رندھیر پہلوان: آواز موٹی اور کرخت
ساوتری: زمیندار کی بھولی بھالی لڑکی۔۔۔آواز لرزاں
شامو: ساوتری کا چاہنے والا۔۔۔تیز مزاج
جوان خیال
زمیندار: ساوتری کا باپ۔ ریا کار اور چالباز
منیم : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شامو کی ماں: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مادھو: رندھیر پہلوان کا شاگرد
تھانیدار: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور گاؤں کی تین چار لڑکیاں۔۔۔چار پانچ ایکسٹرا۔
(ڈھور ڈنگروں کے ہانکنے کی آواز گھنگرؤں کی جھنجھناہٹ
وغیرہ وغیرہ ہانکنے کے ساتھ یہ آواز بھی آتی ہے‘‘ اے تجھے
سانپ کاٹے تیری ٹانگ ٹوٹ جائے۔۔۔ذیل کا گیت شروع ہو۔
جس کے عقب میں گائے بیلوں کے ڈکرانے اور ان کے گلے
میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی آواز آتی رہے)
گیت
لیئے ڈنگر ڈھور چرا۔۔۔چلو درشن کر لیں ہیر کے
گھٹا گرج گج کے آ رہی
بھر بھر کے پانی لا رہی
رہے بول پپیہے مور۔۔۔ ہم چلیئے رانجھے ہیر کے
نوٹ: جب گھٹا کا ذکر آئے تو عقب میں بجلی کے کڑکنے کی آواز پیدا کی جائے۔
شامو: ایک لمبا سانس لیتا ہے) ابھی تک آئی کیوں نہیں۔۔۔ کہیں نظر ہی نہیں آتی۔۔۔ من میں کیسے کیسے وہم اٹھتے ہیں۔۔۔ کسی گائے سے غصے میں) اے تجھے سانپ کاٹے سیدھی ہو کے چل۔۔۔(پھر لمبا سانس لینا ہے) مسک بری بلا ہے۔۔۔ مسک بری بلا ہے۔ کہاں میں ایک گریب مجدُور اور کہاں وہ گاؤں کے جمیدار کابیٹا۔۔۔ یہ بہت بُرا پھنسا ہے شاہوبیٹا تو اس پریم کے چکر میں۔۔۔
(ساوتری کی تیز ہستی کی آواز)
شامو: (چونک کر) کون۔۔۔ ساوتری
ساوتری (ہنستی ہے)۔۔۔ بہت برا پھنسا ہے تو اس پریم کے چکر میں (مصنوعی سنجیدگی کے ساتھ) بہت بُرا پھنسا ہے۔۔۔ یہی بات ہے ناشامو۔ تو تو صاف کہہ دے تیری میری ٹوٹ گئی۔ میں تو یہ پہلے ہی جانتی تھی کہ تو ایسا ہی کرئے گا ۔
شامو: یہ آج تو کس بات پر بگڑبیٹھی ہے ارے بھئی سنا تو ہوتا میں کیا کہہ رہا تھا۔ میں تو نصیب کی بات کر رہاتھا۔ کیا یہ جھوٹ ہے کہ تو ہمارے جمیدار کی بیٹی ہے۔
اور کیا یہ سچ نہیں کہ میں ایک غریب مجدُور ہوں (ہنستا ہے) ساوتری پریم کے پنتھ نیارے ہیں جو ہو گا دیکھا جائے گا۔۔۔ چھوڑ تو ان باتوں کو آچلیں ۔
ساوتری (بگڑ کر) آچلیں۔۔۔ تجھے پتہ بھی ہے کہ میں یہاں دو گھنٹے سے تیری راہ دیکھ رہی ہوں۔ سچ مچ مرد بڑے وہ ہوتے ہیں۔۔۔ میں نہیں چلوں گی۔ یہ بھی کوئی بات ہے کہ تیرے لیئے ہر روز مجھے باپو کی جھڑکیاں سہنی پڑیں اور تو چپکے سے اپنے گھر چلا جاتا ہے۔
شامو: جتنی جھڑکیاں تجھے اب تک ملی ہیں سب کی سب مجھے دے دے لے بس اب خوش ہوئیں۔
ساوتری: نہیں شامو۔ اب میں چلتی ہوں۔۔۔ بہت دیر ہو گئی ا ور پھر گھٹا چھا رہی ہے اگر راستے میں برکھا شروع ہو گئی تو کیا ہو گا۔۔۔ تجھے دیکھ لیا ہے بس آج یہی کافی ہے۔
ساوتری: جانے کو جی تو نہیں چاہتا پر کیا کروں۔ باپو کا ڈر بھی تو ہے ان کو پتہ چل گیا تو مار ہی ڈالیں گے۔۔۔ ہاں تیرے سر میں کل درد ہو رہا تھا۔
اب کیا حال ہے۔؟
(چار پانچ لڑکیوں کی ہنسی کی آواز)
ایک لڑکی: (مصنوعی مردانہ آواز میں) ابھی کچھ کچھ درد ہے تو سردبادے تو یوں چٹکیوں میں آرام آجائے گا۔
شامو: (گھبرا کر گایوں کو ہانکتا ہے اور ذومعنی اندا زمیں چلاتا ہے۔۔۔ اے تجھے سانپ کاٹے۔۔۔ تیری ٹانگ ٹوٹ جائے۔۔۔
دوسری لڑکی: ساوتری بیچارے کا سردبادیاہوتا۔۔۔ پر میں پوچھتی ہوں یہ مزا کیا ہوتا ہے۔
تیسری لڑکی: اری سُن تو۔۔۔ بڑی چالاک بنتی ہے۔۔۔ سُنا وہ موا تجھے گالی دے گیا ہے۔
ساوتری: جھوٹ کیوں بکتی ہے۔ اس نے گالی کب دی ہے۔
پہلی لڑکی: دیکھ ساوتری۔ اگر اس موئے نے سچ مچ مجھے گالی دی ہے۔ تو مجھ جیسا بُرا کوئی نہ ہو گا۔۔۔ میں لحاج نہ کروں گی۔
ساوتری: اس نے تجھے گالی تھوڑے دی ہے۔۔۔ وہ تو اپنے دھیان میں جارہا ہے۔
پہلی لڑکی: بنسری تو مجھے بتا کیا کہا تھا اس نے ؟
(دور سے شاموکی آواز آتی ہے)۔۔۔ اے تجھے سانپ کاٹے۔۔۔ تیری ٹانگ ٹوٹ جائے۔
تیسری لڑکی: یہی کہا تھا جواب کہہ رہا ہے۔
ساوتری: بنسری تو تو ایک لفتی ہے جنگ کرائے گی۔۔۔ وہ اس کو تھوڑے کہہ رہاہے۔ دیکھتی نہیں گائیں ہانک رہا ہے۔
پہلی لڑکی: لے میں نے مان لیا۔۔۔ اب بتا اس شامو کے ساتھ یہ میٹھی میٹھی باتیں کیا کر رہی تھی۔ بھئی بندو‘ کچھ بھی ہو۔ ساوتری نے اپنے لیئے اچھا گبھرو چنا ہے۔
ساوتری: چل ہٹ۔ لاج تو نہیں آتی۔ ایسی باتیں کرتے۔
پہلی لڑکی: اوہو۔۔۔ بڑی آئی میری لاج والی
دوسری لڑکی: میں بھی کہوں کہ روز یہ گھاٹ کی طرف کیوں آتی ہے؟۔۔۔
تیسری لڑکی: اس گوالے سے ملنے!
پہلی لڑکی: تو کیا ہوا۔۔۔ گوالوں کے پہلو میں دل نہیں ہوتا۔
(سب زور سے ہنستی ہیں۔۔۔ آہستہ آہستہ یہ ہنسی فیڈ ہو جائے)
(رندھیر پہلوان ہنستا ہے۔۔۔ زور زور سے)
مادھو: استاد‘ راجہ نل کو تو تم نے سدھ کر لیا۔ پر وہ لونڈیا ساوتری تم سے رام نہیں ہوئی۔
رندھیر(غصے میں) کئی بارتم سے کہہ چکا ہوں کہ مادھوتم مجھے نہ چھیڑا کرو ورنہ کسی روز تاؤ میں آکرمیں کچھ کر بیٹھوں گا پرتم ٹلتے ہی نہیں۔۔۔ پہلوان آدمی ہوں۔ ڈنٹر پیلتا ہوں۔ مگدرگھماتا ہوں‘ مجھے عشق سے کیا کام۔۔۔ شرابی کبابی ہوں سرکار مجھے دس نمبریوں میں گنتی ہے کئی بار جیل ہو چکی ہے عشق کیا خاک کروں گا۔۔۔ ہاں سوچنے کی بات ہے۔
(وقفہ)
مادھو: تو چھوڑاس قصے کو۔۔۔ چلو ایک دو بازی اور چوسر کی رہے۔۔۔
رندھیر(افسردگی کے ساتھ) ۔۔۔ نہیں بھائی۔۔۔ بس اب کل۔۔۔
مادھو: چلے!
رندھیر: ہاں بھئی اب اکھاڑے کی طرف جاؤں گا۔۔۔ آنا ہو تو ادھر آجائیو۔
(وقفہ)
اس وقفے کے بعد رندھیر بھدّی آواز میں گانا شروع کرتا ہے:
دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے۔ ورنہ کہیں تقدیر تماشا نہ بنا دے
(اس شعر کو لہر میں رندھیر کئی مرتبہ دہراتا ہے)
رندھیر: (اونچی آوا زمیں جیسے دُور بیٹھے آدمی کو مخاطب کر رہا ہے)۔۔۔ دنیو کاکا
ؒ دنیو: سرکار۔کیا حکم ہے؟
رندھیر: لسّی بنائی؟
دینو: ابھی بنا دیتا ہوں۔
رندھیر: نہیں۔۔۔ میں آج نہیں پیؤں گا۔
دینو: ادھر دوکان کی طرف تو آئیے پہلوان صاحب۔۔۔ مزاج کیسے ہیں
آپ کے؟۔۔۔ ہاں کل کی ہار جیت کیسی رہی؟
رندھیر: کیسی ہار اور کیسی جیت مطلب شراب سے ہے سووہ مل ہی جاتی ہے۔
(گاتا ہوا چل دیتا ہے) دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے۔۔۔ ورنہ کہیں۔۔۔
دینو: درباری مل کچھ سُنا تم نے۔۔۔ یہ رندھیر پہلوان گا رہا ہے۔۔۔
(گانے کی آواز جو دُور سے آئے)
درباری مل: بھئی واہ۔۔۔ کیا گلا پایا ہے۔ پر میں پوچھتا ہوں آج اسے گانے کی کیا سوجھی ہے۔ پہلے تو کبھی گانا یوں سوار نہیں ہوا تھا پہلوان پر رندھیر کے گانے کی آواز آتی ہے۔۔۔ دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے ورنہ کہیں تقدیر۔۔۔
(آہستہ آہستہ فیڈ کیا جائے)
(ساوتری پُر سوزدُھن میں ذیل کا گیت گائے)
تیرے بنا یہ دنیا ساری جہر دکھائی دے
گولی جیسا جکھم پڑ امنے پھیر دکھائی دے
اب سوچ لیا یوں من میں
کیوں ڈالی جان بگھن میں
ان سیلی سیلی باتوں میں نہ کھیر دکھائی دے
تیرے بنا یہ دنیا ساری جہر دکھائی دے
(ساوتری کھانے کے بعد ٹھنڈی سانس بھرتی ہے)
شامو کی ماں: ساوتری؟
ساوتری (ڈرکر) کون ہے؟
شامو کی ماں: ڈر نہیں بیٹا۔۔۔ میں ہوں شامو کی ماں!
ساوتری : کیا ہے ماتا جی؟
شامو کی ماں: ادھر آمیرے پاس۔۔۔ گھبرا نہیں مجھے ساری باتوں کی خبرہے۔
اسی لیئے تو تیرے پاس آئی ہوں۔۔۔دیکھ ساوتری تیرا اور شامو کا کوئی جوڑنہیں تو ایک دھنوان کی بیٹی ہے اور وہ ایک غریب مجدُور اس میں تیری ہی بدنامی ہے بیٹا۔۔۔ اُس کو سمجھاتی ہوں پر وہ پروں پر پانی ہی نہیں لیتا۔ مجھے کوئی بات ہی کرنے نہیں دیتا۔ اسی واسطے تیرے پاس آئی ہوں کہ تو سمجھدار ہے۔
ساوتری: ماتا جی۔۔۔ میں۔۔۔ میں۔۔۔
شامو کی ماں: میں کہتی ہوں اگر تم دونوں نہ مانو گے تو جرور کوئی آپھت کھڑی ہو جائے گی۔۔۔ اس کا تو سر پھر گیا ہے۔ میں سُنتی ہوں کچھ دنوں سے اس نے کسانوں کو جمعدار جی کے کھلاف اکسانا شروع کر دیا ہے۔ میں تجھ سے کیا کہوں بیٹا میری جان تو بڑے جوکھم میں پھنس گئی ہے۔۔۔
جب سے یہ بات سُنی ہے میرا دل بتاشے کی طرح بیٹھا جا رہا ہے میرا کہا ما ن اور اس سے ملنا چھوڑ دے۔
ساوتری: پرماتماجی۔۔۔(رونا شروع کر دیتی ہے)۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے میں اس سے ملنا کیسے چھوڑ سکتی ہوں۔۔۔ سسکیاں۔۔۔ آپ مجھ سے یہ کیوں کہتی ہیں۔۔۔ میں ۔۔۔ میں۔۔۔
شامو کی ماں: بات سن۔۔۔ ساوتری۔۔۔ ساوتری۔۔۔ اس نے رونا شروع کر دیا ہے۔۔۔جھراٹھیرتو۔۔۔ (اپنے آپ سے)
بھاگ گئی(پیروں میں پہنے ہوئے جھانجھنوں کی آواز۔۔۔(وقفہ)
اس کے دوران میں ساوتری کے چلنے کی آواز آتی ہے۔ آہستہ آہستہ ساتھ ہی ساتھ سسکیاں بھی سنائی دیں۔
ساوتری: (رونی آوازمیں) میں اب کہاں جاؤں۔۔۔ کیا کروں۔۔۔ اب کیا ہو گا؟
(تھوڑے وقفے کے بعد گاتی ہے درد بھری دھن میں۔
تیرے بنا یہ دنیا ساری جہر دکھائی دے
گولی جیسا جکھم پڑا، منے پھر دکھائی دے
اب سوچ لیا یہ من میں
کیوں ڈالی جان مگھن میں
ان سیلی سیلی باتوں میں نہ کھیردکھائی دے
تیرے بنایوں دنیاساری جہر دکھائی دے
(آہستہ آہستہ یہ گیت فیڈ کیا جائے)
زمیندار: آؤ پہلوان۔۔۔ ادھر میرے پاس بیٹھو۔۔۔ بیٹھ جاؤ۔۔۔
رندھیر: آپ نے مجھے بُلایا تھا۔ کیا کام ہے۔
زمیندار: ارے بھائی ذرا آرام تو کرلو۔ کام جب تک زندگی ہے ہوتے ہی رہیں گے(آواز دے کر) منیم جی۔۔۔ منیم جی
منیم: سرکار۔۔۔ کیا حکم ہے؟
زمیندار: رندھیر پہلوان کی پچھلے مہینے اور اس مہینے کی تنخواہ تم نے ابھی تک کیوں نہیں دی۔۔۔ یہ بہت بُری بات ہے۔۔۔ دیکھو آئندہ ایسی گڑ بڑ نہ ہو۔۔۔ ہاں تو ابھی لا کر پہلوان صاحب کو دے دے۔
منیم: بہت اچھا سرکار۔۔۔
پہلوان: زمیندار۔ کیوں آپ تکلیف کرتے ہیں۔۔۔آپ ہی کاتو کھاتا ہوں۔ پھرلے لوں گا۔
زمیندار: نہیں پہلوان یہاں کوڑی کوڑی کا حساب کیا جاتا ہے۔۔۔۔ تم کام کرتے ہو یہ پیسے مفت تھوڑی لیتے ہو۔۔۔ ہاں تو یہ بتاؤ۔۔۔ ہاں تو میں کیا بات کر رہا تھا۔۔۔ بوتل منگواؤں۔۔۔ وہ شراب کھچوائی ہے کہ تمہاری طبیعت صاف ہو جائے۔ منیم جی۔ وہ کل جو چار بوتلیں آئی تھیں ان میں سے دو پہلوان صاحب کی ہیں۔ کوئی اور اُڑا کر نہ لے جائے۔
رندھیر: اپنی کھچوائی ہے۔۔۔؟
زمیندار: ہاں ہاں‘ خاص طور پر میں نے اپنے لیئے کھچوائی تھی بیچ میں کئی مصالحے بھی ڈلوائے ہیں۔ ہاں بھئی پہلوان۔ قصہ یہ ہے کہ اس شامونے کچھ دنوں سے مجھے تنگ کرنا شروع کر دیا ہے۔ کسانوں کو میرے خلاف اکسا رہا ہے جس سے لگان وصول کرنے میں مشکل پیدا ہو گئی ہے۔۔۔ ہے توبڑی معمولی سی بات پر تم جانتے ہی ہو۔ اگر میں خاموش رہا۔۔۔تو دوسرے شہ پکڑ جائیں گے۔۔۔ کل منیم سے باتیں ہو رہی تھیں۔ میں نے کہا ہمارا پہلوان جو ہے وہ شامو کو یوں چٹکیوں میں ٹھیک کر دے گا۔۔۔کیوں پہلوان ۔ یہ تمہارے دائیں ہاتھ کا کام ہے۔۔۔
رندھیر: (خوش ہو کر۔ ہنستا ہے) میں سمجھتا تھا نہ جانے کتنا بڑا کام آپ اس بار میرے سپرد کریں گے۔۔۔ آپ کوئی چنتا نہ کریں۔۔۔شامو کی ساری اکڑفوں میں دُور کر دُوں گا۔۔۔
زمیندار: دیکھا منیم‘ میں نے کیا تم سے جھوٹ کہا تھا۔۔۔خیر۔۔۔ لو پہلوان یہ تھوڑی سی نمونے کے طور پر پیو۔۔۔اتفاق سے باہر ہی پڑی تھی۔
(انڈیلنے کی آواز۔۔۔)
رندھیر: بس ۔۔۔بس۔۔۔ زمیندار جی بس۔۔۔ آپ نے تو سارا گلاس بھر دیا۔
زمیندار: بھئی پہلوان پینا تمہارا ہی حصہ ہے۔۔۔ ہم تو تمہارے سامنے دودھ پیتے بچے ہوئے۔۔۔ گلاس تم موڑے بغیر ایک گھونٹ میں خالی کر دو گے۔
رندھیر: زمیندار جی۔ اب وہ زمانے نہیں رہے۔ کبھی پیا کرتا تھا۔۔۔ اب تو دل بہلاوا باقی رہ گیا ہے۔۔۔ اب وہ دم خم نہیں رہے۔
(غناغٹ پینے کی آواز)
زمیندار: پہلے تو مٹکے ہی خالی کرتے ہو گے۔
رندھیر: بڑی تیز ہے۔۔۔ چھری کی طرح سینہ کاٹتی چلی گئی۔
زمیندار: تو ایک گلاس اور دے
(انڈیلتا ہے)
رندھیر: زمیندار جی۔ اب وہ دم خم نہیں رہے۔ میں سچ کہتا ہوں۔ آج سے چھ برس پہلے اگر آپ نے رندھیر پہلوان کو دیکھا ہوتا تو۔۔۔
زمیندار (بات کاٹ کر)۔۔۔لو پیؤ
رندھیر: (غناغٹ پینے کے بعد) بس اس شامو ہی کو ٹھیک کرنا ہے یا کوئی اور کام بھی ہے۔۔۔ شراب کیا ہے خنجر ہے۔۔۔
منیم: سرکار مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں شامورندھیر کا دشمن نہ ہو جائے۔
رندھیر: کیا کہا (ہنستا ہے) میرا دشمن۔۔۔ (ہنستا ہے)
زمیندار: تم بھی نرے کھرے بے وقوف ہو منیم۔۔۔ پہلوان کو سب کڑیاں ہیں وہ سرے سے اس کا صفایاہی نہ کر دے گا۔
رندھیر: ایک دھپے کی مار ہے۔۔۔ ماں قسم (ہچکی لیتا ہے) ماں قسم ایک ماں قسم ‘ ایک ڈانٹ بتاؤں تو مارے دہشت کے بیہوش ہو جائے۔
زمیندار: بات زیادہ بڑھانی نہیں چاہیئے ‘ روپے پیسے کا تم کچھ فکر نہ کرو۔ اگر کوئی ایسی بات ہو بھی گئی تو میں سب بندوبست کرلوں گا۔۔۔ پانچ سو روپیہ میں نے اس کام کیلئے الگ رکھ چھوڑا ہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر چپکے سے یہ کانٹا نکال ہی دیا جائے تو کیا برا ہے۔۔۔
(جوش بھرے ہجوم کی آوازیں)
شامو: میں جمعدار کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہوں۔۔۔ اگر اس کا بس چلے تو مجھے پھانسی پر لٹکوا دے‘ مگر وہ پاپی اس لیئے ڈرتا ہے۔۔۔ اس کے سارے بھید چونکہ میں جانتا ہوں اس لیئے وہ میری پرچھائیں سے بھی ڈرتا ہے۔۔۔ بھائیو میری بات یاد رکھو۔۔۔جالم کبھی بہادر نہیں ہوا۔ تم بالکل نہ گھبراؤ وہ تمہارا بال بھی بیکانہ کر سکے گا۔۔۔ہم اس سے بھیک تو نہیں مانگتے۔۔۔ ہم اس سے وہ چیزیں مانگتے ہیں جو وہ ہم سے چھین چکا ہے۔۔۔اس کی ڈانٹ ڈپٹ میں بالکل نہ آؤ اور ایسے ہی ڈٹے رہو سرکار کے کانوں تک یہ بات پہنچ گئی تو سمجھو بیڑاپار ہے۔۔۔ اس کے ڈھول کا پول سارا کھل جائے گا۔۔۔
ایک آدمی۔۔۔ شامو بھیا‘ تم کو یہ بھی پتہ ہے کہ اس نے رندھیر پہلوان کو روپے پیسے کا لالچ دے کر ہمارے کھلاف کر دیا ہے۔ کل شراب پی کر وہ تمہیں گالیاں دے رہا تھا۔۔۔
شامو: میں سب جانتا ہوں۔۔۔ پردہ ہمارا کیا بگاڑ سکتا ہے۔۔۔ اس کُتّے کی پرواہ نہ کرو۔۔۔ وہ جمعدار سے بھی جیادہ پاپی ہے۔ اس کا نام نہ لو۔
میر ے سامنے۔ میرا کھون کھولنے لگتا ہے۔
(جھانجھ کی تیز آواز)
رندھیر: (سخت غصے میں) ۔۔۔ اس نے مجھے کُتّا کہا۔
مادھو: ہاں‘ ہاں‘ اُستاد ‘ میں نے ان کانوں سے سنا ہے۔
رندھیر: اس نے مجھے کتا کہا۔۔۔ اس نے رندھیر پہلوان کو کتا کہا۔۔۔
اب اگر وہ پَر لگا کر آسمان پر اُڑجائے تو میں اسے زندہ نہ چھوڑوں گا(غصے میں) مادھو۔۔۔ وہ تیرے اُستاد کو گالیاں دیتا گیا اور تو خاموش کھڑا رہا۔۔۔ تو نے اس کی زبان گدّی سے باہر نہ کھینچی۔۔۔ لیکن کیا ہوا۔۔۔ میں ابھی جا کر اس کو مزا چکھاتا ہوں۔۔۔ اس نے رندھیر پہلوان کو سمجھا کیا ہے۔۔۔
(جھانجھ کی تیز آواز)
(شامو کے گنگنانے کی آواز۔۔۔ تھوڑی دیر گنگنانے کے بعد۔۔۔
وہ یہ گیت شروع کرتا ہے)
گر کہہ دے تو منہ سے کہ میری ہے۔۔۔تیری اتنی ہی بات بہتیری ہے
دکھئے میں ہوں کھتری کا لڑکا
مرنے کا نہیں کرتا دھڑکا
میں تڑکاتوں رات اندھیری ہے۔۔۔
رندھیر: تو کھڑا یہاں کیا ٹرا رہا ہے؟
شامو: اوہ رندھیرپہلوان۔۔۔ کیوں میرا گانا پسند نہیں آیا۔۔۔
رندھیر: میں پوچھتا ہوں یہاں جھاڑیوں کے پیچھے تو اکیلا کھڑا کیا کر رہا ہے
شامو: گارہا تھا۔۔۔ اب تیرا منہ دیکھ رہا ہوں۔۔۔
رندھیر: تو کھتری کا لڑکا ہے نا۔۔۔ مرنے مارنے سے تو بالکل نہیں ڈرتا
(طنزسے) کھتری کا لڑکا جو ہوا
شامو: جا۔ اب راستہ پکڑ۔۔۔ بہت باتیں کر چکا ۔۔۔
رندھیر: یہ میرے ہاتھ میں تجھے لاٹھی نظر آرہی ہے کہ نہیں۔
شامو: تو لڑنا چاہتا ہے تو لڑ۔ یہ ہیرا پھیری کیا کرتا ہے۔
رندھیر: تجھ سے کیا لڑوں گا۔۔۔ یہ ایک لاٹھی تیرے سرماردُوں تو زمین میں گھٹنوں تک گڑ جائے۔
شامو: تیری لاٹھی اُٹھنے سے پہلے ہی اگر۔۔۔
رندھیر: لے سنبھل جالاٹھی اُٹھانے کی آواز۔۔۔ پھر زور کی چیخ کون اُف۔۔۔(سنبھل کے۔۔۔ ساوتری۔۔۔
ساوتری۔۔۔شامو۔۔۔ شامو۔۔۔ یہ میں نے کیا کر دیا۔۔۔ اب کیا ہو گا؟
رندھیر: ساوتری تونے میرا ماتھا لہو لہان کر دیا ہے۔۔۔ یاد رکھ اس کی سزا تجھے بھگتنی پڑے گی۔۔۔ شامو‘ تجھ سے میں پھر نبٹ لُوں گا۔ ساوتری بیچ میں آگئی۔ ورنہ آج میں نے تمہارا کچومر نکال دیا ہوتا۔
(رندھیر کے جانے کی آواز)
ساوتری: (ڈرے ہوئے لہجہ میں بالکل آہستہ) چلا گیا۔ پر مجھے ڈر ہے وہ پھر آئے گا اور تجھے مارے گا۔
شامو: دیکھا جائے گا۔۔۔ تو اپنی بالٹی اُٹھا۔
ساوتری۔ میں ان جھاڑیوں کے پیچھے چھپی ہوئی تھی۔ جب اس نے تم پروار کرنے کے لے لاٹھی اُٹھائی تو بالٹی اپنے آپ میرے ہاتھ سے نکلی گئی۔
شامو: اس کو بہت گہری چوٹ آئی ہے۔۔۔ وہ مجھ سے ضرور بدلہ لے گا۔۔۔ ہائے اب کیا ہوگا۔۔۔
(روپوں کی جھنا چھن)
زمیندار : آؤ۔۔۔ آؤ پہلوان آؤ۔۔۔ منیم۔۔۔ یہ ڈھیری اُٹھا لو۔ باقی حساب پھر کریں گے۔۔۔ آؤ یہاں بیٹھ جاؤ۔۔۔ارے یہ تمہارے ماتھے کو کیا ہوا ہے۔
رندھیر: کچھ بھی نہیں!
زمیندار: کچھ بھی نہیں کیسے۔۔۔ یہ پٹی پھر کیوں باندھ رکھی ہے۔۔۔
رندھیر: چوٹ آگئی ہے۔
زمیندار کیسے؟
رندھیر: کل شامو سے ذرا چخ ہو گئی تھی۔
منیم: اور اس نے تمہیں گھائل کر دیا۔ ہمیں کیوں بنا رہے ہو پہلوان؟
رندھیر: اس نے مجھے گھائل نہیں کیا۔
زمیندار: تو پھر کس نے کہا۔۔۔ تم مجھے بتاؤ‘ وہ کون ہے؟
رندھیر: اب میں آپ سے کیا کہوں۔۔۔یہ۔۔۔ یہ۔۔۔ بات یہ ہے کہ چوک مجھ سے ہی ہوئی۔۔۔ میں اپنے ۔۔۔ میں اپنے دھیان میں رہا اور اس نے وار کر دیا۔
منیم: کس نے؟
رندھیر: سا۔۔۔سا۔۔۔ (بدل کر) شامو نے۔۔۔ لیکن کیا ہوا۔ آج پھر دو دو ہاتھ ہو جائیں گے۔
زمیندار: لیکن بھئی رندھیر‘ لوگ باگ سُنیں گے تو کیا کہیں گے کہ پہلوان نے اس کل کے لونڈے سے۔۔۔
منیم: پر زمیندار جی پہلوان بچہ تھوڑی ہے اس نے سب بندوبست کر لیا ہو گا۔
زمیندار: مزا تو جب ہے کہ رندھیراپنی بدنامی سے پہلے ہی اس کا صفایا کر دے۔۔۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔۔۔ کیوں منیم؟
منیم: باون تولہ اور پاؤ کرتی کی بات کہی ہے۔۔۔
زمیندار: اور مجھ سے جس قسم کی امداد پہلوان لینا چاہے۔ میں دینے کو تیار ہوں۔۔۔ پانچ سو روپیہ دیتا ہوں۔۔۔ چپکے اپنا کام کرئے اور کسی دوسرے شہر چلا جائے۔
منیم: اور جب معاملہ ٹھنڈا ہو جائے تو پھر واپس چلا آئے۔
رندھیر: روپے پیسے کی بات چھوڑیے۔۔۔ میں آپ کا کام کر دُوں گا‘ زمیندار جی اور بہت جلد کر دوں گا۔۔۔ ایک آدمی مارنا کوئی کٹھن کام نہیں۔۔۔ میں کچھ اور ہی سوچ رہا تھا پر اب فیصلہ کر لیا ہے کہ شاموزندہ نہ رہے گا۔
زمیندار: اس پر رندھیر کام ایسے ہو کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔۔۔ میرا مطلب ہے ۔ ک۔۔۔
(اس فقرے کا آخری حصہ فیڈ کر دیا جائے)
ساوتری ذیل کا گیت گاتی ہے
ایک نجردیکھ پیاکو برسوں ترسی ہوں
برکھا میں جو کالی بدریا
رو رو برسی ہوں
آس ملن کی جی کا سہارا
دھیان میں کس دن روپ تمہارا
سمجھائے کوئی مجھ دکھیا کو
میں درس پیا کو ترسی ہوں
رندھیر: (موٹی آوازیں۔۔۔ساوتری۔۔۔
ساوتری (ڈر کر چیختے ہوئے) ۔۔۔اوئی۔۔۔کون۔۔۔؟
رندھیر: میں ۔۔۔رندھیر پہلوان جس کا ماتھا کل تو نے گھائل کیا تھا
یاد ہے۔ میں نے اس وقت کیا کہا تھا؟
ساوتری(سہم کر) مجھے ماپھ کر دورندھیر۔۔۔ مجھے ماپھ کر دو۔۔۔ مجھے بکھس دو۔۔۔
رندھیر: (ہنستا ہے) کیوں ڈرگئیں۔
ساوتری (لرزاں آواز میں) ہاں!
رندھیر: بھڑجا۔۔۔ جاتی کہاں ہے۔۔۔ بدلہ لینے بنامیں تجھے بالکل نہیں چھوڑوں گا
تو نے سمجھا کیا تھا مجھے۔۔۔رندھیر پہلوان ہوں۔۔۔
رندھیر پہلوان۔۔۔ خون ہی پی جایا کرتا ہوں۔۔۔
ساوتری(بہت زیادہ سہم کر) مجھے ماپھ کر دو۔۔۔
رندھیر: کیوں معاف کر دوں۔۔۔ کیا تو نے میرا ماتھا زخمی نہیں کیا۔۔۔؟
(رعب دار آواز میں) میں بدلہ لیئے بنا تجھے کبھی نہیں چھوڑوں گا
جن ہاتھوں نے میرا ماتھا زخمی کیا ہے اس پر پٹی باندھے گے۔
بول باندھے گی پٹی؟
ساوتری: باندھوں گی پہلوان!
رندھیر: تو اپنی اوڑھنی سے کپڑا پھاڑ اور پٹی بنا کر میرے ماتھے پر جلدی باندھ ورنہ ۔۔۔ کپڑا پھاڑنے کی آواز ۔۔۔ چل باندھ۔۔۔ کھڑی سوچتی کیا ہے؟
ساوتری: پہلوان تم بیٹھ جاؤ تو میں باندھوں۔۔۔ یوں میرا ہاتھ نہیں پہنچے گا۔۔۔
(رندھیر پہلوان ہنستا ہے)
رندھیر: لے بیٹھ جا۔۔۔
(وقفہ۔۔۔ پٹی باندھی جاتی ہے)
ساوتری: اب میں جاؤں۔۔۔ پٹی میں نے باندھ دی ہے۔۔۔
رندھیر: پھونک بھی مارو۔۔۔
(پھونک مارنے کی آواز)
ساوتری: جاؤں؟۔۔۔ اب جاتی ہوں۔
رندھیر: بھاگتی ہے۔۔۔ ٹھیرجا۔ بھاگتی کہاں ہے؟
ساوتری: چھوڑ دے۔۔۔ چھوڑ دے مجھے۔۔۔ رندھیر چھوڑ دے میری کلائی۔۔۔ میری چوڑیاں ٹوٹ جائیں گی۔۔۔
رندھیر: کہاں گئی تیری وہ چلبلاہٹ۔۔۔ ایک مروڑا دوں۔
ساوتری: میری کلائی ٹوٹ جائے گی رندھیر(درد کے باعث چلاتی ہے) چھوڑ دے چھوڑ دے مجھے (رونا شروع کر دیتی ہے) پرماتما کرے نہ رہے‘ تو اس دنیا کے تختے پر کیڑے چلیں تیرے بدن پر۔۔۔ کھڑے کا کھڑا زمین میں سما جائے۔۔۔
رندھیر (ندامت آمیز لہجے میں) ساوتری۔۔۔ ساوتری
ساوتری (روئے چلی جاتی ہے) پرماتما کرے تجھ پر بجلی گرے۔۔۔ تیری جوانی ٹوٹے۔۔۔ جس طرح تو نے میری کلائی مروڑی ہے۔۔۔ پر ماتما کرے تیری گردن مروڑی جائے (زیادہ شدت سے روتی ہے)
رندھیر(پچکارنے کے انداز میں ) نہ رو۔۔۔ نہ روساوتری نہ رو۔۔۔ تو روتی ہے تو میرے دل کو بڑا دکھ ہوتا ہے۔۔۔ میں نے تو تجھ سے مذاق کیا تھا۔۔۔ میں بھلا تجھے تکلیف پہنچا کر خوش ہوا ہوں۔ نہ رو۔۔۔ نہ رو ساوتری نہ رو۔۔۔ لے مجھے مارلے۔۔۔ لے یہ پتھر لے اور سر پر دے مار۔۔۔ میں سچ کہتا ہوں میں نے تو تجھے یوں ہی چھیڑا تھا۔۔۔ میں ۔۔۔ میں تو تجھ سے پریم کرتا ہوں۔
ساوتری: (رونا بند کرکے) ۔۔۔ کیا کہا۔۔۔ تجھ جیسے پاپی کو پریم کرنے کا کیا ادھیکار ہے۔۔۔
رندھیر: نہیں ساوتری۔۔۔ میں تجھ سے پریم نہیں کرتا۔۔۔ (ہنستا ہے)
میں تجھ سے کیسے پریم کر سکتا ہوں۔۔۔ میں بڑا ظالم بڑا پاپی ہوں تو ٹھیک کہتی ہے۔۔۔ میں ۔۔۔ میں۔۔۔ کچھ نہیں۔۔۔ میں بیوقوف ہوں۔۔۔ مجھے معاف کر دے۔۔۔
(ساوتری کی ہلکی ہلکی سسکیوں کی آواز فیڈ آؤٹ)
(شرابیوں کا شوروغوغا)
ایک شرابی: مادھوکہہ رہا تھا۔ استاد اسک لڑا رہا ہے‘ اسک۔۔۔
(ایک شرابی کے گانے کی آواز آتی ہے۔۔۔ اسک کی مجبوریاں لاچاریاں۔۔۔)
مادھو: استاد کا اسک بھی گرانڈیل اسک ہو گا۔۔۔
رندھیر(افسردگی آمیز سنجیدگی کے ساتھ) اُستاد کیا عشق کرے گا۔۔۔ مادھو پاپی کو پریم کرنے کا کوئی ادھیکار نہیں۔۔۔ میں بڑا پاپی ‘ بڑا ظالم ہوں۔ میں پریم نہیں کر سکتا۔۔۔ تو نے ایک بار کہا تھا اور سچ ہی تو کہا تھا کہ استاد تیرے پہلو میں دل نہیں پتھر ہے۔
مادھو: میں نے تو ایسے ہی کہا تھا ۔ ورنہ سچی بات تو یہ ہے کہ استاد تمہارے پہلو میں بڑا ہی نرم دل ہے۔
رندھیر: نہیں تو جھوٹ کہتا ہے۔۔۔میرے پہلو میں دل نہیں پتھر ہے۔۔۔ ایک بار پھر کہہ استاد تیرے پہلو میں دل نہیں پتھر ہے۔۔۔ (ہنستا ہے) پتھر ۔۔۔پتھر۔۔۔ پتھر ہی تو ہے لیکن۔۔۔ کوئی پریم کرتا ہے تو اس میں میرے باوا کا کیا جاتا ہے۔۔۔ میں اس کو نہیں ماروں گا۔۔۔ زمیندار جانے اور اس کا کام جائے۔
مادھو: کہاں چلے استاد۔۔۔ میں ابھی ادھیا منگوائی ہے۔۔۔ بیٹھ جاؤ
رندھیر: میں زمیندار سے ملنے جا رہا ہوں۔۔۔ ایک ضروری کام ہے ابھی آتا ہوں۔
(قدموں کی چاپ جو آہستہ آہستہ فیڈ ہو جائے)
زمیندار: منیم تم نے بات تو ٹھیک کہی ہے۔
(حُقہ پیتا ہے)
منیم: سرکار میں نے اپنے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیئے سوچنے کی بات ہے کہ رندھیر اگر پکڑا جائے اور تھانے میں یہ کہہ دے کر مجھے زمیندار نے شامو کو قتل کرنے کے کیئے کہا تھا تو بیٹھے بٹھائے ایک اور مصیبت کھڑی ہو جائے۔
زمیندار: تو اس کا علاج بڑا سہل ہے۔
منیم: وہ کیا ؟
زمیندار: شامو کو رندھیرمارے اور رندھیر کو کوئی اور صاف کر دے۔۔۔ یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ اس کو زیادہ شراب پلا دی جائے اور جب وہ بیہوش ہو جائے تو اسے اٹھوا کر ریل کی پٹڑی پر رکھ دیا جائے۔۔۔(ڈرکر)
منیم یہ آواز تم نے سنی۔
منیم: نہیں تو۔
زمیندار: مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ باہر دروازے کے پیچھے کوئی کھڑا تھا۔۔۔
منیم: اجی نہیں۔۔۔ آپ کو ایسے ہی وہم ہوا ہے۔
زمیندار: (حُقے کے چھوٹے چھوٹے کش لیتا ہے)۔۔۔ لیکن بھئی ڈرلگتا ہے۔
(حُقے کی گڑ گڑاہٹ۔ فیڈ آؤٹ)
ایک دم ہجوم کا شور بلند ہوا ۔ جس پر ذیل کے ٹکڑے سپرا مپوز کیئے جائیں۔
الف: راموبھیا سنا تم نے ۔ جمعدار جی کا کھون ہو گیا۔
ب: کھون؟ جمعدار جی کا کھون؟
ج: جمعدار جی کا کھون ہو گیا۔۔۔ شامو کو پکڑ کر تھانے لے گئے ہیں۔
د: جس بات کا مجھے کھٹکا تھا آکھروہی ہوئی۔۔۔ میں نہ کہتا تھا کہ شامو کا گسہ ایک دن ضرور رنگ لائے گا۔۔۔
ل: چلو چلو اٹھو تھانے میں چلتے ہیں شامو کو پکڑ کروہیں لے گئے ہیں۔
م: لاش باہر کھیتوں میں پڑی تھی اور شامو اس کے سر ہانے کھڑا تھا کہ ادھر سے
تھانیدار صاحب جو دورے سے واپس آرہے تھے اُدھر آنکلے۔
ن: جرور پھانسی ہو جائے گی۔
و: پرشامو کہتا ہے میں نرودش ہوں۔
ساوتری: (روتے ہوئے) شامو۔۔۔شامو۔۔۔ تو منہ سے بولتا کیوں نہیں۔۔۔ کہتا کیوں نہیں کہ میں نردوش ہوں۔۔۔ تو نے میرے باپو کو نہیں مارا تو میرے باپو کو کیسے مار سکتا ہے (بلند آواز میں) شامونردوش ہے۔
تھانیدار جی شامو نردوش ہے۔
شامو کی ماں: شامو بیٹا (پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیتی ہے) میں تجھے روکتی رہی‘ بیٹا پر تو نے میری ایک نہ سُنی۔
شامو: میں بالکل نردوش ہوں ماں!
ایک آدمی: پھر جمعدار جی کا خون کس نے کیا ہے؟
ہجوم کا شور بند ہو جائے۔ رندھیر کا بلند قہقہہ سنائی دے۔
رندھیر (نشے کی حالت میں) چلو ‘ دنیا سے ایک پاپی کم ہوا۔۔۔ (ہنستا ہے)
اس کی نیت خراب تھی جس کا پھل اس کو مل گیا۔۔۔ ریل کے نیچے اگر اس کی لاش کچلی جاتی تو مزہ آجاتا۔۔۔ (ہنستا ہے) بڑا چالاک بنا پھرتا تھا
(آواز دیتا ہے) لالہ کشوری مل۔۔۔ اے لالہ۔۔۔
کشوری مل(دور سے آواز آتی ہے) آیا پہلوان۔۔۔بولو کیا حکم ہے؟
رندھیر: آج تمہاری شراب کو کیا ہو گیا ہے۔۔۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں پانی ملا دیتے ہو۔
کشوری مل :نہیں اُستاد تمہیں تو خاص طور پر میں خالص چیز دیتا ہوں۔
رندھیر: ہٹاؤ۔۔۔ ایک بوتل اور بھیج دے۔۔۔ سنو تو ‘ آج ٹھیکہ خالی خالی کیوں نظر آتاہے۔
کشوری مل: زمیندار جی کا قتل ہو گیا ہے۔ سارا گاؤں تو تھانے میں بیٹھا ہے شامو پکڑا گیا ہے نا۔
رندھیر(زور زور سے ہنستا ہے) کوئی مرے کوئی جیے میری بلا سے۔۔۔ لاؤ ‘ بوتل لاؤ۔۔۔ یہ تو ختم ہو گئی ہے۔۔۔
(غٹاغٹ پینے کی آواز۔۔۔ پھر ہونٹ چاٹنے کی آواز)
رندھیر (اپنے آپ سے) پانچ سو روپیہ دیتا تھا دوسرے کو مارنے کے لیئے (ہنستا ہے)۔۔۔ واہ رندھیر پہلوان‘ تمہارے کیا کہنے ہیں۔۔۔
(ساوتری کا داخلہ)
ساوتری: رندھیر۔۔۔(گھبراہٹ میں) رندھیر۔۔۔ رندھیر کہاں ہے؟
(یہ آواز دور سے آئے)
رندھیر(چونک کر) کون ؟
ساوتری: رندھیر۔۔۔(رونا شروع کر دیتی ہے)
رندھیر: کیا ہوا۔۔۔ کیا ہوا ساوتری۔۔۔ تو روتی کیوں ہے؟۔۔۔
ساوتری: وہ شامو کو پکڑ کر تھانے لے گئے ہیں۔۔۔ کہتے ہیں اس نے باپو کو مارا ہے۔۔۔
رندھیر: تو اُس نے مارا ہو گا۔
ساوتری: یہ جھوٹ ہے۔۔۔ بالکل جھوٹ ہے۔۔۔ اس نے میرے باپو کو نہیں مارا۔۔۔ وہ بالکل نردوش ہے۔۔۔ وہ مجھے ملنے کے لیئے کھیتوں میں جا رہا تھا کہ راستے میں اسے لاش پڑی دکھائی دی۔۔۔ بس اس کا اتنا ہی دوش ہے (روتی ہے)۔۔۔ رندھیر میں مر جاؤں گی۔
رندھیر: ہائیں یہ تو کیسی بات منہ سے نکالتی ہے۔
ساوتری: (جذبات کی رو میں) نہیں میں زہر کھاکے مر جاؤں گی۔۔۔ اگر شامو کو کچھ ہو گیا تو۔۔۔ تو زیادہ شدت سے رونا شروع کر دیتی ہے۔
رندھیر: نہ روساوتری۔۔۔ نہ رو۔۔۔ تو زندہ رہے گی۔۔۔ تجھے زندہ رہنا ہو گا۔ تو گھر چل ۔ میں جا کے دیکھتا ہوں تھانے میں کیا بات کیا ہے۔۔۔ چل توگھر چل۔۔۔ سچ مچ تو تو پگلی ہے۔۔۔ بیکار اپنی جان ہلکان کر رہی ہے۔۔۔چل۔۔۔
(قدموں کی چاپ۔۔۔ فیڈ آؤٹ
(ہجوم کا شور۔۔۔ ذیل کا مکالمہ اس پر سپرامپوز کیا جائے)
شور کی آواز اونچی ہو جائے۔۔۔ رندھیر کی آمد کے باعث)
ایک لڑکی: : شامو کی ماں۔ رندھیر
شامو کی ماں: رندھیر۔
ایک آدمی: واہ پی رکھی ہے۔۔۔ جھوم رہا ہے۔
دوسرا آدمی : سیدھا تھانیدار کی طرف جا رہا ہے۔
تھانیدار(رعب دار آواز میں) رندھیر۔۔۔ رندھیر باہر کھڑے رہو۔۔۔
سُنتے ہو کہ نہیں۔۔۔ باہر کھڑے رہو۔ عبدالرحمن تم اس کو روکتے کیوں نہیں؟
رندھیر: خبردار جو مجھے کسی نے ہاتھ لگایا۔۔۔
تھانیدار: آنے دو اسے۔۔۔ بولو کیا کہنا ہے؟۔۔۔
رندھیر: کچھ نہیں میں یہ دیکھنے آیا تھا کہ زمیندار جی کو کس نے قتل کیا ہے۔۔۔
تھانیدار: یہ میرا حاکم بنا کر تمہیں کس نے بھیجا ہے۔۔۔خیر۔۔۔ قاتل کو دیکھنا ہے۔۔۔ دیکھ لو۔۔۔ وہ تمہارے سامنے کھڑا ہے۔۔۔
(رندھیر زور سے قہقہہ بلند کرتا ہے)
تھانیدار: اب جاؤ۔ زیادہ گڑ بڑ نہ کرو۔ ورنہ حوالات میں بند کر دوں گا۔
رندھیر(قہقہے کے ساتھ) ۔۔۔ شامو۔۔۔ اس نے زمیندار کو مارا ہے۔۔۔
(ہنستا ہے) تھانیدار صاحب (ہنستا چلا جاتا ہے) تھانیدار صاحب آپ نے غلط آدمی کو پکڑ لیا ہے۔
تھانیدار: رندھیر۔ زیادہ بکواس نہ کرو۔۔۔ جاؤ بھاگ جاؤ یہاں سے۔۔۔
رندھیر(ہنستا ہے)۔۔۔ میں کہتا ہوں تھانیدار صاحب جس آدمی نے آج تک چڑیا تک نہیں ماری وہ ایک آدمی کو جان سے کیسے مار سکتا ہے؟
شامو: اڑا لے میری ہنسی۔۔۔ اڑالے میری ہنسی۔۔۔
رندھیر(ہنستا ہے) ارے بھئی میں نے جھوٹ تھوڑی کہا ہے۔۔۔ (ہنستا ہے)
۔۔۔تھانیدار صاحب ‘ میں سچ کہتا ہوں شامونردوش ہے۔۔۔ ایسا ڈرپوک اوربزدل کبھی قاتل نہیں ہو سکتا۔ قتل وہ کر سکتا ہے جس کے بازوؤں میں شکتی ہو۔۔۔ یہ مُردار بھلا کسی کو کیا مارے گا۔۔۔
(شور کی آواز بلند ہو کر دھیمی ہو جائے)
ایک آدمی (دُور سے آواز آتی ہے) تھانیدار صاحب اس سے پوچھئے اگر شامو نے جمعدار جی کو نہیں مارا تو پھر کس نے مارا؟
رندھیر: تو مجھ سے پوچھ‘ تھانیدار سے کیوں پوچھنے کو کہتا ہے۔۔۔ تھانیدار کیا میرا خدا ہے لے سن لے۔۔۔ زمیندار کو میں نے مارا ہے۔۔۔ ان ہاتھوں سے میں نے اس کا کام تمام کیا ہے۔۔۔ ان ہاتھوں سے۔۔۔ دیکھ لیجئے۔۔۔ اب شامو کے ہاتھ بھی دیکھ۔۔۔ بتا قتل کون کر سکتے ہیں(تھانیدار سے)۔۔۔ تھانیدار صاحب ہتھکڑی کھول کر مجھے پہنا دو۔
(شور زیادہ ہو جاتا ہے)
شامو کی ماں میرا بچہ۔۔۔ ساوتری۔۔۔ ساوتری شامونردوش ہے ساوتری۔۔۔رندھیر۔۔۔ رندھیر۔۔۔
رندھیر: (ہنستا ہے ) ۔۔۔ساوتری۔۔۔ میں نے تجھ سے کہا نہیں تھا کہ گھر چل کے بیٹھ‘ تو یہاں کیا کرنے آئی ہے۔۔۔ جا چلی جا یہاں سے۔۔۔ ساوتری (آواز بھرّا جاتی ہے) رندھیر۔۔۔ رندھیر تم بہت اچھے آدمی ہو۔
رندھیر: (غمزدہ ہنسی کے ساتھ ) نہیں ساوتری۔۔۔ میں بڑا ظالم میں بڑا پاپی ہوں۔۔۔ مجھے پریم کرنے کا کوئی ادھیکار نہیں۔۔۔ میرے پہلو میں دل نہیں ‘ پتھر ہے۔۔۔
(ساوتری کی سسکیوں کی آواز ۔ فیڈ آؤٹ)
مأخذ : کتاب : کروٹ اشاعت : 1946
مصنف:سعادت حسن منٹو