسمے منگوائے ہیں۔

کشور: دفتر جانے کا ٹائم چونکہ ہو گیا تھا‘ اس لیئے جلدی میں نہ کالر بدلنا یاد رہا نہ تسمے۔۔۔ لیکن یہ معمولی بات ہے‘ کل بدل لوں گا۔۔۔ میں نرائن کی بات کر رہا تھا ۔ اس کا خط آج صبح کی ڈاک سے آیا ہے۔ تم نے شاید نہیں پڑھا۔

لاجونتی: پڑھتی کیسے؟۔۔۔ عینک کی کمانی جس دن سے آپ نے پیر کے نیچے دباکر توڑی ہے میں نے ایک حرف بھی نہیں پڑھا۔ کل ذرا اخبار دیکھنے لگی تھی کہ سر میں درد شروع ہو گیا۔۔۔۔ آج آپ اتنی مہربانی کیجئے کہ میری عینک کی کمانی بنوالائیے۔۔۔ مجھے بڑی تکلیف ہو رہی ہے اس کے بغیر۔

کشور: آج ہی مرمت کرالاؤں گا۔ اور اگر یہاں نرائن ہوتا تو مفت ہی میں یہ کام ہو جاتا۔ یہاں جب وہ عینک سازوں کی دکان پر نوکر تھا تو کتنا آرام تھا۔ تمہاری یہ عینک بھی تو اسی نے لا کر دی تھی۔

لاجونتی: جی ہاں وہی لائے تھے۔

کشور: آج کل وہ پونا میں ہے۔ پچھلے دنوں بیچارہ بہت پریشان تھا۔ آج صبح اس کا خط آیا ہے لکھتا ہے کہ مجھے تارا پور کی دکان سے۔۔۔

لاجونتی: میں آپ کو بتانا بھول ہی گئی تھی۔ کل شام کو تارا پور کی دکان سے ایک آدمی بل لے کر آیا تھا۔۔۔ یہ آپ نے ساٹھ روپے کی کتابیں ایک مہینے میں خرید کر کہاں غائب کر دیں۔۔۔ یہاں گھر میں تو ایک کو بھی آنا نصیب نہیں ہوا۔

کشور: یہ کتابیں میری اپنی نہیں تھیں۔ دفتر میں ایک لائبریری کھولی گئی ہے اور اس کا انچارج مجھے بنایا گیا ہے۔ یہ ساری کتابیں اسی لائبریری کے لیئے خریدی گئی ہیں اور اس کا بل وہی ادا کریں گے۔۔۔ تم میری بات تو سن لو۔۔۔ یہ بیچ میں کتابوں، کالروں اور تسموں کے جھگڑے کیا لے بیٹھتی ہو۔ نرائن کا خط آیا ہے‘ بیچارہ بڑی پریشانی میں تھا اور تمہیں کچھ پر واہی نہیں۔۔۔ لو ذرا دھیان سے سنو۔۔۔ اس نے پونا سے خط لکھا ہے۔۔۔

لاجونتی: ٹھہر ئیے‘ ابھی سنتی ہوں۔۔۔ پہلے یہ بتائیے کہ آپ نے وہ خط تو پوسٹ کر دئیے جو میں نے کل اپنی سہیلیوں کو لکھے تھے‘ یا اب تک آپ کی جیب ہی میں پڑے ہیں؟

کشور: (تنگ آکر) جیب میں پڑے ہوں گے تو کون سی آفت آجائیگی۔ تمہاری سہیلیاں اور انکے خط جائیں بھاڑ میں، میں ڈیڑھ گھنٹہ سے اپنے دوست کی ایک بات تمہیں سنانے کی کوشش کر رہاہوں اور تم بیچ میں ٹوک ٹوک دیتی ہو‘ آخر یہ کیا مذاق ہے؟۔۔۔ تمہیں جو کچھ کہنا ہے‘ ایک بار کہہ ڈالوتاکہ پھر میں آرام سے تمہیں اس کا خط سنا سکوں۔

لاجونتی: میری سہیلیوں اور ان کے خطوں کو چولہے بھاڑ میں جھونک چکے ‘ کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا؟۔۔۔ لو اب سناؤ‘ کیا سنانا ہے۔ میں نے بھلا کیا کہا تھا جو تم نے یوں چلّانا شروع کر دیا۔

کشور: تمہاری زبان تو قینچی کی طرح چلتی ہے۔

لاجونتی: آپ کہیں تو منہ میں بخیہ بھرلوں؟

کشور: تم تو تناتنی کرتی ہو‘ بات میں بات نکالتی جاتی ہو۔

لاجونتی: آپ کی طرح پھاڑ کے رفو نہیں کرتی۔

کشور: اور تم اپنی تقریر کی گل کاریاں نہیں دیکھتیں۔ باتیں کرتی ہو تو معلوم ہوتا ہے چکن کاڑھتی جاتی ہو۔

لاجونتی: یہ آپ نے نیا شنگ بھرا۔

کشور: اور یہ آڑیِ بیونت تم نے نئی شروع کی۔

لاجونتی: بھئی میں تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس موا ٹھیٹھی کو بند کرو۔ تمہاری سنگر مشین تو کبھی بند ہوگی۔ آؤ کوئی کام کی بات کریں۔ کچھ سوچیں۔

کشور: کیا سوچوگی تم؟۔۔۔ کچھ سوچ بھی سکتی ہو؟۔۔۔ اگر تمہارے دماغ میں سوچ بچار کا مادہ ہوتا تو آج منے کو دست پہ دست نہ آتے‘ اس کا رنگ ہلدی کے مانند پیلا نہ پڑتا۔۔۔ اگر تم کچھ سوچ سکتیں تو میرے استرے کے نئے بلیڈوں سے تم بارہ اسٹنسل نہ کاٹتیں اور آج صبح داڑھی مونڈتے وقت جو میں نے چھٹانک بھرلہو بہایا ہے میری رگوں ہی میں محفوظ رہتا(طنزیہ انداز میں)۔۔۔ آپ سوچنا چاہتی ہیں۔۔۔ یہ سوچنا ہو گا کہ میرے سر پر یہ تھوڑے سے بال کیوں باقی رہ گئے ہیں۔؟

لاجونتی: نوج تم سے کوئی بات کرئے۔۔۔ بھلا میں نے کیا کہا تھا جو تم یوں پنجے جھاڑ کر میرے پیچھے پڑ گئے۔

کشور: تم نے ابھی کچھ کہا ہی نہیں۔۔۔ پورا ایک گھنٹہ ہو گیا ہے‘ تمہیں ایک بات سنانے لگا تھا کہ بیچ میں تم نے اپنی بکواس شروع کر دی۔ اس نے بہت سی باتیں لکھی ہیں جو تم کو سنانا ضروری تھیں ۔ تمہارے تو ریکارڈ ہی ختم نہیں ہوتے‘ ایک بجا چکتی ہو تو دوسرا سوئی کے نیچے رکھ دیتی ہو۔۔۔ کوئی کسی حال میں ہو تمہاری بلا سے۔ جب وہ اچھی حالت میں تھا تو اس سے تحفے تحائف تم جھٹ سے وصول کر لیتی تھیں پہلی عینک تم نے توڑی تو اس بیچارے نے اپنی گرہ سے تمہیں ایک نئی لا کر دی۔ یہ تم نے اپنی کسی سہیلی کو بخش دی تو اس نے دوسری تمہیں مفت لا کر دی۔ وہ بیچارہ پچھلے دنوں سخت مصیبت میں تھا‘ بے کار پھر رہا تھا اور تم سنتی ہی نہیں کہ اس نے اپنے خط میں کیا لکھا ہے۔

لاجونتی: میں تو بالکل احسان فراموش نہیں۔ وہ آپ کے دوست ہی ہیں جو کسی کا احسان نہیں مانتے۔ مجھے اُنہوں نے دو مرتبہ عینک لا کر دی تو کیا میں نے چار دفعہ اُن کا گرم کوٹ رفو نہیں کر دیا تھا؟۔۔۔ پچھلے برس اُن کا نوکر ہماری نئی استری مانگ کر لے گیا تھا‘ میں نے آج تک اس کا تقاضا نہیں کیا۔ اس لیئے کہ میں اُن کی احسان مند تھی۔۔۔ اگر وہ تکلیف میں ہیں تو دس بیس پچاس روپے بھیج دیجئے‘ مجھ سے اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔ پہلے آپ نے کبھی ایسے معاملوں میں میرا مشورہ لیا ہوتا تو آج اچھے بھی لگتے مجھ سے پوچھتے۔

کشور: لا جونتی تم پُوری بات سن کر اپنی کتھا شروع کیا کرو۔۔۔ اُس نے کب ہم سے روپے مانگے ہیں۔ وہ آج تک ہمارے ایک پیسہ کا بھی روادار نہیں رہا۔ اُس نے روپوں کے لیئے خط نہیں بھیجا۔۔۔خط میں اُس نے یہ لکھا ہے کہ۔۔۔

لا جونتی: ٹھیرئیے میں گھڑی میں کوک بھر دوں۔ بارہ بج رہے ہیں‘ ایسا نہ ہو کہ بھول جاؤں اور صبح الارم ہی نہ بجے(گھڑی میں کُوک بھرنے کی آواز)

کشور: میں دیواروں کے ساتھ اپنا سر ٹکرا کر مر جاؤں گا لا جونتی۔۔۔تم نے۔۔۔تم نے یہ پینتیسویں مرتبہ میرا گلا گھونٹا ہے۔ میں بات کرتا ہوں اور تم ٹوک کر کوئی اور ہی قصہ چھیڑ دیتی ہو۔۔۔آخر میں انسان ہوں۔۔۔ اپنے اندر سے ایک بات باہر نکالنے کے لیئے دو گھنٹے سے تڑپ رہا ہوں اور تمہیں ترس ہی نہیں آتا۔۔۔کیا تم سچ مچ میرا تماشہ دیکھنا چاہتی ہو۔۔۔ لو آؤ‘ ایک ڈُگڈگی لے اور مجھے نچانا شروع کر دو۔۔۔ اگر میری بات تمہیں نہیں سُننا ہے تو یوں کرو اپنی ساڑھی کا پھندا بنا کر میرے گلے میں ڈال دو اور جھٹکا دے کر سارا جھنجھٹ ہی ختم کر دو۔۔۔ اس عذاب سے تو جان چھوٹے گی۔(وقفہ)۔۔۔ لو اب تو سُن لو۔ لیکن یاد رکھو اگر اب بیچ میں مداخلت کی تو میں خودکُشی کر لوں گا۔۔۔ سمجھیں۔

لاجونتی: آپ تو ناحق بگڑ رہے ہیں۔

کشور: ایک حق پر صرف تمہیں ہو لو بس اب اس جھگڑے کا خاتمہ کرو اور سُنو۔۔۔ صبح کی ڈاک سے نرائن کا خط آیا ہے۔۔۔

(نرائن کھانستا ہوا داخل ہوتا ہے)

نرائن: اور اس ڈاک سے وہ خود آگیا ہے۔۔۔ آداب عرض بھائی جان۔

لاجونتی: آپ ۔۔۔آپ کیسے آگے؟

کشور: تُم ۔۔۔تُم ۔۔۔ کیسے آگئے؟۔۔۔ابھی ابھی تمہارا ہی ذکر ہو رہا تھا۔ میں اس کو بتا رہا تھا کہ صبح کی ڈاک سے تمہارا خط آیا ہے جس میں تم نے۔۔۔

نرائن: چھوڑو اس خط کو۔۔۔یہ بتاؤ تمہاری صحت کیسی رہی۔۔۔مُنا اچھا ہے نا؟۔۔۔ اور بھابی جان آپ؟۔۔۔ آپ کیسی ہیں؟

لا جونتی: پر ماتما کا شکر ہے۔

کشور: نرائن تم کوواپس لاہور میں دیکھ کر کتنی خوشی ہوئی ہے سناؤ کام کیسا چل رہا ہے۔۔۔تم نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ۔۔۔

نرائن: چھوڑو اس خط کو۔۔۔ یہ بتاؤ کہ تمہیں میرے اندر کوئی چیزکم یا زیادہ تو معلوم نہیں ہوتی؟۔۔۔بھابی جان آپ بھی سوچ کر بتائیں۔

کشور: کوئی چیز کم یا زیادہ؟۔۔۔میرا خیال ہے کہ تم دُبلے ہو گئے ہو۔

نرائن: تمہاری آنکھیں کمزور ہو گئی ہیں۔ یا وزن آٹھ پونڈ بڑھ گیا ہے۔

لاجونتی: آپ نے اپنی مونچھیں ذرا ہلکی کرالی ہیں۔

نرائن: غلط آپ کی آنکھیں بھی کمزور ہیں۔۔۔

لا جونتی: ٹھیک ہے‘ اس لیئے کہ میں عینک کے بغیر ہوں۔

نرائن: آپ نے بہت اچھا کیا جو عینک اُتار دی۔ میری طرف دیکھئے میں نے بھی تو ہمیشہ کیلئے اُتار پھینکی ہے اور اب میں نے قسم کھا لی ہے کہ آئندہ کبھی اس لعنتی چیز کو استعمال نہیں کروں گا۔۔۔بھابی جان آپ کو معلوم نہیں کہ اس بظاہر بے ضرر شے نے میری زندگی پر کتنا بُرا اثر ڈالا ہے۔ آپ اور کشور۔۔۔ آپ اور کشور کیا دُنیا کا کوئی شخص بھی تسلیم نہیں کرے گا کہ دو گول گول شیشوں نے جو ایک فریم میں جڑے ہوتے ہیں‘ مجھے تباہی اور بربادی کے کنارے پہنچا دیا‘ یہ تو پر ماتما کی مہربانی تھی کہ میں بچ گیا ورنہ آج آپ سے یہ باتیں کرنے کا موقع کبھی نہ ملتا۔۔۔ میں نے عینک ہمیشہ کیلئے اُتار پھینکی ہے یہی تبدیلی تھی جس کی بابت میں آپ سے پوچھ رہا تھا اور جو آپ میں سے کوئی نہ بھانپ سکا۔

کشور: لاجونتی نرائن نے اپنے خط میں۔۔۔

نرائن: تم خط کا ذکر کیا لے بیٹھے ہو کشور۔۔۔ میں تمہیں اپنی زندگی کی ایک نہایت ہی انوکھی داستان سنا رہا ہوں۔۔۔ کیوں بھابی جان یہ بات انوکھی نہیں ہے کہ ایک عینک نے یعنی فریم میں جڑے ہوئے دو خوبصورت شیشوں نے مجھے قریب قریب برباد کر دیا۔ یہ تو میری خوش قسمتی تھی کہ میں بچ گیا ورنہ آج نہ جانے کیا ہوتا کیا نہ ہوتا۔۔۔ بھابی جان میں اُس انجام کے تصور ہی سے کانپ کانپ اُٹھتا ہوں جو مجھے عینک کی بدولت دیکھنا پڑتا۔ پر ماتما کا ہزار ہزار شکر ہے کہ میں نے فوراً ہی اس منحوس شے کو ہمیشہ کے لیئے اپنے سے جُدا کر دیا۔

لاجونتی: تو کیا میں بھی عینک چھوڑ دوں۔

کشور: لاجونتی تونے اس کا خط تو سُن لیاہوتا۔

نرائن: فوراً۔۔۔ جب آپ مجھ سے اس کی برائیاں سُنیں گی تو آپ اس کو نہ صرف چھوڑ دیں گی بلکہ اس کا نام تک نہ لیں گی۔۔۔ یہ ایک خطر ناک شے ہے بم اور زہریلی گیس سے بھی زیادہ خطر ناک۔ صحت، عزت اور دولت کے لیئے یہ ایک جیسی نقصان دہ ہے۔

لاجونتی: کیا سچ مچ؟

نرائن: میں آپ کو ایک سچا واقعہ سُناتا ہوں جس نے میرے کان کھڑے کیئے اور میں نے اپنی زندگی کے سب سے بڑے دشمن کا ہمیشہ کے لیئے خاتمہ کر دیا۔۔۔ پُونا سے الہ آباد جا رہا تھا کہ گاڑی میں میری ایک آدمی سے ملاقات ہوئی۔ یہ عینک کا شکار تھا۔ اُس نے مجھے اپنی آپ بیتی سُنائی۔ اپنا سارا دُکھڑا بیان کیا اور میں نے اُسی وقت اپنے تمام دُکھوں کے باعث یعنی عینک کو جو میری ناک پر چڑھی ہوئی تھی اُتار کر گاڑی سے باہر پھینک دیا۔بھابی جان جس وقت میں نے ایسا کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے سارے دِلدّر دور ہو گئے ہیں۔

لاجونتی: گاڑی میں اُس مسافر کے ساتھ آپ کی کیا باتیں ہوئیں؟

نرائن: باتیں تو بہت ہوئیں لیکن میں آپ کو اُن کا خلاصہ سُناؤں گا۔ وہ آدمی ایک بہت بڑے رئیس کا لڑکا تھا۔ اتفاق سے اُس کی محبت ایک لڑکی سے ہو گئی۔ اس لڑکی کو اُس نے ایک روز اپنے مکان سے بازار کے آخر والی بلڈنگ کی چھت پر بال سکھاتے دیکھا اور فوراً ہی اُس کے تیرِ نظر کا گھائل ہو گیا۔ دو تین مہینے تک اُس نے بہت کوشش کی کہ اُس حسینہ کا ایک بار پھر دیدار ہو سکے۔ مگر وہ نا کام رہا۔اُس کی نگاہیں ہر روز کئی کئی گھنٹے اُس طرف جمی رہتیں۔ جہاں وہ ایک مرتبہ پہلے نظر آئی تھی مگر وہ ایک بار جلوہ دکھا کر ایسی غائب ہوئی کہ پھر نظر نہ آئی۔

لاجونتی: لیکن اس سے عینک کا کیا تعلق ہو سکتا ہے؟

نرائن: آپ سُنتی جائیں۔۔۔ ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ رئیس کے لڑکے نے اُس لڑکی کو صرف ایک بار دیکھا اور ایک بار اور دیکھنے کی ہوس اُس کے دل میں کروٹیں لینے لگی۔ چھ مہینے تک وہ اس خواہش کو اپنے سینے میں دبائے رہا آخر کار ایک روز اُس نے اپنے دوست سے رازِ دل کہہ دیا۔ اُس نے جب کہا اماں یہ کون سی مشکل بات ہے کہو تو میں آج ہی تمہارا اُس سے رشتہ کرا دوں۔ تو رئیُس زادے کی باچھیں کھل گئیں۔ سلسلہ جنبانی شروع ہوا اور شادی کی تاریخ پکی ہو گئی۔

لاجونتی: تاریخ پکی ہو گئی۔

نرائن: جی ہاں۔

کشور: لاجونتی تم نے یہ خط تو پڑھ لیا ہوتا۔۔۔

لاجونتی: پڑھ لوں گی۔۔۔نرائن صاحب آپ سُنائیے پھر کیا ہوا؟

نرائن: اُن دونوں کی شادی ہو گئی۔۔۔ لڑکا خوش تھا کہ اُس کے دل کی مُراد برآئی اور لڑکی کے ماں باپ خوش تھے کہ اُن کی بچی کو ایسا اچھابرمل گیا۔ رئیس زادے نے شادی پر خوب جی کھول کر روپیہ خرچ کیا۔ اُس نے ہزاروں روپے کے زیورات اپنی محبوبہ کے لیئے خریدے اور مختلف تحفے تحائف دئیے مگر شادی کے دوسرے روز۔۔۔

لاجونتی: دوسرے روز؟

نرائن: شادی کے دوسرے روز جب وہ اپنے دوستوں سے ملا اور اُنہوں نے اُس کو مبارک باد دی تو اُس نے زار وقطار رونا شروع کر دیا۔ پندرہ روز تک متواتر اُس کی آنکھیں آنسو بہاتی رہیں۔ اس نے اپنا رازصرف ان آنسوؤں کو بتایا اور کسی پر ظاہر نہ کیا۔ مگر مجبور ہو کر آخر اسے اپنا دُکھ بیان کرنا ہی پڑا۔۔۔ لڑکی جس کو وہ حسین سمجھتا تھا‘ کانی تھی‘ اور اُس کا چہرہ چیچک کے داغوں سے بھرا ہواتھا۔ اُس کا لہجہ نہایت کرخت اور طبیعت بے حد چڑ چڑی تھی‘ البتہ بال کافی لمبے تھے۔

لاجونتی: طبیعت اور لہجہ تو خیر معلوم نہیں ہو سکتا لیکن اُس کی بد صورتی و ہ پہلے روز ہی دیکھ سکتا تھا۔

نرائن: اُس کی آنکھیں کمزور تھیں اور اس پر جو عینک وہ استعمال کرتا تھا اُس کے شیشے اُس روز چکنے ہو رہے تھے۔

کشور: (زور سے ہنستا ہے)

نرائن: تم ہنستے ہو‘ شاید اُس کی بے وقوفی پر قہقہے لگاتے ہو۔ مگر دوست سارا قصور عینک کا تھا جو کہ بہت پرانی تھی۔اُس کی بینائی پہلے سے بہت زیادہ کمزور ہو گئی تھی اب اس عینک کے شیشے کام نہ دے سکتے تھے چنانچہ بھابی جان اُس کی زندگی ہمیشہ کے لیئے تلخ ہو گئی۔ اُس کا گھربار اُجڑ گیا‘مقدمے ہوئے ہزاروں روپے وکیلوں کی نذر ہوئے اور ایک دن ایساآ یا کہ وہ اس عینک کی بدولت پیسے پیسے ۔کو محتاج ہو گیا۔

کشور: تم نے اپنے خط میں۔۔۔

نرائن: اس بات کا ذکر میں اُس سے نہیں کر سکا۔۔۔ تو دیکھا بھابی جان کس طرح عینک نے ایک بہت بڑے رئیس کے لڑکے کو تباہ وبرباد کیا۔۔۔ اب میری داستان سنئے۔

کشور : تمہاری؟

نرائن: ہاں میری۔۔۔ جب میں نے اُس دکھی آدمی سے اُس کی بپتا سُنی تو فوراً ہی مجھے اپنی عینک کا خیال آیا اور میں نے سوچا کہ میری مصیبتوں کی جڑ بھی یہی چیز تھی مجھے گوپال داس گھنشام واس آپٹیشنز نے اس قصور پر ملازمت سے علیحدہ کر دیا تھا کہ میں نے ڈپٹی کمشنر کی میم صاحبہ کی عینک میں غلط نمبر کے شیشے ڈال دئیے تھے۔ جس کے باعث اُس کے سر میں پندرہ روز تک درد ہوتا رہا۔۔۔ آپ کو شاید اس واقعہ کا علم ہو گا؟

لاجونتی: جی نہیں مجھے یاد نہیں کہ آپ نے کبھی اس کا ذکر کیا ہو۔

کشور: لاجونتی‘ یہ سب۔۔۔

نرائن: داستان کشور کو معلوم ہے ۔۔۔ دس سال میں پہلی بار مجھ سے غلطی ہوئی اور مجھے اس کا اعتراف ہے‘ مگر اس وقت میں اس غلطی کا سبب معلوم نہیں کر سکا تھا۔ مجھے ملازمت سے علیحدہ کر دیا گیا اور میں بے روز گار ہو گیا۔ پانچ مہینے دربدر پھرنے کے بعد چلتی گاڑی میں جب میں نے اُس مسافر کی داستان سُنی تو میری آنکھیں کُھلیں۔ فوراً ہی میں نے اپنا چشمہ اُتار کر دیکھا اور معلوم ہُوا کہ اُس کے شیشے اپنی جگہ سے ہٹے ہوئے تھے۔ اگر یہ اپنی جگہ پر ہوتے تو ڈپٹی کمشنر کی میم صاحبہ کی عینک میں غلط نمبر کے شیشے کبھی نہ لگائے جاتے۔۔۔

لاجونتی: آپ کو عینک نے واقعی بہت نقصان پہنچایا۔

نرائن: جی ہاں۔۔۔ میں نمبر دیکھنے میں بہت ماہر تھا۔ دس برس یہی کام کرتے کرتے میں ایک نظر دیکھ کر بتادیا کرتا تھا کہ فلاں شیشہ اس نمبر کا ہے اور فلاں اُس نمبر کا۔ پر جب میری اپنی عینک کے شیشے اپنی مقرر جگہ سے ہٹے ہوئے تھے تو غلطی کا ہونا ضروری تھا۔۔۔ چنانچہ میں نے بھی اپنی تباہی کی داستان عینک کے سب سے بڑے شکار کو سُنائی‘ اُس نے مجھ سے ہمدردی کا اظہار کیا اور کہاجب مجھے معلوم ہوا کہ میری بربادی میں عینک کا ہاتھ تھا تو میں نے فوراً اُتار کر توڑ ڈالی اور ایسی بُوٹیوں کی تلاش میں جنگلوں کی طرف نکل گیا جس سے آنکھوں کی بینائی عینک کے بغیر دُرست ہوسکے۔ چنانچہ پانچ برس بڑے بڑے خوفناک جنگلوں کی خاک چھاننے کے بعد مجھے ایک سادھو بابا کی مدد سے ایسی بُوٹی مل گی جس کا سرمہ آنکھوں کی تمام کمزوریوں کو رفع کر سکتا ہے۔ اس سُرمے کی ایک سلائی لگانے سے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں چٹا‘پھولا‘موتیا بند وغیرہ سب مرض اس کے استعمال سے دُورہو جاتے ہیں۔۔۔ یہ سرمہ آنکھوں کی روشنی ہے۔۔۔ اُس نے یہ کہہ کر بڑی مہربانی سے اس سُرمے کا نسخہ مجھے بتایا اور کہا اسے اپنے گھر میں بناؤ اور لوگوں میں تقسیم کرو تاکہ سب کا بھلا ہو مگر لاگت سے زیادہ ایک پیسہ بھی لینا تم پر حرام ہے ۔۔۔چنانچہ صاحبان۔۔۔ اس سُرمے کی چھوٹی شیشی کی قیمت صرف آٹھ آنے بڑی شیشی کی قیمت صرف ایک روپیہ نمونے کی ایک سلائی آپ کو مفت مل سکتی ہے۔۔۔ نفع لینا مجھ پر حرام ہے (شیشیوں کی آواز)۔۔۔ صاحبان چھوٹی شیشی کی قیمت صرف آٹھ آنے‘ بڑی شیشی کی قیمت صرف ایک روپیہ‘ نمونے کی ایک سلائی مفت۔۔۔نفع لینا مجھ پر حرام ہے۔

لاجونتی: یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔ کہاں عینک کی داستان اور کہاں یہ سرمے کی شیشیاں۔

کشور: لاجونتی‘ یہ خط اس نے پُونا سے بھیجا ہے‘ اُس میں‘۔۔۔

نرائن: یہ سُرمہ بہت لاجواب ہے‘ ہزاروں اندھے اس کے لگانے سے دیکھنے لگے ہیں۔۔۔ یہ لیجئے دو شیشیاں ان کی قیمت صرف ایک روپیہ ہے۔ یعنی لاگت کے دام۔۔۔

لاجونتی: آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں کچھ پتا بھی تو چلے۔۔۔ آخر یہ قصہ کیا ہے۔۔۔ میری سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آتا۔

نرائن: (ہنستا ہے) وہ کیوں؟۔۔۔کیا آپ کو کشور نے میرا خط پڑھ کر نہیں سُنایاجو میں نے پُونا سے بھیجا تھا۔ میں اُس میں سب کچھ لکھ چکا ہوں۔

کشور: میں پون گھنٹے سے اسے تمہارا خط سُنانے کی کوشش کر رہا تھا پر اس نے سُنا ہی نہیں۔ میں ابھی ابھی اس سے کہہ رہا تھا کہ پُونا سے نرائن کا خط آیا ہے جس میں اُس نے ۔۔۔

نرائن: ٹھہر و میں بتا دیتا ہوں۔۔۔ بھابھی جان اب میں نے یہ سُرمہ بیچنا شروع کر دیا ہے جب تک کوئی ملازمت نہیں ملتی میں یہی کام کروں گا۔ یہ ساری داستان جو میں نے ابھی آپ کو سُنائی ہے بڑی محنت سے میں نے سودا بیچنے کے لیئے بنائی ہے۔۔۔ کیوں بھائی کشور بتاؤ کیسی رہی؟

کشور: (غصے میں) تم اور تمہاری داستان جائے بھاڑ میں۔۔۔ لعنت ہو تم دونوں پر ۔۔۔ پہلے مجھ سے یہ چوہے بلی کا کھیل کھیلتی رہی اور تم نے بھی آتے ہی یہی کھیل شروع کر دیا۔ مجھے کھلونا سمجھ لیا گیا ہے۔۔۔ میں جاتا ہوں (کاغذ کی کھڑ کھڑاہٹ)۔

نرائن: ارے بھئی کہاں چلے۔

کشور: (آواز دُور سے آتی ہے) وہاں چلا ہوں‘ جہاں تُم ایسے درندے نہیں ہوں گے۔۔۔وہاں چلا ہوں جہاں میں یہ خط کسی کو اطمینان سے سنا سکوں گا۔

فیڈ آؤٹ

مأخذ : کتاب : آؤ اشاعت : 1940

مصنف:سعادت حسن منٹو

مزید ڈرامے پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here