رستم سہراب کی سرزمین

0
388
urud-story
- Advertisement -

سیستان ایران اور افغانستان کی سرحدیر ایک وسیع صحرا ہے۔ دریائے ہلمیند یہاں آ کر ایک کھاری جیلی ہا مون میں گرتا ہے اور اس کے چاروں طرف دور دور تک ریگستان پھیلا ہوا ہے۔ آج سے کچھ دن پہلے کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ ریگستان کبھی ایران کی تہذیب کا گہوارہ رہا تھا۔ اور یہاں ایک خوبصورت شہر آبادتھا حال ہی میں آثارقدیمہ کی ایک اطالوی ٹیم نے برسوں کی کھدائی کے بعد اس گمشدہ شہر کی دریافت کر لی ہے۔ یونانیوں نے سیتاین کا نام سگستان رکھا تھا اورعرب اس کو سجتان کہتے تھے اور موجودہ نام وسط ایشیا سے آئے ہوئے سا کاز قبیلہ کا مرہون منت ہے۔ آج یہ علاقہ قطعی ایک بے آب و گیاہ صحرا ہے ۔ سال کے ایک سو بیس دن یہاں تیز آندھیاں چلتی ہیں اور شمال مغرب سے آنے والی ان آندھیوں نے یہاں ریت کے تودے کھڑے کر دئیے ہیں اس صحرا اور ریت کے تودوں میں یہ اندازہ کرنا بڑا مشکل کام ہے کہ یہاں کبھی کوئی شہر بھی آباد تھا یا کبھی انسانوں کی یہاں کوئی آبادی بھی تھی، لنتک زمانہ قدیم میں یہ علاقہ غیر معمولی خوشحالی اورسرسبزی و شادابی کا مرکز تھا۔ یہ بات ان بے شمار آثار سے ثابت ہوتی ہے جو زمین کی کھدائی کے بعد یہاں دستیاب ہوئے ہیں۔ ایران کی قدیم روایات اور حکایات بھی اسی تہذیب کی تصدیق کرتی ہیں۔ ایک ایرانی حمدزمیدشتت میں اس دور کے بارے میں اشارات ملتے ہیں۔قدیم ایرانی قبیلوں میں ہلمیند دریا پر قبضہ کرنے کے لئے یہاں معرکہ ہوا اور یو وہی دور ہے جب رستم زندہ تھا مگر ان سب روایات کے باوجود یہ علاقہ تاریخی اور آثار قدیمہ کے اعتبار سے قطعی نامعلوم تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ رستم و سہراب کے فسانوں کی سرزمین یہی ہے ۔ ۱۹۱۶ ء میں پہلی مرتبہ یہاں کی مٹی کے نمونوں کی جانچ پڑتال کرکے سراویل اسٹین نے یہاں کسی آبادی کے ہونے کے امکانات کا اشارا کیا تھا ۔تاریخی اور ادبی شہادتوں کے علاوہ اب ایک اطالوی ٹیم پروفیسر ٹکی کی رہنمائی میں باقاعدگی سے اس جگہ کھدائی کا کام کر رہی ہے اور اس نے بڑے حیرتناک اورسنسنی خیز انکشافات کئے ہیں ۔ کوہ خواجہ مقام پر ایک شاندا رمحل ۔ مندر اور بہت سی عظیم انسانی عمارتوں کا پتہ لگایا ہے ۔قلعہ تیپی اور قلعہ سام مقامات پر اور بہت سے ایسے آثار دریافت ہوگئے ہیں جن سے اب اس قدیم تہذیب کا یقین ہوگیا ہے۔ کچھ منقش برتن ملے ہیں جن پر پرانے زمانہ کی یونانی تحریر ہے اور کچھ پربار تھین مہروں کی تصویریں بنی ہوئی ہیں۔ یہیں پر وہاں غلامان کا پتہ چلا ہے۔جس کی تاریخ الشیمنین دور سے جا ملی ہے۔۱۹۶۰ میں وہاں غلامان کی دریافت ہوئی تھی۔ یہ شہریت کے تودوں کے نیچے چھپا تھا۔ یہ شہر قلعہ نوکے قریب ہے اور ستان ن کے موجودہ دارالخلافہ زابل سے ۱۸میل دور ہے۔ اس شہر کی دریافت سے ایشمنئین دور حکومت پر کافی روشنی پڑتی ہے جس کے بارے میں ہمیں ابھی تک بہت کم معلوم تھا۔ اس کے علاوہ اس عمارت سے ایرانی فن تعمیر کے سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ شہری اور مذہبی فن تعمیر کا یہ ایک اچھا نمونہ ہے۔ دریائے ہاموں کے بیسن سے کچھ دور چار چھ میل کا ایک نیم زرخیز علاقہ ہے یہاں ایک دوسرے ڈیڑھ میل لمبے شہر کی دریافت ہوئی ہے۔ اس کے آثار ریت کے تودوں میں چھپے تھے ، لیکن چند دیواریں تودوں سے جھانک ر ہی تھیں۔کہ رستم و سہراب کے فسانوں کی سرزمین یہی ہے۔ ابتک اس شہر کی تلاش باقاعدگی اورتنظم کے ساتھ کسی نے نہیں کی تھی ۔ ۱۹۱۶ء میں پہلی مرتبہ یہاں کی مٹی کے نمونوں کی جانچ پڑتال کر کے سرا ویل اسٹین نے یہاں کیں آبادی کے ہونے کے امکانات کا اشارہ کیا تھا۔ تاریخی اور ادبی شہادتوں کے علاوہ اب ایک اطالوی ٹیم پروفیسرٹکی کی رہنمائی میں باقاعدگی سے اس جگہ کھدائی کا کام رہی ہے اور اس نے بڑے حیرتناک اور سنسنی خیز انکشافات کےر ہیں۔ کوہ خواجہ مقام پر ایک شاندارمحل۔ مندر اور بہت سی عظیم انسانی عمارتوں کا پتہ لگایا ہے۔قلعئہ تیپی اور قلعہ سام مقامات پر اور بہت سے ایسے آثار دریافت ہو گئے ہیں جن سے اب اس قدیم تہذیب کا یقین ہوگیا ہے۔ کچھ منقش برتن ملے ہیں جن پر پرانے زمانہ کی یونانی تحریر ہے اور کچھ پارتھین مہروں کی تصویریں بنی ہوئی ہیں ۔ یہیں پر دہان غلامان کا پتہ چلا ہے جس کی تاریخ ایشمینن دور سے جا ملتی ہے۔۱۹۶۰ میں دہان غلامان کی دریافت ہوئی تھی۔ یہ شہرریت کے تودوں کے نیچے چھام تھا۔یہ شہرقلعہ نو کے قریب ہے اورسیتاین کے موجوده دارالخلافہ زابل سے ۱۸ میل دور ہے۔ اس شہر کی دریافت سے ایشمینن دورحکومت پر کافی روشنی پڑتی ہے جس کے بارے میں ہیںی ابھی تک بہت کم معلوم تھا۔ اس کے علاوہ اس عمارت سے ایرانی فن تعمیر کے سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ شہری اور مذہبی فن تعمیر کا یہ ایک اچھا نمونہ ہے۔دریائے ہامون کے بیسن سے کچھ دور چار چھ میل کا ایک نیم زرخیز علاقہ ہے یہاں ایک دوسرے ڈیڑھ میل لمبے شہر کی دریافت ہوئی ہے۔ اس کے آثار ریت کے تودوں میں چھپے تھے لیکن چند دیواریں تودوں سے جھانک رہی تھیں۔اس جگہ ساٹھ مکانات نمایاں شکل میں برآمد ہو گئے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک مکان ۷۳ میٹر لمبا ہے۔ ان سب عمارتوں میں چاہے وہ مذہبی مقاصد کے لئے بنائی گئی ہوں یا رہائشی ایک وسیع مرکزی صحن ہے۔ اس کے چاروں طرف کمرے بنے ہوئے ہیں۔ ان تمام عمارتوں کی بناوٹ تقریبا ایک سی ہے ۔ ابھی تک یہاں کسی شہر کی چار دیواری کا پتہ نہیں چل سکا ہے ۔ ان تمام عمارتوں کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانہ میں فن تعمیرکافی ترقی پر تھا اور عمارتوں کی یکسانیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ تمام شہر یا اس کی زیادہ ترعاتتیں کسی ایک ہی پلان اور نقشہ کے مطابق بنائی گئی ہیں ۔ یہ بھی گمان ہوسکتاہے کہ اس زمانہ میں مکانات تعمیر کرانے کی صنعت حکومت کے ہاتھ میں ہوگی۔ایک شہر زرین کا پرانے ایرانی کلاسیکی لٹریچر میں حوالہ ملتا ہے اور قدیم پہلوی اور ساسانی روایات میں ذکر ملتا ہے۔ عرب اس کو زرنگ بولتے تھے۔ یہ بہت ممکن ہے کہ دریافت شده شہر ۔۔دہان غلامان۔۔زرین شہر ہی ہو۔ ایران و افغانستان کے اس سرحدی سنگم پر آج بھی اس شہر کے آثار موجود ہیں ۔ یہاں پر تیزی سے کھدائی کا کام جاری ہے۔

مصنف :خورشید احمد

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here