کہانی کی کہانی:’’کہانی ایک ایسی پنجابی لڑکی کی ہے جو ایک منت کی درخواست لے کر ایک درگاہ پر کئی دن سے مسلسل کھڑی ہے۔ اس نے اپنا دوپٹہ درگاہ کی چوکھٹ سے باندھا ہوا ہے اور مسلسل کھڑے ہونے سے اس کے پیر سوج گئے ہے۔ یہ دوپٹہ محض ایک لڑکی کا ہی نہیں ہے، بلکہ یہ پنجاب اور سندھ کو آپس میں باندھنے والی ڈور کی علامت بھی ہے۔‘‘
جب آدمی میری عمر کو پہنچتا ہے تو وہ اپنی وراثت آنے والی نسل کو دے کر جانے کی کو شش کرتا ہے۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جو انسان بد قسمتی سے ساتھ ہی سمیٹ کر لے جاتا ہے۔ مجھے اپنی جوانی کے واقعات اور اس سے پہلے کی زندگی کے حالات مختلف ٹکڑیوں میں ملتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اب وہ آپ کے حوالے کر دوں، حالانکہ اس میں تاریخی نوعیت کا کوئی بڑا واقعہ آپ کو نہیں ملے گا لیکن معاشرتی زندگی کو بہ نظرِ غائر دیکھا جائے تو اس میں ہماری سیاسی زندگی کے بہت سے پہلو نمایاں نظر آئیں گے۔
آج سے کوئی بیس بائیس برس پہلے کی بات ہے میں کسی سرکاری کام سے حیدرآباد گیا تھا۔ سندھ میں مجھے تقریباً ایک ہفتے کے لیے رہنا پڑا، اس لیے میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ بھی میرے ساتھ چلے، چنانچہ وہ بھی میرے ساتھ تھی۔ دو دن وہاں گزارنے کے بعد میری طبیعت جیسے بے چین ہو گئی۔ میں اکثراس حوالے سے آپ کی خدمت میں بابوں کا ذکر کرتا ہوں۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ بھٹ شاہ (شاہ عبدالطیف بھٹائی) کا مزار یہاں قریب ہی ہے اور آج جمعرات بھی ہے، ا س لیے آج ہم وہاں چلتے ہیں۔ وہ میری بات مان گئی۔ میزبانوں نے بھی ہمیں گاڑی اور ڈرائیور دے دیا، کیونکہ وہ راستوں سے واقف تھا۔ ہم مزار کی طرف روانہ ہو گیے۔ جوں جوں شاہ عبدالطیف بھٹائی کا مزار قریب آ رہا تھا، مجھ پر ایک عجیب طرح کا خوف طاری ہونے لگا۔ مجھ پر اکثر ایسا ہوتا ہے۔ میں علم سے اتنا متأثر نہیں ہوں، جتنا کریکٹر سے ہوں۔ علم کم تر چیز ہے، کردار بڑی چیز ہے۔ اس لئے صاحبانِ کردار کے قریب جاتے ہوئے مجھے بڑا خوف آتا ہے۔ صاحبانِ علم سے اتنا خوف نہیں آتا، ڈر نہیں لگتا۔
جب ہم وہاں پہنچے تو بہت سے لوگ ایک میلے کی صورت میں ان کے مزار کے باہر موجود تھے۔ گھوم پھر رہے تھے۔ ہم میاں بیوی کافی مشکل سے مزار کے صحن میں داخل ہوئے۔ بہت سے لوگ وہاں بیٹھے ہو ئے تھے اور شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام سنا رہے تھے۔ اس کلام میں جب شاہ کی شاعری میں موجود ایک خاص ٹکڑا آتا تو سارے سازندے چوکس ہو کر بیٹھ جاتے اور گانے لگتے۔ کلام میں یہ خاص ٹکڑا اس قدر مشکل اور پیچیدہ ہے کہ وہاں کے رہنے والے بھی کم کم ہی اس کا مطلب سمجھتے ہیں، لیکن اس کی گہرائی زمانے کے ساتھ ساتھ کُھلتی چلی جاتی ہے۔ ہم بھی وہاں ایک دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑے ہو گیے۔ وہاں کافی رش تھا۔ کچھ لوگ زمین پر لیٹے ہوئے تھے۔ عورتیں، مرد سب ہی اور کچھ بیٹھے کلام سن رہے تھے۔ ہم بھی جا کر بیٹھ گیے۔
جب شاہ کی وائی (مخصوص ٹکڑی) شروع ہوتی تو ایک خادم دھات کے بڑے بڑے گلاسوں میں دودھ ڈال کر تقسیم کرتا۔ یہ رسم ہے وہاں کی کہ جب وائی پڑھتے ہیں تو دودھ تقسیم کیا جاتا ہے۔ گلاس بہت بڑے بڑے تھے، لیکن ان میں تولہ ڈیڑھ تولہ دودھ ہوتا۔جب اتنا بڑا گلاس اور اتنا سا دودھ لا کر ایک خادم نے میری بیوی کو دیا، تو اس نے دودھ لانے والے کی طرف بڑی حیرت سے دیکھا اور پھر جھانک کر گلاس کے اندر دیکھا۔ میں نے اس سے کہا کہ دودھ ہے پی لو۔ میں نے اپنے گلاس کو ہلایا۔ میرے گلاس کے اندر دودھ میں ایک تنکا تھا۔ میں اس تنکے کو نظر انداز کرتا تھا، لیکن وہ پھر گھوم کر سامنے آ جاتا تھا۔ میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں دودھ کو تنکے سمیت ہی پی جاتا ہوں۔ چنانچہ میں نے دودھ پی لیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ آپ بھی پئیں، یہ برکت کی بات ہے۔
خیر! اس نے زبردستی زور لگا کر پی لیا اور قریب بیٹھے ہوئے ایک شخص سے کہا کہ آپ ہمیں تھوڑی سی جگہ دیں۔ اس شخص کی بیوی لیٹ کر اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی۔ اس شخص نے اپنی بیوی کو ٹہوکہ دیا اور کہا کہ مہمان ہے، تم اپنے پاؤں پیچھے کرو۔ میری بیوی نے کہا کہ نہیں نہیں، اس کو مت اٹھائیں۔ لیکن اس شخص نے کہا، نہیں نہیں کوئی بات نہیں۔ اس کی بیوی ذرا سمٹ گئی اور ہم دونوں کو جگہ دے دی۔ انسان کا خاصہ یہ ہے کہ جب اس کو بیٹھنے کی جگہ مل جائے، تو وہ لیٹنے کی بھی چاہتا ہے۔ جب ہم بیٹھ گیے تو پھر دل چاہا کہ ہم آرام بھی کریں اور میں آہستہ آہستہ کھسکتا ہوا پاؤں پسارنے لگا۔ فرش بڑا ٹھنڈا اور مزیدار تھا۔ ہوا چل رہی تھی۔ میں نیم دراز ہو گیا۔ میری بیوی نے تھوڑی دیر کے بعد کہا کہ میں چکر لگا کر آتی ہوں، کیونکہ یہ جگہ تو ہم نے پوری طرح دیکھی ہی نہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ وہ چلی گئی۔ دس پندرہ منٹ گزر گیے، وہ واپس نہ آئی تو مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں گُم ہی نہ ہو جائے، کیونکہ پیچیدہ راستے تھے اور نئی جگہ تھی۔
جب وہ لوٹ کر آئی تو بہت پریشان تھی۔ کچھ گھبرائی ہوئی تھی۔ اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ میں نے کہا، خیر ہے! کہنے لگی آپ اٹھیں میرے ساتھ چلیں۔ میں آپ کو ایک چیز دکھانا چاہتی ہوں۔ میں اٹھ کراس کے ساتھ چل پڑا۔ وہاں رات کو دربار کا دروازہ بند کر دیتے ہیں اور زائرین باہر بیٹھے رہتے ہیں۔ صبح جب دروازہ کھلتا ہے تو پھر دعائیں وغیرہ مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب ہم وہاں گیے تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگی، آپ ادھر آئیں۔ شاہ کے دروازے کے عین سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی۔ اس کے سر پر جیسے ہمارا دستر خوان ہوتا ہے، اس سائز کی چادر کا ٹکڑا تھا اور اس کا اپنا جو دوپٹہ تھا وہ اس نے شاہ کے دروازے کے کنڈے کے ساتھ گانٹھ دے کر باندھا ہوا تھا اور اپنے دوپٹے کا آخری کونہ ہاتھ میں پکڑے کھڑی تھی اوربالکل خاموش تھی۔
اسے آپ بہت ہی خوبصورت لڑکی کہہ سکتے ہیں۔ اس کی عمر کوئی سولہ، سترہ یا اٹھارہ برس ہو گی۔ وہ کھڑی تھی، لیکن لوگ ایک حلقہ سا بنا کر اسے تھوڑی سی آسائش عطا کر رہے تھے تاکہ اس کے گرد جمگھٹا نہ ہو۔ کچھ لوگ، جن میں عورتیں بھی تھیں، ایک حلقہ سا بنائے کھڑے تھے۔میں نے کہا، یہ کیا ہے؟ میری بیوی کہنے لگی، اس کے پاؤں دیکھیں۔ جب میں نے اس کے پاؤں دیکھے تو آپ یقین کریں کہ کوئی پانچ سات کلو کے۔ اتنا بڑا ہاتھی کا پاؤں بھی نہیں ہوتا۔ بالکل ایسے تھے جیسے سیمنٹ، پتھر یا اینٹ کے بنے ہوئے ہوں۔ حالانکہ لڑکی بڑی دھان پان کی اور دبلی پتلی سی تھی۔ ہم حیرانی اور ڈر کے ساتھ اسے دیکھ رہے تھے، تو وہ منہ ہی منہ میں کچھ بات کر رہی تھی۔
وہاں ایک سندھی بزرگ تھے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے؟ اس نے کہا، سائیں! کیا عرض کریں۔ یہ بیچاری بہت دکھیاری ہے۔ یہ پنجاب کے کسی گاؤں سے آئی ہے اور ہمارے اندازے کے مطابق ملتان یا بہاولپور سے ہے۔ یہ گیارہ دن سے اسی طرح کھڑی ہے اور اس مزار کا بڑا خدمتگار، وہ سفید داڑھی والا بزرگ، اس کی منت سماجت کرتا ہے تو ایک کھجور کھانے کے لیےیہ منہ کھول دیتی ہے، چوبیس گھنٹے میں۔ میری بیوی کہنے لگی کہ اسے ہوا کیا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ اس کے بھائی کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے اور یہ بیچارگی کے عالم میں وہاں سے چل کر یہاں پہنچی ہے اور اتنے دن سے کھڑی ہے اور ایک ہی بات کہہ رہی ہے کہ اے شاہ! تو تو اللہ کے راز جانتا ہے، تو میری طرف سے اپنے ربّ کی خدمت میں درخواست کر کہ میرے بھائی کو رہائی ملے اور اس پر مقدّمہ ختم ہو۔ وہ بس یہ بات کہہ رہی ہے۔
شاہ اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں کہ ’’اے لوگو! چودھویں کے چاند کو جو بڑا خوبصورت اور دلکش ہوتا ہے، پہلی کے چاند کو جو نظر بھی نہیں آتا اور لوگ چھتوں پر چڑھ کر اُنگلیوں کا اشارہ کر کے اسے دیکھتے ہیں۔ یہ کیا راز ہے تم میرے قریب آؤ میں تمھیں چاند کا راز سمجھاتا ہوں (یہ شاہ عبدالطیف بھٹائی کی ایک نظم کا حصّہ ہے) وہ لڑکی بھی بیچاری کہیں سے چل کر چلتی چلتی پتا نہیں اس نے اپنے گھر والوں کو بتایا بھی ہے کہ نہیں، لیکن وہ وہاں پہنچ گئی ہے اور وہاں کھڑی تھی۔ چونکہ رات کو مزار کا دروازہ بند ہو جاتا ہے، اس لئے کوئی کنکشن نہیں رہتا، اس نے اپنا دوپٹہ اتار کر وہاں باندھ رکھا ہے۔ وہ بابا بتا رہا تھا کہ اب اس کا چلنا مشکل ہے۔ بڑی مشکل سے قدم اٹھا کر چلتی ہےاور ہم سب لوگ اس لڑکی کے لیے دعا کرتے ہیں۔ ہم اپنا ذاتی کام بھول جاتے ہیں اور ہم اس کے لئے اور اس کے بھائی کے لئے اللہ سائیں سے گڑگڑا کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ تُو اس پر فضل کر۔‘‘
کتنی چھوٹی سی جان ہے اور اس نے اپنے اوپر کیا مصیبت ڈال لی ہے۔ میں کھڑا اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا، اس کا دوپٹہ اگر سر سے اتر جاتا تو وہاں کے لوگ اپنے پاس سے اجرک یا کوئی اور کپڑا اس کے سر پر ڈال دیتے۔ میں اس کو دیکھتا رہا۔ مجھے باہر دیکھنا، وائی سننا اور دودھ پینا سب کچھ بھول گیا۔ میں چاہتا تھا کہ اس سے بات کروں، لیکن میرا حوصلہ نہیں پڑ رہا تھا، کیونکہ وہ اتنے بلند کردار اور طاقت کے مقام پر تھی کہ ظاہر ہے ایک چھوٹا، معمولی آدمی اس سے بات نہیں کر سکتا تھا۔
ہمیں وہاں کھڑے کھڑے کافی دیر ہو گئی۔ ہم نے ساری رات وہاں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے ساری رات اس لڑکی کےلئےدعائیں کیں۔ بس ہم اس کے لئے کچی پکی دعائیں کرتے رہے۔ صبح چلتے ہوئے میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ جب تک پنجاب کا دوپٹہ شاہ عبدالطیف بھٹائی کے کُنڈے سے بندھا ہے پنجاب اور سندھ میں کسی قسم کا کریک نہیں آسکتا۔ یہ تو اپنے مقصد کے لئے آئی ہے نا، لیکن مقصد سے ماورا بھی ایک اور رشتہ ہوتا ہے۔ میری بیوی کہنے لگی، کیوں نہیں، آپ روز ایسی خبریں پڑھتے ہیں کہ یہ سندھ کارڈ ہے، یہ پنجاب کارڈ ہے۔ جب ایک چودھری دیکھتا ہے کہ لوگوں کی توجّہ میرے اوپر ہونے لگی ہے اور لوگ میرے بارے میں Critical ہونے لگے ہیں، تو وہ پھر کہتا ہے اے لوگو! میری طرف نہ دیکھو۔ تمہارا چور پنجاب ہے۔ دوسرا کہتا ہے، نہیں! میری جانب نہ دیکھو تمہارا چور سندھ ہے، تاکہ اس کے اوپر سے نگاہیں ہٹیں، ورنہ لوگوں کے درمیان وہی اصل رشتہ قائم ہے جو مُلتان یا بہاولپور سے جانے والی لڑکی کا شاہ کے مزار سے ہے، جو اکیلی تن تنہا، سوجے پاؤں بغیر کسی خوراک کے کھڑی ہوئی ہے اس کا اعتقاد اور پورا ایمان ہے کہ اس کا مسئلہ حل ہو گا۔ اپنی ایک نظم میں شاہ فرماتے ہیں کہ اے کمان کسنے والے تو نے اس میں تیر رکھ لیا ہے اور تو مجھے مارنے لگا ہے، لیکن میرا سارا وجود ہی تیرا ہے، کہیں تو اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچا لے۔“
چند سردیاں پہلے کی بات ہے کہ ہمارے باغِ جناح میں پرانے جم خانے کے سامنے اندرونِ شہر کی ایک خاتون بنچ کے اوپر بیٹھی تھی اور اپنے چھوٹے بچے کو اپنے گھٹنے کے اوپر پلا رہی تھی۔ اس کی تین بچیاں کھیلتے ہوئے باغ میں پھیل گئی تھیں اور ایک دوسری کے ساتھ لڑتی تھیں اور بار بار چیخیں مارتی ہوئی ماں سے ایک دوسری کی شکایت کرتی تھیں۔ ذرا دیر بعد پھر ماں کو تنگ کرنا شروع کر دیتیں اور پھر چلی جاتیں۔ آخر میں پھر لڑتی ہوئی دو بچیاں آئیں اور کہا کہ امّاں اس نے میری فلاں اتنی بڑی چیز لے لی ہے۔ ایک نے مٹھی بند کی ہوئی تھی۔ آخر ماں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا کھول دے مٹھی۔ جب اس نے مٹھی کھولی تو اس میں سوکھا ہوا درخت سے گرا بھیڑہ تھا۔ ایک نے کہا، پہلے میں نے دیکھا تھا یہ میرا ہے۔ ان کی ماں نے دوسری سے کہا، اسے دے دو۔ پھر وہ صلح صفائی کرتے ہوئے بھاگ کر چلی گئیں۔
جب میں نے ان کے درمیان اتنی زیادہ لڑائی دیکھی تو میں نے اس خاتون سے کہا کہ آپ تو مشکل میں پڑی ہوئی ہیں۔ یہ بچے آپ کو بہت تنگ کرتے ہیں، تو اس نے کہا کہ بھائی! مجھے یہ بہت تنگ کرتے ہیں، لیکن میں اِن سے تنگ ہوتی نہیں۔ میں نے کہا وہ کیسے؟ کہنے لگیں، یہ جو میرے بچے ہیں، اپنی نانی کے مرنے کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ اگر ان کی نانی زندہ ہوتی تو یہ بچیاں کتنی ہی شیطانیاں کرتیں، ضد کرتیں، لڑائیاں کرتیں، لیکن پھر بھی اپنی نانی کی پیاریاں اور لاڈلیاں ہی رہتیں۔ جب میرے ذہن میں یہ خیال آتا ہے تو یہ کچھ بھی کریں۔ میں اپنی نانی کی حوالے سے ان کو معاف کر دیتی ہوں اور یہ مزے سے کھیلتی رہتی ہیں، حالانکہ جسمانی اور ذہنی و روحانی طور پر مجھے تنگ کرتی ہیں۔
جب اس نے یہ بات کی تو میں سوچنے لگا کہ کیا ہمارے سیاسی اور سماجی وجود میں کوئی نانی جیسا تصوّر نہیں آسکتا؟ کیا ہمیں ایسا لیڈر نہیں مل سکتا، یا سکا جس کے سہارے ہم اپنی مشکلات کو اس کے نام Dedicate کر کے یہ کہیں کہ اگرایسی مشکلات ہوتیں اور اگر قائداعظم زندہ ہوتے تو ہم ان کے حوالے کر دیتے کہ جی یہ مشکلات ہیں اور وہ ان کو ویسے ہی سمیٹ لیتے جیسا کہ وہ دوسری مشکلات سمیٹا کرتے تھے، بلکہ اکیلے انہوں نے ہی تمام مشکلات کو سمیٹا تھا۔ لیکن شاید یہ ہماری قسمت یا مقدّر میں نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر ایک دھان پان سی، دُبلی پتلی لڑکی اتنی ہمّت کر کے اپے ذاتی مقصد کے لئے اتنا بڑا کنکشن میرے آپ کے اور سندھ کے درمیان پیدا کر سکتی ہے، تو ہم جو زیادہ پڑھے لکھے، دانشمند اور دانشور لوگ ہیں یہ دل اور روح کے اندر مزید گہرائی پیدا کرنے کے لئے کچھ کیوں نہیں کر سکتے؟
کوئی ایسی صبح طلوع ہو یا کوئی ایسی شام آئے، جب ہم دیوار سے ڈھو لگا کر ایک Meditation میں داخل ہوتے ہیں، تو کیا اس مراقبے میں یہ ساری چیزیں نہیں آتیں، یا یہ کہ ہم اس مراقبے کے اندر کبھی داخل ہی نہیں ہو سکے؟ ایک چھوٹی سی لڑکی اس طرح ایک تہیہ کے اندر اور ایک ارادے کے اندر داخل ہو گئی تھی اور ہم جو بڑے ہیں ان سے یہ کام نہیں ہو تا۔ اس کے باوجود میں بہت پر امید ہوں کہ یقیناً ایسا وقت آجائے گا جس کا کوئی جواز ہمارے پاس نہیں ہو گا، جس کی کوئی منطق نہیں ہو گی۔ لیکن وہ وقت ضرور آئے گا، کیوں آئے گا، کس لئے آئے گا، کس وجہ سے اورکیسے آئے گا؟ اس کا بھی کوئی جواب میرے پاس نہیں ہے۔ لیکن اتنی بڑی معاشرتی زندگی میں جان بوجھ کر یا بیوقوفی سے ہم جو نام لے چکے ہیں، انہیں کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی مقام پر پہنچ کر سفل ہونا ضروری ہے۔ یہ میرا ایک ذاتی خیال ہے، جس کے ساتھ میں وابستہ رہتا ہوں۔
مایوسی کی بڑی گھٹائیں ہیں، بڑی بے چینیاں ہیں، بڑی پریشانیاں ہیں۔ اکنامکس کا آپ کے یوٹیلیٹی بلز کا ہی مسئلہ اتنا ہو گیا ہے کہ انسان اس سے باہرہی نہیں نکلتا۔ آدمی روتا رہتا ہے، لیکن ہمارے اس لاہور میں، ہمارے اس ملک میں اور ہمارے اس ملک سے ماورا دوسری اسلامی دنیا میں کچھ نہ کچھ تو لوگ ایسے ضرور ہوں گے جو اکنامکس کی تنگی کے باوصف یہ کہتے ہوں گے جو میں نہیں کہہ سکتا۔ میں کسی نہ کسی طرح سے خوش ہو سکتا ہوں، کیونکہ خوشی کا مال ودولت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے بابے کہا کرتے ہیں کہ اگر مال ودولت کے ساتھ جائیداد کے ساتھ خوشی کاتعلق ہوتا تو آپ اتنی ساری چیزیں چھوڑ کرکبھی سوتے ناں! ان ساری چیزوں کو آپ اپنی نگاہوں کے سامنے چھوڑ کر سو جاتے ہیں اور سونا اتنی بڑی نعمت ہے جو آپ کو راحت عطا کرتی ہےاور اگر آپ کو کوئی جگائے تو آپ کہتے ہیں کہ مجھے تنگ نہ کرو۔ اگر اس سے کہیں کہ تیری وہ کار، جائیداد اور بینک بیلنس پڑا ہے تو اس سونے والے کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ اس سے طے یہ پایا کہ یہ دولت یہ مال ومتاع یہ سب کچھ آپ کو خوشی عطا نہیں کرتے، خوشی آپ کے اندر کی لہر ہے۔
مچھلی جس کو پکڑ لے وہ اس لہر پر ڈولفن کی طرح سوار ہو کر دور جا سکتی ہے۔ اگر وہ لہر نہ پکڑی جائے تو پھر ہماری بد قسمتی ہے۔ پھر ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ اس لہر کو دیکھنا، جانچنا اور پکڑنا اور اس پر سوار ہونا شہ سواروں کا کام ہے، عام لوگوں کا نہیں۔ بڑی تکلیفیں اور دقتیں ہیں، لیکن ان کے درمیان رہتے ہو ئے بھی کئی آدمی گاتے ہوئے گزر جاتے ہیں اور ہم اپنے کانوں سے ان کا گانا سنتے ہیں اور ہم ان کی تحقیق نہیں کر سکتےکہ ان کے اندر کون سی چپ لگی ہوئی ہے، کس قسم کی پروگرامنگ ہوئی ہوتی ہے کہ یہ گاتے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ آپ کو خوش رکھے اور بہت سی آسانیاں عطا فرمائے اور خداوند تعالی آپ کو آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ!
مصنف:اشفاق احمد