جو نیکی کر کے پھر دریا میں اس کو ڈال جاتا ہے
وہ جب دنیا سے جاتا ہے تو مالا مال جاتا ہے
سنبھل کر ہی قدم رکھنا بیابان محبت میں
یہاں سے جو بھی جاتا ہے بڑا بے حال جاتا ہے
کبھی بھوکے پڑوسی کی خبر تو لی نہیں اس نے
مگر کرنے وہ عمرہ اور حج ہر سال جاتا ہے
مناؤں ہر برس جشن ولادت کس لئے آخر
یہاں ہر سال میری عمر کا اک سال جاتا ہے
ہے دنیا تک ہی اپنی دسترس میں دولت دنیا
فقط ہم راہ اپنے نامۂ اعمال جاتا ہے
بنا دیکھے خدا کو مانتا ہوں اس لئے ساحلؔ
کوئی تو ہے جو ہم کو روز دانہ ڈال جاتا ہے
شاعر:عبدالحفیظ ساحل قادری