آج پورے ساٹھ سال کے بعد مجھے اپنے وطن، پایرے وطن کا دیدار پھر نصیب ہوا۔ جس وقت میں اپنے پیارے دیس سے رخصت ہوا او رمجھے قسمت مغرب کی جانب لے چلی، اس وقت میں کڑیل جوان تھا۔ میری رگوں میں تازہ خون دوڑتا تھا اور یہ دل امنگوں اور بڑے بڑے ارادوں سے بھرا ہوا تھا۔ مجھے بھارت ورش سے کسی ظالم کے جوروجبر یا انصاف کے زبردست ہاتھوں نے نہیں جدا کیا تھا، نہیں۔ ظالم کا ظلم اور قانون کی سختیاں مجھ سے جو چاہیں کراسکتی ہیں۔۔۔ مگر مجھ سے میرا وطن نہیں چھڑا سکتیں۔ یہ میرے بلند ارادے اور بڑے بڑے منصوبے تھے جنہوں نے مجھے دیس سے جلا وطن کیا۔۔۔ میں نے امریکہ میں خوب تجارت کی، خوب دولت کمائی اور خوب عیش کیے۔ خوبیٔ قسمت سے بیوی بھی ایسی پائی جو حسن میں اپنی آپ ہی نظیر تھی۔ جس کی خوبصورتی کا شہرہ سارے امریکہ میں پھیلا ہوا تھا اور جس کے دل میں کسی ایسے خیال کی گنجائش بھی نہ تھی جس کا مجھ سے تعلق نہ ہو۔ میں اس پر دل و جان سے فدا تھا۔ وہ میرے لیے سب کچھ تھی۔
میرے پانچ بیٹے ہوئے خوش رو، قوی ہیکل اور سعادت مند، جنہوں نے تجارت کو اور بھی چمکایا۔۔۔ اور جن کے بھولے ننھے بچے میری گود میں بیٹھے ہوئے تھے جب میں نے پیارے وطن کا دیدار کرنے کے لئے قدم اٹھایا۔ میں نے بے شمار دولت، وفادار بیوی، سپوت بیٹے اور پیارے پیارے جگر کے ٹکڑے ایسی بے بہا نعمتیں ترک کردیں اس لئے کہ اپنی پیاری بھارت ماتا کا آخری دیدار کرلوں۔ میں بہت بوڑھا ہوگیا ہوں۔ دس برس اور زندہ رہوں تو پورے سو برس کا ہوجاؤں اور اب میرے دل میں کوئی آرزو باقی ہے تو وہ یہی ہے کہ اپنے وطن کی خاک کا پیوند بنوں۔
یہ آرزو کچھ آج ہی میرے دل میں پیدا نہیں ہوئی ہے، بلکہ اس وقت بھی جب میری پیاری بیوی اپنی شیریں باتوں اور نازک اداؤں سے میرا دل خوش کیا کرتی تھی، جب میرے نوجوان بیٹے سویرے کو آکر اپنے بوڑھے باپ کو ادب سے سلام کیا کرتے تھے، اس قت بھی میرے دل میں ایک کانٹا سا کھٹکتا تھا اور وہ کانٹا یہ تھا کہ میں یہاں جلا وطن ہوں۔ یہ دیس میرا نہیں ہے، میں اس دیس کا نہیں ہوں۔ دولت میری تھی، بیوی میری تھی، لڑکے میرے تھے اور جائیدادیں میری تھیں۔ مگر نہ جانے کیوں رہ رہ کر وطن کے ٹوٹے ہوئے جھونپڑے اور چار چھ بیگھہ موروثی زمین اور بچپن کے ساتھیوں کی یاد ستا جایا کرتی تھی اور اکثر مسرتوں کی گہما گہمی اور شادمانیوں کے ہجوم میں بھی یہ خیال دل میں چٹکی لیا کرتا کہ میں کاش اپنے دیس میں ہوتا۔
جس وقت بمبئی میں جہاز سے اترا تو میں نے پہلے کالے کالے کوٹ پتلون پہنے اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولتے ملاح دیکھے۔ پھر انگریزی دکانیں، ٹرام اور موٹر گاڑیاں نظر آئیں۔ پھر ریڑھ والے پہیوں اور چرٹ والے آدمیوں سے مڈبھیڑ ہوئی۔ پھر ریل کا اسٹیشن دیکھا اور ریل پر سوار ہوکر اپنے گاؤں چلا۔ پیارے گاؤں دیکھو جو ہری بھری پہاڑیوں کے بیچ میں واقع تھا تو میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ میں خوب رویا کیونکہ یہ میرا دیس نہ تھا۔ یہ وہ دیس نہ تھا جس کے دیدار کی آرزو ہمیشہ میرے دل میں لہرایا کرتی تھی۔۔۔ یہ کوئی اور دیس تھا۔۔۔ یہ امریکہ تھا یا انگلستان تھا، مگر میرا پیارا بھارت نہیں تھا۔
ریل گاڑی جنگلوں، پہاڑوں، ندیوں اور میدانوں کو طے کر کے میرے پاارے گاؤں کے قریب پہنچی جو کسی زمانے میں پھول پتوں کی افراط اور ندی نالوں کی کثرت سے جنت کا مقابلہ کرتا تھا۔۔۔
میں گاڑی سے اترا تو میرا دل بانسوں اچھل رہا تھا۔۔۔ اب اپنا پیارا گھر دیکھوں گا، اپنے بچپن کے پیارے ساتھیوں سے ملوں گا۔ مجھے اس وقت یہ بالکل یاد نہ رہا کہ میں نوّے سال کا بوڑھا ہوں۔۔۔ جوں جوں میں گاؤں کے قریب آتا تھا، میرے قدم جلد جلد اٹھتے تھے اور دل پر ایک ناقابلِ برداشت خوشی کا اثر ہورہا تھا۔۔۔ ہر چیز کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا۔۔۔ آہا، یہ وہ نالا ہے جس میں ہم روز گھوڑے نہلاتے اور خود غوطے لگاتے تھے۔۔۔ مگر اب اس کے دونوں طرف کانٹے دار تار لگے ہوئے تھے۔ سامنے ایک بنگلہ تھا۔۔۔ جس میں دو تین انگریز بندوقیں لیے ہوئے ادھر ادھر تاک رہے تھے۔ نالے میں نہانے کی سخت ممانعت تھی۔۔۔ گاؤں میں گیا اور نگاہیں بچپن کے ساتھیوں کو ڈھونڈنے لگیں مگر افسوس وہ سب کے سب لقمہ اجل ہوگئے تھے اور میرا گھر۔۔۔ میرا ٹوٹا پھوٹا جھونپڑا جس کی گود میں، میں برسوں کھیلا تھا۔۔۔ جہاں بچپن او ربے فکریوں کے مزے لوٹے تھے، جس کا نقشہ ابھی تک میری نگاہوں میں پھر رہا ہے۔ وہی میرا پیارا گھر اب مٹی کا ڈھیر ہوگیا تھا۔۔۔ یہ مقام غیر آباد نہ تھا۔ صدہا آدمی چلتے پھرتے نظر آتے جو عدالت اور کلکٹری اور تھانہ پولیس کی باتیں کر رہے تھے۔ ان کے چہروں سے تفکر اور اداسی نمایاں تھی اور وہ سب دنیاوی فکروں سے دبے معلوم ہوتے تھے۔ میرے ساتھیوں کی طرح چاق و چوبند طاقت ور اور لال چہرے والے نوجوان کہیں دکھائی نہ پڑتے تھے۔ وہ اکھاڑا جس کی بنیاد میرے ہاتھوں نے ڈالی تھی، وہاں اب ایک ٹوٹا پھوٹا اسکول تھا اور اس میں چند مریض صورت، کمزور اور فاقہ زدہ لڑکے بیٹھے اونگھ رہے تھے۔۔۔ نہیں، یہ میرا دیس نہیں ہے، یہ دیس دیکھنے کےلئے میں اتنی دور سے نہیں آیا۔ یہ کوئی اور دیس ہے۔۔۔ میرا پیارا بھارت ورش نہیں!
برگد کے پیڑ کی طرف دوڑا جس کے خوش گوار سائے میں ہم نے بچپن کی بہاریں اڑائی تھیں، جو ہمارے چھٹپنے کاگہوارہ اور جوانی کا آرام گاہ تھا۔۔۔ آہ! اس پیارے برگد کو دیکھتے ہی دل پر ایک رقت طاری ہوگئی تھی۔۔۔ اور ایسی حسرت ناک، دل سوز اور دردناک یادگاریں تازہ ہوگئیں کہ گھنٹوں زمین پر بیٹھا آنسو بہاتا رہا۔ یہی پیارا برگد ہے جس کی پھنگیوں پر ہم چڑھ جاتے تھے جس کی جٹائیں ہمارا جھولا تھیں اور جس کے پھل ہمیں ساری دنیا کی مٹھائیوں سے زیادہ لذیذ اور میٹھے معلوم ہوتے تھے۔ وہ میرے گلے میں انہیں ڈال کر کھیلنے والے ہمجولی جو کبھی روٹھتے تھے، کبھی مناتے تھے، وہ کہاں گئے؟ آہ! میں غربت زدہ مسافر کیا اب اکیلا ہوں؟ کیا میرا کوئی ساتھی نہیں ہے؟ اس برگد کے قریب اب تھانہ تھا۔ اور درخت کے نیچے ایک کرسی پر کوئی لال پگڑی باندھے بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے آس پاس دس بیس اور لال پگڑی والے ہاتھ باندھے کھڑے تھے اور ایک نیم برہنہ قحط زدہ شخص جس پر ابھی ابھی چابکوں کی بوچھاڑ ہوئی تھی، پڑا سسک رہا تھا۔۔۔ مجھے خیال آیا۔ یہ میرا دیس نہیں ہے یہ کوئی اور دیس ہے۔ یہ یورپ ہے، امریکہ ہے مگرمیری پیاری مادرِوطن نہیں ہے، ہرگز نہیں۔۔۔
ادھر سے مایوس ہوکر میں اس چوپال کی طرف چلا، جہاں شام کے وقت پتا جی گاؤں کے اور بزرگوں کے ساتھ حقہ پیتے اور ہنسی قہقہے اڑاتےتھے۔ ہم بھی اس ٹاٹ کے فرش پر قلابازیاں کھایا کرتے۔۔۔ کبھی کبھی وہاں پنچایت بھی بیٹھتی تھی۔۔۔ جس کے سرپنچ ہمیشہ پتا جی ہی ہوتے تھے۔ اسی چوپال کے پاس ایک گئو شالہ تھی جہاں گاؤں بھر کی گائیں رکھی جاتی تھیں اور ہم یہیں بچھڑوں کےساتھ کلیلیں کیا کرتے تھے۔ افسوس، اب اس چوپال کا پتہ نہیں تھا۔ وہاں اب گاؤں کے لیے ٹیکہ لگانے کا اسٹیشن اور ایک ڈاک خانہ تھا۔
اس وقت اسی چوپال سے لگا ہوا ایک کولہواڑہ تھا جہاں جاڑوں کے دنوں میں اوکھ پیری جاتی تھی۔۔۔ اور گڑ کی خوشبو سے دماغ بھرجاتا تھا۔ ہم اور ہمارے ہمجولی گھنٹوں گنڈیریوں کے انتظار میں بیٹھے رہتے تھے اور گنڈیریاں کاٹنے والےمزدور کی چابک دستی پر حیرت کرتے تھے جہاں ہزاروں بار میں نے کچا اور پکا دودھ ملا کر پیا تھا۔ یہاں آس پاس کے گھروں سے عورتیں اور بچے اپنے اپنے گھڑے لے کر آتے اور انہیں رس سے بھروا کر لے جاتے۔ افسوس! وہ کولہو ابھی جیوں کے تیوں کھڑے تھے۔۔۔ مگر دیکھا کہ کولہو واڑے کی جگہ اب ایک سن لپیٹنے والی کل ہے اور اس کے مقابل ایک تمبولی اور سگریٹ والے کی دکان ہے اور ان دلخراش نظاروں سے دل شکستہ ہوکر میں نے ایک آدمی سے جو صورت سے شریف نظر آتا تھا، کہا، ’’مہا شے! میں پردیسی مسافر ہوں، رات بھر پڑ رہنے کے لئے مجھے جگہ دے دو۔‘‘
اس آدمی نے مجھے سر سے پیر تک غور سے دیکھا اور کہنے لگا، ’’آگے جاؤ۔ یہاں جگہ نہیں ہے۔‘‘
میں آگے گیا اور یہاں سے پھر حکم ملا، ’’آگے جاؤ۔‘‘
پانچویں بار ایک صاحب سے پنا ہ مانگنے پر انھوں نے ایک مٹھی بھر چنےمیرے ہاتھ پر رکھ دیے۔ چنے ہاتھ سے چھوٹ پڑے اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور منہ سے اچانک نکل پڑا، ’’ہائے یہ میرا پیارا دیس نہیں ہے۔۔۔ یہ کوئی اور دیس ہے۔ یہ ہمارا مہمان نواز مسافر نواز پیارا وطن نہیں۔ ہرگز نہیں۔۔۔!‘‘
میں نے سگریٹ کی ایک ڈبیا لی اور ایک سنسان جگہ پر بیٹھ کر پرانے وقتوں کو یاد کر نے لگا۔۔۔ اچانک مجھے اس دھرم شالہ کا خیال آیا جو میرے پردیس جاتے وقت بن رہا تھا۔۔۔ میں ادھر کی طرف لپکا کہ رات کسی طرح وہیں کاٹوں۔۔۔ مگر افسوس! صد افسوس! دھرم شالہ کی عمارت جوں کی توں تھی لیکن اس میں غریب مسافروں کے لئے جگہ نہ تھی۔ شراب، بدکاری اور جوے نے اسے اپنا مسکن بنا تھا۔۔۔ یہ دیکھ کر دل سے ایک سرد ِآہ نکل پڑی۔۔۔ میں زور سے چیخ اٹھا۔ نہیں نہیں اور ہزار بار نہیں ہے، یہ میرا پیارا بھارت نہیں ہے، یہ کوئی اور دیس ہے! یہ تو یورپ ہے۔ امریکہ ہے مگربھارت ہرگز نہیں ہے۔
اندھیری رات تھی۔ گیدڑ اور کتے اپنے نغمے الاپ رہے تھے۔ اپنے دکھے دل کے ساتھ اسی نالے کے کنارے جاکر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ اب کیا کروں۔۔۔ کیا پھر اپنے پیارے بچوں کے پاس لوٹ جاؤں اور اپنی نامراد مٹی امریکہ کی خاک میں ملاؤں۔ اب تک میرا وطن تھا، میں غریب الوطن ضرور تھا مگر پیارے وطن کی یاد دل میں بنی ہوئی تھی۔ اب میں بے وطن ہوں۔ میرا کوئی وطن نہیں ہے۔ اس فکر میں بہت دیر تک گھنٹوں پر سر رکھے خاموش بیٹھارہا۔۔۔ رات آنکھوں میں کٹ گئی۔۔۔ گھڑیال نے تین بجائے اور کسی کے گانے کی آواز کان میں آئی۔۔۔ دل نے گدگدایا۔ یہ تو وطن کا نغمہ ہے۔ یہ دیس کا راگ ہے۔ میں جھٹ کھڑا ہوگیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ پندرہ بیس بوڑھی عورتیں سفید دھوتیاں پہنے، ہاتھوں میں لوٹے لیے اشنان کو جارہی ہیں اور گاتی جاتی ہیں، ’’ہمارے پربھو اوگن چت نہ دھرو۔‘‘
گیت کو سن کر مسحور ہورہا تھا کہ اتنے میں مجھے بہت سے آدمیوں کی بول چال سنائی پڑی اور کچھ لوگ ہاتھوں میں پیتل کے کمنڈل لیے ’’شیو، ہرے۔ ہرے۔ گنگے۔ گنگے۔ نارائن۔ نارائن‘‘، کہتے ہوئے دکھائی دیے۔ میرے دل نے پھر گدگدایا۔ یہ تو دیس پیارے دیس کی باتیں ہیں۔۔۔ فرط ِمسرت سے دل باغ باغ ہوگیا۔ میں ان آدمیوں کے ساتھ ہولیا۔ اور ایک۔ دو۔ تین۔ چار۔ پانچ۔ چھ میل پہاڑی راستہ طے کرنے کے بعد ہم اس ندی کے کنارے پہنچے جس کا نام مقدس ہے، جس کی لہروں میں غوطہ لگانا اور جس کی گود میں مرنا ہر ہندو برکت جانتا ہے۔
گنگا میرے پیارے گاؤں سے چھ سات میل پر بہتی تھی۔۔۔ اور کسی زمانے میں، میں صبح کو گھوڑے پر سوار ہوکر گنگا ماتا کے درشن کو آتا تھا۔۔۔ ان کے درشن کی تمنا میرے دل میں ہمیشہ رہی تھی۔۔۔ یہاں میں نے ہزاروں آدمیوں کو اس سرد ٹھٹھرتے ہوئے پانی میں غوطہ لگاتے دیکھا، کچھ لوگ ریت پر بیٹھے ہوئے گائتری منتر جپ رہے تھے، کچھ لوگ ہون کرنے میں مصروف تھے، کچھ لوگ ماتھے پر ٹیکے لگارہے تھے۔ میرے دل نے پھر گدگدایا اور میں زور سے کہہ اٹھا۔۔۔ ’’ہاں! ہاں! یہی میرا دیس ہے، یہی میرا پیارا وطن ہے، یہی میرا بھارت ہے اور اسی کے دیدار کی، اسی کے دھول کا ذرہ بننے کی حسرت میرے دل میں تھی۔۔۔
میں انتہائی سرور کے عالم میں تھا۔ میں نے اپنا پرانا کوٹ اور پتلون اتار پھینکا اور جاکر گنگا ماتا کی گود میں جاگرا، جیسے کوئی بے سمجھ بھولا بھالا بچہ دن بھر غیر ہمدرد لوگوں میں رہنے کے بعد شام کو اپنی پیاری ماں کی گود میں دوڑ کر چلا آئے اور اس کی چھاتی سے چمٹ جائے۔ ہاں اب اپنے دیس میں ہوں۔ یہ میرا پیارا وطن ہے۔ یہ لوگ میرے بھائی ہیں۔ گنگا میری ماتا ہے۔
میں نے ٹھیک گنگا کے کنارے ایک چھوٹی سی کٹی بنوالی ہے اور اب مجھے سوائے رام نام جپنے کے اور کوئی کام نہیں۔۔۔ میں روز شام سوارے گنگا اشنان کرتا ہوں اور یہ میری خواہش ہے کہ اسی جگہ میرا دم نکلے، اور میری ہڈیاں گنگا ماتا کی لہروں کی بھینٹ ہوں، میری بیوی، میرے لڑکے مجھے بار بار بلاتے ہیں، مگر ااب میں گنگا کا کنارا، اور یہ پیارا دیس چھوڑ کر وہاں نہیں جاسکتا۔ میں اپنی مٹی گنگا جی کو سونپوں گا۔ اب دنیا کی کوئی خواہش کوئی آرزو مجھے یہاں سے نہیں ہٹا سکتی۔۔۔ کیونکہ یہ میرا پیارا دیس، میرا پیارا وطن ہے اور میری خواہش ہے کہ میں اپنے وطن میں مروں۔
مأخذ : پریم چند کے مختصر افسانے
مصنف:پریم چند