راکھ

0
232
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

بیماری اور موت مل کر بھی شمع کے چہرے کی کشش کو ختم نہیں کر سکے۔ جمال نے فرش پر رکھی بیوی کی لاش کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ شمع کا مردہ جسم سفید چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ صرف چہرہ کھلا تھا۔ شمع کی گھنی سیاہ پلکیں جھکی ہوئی تھیں اور وہ ایک ٹک اس کے سرخ و سفید چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ شمع نے پیالی اٹھا کر کافی کا ایک گھونٹ لیا لیکن اس کی پلکیں بدستور جھکی رہیں۔تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا ۔ وہ میز پر تھوڑا جھک گیا۔ میں بہت سیر یسلی کہہ رہا ہوں۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔جمال نے شمع سے کل بھی یہی بات کہی تھی لیکن شمع نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ صرف جھر جھری لے کر رہ گئی تھی ۔ جمال کی خواہش کو سن کر وہ خوفزدہ ہوگئی تھی ۔ شادی کے اس تصور ہی سے اسے بخار سا ہو جاتا تھا جسے ساری دنیا کی عورتیں تحفظ بجھتی ہیں۔ بابا کو اگر پتہ چل گیا کہ ایک مسلمان لڑکے سے وہ شادی کرنا چاہتی ہے تو سوچ کر ہی وہ کانپ جاتی تھی ۔ دو برس قبل جمال سے اس کی ملاقات ایک فوٹوگرافی انگیزی بیشن میں ہوئی تھی جسے تین انچر فوٹوگرافرز نے مل کر ترتیب دیا تھا۔ شمع کو ایک تصویر بے حد پسند آئی تھی جس کا عنوان تھا۔ زندگی جس میں ایک سی گل کو سمندر کی بھری موجوں سے کچھ اوپر پرواز کرتے دکھایا گیا تھا۔ شمع نے جب ایگزی بیشن کے ناظم سے اس فوٹوگرافر کے بارے میں پوچھا۔ تو اس نے چشمہ لگائے ایک سانولے سے نوجوان کی طرف اشارہ کیا تھا جس نے ایک ڈھیلی ڈھالی شرٹ اور جینز پہن رکھی تھی۔ وہ ایک عورت سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا۔ جمال کو ایک عمدہ تصویر پر مبارک باد دینے کا خیال ترک کر کے وہ جب گیلری کی سیڑھیاں اترنے لگی تب اس نے سوچا کہ یہ فنکار کی ناقدری ہے۔ وہ لوٹ کر ایگزی بیشن ہال میں آگئی تھی اور اس عورت کے جانے کا انتظار کرنے لگی تھی۔ جو اپنی سوتی ساڑی سلیولیس بلاؤز اور ہینڈ لوم کے جھولے کی وجہ سے کوئی آرکیٹیکٹ معلوم ہو رہی تھی۔ اس عورت کے چلے جانے کے بعد شمع نے جمال کے قریب جا کر اپنا تعارف کراتے ہوئی تصویر کی تعریف تھی۔ دوران گفتگو اس نے بتا دیا تھا کہ وہ جے جے اسکول آف آرٹس میں انسٹرکٹر ہے اور ملازمت کا یہ اس کا پہلا سال ہے۔ دوسرے روز جمال نے جے جے اسکول میں جا کر شمع کو وہی تصویر تھے میں پیش کی تھی۔ دونوں کی رسمی ملاقاتیں دوستی اور دوستی جلد ہی محبت میں بدل گئی تھی۔ جمال اگر بتیاں کہاں ہیں۔؟ جمال نے گردن گھما کر دیکھا۔ اس کا فوٹوگرافر دوست منوج تھا۔ جمال نے وال کیبنٹ سے اگر بتی کا پیکٹ نکال کر منوج کو دیا۔ منوج نے اگر بتیاں شیشے کے ایک گلاس میں ڈال کر شمع کے سرہانے سلگا کر رکھ دیں۔ دھواں دھیرے دھیرے بل کھاتا ہوا فضا میں ایسے تحلیل ہونے لگا جیسے کمرے کے بوجھل ماحول سے وہ بھی افسردہ ہو ۔ منوج نے جمال کے قریب آکر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔ کیا تم نے اپنے ڈیڈی کو خبر کر دی ہے؟ جمال نے اثبات میں سر ہلایا اور شمع کے بابا کو؟ جمال نے سر جھکا دیا۔ شمع کے بابا کو اس نے دادر ہندو کالونی میں خود جا کر خبر دی تھی۔ انھوں نے شمع کی موت کی خبر ایک سنگین خاموشی کے ساتھ سنی تھی اور اس کے گھر سے باہر نکلتے ہی دروازہ بند کر لیا تھا۔شمع اور میں شادی کرنا چاہتے ہیں ۔ جمال کے اس جملے پر شمع کے بابا نے اپنے جموں میں انگوٹھا ڈال کر اسے دوبار اوپر نیچے کیا اور پھر موٹے چشمے کے پیچھے سے اسے گھورتے ہوئے بولے تھے۔تم جانتے ہوں ہم لوگ پونیری برہمن ہیں۔ میرے پتا جی ہونے میں اس عمر بھی جنم لگن اور مرتیو کی رسمیں کرتے ہیں اور تم ایک مانسا ہاری مسلمان . جمال اس سوال کے لیے پہلے ہی سے تیار تھا۔ اس نے فوراً کہا میں دھرم بدل لوں گا۔ جمال کے اس جواب نے کچن میں ماں کے ساتھ چھپ کر دونوں کی باتیں سن رہی شمع کے دل کے بوجھ کو کم کر دیا۔کوئی بھی غیر ہندو ہندو نہیں بن سکتا۔اور اگر میں آریہ سماجی طریقے سے ہندو بن جاؤں کیا تب بھی آپ مجھے سویکار نہیں کریں گے؟ نہیں، کبھی نہیں ۔ بابا نے سخت لہجے میں جواب دیا۔کون کس دھرم میں پیدا ہوگا، ایشور کی اچھا سے ہوتا ہے۔ انسان کی مرضی سے نہیں سمجھے۔دوران گفتگو شمع کی ماں نے جمال کے لیے اپنی چھوٹی بیٹی کے ہاتھ سے جب اسٹیل کے گلاس میں پانی بھجوایا تو بابا نے بڑی ملائمت سے لڑکی سے کہا۔ شیشے کے گلاس میں پانی لاؤ۔جمال پانی پیے بغیر ہی وہاں سے اٹھ کر چلا آیا تھا۔ دوسرے روز جمال کو شمع نے بتایا کہ اس کے چلے جانے کے بعد اسے پہلی بار پتہ چلا کہ بابا مسلمانوں کو نا پسند کرتے ہیں ۔ وہ کہہ رہے تھے۔ اگر کسی مہار کے ساتھ بھی بھاگ جائے تو مجھے اتناد کو نہیں ہو گا جتنا ایک ملیچھ کے ساتھ شادی کرنے سے ہوگا۔کہتے ہوئے شمع رو پڑی تھی۔ میں تمھیں چاہتی ہوں بھی ۔ نیکیوں سے اس کے کندھے ملنے لگے تھے۔ اسی روز جمال نے اپنی والدہ کو شمع کے بارے میں بتادیا تھا۔ وہ کچھ دیر تک خاموشی سے اپنے جوان بیٹے کے اتنے بڑے ارادے پر غور کرتی رہیں۔ پھر کہا۔ اگر وہ مسلمان ہو جاتی تو میرے خیال میں تمھارے ابو کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ جمال دس بارہ دنوں تک شمع سے روز ہی ملتا رہا لیکن مذہب تبدیل کرنے کی تجویز اس کے سامنے رکھنے کی ہمت دو اپنے میں مجمع نہیں کر پارہا تھا۔ ایک روز سما واریسٹورنٹ میں جمال نے کھانے کے لیے شمع کو پوچھا تو اس نے یاد دلایا کہ آج اس کا منگل وار کا برت ہے۔ وہ صرف لیمو پانی لے گی۔ جمال نے کافی ختم کر لی لیکن وہ اپنا غشا بیان نہ کر سکا۔ شمع نے لیمو پانی کے گلاس پر ابھر آنے والی انجرات کی بوندوں کو انگلی سے پھیلاتے ہوئے کہا۔میرے بابا تمھارے ہندو ہو جانے کے بعد بھی تمھیں سودیکار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو میں نے بھی فیصلہ کر لیا ہے کہ میں مسلمان ہو جاتی ہوں۔

وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ شمع اتنا بڑا فیصلہ اتنی جلدی کرلے گی ۔ شمع نے ایک روز خاموشی سے بدن کے کپڑوں کے ساتھ گھر اور مذہب دونوں کو چھوڑ دیا۔ جامع مسجد میں کلمہ پڑھ کر وہ شمع کلکرنی سے شمع جمال ہو گئی۔ مسجد ہی میں جمال اور شمع کا نکاح ہوا تھا۔جمال کی بڑی بہن نے کمرے میں شمع کے مردہ جسم کو دیکھتے ہی ایک دبی دبی چیخ ماری اور جمال سے لپٹ کر رونے لگیں۔ جمال کی آنکھیں خشک تھیں ۔ اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے سینے میں کوئی وزنی پتھر رکھا ہوا ہو۔یہ کیسے ہو گیا جمال؟وہ روتی جاتی تھی اور کہتی جاتی تھی۔خدا کو یہی منظور تھا باجی ،حوصلہ رکھیے۔بڑی بہن نے دوپٹے سے آنکھیں خشک کر کے اپنی والدہ کو اور والد کی بابت دریافت کیا کہ وہ اب تک کیوں نہیں پہنچے۔ پھر وہ مراٹھی ترجمہ والے قرآن کو کپ بورڈ سے اتار کر شمع کے قریب بیٹھ کر دھیمی آواز میں تلاوت کرنے لگی۔ شمع عربی تو نہیں پڑھ کی تھی البتہ کبھی کبھار قرآن کا مراٹھی ترجمہ ضرور پڑھالیا کرتی تھی۔ جمال کو اس درمیان لناس ایڈور ٹائزنگ ایجنسی میں سینئر فوٹوگرافر کی جاب مل گئی تھی۔ ایجنسی نے ہی اسے بوریولی میں سنگل روم کا ایک فلیٹ بھی الاٹ کر دیا تھا جو میاں بیوی کے لیے کافی تھا۔ وہ اس فلیٹ میں شمع کے ساتھ منتقل ہو گیا تھا، لیکن ہفتے کے روز دونوں محمد علی روڈ جمال کے والد کے مکان پر ضرور جاتے تھے۔ شمع نے ایک روز سوچا کہ اتنا عرصہ گزر چکا ہے بابا نہ ہی آئی (ماں) نے تو اس کو معاف کر دیا ہوگا ، وہ جمال کو بتائے بغیر کالج سے فارغ ہو کر داور ہندو کالونی پہنچ گئی۔ وہ دروازے پر کھڑی بیل بجاتی رہ گئی لیکن کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔ شاید آئی ہول سے اسے دیکھ لینے کے بعد ایسا کیا ہو۔ اس کے بعد اس نے پھر بھی ماں کی دہلیز کا رخ نہیں کیا۔

شمع نے خود کو جمال کے گھر کی تہذیب کے مطابق ڈھالنے کی پوری کوشش کی تھی۔ رمضان کے روزے اس نے پہلی بار رکھے لیکن منگل وار کے برت کا اس کا معمول برقرار رہا۔ جمال جب تک گھر نہیں آجاتا وہ کھانا نہیں کھاتی تھی۔ اس نے یہ عادت اپنی آئی سے پائی تھی۔ آئی کہا کرتی تھی پتی پرمیشور ہوتا ہے پتنی کو اس سے پہلے کھانا نہیں کھانا چاہیے۔ جمال نے اسے کئی بار سمجھایا کہ ان کے یہاں اس قسم کی کوئی تہذیب نہیں ہے۔ اسے وقت پر کھا لینا چاہیے، لیکن وہ ہمیشہ نفس کر ٹال جاتی۔ لوگ کہتے ہیں کہ محبو بہ بیوی بنتی ہے تو اس میں پہلے جیسی کشش نہیں رہ جاتی لیکن شادی کے بعد بھی دونوں کی محبت میں نہ صرف شدت آگئی تھی بلکہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر خود کو ادھورا محسوس کرتے تھے۔ کمرے میں شمع کے بے جان جسم کے قریب ہی باجی اور کچھ دوسری رشتے دار عورتیں اور بچیاں قرآن کی تلاوت کر رہی تھیں۔ ابو اور امی بھی پہنچ گئے تھے۔ امی تو شاید راستے بھر روتی رہی تھیں ۔ ان کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ انھوں نے آتے ہی جمال کو سینے سے لگا کر بھینچ لیا۔ جیسے اس کے سینے کا سارا در داپنے کلیجے میں اتار لینا چاہتی ہوں۔ جب بھی اس کی آنکھیں خشک ہی رہیں۔بیٹے غسالہ کو میں نے خبر کر دی ہے۔ وہ بس آتی ہی ہوگی ۔ انھوں نے اپنی آنکھوں کو پونچھتے ہوئے کہا۔ ابو دروازے کے قریب سوسائٹی کے دوسرے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوئے اپنی بہو کی ملنساری اور سگھڑ پن کی تعریفیں کر رہے تھے ۔ رمضان کے مہینے میں بہو نے سارے روزے رکھے اور پانچوں وقت نماز ادا کی۔ کوئی کہ ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ غیر قوم سے آئی ہے ۔میت میں آنے والے بھی مرحومہ کی ان ہی صفات پر تعریفی کلمات ادا کر رہے تھے۔ گذشتہ ایک مہینے سے شمع کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی ۔ ڈاکٹر نے یرقان تشخیص کیا تھا۔ بیماری کے سنگین نتائج بھی نکل سکتے ہیں یہ بھی تنبیہ کڑی تھی۔ کیوں کہ شمع امید سے تھی۔ جمال نے کبھی سوچا بھی نہ تھا اس کی یہ بیماری اتنی خطرناک ثابت ہوگی ورنہ وہ دفتر سے چھٹی لے کر خود ہی اس کی نگہداشت کرتا۔ یہی سبب تھا کہ اس نے بیماری کے دنوں میں بھی شمع کو منگل وار کا برت رکھنے سے نہیں روکا۔ دو تین روز قبل شمع کو دن میں چار پانچ بارقے ہوئی تو وہ روہانسی ہوگئی۔ اس نے جمال سے کہا۔ دیوالی میں میں اپنے بابا اور آئی کا آشیرواد لینے نہیں گئی تھی نا شاید اسی کا شاپ ہے۔ جمال نے اس بات پر اسے محبت بھری ڈانٹ پلائی تھی کہ وہ پڑھی لکھی ہو کر اس طرح کے وہم رکھتی ہے۔ اس نے کہا تھا۔ وہم ہے یا حقیقت میں نہیں جانتی لیکن پنر جنم میں میر اوشو اس ضرور ہے میری اوپر والے سے ہی پرارتھنا ہے کہ دوسرے جنم میں بھی وہ مجھے تمھاری ہی چینی بنائے ۔ اس جملے پر جمال نے بے اختیار بخار سے گرم اس کی پیشانی چوم لی تھی۔کل رات اچانک ہی شمع کی طبیعت بگڑ گئی۔ ڈاکٹر کو بلوایا گیا۔ ڈاکٹر نے انجکشن اور دوائیں دے کر اس خدشے کا اظہار ضرور کر دیا تھا کہ یر قان اپنے آخری اسٹیج پر ہے اس لیے شمع کو کل سویرے ہی کسی اچھے اسپتال میں داخل کروانا بہت ضروری ہے۔ جمال نے آنکھوں میں ہی ساری رات کاٹ دی تھی ۔ انجکشن کی وجہ سے شمع گہری نیند ضرور سوئی لیکن صبح جاگنے کے بعد اس کی حالت پھر بگڑ گئی۔ شمع کی ایسی حالت دیکھ کر جمال بری طرح نروس ہو گیا تھا۔ اس نے ڈاکٹر کو فون کیا لیکن ڈاکٹر کے آنے سے پہلے ہی شمع بجھ گئی تھی۔ بیٹے تمام لوگ آچکے ہیں۔ غسالہ نے میت کو نسل تک دے دیا ہے۔ ابو جمال کو قریب بلا کر بولے۔ دفن کے لیے کیا سوچا ہے مغرب بعد یا عشا بعد؟ انھیں جواب دینے کے بجائے جمال شمع کی لاش کو دیکھنے لگا جسے غسل کے بعد کفن پہنا کر دیدار کے لیے رکھا گیا تھا۔ غسل کے بعد چہرہ اب اور نکھر آیا تھا۔ اسے لگا جیسے وہ ابھی اٹھ کر کہے گی۔ ارے مجھے جگایا کیوں نہیں؟ اور اکثر چھٹی کے روز جمال پہلے اٹھ جاتا تو خود ہی چائے بنا کر پی لیتا۔ شمع کو گہری نیند سے جگانے میں اسے اس لیے تکلف ہوتا تھا کہ وہ ہفتے کے چھ روز بڑے سویرے اٹھ کر گھر کے کام کاج میں جٹ جاتی تھی اسے دفتر بھیجنے اور کالج جانے کی تیاری میں کافی وقت لگتا تھا اس لیے عام دنوں میں صبح سویرے اٹھنا اس کی مجبوری تھی۔مہرہ صاحب نے کہا ہے کہ ایجنسی کی طرف سے شمع کی ایک ٹائمز آف انڈیا میں دی جائے۔منوج نے ایک کاغذ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔جمال نے کاغذ پر نظر ڈالی۔شمع جمال تاریخ پیدائش: ۱۸اپریل بروز بدھ ۱۹۲۸ء تاریخ وفات: ۱۲ جون بروز منگل ۱۹۹۵ء جمال کی نگاہ تاریخ وفات پر آکر ٹھہر گئی ۔ اور آج منگل وار ہے۔ شمع کے برت کا دن شمع نے اسے بتلایا تھا کہ ہر منگل وار کو گنیش جی کا برت میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے رکھ رہی ہوں۔ کبھی ناغہ نہیں کیا۔ اس نے بڑے نظر سے کہا تھا شمع کی آواز کی بازگشت دیر تک جمال کی سماعت میں جاری رہی۔جمال میاں تم نے بتایا نہیں تدفین کب ہوگی ۔ ابو نے دوبارہ اسے یاد دلایا۔ جمال نے نم آنکھوں سے شمع کی لاش کی طرف دیکھا۔ سرہانے اگر بتیاں سلگ رہی تھی ۔ دھوئیں کی نیلی گاڑھی لکیریں فضا میں دھیرے دھیرے رینگ رہی تھیں۔ اماں اور باجی تلاوت کر رہی تھیں۔ شمع کو قبرستان میں نہیں شمشان لے جانا ہے۔ہیں !! جمال کے اس جواب پر ابو کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ چند ثاینوں تک وہ بیٹے کے چہرے کو دیکھتے رہے جو فرط جذبات سے لرز رہا تھا۔ پھر انھوں نے شمع کی لاش کو غور سے دیکھا اور غصے سے لزرتی ہوئی آواز میں پوچھا۔ کیا یہ اس کی اپنی خواہش تھی۔؟نہیں۔ اس کے اور میرے درمیان اس موضوع پر کبھی بات نہیں ہوئی اور پھر اتنی جلدی یہ کچھ ہو جائے گا ہم نے بھی سوچا تک نہ تھا۔دیکھو میاں وہ مسلمان ہو چکی تھی۔ اس نے کلمہ پڑھا تھا۔ ابو دانتوں کو بھینچ کر سخت لیکن دھیمی آواز میں بولے ۔ اس نے میرے مذہب سے متاثر ہوکر اپنا مذ ہب نہیں بدلا تھا۔ مجھے حاصل کرنے کے لیے اس نے مذہب تبدیل کرنے کی رسم ادا کی تھی ۔ تم کہنا کیا چاہتے ہو؟ ابو کی آواز غصے سے بلند ہوگئی۔ کمرے اور راہداری میں موجود تمام لوگ چونک کر ان کی طرف دیکھنے لگے۔

میں کہہ چکا ہوں جو مجھے کہنا ہے۔ میں اس کی آتما کوسکون پہنچانا چاہتا ہوں۔کیا جلانے سے اس کی آتما کو سکون مل جائے گا۔ ان کا لہجہ اتنا ہی تیز اور تلخ تھا کہ امی اور باجی کلام مجید رحل پر بند کر کے باپ بیٹے کے قریب چلی آئیں۔ ابوذرا سوچیے شمع نے میرے لیے مذہب بدل دیا تو میں اس کی آتما کو سکون پہنچانے کے لیےاتنا بھی نہیں کر سکتا۔امی اور باجی نے اسے خدا کا واسطہ دے دے کر سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن اس کا ایک ہی جواب تھا۔ شمع کی آتما کو داہ سنسکار سے ہی سکون ملے گا ۔ابو زیادہ دیر برداشت نہ کر سکے اور امی کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے سیڑھیوں سے دھم دھم کرتے ہوئے اتر گئے ۔ باجی کچھ لمحوں تک اس کا منہ تکتی رہیں۔ پھر شمع کے بے جان چیرے پر ایک نظر ڈال کر برقعہ پہنتے ہوئے وہ بھی چلی گئیں۔ ایک ایک کر کے سارے رشتے دار اور شناسا اپنی خشمگیں نگاہوں کی حد کو کمرے میں چھوڑ کر چلے گئے ۔ کمرے میں اب صرف اگر بتیوں کا دھواں اذیت ناک خاموشی کے ساتھ لپٹ کر گریہ کر رہا تھا۔ منوج کی دستک پر دروازہ کھلا۔ سامنے شمع کے بابا کھڑے تھے۔ ان کے پیچھے آئی منہ میں پلو دیے ایسے کھڑی تھیں جیسے رو پڑیں گی ۔ بجھے ہوئے چہرے اور دھند کی آنکھوں سے انھوں نے جمال کوشا کی نظروں سے دیکھا۔ جمال نے پیتل کی ایک چھوٹی سی کلسی جس کے منھ پر سرخ کپڑا بندھا تھا۔بابا کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔میں آپ کی بیٹی کو لوٹانے آیا ہوں۔بابا نے کلسی کی طرف کانپتے ہوئے ہاتھ بڑھایا۔ آئی دونوں ہاتھوں کو منھ پر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں اور جمال کی آنکھوں میں ٹھہرا ہوا آنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلا۔

مصنف:ساجد رشید

- Advertisement -

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here