وہ انسان بھی تھا اور جانور بھی

0
418
urud-story
- Advertisement -

ڈین مینکن کومیں جانور ہی کہوں گا۔وہ تھابھی واقعی جانورہی۔ اسے باغوں میں گھومنے کا بےحد شوق تھا۔گرمی کی چھٹیوں میں وہ صبح ہی سیر سپاٹے کے لئے نكل جاتا اور دن بھربھوکا پیا ساوہیں گھومتا رہتا پھرعمر کے ساتھ ساتھ اس کی یہ تفریحات بھی پڑھ گئیں۔ اب باغات کی جگہ جنگوں نے لے لی تھی اوریہی وہ جنگل تھے جہاں ڈین مینکن کے شوق کی تکمیل ہوگئی۔مینکن نے بے شمار پالتو اور جنگلی جانوروں کو پالاتھا جن میں درندے بھی تھے اور خوبصورت پرندے بھی ۔ اس نے سب سے بدصورت پرندے یعنی کوے تک کو پالا تھا۔ وہ ہر جانور کی بولی کی بالکل ہوبہو نقل آتا لیتا اوربچوں کو ڈرا کر خوش ہوتا۔ وہ اگر کبھی کچھ پڑھتا تو صرف جانوروں کی کہانیاں پڑھتا۔ اسے ہمیشہ ان جانوروں سے زیادہ دلچسپی رہی جوزیادہ خطرناک اور بھیانک ہوتے بندوں اور گوریلیوں سے اسے بڑی دلچسیی تھی اور وہ اپنی سالگرہ میں ایسے تخفے لینا چاہتا تھا جن میں صرف جانورہی جانور ہوں یہاں میں صرف ڈین کے ایک کوے کا تذ کرہ کروں گا جو اس نے پالا تھا۔ یہ کوا بڑا ہی دلچسپ تھا۔ایکدن منیکن جب کھیتوں میں مٹرگشت کررہا تھا۔ اچانک فائر کی آوازنے اسے چونکا دیا۔ اوپر آسمان پرکووں کا ایک گروہ چلاتا ہوا جنگل کی طرف جارہا تھا۔ اتنے میں ان میں سے ایک بڑا کوا لڑھک کر نرم نرم گھاس پرآ گرا ، یہ وہی کوا تھا جو بندوق سے زخمی ہو کر گرا تھا۔ شکاریوں نے اپنے شکار کو دیکھا اور قہقہے لگاتے ہوئے کسی دوسرے جانور کو شکار کرنے بڑھ گئے۔ ڈین کے دل میں اس کوے کے لئے ہمدردی کا جزبہ امنڈ آیا لہذا فورا وہ اس کی مدد کوپہنچ گیا۔پرندہ چا ہے کتنابی زخمی کیوں نہ ہو انسان کو دیکھ کر پھڑپھڑانے لگتا ہے لیکن خلا ف توقع یہ کوا اڈین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کراسے تکتا ہی رہا۔ ڈین نے اسے اٹھایا تواس کوے نے اس کے ہاتھ کا پوری طرح جائزہ لے کر اپنی نوکیلی چونچ اس کے ہاتھ گاڑ دی۔ اس طرح وہ باربار کاٹتا رہا۔ ڈین کا ہاتھ لہو لہان ہو چکا تھا لیکن اس نے بھی جیسے اسے پکڑے رہنے کی قسم کھا لی تھی۔ چند دنوں تک اس کا علاج ہوتا رہا اس کے زخم ٹھیک ہوگئے لیکن وہ اپنے ایک بازو کو استعمال نہیں کر سکتا تھا۔ڈین منیکن اپنے اس کوے کے لئے جو کچھ کہتا ہے آپ اسی کی زبانی سنیے۔کوے کے تندرست ہوتے ہی جب میں پہلی باراس کے قریب پہچا تو میرے ہاتھوں پر دستانے موجود تھے۔ میرے ہاتھ پر بیٹھتے ہی اس نے اپنی چونچ سے دستانے کوپھاڑنا شروع کردیا اور پھر دھیرے دھیرے دستانے کو نوچنا اس کی عادت بن گیا میں دستانے کو دور پھینک دیتا تووہ پھدک پھدک کر جاتا اور دستانے کوکتے کی مانند پھر میرے پاس لے آتا۔ وہ بار بار دستانے کو میری طرف بڑھاتا تاکہ میں اسے پہن لوں اور جیسے ہی میں دستانہ پہنتا وہ ہاتھ پر بیٹھ کر پھرا سے نوچنے میں مشغول ہو جاتا۔اس کے علاوہ اس نے اپنے لئے ایک نیا کھیل بھی ایجاد کرلیا تھا۔ جب بھی میں زیادہ مصروف ہوتا تو چپکے سے جوتے کے تسمے کهول لیتا اور غائپ ہو جاتا بالکل ایک شریر بچےکی طرح جب میں باہر جاتا تو وہ میرے کندھوں پر آبیٹھتا اور چلتے چلتے اس کی ایک اور شرارت یہ ہوتی کہ وہ میرے کان بھی کاٹ لیتا اور پھر جیسے ہی میں اسے اس حرکت کے لئے غصے سے دیکھتا تو وہ فورا جھاڑیوں میں چھپ جاتا۔چمکیلی چیزوں میں بھی اسے بے تحاشہ دلچسپی تھی چپکے چپکے میری ٹائی پن یا گھڑی اپنی چونچ میں لے کروہ کسی صوفے میں چھپا دیتا اورخود کسی کرسی کے پیچھے چھپ کر اس بات کا منتظررہتا کہ میں انھوں اور ان چیزوں کو ڈھونڈوں۔ اور مجھے ہی مجھے وہ چیزیں مل جائیں وہ غصہ سے کائیں کائیں کرنے لگتاجب میں اسے چپ رہنے کا اشارہ کرتا تو وہ اچھل کرمجھ پر حملے شروع کر دیتا اور اس کی ان حرکات کی بناپرمیں نے اس کا نام جیمنر، رکھ دیا تھا۔ جمیز کی شرارتیں اس قدر بڑھ چکی تھیں کہ اس کی گھرميں موجودگی وبال جان بن گئی تھی۔کپڑوں کی الماری کے پیچھے چھپ کروہ نوکرانی کا انتظار کرتا اور جیسے ہی وہ کپڑے نکالنے آتی چپکے سے جمیز اس کے ٹخنے پر زور سے کاٹ لیتا۔ کھانے کی میزپر سے مختلف چیزیں اچک لینا بھی اس کی عادتوں میں داخل تھا میرے ناناجی کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے تو وہ کھڑکی میں بیٹھ جاتا اور موقع ملتے ہی کتاب کے اوراق نوچنے لگتا۔ اور اس سے پہلے کہ میرے ناناسے ایک طمانچہ لگا سکیں وہ نو۔دو گیارہ ہو جاتا۔لیکن میری نانی کو جیمز کے مزاج کی خبرنہیں تھی چنانچہ جب ایک دن اس نے نانی کے ٹخنے کو ہھی نہ چھوڑا تو انہوں نے سارا گھرہی سر پر اٹھالیا۔ اور اس ضد پراڑگئیں کے جیمزاب اس گھر میں نہیں رہ سکتا۔پھرمیں نے بھی اسے خانہ بدر کر کے باغ میں منتقل کردیا چالاک اتنا تھا کہ باغ میں اس نے میرے کتے راگز کو اپنا دوست بنا لیا اور پھر تھوڑے ہی دنوں میں جیمز کے ہاتھوں راگز کا بھی ناک میں دم ہوگیا۔کتا پیٹر کے تلے آرام سے سو رہا ہوتا کی شریر جیمز اس کے بالوں کو نوچ کرایکدم غائب ہوجاتا۔ راگر بیچاره ادهر ادهر دیکھتا لیکن اسے کچھ نظر نہیں آتا اور لطف یہ کہ میرے اس کتے کوایک باربھی نہ معلوم ہوسکا کہ یہ شرارت جیمز کی ہے۔میں نے ہزاروں ہی کوے دیکھے لیکن جیمز کوان سب سے مختلف پایا۔ میں یہ بھی کہوں گا کہ میری ان باتوں کو بہت سے پڑھنے والےمخص ذہنی تخلیق کا درجہ دیں گے حالانکہ میں نے واقعات کی من وعن عکاسی کی ہے اور مبالغہ آرائی سے ذرہ برابر کام نہیں لیا۔

مصنف :جان میری

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here