کہانی کی کہانی:‘‘فرار در اصل ایک حساس لیکن بزدل انسان کی کہانی ہے۔ ماموں جو اس کہانی کے مرکزی کردار ہیں، فطری طور پر سست اور آرام پسند واقع ہوئے ہیں، اسی وجہ سے وہ میٹرک کا امتحان بھی نہ پاس کر سکے۔ نمائش میں جو لڑکی انہیں شادی کے لئے پسند آتی ہے اس کے والد تین شرطیں رکھتے ہیں، اول یہ کہ ان کا داماد خوبصورت ہو، دوئم کم از کم گریجویٹ ہو اور سوئم یہ کہ دو لاکھ مہر دینے کی استطاعت رکھتا ہو۔ ماموں نے یہ چیلنج قبول کیا۔ بھائیوں نے اپنی اپنی جائداد بیچنے کا فیصلہ کیا اور ماموں نے تین سال میں گریجویٹ بن کر دکھا دیا۔ لیکن شادی کے دن عین نکاح کے موقع پر وہ شادی ہال سے فرار ہو جاتے ہیں۔’’
اس شام میں دفتر سے تھکا ہارا گھر پہنچا ہی تھا کہ میری بیوی نے بڑے تشویش کے لہجہ میں مجھ سے کہا، ’’ابھی ابھی نانا جان کے ہاں سے پیغام آیا ہے۔ سرفراز ماموں کی حالت یک لخت بہت بگڑ گئی ہے۔ امید نہیں وہ آج کی رات بھی کاٹ سکیں۔ ہم سب کو فوراً بلایا گیا ہے۔‘‘
سرفراز ماموں ہمارے وسیع کنبے کے قریب قریب ہر فرد کے بڑے محبوب تھے۔ ان کی عمر پچاس برس کی ہو چکی تھی، مگر ابھی تک شادی نہیں کی تھی۔ ابھی پچھلے دنوں میری والدہ نے بڑے اہتمام سے ان کی پچاسویں سالگرہ منائی تھی۔ وہ دعوت میں بڑے چہک رہے تھےاور چھوٹے بڑے ہر ایک پر پھبتیاں کہہ رہے تھے۔ مگر اس دعوت کے اگلے ہی روز اچانک بیمار ہو گئے۔ کچھ عجیب ہی سا مرض تھا، جسے ڈاکٹر یا حکیم کوئی بھی ٹھیک طور پر تشخیص نہ کر سکا تھا۔ ان کی حالت روز بروز خراب ہوتی چلی گئی اور وہ بےحد کمزور ہو گئے۔ ہر شخص کے دل سے ان کی تندرستی کے لیے دعا نکلتی تھی، مگر مرض میں کچھ افاقہ نہ ہوتا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس مرض سے جانبر نہ ہو سکیں گے۔
میری بیوی نے جلد جلد بچوں کے کپڑے بدلے۔ خود بھی لباس تبدیل کیا اور تھوڑی ہی دیر میں ہم نانا جان کے ہاں پہنچ گئے۔ میرے سب بھائی بہن اور دوسرے عزیزواقارب پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے۔ میری والدہ جو میرے والد کے انتقال کے بعد زیادہ تر ننھیال ہی میں رہنے لگی تھیں، سرفراز ماموں کو بہت چاہتی تھیں۔ انہیں اپنے چھوٹے بھائی کی اس بیماری کا سخت صدمہ تھا۔ وہ غم سے نڈھال ہو رہی تھیں مگر ضبط کیے ہوئے تھیں۔ وہ بڑی جانفشانی سے ان کی تیمارداری کرتی رہی تھیں۔ ان سے معلوم ہوا کہ میرے ضعیف نانا نانی اس صدمے کی تاب نہ لا کر اپنے حواس کھو بیٹھے ہیں۔ انہیں ان کے کمرے میں بند کر دیا گیا ہے، اور کسی کو ان سے ملنے جلنے نہیں دیا جاتا۔
جس کمرے میں سرفراز ماموں بستر مرگ پر پڑے تھے، اس میں ان کی مسہری کے علاوہ صرف ایک چھوٹی میز دوائیں وغیرہ رکھنے کے لیے اور ایک کرسی ڈاکٹر کے بیٹھنے کے لیے رہنے دی گئی تھی، باقی سامان اٹھوا دیا گیا تھا۔ سرفراز ماموں طبعاً بڑے خوش خلق اور ملنسار تھے، مگر اس بیماری نے رفتہ رفتہ انہیں سخت تنک مزاج بنا دیا تھا۔ وہ میری والدہ کے سوا اور کسی کا اپنے پاس آنا پسند نہ کرتے تھے۔ کہتے، ’’للہ مجھے تنہا چھوڑ دو۔‘‘ بیماری کے آخری ایام میں تو ان کی تنہائی پسندی اس حدتک بڑھ گئی تھی کہ انہوں نے تمام کانسے اور پیتل کے مجسمے، عورت مرد کی تصویریں، قدرتی نظارے، یہاں تک کہ خوش خطی کے مرقعے بھی اپنے کمرے سے نکلوا دیے تھے۔ کہتے، ’’ان سے ذہنی سکون میں خلل پڑتا ہے۔‘‘
اقربا کے بیٹھنے کے لیے ملحقہ کمرے میں انتظام کیا گیا تھا۔ میرے تینوں بھائی، دو بیاہتا بہنیں اور ان کے بچے اسی کمرے میں جمع تھے۔ ان میں ہم بھی شامل ہو گئے۔ ہم دو دو تین تین مل کر دبے پاؤں سرفراز ماموں کے کمرے میں جاتے اور تھوڑی دیران کی مسہری کے پاس کھڑے رہ کر دبے پاؤں واپس آ جاتے۔ سرفراز ماموں پر اس وقت غشی طاری تھی۔ دیر سے انہوں نے آنکھ نہیں کھولی تھی۔ ہرچند ڈاکٹر جواب دے چکے تھے مگر ابھی تک کئی لوگوں کو امید تھی کہ شاید وہ بچ جائیں۔ قریب ہی ایک اور کمرے میں قرآن خوانی ہو رہی تھی اور ان کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگی جا رہی تھیں۔
ایک مرتبہ ان کے کمرے کو مہمانوں سے خالی دیکھ کر میں اکیلا ہی اندر چلا گیا، تاکہ ایک بار اور انہیں جی بھر کر دیکھ لوں۔ وہ بچپن میں مجھ پر خاص طور سے شفقت فرماتے تھے، اور سب سے زیادہ میری ہی فرمائشیں پوری کیا کرتے تھے، اور ادھر میں بھی ان سے کچھ زیادہ ہی مانوس تھا۔ وہ مسہری پر چت لیٹے ہوئے تھے۔ صرف ان کا چہرہ کھلا ہوا تھا ، باقی سارا جسم ایک سیاہ پشمینے کی ہلکی چادر سے، جس کے کناروں پر چھوٹی بوٹی کی سرخ خوشنما بیل کڑھی ہوئی تھی، ڈھکا ہوا تھا۔ انہوں نے پچھلے دو تین ہفتوں میں داڑھی نہیں منڈوائی تھی۔ اس کی وجہ سے ان کے رخساروں پر ایک چھوٹی سی کڑبڑی داڑھی نکل آئی تھی، جو کمرے کی مدھم روشنی میں ان کے گندمی رنگ کے چہرے پر بہت بھلی لگتی تھی۔
میں ان کی مسہری کے اور قریب پہنچ گیا، اور ان کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا۔ ہرچند ان کی آواز نےجواب دے دیا تھا، مگر ابھی تک ان کا سانس بگڑنے نہ پایا تھا۔ ان کے چہرے سے ایک عجیب طرح کی آسودگی جھلکتی تھی۔ کسی قسم کے کرب کا نشان نہ تھا۔ بس یہی معلوم ہوتا تھا کہ چین کی نیند سو رہے ہیں۔ میں ان کے چہرے کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک انہوں نے آنکھیں کھول دیں اور ایسا معلوم ہوا جیسے مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تھوڑی دیر تک یہی کیفیت رہی۔ رفتہ رفتہ ان کی آنکھوں کا تجسس غائب ہونے لگا اور اس کی جگہ ایک خفیف سی مسکراہٹ جھلکنے لگی۔ مجھے یقین ہوگیا کہ انہوں نےمجھے پہچان لیا ہے۔ اس لمحے میں بھی اپنا غم بھول گیا اور مسکرانے لگا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے ان کی مسکراہٹ ان کی آنکھوں سے نکل کر ان کے ہونٹوں اور رخساروں پر پھیل گئی۔ بلاشبہ یہ ان کی وہی مخصوص مسکراہٹ تھی، جس میں ہمیشہ شرارت کا ایک خفیف سا عنصر چھپا رہتا تھا۔
اس کے بعد دھیرے دھیرے ان کی آنکھیں بند ہوتی گئیں اور وہ مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ میں جلد ہی ان کے کمرے سے چلا آیا۔ اس ملاقات کا میرے دل پر بہت گہرا اثر پڑا تھا۔ مجھے اپنے جذبات پر قابو نہ رہا تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو امڈ آئے تھے۔ اس خیال سے کہ میری بہنیں اور خاص طور پر میرے بیوی بچے میری اس کمزوری کو دیکھ کر پریشان نہ ہوں، میں چپکے سےکوٹھی سے باہر نکل آیا اور باغیچے میں ٹہلنے لگا۔
سرفراز ماموں کی اولین یاد جو میرے دل میں ابھری، اس وقت کی تھی جب میں پانچ چھ برس کا تھا، اور وہ پچیس سال کے نوجوان تھے۔ وہ بہت عمدہ عمدہ کپڑے پہنا کرتے اور بڑے بنے سنورے رہا کرتے۔ وہ اکثر اپنی بہن سے ملنے آیا کرتے جو عمر میں ان سے پانچ سال بڑی تھیں۔ ہم بھائی بہن جیسے ہی برآمدے میں ان کی آواز سنتے، جہاں کہیں بھی ہوتے، اڑ کر ان کے پاس جا پہنچتے اور ان سے لپٹ جاتے۔ وہ ہمارے لیے طرح طرح کی چوسنے والی مٹھائیاں، ٹافیاں، پستہ ، بادام اور کبھی کبھی چھوٹے چھوٹے کھلونے لے کر آیا کرتے۔ یہ چیزیں وہ اپنی جیبوں میں سے نکال نکال کر ہمیں دیا کرتے اور بہت خوش ہوتے۔
مٹھائی اور کھلونوں کے علاوہ کئی اور طریقوں سے بھی ہمارا دل بہلایا کرتے۔ وہ ہمیں جادو کے کھیل دکھاتے جنہیں دیکھ کر ہم دنگ رہ جاتے۔ کہانیاں سناتے جنہیں سن کر بڑی ہنسی آتی۔ وہ ہمارے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے اور کبھی کبھی ہمارے اصرار پر ہمیں گانا بھی سناتے۔ ان کا یہی وطیرہ اپنے بھائیوں اور دوسرے اقربا کے بچوں کےساتھ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہمارے خاندان کے سارے بچے ان کے بے حد گرویدہ تھے۔ بچوں کے علاوہ بڑے بھی ان سے ملنے کے مشتاق رہتے تھے، مگر ان کے پاس وہ زیادہ دیر نہ ٹھہرتے۔ بس چند منٹ رسمی باتیں کر کے کسی بہانے سے کھسک لیتے۔
میں نے اب تک سرفراز ماموں کی خوبیاں ہی گنوائی ہیں مگر ان میں برائیاں بھی کئی تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اول درجے کے سست تھے اور محنت سے بہت جی چراتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے دونوں بڑے بھائی تو کبھی کے گریجویٹ ہو کر اونچے اونچے عہدوں پر پہنچ گئے اور یہ برسوں اسکول ہی میں لٹکے رہے، اور آخر میٹرک کیے بغیر ہی انہیں تعلیم ختم کر دینی پڑی۔ لطف یہ کہ وہ کند ذہن نہیں، بلکہ بڑے ذہین تھے، بس ایک ذرا لکھنے پڑھنے میں ان کا جی نہ لگتا تھا۔ دوسرا عیب ان میں یہ تھا کہ وہ حد درجے ڈرپوک تھے۔ جھگڑے فساد کا تو کیا ذکر، جہاں ذرا گھر کے اندر یا باہر کوئی طیش میں آکر اونچی آواز میں بولنے لگا، یہ وہاں سے کھسکے۔ تیسرے حضرت لپاٹیے بھی غضب کے تھے اور گپ تو ایسی ہانکتے کہ جس کا سر ہوتا نہ پیر۔ پھر انہیں ورزش سے بھی کوئی دلچسپی نہ تھی۔ جب تک اسکول میں رہے کسی قسم کے کھیل میں حصہ نہ لیا۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ وہ قدرتی طور پر پیدا ہی دبلے پتلے اور کمزور ہوئے تھے۔ یہ کمزوری بڑے ہونے پر بھی قائم رہی۔ چنانچہ ان کے دونوں بھائی تو خوب کڑیل جوان نکلے مگر یہ دھان پان ہی رہے۔
نانا جان کو اپنے چھوٹے بیٹے کے، تعلیم میں اور دنیاوی ترقی میں اپنے بھائیوں سے پیچھے رہ جانے کا افسوس تو ہوا، مگر ان کی شفقت میں ذرا فرق نہ آیا، بلکہ وہ اس کی کچھ زیادہ ہی دل جوئی کرنے لگے۔ وہ خدا کے فضل سے آسودہ حال اور صاحب جائیداد تھے۔ اراضی کے علاوہ ان کے متعدد مکان اور دکانیں تھیں، جن کے کرائے کی ہر مہینے ایک معقول رقم آیا کرتی تھی۔ انہوں نے یہ سوچ کر کہ سرفراز کو اپنی کم علمی کی وجہ سے کوئی مناسب سرکاری نوکری تو ملنے سے رہی اور نہ وہ کوئی کاروبار ہی کر سکتے ہیں، ان کے ذمے یہ کام سپرد کر دیا کہ وہ جائیداد کا کرایہ اگاہا کریں اور آمدنی اور خرچ کا حساب رکھا کریں۔ اس کام کے عوض میں ان کا ایک معقول مشاہرہ مقرر کر دیا گیا۔
یہ کام ان کی سست اور آرام طلب طبیعت کے لیے بہت موزوں تھا۔ انہیں نہ تو دفتر جانا پڑتا، نہ کسی قسم کی بھاگ دوڑ کرنی پڑتی۔ بس مزے سے گھر ہی میں رہتے یا اپنے عزیزوں کے ہاں چلے جاتے، اور ان کے بچوں کے ساتھ اپنا وقت گزارتے۔ اس پر بھی ان کی یہ حالت تھی کہ جب دیکھو چہرے سے تکان برس رہی ہوتی، ہائے وائے کرتے۔ اور کہتے، ’’چلو بچو! ذرا میرے ہاتھ پاؤں تو داب دو۔‘‘ وہ ہمارے لیے مٹھائیاں وغیرہ تو لایا ہی کرتے تھے مگر جب ہم سے ’’مٹھی چپی‘‘ کی خدمت لینی ہوتی، تو اس کے صلے میں ایک الگ تھیلے میں بہت سی چیزیں بھر کر لاتے۔ ہم ان کے ساتھ کسی الگ تھلگ کمرے میں چلے جاتے۔ وہ اپنی شیروانی اتار دیتے اور بستر پر چت لیٹ جاتے۔
پھر کوئی بچہ ان کے بازو دابتا کوئی ان کی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر چلتا۔ کوئی سر میں تیل ڈال کر انگلیوں سے سہلاتا اور وہ ایک ایک دو دو منٹ کے بعد سب کو ٹافیاں، رنگترے کی پھانکیں، اور دوسری چوسنے والی مٹھائیاں بانٹتے رہتے۔ یہ سلسلہ بعض اوقات گھنٹوں جاری رہتا۔ ہم لوگ مٹھائیوں کے لالچ میں تھکنے کا نام نہ لیتے، اور ادھر وہ انعام و اکرام کی بارش جاری رکھتے۔ ہماری اس خدمت گزاری سے ان کے تھکے ہوئے اعضا کو یقیناً آرام پہنچ رہا ہوتا، کیونکہ ان کے پژمردہ چہرے پر آہستہ آہستہ بشاشت آتی جاتی اور ان کی آنکھیں جو پہلے بجھی بجھی ہوتیں، روشن ہو جاتیں۔ آخر وہ کہتے، ’’بچو! اب بس کرو، شکریہ! بہت شکریہ۔‘‘ پھر وہ غسل خانے میں جا کر منہ ہاتھ دھوتے، شیروانی پہنتے اور ہمارے سروں پر ہاتھ پھیرتے اور جلد ہی پھر آنے کا وعدہ کرتے ہوئے چلے جاتے۔ ہم جب امی سے یہ واقعہ بیان کرتے تو وہ ہنستیں اور کہتیں، ’’بےچارہ سرفراز!‘‘
سرفراز ماموں اپنی اس آسودہ زندگی سے بہت مطمئن تھے لیکن اب مشکل یہ آ پڑی کہ نانا جان کو ان کی شادی کی فکر ہوئی۔ ان کے لیے جگہ جگہ رشتے ڈھونڈے جانے لگے۔ مگر ان کے سامنے جس لڑکی کا نام لیا جاتا، جھٹ اسے رد کر دیتے۔ کہتے، ’’ابھی کیا جلدی ہے۔ جب وقت آئےگا تو میں خود کہہ دوں گا۔‘‘ مگر مہینے اور سال گزرتے جاتے تھے اور وہ وقت نہیں آنے پاتا تھا۔ نانا جان سخت فکرمند رہنے لگے تھے۔ ان کی تمنا تھی کہ اپنی زندگی ہی میں اپنے بڑے بیٹوں کی طرح ان کا گھر بھی رستا بستا دیکھ لیں، مگر وہ راضی نہ ہوتے تھے۔ گو اب والد کی آزردگی انہیں بھی کسی قدر پریشان کرنے لگی تھی۔
اسی زمانے کا ذکر ہے۔ ایک دن شام کو گھر آئے تو بہت چپ چپ اور سنجیدہ صورت بنائے ہوئے تھے۔ ان کے والد اور بڑے بھائیوں کو تعجب ہوا۔ پوچھا کیا بات ہے بھئی۔ یہ خاموش رہے۔ مگر صورت پہلے سے بھی زیادہ سنجیدہ بنا لی۔ اس پر بھائیوں نے اصرار کیا۔ تو یوں گویا ہوئے، ’’آپ روز روز کہا کرتے تھے۔ لیجیے میں نے اپنی پسند کی لڑکی تلاش کر لی ہے۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ وہ پچھلے روز شام کو نمائش دیکھنے گئے تھے۔ وہاں اتفاق سے انہوں نے ایک لڑکی کو، جو اپنے والدین کے ہمراہ آئی تھی، بے پردہ دیکھ لیا۔ بس اسی وقت سے اس کی صورت ان کے دل میں ایسی بس گئی ہے کہ کسی طرح محو نہیں ہوتی۔ انہوں نے ڈرائیور کو انعام دے کر اس کے والد کا نام اور پتا بھی پوچھ لیا ہے اور وہ اسی شہر کے رہنے والے ہیں۔
’’کیا نام ہے؟‘‘ نانا جان نے پوچھا۔
’’نواب ظہیر الدولہ۔‘‘ سرفراز ماموں نے نام کے ایک ایک جزو پر زور دیتے ہوئے کہا۔ یہ نام سننا تھا کہ نانا جان اور ہمارے دونوں بڑے ماموں حیران و پریشان ہو کر ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ سرفراز ماموں خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ اس کے بعد ان کی تمام خوش طبعی اور زندہ دلی جیسے ایک دم رخصت ہو گئی۔ کھانا پینا بھی برائے نام ہی رہ گیا۔ انہوں نے اپنے عزیزوں کے گھروں میں آنا جانا بھی موقوف کر دیا۔ وہ سارا سارا دن اپنے کمرے میں بند، بستر پر پڑے رہا کرتے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر ایک دن ہماری نانی جان نے اپنے شوہر سے کہا، ’’نواب ظہیر الدولہ بڑے آدمی سہی، ان کا خاندان بھی اونچا سہی، لیکن پیغام تو بھیج کر دیکھو۔‘‘ نانا جان نےکچھ جواب نہ دیا۔ اس پر نانی جان نے خود ہی شہر کی دو تین مشاطاؤں کو جو رشتے کرانے میں مشہور تھیں، اپنے ہاں بلوایا، اور ان سے صلاح مشورہ کیا۔ پھر بسم اللہ کر کے ایک مغلانی کے ذریعہ پیغام بھیج ہی دیا۔
ایک ہفتے کے بعد وہاں سے جواب آیا کہ نواب صاحب خاندان کی بلندی و پستی کے زیادہ قائل نہیں ہیں، مگر ان کے ہونے والے داماد کے لیے کم از کم یہ شرطیں ضروری ہیں۔ ایک تو وہ اچھی شکل و صورت کا ہو۔ دوسرے کم از کم گریجویٹ ہو۔ اور تیسرے اس کے والدین اس قدر آسودہ ضرور ہوں کہ وہ دو لاکھ روپیہ نقد بطور حق مہر لڑکی کے نام بنک میں جمع کرا سکیں۔
نانا جان کو اس جواب سے بڑی مایوسی ہوئی۔ ہرچند ان کا شمار شہر کے کھاتے پیتے لوگوں میں ہوتا تھا، مگر وہ اپنی ساری جائیداد بیچ دیتے تب بھی دو لاکھ روپیہ جمع نہ کر سکتے تھے اور بالفرض روپے کا انتظام ہو بھی جاتا، تو سرفراز کے گریجویٹ ہونے کی شرط بڑی ٹیڑھی تھی۔ کیونکہ وہ تو انٹرنس بھی پاس نہ کر پائے تھے۔ بس ایک ہی شرط تھی جس پر وہ پورے اترتے تھے، وہ یہ کہ شکل صورت کے بڑے اچھے تھے۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ حسین تھے۔ چنانچہ نواب ظہیرالدولہ کے جواب پر عام طور پر یہی تصور کیا گیا کہ وہ چونکہ بڑے بردبار اور نیک دل ہیں، اس لیے انہوں نے صاف انکار کر کے اپنے ایک معزز ہم وطن کو ناراض کرنا مناسب نہیں سمجھا اور جان بوجھ کر ایسی شرطیں لگا دی ہیں، جن کا پورا کرنا سرفراز ماموں اور ان کے متعلقین کے لیے ممکن نہ ہو۔
نانا جان نے اپنے دونوں بڑے بیٹوں کی موجودگی میں سرفراز ماموں کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ ماموں چپکے بیٹھے ان کی باتیں سنتے رہے۔ جب ان کے گریجویٹ نہ ہونے کا ذکر آیا تو وہ فوراً بول اٹھے، ’’یہ کیا مشکل بات ہے۔ یہ شرط تو میں آسانی سے پوری کر سکتا ہوں۔‘‘ اس پر ان کے دونوں بڑے بھائی کہنے لگے، ’’اگر تم اسے پورا کر لو تو روپیہ ہم کسی نہ کسی طرح مہیا کر ہی لیں گے۔ خواہ ہمیں اپنے حصے کی جائیداد بیچنی ہی کیوں نہ پڑے۔‘‘
اس شام گھر والوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ جب انہوں نےدیکھا کہ سرفراز ماموں کتابوں کی ایک گٹھری کی گٹھری اٹھائے چلے آ رہے ہیں۔ انہوں نے کسی سے بات نہ کی۔ سیدھے اپنے کمرے میں پہنچے اور اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ اور یوں انہوں نے اکیلے ہی بغیر کسی کی مدد کے پڑھائی شروع کر دی۔ وہ کھانا کھانے کے لیے باہر نہ آتے، بلکہ کھانا کمرے کےاندر ہی منگوا لیا کرتے۔ ان کے تمام عزیزوں کو سخت تعجب تھا کہ جو شحص عمر بھر ایسا آرام طلب اور سست رہا ہو، اس میں اچانک اتنی ہمت کہاں سے آ گئی کہ وہ دن رات مشین کی طرح کام کرنے لگے۔ جب ایک ہفتہ گزر گیا، تو انہوں نے اپنی والدہ سے کہا، ’’نواب ظہیر الدولہ کو کہلوا دیا جائے کہ ان کی شرطیں منظور کر لی گئیں ہیں مگر انہیں کچھ مہلت دینی ہوگی۔‘‘
اتفاق سے آئندہ میٹرک کے امتحان میں صرف تین ہی مہینے باقی تھے، انہوں نے پرائیوٹ طور پر امتحان دیا اور اچھے نمبروں سے پاس ہو گئے۔ اس کے بعد انہوں نے فارسی کے ایک اعلیٰ امتحان کی تیاری شروع کر دی، جس کو پاس کرنے کے بعد وہ ایف۔ اے اور بی۔ اے کے صرف انگریزی کے امتحان دے کر بی۔ اے کی ڈگری حاصل کر سکتے تھے۔ اگلے دو سال میں انہوں نے فارسی اور ایف۔ اے انگریزی کے امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کر لیے۔ جب نواب ظہیر الدولہ کو اس کی اطلاع پہنچی تو وہ بڑے متعجب ہوئے۔ ادھر ان کی صاحب زادی بھی یہ سن کر پھولی نہ سمائی کہ کوئی شخص اس کی خاطر اتنی مصیبت جھیل رہا ہے۔ اسے اپنی بعض بے تکلف سہیلیوں کے ذریعے سرفراز ماموں کی خوش جمالی اور خوش طبعی کا حال معلوم ہو گیا تھا، اور وہ بے دیکھے ہی ان پر ریجھ گئی تھی۔
اس پر لڑکی کی والدہ نے نواب صاحب سے کہا کہ لڑکا بہت نیک اطوار ہے، خواہ مخواہ کی شرطیں لگاکر شادی میں کیوں دیر کی جا رہی ہے۔ ممکن ہے ایسا داماد پھر ہاتھ نہ آئے۔ نواب صاحب نے کچھ دیر تامل کیا اور پھر نیم رضامند سے ہو گئے، لیکن جب ان کایہ منشا کسی ذریعے سے نانا جان تک پہنچایا گیا تو سرفراز ماموں نے یہ کہہ کرنا منظور کر دیا کہ جو شرطیں لگائی گئی ہیں، ان کی پوری پوری پابندی کی جائےگی۔ بی اے کے امتحان کے دن قریب آ گئے۔ سرفراز ماموں دن رات مطالعہ میں مصروف ہو گئے اور امتحان دیا تو کامیاب رہے۔ اس طرح وہ صرف تین سال کے عرصے میں گریجویٹ بن گئے۔ ادھر ان کے والد اور بھائیوں نے حق مہر کے دو لاکھ روپے کا انتظام بھی کر لیا۔
شادی کی تاریخ مقرر کی گئی۔ دونوں طرف زور شور سے تیاریاں ہونے لگیں اور دونوں خاندان خوش خوش اس روز سعید کا انتظار کرنے لگے۔ آخرکار وہ دن آپہنچا۔ سرفراز ماموں سیاہ بانات کی شیروانی پہنے، سر پر مشہدی پگڑی باندھے، اصیل گھوڑے پر سوار، براتیوں کے ساتھ دلہن کے گھر روانہ ہو گئے۔ یہ قصہ سارے شہر میں مشہور ہو چکا تھا،۔ لوگ دولہا کو دیکھنے کے اشتیاق میں بازاروں کے دونوں طرف یوں قطار باندھے کھڑے تھے جیسے کسی مشہور لیڈر کا جلوس گزرنے والا ہو۔ اس برات کی کیفیت اب تک میری آنکھوں میں پھر رہی ہے کیونکہ میں بھی اپنے بھائیوں کے ساتھ بڑھیا کپڑے پہنے اس میں شامل تھا۔ اس وقت میری عمر دس برس کی ہوگی۔
جب ہم نواب صاحب کی محل سرا کے سامنے پہنچے، تو خود نواب صاحب نانا جان اور سرفراز ماموں کی پذیرائی کے لیے دروازے پر موجود تھے۔ محل سرا کے اندر ایک وسیع دالان کے سامنے قیمتی شامیانوں کے نیچے دولہا کے بیٹھنے کے لیے مسند رکھی گئی تھی، جو بیش قیمت ایرانی قالینوں اور زربفت کے گاؤ تکیوں سے آراستہ تھی۔ سرفراز ماموں اپنے والد اور بھائیوں کے ساتھ اس پر بٹھا دیے گئے۔ ہرچند ان کا چہرہ پھولوں اور سونے کے تاروں سے گندھے ہوئے سہرے سے چھپا ہوا تھا اور کوئی شخص ان کی دلی کیفیت کو بھانپ نہ سکتا تھا، مگر میں نے ان کے قریب پہنچ کر کسی نہ کسی طرح ان کے چہرے کی ایک جھلک دیکھ ہی لی۔ اچانک ایک نامعلوم خوف سے میرا دل دھڑک اٹھا۔ سرفراز ماموں بڑے فکر مند معلوم ہوتے تھے۔
جب لوگ اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے، تو مولوی صاحب جنہیں نکاح خوانی کی رسم ادا کرنی تھی، سبز جزدان میں لپٹا ہوا قرآن مجید بغل میں دبائے نمودار ہوئے اور سرفراز ماموں کے قریب پہنچے۔ اس وقت میرے دل نے نامعلوم کیوں اور بھی زور زور سے دھڑکنا شروع کر دیا۔ چند لمحے بڑے اضطراب میں گزرے۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ سرفراز ماموں نےاپنے منجھلے بھائی کے کان میں، جو ان کے قریب بیٹھے تھے، کچھ کہا اور پھر ایک دم کھڑے ہو گئے۔ ان کے منجھلے بھائی نے نواب صاحب کے ایک کارندے سے کہا کہ یہ ذرا غسل خانے میں جانا چاہتے ہیں۔
سرفراز ماموں اس شخص کی رہنمائی میں منجھلے بھائی کے ہمراہ غسل خانے تک پہنچے۔ وہ اس میں بمشکل ایک منٹ ٹھہرے پھر باہر نکل آئے۔ غسل خانہ ذرا فاصلے پر تھا۔ واپسی پر وہ اپنے دونوں ہمراہیوں سے ذرا آگے آگے چلنے لگے۔ اچانک ان کی نظر محل سرا کے پھاٹک پر پڑی اور انہوں نے بجائے شامیانے کی طرف جانے کے پھاٹک کا رخ کیا اور پیشتر اس کے کہ کوئی ان کے ارادے کو بھانپ سکے، وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے پھاٹک سے باہر نکل آئے۔ سڑک پر پہنچ کر انہوں نے سہرے کو تو ایک طرف پھینکا، اور زری کی سلیم شاہی جوتی جو خاص طور پر اس موقع کے لیے بنوائی گئی تھی، ہاتھ میں پکڑ کر بے تحاشہ ایک طرف کو بھاگنا شروع کر دیا۔ پھاٹک پر جو لوگ کھڑے تھے، کچھ دیر تک وہ سکتے کے سے عالم میں رہے، پھر اچانک وہ بھی سرفراز ماموں کے تعاقب میں بھاگنے لگے۔ مگر اتنی ہی دیر میں وہ کہیں کے کہیں پہنچ چکے تھے۔
اس کے بعد کیا ہوا؟ اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ اپنی اس تحقیر پر نواب ظہیر الدولہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ ادھر ہمارے نانا جان مارے شرم کے گڑے جاتے تھے۔ ان کی سمجھ میں اور تو کچھ نہ آیا، بے اختیار نواب صاحب کے قدموں میں گر پڑے اور کہا، ’’حضور معاف کر دیں۔ ضرور یہ نالائق دیوانہ ہو گیا ہے۔ میں ابھی اسے عاق کرتا ہوں۔ میرے جیتے جی وہ کبھی میرے گھر میں قدم نہ رکھ سکےگا۔‘‘ مگر نواب صاحب کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا۔ بولے، ’’مہربانی فرما کر فوراً میرے گھر سے دفان ہو جائیے۔‘‘ یہ کہا اور مٹھیاں بھینچتے ہوئے محل سرا کے اندر چلے گئے۔
ہم بہت بے آبرو ہوکر وہاں سے نکلے، راستے بھر کسی نے کسی سے بات نہ کی۔ جب گھر پہنچے تو عورتوں نے رو رو کر کہرام مچا دیا۔ ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ نواب صاحب کے ہاں اس سے بھی زیادہ کہرام مچا تھا۔ دلہن غش کھا کر گرپڑی اور تین دن تین رات تک اسے ہوش نہ آیا۔ اس کے والدین اس کی زندگی سے مایوس ہو گئے۔ آخر اس کی جان تو بچ گئی مگر اسے صحت یاب ہونے میں چھ مہینے لگ گئے۔ سرفراز ماموں کے متعلق کوئی نہیں جانتا تھا کہ ان کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا۔ وہ کہاں غائب ہو گئے۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ انہوں نے خودکشی کر لی ہے۔ بعض کہتے کہ وہ کسی دور دراز ملک کو فرار ہو گئے ہیں۔ غرض جتنے منہ اتنی ہی باتیں!
دس برس تک ان کی کوئی خبر نہ آئی اور پھر ایک صبح اچانک وہ اپنے والد کے ہاں آدھمکے۔ جیسے کہاوت ہے کہ وقت زخموں کو مندمل کر دیتا ہے، یہی معاملہ ان کے ساتھ بھی پیش آیا۔ ان کو زندہ سلامت دیکھ کر نانا جان اور تمام عزیزوں کا دل باغ باغ ہو گیا۔ عورتوں نے ان کی بلائیں لیں اور خوب ڈھولک پر گا بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ ادھر اسی اثنا میں نواب صاحب کی بیٹی کی شادی ایک نواب زادے سے ہو چکی تھی اور وہ دو لڑکوں کی ماں بھی بن چکی تھی۔ چونکہ نواب زادہ خوبصورت بھی تھا اور نوجوان بھی اور پھر نجابت اور امارت میں بھی وہ اپنے سسر سے کسی طرح کم نہ تھا، اس لیے سرفراز ماموں کے ساتھ اس رشتہ کا نہ ہونا نیک فال ہی تصور کیا گیا اور اس واقعہ کو جلد ہی بھلا دیا گیا۔
سرفراز ماموں نے مرتے دم تک یہ راز کسی کو نہ بتایا کہ وہ اپنی شادی کے روز بھاگ کیوں گئے تھے اور اس دس سال کی مدت میں وہ کہاں کہاں رہے اور روپے پیسے کے بغیر انہوں نے کیسے گذر کی۔ جب کبھی ان سے پوچھا جاتا، تو ان کی آنکھوں میں ایک پراسرار مسکراہٹ، جس میں شرارت کا خفیف سا عنصر چھپا ہوتا، جھلکنے لگتی۔ یہی پراسرار مسکراہٹ رفتہ رفتہ ان کے کردار کا ایک جزو بن گئی۔
میں نے اس مسئلے پر بہت غور کیا، لیکن ان کے فرار کی اصل وجہ نہ سمجھ سکا۔ ممکن ہے اس میں ان کی طبعی بزدلی کو دخل ہو یعنی انہیں اپنی ازدواجی صلاحیتوں پر اعتماد نہ ہو یا یہ وجہ ہو کہ وہ بیوی بچوں کا بوجھ اٹھانے سے ڈرتے ہوں۔ یا شاید یہ وجہ ہو کہ وہ اپنے والد، اپنے بھائیوں اور ان کے بچوں سے ان کی جائیداد چھین کر انہیں مفلس اور قلاش بنانا نہیں چاہتے تھے۔
مأخذ : کلیات غلام عباس
مصنف:غلام عباس